تیسویں پارے کا مختصر جائزه۔
قرآن مجید کے تیس پاروں کا اجمالی جائزہ اس لنک پر ملاحظہ کیجئے)
http://alhassanain.org/urdu/?com=content&view=category&id=30
تیسویں پارے کا مختصر جائزه۔
تیسویں پارے کےچیدہ نکات
عَمَّ يَتَسَاءَلُونَ ﴿١﴾ عَنِ النَّبَإِ الْعَظِيمِ ﴿٢﴾سورة النبإ
روایات میں نباء عظیم کے بارے میں بہت سی باتیں وارد ہوئی ہیں لیکن حقیقت امر یہ ہے کہ کفار کیلئے پیغمبرؐ اسلام کی بیان کی ہوئی ہر بات ایک عظیم خبر کی حیثیت رکھتی تھی اور وہ آپس میں اس موضوع پر گفتگو کر تے تھے کہ یہ روزانہ جو خبریں دیا کرتے ہیں ان میں کہاں تک واقعیت اور صداقت پائی جاتی ہے کبھی خدا کے بارے میں کبھی آخرت کے بارے میں کبھی نبوت کے بارے میں اور کبھی دیگر خبریں قدرت نے یہ واضح کردیا کہ یہ عتقریب انہیں معلوم ہو جائے گا اس کے بعد اپنی قدرت کے شواہد بیان کیے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ موضوع بھی زیر بحث تھا، پھر آخرت کا ذکر کیا جو علامت ہے کہ یہ بھی ایک موضوع تھا پھر دیگر جزئیات جزاوسزا کا ذکر کیا گیا اور درمیان میں بعض دیگر اہم نکات کی طرف بھی اشارہ کر دیا گیا مثلاً(وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا كِذَّابًا) جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کافروں نے خدائی آیات کا بھی انکار کیا تھا اور انہیں بھی جھٹلایا تھا جس سے اس بات کی بھی تائید ہوتی ہے کہ نباء عظیم سے مراد ولایت حضرت علی بن ابی طالب علیہما السلام ہے جس کا اعتراف (بقولے )بدترین دشمن عمرو عاص نے بھی کیا ہے کہ ’’ھو النباء العظیم و فلک نوح‘‘ اور اس کا ایک اشاره سوره کے آخر میں بھی ہے کہ کافر کی یہ آرزو ہوگی کہ کاش میں تراب ہوتا جس سے اس امر کا اشارہ ملتا ہے کہ وہ غیر مکلّف اور جماد بنا رہنا چاہتا تھا اور اس امر کا بھی اشارہ ملتاہے کہ فیصلہ ابوتراب کی محبت پر ہونے والا ہے اور کافر اس سے بھی محروم رہ گیا ہے، اسی لئے آرزو کر رہا ہے کہ کاش میں تراب ہوتا تو ابوتراب کے زیر حکومت ہوتا اور ان کی محبت کو اپنے دل میں لے کر میدان حشر میں آتا ۔
يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلَائِكَةُ صَفًّا ۖ لَّا يَتَكَلَّمُونَ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَـٰنُ وَقَالَ صَوَابًا ﴿٣٨﴾ سورة النبإ
روز قیامت سخت ترین وقت ہوگا جہاں ملائکہ مقربین اور جبریل امین میں بھی زبان کھولنے کا یارانہ ہو گا لیکن اس کے با وجود رحمان بعض بندوں کو اجازت دے سکتا ہے کہ وہ عرض مدعا کریں اور دیگر بندوں کے حق میں سفارش کریں، ان کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ یہ ہر بات درست اور صحیح صحیح کہتے ہیں اور اس قانون کے سب سے عظیم مصداق معصومینؑ ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی بندۂ خدا کو سفارش کی اجازت ہو یا نہ ہو معصوم کو بہرحال اجازت ہوگی کہ وہ مرضیٔ معبود کے خلاف زبان نہیں کھولتا ہے اور جو کہتا ہے وہی کہتا ہے جو خدا چاہتا ہے ۔
هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَىٰ ﴿١٥﴾ سورة النازعات
کس قدر نرم اور لطیف گفتگو جناب موسیٰ علیہ السلام نے کی ہے، نہ اپنی شخصیت کا تذکرہ کیا ، نہ اپنی عظمت کا اظہار کیا ، صرف اتنی سی بات کہ بنده خدا کے دل میں خوف خدا پیدا ہونا چاہیے اور اس کے دل کو پاکیزہ ہونا چاہیے ،مگر فرعون نے ہنگامہ شروع کر دیا اور بے بسی کا یہ عالم تھا کہ رب اعلیٰ ہو کر بھی لوگوں کو مدد کیلئے طلب کر رہا تھا کہ جادوگر آ کر خدا کی خدائی کو بچائیں، یقیناً ایسا بے عقل اور بد دماغ انسان اس بات کا حقدار ہے کہ اسے آخرت میں بددماغی کی سزا دی جائے اور دنیا میں بھی بے عملی کی بنا پر رسوا کیا جائے، انسان کے پاس طاقت و صلاحیت نہ ہو تو بڑے عہد ےکا دعویٰ بھی نہ کرے اور اپنی اوقات کے اندر رہے ۔
وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَىٰ﴿٤٠﴾ فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَىٰ ﴿٤١﴾ سورة النازعات
آخرت میں نجات کا واضح اور مستقیم راستہ صرف یہ ہے کہ انسان اپنے دل میں خوفِ خدا رکھتا ہو اور عملی میدان میں نفس کو خواہشات سے روکتا ہو، خواہشات ہی انسان کی تباہی کا سرچشمہ ہیں اور ان پر کنٹرول کرنا ہی انسان کی نجات کا بہترین وسیلہ ہے۔
انسان خواہشات پر قابو پا لے تو نہ حقائق کا انکار کرے گا اور نہ غلط منصب کا دعوی کرے گا،نہ غرور اور غلط فہمی میں مبتلا ہو گا اور نہ حکم خدا کے مقابلہ میں اپنی رائے کو مقدم کرے گا، نہ قانون شریعت کے سا مئے خانہ و خاندان اور دوست و احباب کو اہمیت دے گا اور نہ مال دنیا کی طمع میں حکم خدا کو نظر انداز کرے گا،نہ واجبات کو ترک کرے گا اور نہ محرمات کا ارتکاب کرے گا اور جو اپنے کو ایسا بنا لے گا اس کی نجات میں یقینا کوئی شبہ نہیں ہوسکتا ۔
عَبَسَ وَتَوَلَّىٰ ﴿١﴾ أَن جَاءَهُ الْأَعْمَىٰ ﴿٢﴾ سورة عبس
یہ آیات کریمہ اس وقت نازل ہوئیں جب رسول اکرم ؐکے پاس صناديد قرش بیٹھے ہوئے تھے اور آپ انہیں دعوت اسلام دے رہے تھے کہ ابن ام مکتوم، جناب خدیجہؑ کے رشتہ کے بھائی اور نابینا ، وارد ہو گئے اور رسول اکرم ؐسے اسلامی تعلیمات کے بارے میں سوال کرنے لگے اور آپ نےگفتگو کو جاری رکھا مگر بعض لوگوں کو ان کا آنا ہی ناگوار گزرا قدرت نے دونوں ہی کے بارے میں وضاحت کی ہے کہ اس شخص کو ناراض ہونے کا حق نہیں تھا اس لئے کہ آنے والا بھی ایک بنده خدا تھا اور رسولؐ کو بھی کفار کے بارے میں اس قدر فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں تھی کہ انہیں اس قدر اہمیت دیدی جائے، وہ ایمان لائیں یا جہنم میں جائیں، رسولؐ کا کام پیغام الٰہی کو پہنچا دینا ہے اور بس مفسرین نے رسول اکرمؐ کے بیان کو جاری رکھنے کو بھی ایک غلطی شمار کیا ہے جب کہ یہ انتہائی عجیب و غریب بات ہے؛ دین اسلام کی تبلیغ میں ایک مورد کو دوسرے پر مقدم رکھنا اور اہم کو غیر اہم سے آگے بڑ ھا دینا کسی طرح کی کوئی غلطی نہیں ہے اب یہ کام خدا کا ہے کہ وہ اس ذمہ داری کو معاف کردے کہ فلاں مقام پر زیادہ زحمت نہ کی جائے اور فلاں مقام پر محنت کی جائے، یہ بندہ کے اختیار کی بات نہیں ہے اسے تو اپنی تکلیف شرعی پر بہر حال عمل کرنا ہے۔
حقیقت حال یہ ہے کہ تیور بایاں پڑھا کر منہ پھیر لینے والاشخص رسول اکرمؐ کے علاوہ کوئی دوسرا ہے جیسا کہ بعض روایات میں عثمان کا نام لیا گیا ہے اور بعض میں بنی امیہ کا ایک آدی کہا گیا ہے اس کا رسول اکرمؐ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور شاید بنی امیہ نے اپنے خاندان کی پردہ پوشی کیلئے آیت کا رخ رسول اکرمؐ کی طرف موڑ دیا ہے ۔
إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ ﴿١﴾ سورة التكوير
سوره مبارکہ کے دو حصے ہیں؛ پہلے حصه میں بارہ آیات کے بعد یہ اعلان کیا گیا ہے کہ قیامت کے دن ہر شخص کو معلوم ہوگا کہ اس نے کیا مہیا کیا ہے اور کیا لے کر آیا ہے اور موقع اتنا سخت ہو گا کہ کوئی چارۂ کار نہ ہوگا۔۱سورج کی شعاع لپیٹ دی جائےگی ۲ستارے ٹوٹ کر گر پڑیں گے ۳- پہاڑ حرکت میں آ جائیں گے ۴ اونٹنیاں عزیز ترین ہونے کے باوجود معطل ہو جائیں گی ۵- وحوش جمع کردیئے جائیں گے ۶ دریاؤں میں بے پناہ جوش ہوگا ۷ جسم و روح کو جوڑ دیا جائے گا ۸ زندہ در گور لڑکیاں منزل محاسبہ میں آجائیں گی ۹- نامۂ اعمال منتشر ہو جائیں گے ۱۰ آسمان کا چھلکا اتر جائے گا ۱۱ جہنم بھڑکا دیا جائے گا ۱۲ جنت قریب تر کردی جائے گی
ایسے حالات میں اپنے اعمال کے بارے میں کوئی بھی شخص کیا کر سکے گا اس کا علم پروردگار کے علاوہ کسی کونہیں ہے مقصد یہ ہے کہ جو کچھ کرنا ہے دنیا میں کر کے آؤ ورنہ جو کیا ہے وہ تو بہرحال سامنے آنے والا ہے ۔
دوسرے حصہ میں ان آیات کریمہ میں تین قسم کی قسمیں ہیں ستارے، رات، دن اور اسکے بعد یہ بیان دیا گیا ہے کہ قرآن کو جبریل امین نے نازل کیا ہے اور وہ بہت محترم فرشتہ ہے اور میرا پیغمبرؐ بھی کوئی دیوانہ نہیں ہے اب اس قسم کا اس موضوع سے کیا رابطہ ہے یہ ایک قابل غور فکر مسئلہ ہے اور غالباً یہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ جس طرح رات، دن اور ستاروں کا نظام مستقیم اور دقیق ہے اسی طرح جبریل کی تنزیل اور پیغمبر کا زہن دونوں اپنے مقام پر بالکل صحیح کام کررہے ہیں اور ان کے بارے میں کسی طرح کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے اور اسی طرح قرآن بھی بالکل صحیح اور یقینی ہے اور اس کی شان لاریب فیہ کی ہے۔
يَا أَيُّهَا الْإِنسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ﴿٦﴾ سورة الإنفطار
