امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

عید غدیر

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

عید غدیر
عید غدیر 18 ذوالحجہ کا دن اور اہل تشیع کی بڑی عیدوں میں سے ہے جس میں حضرت علیؑ رسول اللہؐ کے جانشین منتخب ہوئے۔ اس دن کی فضیلت کے بارے میں رسول اکرمؐ اور شیعہ ائمہؑ سے بعض روایات نقل ہوئی ہیں۔
 اسی طرح بعض اعمال بھی اس دن کے لئے ذکر ہوئے ہیں جن میں روزہ رکھنا، زیارت غدیریہ کی قرائت، نماز غدیر اور مومنین کو کھانا کھلانا وغیرہ شامل ہیں۔
 پوری دنیا کے اہل تشیع اس دن جشن مناتے ہیں۔ اس دن ایر-ان اور بعض دیگر ممالک کے بعض علاقوں میں سرکاری سطح پر چھٹی ہوتی ہے اور لوگ سادات سے ملنے جاتے ہیں اور سادات ان سے ملنےآنے والوں کو عیدی دیتے ہیں۔
غدیر کا واقعہ
پیغمبر اکرمؐ ہجرت کے دسویں سال ماہ ذی القعدہ کو ہزاروں کا قافلہ لے کر مناسک حج انجام دینے کی غرض سے مدینہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔[2]
 چونکہ یہ حج پیغمبر اکرمؐ کا آخری حج تھا اس لئے یہ حجۃ الوداع کے نام سے مشہور ہوا۔[3]
حج کے اعمال سے فارغ ہو کر پیغمبر اکرمؐ مکہ کو چھوڑ کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ 18 ذوالحجہ کے دن یہ قافلہ غدیر خم کے مقام پر پہنچا[4]
 اس مقام پر جبرئیل پیغمبراکرمؐ پر نازل ہوا اور خدا کی طرف سے حضرت علیؑ کو اپنا جانشین کے طور پر لوگوں میں اعلان کا حکم دیا۔[5]
رسول اللہؐ نے اللہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے حاجیوں کو جمع کیا اور علیؑ کو اپنا جانشین اور خلیفہ مقرر کیا۔[6]

روز غدیر کی فضیلت
اس دن کی فضیلت کے بارے میں معصومینؑ سے بعض احادیث نقل ہوئی ہیں:

رسول خداؐ فرماتے ہیں: "غدیر خم کا دن میری امت کی بڑی عیدوں میں سے ہے جس دن خدا نے دین اسلام کو مکمل کیا اور میری امت پر اپنی نعمتوں کی تکمیل کی اور اللہ نے اسلام کو بعنوان دین ان کے لئے پسند کیا۔"[7]
امام صادقؑ فرماتے ہیں: "غدیر کا دن مسلمانوں کےلیے بہت عظیم اور باشرافت دن ہے لہذا مناسب ہے کہ اس دن ہر لحظہ اللہ تعالیٰ کا شکر بجالائے، لوگوں کو چاہیے کہ اس دن روزہ رکھے کیونکہ اس دن کا روزہ ثواب کے لحاظ سے 60 سال کی عبادت کے برابر ہے۔[8]
ایک اور روایت میں امام صادقؑ فرماتے ہیں: عید غدیر سب سے باعظمت اور باشرافت‌ عید ہے اور اس دن سزاوار یہ ہے کہ ہر لمحہ خدا کا شکر بجا لایا جائے اور لوگ شکرانہ کے طور پر روزہ رکھیں جس کا ثواب 60 سال عبادت کے برابر ہے۔[9]
امام جعفر صادقؑ: یوم غدیر اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی عظیم دنوں میں سے ہے، اللہ نے کسی نبی کو مبعث نہیں کیا مگر یہ کہ اس نے اس دن کو عید منائی ہے اور اس دن کی عظمت کو درک کیا ہے۔ آسمان پر اس دن کو یوم عہد و پیمان اور زمین پر سب لوگ جمع ہونے کے دن اور یوم عہد محکم کے نام سے مشہور ہے۔[10]
امام رضاؑ فرماتے ہیں: "روز غدیر اہل آسمان کے ہاں اہل زمین کے ہاں سے بھی زیادہ مشہور ہے۔۔۔ اگر لوگ اس دن کی قدر و منزلت سے آگاہ ہوتے تو بےشک فرشتے ہر روز دس مرتبہ ان سے مصافحہ کرتے۔"[11]
اہل سنت عالم دین نصیبی شافعی اپنی کتاب مطالب السؤول میں 18 ذوالحجہ کا دن عید ہونے کی تصریح کرتے ہیں۔[12] ان کا کہنا ہے کہ یہ دن عید اور لوگوں کے جمع ہونے کا دن قرار پایا، کیونکہ جب رسول اللہؐ نے علیؑ کو اس بلند مرتبے پر فائز کیا تو کسی اور کو اس مرتبہ اور فضیلت میں علیؑ کا شریک نہیں ٹھہرایا۔[13] ابن خلّکان اپنی کتاب وفیات الاعیان میں لکھتے ہیں کہ مصر کے حاکموں میں سے مستعلی بن مستنصر کی بیعت، 18 ذوالحجہ سنہ487ھ کو عید غدیر کے دن ہوئی۔[14]
جشن غدیر
کتابِ خصائص الائمہ کے نقل کے مطابق عید غدیر کے دن حسان بن ثابت نے پیغمبر اکرمؐ کے حضور غدیر میں موجود مسلمانوں کے اجتماع میں بلند آواز سے کچھ اشعار کہے۔[15]

