عالمہ غیر معلمہ حضرت زینب (س)
قال علی ابن الحسین علیہما السلام:
” انت بحمد الله عالمة غیر معلمة فہمة غیر مفهمة“[1]
امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ بحمد اللہ میری پھوپھی (زینب سلام علیہا) عالمہ غیرمعلمہ ہیں اور ایسی دانہ کہ آپ کو کسی نے پڑھایا نہیں ہے.
زینب سلام علیہا کی حشمت و عظمت کے لئے یہی کافی تھا کہ انھیں خالق حکیم نے علم لدنی ودانش وہبی سے سرفراز فرمایا تھا اور عزیزان گرامی آج کی مجلس کا عنوان ہے ”زینب کربلا سے شام تک “ زینب ایک فردنہیں بلکہ اپنے مقدس وجود میں ایک عظیم کائنات سمیٹے ہوئے ہیں ایک ایسی عظیم کائنات جس میں عقل و شعور کی شمعیں اپنی مقدس کرنوں سے کاشانہ انسانیت کے دروبام کو روشن کئے ہوئے ہیں اور جس کے مینار عظمت پر کردار سازی کا پر چم لہراتا ہوا نظر آتا ہے زینب کے مقدس وجود میں دنیائے بشریت کی تمام عظمتیں اور پاکیز ہ رفعتیں سمٹ کر اپنے آثار نمایاں کرتی ہوئی نظر آتی ہیں زینب کا دوسری عام خواتینوں پر قیاس کرنا یقینا ناانصافی ہے کیونکہ امتیاز وانفردی حیثیت اور تشخص ہی کے سائے میں ان کی قدآور شخصیت کے بنیادی خدو خال نمایاں ہو سکتے ہیں اور یہ کہنا قطعاً مبالغہ نہیں کہ زینب ایک ہوتے ہوئے بھی کئی ایک تھیں زینب نے کربلا کی سرزمین پر کسب کمال میں وہ مقام حاصل کیا جس کی سرحدیں دائرہ امکان میںآنے والے ہر کمال سے آگے نکل گئیں اورزینب کی شخصیت تاریخ بشریت کی کردار ساز ہستیوں میں ایک عظیم و منفرد مثال بن گئی ہم فضیلتوں کمالات اور امتیازی خصوصیات کی دنیا پر نظر ڈالتے ہیں تو زینب کی نظیر ہمیں کہیں نظر نہیں آتی اور اس کی وجہ یہی ہے کہ زینب جیساکہ میں نے بیان کیا ہے کہ اپنے وجود میں ایک عظیم کائنات سمیٹے ہوئے جس کی مثال عام خواتین میں نہیں مل سکتی ہے اور یہ بات یہ ایک مسلم حقیقت بن چکی ہے کہ انسانی صفات کو جس زاویے پر پرکھا جائے زینب کا نام اپنی امتیازی خصوصیت کے ساتھ سامنے آتا ہے جس میں وجود انسانی کے ممکنہ پہلوؤں کی خوبصورت تصویر اپنی معنوی قدروں کے ساتھ نمایاںدکھا ئی دیتی ہے۔صلوات
جناب زینب ان تمام صفات کے ساتھ ساتھ فصاحت و بلاغت کی عظیم دولت و نعمت سے بھی بہر مند تھی زینب بنت علی تاریخ اسلام کے مثبت اور انقلاب آفریں کردار کا دوسرا نام ہے صنف نازک کی فطری ذمہ داریوں کو پورا کرنے اور بنی نوع آدم علیہ السلام کو حقیقت کی پاکیز ہ راہ دکھانے میں جہاں مریم و آسیہ وہاجرہ و خدیجہ اور طیب وطاہر صدیقہ طاہر ہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہم کی عبقری شخصیت اپنے مقدس کردار کی روشنی میں ہمیشہ جبین تاریخ کی زینت بن کر نمونہ عمل ثابت ہوئی ہیں وہاں زینب بھی اپنے عظیم باپ کی زینت بنکر انقلاب کربلا کا پرچم اٹھائے ہوئے آواز حق و باطل سچ و جھوٹ ایمان و کفر اور عدل وظلم کے درمیان حد فاصل کے طور پر پہچانی جاتی ہیں زینب نے اپنے عظیم کردار سے آمریت کو بے نقاب کیا ظلم و استبداد کی قلعی کھول دی دنیا کے زوال پزیر حسن وجمال پر قربان ہونے والوں کو آخرت کی ابدیت نواز حقیقت کا پاکیزہ چہرہ دیکھا یا صبرو استقامت کا کوہ گراں بنکر علی علیہ السلام کی بیٹی نے ایسا کردار پیش کیا جس سے ارباب ظلم و جود کو شرمندگی اور ندامت کے سوا کچھ نہ مل سکا زینب کو علی و فاطمہ علیہما السلام کے معصوم کردار ورثے میں ملے اما م حسن علیہ السلام کا حسن وتدبیر جہاں زینب کے احساس عظمت کی بنیاد بنا وہاں امام حسین علیہ السلام کا عزم واستقلال علی علیہ السلام کی بیٹی کے صبر و استقامت کی روح بن گیا ، تاریخ اسلام میں زینب نے ایک منفرد مقام پایا اور ایساعظیم کارنامہ سرانجام دیا جو رہتی دنیاتک دنیائے انسانیت کے لئے مشعل راہ واسوہ حسنہ بن گیا۔صلوات
زینب بنت علی(ع)تاریخ اسلام میں اپنی مخصوص انفرادیت کی حامل ہے اور واقعہ کربلا میں آپ کے صبر شجاعانہ جہاد نے امام حسین علیہ السلام کے مقدس مشن کو تکمیل یقینی بنایا آپ نے دین اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کا تحفظ وپاسداری میں اپناکردار اس طرح ادا کیا کہ جیسے ابوطالب(ع)رسول اللہ (ص)کی پرورش میں اپنے بھتیجے کے تحفظ کے لئے اپنی اولاد کو نچھا ور کرنا پسند کرتے تھے کیونکہ ایک ہی ہدف تھا کہ محمد بچ جائے وارث اسلام بچ جائے بالکل اسی طرح زینب کاحال ہے کہ اسلام بچ جائے دین بچ جائے چاہے کوئی بھی قربانی دینی پڑے اسی لئے تاریخ میں زینب کی قربانی کی مثال نہیں ملتی یہ شجاع کی بیٹی ہے جس کی شجاعت کا لوہا بڑے بڑوں نے مانا تھا اس شجاعت کے پیکر کی ولادت باسعادت کے موقع پر جب اسم مبارک کی بات آئی تو تاریخ گواہ ہے کہ سیدہ زینب کی ولادت ہجرت کے پانچویں سال میں جمادی الا ولیٰ کی پانچ تاریخ کو ہوئی اور آپ اپنے بھائی حسین علیہ السلام کے ایک سال بعد متولد ہوئیں جس وقت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اس گوہر نایاب کو اپنے ہاتھوں پر اٹھائے ہوئے دل کے اندر اس کی آنے والی زندگی کے چمن کو سجائے رسول اللہ (ص)کی خدمت میں حاضر ہوئیں اورعرض کی کہ اے بابا اس بچی کا نام تجویز فرمائیں ،روایت کی گئی کہ جس وقت جناب زینب بنت علی ابن ابیطالب علیہم السلام کی ولادت با سعادت ہو ئی تو رسول اللہ(ص)کو ولادت کی خبر دی گئی آپ بہ نفس نفیس فاطمہ الزہرا علیہا السلام کے گھر تشریف لائے اور فاطمہ زہرا سے فرمایا اے میری بیٹی ،اپنی تازہ مولودہ بچی کو مجھے دو پس جب کہ شہزادی نے زینب بنت علی علیہمالسلام کو رسول اکرم (ص)کے سامنے پیش کیا تو رسول اللہ (ص)نے زینب کو اپنی آغوش میں لیکر بحکم خدااس بچی کانام زینب رکھا اس لئے کہ زینب کے معنی ہیں باپ کی زینت جس طرح عربی زبان میں ”زین “معنی زینت اور ”اب“معنی باپ کے ہیں یعنی باپ کی زینت ہیں ،اپنے سینہ ٴ اقدس سے لگالیا اور اپنا رخسار مبارک زینب بنت علی(ع) کے رخسار مبارک پر رکھ کر بلند آواز سے اتنا گریہ کیا کہ آپ کے آنسوں آپ کی ریش مبارک پر جاری ہوگئے فاطمہ زہرا نے فرمایا اے بابا جان آپ کے رونے کا کیا سبب ہے اے بابا آپ کی دونوں آنکھوں کو اللہ نے رلایا نہیں ہے ؟تو رسول اللہ (ص) نے فرمایا اے میری بیٹی فاطمہ آگاہ ہو جاؤ کہ یہ بچی تمہارے اور میرے بعدبلاؤں میں مبتلاہوگی اور اس پر طرح طرح کے مصائب پڑیں گے پس یہ سن کر فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہانے بھی گریہ کیا اور پھر فرمایا اے بابا جان جو شخص میری اس بیٹی اور اس کے مصائب پر بکاکرے گا تو اس کو کیا ثواب ملے گا ؟ تورسول اللہ نے فرمایا اے میرے جگر کے ٹکڑے اور اے میری آنکھوں کی ٹھنڈک ، جو شخص زینب کے مصائب پر گریہ کنا ہوگا تو اس کے گریہ کا ثواب اس شخص کے ثواب کے مانند ہوگا جو زینب کے دونوں بھائیوں پر گریہ کرنے کا ہے۔ ۔صلوات[2]
زینب اس باعظمت خاتون کانام ہے جن کا طفولیت فضیلتوں کے ایسے پاکیزہ ماحول میں گذرا ہے جو اپنی تمام جہتوں سے کمالات میں گھرا ہوا تھا جس کی طفولیت پر نبوت و امامت کاسایہ ہر وقت موجود تھا اور اس پر ہر سمت نورانی اقدار محیط تھیں رسول اسلام (ص)نے انھیں اپنی روحانی عنایتوں سے نوازا اور اپنے اخلاق کریمہ سے زینب کی فکری تربیت کی بنیادیں مضبوط و مستحکم کیں نبوت کے بعد امامت کے وارث مولائے کائنات نے انھیں علم و حکمت کی غذا سے سیر کیا عصمت کبریٰ فاطمہ زہرا نے انھیں فضیلتوں اور کمالات کی ایسی گھٹی پلائی جس سے زینب کی تطہیر و تزکیہ نفس کا سامان فراہم ہوگیا اسی کے ساتھ ساتھ حسنین شریفین نے انھیں بچپن ہی سے اپنی شفقت آمیز مرافقت کا شرف بخشا یہ تھی زینب کے پاکیزہ تربیت کی وہ پختا بنیادیں جن سے اس مخدومہ اعلیٰ کا عہد طفولیت تکامل انسانی کی ایک مثال بن گیا. صلوات [3]
وہ زینب جو قرة عین المرتضیٰ جو علی مرتضیٰ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہو جو علی مرتضیٰ کی آنکھوں کانور ہو وہ زینب جو علی مرتضیٰ کی قربانیوں کو منزل تکمیل تک پہنچانے والی ہو وہ زینب جو”عقیلة القریش“ہو جو قریش کی عقیلہ و فاضلہ ہو وہ زینب جو امین اللہ ہو اللہ کی امانتدار ہو گھر لٹ جائے سر سے چادر چھن جائے بے گھر ہو جائے لیکن اللہ کی امانت اسلام پر حرف نہ آئے، قرآن پر حرف نہ آئے،انسانیت بچ جائے، خدا کی تسبیح و تہلیل کی امانتداری میں خیانتداری نہ پیدا ہو، وہ ہے زینب جو ”آیة من آیات اللہ“آیات خدا میں ہم اہلبیت خدا ہیں ہم اللہ کی نشانیوں میں سے ہم اللہ کی ایک نشانی ہیں وہ زینب جومظلومہ وحیدہ بے مثل مظلومہ جس کی وضاحت آپ کے مصائب میں ہوگی جو مظلوموں میں سے ایک مظلومہ ”ملیکة الدنیا“وہ زینب جو جہان کی ملکہ ہے جو ہماری عبادتوں کی ضامن ہے جو ہماری زینب اس بلند پائے کی بی بی کا نام جس کا احترام وہ کرتا جس کا احترام انبیاء ما سبق نے کیا ہے جس کو جبرائیل نے لوریاں سنائی ہیں کیو نکہ یہ بی بی زینب ثانی زہرا سلام اللہ علیہا ہے اور زہرا کا حترام وہ کرتا تھا جس کا احترام ایک لاکھ چو بیس ہزار انبیاء کرتے تھے میں جملہ حوالہ کررہا ہو ں اگر بیدار ہو کر آپ نے غور کیا تو بہت محظوظ ہو نگے جس رحمة للعالمین کے احترام میں ایک لاکھ انبیاء کھڑے ہوتے ہو ئے نظر آئے عیسیٰ نے انجیل میں نام محمد دیکھا احترام رحمة للعالمین میں کھڑے ہوگئے موسیٰ نے توریت میں دیکھا ایک بار اس نبی کے اوپر درود پڑھنے لگے تو مددکے لئے پکارا احترام محمد میں سفینہ ساحل پہ جا کے کھڑاہوگیا (یعنی رک گیا )عزیزوں غور نہیں کیا جس رحمت للعالمین کے احترام میں ایک کم ایک لا کھ چوبیس ہزار انبیا ء کا، کارواں کھڑا ہو جائے تووہ رحمت للعالمین بھی تو کسی کے احترا م میں کھڑا ہوتا ہو گا اب تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی فاطمہ سلام اللہ علیہا محمد (ص) کے پاس آئیں محمد کھڑے ہو گئے تو اب مجھے کہنے دیجیئے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ استاد کھڑا ہو اور شاگرد بیٹھا رہے سردار کھڑا ہو سپاہی بیٹھے رہیں تو اب بات واضح ہو گئی کہ محمد(ص)اکیلے نہیں فاطمہ کے احترام میں کھڑے ہوئے بلکہ یوں کہہ دوں ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کا کارواں احترام فاطمة الزہرا سلام اللہ علیہامیں کھڑا ہوااب زینب ہیں ثانی زہرا اگران کے تابوت و ان کے حرم کے سامنے احترام میں اگر شیعہ کھڑا ہو جائے تو سمجھ لنیا کہ وہ سنت پیغمبر ادا کررہا ہے ۔صلوات
کائنات کی سب سے محکم و مقدس شخصیتوں کے درمیان پرورش پانے والی خاتون کتنی محکم و مقدس ہوگی اس کا علم و تقویٰ کتنا بلندو بالا ہوگا یہی وجہ ہے کہ روایت کے جملہ ہیںکہ آپ عالمہ غیر معلمہ ہیں آپ جب تک مدینہ ںمیں رہیں آپ کے علم کا چر چہ ہو تا رہا اور جب آپ مدینہ سے کوفہ تشریف لائیںتو کوفہ کی عورتوں نے اپنے اپنے شوہروں سے کہا کہ تم علی سے درخواست کرو کہ آپ مردوں کی تعلیم و تربیت کے لئے کافی ہیں لیکن ہماری عو رتوں نے یہ خواہش ظاہر کی ہے کہ اگر ہو سکے تو آپ اپنی بیٹی زینب سے کہہ دیں کہ ہم لوگ جاہل نہ رہ سکیں ایک روز کوفہ کی اہل ایمان خواتین رسول زادی کی خدمت میں جمع ہو گئیںاور ان سے درخواست کی کہ انھیں معارف الٰہیہ سے مستفیض فرمائیں زینب نے مستورات کوفہ کے لئے درس تفسیر قرآن شروع کیا اور چند دنوں میں ہی خواتین کی کثیر تعداد علوم الٰہی سے فیضیاب ہونے لگی آپ روز بہ روز قرآن مجید کی تفسیر بیان کر تی تھیںاور روزبہ روز تفسیر قرآن کے درس میں خواتین کی تعداد میں کثرت ہو رہی تھی درس تفسیر قرآن عروج پر پہنچ رہا تھااور ساتھ ہی کوفہ میں آپ کے علم کا چرچہ روز بروز ہر مردو زن کی زبان پر تھااور ہر گھر میں آپ کے علم کی تعریفیں ہو رہی تھیں اور لوگ علی(ع) کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کی بیٹی کے علم کی تعریفیں کیا کرتے تھے یہ اس کی بیٹی کی تعریفیں ہو رہی ہے جس کا باپ ”راسخون فی العلم “ جس کا باپ باب شہر علم ہے جس کا باپ استاد ملائکہ ہے ۔صلوات
یہ تھی عظمت صدیقہ طاہرہ زینب کبریٰ ،لیکن ، وہ و قت بھی قریب آیا کہ جب زمانہ نے رخ موڑ لیا ،جس در سے لوگ نجات حاصل کرتے تھے اسی در کو مسمار و کرنے کی تیاریاں ہو نے لگیں حسین مظلوم نے ایک چھوٹا سا کارواں بنایا اوربحکم الٰہی نانا کے مدینہ کو خیر باد کہہ کر راہ کربلا اختیار کیا ایک روز راہ میں زینب نے دیکھا کہ دنیا ئے انسانیت کو منزل سعادت پہو نچانے کا ذمہ دار امام محراب عبادت میں اپنے معبود کے ساتھ راز و نیاز کرنے میں مصروف ہے بامعرفت بہن بھائی کے قریب بیٹھ گئی جب امام اپنے وظیفہ عبادت سے فارغ ہو ئے تو زینب نے کہا بھیا میں نے آج شب میں ایک صدائے غیبی کو سنا ہے گویا کوئی یہ کہہ رہا تھا کہ
الا یا عین فاحتفظی
علی قوم تسوم قهم امنایا۔
ومن یبکیٰ اعلیٰ الشهد اء بعدی
بمقدار الیٰ انجاز وعدی
ان اشعار کا ترجمہ اردو زبان کے منظومہ انداز میں پیش خدمت ہے۔
ا شکبار دل حزیں ہے ، میرا ساتھی یہاں کوئی نہیں ہے
میرا عہدو فا پورا ہو ا ہے ،مصیبت میں مصیبت آفریں ہو
شہیدوں پر نہیں روئے گا کوئی،یہی احسا س دل میں آتشیں ہے
غم و کرب وبلااور درد پیہم ، یہ سب اور ایک جسم نازنیں ہے
بھائی بہن میں ابھی یہ باتیں ختم ہو ئیں تھیں کہ دو اعرابی کو فہ سے ایک غم انگیز خبر لے کر آئے اور انھوں نے امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں بعد سلام کہا ہم مغموم دل کے ساتھ آپ کو یہ خبر دے رہے ہیں کہ آپ کے سفیر مسلم بن عقیل کوفہ والوں کی بے وفائی کا شکار ہوئے اور انھیں نہایت بے دردی کے ساتھ قتل کردیا گیا ہے کوفہ والوں کے دل آپ کے ساتھ ہیں لیکن تلواریں ان کی آپ کے مقابلے میں اٹھ چکی ہیں اب و ہ وقت بھی قریب آگیا جب حسین کا قافلہ وارد کربلا ہو چکا ہے حبیب کا سلام زینب تک پہنچ چکا ہے زینب بنت علی ، حبیب کو سلام کہلواچکی تھیں اور وہ صبح نمودار ہوئی جو دن سکینہ کی یتیمی کا دن تھا اب حسین ہیں اور سکینہ ہیں باقی سارے اصحاب وانصار جاکر مقتل میں سوگئے ہیں سکینہ کے آنسو ںرکتے نہیں ہیںاب حسین باربار سکینہ کو گلے سے لگاتے ہیں اور دلاسہ سکینہ کو دیتے ہیں جو بچی صبح سے یہ منظر دیکھ رہی ہو اس کا کیا حال ہوگا وہ سکینہ جو صبح سے کبھی اکبر کاجنازہ کبھی عموں کاجنازہ کبھی ننھے اصغر کا جنازہ رکھ رہی ہے حسین(ع) دلاسے پر دلاسہ دے رہے ہیں سکینہ کی ہچکیاں رکتی نہیں ہیں حسین سکینہ کو دلاسے دیتے ہو ئے فرماتے ہیں کہ:
اے لاڈلی سکینہ بس عنقریت تجھ پر میرے ، میں جب تلک زندہ ہوں اے میری بیٹی ،ہو جاؤں قتل میں جب جی بھر کے بین کرنا ، فراق کا غم آئے گا بن طوفان لیکن ، آنسوں نہ تم بہانا مت ہو نا پریشان ،اے باوقار بیٹی اے میری جان جاناں، حسین نے خیام زینب میں بہن سے رخصت ہو تے ہوئے فرمایا بہن خدا حافظ تیرا حسین (ع)جارہا ہے بہن گریہ نہ کرو کیو نکہ یہ دنیا ایک گزر گاہ ہے یہاں جو بھی آیا ہے اسے ایک روز جانا ہے ایک بار حسین مظلوم نے اپنی بہن کو غور سے دیکھا آنسوں آگئے کہا بہن اماں بہت یاد آرہی ہیں حسین مظلو م نے عصمت شعار بہن کی طرف دیکھ کر کہا بہن میرے جد محمد مصطفی مجھ سے بہتر تھے مگر وہ بھی چلے گئے میرے پدر بزرگوار بابا علی مرتضی مجھ سے برتر تھے وہ بھی اس دنیا کو چھوڑ گئے میری مادر گرامی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا مجھ سے افضل تھیں