بعض مفسرین نے یہ غلط فہمی پیدا کرنا چاہی ہے کہ قیامت کے دن وہ لوگ خسارہ میں رہیں گے جنہوں نے خدا کے کرم پراعتماد نہیں کیا اور اعمال صالحه انجام دیتے رہے، خدا انہیں سے سوال کرے گا کہ تمہیں رب کریم کے کرم کے بارے میں کس نے دھو کہ میں رکھا تھا اور تم کیوں نیک اعمال کرتے رہے تھے لیکن ظاہر ہے کہ یہ انداز تفسیر مزاج قرآن، مزاج مذہب اور مزاج عقل کے سراسر خلاف ہے اوراس طرح سارے قرآن کا نزول مہمل قرار دیا جائے گا اور سارے احکام وفرائض کا تذکرہ ایک بے معنی سی بات ہوکر رہ جائے گی جو کسی قیمت پر ممکن نہیں ہے، کاش اس مفسر نے یوں کہا ہوتا کہ تجھے رب کریم کے کرم کے بارے میں کسی نے دھو کہ میں رکھا کہ تو نے اس کے کرم کی قدر نہیں کی اس نے تجھے سوّر،کتّے اور گدھے کے بجائے انسانی صورت عطا کر دی اور تو نے کردار جانوروں جیسا پیش کیا اور انسانیت کی آبرو کا تحفظ نہیں کیا یہ اس کے کرم کی کھلی توہین ہےجس کا تذکرہ خود اس سوره میں آخر تک کیا گیا ہے اور روز جزا سے ڈرایا گیا ہے اور انسان کی بے بسی کا نقشہ کھینچا گیا ہے ۔
وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِينَ ﴿١﴾ سورة المطففين
ناپ تول میں بے ایمانی کرنے والوں کو آخرت کا خیال رکھنا چاہیئے، اولاً تو اس لئے کہ آخرت میں ہر برائی کی سزا ملنے والی ہے اور یہ بہر حال ایک برائی اور خیانت ہے اور دوسری بات یہ بھی ہے کہ وہاں بھی اعمال ناپے تولے جائیں گے تو اگر خدا نے بھی یہی طریقہ اختیار کر لیا اور جیسے کو تیسے کا قانون نافذ کر دیا تو انسان کا انجام کیا ہو گا اس تصور سے ہر صاحب عقل کو عبرت حاصل کرنی چاہیے اور بندوں کے ساتھ ویسا برتاؤکرنا چاہئے جیسے برتاؤ کی رب العالمین سے خود توقع رکھتا ہے جیسا کہ اسلامی تعلیمات میں بار بار دہرایا گیا ہے کہ (اِرحم تُرحَم) تم دنیا میں رحم کروتاکہ تم پر روز قیامت رحم کیا جائے اور تم بند و ں پر رحم تاکہ خدا تم پر رحم کرے۔
كَلَّا إِنَّ كِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ ﴿٧﴾ سورة المطففين
آیات کریمہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ قدرت کے نظام میں دو طرح کے دفتر ہیں؛ ایک میں تمام بد کار و بد عقیدہ اور بے دین افراد کے نام درج ہیں اور ایک میں مقربین، ابرار، نیک کردار اور صالحین کے نام محفوظ کیے گئے ہیں پہلی قسم کیلئے جہنم اور عذاب الیم ہے اور دوسری قسم کیلئے جنت اور شراب خالص ہے، اور انسان کو دنیا میں مقابلہ کرنا ہے تو اس جنت اور نعمت جنت کی تحصیل کیلئے مقابلہ اور دوڑ دھوپ کرنی چاہیئے،مال دنیا کے لیے جان دینے سے کوئی فائدہ نہیں ہےجو جان دینے کے بعد بالکل بے کار اور بے فائدہ ہوجاتا ہے۔
يَا أَيُّهَا الْإِنسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلَىٰ رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلَاقِيهِ ﴿٦﴾ سورة الإنشقاق
عقیدۂ آخرت انسان کو اس نکتے کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ انسان دنیا میں جس کو چاہے ہدف اور مقصد بنا لے اور جس طرف چاہے سر اٹھا کر روانہ ہو جائے لیکن دراصل وہ خدا ہی کی طرف جا رہا ہے اور اسی کا سامنا کرنے کی منزل سے قریب تر ہو رہا ہے؛ زندگی کا آخری انجام موت ہے اور موت لقائے الٰہی کا پیش خیمہ ہے اور جب انسان کو معلوم ہے کہ اسے بالآ خر پروردگار سے ملاقات کرنا ہے تو ایسے اعمال کیوں نہیں انجام دیتا جو اس ملاقات کے لیے مناسب اور سازگار ہوں اور جن سے سرخ روئی حاصل ہوسکتی ہو۔
فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿٢٤﴾ سورة الإنشقاق
بشارت کا لفظ عذاب کے ساتھ ایک عجیب روحانی تکلیف کی طرف اشارہ ہے جس میں کفار کو مبتلا ہونا ہے اور جس کی طرف سابقہ آیات میں اشارہ کیا گیا ہے کہ کافر دنیا میں مسرور تھا اور اب ہلاکت کی دعا مانگ رہا ہے اور مومن دنیا میں زحمتیں برداشت کر رہا تھا اور اب اپنے اہل وعیال کی طرف خوش و خرم واپس جا رہا ہے ۔
عائلی زندگی کا سب سے حسین موقع وہ ہوتا ہے جب انسان اپنے اہل وعیال کی طرف خوش و خرم واپس آتا ہے کہ جس کے مقابلہ میں نہ کسی دولت کی کوئی حیثیت ہے اور نہ سازوسامان کی، یہ دولت نصیب نہ ہو تو ہرسامان مار و عقرب بن جاتا ہے اور ہر سرمآیت باعث شماتتِ ہمسآیت ہو جاتا ہے ۔
وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوجِ ﴿١﴾ سورة البروج
کہا جاتا ہے کہ اس سے منازل شمس و قمر مراد ہیں یعنی حمل،ثور، جوزا، سرطان، اسد ، سنبلہ، میزان ، عقرب، قوس، جدی ، دلو اور حوت ۔
وَشَاهِدٍ وَمَشْهُودٍ﴿٣﴾ سورة البروج
شاہد و مشہود کے بارے میں مفسرین کے در میان بیحد اختلافات ہیں اور بروایتے اس کے ۴۸ معنی بیان کیے گئے ہیں لیکن بظاہر محسوس اور غیر محسوس کے علاوہ کوئی بات ظاہر نہیں ہوتی ہے چاہے اس سے مراد کچھ بھی ہو جیسا کہ بعض روایات میں شاہد رسولؐ خدا ہیں اور مشہود حضرت علؑی اور بعض میں شاہد رسولؐ خدا ہیں اور مشہود قیامت وغیرہ ۔
فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ﴿١٦﴾ سورة البروج
واضح رہے کہ خدا اپنے اختیار میں مکمل صاحب اختیار ہے لیکن اس کے یہ معنی ہرگز نہیں ہیں کہ میزان عدل کے خلاف بھی کام کر سکتا ہے، اس کا ہر فعل ارادہ کا تابع ہے اور ارادہ غلط چیز سے متعلق ہو ہی نہیں سکتا ہے کہ اس کا ظہور منظر عام پر آئے یا واضح لفظوں میں یوں کہا جائے کہ یہ بات مسلم ہے کہ وہ جو چاہے وہ کر سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ برائی اور ظلم کو چاہ بھی سکتا ہے یا نہیں؟؟! اہل عقل و عدل کا عقیدہ یہی ہے کہ اس کی مشیت غلط کام سے ،متعلق نہیں ہوسکتی لہٰذا صاحب اختیار ہے لیکن غلط کام نہیں کرسکتا ہے۔
