قسم -حلف -یمین
قسم -حلف -یمین
۱- سوال: قسمِ واجب یا یمین العقد کے منعقد ہونے کی کیا شرائط ہیں؟
جواب: قسم یا یمین عقد کے منعقد ہونے کی کچھ شرائط ہیں اگر ان کی مراعات کی گئی ہوں تو قسم کا التزام واجب ہوجائے گا اور مخالفت کرنے پر کفارہ بھی ہوگا۔
۱ قسم کا تلفظ ضروری ہے البتہ نطق کی صلاحیت نہ ہو تو ایسا اشارہ بھی ہو سکتا ہے کہ جو لفظ کے حکم میں ہو ،جبکہ بولنے سے عاجز ہونے کی صورت میں کتابت بھی کافی ہے۔
۲ قسم کا عربی زبان میں ہونا ضروری نہیں ہے خاص طور پر اس کی تفاصیل تو کسی بھی زبان میں ہو سکتی ہیں۔
۳ قسم صرف اللہ جل جلالہ کی ذات مقدسہ کی قسم اٹھائی جائے۔ جیسے و اللہ ، خدا کی قسم ،باللہ ۔ یا پھر باری تعالی کی ایسی صفات خاصہ جیسے الرحمٰن یا افعال خاصہ کا تلفظ کرے کہ جن میں کوئی اشتراک نہیں ہے۔ یا پھر صفات عامہ میں سے ہو مگر قرینہ سے رب العالمین ہی کی ذات پر دلالت ہوتی ہو ۔ یا اگر افعال و صفات عامہ کا لفظ مشترک ہو مگر قسم کے مقام پر اس سے مراد ذات باری تعالی ہی سمجھا جائے۔ مثلا (بہت زیادہ سنے و دیکھنے والے کی قسم)-
۴ قسم اٹھانے والا عاقل و بالغ ہو ،اختیار اور قصد رکھتا ہو اور جس کام کے لیئے قسم کھائے اس میں (حجر) کی وجہ سے ممنوع التصرف نہ ہو۔ پس نابالغ بچہ چاھے ممیز ہی ہو یا مجنون چاھے بعض اوقات میں ہی ہو اور نشے کی حالت میں یا مجبور ہو کر بلکہ ایسا شدید غصے میں بھی کہ جس کی وجہ سے قصد اور اختیار باقی نہ رہے ، قسم منعقد نہیں ہوگی اور اسہی طرح مفلس (کہ جس کے اموال قرض خواہوں کو ادائیگی سے قاصر ہوں) یا سفیہ (جس کو مال خرچ کرنےمیں مفید و مضر کی تمیز نہ ہو) اس کی قسم بھی منعقد نہیں۔ جبکہ قسم کے وجوب میں اسلام شرط نہیں لہذا کافر کا قسم کھانا بھی صحیح ہے۔
۵ قسم اس ہی وقت منعقد ہوگی جب فقط ذات باری تعالی کی ہو اس کہ علاوہ کوئی قسم واجب الاداء نہیں ہوتی۔حتی کہ سبحانہ و تعالی کی صفات و افعال کے ذریعے قسم بھی اس وقت منعقد ہوگی جب ان سے ذات باری تعالی کا قصد ہو۔ پس اگر صفت یا فعل کی قسم کھائے یا مثلا کہے اللہ کے علم یا قدرت کی قسم ،تو منعقد نہیں ہوگی مگر یہ کہ خود ذات علیم و قدیر تعالی کا قصد ہو۔
۲
سوال: کیا نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ اور آئمہ طاھرین علیھم السلام یا بیت اللہ یا قرآن کی قسم کھائی جاسکتی ہے؟
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ یا کسی بھی امام معصوم علیہ السلام کی یا قرآن پاک یا کسی بھی مقدس مقام کی قسم اٹھائی جا سکتی ہے لیکن اس پر یمین العقد والے وجوب و التزم یا کفارہ کے احکام جاری نہیں ہوں گے ۔
۳
سوال: اگر کوئی اس طرح قسم کھائے کے (خدا کی قسم اگر میں نے فلاں کام نہ کیا تو میں یھودی ہوں گا ) اور اس کی مخالفت کرے تو اسکا کیا حکم ہوگا؟
جواب: یمین البرائۃ یعنی اللہ تعالی ،یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) یا دین حقہ یا آئمہ طاھرین (علیھم السلام) سے برائت کی قسم منعقد بھی نہیں ہوتی اور نہ ہی اسکا کوئی التزام ہے یعنی نہ لازم ہے کہ اس کے مطابق عمل کیا جائے اور نہ موضوع قسم کی مخالفت حرام ہے ۔البتہ خود یہ قسم کھانا حرام ہے۔اور اگر ارتکاب حرام کرتے ہوئے ایسی قسم کہائے مثلا کہے کہ ( اللہ سے یا دین اسلام سے بریئ ہوں اگر میں نے فلاں کام کیا ) تو اس پر کفارہ یہ ہے کہ دس مساکین کو کھانا کھلائے، ہر مسکین کو ایک مد (۷۵۰ گرام تقریبا)۔
اس ہی طرح اگر یوں قسم کہائے کہ (اگر میں نے فلاں کام نہ کیا ،یا فلاں کام ترک نہ کیا تو مثلا یھودی یا نصرانی ہوں) اور اس طرح کی قسم کسی مسلمان سے صادر ہونا مناسب نہیں۔
۴
سوال: کیا قسم کے ساتھہ (ان شاء اللہ) کہا جا سکتا ہے ؟
جواب: اگر قسم کو کلمہ مشیئت (ان شاءاللہ ) ککت ساتھ معلق کردے مثلا خدا کی قسم میں فلاں کام انجام دوںگا ان شاء اللہ ، تو اگر ایسا فقط تبرک کے لیئے نہ کہا ہو بلکہ اس سے مراد قسم کو مشیئت الٰہی پر معلق کرنا ہو تو اس طرح قسم واجبی منعقد نہیں ہوگی یعنی نہ اس سے کچھ واجب ہوگا نہ حرام، قطع نظر اس سے کہ وہ کام خود واجب ہو یا حرام یا مباح ۔
۵
سوال: شرعی قسم کیا ہے؟ اس بارے میں تفصیل سے وضاحت فرمائیے کہ کب اس کی مخالفت حرام ہوتی ہے اور کب کفارہ لازم ہے؟
جواب: یمین یا حلف یا قسم تین طرح کی ہیں۔
۱ کسی بات کی ماضی ،حال یا مستقبل میں تاکید یا تردید کے لئے قسم کھائی جائے جیسے (واللہ کل زید آگیا ہے) یا (با خدا یہ میرا مال ہے) یا مستقبل میں ( اللہ کی قسم فلان اس دن آجائے گا) اسطرح کی قسم (یمین الاخبار) کہلاتی ہے۔
۲ دوسری صورت یہ ہے کہ جس میں کسی شخص کو قسم دی جائے اور اس کے ساتھ کوئی طلب یا التماس کی جائے۔ جیسے کہے (تمہیں اللہ کی قسم ہے کہ یہ کام نہ کرنا) اس میں قسم دینے والے کو (حالف) اور دوسرے کو (محلوف علیہ) کہا جاتا ہے۔اور اس طرح کی قسم کو (یمین مناشدہ )یا واسطہ دینا کہا جائے گا۔
۳ تیسری قسم یہ ہے کہ انسان نے جس بات کو اپنے ذمہ لازم کیا ہے چاھے کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کیلئے اسکی تاکید کے لئے قسم اٹھائی ہو ۔جیسے (و اللہ میں کل روزہ رکھوں گا ) یا (خدا کی قسم میں آج کہ بعد سگریٹ نہیں پیوں گا)۔ اسے(یمین عقد) کہتے ہیں۔
قسم اول (یمین الاخبار) کا کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا مگر یہ کہ بغیر علم کے قسم کے ذریعے خبر کی تاکید کرنا گناہ ہے۔ مگر کفارہ نہیں ہے ۔ایسی قسم اگر سچی ہو تو بھی مکروہ ہے جبکہ جھوٹی قسم کھانا تو حرام ہے بلکہ ہو سکتا ہے کہ گناہان کبیرہ میں سے ہو جائے،جیسا کہ( یمین الغموس) جو کے قضاوت اور فیصلے کے مورد میں ایک جھوٹی قسم ہے۔ البتہ اگرظالم کہ ظلم سے بچنے یا مومنین کو بچانے کیلئے جھوٹی قسم کھائی جائے تو وہ مستثنیٰ ہے۔ اور اسکی تفصیل اپنے مقام پر مذکور ہے۔
قسم دوم (یمین مناشدہ)۔واسطہ دینا۔ اس طرح کی قسم منعقد نہیں ہوتی اور اس میں نہ (حالف) نہ (محلوف علیہ) کسی پر کوئی اثر نہیں ، نہ ہی کفارہ ہے اور جس کو قسم کے ذریعے واسطہ دیا گیا ہو اگر وہ درخواست کو رد بھی کردے تو کوئی گناہ نہیں۔
تیسری قسم (یمین العقد) اگر شرائط پوری ہوں تو منعقد ہوجائے گی اور اسکا التزام کرنا ہوگا یعنی وفاء واجب اور مخالفت حرام ہو جائے گی اور کفارہ بھی ہوگا۔