غدیریہ: حسان بن ثابت نے واقعہ غدیر کے اوصاف یوں بیان کیے ہیں:[16]

ینادیهم یوم الغدیر نبیهم        بخم و أسمع بالرسول منادیا
فقال فمن مولاکم و ولیکم؟        فقالوا و لم یبدوا هناک التعادیا
إلهک مولانا و أنت ولینا        و لم‌تر منا فی المقالة عاصیا
فقال له قم یا علی فإننی        رضیتک من بعدی إماما و هادیا
فمن کنت مولاه فهذا ولیه        فکونوا له أنصار صدق موالیا
هناک دعا الّلهم وال ولیه        و کن للذی عادی علیاً مُعادیاً
ترجمہ: پیغمبر خداؐ نے یوم غدیر لوگوں سے پکار کر کہا، کیسی عظیم پکار تھی یہ۔ انہوں نے فرمایا: تمہارا مولا اور سرپرست کون ہے؟ لوگوں نے فورا کہا: تمہارا اللہ ہمارا مولا ہے اور آپؐ ہمارے سرپرست ہیں۔ ہم آپؐ کے حکم کی نافرمانی نہی کریں گے۔ اس وقت پیغمبرؐ نے حضرت علیؑ سے مخاطب ہوکر فرمایا: کھڑے ہوجاؤ!میں نے تجھے میرے بعد امام و رہبر منتخب کیا ہے۔اس کے بعد فرمایا: جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہوگا؛ پس تم سب سچ مچ اس کی اطاعت کرو۔ اے میرے اللہ علی سے محبت کرنے والے سے محبت کر اور علی سے دشمنی رکھنے والے سے دشمنی رکھ۔ اسی طرح مصباح المتہجد میں منقول ایک روایت کے مطابق امام رضاؑ غدیر کے دن جشن مناتے تھے۔[17]

چوتھی صدی ہجری کے مورخ علی بن حسین مسعودی اپنی کتاب التنبیه و الاشراف میں لکھتے ہیں کہ امام علیؑ کی اولاد اور ان کے شیعہ اس دن کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور اس کو عظیم ایام میں سے سمجھتے ہیں۔[18] چوتھی صدی ہجری کے محدث کلینی نے بھی کسی ایک روایت میں اس دن شیعوں کا جشن منانے کو نقل کیا ہے۔[19]

آٹھویں صدی ہجری کے اہل سنت مورخ ابن‌ کثیر کا کہنا ہے کہ آل بویہ کی حکومت میں شیعہ حکمران عید غدیر کے دن عام چھٹی کرتے اور جشن کا اعلان کرتے تھے اور حکومتی اداروں اور لوگوں کو اس دن جشن منانے اور شہر کو سجانے کی ترغیب کرتے تھے۔[20] اس جشن میں وہ لوگ جھنڈیاں لگاتے تھے، اونٹ ذبح کرتے تھے اور رات کو آگ جلا کر جشن میں خوشیاں مناتے تھے۔[21] اسی طرح پانچویں صدی ہجری کے مورخ گردیزی نے بھی اس دن کو اسلام کے عظیم ایام اور شیعوں کی عید قرار دیا ہے۔[22]

مصر میں فاطمی خلفا اس دن کو جشن مناتے تھے۔[23] ایران میں صفویہ دور حکومت میں عید غدیر کے دن سرکاری طور پر عید مناتے تھے۔[24] ایران میں عید غدیر کے دن سرکاری طور چھٹی ہوتی ہے۔[25] عراق میں بھی کربلا، نجف اور ذی‌ قار جیسے صوبوں میں عام تعطیل ہوتی ہے۔[26]

عید غدیر کی رات کو بھی شیعہ اہمیت والی رات سمجھتے ہیں اور اس رات شب بیداری کرتے ہیں۔[27]

عید غدیر کے اعمال
روزہ رکھنا؛ اہل سنت کی کتابوں میں منقول حدیث نبوی کے مطابق، جو شخص 18 ذوالحجہ کو روزہ رکھے گا اللہ تعالی اس کے لئے 6 مہینے کے روزوں کا ثواب لکھ دے گا۔[28]
مومنین کا ایک دوسرے سے ملاقات کے وقت اس تہنیت کا پڑھنا: «الحمدُ لِلهِ الّذی جَعَلَنا مِنَ المُتَمَسّکینَ بِولایةِ اَمیرِالمؤمنینَ و الائمةِ المَعصومینَ علیهم السلام" (ترجمہ) حمد و ثنا اس خدا کے لئے جس نے ہمیں ان لوگوں میں سے قرار دیا جو حضرت علیؑ اور باقی ائمہؑ کی ولایت سے متمسک ہیں۔» [29]
حرم امام علیؑ کی زیارت
غسل کرنا
زیارت امین اللہ پڑھنا
دعائے ندبہ پڑھنا
زیارت غدیریہ پڑھنا[30]
نئے اور پاک و صاف لباس پہنا
زینت کرنا
عطر وغیرہ کا استعمال کرنا
صلہ رحمی کرنا
اپنے گھر والوں کے لئے فراخدل ہونا یعنی گھریلو اخراجات میں کنجوسی نہ کرنا
مومنین کو کھان کھلانا
خوش ہونا اور مسکرانا
مؤمنین کو ہدیہ اور تحفہ دینا
ایمانی بھائیوں سے ملنا
ولایت کی عظیم نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرنا
زیادہ صلوات پڑھنا
زیادہ عبادتیں انجام دینا
مومنین کو کھانا کھلانا
روزہ داروں کو افطار کروانا[31]
نماز عید غدیر پڑھنا: امام جعفر صادقؑ سے منقول ایک روایت کے مطابق عید غدیر کے دن دو رکعت نماز جس کی ہر رکعت میں سورہ حمد کے بعد دس مرتبہ سورہ اخلاص، دس مرتبہ آیت الکرسی، دس مرتبہ سورہ قدر پڑھنا مستحب ہے اور اس کا ثواب 100 حج، 100 عمرہ اور دنیوی اخروی تمام حوائج پوری ہونا ذکر ہوا ہے۔[32] اس نماز کو ظہر کے وقت پڑھا جاتا ہے۔ اس نماز کو باجماعت پڑھنے کے حوالے سے فقہاء میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔[33]
آداب و رسوم
سادات سے ملاقات
ایران اور بعض دیگر اسلامی ممالک میں شیعیان عید غدیر کے دن سادات سے ملاقات کے لیے ان کے گھروں میں جاتے ہیں۔ سادات اپنے ہاں ملاقات کے لیے آنے والوں کو اس دن کی مناسبت سے پیسے یا کوئی دوسری چیزیں عیدی کے طور پر دیتے ہیں۔[34]

اطعام غدیر
عید غدیر کے دن شیعیان مساجد اور دیگر مقامات پر عمومی دسترخوان بچھا کر کھانوں کا اہتمام کرتے ہیں۔[35] اسی طرح سڑکوں اور پبلک مقامات پر لوگوں میں شربت اور مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں۔ مصباح المتہجد میں منقول ایک روایت کے مطابق یوم غدیر ایک مومن کو کھانا کھلانا 10لاکھ انبیاء و صدقین اور 10 لکاھ شہدا کو کھانا کھلانے کا ثواب ملتا ہے۔[36] اس روایت کے مطابق امام رضا علیه‌السلام نے یوم عید غدیر ایک محفل منعقد کی جس میں اپنے خواص اصحاب کو مدعو کیا اور انہیں افطاری کا وقت ہونے تک اپنے پاس رکھا اور بعد از افطار ان کے ساتھ ان کے اہل خانہ کے لیے بھی کھانا بھیجا۔[37]

عقد اخوت
شیخ عباس قمی کے نقل کے مطابق یوم غدیر کے آداب میں سے ایک صیغہ اخوت پڑھنا ہے۔ جس کا مطلب ہے دنیا میں برادری اور ہمدلی کے ساتھ زندگی گزارنا ہے اور آخرت ایک دوسرے کی مدد کرنا ہے۔[38]
 اسی بنیاد پر بعض شیعہ حضرات اس دن آپس میں عقد اخوت پڑھتے ہیں۔ ایران میں "اندیشہ کلچر سنٹر" کی جانب سے عید غدیر کے موقع پر "برادرانہ" کے نام سے ایک ورچوئل مہم چلائی جس کے مطابق دنیا بھر عقد اخوت کی روایت کو زندہ رکھنے کے لیے مسلمانوں میں یکجہتی اور اتحاد کے جذبے کو تقویت دینے کی کوشش کی گئی، [39]

مونو گرافی
عید غدیر کے بارے متعدد قلمی آثار ملتے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:
عید الغدیر بین الثبوت و الإثبات، مولف: علامہ امینی
عید الغدیر فی الإسلام و التتویج و القربات یوم الغدیر، مولف: علامہ امینی (کتابچہ بزبان عربی)
عید الغدیر فی عہد الفاطمیین، مولف: محمد ہادی امینی؛ یہ کتاب فاطمیون کے دور حکومت میں عید غدیر کے بارے میں لکھی گئی۔[40]
عید الغدیر بین الثبوت و الإثبات، مولف: سید عادل علوی
غدیر کتاب کے آئینے میں، مولف: محمد انصاری
چودہ صدیاں غدیر کے ساتھ، مولف: محمد باقر انصاری
حجۃ الوداع کو پیغمبر کے شانہ بشانہ، مولف: حسین واثقی


حوالہ جات
1.     «مهمانی 10 کیلومتری به مناسبت عید غدیر - 2»، خبرگزاری برنا۔
2.    طوسی، تهذیب الاحکام، 1407ھ، ج5، ص474؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج3، ص148۔
3.    زرقانی، شرح الزرقانی، 1417ھ، ج4، ص141؛ تاری، «تأملی در تاریخ وفات پیامبر»، ص3۔
4.    یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص112۔
5.    أیازی، تفسیر قرآن المجید، 1422ھ، ص184؛ عیاشی، تفسیر عیاشی، مکتبه علمیه اسلامیه، ج1، ص332۔
6.   ابن‌اثیر، اسدالغابة، 1409ھ، ج‌3، ص605؛ کلینی، الکافی،1407ھ، ج1، ص295؛ بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج2، ص110-111؛ ابن‌کثیر، البدایة و النهایة، 1407ھ، ج7، ص349۔
7.     شیخ صدوھ، الامالی، مؤسسة البعثه، ص188۔
8.    حرعاملی، وسائل الشیعه، 1416ھ، ج10، ص443۔
9.    حر عاملی، وسائل الشیعه، 1416ھ، ج10، ص443۔
10.   حر عاملی، وسائل الشیعه، 1416ھ، ج8، ص89۔
11.     طوسی، تهذیب الاحکام، 1365شمسی، ج6، ص24۔
12.     نصیبی، مطالب السؤول، 1419ھ، ص64۔
13.     نصیبی، مطالب السؤول، 1419ھ، ص79۔
14.     ابن‌خلکان، وفيات الأعيان، دار صادر، ج17 ص180۔
15.    سید رضی، خصائص الائمة، 1406ھ، ص42۔
16.    سید رضی، خصائص الائمۃ، 1406ھ، ص42.
17.     طوسی، مصباح المتهجد، 1411ھ، ج2، ص752.
18.    مسعودی، التنبیه و الاِشراف، 1357ھ، ص221۔
19.    کلینی، الکافی، 1407ھ، ج4، ص149۔
20.     ابن‌کثیر، البدایة و النهایة، 1408ھ، ج11، ص276۔
21.     ابن‌جوزی، المنتظم فی تاریخ الامم و الملوک، 1412ھ، ج15، ص14۔
22.     گردیزی، زین الاخبار، 1363شمسی، ص466۔
23.     امینی، عیدالغدیر فی عهد الفاطمیین، 1376شمسی، ص64-65۔
24.    نیک‌زاد طهرانی و حمزه، «تشیع و تاریخ اجتماعی ایرانیان در عصر صفوی»، ص131۔
25.   لایحه قانونی تعیین تعطیلات رسمی کشور، وبسایت مرکز پژوهش‌های مجلس شورای اسلامی۔
26.     «حال و هوای نجف اشرف در عید غدیر و تعطیلی 10 استان عراق»، خبرگزاری تسنیم۔
27.     ثعالبی، ثمارالقلوب، 1424ھ، ص511۔
28.     خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، دارالکتب العلمیۃ، ج8، ص284۔
29.     قمی، مفاتیح‌الجنان، 18 ذی‌الحجہ کے اعمال کے ذیل میں۔
30.     شهید اول، المزار، 1410ھ، ص64۔
31.    قمی، مفاتیح‌الجنان، ذیل اعمال روز 18 ذی‌الحجه۔
32.     طوسی، تهذیب الاحکام، 1365شمسی، ج3، ص143۔
33.     بحرانی، الحدائق الناضرة، مؤسسة النشر الاسلامی، ج‌11، ص87۔
34.    «عید سادات و سیادت در فرهنگ ایرانی»، جوان آنلاین.
35.     «برپایی سفره‌های اطعام غدیر در مساجد استان زنجان»، خبرگزاری شبستان.
36.     طوسی، مصباح المتهجد، 1411ھ، ج2، ص758.
37.    طوسی، مصباح المتهجد، 1411ھ، ج2، ص752.
38.    البروجردي، السيد حسين، جامع أحاديث الشيعة، ج7، ص414. شیخ عباس قمی، مفاتیح الجنان، اعمال روز عید غدیر
39.     «احیای سنت غدیریِ عقد اخوت در پویش برادرانه»، خبرگزاری شبستان.
40.    امینی، عیدالغدیر فی عهد الفاطمیین، 1376شمسی، ص41.