فَلْيَنظُرِ الْإِنسَانُ مِمَّ خُلِقَ ﴿٥﴾ سورة الطارق
انسان کی بغاوت کا سب سے بڑا راز یہ ہے کہ وہ اپنی حقیقت کو نظر انداز کر دیتا ہے ورنہ اپنی حقیقت اور اصلیت پر نگاہ رکھنے والا شکر کرسکتا ہے فخر اور غرور نہیں کر سکتا، فخراس لئے نہیں کر سکتا کہ ایک قطره ٔنجس سے پیدا ہوا ہے اور شکر اس لئے کرے گا کہ اس خدا نے قطرۂ نجس سے طیب و طاہر انسان بنا دیا ہے ورنہ رحم مادر سے ساقط بھی ہوسکتا تھا اور پھر مزید کرم یہ ہے کہ دو مختلف مواد کو جمع کر کے ایک تیسرے انسان کی تشکیل کردی ہے ۔
آیت کریمہ میں یہ اشارہ بھی ہے کہ مرد کا نطفہ صلب سے خارج ہوتا ہے اور عورت کا مادہ سینے کی ہڈیوں کے اندر سے جس کی طرف بہت سے ماہرین اور اہل نظر نے اپنے بیانات میں رہنمائی کی ہے ۔
فَذَكِّرْ إِن نَّفَعَتِ الذِّكْرَىٰ﴿٩﴾ سورة الأعلى
بعض کاہل افراد اسے تبلیغ کے ترک کرنے کا جواز بنا لیتے ہیں کہ آج کل فائدہ کا امکان نہیں ہے لہٰذا تبلیغ واجب نہیں ہے، حالانکہ یہ تاکید پروردگار ہے کہ فائدہ کا احتمال بھی ہو تو تذکیر و تبلیغ کرتے رہو ورنہ یقین تو فائدہ کے حصول کے بعد ہی ہوسکتا ہے، اور اس وقت تبلیغ کا عمل ختم ہو چکا ہو گا اور اس کی کوئی ضرورت نہ رہ جائے گی ۔
لَّا تَسْمَعُ فِيهَا لَاغِيَةً ﴿١١﴾ سورة الغاشية
واضح رہے کہ جنت ایسے ماحول کا نام ہے جہاں پسند کیا ہر چیز مہیا ہو گی ، اس کے با وجود لغویات کی کوئی آواز سنائی نہ دے گی جو اس بات کی علامت ہے کہ وہاں جانے والے وہی افرارد ہو گئے جن کی پسند میں لغو آوازیں، جھوٹ، غیبت، و بہتان، ناچ گانا وغیرہ شامل نہ ہوں ورنہ ایسے ذوق والے جہاں بھی ہوں گے لغویات کی آواز ضرور سنائی دے گیا ۔
فَذَكِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَكِّرٌ ﴿٢١﴾ سورة الغاشية
یہ انسان کی ذمہ داریوں کا تو ازان ہے کہ اسے دوسرے انسانوں کی طرف سے بالکل آزاد کیا جا سکتا ہے اور نہ ذمہ دار بنایا جا سکتا ہے اس کی حیثیت ایک درمیانی شخصیت کی ہوتی ہے کہ تبلیغ وتذکیرکا فرض انجام دیتا رہے اور لوگوں کے انحراف سے بددل ہو کر خوشی کا ارادہ نہ کرلے رب العالمین نے خود بھی انسان کو نتائج کی ذمہ داری سے آزاد کر دیا ہے کہ کام کرنا تمہارا فرض ہے اس کے بعد نتائج کے تم ذمہ دار نہیں ہو، اس کا منظر عام پر لانا ہمارے مستقل قوانین فطرت کا کام ہے ۔
أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ ﴿٦﴾ إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ ﴿٧﴾ سورة الفجر
اس سوره مبارکہ میں عبرت و نصیحت کے متعدد تذکرے پائے جاتے ہیں قوم عاد کا تذکرہ؛عاد ایک شخص کا نام تھا جس کا بیٹا تھا شداد اور اسی نے جنت بنوا کر اپنے دادا ارم کے نام پر اسے باغ ارم بنا دیا تھا لیکن جب اسکے نظارے کیلئے گیا تو دروازے ہی پر ملک الموت مل گئے اور روح قبض کر لی اور وہ اس باغ کے نظارے سے بھی محروم رہ گیا جسے اس کے نوکروں اور مزدوروں نے بار با دیکھا تھا ۔
إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصَادِ ﴿١٤﴾ سورة الفجر
صاحبان ایمان کو ہمیشہ اس نکتے کو یاد رکھنا چاہیے کہ ظالمیں کسی قدر کیوں نہ آگے بڑھ جائیں قدرت ان کی تاک میں رہتی ہے اور جب اس نے فرعون ، شداد، ثمودجیسوں کو نہیں رہنے دیا ہے تو آج کل کے ظالموں کو کیسے چھوڑ دے گی اور یہی بات خود ظالموں کو بھی سمجھنی چاہیے ۔
يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ﴿٢٧﴾ ارْجِعِي إِلَىٰ رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً ﴿٢٨﴾ سورة الفجر
یہ ان صاحبان ایمان کا تذکرہ ہے جن کا کردار خدا کی نگاہ میں پسندیدہ ہے اور خود بھی راضی برضائے پروردگار ہیں، ایسے لوگ دنیا سے مطمئن جاتے ہیں اور ان کے اشتیاق میں بندگان خدا بھی بے چین رہتے ہیں اور بہشت بریں بھی ، اسی بنیاد پر اس کا واضح ترین مصداق امام حسیؑن کو قرار دیا گیا ہے جنہوں نے رضائے الہی کی خاطر اپنا بھرا گھر لٹا دیا اور خود زیرخنجر کہتے رہے الٰہی رضاً برضاک پروردگار میں تیری مرضی پر راضی ہوں تو پروردگار نے بھی آواز دی ( يا ايتها النفس المطمئنة ارجعي الى ربک راضية مرضية)۔
فَكُّ رَقَبَةٍ ﴿١٣﴾ سورة البلد
انسان کتنا ہی بخیل کیوں نہ ہو دار دنیا میں مال ضرور صرف کرتا ہے اور جو عزت یا شہرت کا طلبگار ہوتا ہے وہ زیادہ صرف کرتا ہے لیکن ان تمام مصارف سے انسان صرف بندگان خدا کو مرعوب کر سکتا ہے خدا کی نگاہ میں ایسے صرف کی کوئی قیمت نہیں ہے اور نہ اس کے ذریعہ انسان قیامت کی گھاٹیوں کو پار کر سکتا ہے اس کیلئے انہیں امور کی ضرورت ہے جن کا تذکرہ آیات ذیل میں کیا گیا ہےلوگوں کو آزادی دلوائے، غریبوں کو کھانا کھلائے ، یتیم کی پرورش کرے مسکین کا خیال رکھے، صبر و مرحمت کی وصیت و نصیحت کرتا رہے یہ ساری باتیں نہ ہوں تو باقی نمائشی اعمال کی کوئی قدرو قیمت نہیں ہے ۔
وَالنَّهَارِ إِذَا جَلَّاهَا ﴿٣﴾ سورة الشمس
اس مقام پر پروردگار عالم نے نور و ظلمت ، روز و شب، ارض وسما اورنفس انسانی کی قسم کھا کر اس حقیقت کو واضح کرنا چاہا ہے کہ فلاح پاکیز نفس افراد کیلئے ہے اور ناکامی اور رسوائی خبیث النفس افراد کیلئے ہے جس کی مثال دور قدیم میں قوم ثمود اور ان کے نبی کی تھی کہ نبی انتہائی پا کیز نفس اور قوم ایسی خبیث کہ ایک اونٹنی کو پانی بھی نہ پینے دیا اور اس کی کوچیں کاٹ ڈامیں جس پر خدا نے عذاب نازل کر دیا اور خدا کو انجام کی کوئی فکر نہیں ہے اور نہ وہ کسی سے ڈرنے والا ہے ناقه ٔصالح کی یہی مظلومیت تھی جس کی طرف امام حسینؑ نے اشارہ کیا تھا اور اپنے پروردگار سے فریاد کی تھی کہ میرا بچہ ناقۂ صالح سے کم نہیں تھا اور یہ قوم ان ظالموں سے کم نہیں ہے جنہوں نے ایک بچے ناقہ کو بھی پانی سے محروم کر دیا تھا ۔
وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ ﴿١﴾ سورة الليل
بظاہر ان تمام قسموں کا مقصد یہ ہے کہ یہ تمام مخلوقات بے جان اور بے شعور ہونے کے با وجود ان کی دو قسمیں نہیں ہیں اور سب محوِ اطاعت پروردگار ہیں لیکن انسان اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ہے اور اس میں خبیث النفس افراد پیدا ہو گئے ہیں جو انتہائی افسوس اور شرم کی بات ہے ۔
فَأَمَّا مَنْ أَعْطَىٰ وَاتَّقَىٰ﴿٥﴾ سورة الليل
بعض مفسرین نے یہ واضح کرنا ضروری سمجھا ہے کہ آیات مذکورہ ابوبکر کی شان میں نازل ہوئی ہیں لیکن یہ بتانے کی زحمت نہیں کی ہے کہ ان کے کسی عمل کی بنا پر نازل ہوئی ہیں اور نہ یہ واضح کیا ہے کہ مذکورہ آیات کے دونوں قسم کے کرداروں میں سے کون سی آیتیں ان کی شان میں نازل ہوئی ہیں ۔
كَلَّا لَئِن لَّمْ يَنتَهِ لَنَسْفَعًا بِالنَّاصِيَةِ ﴿١٥﴾ سورة العلق
قدرت کی نگاہ میں بدترین کام عبادت الہی سے روکنا ہے اور ہر وہ شخص جو عبادت الٰہی سے روکتا ہے اسے اپنے انجام سے باخبر رہنا چاہیےاور صاحبان ایمان کو ہرگز ایسے بے ایمان افراد کی اطاعت نہیں کرنی چاہیے بلکہ سجدے کے ساتھ اپنے رب سے تقرب حاصل کرنا چاہیے۔
لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ ﴿٣﴾ سورة القدر
شب قدر ماه مبارک رمضان کی ۱۹،۲۱ یا۲۳ویں شب کو کہا جاتا ہے جس میں نزول قرآن کا سلسلہ شروع ہوا ہے اور یہ شب، قدر و منزلت میں ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس شب میں تمام مخلوقات کے مقدرات کا فیصلہ کیا جاتا ہے اور ہر انسان کا فرض ہے کہ اپنا مقدر بنانے کیلئے اس رات کو عبادت و تلاوت میں بسر کرے اگرچہ بعض حلقوں میں شب قدر بھی تفریحات اور منکرات کی رات ہوگئی ہے ۔
واضح رہے کہ اگر قدرومنزلت کے اعتبار سے ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہوسکتی ہے تو خندق میں علیؑ کی ایک ضربت بھی عبادت ثقلین سے افضل ہوسکتی ہے جیسا کہ سرکار دو عالم ؐنے خود اعلان کیا تھا ۔
وَالْعَادِيَاتِ ضَبْحًا ﴿١﴾ سورة العاديات
کسی قدر شرمناک بات ہے کہ پرواردگارگھوڑوں کی قسم کھائے اور انسان کی سرکشی کا اعلان کرے ،کیوں نہ ہو گھوڑے تیز رفتاری سے میدان کی طرف جاتے ہیں، وہ صبحدم کھائے پیے بغیر حملہ آور ہو جاتے ہیں، وہ دشمنوں کے درمیان دَر آتے ہیں اور کسی بات کی پرواہ نہیں کرتے ہیں اور انسان جان کی فکر اور مال کے اندیشہ میں مبتلا رہتا ہے اور میدان تک جانا گوارا نہیں کرتا اور بعض اوقات اگر چلا بھی جاتا ہے تو فرار کرنے لگتا ہے ایسے انسانوں سے تو جانور ہی بہتر ہیں اور شاید اسی لئے بعض مقامات پر میدان جہاد کے گھوڑوں کی یاد گار بھی قائم کی جاتی ہے کہ یہ انسان کی عبرت اور نصیحت کیلئے بہترین سامان ہے اگر اس میں یہ شعور و ادراک زندہ رہ گیا ہو۔