امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

قرض لینے والے کا بغیر پہلے شرط کیے سود دینا

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

بینک کے مسایل
قرض لینے والے کا بغیر پہلے شرط کیے سود دینا

 ایک شخص دوسرے کو قرض دیتا ہے اور سود وغیرہ سے متعلق کوئی شرط نہیں لگاتا لیکن جب وہ اپنا قرض وصول کرتا ہے تو واضح طور یا کنایہ کی صورت میں اشارہ کرتا ہے کہ کتنا اچھا ہوتا کہ کچھ منافع بھی مل جاتا ، اس صورت میں جب کہ اس نے قرض لینے والے کے لئے کسی خاص رقم کو معین نہیں کیا اور فقط گلہ اور ناراحتی کا اظہار کیا ہے کیا قرض لینے والے کے لئے جائز ہے کہ کچھ رقم اس کو دے دیے کیا یہ رقم ربا (سود) کے حکم میں نہیں ہے ؟
جواب: کیونکہ اس نے شرط نہیں لگائی تھی اور اپنے مافی الضمیر کو گلہ کی صورت میںادا کیا تھا اور کوئی بھی اجبار بھی نہیں تھا لہٰذا کوئی اشکال نہیں ہے ۔

 قرض کے احکام
جہیز کے لئے قرض دینے میں سامان کا معیّن کرنا
 ایک سو سائٹی اپنی خدمات کو بڑھانے یا متنوع کرنے کے لئے قسطی فروش کے قالب میں ، جہیز خریدنے کے لئے قرض دینے کا اقدام کرتی ہے ۔ کیا معاہدہ کرتے وقت ورقرض دیتے وقت سامان کی نوعیت اور اس کی قیمت کو دقیق طور سے معیَّن کرنا ضرور ہے ، یا فقط جہیزکی خریداری کا بیان ، کافی ہے؟
جواب:سامان کی نوعیت کا معین کرنا ضروری نہیں ہے ۔

 قرض کے احکام
بینک کا دیر سے قرض جمع کرنے کا جرمانہ وصول کرنا
 اگر بینک سے لئے ہوئے قرض کو ادا کرنے میں تاخیر ہوجائے ، کیا جرمانہ کے عنوان اور وعدہ میں دیر کرنے کے خسارے کے عنوان کے تحت ،بینک کچھ رقم دریافت کرسکتا ہے ؟
جائز نہیں ہے

 قرض الحسنه
مالی کمپنیوں میں عہدہ داروں اور خریداروں کے مراجع کا الگ الگ ہونا
 اس چیز کو مدّنظر رکھتے ہوئے کہ قرض الحسنہ سوسائٹی کے ملازمین اور خریدار مختلف مراجع تقلید کی تقلید کرتے ہیں اور بینک داری کے سیسٹم میں مراجع تقلید کے فتاویٰ مختلف ہیں، مسائل شرعی اور جدا جدا نظریوں کے سلسلہ میں ہماری کیا تکلیف ہے؟
جواب: قرض الحسنہ سوسائٹی کے چلانے کے والوں کا وظیفہ ہے کہ اپنے مراجع تقلید کے فتاویٰ کے مطابق عمل کریں اور خریداروں کے متعلق تحقیق وجستجو کرنا کہ وہ کس کے مقلّد ہیں ان پر ضروری نہیں ہے۔

 بینک کےمختلف مسایل
قرض دینے کا باقی ماندہ سروس چارج
 اس قرض الحسنہ سوسائٹی کے اخراجات جیسے نوکروں کی تنخواہ، کاغذات کی چھپائی، دفتر کا کرایہ وغیرہ کو پورا کرنے کے لئے قرض لینے والوں سے مندرجہ ذیل شرح کے مطابق سروس چارج لیا جاتا ہے۔۱۔ ایک ماہ کی مدت کے قرض پر ایک فیصد۔۲۔ دو ماہ کی مدت کے قرض پر دو فیصد۔۳۔ دو ماہ سے زیادہ کی مدت پر سالانہ تین فیصد۔قابل ذکر ہے کہ اگر قرض کی مقدار کم ہو تو مذکورہ رقم اخراجات کو پورا نہیں کرتی؛ لیکن اگر قرض کی مقدار کم نہ ہو تو ممکن ہے رقم خرچ سے زیادہ ہوجائے، لہٰذا مہربانی فرماکر بتائیں:۱۔ کیا مذکورہ سروس چارج جائز ہے؟۲۔ اگر اخراجات کو نکال کر کچھ رقم زیادہ ہوجائے اور اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ آئندہ میں بھی قرض دیا جائے گا تو اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: سرویس چارج سے مراد وہ حق الزحمہ ہے جوو بینک یا قرض الحسنہ سوسائٹی وغیرہ کے ملازمین کو تنخواہ کے عنوان سے ان زحمتوں کے مقابل میں ادا کیا جاتا ہے کہ جس سے حساب میں خلل واقع نہ ہو اور تمام کامنجوبی انجام پاجائیں، چنانچہ اگر اضافی مقدار کو اسی نیت سے لیا جائے اور تنخواہ کے عنوان سے ملازمین اور دوسرے اخراجات میں صرف ہو تو کوئی ممانعت نہیں ہے اور باقی ماندہ مقدار کو بھی ملازمین اور دوسرے اخراجات میں صرف کریں۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک