غزوہ بنی قَینُقاع
غزوہ بنی قَینُقاع
غزوہ بنی قَینُقاع [عربی: غزوة بني قينقاع]، یہودیوں کے ساتھ پیغمبر اسلام(ص کا پہلا غزوہ ہے۔ یہ جنگ یہودی قبیلے بنو قینقاع کے ساتھ لڑی گئی جنہوں نے رسول اللہؐ کے ساتھ عہد شکنی کی تھی اور مذکورہ غزوے کے دوران ان کا محاصرہ کیا گیا اور آخر کار ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوئے اور جلا وطن کئے گئے۔
قبیلہ بنی قَینُقاع کا تعارف
بنو قَینُقاع، رسول اللہؐ کے زمانے میں مدینہ کے یہودی قبائل میں سے ایک تھا۔ بعض مؤرخین نے اس قبیلے کے یہودی نژاد ہونے میں شک و شبہے کا اظہار کیا ہے اور انہیں "عیسو" (ادوم) کی نسل میں قرار دیا ہے، جو یعقوب کا بھائی تھا۔ [1] بنو قینقاع کے نام اور ان کی بہت سی رسموں کی عربوں سے مشابہت[2] کے باوجود، ان کے یہودی نژاد ہونے میں شک و تردد کے لئے کوئی معتبر دلیل نہیں ہے۔ اور یہ بھی واضح نہیں ہے کہ وہ کس وقت مدینہ سے ہجرت کرچکے ہیں۔
مدینہ پر یہودی قبائل کے تسلط کے بعد، ان کی طاقت بنو قیلہ کے عربوں کو منتقل ہوئی چنانچہ یہودیوں کو دوسرے عرب قبائل کے ساتھ معاہدے منعقد کرنا پڑے اور بنی قینقاع دوسرے دو یہودی قبائل کے برعکس ـ جنہوں نے اوس کے ساتھ معاہدے منعقد کئے تھے ـ قبیلۂ خزرج کے حلیف تھے۔[3] جواد علی[4] انہیں اوس کے حلیف سمجھتا ہے جو درست نہیں ہے۔ واضح ہے کہ بنو قینقاع اور دوسرے یہودی قبائل (بنو قریظہ اور بنو نضیر) کے درمیان رقابت اور مخالفت پائی جاتی تھی اور ان کے درمیان کئی مرتبہ جنگیں بھی ہوئی تھیں۔[5]
بنو قینقاع مدینہ کے جنوب مغربی حصے میں سکونت پذیر تھے اور ان قلعہ نیز بازار مشہور تھا۔[6] اور یہ بات کہ وہ مدینہ کے مرکز میں مجتمع تھے[7]، درست نہیں ہے۔ دوسرے یہودی قبائل کے برعکس، مدینہ میں وہ باغات، نخلستانوں اور زرعی زمینوں کے مالک نہ تھے بلکہ لوہاری، سناری اور کفاشی ان کے اہم پیشوں میں شمار ہوتی تھی۔[8]
جنگ کے اسباب
پیغمبر اسلامؐ نے ہجرت مدینہ کے بعد یہودیوں کے ساتھ ایک معاہدہ منعقد کیا اور انہیں اجازت دی کہ مدینہ میں رہیں بشرطیکہ وہ مسلمانوں کے خلاف کسی کی مدد نہ کریں۔ بنو قینقاع پہلا قبیلہ تھا جس نے عہدشکنی کی اور مسلمانوں کے خلاف جنگ و پیکار کا راستہ اپنایا۔[9]
جنگ کے آغاز کے بارے میں منقولہ روایات
اس قضیئے کے آغاز کے بارے میں مؤرخین کی روایات میں تین نکات دکھائی دیتے ہیں:
رسول خداؐ غزوہ بدر کے بعد (رمضان سنہ 2 ہجری میں) مدینہ واپس آئے اور بنو قینقاع کے یہودیوں کو ان کے بازار میں اکٹھا کیا اور ان کو نصیحت کی کہ "قریش کی شکست سے عبرت لیں" اور اسلام قبول کریں؛ یہودیوں نے جواب دیا: "ہم جنگجو لوگ ہیں اور قریش کی مانند شکست قبول نہیں کریں گے"۔
ایک مسلمان خاتون دودھ بیچنے[10] یا زیوارت خریدنے[11] کی غرض سے بنو قینقاع کے بازار میں گئی اور ایک یہودی سنار نے اس کی بےحرمتی کی اور اس کا مذاق اڑایا۔ ایک مسلمان مرد نے اس خاتون کی حمایت کی اور سنار کو ہلاک کردیا اور وہ خود بھی اسی وقت یہودیوں کے ہاتھوں قتل ہوا۔ خبر رسول خداؐ کو ملی اور آپؐ نے جنگ کا انتظام کیا۔
جب سورہ انفال کی آیت 58 رسول اللہؐ پر اتری (وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِن قَوْمٍ خِيَانَةً فَانبِذْ إِلَيْهِمْ عَلَى سَوَاء إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الخَائِنِينَ
؛ترجمہ: اور اگر آپ کسی جماعت کی خیانت سے فکرمند ہوں تو ان کے عہد و پیمان کو ان کی طرف پھینک دیجئے کہ معاملہ برابر ہو جائے، بلاشبہ اللہ بددیانتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا) تو رسول اللہؐ بنو قینقاع کی خیانت سے فکرمندی کا اظہار کرکے ان کے ساتھ جنگ کے لئے نکلے۔ ابن اسحق متذکرہ تینوں اسباب کا الگ الگ تذکرہ کرتا ہے لیکن سورہ انفال کی آیت کے بجائے سورہ آل عمران کی آیت 11 اور 12 کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
واقدی پہلے اور دوسرے نکتوں کو ایک دوسرے سے ہمآہنگ کرکے ذکر کرتا ہے اور ابن سعد صرف تیسرے نکتے کا تذکرہ کرتا ہے۔ طبری پہلے اور تیسرے نکتوں کو ملا کر لکھتا ہے کہ: "یہودیوں نے رسول خداؐ کی دعوت مسترد کی تو یہ آیت کریمہ (سورہ انفال کی آیت 58) نازل ہوئی۔ بعض دیگر مآخذ میں غزوہ بدر کے بعد یہودیوں کی سرکشی اور عہدشکنی کی لیکن وہ سرکشی اور بغاوت کے لئے کسی مصداق کی طرف اشارہ نہیں کرتے۔[12] واٹ کا گمان[13] یہ ہے کہ رسول اللہؐ کے خلاف کچھ اقدامات ہورہے تھے اور احتمال یہ تھا کہ یہودی ان اقدامات کے اصل عناصر کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔
وقت جنگ
بعض مآخذ نے شنبہ 15 شوال سنہ 2 ہجری اور اسی سال یکم ذوالقعدہ کو بالترتیب جنگ کا آغاز و انجام قرار دیا ہے۔[14] ایک روایت میں منقول ہے جب رسول اللہؐ بنو قینقاع پر غالب آئے اور مدینہ پلٹ آئے، یہ 10 ذوالحجہ اور عید الاضحی کا دن تھا اور آپؐ نے پہلی بار لوگوں کے ساتھ نماز عید ادا کی۔[15]
طبری ایک روایت میں ابن اسحق سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے غزوہ بدر کے بعد، شوال اور کے ابتدائی ایام کے سوا شوال اور ذوالقعدہ کے باقی ایام مدینہ میں گذارے۔[16]ایک روایت میں ہے کہ یہ غزوہ صفر المظفر سنہ 3 ہجری کے دوران انجام پایا۔[17] یہاں تک بھی کہا گیا ہے کہ بنو قینقاع اور بنو نضیر کی جلاوطنی بیک وقت انجام کو پہنچی ہے۔[18] بہر حال روایات کی گوناگونی کی وجہ سے اس جنگ کی صحیح تاریخ کا تعین دشوار ہے۔
جنگ اور اس کا انجام
بنو قینقاع کے یہودی اپنے قلعے مین محصور ہوئے اور مسلمانوں نے ان کا محاصرہ کیا؛ محاصرہ 15 دن تک جاری رہا اور بعدازاں یہودی ہتھیار ڈال کر باہر آئے اور جلاوطن کئے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ رسول اللہؐ نے ابتداء میں حکم دیا تھا کہ ان کے مردوں کی گردن زنی اور عورتوں اور بچوں کے غلام بنانے کا حکم دیا تھا لیکن بعد میں آپؐ نے چشم پوشی کی اور انہیں جلا وطن کرکے شام کی حدود میں واقع "اِذْرَعات" کے علاقے میں روانہ کیا۔
بلعمی کے مطابق[19] رسول خداؐ نے بنو قینقاع کو جلاوطن کیا اور ان کے حصار کو منہدم کیا۔ بعض یہودیوں نے اسلام قبول کیا اور مدینہ میں ہی باقی رہے؛ یہاں تک کہ سنہ 9 ہجری میں جب عبدالہ بن اُبیّ کے انتقال کے موقع پر بنو قینقاع کے چند افراد بھی موجود تھے۔[20] یہ بات ـ کہ عبداللہ بن سلام بھی اسلام قبول کرنے والوں میں شامل تھا،[21] نادرست ہے، کیونکہ ایک روایت کے مطابق وہ رسول خداؐ کی ہجرت مدینہ سے پہلے اور دوسری روایات کے مطابق ہجرت کے کچھ عرصہ بعد، مسلمان ہوچکے تھے۔[22]
احتمال یہ ہے کہ اس جنگ میں سعد بن معاذ کو حکم ملا تھا کہ دوسرے یہودیوں کو اس واقعے میں مداخلت سے باز رکھیں؛[23] رسول خداؐ کا سفید پرچم اس جنگ میں حمزۃ بنعبد المطّلب کے دوش پر تھا۔[24]؛ ابو لبابہ بنن منذر رسول خداؐ کی جانب سے مدینہ میں جانشین مقرر کئے گئے تھے[25]؛ منذر بن قدامہ سلمی باغیوں کے ہاتھ باندھنے پر اور[26] [[محمد بن مسلمہ|محمّد بن مَسلمہ[[ ان کے اموال اکٹھے کرنے پر مامور تھے۔[27]
زیادہ تر مآخذ میں بنو قینقاع کے مردوں کی تعداد 700 بیان ہوئی لیکن ان سے حاصلہ مال غنیمت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تعداد مبالغہ آمیز ہے لیکن احتمال یہ ہے کہ اس سلسلہ میں کتاب التبیہ والاشراف کے مؤلف کا قول حقیقت سے قریب تر ہوگا جس نے یہ تعداد 400 بتائی ہے۔[28]
بنو قینقاع کی خواتین اور بچوں کو انہیں بخش دیا گیا لیکن ان کے اموال مسلمانوں کے ہورہے۔ واقدی کی روایت[29] جو اس نے ربیع بن سبرہ سے نقل کی ہے، سے معلوم ہوتا ہے کہ بنو قینقاع اپنے بعض اونٹ بھی خواتین اور بچوں لے جانے کے لئے، ساتھ لے گئے تھے۔ بنو قینقاع کو تین دن کی مہلت دی گئی کہ مدینہ سے نکل کر چلے جائیں اور عبادہ بن صامت انہیں شہر سے نکال باہر کرنے کی ذمہ داری سونپ دی گئی تھی۔
بنو قینقاع کے حلیفوں کا کردار
اس جنگ میں بنی قینقاع کے عرب حلیفوں کا کردار لائق توجہ ہے۔ عبادہ بن صامت اور عبداللہ بن ابی بن سلول خزرج کے اصل راہنما تھے۔ عبادہ سچے مسلمان تھے اور بنو قینقاع کی پیمان شکنی دیکھ کر انھوں نے ان کی حمایت ترک کردی اور رسول خداؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر بنو قینقاع کے ساتھ اپنے حلف سے بیزاری کا اعلان کیا۔[30] عبداللّہ بن اُبیّ، منافقین کا سرغنہ تھا اور اس قضيئے میں اس کا کردار دوہرا تھا؛ ایک طرف سے وہ اسی نے بظاہر بنو قینقاع کو قلعہ بند ہونے اور سرکشی کرنے پر اکسایا تھا اور دوسری طرف سے اس نے ان سے جاملنے سے انکار کیا۔[31] ان کے قید کئے جانے کے بعد عبداللہ بن ابی نے رسول خداؐ سے درخواست کی کہ اس کے حلیفوں کی جان بخشی کریں اور اپنی اس درخواست پر اس قدر اصرار کیا رسول اللہؐ نے اس پر بھی اور یہودیوں پر بھی لعنت بھیجی اور ان کی جلاوطنی کا حکم جاری فرمایا۔
مال غنیمت
پیغمبر خداؐ نے غنائم کو اپنے اصحاب کے درمیان تقسیم کیا اور پہلی بار مال غنیمت میں سے خمس اٹھایا۔[32] نیز مال غنیمت میں سے "صَفْوُ الغنائم" کے طور پر تین کمانوں، دو زرہوں، تین تلواروں اور تین نیزوں کو منتخب کیا اور محمد بن مسلمہ اور سعد بن معاذ کو دو زرہیں عطا کیں۔[33]
---
حوالہ جات
۱- Encyclopaedia Judaica, Jerusalem, Under the word: “Qaynuqa”.
-۲Watt, Muhammad at Medina, p 192-193۔
۳- طبری، تاریخ الرسل و الملوک، ج3، ص1361۔
۴- جواد علی، المفصل فی التاریخ العرب قبل الاسلام، ج4، ص39۔
۵- حسن خالد، مجتمع المدینہ قبل الہجرة وبعدہا، ص39۔
۶- بلعمی، تاریخ نامہ طبری، ج1، ص151۔
۷-Encyclopaedia Judaica, Jerusalem, Ditto ۔
۸- بلعمی، تاریخ نامہ طبری، ج1، ص151۔
۹- ابن اسحاق، سیرت رسول اللّہ، ج2، ص 561۔
۱۰- ابن ہشام، سیرة النبی، ج2، ص632۔
۱۱- واقدی، المغازی، ج1، ص127۔
۱۲- ابن اسحاق، سیرت رسول اللّہ، ج2، ص 561؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج2، ص29۔
۱۳-Watt, Muhammad at Medina, p 181 ۔
۱۴- واقدی، المغازی، ج1، ص127؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج2، ص28ـ29؛ مسعودی، التنبیہ و الاشراف، ص206۔
۱۵- ابن شبّہ نمیری، تاریخ المدینة المنورة، ج1، ص136ـ137؛ طبری، تاریخ الرسل و الملوک، ج3، ص1362۔
۱۶- ابن اسحاق، سیرت رسول اللّہ، ج3، ص1363۔
۱۷- ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج2، ص139
۱۸- سمہودی، وفاء الوفا باخبار دارالمصطفی، ج1، ص278۔
۱۹- بلعمی، تاریخ نامہ طبری، ج1، ص152۔
۲۰- واقدی، المغازی، ج3، ص 806۔
۲۱-Encyclopaedia Judaica, Jerusalem, Ditto۔
۲۲-J. Horovitz, under the name: "Abd Allah bin Salam"۔
۲۳-Watt, Muhammad at Medina, p 210 ۔
۲۴- طبری، تاریخ الرسل والملوک، ج3، ص1362۔
۲۵- واقدی، المغازی، ج3، ص130۔
۲۶- واقدی، المغازی، ج2، ص33۔
۲۷- ابن سعد، الطبقات الکبری، ج2، ص30۔
۲۸- مسعودی، التنبیہ والاشراف، ص206۔
۲۹- واقدی، المغازی، ج2، ص130۔
۳۰- ابن اسحاق، سیرت رسول اللّہ، ج2، ص563۔
۳۱- واقدی، المغازی، ج1، ص129۔
۳۲- طبری، تاریخ الرسل و الملوک، ج3، ص1362؛ مسعودی، التنبیہ والاشراف، ص207۔
۳۳-واقدی، المغازی، ج1، ص129۔