امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

اذان میں ’’ حی علی خیر العمل ‘‘ کی شرعی حیثیت- قسط-۱

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

اذان میں ’’ حی علی خیر العمل ‘‘ کی شرعی حیثیت- قسط-۱-

بسم اللہ الرحمن الرحیم
اہل ا لبیت علیہم  السلام قرآن کے آئینے میں:
إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا(سورۃٔ احزاب/۳۲)
ترجمہ :اے اہل بیت! اللہ کا ارادہ بس یہی ہے   کہ وہ  آپ سےہر طرح کی ناپاکی کو دور رکھےاور آپ کو ایسے  پاک و پاکیزہ رکھے  جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔
اہل بیت  رسول علیہم السلام ،سنت  نبوی کے آئینے میں:
’’ اِنِّیْ تَارِکٌ فِیْکُمُ الثَّقْلَیْنِ کِتَابَ اللہِ وَعِتْرَتِیْ اَھْلَ بَیْتِیْ مَا اِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِھِمَا لَنْ تضلُّوْا بَعْدِیْ ‘‘(صحاح و مسانید)
ترجمہ:میں تمہارے درمیان دوگرانقدر چیزیں  چھوڑے جارہاہوں۔ وہ  اللہ کی کتاب  اور میری عترت  یعنی  میرےاہل بیت ہیں۔ جب تک تم ان سے تمسک رکھوگے تب تک تم میرے بعد ہرگز گمراہ نہیں ہوگے ۔
عرضِ مجلس
اہل بیت علیہم السلام  کا علمی و فکری ورثہ  جسے  مکتب اہل بیت  نے اپنے دامن میں سمیٹا ہے اور اہل بیت کے پیروکاروں نے اسے  ضائع ہونے سے بچایا ہے ایک ایسے  مکتب فکر  کی تصویر  پیش  کرتا ہے جو معارف ِاسلامیہ  کی مختلف  جہات کو محیط ہے  ۔اس مکتب فکر نے    اسلامی  معارف  کے اس صاف سرچشمے  سے سیراب  ہونے  کے لائق  نفوس  کی ایک کھیپ کو پروان  چڑھایا ہے ۔اس مکتب فکر  نے امت مسلمہ  کو  ایسے  عظیم علماء سے نوازا ہے جو اہل بیت  علیہم السلام کے نظریاتی  نقش قدم پر چلے ہیں  ۔اسلامی معاشرے کے اندر  اور باہر  سے تعلق رکھنے  والے  مختلف  فکری مناہج  اور مذاہب  کی جانب  سے اُٹھنے والے سوالات  ،شبہات اور تحفظات پر ان علماء کی مکمل  نظر رہی ہے  ۔
یہ علماء  اور دانشور  مسلسل  کئی صدیوں  تک ان سوالات  اور شبہات کے  معقول ترین اور محکم ترین  جوابات پیش کرتے رہے ہیں ۔ عالمی مجلس  اہل بیت   نے اپنی  سنگین ذمہ داریوں  کو محسوس  کرتے ہوئے  ان اسلامی تعلیمات  و حقائق  کی حفاظت کی خاطر قدم بڑھایا ہے  جن پر مخالف  فِرق  و مذاہب  اور اسلام  دشمن  مکاتب  و مسالک کے اربابِ بست و کشاد  نے  معاندانہ توجہ  مرکوز رکھی ہے ۔ عالمی  مجلس اہل بیت   نے اس  سلسلے میں  اہل بیتعلیہم السلام  اور مکتب   اہلبیت کے ان   پیروکاروں  کے نقش قدم  پر چلنے کی سعی  کی ہے جنہوں نے  ہر دور   کے مسلسل  چیلنجوں  سے معقول ،مناسب  اور مطلوبہ  انداز میں  نمٹنے  کی  کوشش کی ہے ۔  اس سلسلے میں  مکتب اہل بیت  کے علماء کی کتابوں  کے اندر محفوظ علمی تحقیقات بے نظیر اور اپنی مثال آپ ہیں  کیونکہ یہ تحقیقات بلند علمی سطح کی حامل ہیں  ،عقل و  برہان کی بنیادوں  پر استوار ہیں  اور  مذموم  تعصبات و خواہشات سے پاک  ہیں  نیز یہ بلند پایہ علماء و مفکرین  کو اس انداز میں  اپنا مخاطب  قرار دیتی  ہیں  جو عقل سلیم  اور فطرت سلیمہ   کے ہاں  مقبول  اور پسندیدہ  ہے ۔
عالمی مجلس اہل بیت  کی کوشش رہی ہے کہ حقیقت کے متلاشیوں  کے سامنے ان پربار حقائق اور معلومات کے حوالے سے گفتگو ،ڈائیلاگ  اور شبہات  و اعتراضات کے بارے میں  بے لاگ سوال و جواب   کا ایک  جدید اسلوب پیش کیا جائے ۔ اس قسم کے شبہات و عتراضات گذشتہ ادوار میں بھی   اٹھائے جاتے رہے ہیں  اور آج بھی انہیں  ہوا دی جارہی ہے ۔
اسلام اور مسلمانوں سے عداوت رکھنے والے  بعض  حلقے  اس سلسلے میں  انٹرنیٹ وغیرہ کے ذریعے بطور خاص جدو جہد  کررہے  ہیں  ۔اس بارے   میں مجلس اہل بیت کی یہ پالیسی  رہی ہے کہ لوگوں  کے جذبات اور تعصبات کو مذموم  طریقے  سے بھڑکانے سے اجتناب  برتا جائے جبکہ عقل  و فکر  اور طالبِ حق نفوس  کو بیدار کیا جائے تاکہ وہ ان حقائق سے آگاہ ہوں  جنہیں  اہل بیت علیہم السلام کا نظریاتی مکتب  پورے عالم کے سامنے پیش  کرتا ہے اور وہ بھی  اس عصر میں جب انسانی عقول کے تکامل اور نفوس و ارواح کے ارتباط کا سفر منفرد انداز میں  تیزی کے ساتھ جاری و ساری ہے ۔
یہاں  اس بات کی طرف اشارہ ضروری  ہے کہ زیر نظر تحقیقی  مباحث  ممتاز  علماء  اور دانشوروں  کی ایک خاص کمیٹی کی کاوشوں کا نتیجہ ہیں ۔ہم ان تمام حضرات اور ان ارباب ِعلم و تحقیق کے شاکر  اور قدر دان ہیں  جن میں سے  ہر ایک نے ان علمی  مباحث  کے مختلف حصوں  کا جائزہ  لے کر ان کے بارے میں  اپنے قیمتی ملاحظات سے نوازا ہے ۔
ہمیں امید ہے کہ  ہم نے  اپنی  ان ذمہ داریوں  میں  سے بعض  کو ادا کرنے میں  ممکنہ کوشش سے کام لیا ہے جو ہمارے اس عظیم   رب کے پیغام کو پہنچانے کے حوالے سے ہمارے اوپر عائد ہوتی ہیں  جس نے اپنے رسول کو  ہدایت  اور برحق دین کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ وہ اسے تمام ادیان  پر غالب کرے اور گواہی کے لیے تو اللہ ہی  کافی ہے ۔
عالمی مجلس اہل بیت  شعبہ ثقافت" اذان میں ’’ حی علی خیر العمل‘‘کی شرعی حیثیت  


تمہید
 مسلمانوں کے درمیان اس بارے میں اختلاف  واقع ہوا ہے کہ کیا اذان میں ’’حی علی الفلاح‘‘ کے بعد ’’حی علی خیر العمل‘‘  کہنا   اذان کا حصہ ہے یا نہیں ؟ ایک طبقہ فکر کا نظریہ ہے کہ اذان میں ’’حی علی خیر العمل ‘‘ کہنا  درست نہیں ہے ۔ برادران اہل سنت کا  عام نظریہ یہی ہے  ۔ان میں سے بعض نےاس عمل کو لفظ ’’ مکروہ ‘‘سے یاد کیا ہے  اور اس  کی وجہ یہ   بیان کی ہے کہ چونکہ نبی کریم ﷺ کی سنت سے  یہ عمل ثابت  نہیں ہے  اس لئے اذان میں  اس کا  اضافہ مکروہ ہے ۔ (۱)
اس کے بر خلاف مکتب اہل بیت  اور اس کے پیروکاروں کا  نظریہ ہے  کہ یہ جملہ اذان  اور اقامت دونوں  کا حصہ ہے جس کے بغیر نہ اذان درست ہے نہ  اقامت۔  ان کے ہاں اس  حکم پر اجماع قائم ہے  (۲)
جس کا بطور مطلق کوئی مخالف نہیں ۔ وہ اس پر اجماع کے علاوہ  اہل بیت علیہم السلام سے مروی بہت ساری  روایات سے بھی  استدلال کرتے ہیں ۔ ان روایات میں علی اور محمد بن حنفیہ  سے مروی حدیث نبوی  نیز ابو ربیع ، زرارہ ، فضیل بن یسار  اور محمد بن مہران  سے مروی امام  ابو جعفر الباقر علیہما السلام   کی روایت شامل ہیں ۔
ان  کے علاوہ وہ ابن سنان ،معلی بن خنیس ، ابو بکر حضرمی  اور کلیب اسدی  کی امام ابو  عبداللہ صادق  علیہ السلام سے مروی روایات  نیز ابو بصیر  کی امام باقر  یا امام صادق علیہما السلام سے مروی روایت  اور عکرمہ  سے مروی  ابن  عباس کی  روایت  سے بھی استدلال  کرتے ہیں ۔ (۳)
ان اختلافات کے معاملے میں  ہمارے سامنے  مکتب اہل بیت  اور ان کے پیرو کاروں  کے موقف  کو اپنانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ۔ اس سلسلے میں ہم  صرف مذکورہ  اجماع پر  اکتفا نہیں کریں گے بلکہ  اہل بیت علیہم السلام  سےمروی  احادیث  سے بھی استد لال  کریں گے   کیونکہ  اہل بیت  ثقلین  میں سے  ایک ہیں جن  سے اللہ نے ہر قسم کی  پلیدی کو دور کیا ہے ۔
اجماع اور احادیث  ائمہ کے علاوہ ہم اہل سنت کے ہاں مذکور  متعدد دلائل  وشواہد  سے بھی استدلال کریں گے ۔
اس موضوع بحث کی  تفصیلات  میں جانے  اور اس بارے میں دلائل و شواہد  کا ذکر کرنے  سے پہلے  ضروری ہے  کہ ہم  فریقین کے ہاں  اذان  کی تشریع  (قانون سازی)کے بارے میں تحقیقی گفتگو  کریں  کیونکہ  اس بحث کا ’’حی علی خیر  العمل ‘‘ کی جزئیت  سے گہرا تعلق  ہے ۔ اس بحث کے دوران  اس موضوع سے  مربوط  بہت سے حقائق  سے بھی پردہ ہٹ جائے گا ۔
---حوالہ جات:
۱ ۔دیکھئے سنن بیہقی ،ج۱،ص ۶۲۵  نیز البحر الرائق ،ج۱،ص ۲۷۵ ، از شرح المہذب ۔
۲ ۔ دیکھئے سید مرتضی کی  الانتصار ،ص ۱۳۷ ۔
۳ ۔ دیکھئےشیخ حر عاملی  کی وسائل الشیعۃ  اور آغابروجردی  کی جامع احادیث الشیعۃ  نیز مجلسی  کی بحار الانوار اور حاج میرزا محدث نوری کی مستدرک الوسائل ،ابواب الاذان ۔

---ماخوذ از کتاب:

اذان میں ’’ حی علی خیر العمل ‘‘ کی شرعی حیثیت
اہل بیت علیہم السلام  کی رکاب میں ،عالمی مجلس اہل بیت  (۱۹)
موضوع : فقہ
مولف :شیخ عبد الامیر سلطانی۔تحقیقی کمیٹی  ۔مترجم : شیخ محمد علی توحیدی
نظرثانی:شیخ سجاد حسین- کمپوزنگ:شیخ غلام حسن جعفری
اشاعت :اول  ۲۰۱۸ -ناشر: عالمی مجلس اہل بیت ۔ جملہ حقوق محفوظ ہیں

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک