آخر الزمان میں عالمی حکومت(قرآن)
←آخر الزمان میں عالمی حکومت(قرآن)←
فقط مستضعف(جس کو کمزور کر دیا گیا ہو) ہونا اس بات کی دلیل نہیں بنے گا کہ آپ کو دشمنوں پر غلبہ حاصل ہو جاۓ گا اور آپ عالمی حکومت بنا لیں گے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ایمان اور ضروری صلاحیتیں بھی حاصل کرنا ہونگی۔ اگر یہ دو چیزیں مستضعفین حاصل نہیں کرتے ان کا زمین پر غلبہ ممکن نہیں۔
←ایک عالمی حکومت کی تشکیل←
[ترمیم]خداوند متعال کا فرمان ہے کہ ایک دن زمین پر اس کے صالح بندے ایک عالمی حکومت تشکیل دیں گے:
وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ؛ اور ہم نے زبور میں ذکر کے بعد لکھ دیا ہے کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔ [۱]
← آیت کی تفسیر←
← زبور اور ذکر سے مراد←
ظاہری طور پر زبور سے مراد وہ آسمانی کتاب ہے جو حضرت داؤود(علیہ السلام) پر نازل ہوئی چونکہ بعض دیگر جگہوں پر اس کتاب کا نام یہی ذکر ہوا ہے۔
وَ آتَینَا دَاوُدَ زَبُورا [۲]
بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اس سے مراد خود قرآن کریم ہے۔ اس کے علاوہ مفسرین کا ایک اور گروہ اس بات کا قائل ہے کہ اس سے مراد کلی طور پر وہ کتب ہیں جو انبیاء پر نازل ہوئیں یا حضرت موسیؑ کے بعد کے انبیاء پر نازل ہوئیں۔ لیکن ان اقوال پر کوئی بھی اقوی دلیل موجود نہیں۔ ذکر کے متعلق مفسرین کے ایک طبقہ نے لکھا ہے کہ اس سے مراد تورات ہے کیونکہ تورات کو دو مرتبہ قرآن کریم نے ذکر سے تعبیر کیا ہے۔ پہلی آیت فسئلوا اهل الذکر ان کنتم لا تعلمون اور دوسری آیت و ذکرا للمتقین بعض دیگر مفسرین نے لکھا ہے کہ ذکر سے مراد قرآن کریم ہے کیونکہ خود قرآن کریم کو بھی خداوند متعال نے بعض آیات میں ذکر قرار دیا ہے۔ اس قول کی بنا پر کہ زبور سے مراد قرآن ہے جبکہ زبور پہلے نازل ہوئی اور قرآن بعد میں نازل ہوا اس میں اشکال نہیں بنتا کیونکہ پہلے یا بعد میں نازل ہونا رتبہ کے لحاظ سے مدنظر رکھا جاۓ گا نا کہ زمانے کے لحاظ سے۔ بعض دیگر مفسرین نے لکھا ہے کہ اس سے مراد لوح محفوظ ہے لیکن یہ قول درست نہیں۔
← یرثها سے مراد←
ان الارض یرئها عبادی الصالحون راغب اصفہانی کے مطابق وراثت یا ارث ایسے مال کو کہتے ہیں جو بغیر معاملہ کیے آپ کو منتقل ہو جاۓ۔ [۳]
جبکہ زمین کی وراثت سے مراد یہ ہے کہ منفعتوں پر ظالمین سے قبضہ منتقل ہو کر صالحین کے ہاتھوں میں آ جاۓ گا۔ زمین کی برکتیں صالحین کے ساتھ مختص ہو جائیں گی۔ برکات سے مراد بھی یا دنیوی برکات ہیں یا اخروی برکات۔ اگر مراد دنیوی برکات ہوں تو آیت میں موجود مطالب کا معنی یہ ہوگا کہ بہت جلد زمین شرک اور گناہ سے پاک ہو جاۓ گی۔ انسانی معاشرے خدا کی بندگی کرنا شروع کر دیں گے اور شرک سے پاک ہو جائیں گے۔ جیسا کہ آیت کریمہ وعد اللّه الذین آمنوا منکم و عملوا الصالحات لیستخلفنهم فی الارض... یعبدوننی لا یشرکون بی شیئا میں بھی یہی ذکر ہوا ہے۔ اور اگر برکات سے مراد اخروی برکات ہوں جو کہ دنیا میں مقامات قربی کی صورت میں کسب ہوتی ہیں تو چونکہ یہ مقامات بھی زمینی حیات کی برکات میں سے ہیں اگرچہ خود آخرت کی نعمات میں سے ہی ہیں، جیسا کہ آیت و قالوا الحمد لله الذی اورثنا الارض نتبوا من الجنه حیث نشاء میں ذکر ہوا ہے اور اہل بہشت کے کلام کی حکایت کر رہا ہے۔ اور اولئک هم الوارثون الذین یرثون الفردوس یہ آیت بھی اسی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ [۴]
←نکتہ ← یہ احتمال بھی موجود ہے کہ اس آیت کا مقصود یہ ہو کہ قیامت سے پہلے مسلمان پوری زمین پر تسلط حاصل کر لیں گے۔ [۵]
[۶]
← حوالہ جات
۱. - انبیاء:۱۰۵۔
۲. - اسراء:۵۵۔
۳. - راغب اصفهانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، ج۱، ص۵۱۸۔
۴. - طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۱۴، ص۴۶۵ ۴۶۶، ترجمه موسوی همدانی۔
۵. - آلوسی، شہاب الدین، روح المعانی، ج۹، ص۹۸۔
۶. - آلوسی، شہاب الدین، روح المعانی، ج۱۰، جزء۱۷، ص۱۵۴۔
ماخذ: مرکز فرہنگ و معارف قرآن، فرہنگ قرآن، ج۱۲، ص۹۶، ماخوذ از مقالہ «حکومت جهانی در آخرالزمان»