نویں پارے کا مختصر جائزه
نویں پارے کا مختصر جائزه
نویں پارے کےچیدہ نکات
وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَىٰ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَـٰكِن كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُم بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ﴿٩٦﴾ سورة الأعراف۔
آیت کریمہ نے اس حقیقت کو بے نقاب کر دیا ہے کہ ایمان اور تقوی کا اثر صرف آخرت میں نہیں ہوتا ہے بلکہ دنیا میں بھی اس کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں اور وہ اثرات مادی وسائل کا نتیجہ نہیں ہیں، ماوی وسائل شرق و مغرب اور جنوب و شمال میں کام کرتے ہیں اور قدرتی وسائل زمین و آسمان پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ وہ صاحبان ایمان کو زمین و آسمان کی برکتوں سے نواز دیتا ہے اور انہیں کسی کا محتاج نہیں رکھتا ہے اور نہ ان کے حالات کو دنیا کی کوئی طاقت چیلنج کر سکتی ہے۔ ان کا مددگار خدا ہے جو زمین و آسمان دونوں کا خالق ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ صاحبان ایمان و تقوی کام کرنا چھوڑ دیں اس لئے کہ تقوی کے معنی ہی عمل کرنے کے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ منکر این اپنے مال پر بھروسہ کرتے ہیں اور اللہ والے غیبی امداد پر بھی تکیہ رکھتے ہیں اور جانتےہیں کہ عمل اور محنت کو بار آور بنانے والا وہی پروردگار ہے اور وہی ان کے مال میں برکت عطا فرماتا ہے۔
فَوَقَعَ الْحَقُّ وَبَطَلَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١١٨﴾ سورة الأعراف۔
قرآن مجید کا یہ فقرہ اور سوره طہ کی آیت نمبر ۹۹ دلیل ہے کہ جادوگروں کے جادوکی کوئی حقیقت نہیں تھی اور انہوں نے صرف نظر بندی سے کام لیا تھا اور ان کا کاروبار فقط اس نظر بندی سے چل رہا تھا۔ انہیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ نبوت کی نگاہ میں جلوہ الوہیت ہوتا ہے اور اس کی نگاہ پر ان نظر بندیوں کا کوئی اثر نہیں ہوسکتا ہے۔
واضح رہے کہ یہ جادوگر اپنے دور میں دین و مذہب کے ٹھیکیدار شمار کیے جاتے تھے اور انہوں نے تحفظ دین کے بارے میں بھی فرعون سے سودے بازی شروع کر دی تھی جو ہر دور کے خود ساختہ مذہبی ٹھیکیداروں کا حال ہوتا ہے کہ وہ مذہب کی حفاظت کے نام پر سودے بانری کرنے لگتے ہیں گویا مذہب کسی اور کا ہے اور یہ صرف کرائے کے کاریگر یا واقعاً بازی گر ہیں۔
قَالُوا إِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا مُنقَلِبُونَ ﴿١٢٥﴾ سورة الأعراف۔
ایل ایمان پر حق واضح ہو جاتا ہے تو وہ کسی طاقت اور جبروت کی پرواہ نہیں کرتے ہیں اور برملا اپنے ایمان کا اعلان کر دیتے ہیں۔ فرعون نے لاکھ دھمکی دی کہ ایک طرف کا ہاتھ اور ایک طرف کا پاؤں کاٹ دوں گا سولی پر لٹکا دوں گا لیکن اب ایمان کا ایک ہی جواب تھا کہ ہمیں بہرحال اللہ کی بارگاہ میں جاناہے اور اسی طرح جلد کی حاضری کا شرف حاصل ہو جائے گا۔
فَإِذَا جَاءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوا لَنَا هَـٰذِهِ ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَطَّيَّرُوا بِمُوسَىٰ وَمَن مَّعَهُ ۗ أَلَا إِنَّمَا طَائِرُهُمْ عِندَ اللَّـهِ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿١٣١﴾ سورة الأعراف۔
شراپسند عناصر اپنے کو خدا کا رشتہ دار تصور کرتے ہیں اور ہر نیکی پر اپنا حق سمجھتے ہیں۔ پھر جب مصیبت یا بلا نازل ہو جاتی ہے تو اس کی نسبت اللہ والوں کی طرف دے دیتے ہیں حالانکہ وہ تمام اسباب اور اسرار سے خوب باخبر ہے۔
وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَىٰ مِن بَعْدِهِ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهُ خُوَارٌ ۚ أَلَمْ يَرَوْا أَنَّهُ لَا يُكَلِّمُهُمْ وَلَا يَهْدِيهِمْ سَبِيلًا ۘ اتَّخَذُوهُ وَكَانُوا ظَالِمِينَ ﴿١٤٨﴾ سورة الأعراف۔
سامری نے ایک مجسمہ تیار کیا اور قوم میں اعلان کر دیا کہ میں تمہارا اور موسیٰ کا خدا ہے۔ قوم نے اپنی جہالت و حماقت کی بناء پر اس کی پرستش شروع کر دی اور جناب ہارون کی ایک نہ سنی جس سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ گمراہ قوم نبی کے جانشین کی پرواہ نہیں کرتی ہے اور اپنے خود ساختہ کو ہرحق و حقیقت پر مقدم کردیتی ہے۔
قدرت نے اس خدا سازی کا ایک ہی جواب دیا کہ آواز کا پیدا ہو جانا کمال نہیں ہے۔ اتنا تو دیکھو کہ یہ نہ بات کر سکتا ہے اور یہ ہدایت دے سکتا ہے اور ایسا عاجز و مجبور ،خدا نہیں ہوسکتا ہے۔ سرکار دو عالم(ص) کے بعد امت اسلامیہ میں ایسا ہی انقلاب آیا تھا جیسا کہ جناب موسیٰؑ کے کوہ طور پر جانے کے بعد بنی اسرائیل میں آیا تھا۔ قوم نے صرف آواز کو ہنر بنا لیا اور ہدایت کی صلاحیت کو یکسرنظر انداز کر دیا۔
اخْتَارَ مُوسَىٰ قَوْمَهُ سَبْعِينَ رَجُلًا لِّمِيقَاتِنَا ۖ فَلَمَّا أَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ قَالَ رَبِّ لَوْ شِئْتَ أَهْلَكْتَهُم مِّن قَبْلُ وَإِيَّايَ ۖ أَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَهَاءُ مِنَّا ۖإِنْ هِيَ إِلَّا فِتْنَتُكَ تُضِلُّ بِهَا مَن تَشَاءُ وَتَهْدِي مَن تَشَاءُ ۖ أَنتَ وَلِيُّنَا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۖ وَأَنتَ خَيْرُ الْغَافِرِينَ ﴿١٥٥﴾ سورة الأعراف۔
یہ توبہ کا مرحلہ ہے کہ جہاں پروردگار کا حکم ہوا تھا کہ قوم کے وہ افراد تو بہ کرنے کے لئے آئیں جنہوں نے گوساله پرستی میں حصہ نہ لیا ہو۔جناب موسیٰؑ نے اس طرح کے ستر افراد کا انتخاب کیا اور کوہ طور پر لے گئے لیکن انہیں بھی زلزلے کا سامنا کرنا پڑا اور جب یہ فریاد کی کہ ہم نے گوساله پرستی نہیں کی تھی تو ارشاد ہوا کہ تم نے روکا کیوں نہیں تھا۔ دین خدا میں خشک مقدسین کا گزر نہیں ہے۔ مجاہدین اور مبلغین کی ضرورت ہے۔ جو لوگ یہ کہہ کر الگ ہو جاتے ہیں کہ قوم کی اصلاح ممکن نہیں ہے۔ وہ بھی ایک دن زلزلہ کے جھٹکوں کا شکار ہوں گے تو انہیں اپنے تقدس یا اعراض کاصحیح اندازہ ہوگا۔
وَإِذْ قَالَتْ أُمَّةٌ مِّنْهُمْ لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا ۙ اللَّـهُ مُهْلِكُهُمْ أَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا ۖ قَالُوا مَعْذِرَةً إِلَىٰ رَبِّكُمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ ﴿١٦٤﴾ سورة الأعراف۔
ایسے نادان مخلصين ہر دور میں پیدا ہوتے رہتے ہیں جو مصلحین کو یہ مشورہ دیتےہیں کہ قوم کو اس کی حالت پر چھوڑ دیا جائے اور اپنے کو پریشانی میں نہ ڈالا جائے لیکن قرآن مجید کی ہدایت دلیل ہے کہ انسان با رگا ہ الٰہی میں معذور بننا چاہتا ہے تو اس کا فرض ہے کہ ہدایت کرتا رہے کہ شاید قوم پر اثر ہوہی جائے تو دہرا فائدہ ہوگا۔
یہووالوں کی تاریخ ذلت و رسوائی اور تباہی و بربادی کی تاریخ ہے۔ پہلے فراعنه، باطبیین، فارس ، خلفاء اسکندر اور نصاریٰ کے زیر عتاب رہے۔ اس کے بعد خطۂ عرب میں پناہ لی تو اسلام کے ہاتھوں ذلت برداشت کی اور جزیرۃ العرب سے نکالے گئے اور آج بھی استعمار کے آلۂ کار بنے ہوئے ہیں ورنہ ان کا اپنا کوئی وجود نہیں ہے اور اگر چند مسلمان ان کو اہمیت دے رہے ہیں تو وہ بھی درحقیقت نسلاً یا مذہباً انہیں میں سے ہیں اور دنیا میں کوئی بھی حکومت یا جماعت انہیں مستقل حیثیت دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اسرائیل برائے نام حکومت ہے ورنہ درحقیقت استعمار کی ایک کالونی ہے اور اس کےعلاوہ کچھ نہیں ہے اور کالونی بن جانا خود ہی ایک ذلت اور رسوائی ہے۔
وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ ۖ لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا ۚ أُولَـٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ ۚ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ ﴿١٧٩﴾ سورة الأعراف۔
آیات الٰہی سے انکار کرنے والوں کا آخری انجام جہنم ہے اور ان کی علامت یہ ہے کہ یہ خدائی صلاحیت کو بروئے کار لاکرحق کی معرفت حاصل نہیں کرتے۔ رب العالمین نے اتمام حجت کے لئے آنکھ، کان اور دل تینوں کا حوالہ دیا ہے اور رسول اکرم نے بھی غدیر خم میں حضرت علیؑ کو ہاتھوں پر بلند کر کے فرمایا تھا کہ
’’من کنت مولاه فهذا علی مولاه‘‘
تاکہ آنکھیں دیکھ لیں، کان سن لیں اور دل سجھ لیں کہ علی مولا علیہ السلام اور حاکم ہو گئے۔
شریعت اسلام نے بھی تین اشیاء کو سند قرار دیا ہے۔ قول معصوم فعل معصوم اورتقریر معصوم؛ قول کا تعلق سنتے سے ہے فعل کا تعلق دیکھنے سے ہے اور تقریروسکوت کا تعلق سمجھنے سے ہے۔ انسان نے ان تینوں صلاحیتوں سے کام نہ لیا تو اس کا انجام جہنم ہے اور گویا اسے جہنم ہی کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔
وَلِلَّـهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا ۖ وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ ۚسَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٨٠﴾ سورة الأعراف۔
اللہ کے تمام نام احسن اور اعظم ہیں۔ ناموں کی عظمت ذات اور مفہوم کے اعتبار سے ہوتی ہے اور خدا کی عظمت اور اسکے صفات کی عظمت میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔
اسے اس کے ناموں میں سے پکارنا چاہئےاور اس میں کسی طرح کی بیدینی نہ کرنی چاہئے ۔لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ انسان ۹۹اسماء کے اندر محدود ہو جائے یا جوشن کبیر کے ایک ہزار اسماء اوصاف کے اندر محدود ہو جائے اس لیے کہ تمام علمائے اعلام نے ہر دور میں مختلف زبانوں کے ناموں کا اطلاق کیا ہےجب کہ ان میں سے کوئی نام شریعت میں وار نہیں ہوا ہے۔
فَلَمَّا آتَاهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا ۚ فَتَعَالَى اللَّـهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ ﴿١٩٠﴾ سورة الأعراف۔
بعض مفسرین نے اس بات کو جناب آدمؑ اور جناب حوا علیہما السلام پر منطبق کیا ہے کہ انہوں نے خدا سے دعا کی اور جب اس نے فرزند دے دیا تو شیطان کے بہکانے سے اس کا نام عبدالحارث رکھ دیا اور خدا نے اس طرز عمل پر تنقید کی کہ یہ کمال ناشکری ہے جو آدم کو زیب نہیں دیتا۔ ۔۔۔۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسےتصورات نبیٔ خدا کے بارے میں انتہائی مہمل اور بے بنیاد ہیں۔ یہ ایک تمثیل ہے جو ہر انسان کے حال پرمنطبق ہوتی ہے اور ہر انسان ولادت کے موقع پر طرح طرح کی دعا ئیں کرتا ہے اور عبد و پیمان کرتا ہے اس کے بعد جب کام نکل جاتا ہے تو خدائی عطا ودین کومختلف افراد و اشخاص کی طرف منسوب کر کے ان کا کارنامہ قرار دےدیتا ہے اور خدا کے فضل و احسان کی طرف سے یکسر غافل ہو جا تا ہے۔
خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ ﴿١٩٩﴾ سورة الأعراف۔
وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ ۚ إِنَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿٢٠٠﴾ سورة الأعراف۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے کہ اس سے زیادہ اخلاقیات کے لئے جامع کوئی فقرہ نہیں ہے کہ انسان وہ راستہ اختیار کرے جسمیں دوسروں کو زحمت و مشقت نہ ہو۔ نیکیوں کا حکم دیتار ہے تا کہ معاشرہ گمراہ نہ ہونے پائے اور کوئی جہالت اور نادانی کی بات کرے تو اس سے مقابلہ کرنے کے بجائے کنارہ کشی اختیار کرے اور شیطان دخل اندازی کرناچا ہے تو خدا کی پنادیا مانگےہے کہ اس سے بہتر پناہ دینے والا کوئی نہیں ہے۔
يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنفَالِ ۖ قُلِ الْأَنفَالُ لِلَّـهِ وَالرَّسُولِ ۖ فَاتَّقُوا اللَّـهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ ۖ وَأَطِيعُوا اللَّـهَ وَرَسُولَهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ﴿١﴾ سورة الأنفال
مسلمانوں میں مال غنیمت کے بارے میں اختلاف ہوا کہ یہ صرف مجاہدین کا حصہ ہے یا غنیمت جمع کرنے والوں کا بھی حصہ ہے۔ رب العالمین نے واضح کر دیا کہ یہ مسئلہ جہاد سے متعلق ہے۔ انفال کاحق صرف خدا و رسول(ص) کو ہے وہ جسے چاہیں دے سکتے ہیں اس میں کسی کو دخل دینے کا حق نہیں ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّـهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿٢٧﴾ سورة الأنفال
بنی قریظہ کے تقاضائے پر پیغمبر اسلام نے سعد بن معاذ کو حَکم بنا دیا تو ابولبابہ نے یہودیوں کوقتل کی دھمکی دے دی جو ایک طرح کی خیانت تھی، پھر جب آیت نازل ہوگئی تواپنے کو ستون مسجد سے باندھ کر سات دن تک استغفار کرتے رہے یہاں تک کہ خدا نے معاف کر دیا اور سرکار نے آ کر کھول دیا۔ یہ ستون آج بھی ’’اسطوانهٔ ابی لبابہ‘‘ کے نام سے موجود ہے اور اس بات کی علامت ہے کہ خدا و رسول کے معاملات میں ادنیٰ سی دخل اندازی بھی اس قدر طویل استغفار کی طلب گار ہوتی ہے چہ جائیکہ ان کی مرضی کے خلاف پورےاسلام کی سربراہی کا فیصلہ کر لیا جائے۔