چوتھی جہت : بخاری اور دوسروں کی روایات میں تعارض موجود ہے۔ قسط -۴

چوتھی جہت : بخاری اور دوسروں کی روایات میں تعارض موجود ہے۔ قسط -۴
صحیح بخاری  کی روایت  صریحا  کہتی ہے  کہ نبی کریمﷺ  نے مشورے  کی نشست میں  بلال کو حکم دیا  کہ وہ  بلند آواز سے  نماز کا  اعلان  کرے ۔
 جب نبی یہ حکم دے رہے تھے  تو حضرت عمر   وہاں حاضر تھے  ۔
چنانچہ  بخاری ابن عمر سے نقل کرتےہیں  : جب مسلمان  مدینہ    آئے تو وہ جمع ہوکر نماز کے وقت کا انتظار کرتے تھے اور نماز کے لئے آواز دینے کا کوئی سلسلہ نہیں تھا  ۔ایک دن انہوں نے اس بارے میں  گفت وشنید کی ۔ پس ان میں سے بعض نے کہا : آپ بھی نصاریٰ کے ناقوس کی طرح  ناقوس سے استفادہ کریں ۔ادھر بعض نے کہا : نہیں بلکہ یہودیوں  کی طرح بگل بجانا چاہیے ۔تب عمر نے کہا : کیا آپ لوگ کسی آدمی کو نہیں  بھیج سکتے جو پکار کر نماز کا اعلان کرے ؟ پس رسول اللہﷺ نے فرمایا : اے بلال !  اُٹھو  اور نماز  کا اعلان  کرو  ۔(۱)
جن احادیث میں  خواب کا ذکر ہے وہ صریحا ً بتاتی ہیں  کہ مشورے کے (کم از کم ) ایک دن بعد  جب عبد اللہ بن زید  نے رسول اللہﷺ کو اذان کے بارے میں اپنے خواب کی خبر دی تھی تو رسول اللہﷺ نے فجر  کے وقت بلال کو اذان دینے کا حکم  دیا تھا ۔اس وقت حضرت عمر حاضر  نہیں تھے  بلکہ انہوں نے اپنے گھر میں اذان  کی آواز سنی تھی اور وہ اپنی  چادر گھیسٹتے ہوئے نکلے تھے ۔اس وقت وہ کہہ رہے تھے : اے اللہ کے رسول ! قسم ہے اس کی جس  نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے  بہ تحقیق میں نے بھی وہی خواب دیکھا ہے جو اس نے دیکھا ہے ۔
یہاں ہمارے لئے  اس بات کی گنجائش  نہیں  کہ ہم بخاری کی روایت کو  ’’الصلاۃ جامعۃ ً ‘‘ کے اعلان پر حمل کریں  اور خواب  والی روایات کو اذان کے اعلان پر حمل کریں  کیونکہ ایک تو یہ جمع بلا دلیل ہے ، ثانیاً  اگر نبی نے بلال کو بلند آواز سے ’’الصلاۃ جامعۃ ً‘‘  کہنے کا حکم  دیا ہو تو اس سے گتھی سلجھ سکتی ہے اور شک دور ہوسکتا ہے خاص کر اس صورت  میں  کہ الصلاۃ جامعۃ کا تکرار کیا  گیا ہو ۔ اس صورت میں  شک و تردّد کا موضوع ہی ختم ہوجاتا ہے ۔یہ اس بات کی  دلیل ہے کہ رسول اللہ   ﷺنے بلال کو بلند آواز سے شرعی اذان دینے کا حکم دیا تھا ۔(۲)
مذکورہ بالا چار جہات  میں  ہم نے ان احادیث کے متن اور مضمون کا تحقیقی جائزہ لیا ہے  ۔اس جائزے سے بطور کافی یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ یہ احادیث قابل وثوق  اور معتبر نہیں  ہیں ۔
اس کے بعد اب ہم  یہاں ان احادیث کی اسناد  کا یکے بعد دیگرے جائزہ لیں گے  ۔
یہ احادیث یا تو ’’موقوف ‘‘ ہیں  جن کی سند رسول  اکرمﷺ   تک متصل نہیں   یا مسند ہیں  جن کے راوی مجہول ،مجروح  ،ضعیف اور متروک ہیں ۔
یہاں  ہم سابقہ ترتیب کے مطابق وضاحت پیش کریں  گے ۔
---حوالہ جات:
۱ ۔ دیکھئے صحیح بخاری ،ج۱،ص ۳۰۶ ، باب بدء الاذان ،مطبوعہ دارالقلم ،لبنان ۔
۲ ۔ دیکھئے علامہ سید عبد الحسین شرف الدین عاملی کی النص والاجتہاد ،ص ۲۰۰، مطبوعہ اسوہ ۔

--- ماخوذ از کتاب:

اذان میں ’’ حی علی خیر العمل ‘‘ کی شرعی حیثیت
اہل بیت علیہم السلام  کی رکاب میں ،عالمی مجلس اہل بیت  (۱۹)
موضوع : فقہ
مولف :شیخ عبد الامیر سلطانی۔تحقیقی کمیٹی  ۔مترجم : شیخ محمد علی توحیدی
نظرثانی:شیخ سجاد حسین- کمپوزنگ:شیخ غلام حسن جعفری
اشاعت :اول  ۲۰۱۸ -ناشر: عالمی مجلس اہل بیت ۔ جملہ حقوق محفوظ ہیں