مآخذ
ابن‌اثیر، علي بن محمد، أسد الغابة في معرفة الصحابة، بیروت، دارالفکر، 1409ھ۔
ابن‌جوزی، ابوالفرج، المنتظم فی تاریخ الامم و الملوک، تحقیق محمد عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیه، الطبعة الاولی، 1412ھ۔
ابن‌خلکان، احمد بن محمد، وفیات الاعیان، تحقیق احسان عباس، قم، الشریف الرضی، 1364ہجری شمسی۔
ابن‌کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایة و النهایة، بی‌جا، دارالفکر، 1407ھ۔
«احیای سنت غدیریِ عقد اخوت در پویش برادرانه»، خبرگزاری شبستان. تاریخ انتشار: 4 مرداد 1400شمسی، تاریخ بازدید: 15 خرداد 1402ہجری شمسی۔
امینی، عبدالحسین، الغدیر فی الکتاب و السنه، قم، مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیه، الطبعة الاولی، 1416ھ۔
امینی، محمدهادی، عیدالغدیر فی عهد الفاطمیین، تهران، مؤسسة الآفاق، 1376ش/1417ھ۔
ایازی، السید محمدعلی، تفسیر القرآن المجید المستخرج من تراث الشیخ المفید، قم، مرکز انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی، 1422ھ۔
بحرانی، یوسف بن احمد، الحدائق الناضرة فی أحکام العترة الطاهرة، تحقیق محمدتقی ایروانی، قم، مؤسسة النشر الاسلامی التابعة لجماعة المدرسین، بی‌تا۔
بَلاذُری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، تحقیق سهیل زکار و ریاض الزرکلی، بیروت، دارالفکر، 1417ھ۔
«برپایی سفره‌های اطعام غدیر در مساجد استان زنجان»، خبرگزاری شبستان، درج مطلب، 18 تیر 1401شمسی، مشاهده 19 فروردین 1402ہجری شمسی۔
تاری، جلیل، «تأملی بر تاریخ وفات پیامبر»، فصلنامه تاریخ اسلام، قم، دانشگاه باقر العلوم، 1379ش.
ثعالبی، عبدالملک بن محمد، ثمار القلوب في المضاف والمنسوب، تحقیق محمد أبوالفضل إبراهيم، بیروت، مکتبة العصریة، 1424ھ۔
«حال و هوای نجف اشرف در عید غدیر و تعطیلی 10 استان عراق»، خبرگزاری تسنیم، درج مطلب 27 تیر 1401شمسی، مشاهده 19 فروردین 1402ہجری شمسی۔
حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعة، مؤسسة آل البیت لإحیاء التراث، قم، 1416ھ۔
خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، تحقیق مصطفی عبدالقادر عطا، دارالکتب العلمیة، بیروت، بی‌تا۔
رزقانی، محمد بن عبدالباقی، شرح العلامه الزرقانی علی المواهب اللدنیة بالمنح المحمدیة، بیروت، دارالکتب العلمیه، 1417ھ۔
سید ابن‌طاووس، علی بن موسی، اقبال الاعمال، مرکز النشر التابع لمکتب الاعلام الاسلامی، قم، 1377ہجری شمسی۔
سید رضی، محمد بن حسین، خصائص الائمة، مشهد، آستان مقدس رضوی، مجمع البحوث الاسلامیة، 1406ھ۔
شهید اول، محمد بن مکی، المزار، به کوشش سید محمدباقر موحد ابطحی، قم، مؤسسة الامام المهدی(عج)، 1410ھ۔
شیخ صدوق، محمد بن علی، الامالی، مؤسسة البعثه۔
طوسی، محمد بن حسن، تهذیب الاحکام، سید حسن موسوی خرسان، تهران، دارالکتب الاسلامیة۔
طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتهجّد و سلاح المتعبّد، مؤسسة فقه الشیعه، چاپ اول، 1411ھ۔
عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر عیاشی، تحقیق رسولی محلاتی، تهران، مکتبه علمیه اسلامیه، بی‌تا۔
قمی، مفاتیح الجنان۔
کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح علی‌اکبر غفاری، دار الکتب الاسلامیة، تهران، 1407ھ۔
گردیزی، ابوسیعد، زین الاخبار، تهران، دنیای کتاب، چ1، 1363ہجری شمسی۔
لایحه قانونی تعیین تعطیلات رسمی کشور، وبسایت مرکز پژوهش‌های مجلس شورای اسلامی، مشاهده 19 فروردین 1402ہجری شمسی۔
«لایحه قانونی تعیین تعطیلات رسمی کشور»، وبسایت مرکز پژوهش‌های مجلس شورای اسلامی، تاریخ بازدید: 6 مرداد 1400ہجری شمسی۔
مسعودی، علی بن حسین، التبیه و الاشراف، دار الصاوی، قاهره، 1357ھ۔
«مهمانی 10 کیلومتری به مناسبت عید غدیر - 2»، خبرگزاری برنا، درج مطلب 27 تیر 1401، مشاهده 19 فروردین 1402ہجری شمسی۔
نصیبی، محمد بن طلحه، مطالب السؤول فی مناقب آل الرسول، تحقیق عبدالعزیز طباطبایی، بیروت، مؤسسة البلاغ، 1419ھ/1999ء۔
نیک‌زاد طهرانی، علی‌اکبر و حسین حمزه، «تشیع و تاریخ اجتماعی ایرانیان در عصر صفوی»، شیعه‌پژوهی، شماره ششم، بهار 1395ہجری شمسی۔
یعقوبی، احمد بن ابی‌یعقوب، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دار صادر، بی‌تا۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک