امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

پہلی روایت کا جائزہ - قسط - ۵

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

پہلی روایت کا جائزہ - قسط - ۵
یہ ابو داؤد  کی روایت ہے جو ضعیف ہے کیونکہ :
۱۔ یہ روایت ایک مجہول راوی  یا کئی مجہول  راویوں  پر منتہی ہوتی ہے  کیونکہ سلسلہ سند  میں  کہا گیا ہے : اس کے انصاری چچوں سے .....
۲۔اسے ابو عمیر بن انس نے اپنے چچوں  سے نقل کیا ہے جس کے بارے میں ابن حجر کہتا ہے : اس  نے روئت ہلال اور اذان کے بارے میں  اپنے  انصاری چچوں  سے جو رسول کے اصحاب تھے  روایت کی ہے ۔
ابن سعد  اس کے بارے میں  کہتے ہیں  : وہ ثقہ  تھا لیکن  اس کی احادیث  کی مقدار کم ہے ۔
ابن عبد  البرّ کہتے ہیں : وہ مجہول ہے اور اس (کی روایت) سے استدلال  نہیں کیا جاسکتا ۔(۱)
مزی  رقمطراز ہیں  : اس نے دو چیزوں  یعنی رویت ہلال اور اذان کے بارے میں یہی کچھ نقل کیا ہے۔
اس کے علاوہ اس سے کوئی چیز منقول نہیں ہے ۔(۲)
دوسری روایت  کا جائزہ
  اس حدیث کی سند میں ایسے  راوی موجود ہیں  جن  کی روایت سے استدلال نہیں کیا جاسکتا مثلاً   :
۱۔ابو عبد اللہ محمد بن  ابراہیم  بن حارث بن خالد  تیمی  جس کی وفات ۱۲۰ ھ کے آس پاس  واقع  ہوئی ۔
ابو جعفر عقیلی نے عبد اللہ بن احمد  بن حنبل  سے نقل کیا ہے : میں نے اپنے  والد ( احمدبن حنبل ) کو (محمد بن ابراہیم تیمی مدنی کا ذکر کرنے کے بعد ) یہ  کہتے سنا : اس کی روایت میں  گڑ بڑ ہے ۔ وہ منکراحادیث نقل  کرتا ہے ۔(۳)
۲۔محمد بن اسحاق بن یسار بن خیار ۔اہل سنت اس  کی روایات سے استدلال نہیں کرتے اگرچہ سیرت ابن ہشام کا دار و مدار اسی ( ابن  اسحاق  ) پر ہے ۔
احمدبن ابی خیثمہ کہتے ہیں : جب یحیی بن معین  سے ابن اسحاق کے بارے میں  پوچھا گیا تو یحیی نے کہا : وہ میری نظر میں  ضعیف  اور سقیم  ہے ۔وہ قوی راوی نہیں ہے ۔ابو الحسن  میمونی  کا  بیان ہے : میں نے یحیی بن معین کو یہ کہتے سنا : محمد  بن اسحاق ضعیف ہے ۔ نسائی نے کہا ہے : وہ قوی نہیں  ہے ۔(۴)
۳۔ عبد اللہ بن زید۔   اس کے بارے میں   یہی کافی ہے کہ وہ بہت کم روایت کرتا ہے ۔ ترمذی کہتے ہیں : ہمیں  معلوم نہیں  ہے کہ حدیثِ  اذان کے علاوہ اس نے رسول اللہ سے کوئی صحیح حدیث نقل کی ہو ۔ حاکم کہتے ہیں : درست یہ ہے کہ وہ اُحد میں  قتل ہوئے ۔
عبد اللہ کی ساری روایات منقطع (وہ روایات جن کا سلسلۂ سند نبی  یا صحابہ تک نہ پہنچے ) ہیں ۔
ابن عدی  کہتے ہیں  : حدیث اذان  کے علاوہ  ہمیں  اس کی کسی روایت کا علم نہیں جو اس نے رسول اللہﷺ  سے نقل کی ہو ۔ (۵)
زندی  نے بخاری سے روایت کی ہے : ہمیں  حدیث اذان کے علاوہ اس کی کسی حدیث کا علم نہیں ۔(۶)
حاکم کہتے ہیں : عبد اللہ  بن زید وہی ہے جس نے خواب میں اذان کا مشاہدہ کیا اور  مسلمان فقہاء  نے اسے قبول کیا ۔ صحیحین نے  اس روایت کو نقل نہیں  کیا ہے  کیونکہ نقل کرنے والوں  نے اس کی اسانید میں  اختلاف کیا ہے ۔(۷)
---حوالہ جات:
۱ ۔دیکھئے ابن حجر کی تہذیب التہذیب ،ج۱۲،ص ۱۸۸، نمبر ۸۶۷ ۔
۲ ۔دیکھئے  جمال الدین  مزّی  کی تہذیب الکمال ،ج۳۴،ص  ۱۴۲ ،نمبر۷۵۴۵ ۔
۳ ۔ دیکھئے تہذیب الکمال ،ج۲۴،ص ۳۰۴ ۔
۴ ۔ایضا ،ج۲۴،ص ۴۲۳، نیز دیکھئے تاریخ بغداد ،ج۱،ص ۲۲۱ ۔۲۲۴ ۔
۵ ۔ دیکھئے سنن ترمذی ،ج۱،ص ۳۶۱  نیز ابن حجر کی  تہذیب التہذیب  ،ج۵،ص ۲۲۴ ۔
۶ ۔ دیکھئے جمال الدین مزّی کی تہذیب الکمال ،ج۱۴،ص ۵۴۱ ، مطبوعہ موسسۃ الرسالہ ۔
۷ ۔ دیکھئےمستدرک حاکم ،ج۳،ص ۳۳۶ ۔

 

ماخوذ از کتاب: اذان میں ’’ حی علی خیر العمل ‘‘ کی شرعی حیثیت

اہل بیت علیہم السلام  کی رکاب میں ،عالمی مجلس اہل بیت  (۱۹)

موضوع : فقہ

مولف : شیخ عبد الامیر سلطانی۔تحقیقی کمیٹی  ۔مترجم : شیخ محمد علی توحیدی

نظرثانی:شیخ سجاد حسین- کمپوزنگ:شیخ غلام حسن جعفری

اشاعت :اول  ۲۰۱۸ -ناشر: عالمی مجلس اہل بیت ۔ جملہ حقوق محفوظ ہیں

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک