امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

صلح امام حسن علیہ السلام اور معاویہ

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

صلح امام حسن علیہ السلام اور معاویہ

جب معاویہ سے صلح کی تو حسن اور ان کے فرزندوں کا خون محفوظ ہوا، ان کی تعداد بہت ہی کم تھی اس کے بعد اہل عراق نے حسین کی بیس ہزار کی تعداد میں بیعت کی، لیکن اپنی بیعتوں سے منحرف ہوگئے اوران کے خلاف نکل پڑے جب کہ ان کی گردنوں میں حسین کی بیعت کا قلادہ پڑا تھا۔
پھر بھی حسین کو شہید کرڈالا اس کے بعد ہم اہلبیت ہمیشہ پستے رہے اور رسوا ہوتے رہے ہم دور، امتحان میں مبتلا، محروم و مقتول، خوف زدہ، ہمارا اور ہمارے محبوں کا خون محفوظ نہیں رہا، دروغ بافوں اور ملحدوں نے جھوٹ اورالحاد کے سبب اپنے امیروں، شہر کے بدکردار قاضیوں اور بد دین اہلکاروں کی قربت حاصل کی، انھوں نے جھوٹی اور من گڑھت حدیثوں کا جال بنا، او رہماری طرف ان چیزوں کی نسبت دی جن کو نہ ہم نے کہا تھا اور نہ ہی انجام دیا تھا یہ سب، صرف لوگوں کو ہمارا دشمن بنانے کے لئے کیا گیا، اور سب سے بڑا اور برا وقت حسن مجتبی کی شہادت کے بعد معاویہ کے دور خلافت میں آیا تھا، ہر شہر میں ہمارے شیعہ قتل کئے جارہے تھے، صرف گمان کے سبب ان کے ہاتھ پیر کاٹ دیئے گئے! جو کوئی بھی ہماری محبت یا تعلقات کا اظہار کرتا اس کو یا قید کردیتے یا اس کا مال لوٹ لیتے یا اس کا گھر ویران کردیتے، یہ کیفیت روز بروز بڑھتی گئی یہاں تک کہ قاتل حسین، عبید اللہ بن زیاد کا زمانہ آیا ، اس کے بعد حجاج آیا اس نے ہر طرف موت کا بازار گرم کردیا، ہر گمان و شک کی بنیاد پر گرفتار کرا لیتا (زمانہ ایسا تھا کہ) اگر ایک شخص کو زندیق و کافر کہتے تو برداشت کرلیتا بجائے اس کے کہ اس کوعلی کا شیعہ کہا جائے، حد یہ کہ وہ شخص جو کہ مستقل ذکر الٰہی کرتا تھا شاید سچا تقویٰ ہو، مگر وہ عجیب و غریب حدیثوں کو گذشتہ حاکموں کی فضیلت میں بیان کرتا تھا جب کہ خدا نے ان میں سے کسی ایک شیء کو خلق نہیں کیا تھا، اور نہ وجود میں آئی تھی وہ لوگوں کی کثرت روایت کو سبب حق سمجھتا تھا اور نہ ہی جھوٹ کا گمان تھا اور نہ ہی تقویٰ کی۔[٣١]
یہ دونوں عظیم اور بھروسہ مند عبارتیں بنی امیہ کے دوران حکومت میں شیعوں کی حقیقی کیفیت کی عکاس ہیں، جبکہ اموی حکومت سوا سو سال (۱۲۵) پر محیط ہے، لیکن عباسی حکام نے آل محمد کی رضا کا ڈھونگ رچایا تھا اور ان کے فرزندوں کے دعویدار بن کر اموی حکومت کا تختہ پلٹ کر انقلاب لانا چاہا تھا لیکن انھوں نے چچازاد بھائی ہونے کے باوجود اہلبیت کے ساتھ غداری کی۔
ہر چند کہ اموی عہد کے آخری ایام اور عباسی حکومت کے ابتدائی دنوں میں اہلبیت اور ان کے شیعوں کے لئے تھوڑا سکون کا سانس لینے کا موقع ملا تھا، مگر عباسی خلفاء اس جانب بہت جلد متوجہ ہوگئے، خاص طور سے منصور کے زمانے میں تشیع کی مقبولیت اہلبیت کے گرد حلقہ بنانے کے سبب تھی اور جب انھوں نے یہ محسوس کیا تو ابتدائی شعار کی خول اتار دیئے اور اموی ظالم و جابر حکومت کہ جس کو ظلم کے سبب ختم کیا تھا اس سے آگے نکل گئے اہلبیت اور ان کے شیعوں پر سختی شروع کردی، جس کے سبب گرد و نواح سے انقلاب کی آواز اٹھنے لگی جس میں علوی سادات کرام شریک کار تھے جن میں سے محمد بن عبد اللہ بن حسن بن علی ملقّب بہ نفس ذکیہ پیش پیش تھے جنھوں نے عباسی خلیفہ منصور کے نام ایک خط روانہ کیا تھا جس میں اس بات کا اشارہ تھا کہ تم لوگوں نے اہلبیت سے قربت ثابت کر کے اموی حکومت کیسے ہتھیایا ہے اور حکومت ہاتھ آتے ہی ان کو برطرف کردیا، وہ کہتے ہیں کہ حق یہ ہے کہ یہ ہمارا حق ہے، تم نے اس کو ہمارے واسطہ سے حاصل کیا ہے اور ہمارے شیعوں کی مدد سے تم نے خروج کیا تھا ہماری فضیلت کے سبب اس کے حصہ دار بنے ہو، ہمارے باپ علی (ابن ابی طالب) وصی اور امام تھے ان کی اولادوں کے ہوتے ہوئے تم اس (خلافت) کے وارث کیوں کر بن بیٹھے، تم اس بات کو بخوبی جانتے ہو کہ اس کا حقدار ہمارے سوا کوئی نہیں کیونکہ حسب و نسب اور اجدادی شرف میں کوئی ایک بھی ہمارے ہم پلہ نہیں۔
ہم نہ ہی فرزندان لعنت خوردہ، نہ ہی شہر بدر اور نہ ہی آزاد شدہ ہیں، بنی ہاشم میں قرابت داری کے لحاظ سے ہم سے بہتر نہیں جو قرابت سابقہٴ اسلامی اور فضل میں بہتر ہو، اللہ نے ہم میں سے اور ہم کو چنا ہے، محمد ہمارے باپ اور نبیوں میں سے تھے، اور اسلاف میں علی اول مسلمین ہیں، نبی کی ازواج میں سب سے افضل خدیجہ طاہرہ تھیں جنھوں نے سب سے پہلے قبلہ رخ ہوکر نماز ادا کی، رسول کی نیک دختر حضرت فاطمہ زہرا تھیں جو خواتین بہشت کی سردار ہیں، اسلام کے دو شریف مولود حسن و حسین جوانان جنت کے سردار ہیں۔[٣٢]
جب منصور نفس ذکیہ کو گرفتار نہ کرسکا تو اس نے کینہ کے تیروں کا رخ ان کے خاندان اور اہل قبیلہ کی جانب کردی، منصور نے ان کے ساتھ جو برتاؤ کیا اس کو جاحظ نے یوں نقل کیا ہے:
منصور فرزندان حسن مجتبیٰ کو کوفہ لے گیا اور وہاں لے جا کر قصر ابن ہبیرہ میں قید کردیا اور محمد بن ابراہیم بن حسن کو بلاکر کھڑا کیا او ران کے گرد دیوار چنوا دی او راسی حال میں چھوڑ دیا یہاں تک وہ بھوک و پیاس کی شدت کے سبب جان بحق ہوگئے اس کے بعد ان کے ساتھ جو فرزندان حسن تھے ان میں سے اکثر کو قتل کردیا۔
ابراہیم ا لفہر بن حسن بن حسن بن علی ابن ابی طالب کو زنجیروں میںجکڑ کر مدینہ سے انبار لے جایا گیا، اور وہ اپنے بھائیوں، عبد اللہ اور حسن سے کہہ رہے تھے کہ ہم بنی امیہ کے خاتمہ کی تمنا کر رہے تھے اور بنی عباس کی آمد پر خوش ہو رہے تھے اگر ایسا نہ ہوتا تو آج ہم اس حال میں نہ ہوتے جس میں اس وقت ہیں۔[٣٣]
نفس ذکیہ کے انقلاب کو کچل دینے کے بعد اور مدینہ میں ان کے قتل اور ان کے بھائی ابراہیم بن عبداللہ کے قتل کے بعد ”جنھوں نے بصرہ میں قیام کیا تھا اور کوفہ کے نزدیک باضری نامی مقام پر جاں بحق ہوئے تھے“ جس کو لوگ بدر صغریٰ بھی کہتے تھے۔[٣٤]
عباسی حکام کے خلاف انقلابات بپا ہوتے رہے ، محمد بن جعفر منصور کے زمانے میں علی بن عباس بن حسن بن حسن بن علی ٪ نے قیام کیا، لیکن اس علوی انقلابی کو دستگیر کرنے میں کامیاب ہوگیا، حسن بن علی کی سفارش پر ان کو آزاد کردیا لیکن شہد کے شربت میں زہر دیدیا گیا جس نے اپنا کام کردیا، چند دن نہیں بیتے تھے کہ وہ مدینہ کی طرف چل پڑے لیکن ان کے جسم کا گوشت جابجا سے پھٹ گیا تھا اور اعضائے بدن جدا ہوگئے تھے اور مدینہ میں پہنچ کر تین دن بعد انتقال ہوگیا۔[٣٥]
موسی ہادی خلیفہ کے زمانے میں حسین بن علی بن حسن بن حسن بن علی ابن ابی طالب ٪ نے قیام کیا او ران کا یہ قیام فخ نامی مقام پر ان کے قتل کے ساتھ ختم ہوگیا، وہ شہید فخ کے نام سے مشہور ہیں،ہادی کے بعد جب رشید حاکم ہوا تو اس نے یحییٰ بن عبد اللہ بن حسن کو گرفتار کراکر زندہ دیوار میں چنوا دیا۔[٣٦]


۳۱۔ اسد الغابہ ، ابن اثیر
۳۲۔ اسباب النزول، واحدی
۳۳۔ السنن الکبریٰ، بیہقی
۳۴۔ السیرة النبویة، لابن ہشام
۳۵۔ المعجم الکبیر، طبرانی
۳۶۔ البدایہ و النہایہ، ابن کثیر دمشقی

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک