"علم ِفقہ "کس علم کو کہا جاتا ہے؟
"علم ِفقہ "کس علم کو کہا جاتا ہے؟
فقہ اس علم کو کہا جاتا ہے جس کے ذریعے مسلمانوں کے دینی احکام کا سراغ لیا جاتا ہے۔ علم فقہ کا موضوع مکلف کے اختیاری افعال ہیں۔ نماز، روزہ، زکات، حج، خرید و فروخت، شادی بیاہ اور طلاق وغیرہ جیسے امور کے احکام کے بارے میں فقہ میں بحث کی جاتی ہے۔
فقہاء علم فقہ کی تدوین کا مقصد مکلفین کی دنیوی زندگی کو منظم کرنے اور آخرت میں سعادت اور خوشبختی سے ہمکنار ہونے کے لئے قرآن و سنت کی روشنی میں قوانین اور احکام کا استخراج قرار دیتے ہیں۔ بعض فقہاء کے مطابق علم فقہ خدا کی معرفت کے بعد سب سے بہترین علم ہے؛ اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ آیت نَفْر کی روشنی میں علم فقہ کا حصول واجب کفایی ہے۔
علم فقہ کے دائرے اختیار کے بارے میں دو نظریے موجود ہیں؛ ایک نظریے کے مطابق فقہ مکلف کی زندگی کے تمام سماجی، سیاسی، عسکری اور ثقافتی امور پر حاکم ہے جبکہ دوسرے نظریے کے تحت علم فقہ زندگی کے فقط بعض امور کے بارے میں اظهار نظر کرنے کا حق رکھتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کی حیات مبارکہ جسے علم فقہ کی تدوین یا تشریع کا زمانہ قرار دیا جاتا ہے، میں مسلمان احکام شرعی کو قرآن و سنت پیغمبر سے دریافت کرتے تھے۔ آنحضرتؐ کی رحلت کے بعد اسلام میں فقہی اعتبار سے شیعہ اور سنی دو عمدہ مکاتب فکر وجود میں آگئے۔
شیعہ امام علیؑ اور آپ کی نسل سے گیارہ ائمہ معصومینؑ کو پیغمبر اکرمؐ کے بعد قرآن اور سنت پیغمبر کے حقیقی مفسر مانتے ہوئے احکام شرعی کو ان سے اخذ کرتے ہیں؛ جبکہ اہلسنت اس سلسلے میں پیغمبر اکرمؐ کے صحابہ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور صحابہ قرآن و سنت پیغمبر سے اجتہاد کے ذریعے فتوا صادر کرتے ہیں۔
شیعہ فقہ عصر تشریع اور ائمہ معصومینؑ کے دور کے بعد ری، بغداد، حلہ، جبلْ عامل، اصفہان، کربلا، نجف اور قم سے لے کر عصر حاضر تک ترقی اور تنزل کے اعتبار سے مختلف ادوار سے گزری ہے۔ اسی طرح فقہ اہل سنت بھی صحابہ اور تابعین کے بعد فقہی اعتبار سے چار مشہور فقہی مذاہب جیسے حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی میں تقیسم ہوتی ہے۔ شیعہ اور اہل سنت فقہی مکاتب کے علاوہ اباضیہ اور زیدیہ مکاتب فکر بھی مدوّن علم فقہ کے مالک ہیں اور دور حاضر میں بھی ان دو مکاتب فکر کے پیروکار موجود ہیں۔
اہمیت
علم فقہ من جملہ ان علوم میں سے ہے جو تمام اسلامی فرق و مذاہب کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔[1]
مالکی مذہب کے فقیہ اور اصولی حَجوی ثَعالبی علم فقہ کو دنیائے اسلام کے بڑے کارناموں میں سے ایک قرار دیتے ہوئے اس بات کے قائل ہیں کہ اسلامی معاشرے کا شہ رگ حیات علم فقہ کے ساتھ وابستہ ہے اور اس کے بغیر اسلامی معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا۔[2]
علامہ حلی کتاب تحریر الاحکام کے مقدمے میں علم فقہ کی اہمیت اور مقام و منزلت کے بارے میں کہتے ہیں کہ خدا کی معرفت کے بعد سب سے زیادہ فضیلت والا علم، علم فقہ ہے؛ کیونکہ یہ علم انسانوں کی معاش اور معاد یعنی دنیا اور آخرت دونوں کو آباد کرنے والا یہی علم فقہ ہے۔[3]
اسی طرح وہ آیت نفر کی روشنی میں علم فقہ کے حصول کو واجب کفایی سمجھتے ہیں۔[4]
صاحبْمعالم بھی علم فقہ کو خدا کی معرفت کے بعد سب سے زیادہ با شرف اور افضل ترین علم سمجھتے ہیں؛ کیونکہ احکام الہی کی شناخت جو کہ با فضیلبت ترین معلومات میں سے ہیں اسی علم کے ذریعے حاصل ہوتی ہیں، اسی طرح علم فقہ انسان کی عملی زندگی کے فردی اور اجتماعی دونوں پہلوؤں کو منظم کر کے انسان کو کمال اور ترقی کے اعلی منازل تک پہنچا دیتا ہے۔[5]
امام خمینی علم فقہ کی اہمیت اور عظمت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ماں کی گود سے گور تک انسان کی مکمل تربیت کا حقیقی نظریہ علیم فقہ ہی ہے۔[6]
تعریف
مسلمان فقہاء،[7] علم فقہ کی تعریف میں اسے اسلام کے فرقی احکام کو تفصیلی دلائل سے استخراج کرنے وال علم قرار دیتے ہیں۔[8]
یہاں پر تفصیلی ادلہ سے مراد قرآن، سنت، اجماع، عقل اور اصول عملیہ جیسے استصحاب، تخییر، برائت اور احتیاط ہے۔[9]
ایک اور تعریف میں فقہ کو ایک ایسا علم قرار دیتے ہیں جس میں دو قسم کے موضوع پر بحث کی جاتی ہے:
مکلف کے اعمال اور وظائف کا بیان اور خدا اور انسان کے باہمی رابطے کو منظم کرنا جیسے نماز، روزہ، زکات و حج وغیرہ
معاشرہ اور دوسرے انسانوں کے ساتھ انسان کے رابطے کو منظم کرنا جیسے خرید و فروخت، شادی بیاہ اور طلاق وغیرہ۔[10]
علم فقہ کا موضوع اور اس کا مقصد
علم فقہ احکام پنجگانہ میں سے واجب، حرام، مستحب، مکروہ، مباح اور صحت و بطلان سے بحث کرتی ہے۔[11]
اسی بنا پر علم فقہ کے موضوع کو مکلف کے اختیاری افعال قرار دیتے ہیں۔[12]
فقہاء کے مطابق علم فقہ کا مقصد اور ہدف انسان کی دنیوی زندگی کو منظم کرنے اور اخروی زندگی میں انسان کو سعات اور خوش بختی کے اعلی مراتب تک پہنچانے کے لئے پروگرام اور وظائف کا بیان ہے۔[13]
فقہی منابع
اسلامی شریعت میں احکام شرعی کو استخراج کرنے کا سب سے اہم اور بنیادی منبع قرآن ہے۔[14]
فقہ کے دوسرے منابع کے بارے میں مختلف اسلامی مذاہب کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے:
شیعہ
شیعہ فقہاء احکام شرعی کو استنباط کرنے میں قرآن کے علاوہ سنت، اجماع اور عقل سے بھی تمسک کرتے ہیں۔[15]
البتہ شیعہ فقہاء میں سے ایک گروہ اخباری فقط قرآن و سنت کو حکم شرعی کے استنباط کا منبع قرار دیتے ہیں۔[16]
اخباریوں میں سے بعد فقہاء جیسے محمد امین استرآبادی قرآن کے ظواہر سے بھی تمسک کرنے میں تردید کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کے قائل ہیں کہ قرآن کا مخاطب صرف اہل بیتؑ ہیں اور مجتہد حکم شرعی کے حصول کے لئے قرآن کے ظواہر سے استناد نہیں کر سکتے ہیں۔[17]
ان کے مقابلے میں بعض فقہاء جیسے محمد صادقی تہرانی (سنہ 1305 - 1390ہجری شمسی) صرف قرآن کو حکم شرعی کے استنباط کا منبع قرار دیتے ہیں اور سنت کو بھی قرآن کی روشنی میں معتبر سمجھتے ہیں۔[18]
اہل سنت اور شیعوں کے ساتھ ان کا فرق
اہل سنت کے چاروں مذاہب قرآن کے علاوہ سنت، اجماع اور قیاس کو بھی حکم شرعی کے منابع قرار دیتے ہیں۔[19]
البتہ اہل سنت فقہاء سنت کو صرف پیغمبر اکرمؐ کے قول، فعل اور تقریر میں منحصر سمجھتے ہیں؛[20] جبکہ شیعہ فقہاء پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ ساتھ ائمہ معصومینؑ کے قول، فعل اور تقریر کو بھی حجت اور معتبر سمجھتے ہیں اور اسے بھی احکام شرعی کے پہنچنے کا معتبر منبع قرار دیتے ہیں۔[21]
اہل سنت فقہاء اس بات کے معتقد ہیں کہ اجماع بذات خود حکم شرعی کے استنباط میں حجت اور مستقل منبع ہے؛[22]
جبکہ شیعہ فقہاء اجماع کو صرف اس صورت میں حجت اور معتبر سمجھتے ہیں کہ اس کے ذریعے امام معصوم کے قول تک پہنچ پائیں ورنہ اجماع بذات خود حجت اور معتبر نہیں ہے۔[23]
اہل سنت مذکورہ منابع کے علاوہ بعض دوسرے فرقی منابع جیسے استحسان، مصالح مُرسَلہ اور سد ذرایع سے بھی حکم شرعی کے استنباط میں تمسک کرتے ہیں۔[24] البتہ شافعی مذہب کے پیشوا محمد بن ادریس شافعی مذکورہ بالا تین منابع میں سے صرف سد ذرایع کو قبول کرتے ہیں۔[25] شیعہ فقہاء کی نظر میں درج بالا تینوں منابع میں سے کوئی ایک بھی حکم شرعی کے استنباط میں معتبر ذرایع شمار نہیں ہوتے۔[26]
اہل سنت فقیہ اور مورخ محمد ابوزہرہ (متوفی 1395ھ) کے مطابق شیعہ مکاتب فکر میں سے زیدیہ، احکام شرعی کی استنباط میں فقہ حنفیہ کی پیروی کرتے ہوئے بعض احکام میں قیاس، استحسان اور مصالح مرسلہ سے بھی نیز استفادہ کرتے ہیں۔[27]
فقہ کا دائرہ اختیار
ایران کے ماہر علم فقہ مہدی مہریزی (ولادت 1341ہجری شمسی) کے مطابق اس بارے میں کسی کا کوئی اختلاف کہ فقہ جس طرح انسان کے انفرادی اعمال کے بارے میں حکم شرعی بیان کرتی ہے اسی طرح انسان کے سماجی اور اجتماعی امور میں بھی حکم صادر کرتی ہے؛ لیکن اختلاف اس میں ہے کہ آیا فقہ انسان کے تمام اجتماعی امور کو شامل کرتی ہے یا صرف بعض اجتماعی امور تک محدود ہے۔[28]
امام خمینی کے مطابق احکام فقہی انسان کے تمام اجتماعی امور کو شامل کرتی ہے۔ آپ حکومت کو فقہ کے عملی پہلو کی ایک جہلک قرار دیتے ہیں جس میں فقہ تمام سماجی، سیاسی، عسکری اور ثقافتی امور میں اپنا نقطہ نظر بیان کرتی ہے۔[29]
اسی طرح کتاب موسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ (فقہ اہل سنت میں 45 جلدوں پر مشتمل مجموعہ) میں یہ دعوا کیا گیا ہے کہ علم فقہ کے پاس انسان کے تمام مسائل اور مشکلات کا حل موجود ہے؛ کیونکہ انسان سے کوئی بھی فعل صادر نہیں ہوتا مگر یہ کہ شرعی حوالے سے اس کا کوئی نہ کوئی حکم ضرور ہوتا ہے ہے اور ان احکام کو بیان کرنا علم فقہ کی ذمہ داری ہے۔[30]
اس نظریے کے بر خلاف بعض معاصر روشنفکر افراد جیسے عبدالکریم سروش اور محمد مجتہد شبستری فقہ کے پاس انسان کی تمام انفرادی اور اجتماعی ضرروتوں کا حل موجود ہونے کے منکر ہیں۔[31]
سروش کے مطابق انسان کے اجتماعی امور میں سے صرف ایک حصہ فقہی مسائل سے مربوط ہیں۔ جبکہ دوسرے بہت سارے ایسے مسائل ہیں جیسے سیاست اور اقتصاد وغیرہ فقہ کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں اور فقہ کے پاس ان امور کے بارے میں کوئی تعلیمات موجود نہیں ہے بلکہ ان امور کے حل کے لئے انسان بعض عقلی اور تجربیاتی علوم سے مدد لینے پر مجبور ہیں۔[32]
مجتہد شبستری کہتے ہیں کہ سیاست جیسے اجتماعی امور میں شرعی قوانین جیسے حدود، دیات، قصاص، قضاوت وغیرہ کے نفاذ میں شریعت کو تاریخی اعتبار سے ان کی تفسیر کرنے کی ضرورت ہے؛ کیونکہ ان احکام سے متعلق اکثر سوالات جن کا شارع نے جواب دیا ہے وہ اسی زمانے کے ساتھ مختص تھے اور عصر حاضر کے تقاضوں پر ان کی دلالت منتقی ہے۔[33]
موضوعات میں فقہ کا دائرہ اختیار
جن موضوعات پر شرعی احکام لاگو ہوتے ہیں کلی طور پر ان کی دو قسمیں ہیں:
موضوعات «صِرفہ»: ان موضوعات کو کہا جاتا ہے جن کی تشخیص میں کسی استدلال کی ضرورت نہیں ہوتی اور یہ موضوعات اتنے واضج اور آشکار ہیں کہ ہر ایک ان کو سمجھ سکتے ہیں۔[34]
جیسے پانی جس سے سب آگاہ ہیں اور ان کو سمجھنے میں اجتہاد کی کوئی مدد کی ضرورت نہیں ہوتی۔[35]
تمام مسلمان فقہاء کا اس بات پر اتفاق نظر ہیں کہ ایسے موضوعات کی تبیین اور تشریح کے سلسلے میں فقیہ کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔[36]
موضوعات مُستنبطہ: ایسے موضوعات جو سب کے لئے واضح نہیں اور ان کی تشخیص اور ان کے حدود و قیود کو مشخص کرنے کے لئے دلیل اور برہان کی ضرورت ہوتی ہے۔[37]
یہ موضوعات اپنے اندر 3 قسموں میں تقسیم ہوتے ہیں:
شرعی موضوعات: ایسے موضوعات جنہیں شارع نے من حیث شارع ایجاد کیا ہو؛ جیسے نماز، وضو، غسل اور تیمم وغیرہ۔[38]
تمام فقہاء کے مطابق ایسے موضوعات اور ان پر لاگو ہونے والے احکام کی تشریح اور وضاحت کی ذمہ داری فقیہ کی ہے۔[39]
عرفی موضوعات: ایسے موضوعات جن کی تعریف اور حدود و قیود کی تشخیص کی ذمہ داری عرف کی ہے۔[40]
لغوی موضوعات: ایسے موضوعات جن کی تعریف اور تشخیص سب کے لئے میسر نہیں بلکہ ان کو سمجھنے کے لئے ہر زبان میں اس کے لغوی قواعد و ضوابط کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔[41]
مستنبطۂ عرفی اور لغوی موضوعات کی تشخیص کی ذمہ داری فقیہ کے ذمے ہونے اور نہ ہونے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔[42]
میرزای قمی،[43] محمد کاظم طباطبایی یزدی[44] اور صاحبْ جواہر[45] وغیره ایسے موضوعات کی تشخیص کو فقیہ کے دائرہ اختیار سے باہر قررا دیتے ہیں۔ جبکہ ان کے مقابلے میں دوسرے فقہاء جیسے سید محسن حکیم اور سید ابو القاسم خویی وغیرہ ان موضوعات کی تشخصی میں بھی فقیہ کے کردار کی تائید اور تأکید کرتے ہیں۔[46]
کاشفالغطاء عرفی اور لغویِ موضوعات کو پیچیدہ اور بسیط میں تفکیک کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پیچیدہ موضوعات کی تشخیص ادلہ شرعی کی طرف رجوع کئے بغیر قابل تشخیص نہیں ہیں۔ اس بنا پر شرعی موضوعات کی طرح ان کی تشریح کی ذمہ داری بھی فقیہ کے اوپر عائد ہوتی ہے۔[47]
فقہی مکاتب فکر
دنیائے اسلام میں فقہی اعتبار سے دو عمدہ اور بنیادی مکاتب فکر شیعہ اور اہل سنت کی شکل میں موجود ہیں جن میں سے ہر ایک کے مبنائی اعتبار سے مختلف مکاتب فکر موجود ہیں:[48]
شیعہ فقہی مکاتب فکر
فقہی اعتبار سے شیعیت میں ائمہ معصومین کے زمانے کے بعد(غیبت کبرا کے بعد) درج ذیل مکاتب وجود میں آئی ہیں :[49]
نمبر شمار - مکتب کا نام - تاریخ تأسیس - مشہور فقہاء - اہم فقہی آثار - خصوصیات
1 -قم اور ری -چوتھی صدی ہجری کے پہلے نصف صدی سے پانچویں صدی ہجری کے پہلے نصف صدی تک -علی بن ابراہیم قمی، محمد بن یعقوب کلینی، علی بن بابویہ قمی، شیخ صدوق -الکافی، الشرایع، من لا یحضرہ الفقیہ، المقنع -منابع روایی کی تدوین و تبویب اور فقہ روایی کا رائج ہونا۔
2 -بغداد- چوتھی صدی ہجری -ابنعقیل عمانی، ابن جنید اسکافی، شیخ مفید، سید مرتضی، شیخ طوسی -الاحمدی فی الفقہ المحمدی، المتمسک بحبل آل الرسول، المُقنِعہ، المبسوط -آغاز تدوین علم اصول، استنباط احکام میں عقلی دلائل کا استعمال
3 -حلہ -چھٹی صدی ہجری کے اواخر سے -ابن ادریس حلی، محقق حلی، احمد بن طاووس حلی، یحیی بن سعید حلی، علامہ حلی - السرائر، المعتبر، شرایع الاسلام، الجامع الشرایع، تحریر الاحکام، مختلف الشیعہ -فقہ استدلالی کے متون کی تألیف، علم اصول فقہ میں وسعت، فقہی ابواب کی نئی ترتیب
4 -جبل العامل -آٹھویں صدی ہجری، شہید اول، شہید ثانی، حسن بن زین الدین عاملی، سید محمد موسوی عاملی -اللمعۃ الدمشقیۃ، مسالک الافہام، مدارک الاحکام، منتقی الجمان -فقہی قواعد کی تدوین، کتب اربعہ کی احادیث کی چھان بین، رجالی مباحث کی دوبارہ تدریس، علم اصول کے مباحث کی چھان بین اور منظم کرنا، احادیث کے سند پر توجہ
5 -اصفہان -دسویں صدی -محقق کرکی، شیخ بہایی، محمدتقی مجلسی، محمدباقر مجلسی، محقق خوانساری، فاضل ہندی، محقق اردبیلی، فیض کاشانی -جامع المقاصد، روضۃ المتقین، مجمع الفائدۃ و البرہان، مفاتیح الشرایع، کشف اللثام -حدیث مجامع کی تدوین، فقہ سیاسی پر توجہ
6 -کربلا - بارہویں صدی ہجری -محمدباقر وحید بہبہانی، سید علی طباطبایی، سید جواد حسینی عاملی، ملامہدی نراقی، ملااحمد نراقی، میرزائے قمی، سید محسن اعرجی -ریاض المسائل، مستند الشیعہ، جامع الشتات، مفتاح الکرامۃ - اخباریوں کے ساتھ مقابلہ، اجتہادی فقاہت کا احیاء، علم اصول فقہ کا پروان چڑھنا
7 -نجف -تیرہویں صدی ہجری -محمد حسن نجفی، شیخ انصاری، آخوند خراسانی، سید محمد کاظم طباطبایی یزدی، آقا رضا ہمدانی، سیدمحسن حکیم، سید ابو القاسم خویی -جواہر الکلام، مکاسب، عروۃ الوثقی، مصباح الفقیہ، مستمسک فی شرح العروۃ الوثقی، التنقیح -فقاہت استدلالی میں ارتقاء، فقہی اور اصولی مباحث میں جدید اختراعات، فقہ و اصول فقہ میں تقریرات کا آغاز
8 -قم -چودہویں صدی ہجری -شیخ عبدالکریم حائری یزدی، سیدحسین بروجردی، امام خمینی، محمد علی اراکی، سید محمدرضا گلپایگانی، محمد فاضل لنکرانی، حسین علی منتظری -تحریر الوسیلۃ، الدُّرُّ المَنضود فی احکام الحدود، دِراساتٌ فی ولایۃ الفقیہ و فقہ الدولۃ الاسلامیۃ، تفصیل الشریعۃ -فقہ سیاسی پر توجہ، فقہی مسائل کا قانون گذاری میں دخالت، جدید مسائل جیسے بینکنگ، بیمہ پالیسیز اور جدید فقہی طبی مسائل
اہل سنت فقہی مکاتب فکر
فقہ اہل سنت میں بھی بہت سارے فقہی مکاتب وجود میں آئے اور ان میں سے بعد ختم بھی ہو گئے ہیں۔[50]
ان میں سے جو مکاتب اب تک باقی ہیں وہ چار ہیں ان میں فقہیِ حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی شامل ہیں:[51]
نمبر شمار -مکتب فکر کا نام -تاریخ تأسیس -مشہور فقہاء -اہم فقہی آثار -خصوصیات
1 -حنفی -ابوحنیفہ(متوفی150ھ) -ابویوسف، محمد بن الحسن شیبانی، عبداللہ بن احمد نَسَفی، محمد بن علی حَصکَفی، شمس الائمہ سرخسی - الآثار، المبسوط، کنز الدقائق (فی الفقہ الحنفی)، الدُّرُّ المختار -قیاس، استحسان اور مصالح مُرسَلہ پر توجہ، قرآن اور رسول خداؐ کی یقینی سنت میں حکم موجود نہ ہونےکی صورت میں صحابہ کی طرف رجوع
2 – مالکی-مالک بن انس (متوفی179ھ) -عبدالرحمن بن قاسم، اسد بن فرات تونسی، ابوبکر باقلانی، ابنرشد، شاطبی، ابوالبرکات احمد بن محمد دردیر - مُوَطَّأ، الاسدیۃ، الانصاف، بدایۃ المجتہد و نہایۃ المقتصد، الموافقات، الشرح الکبیر - حکم شرعی کے استنباط میس قرآن، سنت اور اجماع کے بعد مدینہ کے لوگوں کے عمل کو معیار قرار دینا، اس کی بعد قیاس و مصالح مُرسَلہ
3 -شافعی - محمد بن ادریس شافعی (متوفی204ق) اسماعیل بن یحیی مُزَنی، ابنحجر ہیثمی، ابراہیم بن محمد دَسوقی، جلالالدین سیوطی، علی بن محمد ماوردی، یحیی بن شرف نووی -الام، مختصر المُزَنی، الحاوی الکبیر، الاِقناع فی الفقہ الشافعی، التنبیہ فی الفقہ الشافعی، روضۃالطالبین -قرآن و سنت میں حکم کا اصل موجود ہونے کی صورت میں قیاس پر عمل کرنا، استحسان اور مصالح مُرسَلہ کو حجت نہ ماننا
4 -حنبلی - احمد بن حنبل (متوفی241ھ) ابوالخطاب بغدادی، ابنقُدامہ مقدسی، ابنتیمیہ حرانی، منصور بن یونس بَہوتی - الہدایۃ، المغنی، کشافالقِناع - حدیثگرایی اور صحابہ کے فتوا پر عمل کرنا، احادیث حتی ضعیف اور مُرسَل احادیث کو قیاس پر ترجیح دینا[52]
علم فقہ کی ساخت
علم فقہ مختلف اور متنوع مسائل پر مشتمل ہے[53]
اور ان تمام مسائل کو ایک خاص ترتیب کے ساتھ مختلف ذیلی عناوین میں تقسیم کر کے فقہی ابواب یا "فقہی کتابوں" کا نام دیا گیا ہے۔[54]
محقق حلی کا اپنی کتاب شرایع الاسلام میں علم فقہ کے مسائل کو مختلف ابواب میں تقسیم کرنا شیعہ فقہ کی مشہور تقسیم بندی شمار کی جاتی ہے جو بعد میں آنے والے فقہاء پر بھی اثر انداز ہوئی ہے۔[55]
انہوں نے تمام فقہی احکام کو چار بنیادی گروہ عبادات، عقود، ایقاعات اور احکام میں تقسیم کرتے ہوئے ان کے ذیل میں متعلقہ ابواب کو مرتب کیا ہے۔[56]
ابوحامد غزالی کی کتاب اِحیاء علوم الدین،[57] ابنجِزی کلبی (آٹھویں صدی کے مالکی فقیہ) کی کتاب «القوانین الفقہیۃ»،[58]
محمود شلتوت کی کتاب «الاسلام عقیدۃ و شریعۃ»،[59] مصطفی احمدالزَرقا کی کتاب «مَدخل الفقہی العام»،[60] اور وَہْبَہ زُحیلی کی کتاب «الفقہ الاسلامی و ادلتہ»[61]
من جملہ اہل سنت فقہاء کی وہ کتابیں ہیں جن میں فقہی مسائل کو مختلف ابواب میں تقسیم کئے گئے ہیں۔
اسلامی فقہ کی تاریخ
فقہی احکام دین اسلام کے ظہور کے ساتھ وجود میں آ گئے ہیں۔[62] پیغمبر اسلامؐ کے دور میں مسلمان احکام الہی پر عمل کرنے کے لئے قرآن اور پیغمبر اکرمؐ کی سنت (قول، فعل اور تقریر) پر عمل کرتے تھے۔ اس دور میں احکام شرعی دریافت کرنے کا واحد مرجع اور ذریعہ پیغمبر اکرمؐ کی ذات تھی؛[63] اسی بنا پر بعض محققین نے عصر پیغمبر کو اسلامی فقہ کی تأسیس یا تشریع کا زمانہ قرار دیا ہے۔[64]
آنحضرت کی رحلت کے بعد گزر زمان اور نئے مسائل کے وجود میں آنے کی وجہ سے اہل سنت نے صحابہ اور تابعین کی طرف مراجعہ کرنا شروع کیا اور صحابہ اور تابعین بھی اپنی بساط کے مطابق قرآن اور سنت نبوی سے شرعی احکام استخراج کر کے بیان کرتے تھے۔ اگر کسی موضوع پر قرآن و سنت میں کوئی حکم نظر نہ آتا تو اجتہاد کر کے فتوا دیا کرتے تھے۔[65]
شیعہ قرآن اور پیغمبر اکرمؐ کی سنت کے ساتھ شیعہ ائمہؑ کی سنت کی طرف بھی رجوع کرتے تھے اور ان کی سنت کو بھی پیغمبر اکرمؐ کی سنت کا قائم مقام سمجھتے تھے۔[66]
یہاں سے اسلامی فقہ میں دو بنیادی مذاہب یعنی فقہ امامیہ اور فقہ اہل سنت وجود میں آگئے۔[67]
اہل سنت فقہی اعتبار سے صحابہ اور تابعین (دوسری صدی ہجری کے اوائل سے چوتھی صدی ہجری کے اوائل تک) کے بعد چار بڑے فقہی مذہب میں تقسیم ہو گئے جو فقہ حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی کے نام سے مشہور ہیں۔[68] اس کے بعد یعنی چوتھی صدی ہجری کے اوائل سے تیرہویں صدی ہجری تک فقہ اہل سنت میں اجتہاد کا عمل مذکورہ چار مذاہب کی تقلید کی وجہ سے سستی کا شکار رہا یہاں تک کہ اس لمبے عرصے میں مختلف فقہاء کی مختلف فقہی تألیفات سامنے آنے کے باوجود کوئی خاص پیشرفت دیکھنے میں نہیں آئی۔[69]
تیرہویں صدی ہجری میں عثمانی دور حکومت (1387ھ)[70] کے عروج کے ساتھ اسلامی معاشرے میں وسیع قانون گزاری کی ضرورت کے پیش نظر "الاحکام العدلیہ" نامی مجلہ[یادداشت 1] کے توسط سے فقہ حنفی کو مورد توجہ قرار دیا گیا جو اس کی ترقی اور رشد کا باعث بنا۔[71]
سالہا سال فقہی محافل اور مجالس میں فقہ حنفی کے تحت جو کہ عثمانی دور حکومت میں سرکاری مذہب مانا جاتا تھا، فتوا صادر کئے جاتے رہے یہاں تک کہ بعض مصلحین اور دانشوروں نے اس انحصار کو توڑا اور اسلامی قانون گذاری میں تمام مذاہب سے استفادہ کرنا شروع کیا۔[72]
بعض محققین کے مطابق مذہب اہل تشیع فقہی اعتبار سے عصر تشریع یعنی شیعہ ائمہؑ کے دور کے بعد سے عصر حاضر تک سات تاریخی ادوار سے گزرا ہے۔[73]
ان سات ادوار کی تفصیل کچھ یوں ہے: عصر "تبویب فقہ" (چوتھی صدی ہجری کے وسط سے پانچویں صدی ہجری کے درمیان تک)، فقاہت و اجتہاد میں عروج کا دور (پانچویں صدی ہجری)، اجتہاد اور فقاہت میں زوال اور تقلید کا دور (پانچویں صدی ہجری کے دوسرے نصف صدی سے چھٹی صدی کے آخر تک)، عصر تجدید حیات فقہی (چھٹی صدی ہجری کے اواخر سے گیارہویں صدی ہجری تک)، اخباریوں کے ظہور کا دور (گیارہویں صدی ہجری سے بارہویں صدی کے اواخر تک)، عصر تجدید حیات اجتہاد (تیرہویں صدی ہجری)، فقہی اختراعات کا دور(تیرہویں صدی ہجری) اور فقہ کا مختلف اجتماعی مسائل میں مداخلت کا دور(چھوہویں صدی ہجری سے دور حاضر تک)۔[74]
شیعہ اور اہل سنت کے علاوہ اباضیہ اور زیدیہ بھی منظم اور مدون فقہ کے حامل ہیں اور عصر حاضر تک اپنا وجود باقی رکھنے میں کامیاب ہوا ہے۔[75]
اہل سنت فقیہ مصطفی احمد الزرقا کے مطابق اباضیہ اور زیدیہ فقہی مبانی کے اعتبار سے اہل سنت سے بہت زیادہ نزدیک ہے۔[76]
نوٹ
یہ مجلہ مختلف موضوعات جیسے بیع، اجارات، کفالت، حوالہ، رہن، امانت، ہبہ، غصب، اتلاف، شرکت، وکالت، صلح، ابراء، شفعہ، حَجر، اکراہ، اقرار، دعوی، قضا، بینہ اور قسم پر 1851 قانونی مادوں اور 16 کتابوں پر مشتمل ہے۔ اس مجلے کا قیام عثمانی حکومت کے حکم پر عدالتی اور دوسرے مدنی احکام کو حنفی مذہب کے فقہی منابع سے استخراج کرنے اور ان کو قانونی اداروں میں نافظ کرنے کے لئے عمل میں لایا گیا۔(زرقا، المدخل الفقہی العام، 1425ھ، ج1، ص226-227)۔
حوالہ جات
۱-فضلی، مبادی علم الفقہ، 1416ھ، ج1، ص19۔
۲-حجوی، الفکر السامی فی تاریخ الفقہ الاسلامی، 1416ھ، ج1، ص68-71۔
۳-علامہ حلی، تحریر الاحکام، 1420ھ، ج1، ص40۔
۴-علامہ حلی، منتہی المطلب، 1412ھ، ج1، ص8۔
۵-عاملی، معالم الدین و ملاذ المجتہدین، 1374ھ، ص28-29۔
۶-خمینی، صحیفہ امام، 1389ہجری شمسی، ج21، ص289۔
۷-فضلی، مبادی علم الفقہ، 1416ھ، ج1، ص11۔
۸-علامہ حلی، منتہی المطلب، 1412ھ، ج1، ص7؛ شہید اول، ذکری الشیعۃ، 1419ھ، ج1، ص40؛ شہید ثانی، تمہید القواعد، 1416ھ، ص32؛ عاملی، معالم الدین و ملاذ المجتہدین، 1374ھ، ص33؛ حجوی، الفکر السامی فی تاریخ الفقہ الاسلامی، 1416ھ، ج1، ص61؛ الزحیلی، الفقہ الاسلامی و ادلتہ، 2017م، ج1، ص30؛ شلبی، المدخل فی التعریف بالفقہ الاسلامی و قواعد الملکیۃ و العقود فیہ، 1382ھ، ص22؛ زرقا، المدخل الفقہی العام، 1425ھ، ج1، ص65۔
۹-لطفی، مبادی فقہ، 1380ہجری شمسی، ص20۔
۱۰-شلبی، المدخل فی التعریف بالفقہ الاسلامی و قواعد الملکیۃ و العقود فیہ، 1382ھ، ص17۔
۱۱-عاملی، معالم الدین و ملاذ المجتہدین، 1374ھ، ص38۔
۱۲-عاملی، معالم الدین و ملاذ المجتہدین، 1374ھ، ص38؛ حجوی، الفکر السامی فی تاریخ الفقہ الاسلامی، 1416ھ، ج1، ص61؛ الزحیلی، الفقہ الاسلامی و ادلتہ، 2017م، ج1، ص30؛ اعرافی، موسوی، «گسترش موضوع فقہ نسبت بہ رفتارہای جوانحی»، ص104-105۔
۱۳-زحیلی، الفقہ الاسلامی و ادلتہ، 2017م، ج1، ص33؛ شلبی، المدخل فی التعریف بالفقہ الاسلامی و قواعد الملکیۃ و العقود فیہ، 1382ھ، ص23؛ جمعی از نویسندگان، الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ، 1427ھ، ج1، ص22؛ علامہ حلی، منتہی المطلب، 1412ھ، ج1، ص5؛ شہید اول، ذکری الشیعہ، 1419ھ، ج1، ص40؛ ضیائیفر، «اہداف علم فقہ: دنیوی و اخروی بودن علم فقہ»، ص18-19۔
۱۴-زرقا، المدخل الفقہی العام، 1425ھ، ج1، ص73؛ مظفر، اصول الفقہ، 1405ھ، ج2، ص47۔
۱۵-مطہری، کلیات علوم اسلامی: اصول فقہ و فقہ، 1394ہجری شمسی، ص16-17۔
۱۶-بحرانی، الدرر النجفیۃ، 1423ھ، ج3، ص290؛ علیپور، المدخل الی تاریخ علم الاصول، 1430ھ، ص189۔
۱۷-بحرانی، الدرر النجفیۃ، 1423ھ، ج3، ص290۔
۱۸-صادقی تہرانی، علم اصول در ترازوی نقد، قم، ص5۔
۱۹-جیزانی، معالم اصول الفقہ عند اہل السنۃ و الجماعۃ، 1429ھ، ص68؛ حارثی، العقود الفضیۃ فی اصول الاباضیۃ، 1438ھ، ص6۔
۲۰-زرقا، المدخل الفقہی العام، 1425ھ، ج1، ص75۔
۲۱-مظفر، اصول الفقہ، 1405ھ، ج2، ص57؛ صدر، المعالم الجدیدۃ للاصول، 1437ھ، ص73۔
۲۲-فخر رازی، المحصول، 1418ھ، ج4، ص35۔
۲۳-محقق حلی، معارج الاصول، 1423ھ، ص180-181۔
۲۴-نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: زرقا، المدخل الفقہی العام، 1425ھ، ج1، ص87-107۔
۲۵-شبلی، المدخل فی التعریف بالفقہ الاسلامی و قواعد الملکیہ و العقود فیہ، 1382ھ، ص154۔
۲۶-مظفر، اصول الفقہ، 1405ھ، ج2، ص178-180۔
۲۷-ابو زہرہ، الإمام زید، 1425ھ، ص507۔
۲۸-مہریزی، «درآمدی بر قلمرو فقہ»، ص212۔
۲۹-خمینی، صحیفہ امام، 1389ہجری شمسی، ج21، ص289۔
۳۰-جمعی از نویسندگان، الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ، 1427ھ،
۳۱-مہریزی، «درآمدی بر قلمرو فقہ»، ص213-214۔
۳۲-سروہجری شمسی، «خدمات و حسنات دین»، ص13۔
۳۳-مجتہد شبستری، «بستر معنوی و عقلایی علم فقہ»، ص9۔
۳۴-بحرانی، المعجم الاصولی، 1426ھ، ج2، ص539۔
۳۵-علوی گنابادی، «پژوہشی دربارہ نقش اجتہاد در تشخیص موضوعات احکام»، ص104۔
۳۶-یزدی، العروۃ الوثقی، 1409ھ، ج1، ص25؛ حکیم، مستمسک العروۃ الوثقی، دار احیاء التراث العربی، ج1، ص105؛ غروی تبریزی، التنقیح فی شرح العروۃ الوثقی، 1407ھ، ج1، ص349؛ بہوتی حنبلی، کشاف القناع عن متن الاقناع، دار الکتب العلمیہ، ج1، ص307؛ دسوقی، حاشیہ الدسوقی علی الشرح الکبیر، دار الفکر، ج1، ص526؛ رملی، نہایہ المحتاج الی شرح المنہاج، 1404ھ، ج1، ص438۔
۳۷-بحرانی، المعجم الاصولی، 1426ھ، ج2، ص539۔
۳۸-بحرانی، المعجم الاصولی، 1426ھ، ج2، ص539۔
۳۹-نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: یزدی، العروۃ الوثقی، 1409ھ، ج1، ص25؛ حکیم، مستمسک العروۃ الوثقی، دار احیاء التراث العربی، ج1، ص105؛ غروی تبریزی، التنقیح فی شرح العروۃ الوثقی، 1407ھ، ج1، ص349۔
۴۰-بحرانی، المعجم الاصولی، 1426ھ، ج2، ص539۔
۴۱-بحرانی، المعجم الاصولی، 1426ھ، ج2، ص540۔
۴۲-مہریزی، «درآمدی بر قلمرو فقہ»، ص212۔
۴۳-میرزای قمی، القوانین، 1430ھ، ج1، ص57-58۔
۴۴-یزدی، العروۃ الوثقی، 1409ھ، ج1، ص25۔
۴۵-نجفی، جواہر الکلام، دار إحیاء التراث العربی، ج27، ص284۔
۴۶-کاشف الغطاء، کشف الغطاء، 1420ھ، ج2، ص212؛ حکیم، مستمسک العروۃ الوثقی، دار احیاء التراث العربی، ج1، ص105؛ غروی تبریزی، التنقیح فی شرح العروۃ الوثقی، 1407ھ، ج1، ص349۔
۴۷-کاشف الغطاء، کشف الغطاء، 1420ھ، ج2، ص212۔
۴۸-نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: ربانی بیرجندی، مکاتب فقہی، 1395ہجری شمسی، ص81-213؛ شلبی، المدخل فی التعریف بالفقہ الاسلامی و قواعد الملکیۃ و العقود فیہ، 1382ھ، ص128-165۔
۴۹-ملاحظہ کریں: گرجی، تاریخ فقہ و فقہا، 1398ہجری شمسی، ص117-293؛ مکارم شیرازی، دایرۃالمعارف فقہ مقارن، 1427ھ، ج1، ص108-132۔
۵۰-شلبی، المدخل فی التعریف بالفقہ الاسلامی و قواعد الملکیۃ و العقود فیہ، 1382ھ، ص129؛ مکارم شیرازی، دایرۃ المعارف فقہ مقارن، 1427ھ، ج1، ص137۔
۵۱-شلبی، المدخل فی التعریف بالفقہ الاسلامی و قواعد الملکیۃ و العقود فیہ، 1382ھ، ص129۔
۵۲-نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: شلبی، المدخل فی التعریف بالفقہ الاسلامی و قواعد الملکیۃ و العقود فیہ، 1382ھ، ص128-165۔
۵۳-اسلامی، درآمدی بر فقہ اسلامی، 1385ہجری شمسی، ص111۔
۵۴-اسلامی، درآمدی بر فقہ اسلامی، 1385ہجری شمسی، ص112-113؛ یعقوبنژاد، «الگووارہای نوین در ساختارشناسی فقہ»، ص9۔
۵۵-مطہری، کلیات علوم اسلامی (اصول فقہ، فقہ)، 1394ہجری شمسی، ص106؛ مکارم شیرازی، دایرۃ المعارف فقہ مقارن، 1427ھ، ج1، ص150۔
۵۶-محقق حلی، شرایع الاسلام، 1409ھ، ج1، ص5-7؛ مطہری، کلیات علوم اسلامی (اصول فقہ، فقہ)، 1394ہجری شمسی، ص106۔
۵۷-غزالی، إحیاء علوم الدین، دار المعرفۃ، ج1، ص2-4۔
۵۸-ابن جزی، القوانین الفقہیۃ، 1434ھ، ص22-23۔
۵۹-شلتوت، الاسلام عقیدۃ و شریعۃ، 1407ھ، ص73-74۔
۶۰-زرقا، مدخل الفقہی العام، 1425ھ، ج1، ص50-58۔
۶۱- زحیلی، الفقہ الاسلامی و ادلتہ، 2017م، ج1، ص231۔
۶۲-زلمی، خاستگاہہای اختلاف در فقہ مذاہب، 1387ہجری شمسی، ص33۔
۶۳-شلبی، المدخل فی التعریف بالفقہ الاسلامی و قواعد الملکیۃ و العقود فیہ، 1382ھ، ص47-48۔
۶۴-شلبی، المدخل فی التعریف بالفقہ الاسلامی و قواعد الملکیۃ و العقود فیہ، 1382ھ، ص39۔
۶۵-جمعی از نویسندگان، الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ، 1427ھ، ج1، ص27-28؛ الزحیلی، الفقہ الاسلامی و ادلتہ، 2017م، ج1، ص32؛ زلمی، خاستگاہہای اختلاف در فقہ مذاہب، 1387ہجری شمسی، ص34۔
۶۶-ہاشمی گلپایگانی، مباحث الالفاظ: تقریرات درس اصول آیتاللہ سیستانی، 1441ھ، ج1، ص47۔
۶۷-سبحانی، تاریخ الفقہ الاسلامی و ادوارہ، 1419ھ، ص21۔
۶۸-برای نمونہ نگاہ کنید بہ زحیلی، الفقہ الاسلامی و ادلتہ، ج1، ص43-52۔
۶۹-سبحانی، تاریخ الفقہ الاسلامی و ادوارہ، 1419ھ، ص75؛ مکارم شیرازی، دایرۃ المعارف فقہ مقارن، 1427ھ، ج1، ص143۔
۷۰- زرقا، المدخل الفقہی العام، 1425ھ، ج1، ص199۔
۷۱-زرقا، المدخل الفقہی العام، 1425ھ، ج1، ص226-227؛ مکارم شیرازی، دایرۃ المعارف فقہ مقارن، 1427ھ، ج1، ص148۔
۷۲-مکارم شیرازی، دایرۃ المعارف فقہ مقارن، 1427ھ، ج1، ص149۔
۷۳-مکارم شیرازی، دایرۃ المعارف فقہ مقارن، 1427ھ، ج1، ص105۔
۷۴-نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: مکارم شیرازی، دایرۃ المعارف فقہ مقارن، 1427ھ، ج1، ص105-132۔
۷۵-جمعی از نویسندگان، موسوعۃ الفقہ الاسلامی، 1410ھ، ج1، ص34-35۔
۷۶- زرقا، المدخل الفقہی العام، 1425ھ، ج1، ص191۔
مآخذ
ابنجزی، محمد بن احمد، القوانین الفقہیۃ، بیروت، دار ابن حزم، چاپ اول، 1434ھ۔
زرقا، مصطفی احمد، مدخل الفقہی العام، دمشھ، دارالقلم، 1425ھ۔
اسلامی، رضا، درآمدی بر فقہ اسلامی، قم، انتشارات مرکز مدیریت حوزہ علمیہ قم، چاپ اول، 1385ہجری شمسی۔
اعرافی، علیرضا و سیدنقی موسوی، «گسترش موضوع فقہ نسبت بہ رفتارہای جوانحی»، مجلہ فقہ، شمارہ 70، دیماہ 1390ہجری شمسی۔
بحرانی، محمدصنقور، المعجم الاصولی، قم، منشورات نقہجری شمسی، چاپ دوم، 1426ھ۔
بحرانی، یوسف، الدرر النجفیۃ، بیروت، دار المصطفی، 1423ھ۔
بہوتی حنبلی، ابنادریس، کشاف القناع عن متن الاقناع، بیروت، دار الکتب العلمیہ، بیتا۔
جمعی از نویسندگان، الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ، کویت، وزارۃ الاوقاف و الشئون الاسلامیۃ، 1427ھ۔
جمعی از نویسندگان، موسوعۃ الفقہ الاسلامی، قاہرہ، وزارۃ الاوقاف المجلس الاعلی للشئون الاسلامیہ، 1410ھ۔
جیزانی، معالم اصول الفقہ عند اہل السنۃ و الجماعۃ، مدینہ منورہ، دار ابن جوزی، 1429ھ۔
حارثی، سالم بن محمد، العقود الفضیۃ فی اصول الاباضیۃ، عمان، وزارۃ التراث و الثقافۃ، 1438ھ۔
حجوی ثعالبی، محمد بن الحسن، الفکر السامی فی تاریخ الفقہ الاسلامی، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1416ھ۔
حکیم، سیدمحسن، مستمسک العروۃ الوثقی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بیتا۔
خمینی، سید روحاللہ، صحیفہ امام، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، چاپ پنجم، 1389ہجری شمسی۔
دسوقی مالکی، احمد بن عرفہ، حاشیۃ الدسوقی علی الشرح الکبیر، بیروت، دار الفکر، بیتا۔
ربانی بیرجندی، محمدحسن، مکاتب فقہی، مشہد، دانشگاہ علوم اسلامی رضوی، 1395ہجری شمسی۔
رملی، شمسالدین، نہایہ المحتاج الی شرح المنہاج، بیروت، دار الفکر، 1404ھ۔
زحیلی، وہبۃ، الفقہ الاسلامی و ادلتہ، دمشھ، دارالفکر المعاصر، 2017ء۔
زلمی، مصطفی ابراہیم، خاستگاہہای اختلاف در فقہ مذاہب، ترجمہ حسین صابری، مشہد، بنیاد پژوہشہای اسلامی، 1387ہجری شمسی۔
سبحانی، جعفر، تاریخ الفقہ الاسلامی و ادوارہ، بیروت، دارالاضواء، چاپ اول، 1419ھ۔
سروہجری شمسی، عبدالکریم، «خدمات و حسنات دین»، مجلہ کیان، شمارہ 27، سال 1374ہجری شمسی۔
شلبی، محمدمصطفی، المدخل فی التعریف بالفقہ الاسلامی و قواعد الملکیۃ و العقود فیہ، مصر، دارالتألیف، 1382ھ۔
شلتوت، محمود، الاسلام عقیدۃ و شریعۃ، قاہرہ، دارالشروھ، چاپ دوازدہم، 1421ھ۔
شہید اول، محمد بن مکی، ذکری الشیعۃ فی احکام الشریعہ، قم، مؤسسہ آلالبیت(ع)، چاپ اول، 1419ھ۔
شہید ثانی، زینالدین بن علی، تمہیدالقواعد، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، 1416ھ۔
صدر، سید محمدباقر، المعالم الجدیدۃ للاصول، قم، انتشارات دارالصدر، چاپ چہارم، 1437ھ۔
ضیائیفر، سعید، «اہداف علم فقہ: دنیوی و اخروی بودن علم فقہ»، مجلہ فقہ، شمارہ 3، پاییز 1387ہجری شمسی۔
عاملی، شیخ حسن بن زین الدین، معالم الدین و ملاذ المجتہدین، قم، دارالفکر، چاپ اول، 1374ھ۔
علامہ حلی، حسن بن یوسف، تحریر الاحکام الشرعیۃ علی مذہب الامامیۃ، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، 1420ھ۔
علامہ حلی، حسن بن یوسف، منتہی المطلب، مشہد، مجمع البحوث الاسلامیہ، 1412ھ۔
علوی گنابادی، سیدجعفر و محمدتقی فخعلی، «پژوہشی دربارہ نقش اجتہاد در تشخیص موضوعات احکام»، مطالعات اسلامی: فقہ و اصول، شمارہ 1/28، بہار و تابستان 1388ہجری شمسی۔
علیپور، مہدی، المدخل الی تاریخ علم الاصول، قم، انتشارات جامعۃ المصطفی، 1430ھ۔
غروی تبریزی، علی، التنقیح فی شرح العروۃ الوثقی، قم، انتشارات لطفی، 1407ھ۔
غزالی، ابوحامد، احیاء علوم الدین، دار الکتاب العربی، بیجا، بیتا۔
فضلی، عبدالہادی، مبادئ علم الفقہ، بیروت، مؤسسہ امالقری للتحقیق و النشر، 1416ھ۔
کاشفالغطاء، جعفر، کشف الغطاء عن مبہمات شریعۃ الغراء، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، 1420ھ۔
گرجی، ابوالقاسم، تاریخ فقہ و فقہا، تہران، انتشارات سمت، چاپ ہفدہم، 1398ہجری شمسی۔
لطفی، اسداللہ، مبادی فقہ، قم، مؤسسہ انتشارات ہجرت، 1380ہجری شمسی۔
مجتہد شبستری، محمد، «بستر معنوی و عقلایی علم فقہ»، مجلہ کیان، شمارہ 46، 1378ہجری شمسی۔
محقق حلی، جعفر بن حسن، شرایعالاسلام، قم، انتشارات استقلال، چاپ دوم، 1409ھ۔
محقق حلی، جعفر بن حسن، معارج الاصول، قم، انتشارات سرور، 1423ھ۔
مطہری، مرتضی، کلیات علوم اسلامی (اصول فقہ، فقہ)، قم، انتشارات صدرا، 1394ہجری شمسی۔
مظفر، محمدرضا، اصولالفقہ، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، 1405ھ۔
مکارم شیرازی، ناصر، انوار الفقاہہ (البیع)، قم، مدرسہ الامام علی بن ابی طالب(ع)، 1425ھ۔
مکارم شیرازی، ناصر، دائرۃ المعارف فقہ مقارن، قم، مدرسہ امام علی بن ابی طالب(ع)، چاپ اول، 1427ھ۔
مہریزی، مہدی، «درآمدی بر قلمرو فقہ»، نقد و نظر، شمارہ 2، سال 1375ہجری شمسی۔
میرزای قمی، سید ابوالقاسم، القوانین المحکمۃ فی الاصول، قم، احیاء الکتب الاسلامیۃ، چاپ اول، 1430ھ۔
نجفی، محمدحسن، جواہرالکلام، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بیتا۔
ہاشمی گلپایگانی، سید ہاشم، مباحث الالفاظ: تقریرات درس اصول آیتاللہ سیستانی، قم، اسماعیلیان، چاپ اول، 1441ھ۔
یزدی، سید محمدکاظم، العروۃ الوثقی، بیروت، مؤسسۃالاعلمی، 1409ھ۔
یعقوب نژاد، محمدہادی، «الگووارہای نوین در ساختارشناسی فقہ»، مجلہ فقہ، شمارہ 2، تابستان 1397ہجری شمسی۔