امام علی علیہ السلام کاخطبہ شقشقیہ میں اَبوبَکْر بن ابی قُحافہ سے خطاب

 

الخطبة الشقشقية - ويكيبيديا

امام علی علیہ السلام کاخطبہ شقشقیہ میں اَبوبَکْر بن ابی قُحافہ سے خطاب
ومن خطبة على عليه‌السلام
وهي المعروفة بالشقشقية
وتشتمل على الشكوى من أمر الخلافة ثم ترجيح صبره عنها ثم مبايعة الناس له
أَمَا واللَّه لَقَدْ تَقَمَّصَهَا فُلَانٌ وإِنَّه لَيَعْلَمُ أَنَّ مَحَلِّي مِنْهَا مَحَلُّ الْقُطْبِ مِنَ الرَّحَى، يَنْحَدِرُ عَنِّي السَّيْلُ ولَا يَرْقَى إِلَيَّ الطَّيْرُ، فَسَدَلْتُ دُونَهَا ثَوْباً وطَوَيْتُ عَنْهَا كَشْحاً وطَفِقْتُ أَرْتَئِي بَيْنَ أَنْ أَصُولَ بِيَدٍ جَذَّاءَ أَوْ أَصْبِرَ عَلَى طَخْيَةٍ عَمْيَاءَ ، يَهْرَمُ فِيهَا الْكَبِيرُ ويَشِيبُ فِيهَا الصَّغِيرُ، ويَكْدَحُ فِيهَا مُؤْمِنٌ حَتَّى يَلْقَى رَبَّه،
ترجيح الصبر
فَرَأَيْتُ أَنَّ الصَّبْرَ عَلَى هَاتَا أَحْجَى فَصَبَرْتُ وفِي الْعَيْنِ قَذًى وفِي الْحَلْقِ شَجًا أَرَى تُرَاثِي نَهْباً حَتَّى مَضَى الأَوَّلُ لِسَبِيلِه، فَأَدْلَى بِهَا إِلَى فُلَانٍ بَعْدَه، ثُمَّ تَمَثَّلَ بِقَوْلِ الأَعْشَى:
شَتَّانَ مَا يَوْمِي عَلَى كُورِهَا
ويَوْمُ حَيَّانَ أَخِي جَابِرِ
فَيَا عَجَباً بَيْنَا هُوَ يَسْتَقِيلُهَا فِي حَيَاتِه، إِذْ عَقَدَهَا لِآخَرَ بَعْدَ وَفَاتِه

امام علی علیہ السلام کے ایک خطبہ کا حصہ
جسے شقشقیہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے
(شقشقہ اونٹ کے منہ میں وہ گوشت کا لوتھڑا ہے جو غصہ اور ہیجان کے وقت باہر نکل آتا ہے )
آگاہ ہو جاؤ!
 کہ خداکی قسم فلاں شخص (اَبوبَکْر بن ابی قُحافہ) نے قمیص خلافت کو کھینچ تان کر پہن لیا ہے حالانکہ اسے معلوم ہے کہ خلات کی چکی کے لئے میری حیثیت مرکزی کیل کی ہے۔علم کا سیلاب میری ذات سے گزر کرنیچے جاتا ہے اور میری بلندی تک کسی کا طائر فکر بھی پرواز نہیں کر سکتا ہے۔پھر بھی میں نے خلافت کے آگے پردہ ڈا ل دیا اور اس سے پہلے تہی کرلی اوریہ سوچنا شروع کردیا کہ کٹے ہوئے ہاتھوں سے حملہ کردوں یا اسی بھیانک اندھیرے پرصبر کرلوں جس میں سن رسیدہ بالکل ضعیف ہو جائے اوربچہ بوڑھا ہو جائے اور مومن محنت کرتے کرتے خدا کی بارگاہ تک پہنچ جائے۔
تو میں نے دیکھا کہ ان حالات میں صبر ہی قرین عقل ہے تو میں نے اس عالم میں صبر کرلیا کہ آنکھوں میں مصائب کی کھٹک تھی اورگلے میں رنج و غم کے پھندے تھے۔میں اپنی میراث کو لٹتے دیکھ رہا تھا ۔یہاں تک کہ پہلے خلیفہ نے اپنا راستہ لیا اور خلافت کو اپنے بعد فلاں کے حوالے کردیا بقول اعشی:
''کہاں وہ دن جو گزرتا تھا میرا اونٹوں پر۔کہاں یہ دن کہ میں حیان کے جوار میں ہوں '' حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی میں استعفا دے رہا تھا اور مرنے کے بعد کے لئے دوسرے کے لئے طے کرگیا
لَشَدَّ مَا تَشَطَّرَا ضَرْعَيْهَا ، فَصَيَّرَهَا فِي حَوْزَةٍ خَشْنَاءَ يَغْلُظُ كَلْمُهَا ، ويَخْشُنُ مَسُّهَا ويَكْثُرُ الْعِثَارُ فِيهَا والِاعْتِذَارُ مِنْهَا، فَصَاحِبُهَا كَرَاكِبِ الصَّعْبَةِ ، إِنْ أَشْنَقَ لَهَا خَرَمَ وإِنْ أَسْلَسَ لَهَا تَقَحَّمَ ، فَمُنِيَ النَّاسُ لَعَمْرُ اللَّه بِخَبْطٍ وشِمَاسٍ وتَلَوُّنٍ واعْتِرَاضٍ ، فَصَبَرْتُ عَلَى طُولِ الْمُدَّةِ وشِدَّةِ الْمِحْنَةِ حَتَّى إِذَا مَضَى لِسَبِيلِه، جَعَلَهَا فِي جَمَاعَةٍ زَعَمَ أَنِّي أَحَدُهُمْ فَيَا لَلَّه ولِلشُّورَى ، مَتَى اعْتَرَضَ الرَّيْبُ فِيَّ مَعَ الأَوَّلِ مِنْهُمْ، حَتَّى صِرْتُ أُقْرَنُ إِلَى هَذِه النَّظَائِرِ ، لَكِنِّي أَسْفَفْتُ إِذْ أَسَفُّوا وطِرْتُ إِذْ طَارُوا، فَصَغَا رَجُلٌ مِنْهُمْ لِضِغْنِه ، ومَالَ الآخَرُ لِصِهْرِه مَعَ هَنٍ وهَنٍ إِلَى أَنْ قَامَ ثَالِثُ الْقَوْمِ نَافِجاً حِضْنَيْه ، بَيْنَ نَثِيلِه ومُعْتَلَفِه ، وقَامَ مَعَه بَنُو أَبِيه يَخْضَمُونَ مَالَ اللَّه،
بیشک دونوں نے مل کر شدت سے اس کے تھنوں کو دوہا ہے۔اور اب ایک ایسی درشت اور سخت منزل میں رکھ دیا ہے جس کے زخم کاری ہیں اورجس کو چھونے سے بھی درشتی کا احساس ہوتا ہے۔لغزشوں کی کثرت ہے اورمعذرتوں کی بہتات! اس کو برداشت کرنے والا ایس ہی ہے جیسے سر کش اونٹنی کا سوار کہ مہار کھنیچ لے تو ناک زخمی ہو جائے اور ڈھیل دیدے تو ہلاکتوں میں کود پڑے۔تو خدا کی قسم لوگ ایک کجروی' سر کشی' تلون مزاجی اور بے راہ روی میں مبتلا ہوگئے ہیں اور میں نے بھی سخت حالات میں طویل مدت تک صبر کیا یہاں تک کہ وہ بھی اپنے راستہ چلا گیا لیکن خلافت کو ایک جماعت میں قرار دے گیا جن میں ایک مجھے بھی شمار کرگیا جب کہ میرا اس شوریٰ سے کیا تعلق تھا؟مجھ میں پہلے دن کون سا عیب و ریب تھا کہ آج مجھے ایسے لوگوں کے ساتھ ملایا جا رہا ہے۔لیکن اس کے باوجود میں نے انہیں کی فضا میں پرواز کی اور یہ نزدیک فضا میں اڑے تو وہاں بھی ساتھ رہا اور اونچے اڑے تو وہاں بھی ساتھ رہا مگرپھر بھی ایک شخص اپنے کینہ کی بنا پرمجھ سے منحرف ہوگیا اور دوسری دامادی کی طرف جھک گیا اور کچھ اوربھی ناقابل ذکراسباب واشخاص تھے جس کے نتجیہ میں تیسرا شخص سرگین اورچارہ کے درمیان پیٹ پھلائے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا اور اس کے ساتھ اس کے اہل خاندان بھی کھڑے ہوئے جو مال خا کو اس طرح ہضم کر رہے تھے
خِضْمَةَ الإِبِلِ نِبْتَةَ الرَّبِيعِ ، إِلَى أَنِ انْتَكَثَ عَلَيْه فَتْلُه وأَجْهَزَ عَلَيْه عَمَلُه، وكَبَتْ بِه بِطْنَتُه
مبايعة علي
فَمَا رَاعَنِي إِلَّا والنَّاسُ كَعُرْفِ الضَّبُعِ ، إِلَيَّ يَنْثَالُونَ عَلَيَّ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ، حَتَّى لَقَدْ وُطِئَ الْحَسَنَانِ وشُقَّ عِطْفَايَ مُجْتَمِعِينَ حَوْلِي كَرَبِيضَةِ الْغَنَمِ ، فَلَمَّا نَهَضْتُ بِالأَمْرِ نَكَثَتْ طَائِفَةٌ ومَرَقَتْ أُخْرَى وقَسَطَ آخَرُونَ كَأَنَّهُمْ لَمْ يَسْمَعُوا اللَّه سُبْحَانَه يَقُولُ:( تِلْكَ الدَّارُ الآخِرَةُ نَجْعَلُها لِلَّذِينَ، لا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الأَرْضِ ولا فَساداً، والْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ ) ،

جس طرح اونٹ بہار کی گھاس کو چرلیتا ہے یہاں تک کہ اس کی بٹی ہوئی رسی کے بل کھل گئے اور اس کے اعمال نے اس کا خاتمہ کردیا اور شکم پری نے منہ کے بل گرادیا
اس وقت مجھے جس چیزنے دہشت زدہ کردیا یہ تھی کہ لوگ بجوں کی گردن(۱)
 کے بال کی طرح میرے گرد جمع ہوگئے اور چاروں طرف سے میرے اوپر ٹوٹ پڑے یہاں تک کہ حسن و حسین کچل گئے اور میری ردا کے کنارے پھٹ گئے ۔یہ سب میرے گرد بکریوں کے گلہ کی طرح گھیرا ڈالے ہوئے تھے۔
لیکن جب میں نے ذمہ داری سنبھالی اوراٹھ کھڑے ہوا تو ایک گروہ نے بیعت توڑ دی اوردوسرا دین سے باہرنکل گیا اور تیسرے نے فسق اختیار کرلیا جیسے کہ ان لوگوں نے یہ ارشاد الٰہی سنا ہی نہیں ہے کہ'' یہ دارآخرت ہم صرف ان لوگوں کے لئے قراردیتے ہیں جو دنیا میں بلندی اور فساد نہیں چاہتے ہیں اور عاقبت صرف اہل تقوی کے لئے ہیں ''۔
بَلَى واللَّه لَقَدْ سَمِعُوهَا ووَعَوْهَا، ولَكِنَّهُمْ حَلِيَتِ الدُّنْيَا فِي أَعْيُنِهِمْ ورَاقَهُمْ زِبْرِجُهَا
أَمَا والَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وبَرَأَ النَّسَمَةَ ، لَوْ لَا حُضُورُ الْحَاضِرِ وقِيَامُ الْحُجَّةِ بِوُجُودِ النَّاصِرِ، ومَا أَخَذَ اللَّه عَلَى الْعُلَمَاءِ، أَلَّا يُقَارُّوا عَلَى كِظَّةِ ظَالِمٍ ولَا سَغَبِ مَظْلُومٍ، لأَلْقَيْتُ حَبْلَهَا عَلَى غَارِبِهَا - ولَسَقَيْتُ آخِرَهَا بِكَأْسِ أَوَّلِهَا - ولأَلْفَيْتُمْ دُنْيَاكُمْ هَذِه أَزْهَدَ عِنْدِي مِنْ عَفْطَةِ عَنْزٍ
قَالُوا وقَامَ إِلَيْه رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ السَّوَادِ - عِنْدَ بُلُوغِه إِلَى هَذَا الْمَوْضِعِ مِنْ خُطْبَتِه - فَنَاوَلَه كِتَاباً قِيلَ إِنَّ فِيه مَسَائِلَ كَانَ يُرِيدُ الإِجَابَةَ عَنْهَا فَأَقْبَلَ يَنْظُرُ فِيه [فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قِرَاءَتِه] قَالَ لَه ابْنُ عَبَّاسٍ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ - لَوِ اطَّرَدَتْ خُطْبَتُكَ مِنْ حَيْثُ أَفْضَيْتَ!
فَقَالَ هَيْهَاتَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ - تِلْكَ شِقْشِقَةٌ هَدَرَتْ ثُمَّ قَرَّتْ

ہاں ہاں خداکی قسم ان لوگوں نے یہ ارشاد سنا بھی ہے اور سمجھے بھی ہیں لیکن دنیا ان کی نگاہوں میں آراستہ ہوگئی اور اس کی چمک دمک نے انہیں نبھا لیا۔
آگاہ ہو جاؤ!
 وہ خدا گواہ ہے جس نے دانہ کو شگافتہ کیا ہے اورذی روح کو پیدا کیا ہے کہ اگر حاضرین کی موجودگی اور انصار کے وجود سے حجت تمام نہ ہوگئی ہوتی اوراللہ کا اہل علم سے یہ عہد نہ ہوتا کہ خبردار ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی گرسنگی پرچین سے نہ بیٹھنا تو میں آج بھی اس خلافت کی رسی کو اسی کی گردن پر ڈال کر ہنکا دیتا اور اس کی آخر کواول ہی کے کاسہ سے سیراب کرتا اور تم دیکھ لیتے کہ تمہاری دنیا میری نظرمیں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ بے قیمت ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اس موقع پرایک عراقی باشندہ اٹھ کھڑا ہوا اوراس نے آپ کو ایک خط دیا جس ک بارے میں خیال ہے کہ اس میں کچھ فوری جواب طلب مسائل تھے۔چنانچہ آپ نے اس خط کو پڑھنا شروع کردیا اور جب فارغ ہوئے تو ابن عباس نے عرض کی کہ حضوربیان جاری رہے؟فرمایا کہ افسوس ابن عباس یہ توایک شقشقہ تھا جوابھر کر دب گیا۔
* *
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَوَاللَّه مَا أَسَفْتُ عَلَى كَلَامٍ قَطُّ - كَأَسَفِي عَلَى هَذَا الْكَلَامِ - أَلَّا يَكُونَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عليه‌السلام بَلَغَ مِنْه حَيْثُ أَرَادَ.
ابن عباس کہتے ہیں کہ بخدا قسم مجھے کسی کلام کے نا تمام رہ جانے کا اس قدر افسوس نہیں ہوا جتنا افسوس اس امر پرہوا کہ امیر المومنین اپنی بات پوری نہ فرما سکے اور آپ کا کلام نا تمام رہ گیا۔
* *
سید شریف رضی فرماتے ہیں
قال الشريف رضيرضي‌الله‌عنه قوله عليه‌السلام كراكب الصعبة إن أشنق لها خرم - وإن أسلس لها تقحم - يريد أنه إذا شدد عليها في جذب الزمام - وهي تنازعه رأسها خرم أنفها - وإن أرخى لها شيئا مع صعوبتها - تقحمت به فلم يملكها - يقال أشنق الناقة إذا جذب رأسها بالزمام فرفعه - وشنقها أيضا ذكر ذلك ابن السكيت في إصلاح المنطق - وإنما قالعليه‌السلام أشنق لها ولم يقل أشنقها - لأنه جعله في مقابلة قوله أسلس لها - فكأنهعليه‌السلام قال إن رفع لها رأسها بمعنى أمسكه عليها بالزمام -
---
سید شریف رضی فرماتے ہیں کہ امیر المومنین علیہ السلام کے ارشاد
''ان اشنقلها……
کا مفہوم یہ ہے کہ اگر ناقہ پر مہارکھینچنے میں سختی کی جائے گیاور وہ سر کشی پرآمادہ ہو جائے گا تو اس کی ناک زخمی ہو جائے گی اوراگر ڈھیلا چھوڑ دیا جائے تو اختیار سے باہر نکل جائے گا۔عرب''اشنق الناقة'' اس موقع پر استعمال کرتے ہیں جب اس کے سر کو مہار کے ذریعہ کھینچا جاتا ہے اور وہ سر اٹھالیتا ہے۔اس کیفیت کو''شنقها ''سے بھی تعبیر کرتے ہیں جیسا کہ ابن السکیت نے'' اصلاح المنطق'' میں بیان کیا ہے۔لیکن امیرالمومنین نے اس میں ایک لام کا اضافہ کردیا ہے ''اشنق لھا'' تاکہ بعد کے جملہ'' اسلس لها '' سے ہم آہنگ ہو جائے اور فصاحت کا نظام درہم برہم نہ ہونے پائے۔
---
(۱)
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عثمان کے تصرفات نے تمام عالم اسلام کوناراض کردیا تھا۔حضرت عائشہ انہیں نعثل یہودی قراردے کر لوگوں کو قتل پرآمادہ کر رہی تھیں۔طلحہ انہیں واجب القتل قراردے رہا تھا۔زبیر در پردہ قاتلوں کی حمایت کر رہا تھا لیکن ان سب کا مقصد امت اسلامیہ کو نا اہل سے نجات دلانا نہیں تھا بلکہ آئندہ خلافت کی زمین کو ہموار کرنا تھا اورحضرت علی اس حقیقت سے مکمل طور پر باخبر تھے۔اس لئے جب انقلابی گروہ نے خلافت کی پیشکش تو آپنے انکار کردیا کہ قتل کا سارا الزام اپنی گردن پرآجائے گا اور اس وقت تک قبول نہیں کیا جب تک تمام انصار و مہاجرین نے اس امر کا اقرارنہیں کرلیا کہ آپ کے علاوہ امت کا مشکل کشاہ کوئی نہیں ہے اور اس کے بعد بھی منبر رسول (ص) پر بٹھ کر بیعت لی تاکہ جانشینی کاصحیح مفہوم واضح ہو جائے۔یہ اور بات ہے کہ اس وقت بھی سعد بن ابی وقاص اورعبداللہ بن عمر جیسے افراد نے بیعت نہیں کی اور حضرت عائشہ کو بھی جیسے ہی اس '' حادثہ'' کی اطلاع ملی انہوں نے عثمان کی مظلومیت کا اعلان شروع کردیا اور طلحہ و زبیر کی محرومی کا انتقام لینے کا ارادہ کرلیا۔آپ کے حضرت علی سے اختلاف کی ایک بنیاد یہ بھی تھی کہ حضور(ص) نے اولاد علی کواپنی اولاد قراردے دیا تھا اور قرآن مجید نے انہیں ابنائنا کالقب دے دیا تھا اورحضرت عائشہ مستقل طور پر محروم اولاد تھیں لہٰذا ان میں یہ جذبہ حسد پیدا ہونا ہی چاہتے تھا۔