وہ بھی اس دنیا سے چلیں گیئیں میرے بھائی حسن مجتبی مجھ سے بہتر تھے وہ بھی اس دنیا کی آشائشوں سے منہ موڑگئے لیکن اب تم جس طرح گریہ کنا ہو اور غم والم سے نڈھال ہو لیکن اس سے پہلے میں نے کبھی تمہاری ایسی حالت نہ دیکھی تھی عیز یزان گرامی مصیبت میں اور پردیس میں ماں کی بہت یاد آتی ہے ایک بارزینب نے صبرو تحمل سے اپنے کو سنبھالا اور پھر دونوں بھائی بہن گلے مل کر خوب روئے اس کے بعد حسین رخصت ہو ئے بیبیوں میں کہرام برپا ہو ا اور خیموں میں اداسی چھاگئی ادھر زینب کا سلام تھا ادھر مقتل میں بھائی کا لاشہ تھا۔
ہمارا سلام ہو مظلوم کربلا کے عزم و استقلال پر ،ہمارا سلام ہو شہید کربلا کے صبرو استقامت پر ۔ہمارا سلام ہو فرزند رسول کی پاک روح پر ،ہمارا سلام ہو زینب کے ماں جائے پر۔
ہمارا سلام ہو علی و فاطمہ کے لخت جگر پر ، ہمارا سلام ہو حسین پر اور ہمارا سلام ہو کربلا کے تمام شہدا پر۔
زینب نے جب اپنے بھائی کو صحرائے کربلا میں تڑپتا دیکھا تو کہا ہائے میرے نانا محمد ہائے میرے بابا علی(ع)ہائے میرے چچا جعفر ہائے حمزہ سید الشہداء دیکھو میراغریب حسین(ع) صحرائے کربلا پر خون میں لت پت پڑا ہے کاش آج آسمان گرجاتایہ منظر زینب نہ دیکھتی لیکن ایک بار راوی کہتا ہے کہ زینب نے کلیجے کو سنبھالا اور اس کے بعد بھائی کا کٹا ہوا گلا چوم کر صبرو رضا کا دامن تھامے ہو ئے خیام کی طرف چلیں زینب نے اتنی عظیم مصیبت پر صبرو استقامت اختیار کر کے عظمت انسانیت کو معراج بخشی اور پیام حسینی کی ہدایت نواز تاثیر سے دنیا ئے بشریت کو حیات جاویداں کا راستہ دکھایا یہی وجہ ہے کہ آج تک ہر صاحب بصیرت انسان زینب کے جذبہ استقامت کے سامنے سر ے ادب خم کئے ہوئے ہے کربلا کی شیر دل خاتون زینب کبریٰ نے مصیبت دائم کی گھڑی میں صبرو تحمل کے ایسے نمونے پیش کئے جو آج تک ہر اہل درد کے لئے مثال بن چکے ہیں حضرت علی علیہ السلام کی باعظمت بیٹی نے اپنی ہر مصیبت میں رضائے الٰہی کو مد ے نظر رکھا اور اپنے صبرکا اجر بار گاہ خدا سے طلب کیا یہی وجہ ہے کہ بھائی کی لاش پر آکر خد ا کے حضور میں قربانی آل محمد علیہمالسلام کی قبولیت کی دعا کرنا زینب کے مقام تقویٰ کا بے مثال نمو نہ سمجھا جاتا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اتنے عظیم بھائی کی لاش پر بہنیں عموماً اپنے حواس کھو بیٹھتی ہیں لیکن زینب کے اخلا ص صبر کی عظمتیں نمایا ں ہوئیں اور غم و اندو ہ کی اس حالت میں رضائے الٰہی کے حصول کی دعا ئیں مانگتی رہیں عقیلہ بنی ہاشم زینب کبریٰ نے کربلا کی غم واندو ہ فضاء میں عظمت و کردار کے جو نمونے پیش کئے وہ نہ فقط یہ کہ پوری کائنات کے لئے معیار عمل بنے بلکہ شہادت امام کے عظیم مقصد کی تکمیل بھی ہوئی اور رہتی دنیا تک فطرت کی اعلیٰ اقدار کے تحفظ کی ضمانت بھی فراہم ہو گئی حق وباطل کی پہچان کے راستے واضح ہوگئے اور شہدائے کربلا کی عظیم قربانیوں کے پاکیزہ اسرار بھی نمایاں ہوگئے۔
سیدہ زینب نے اپنے پر جوش خطاب میں اموی خاندان کی بربریت اور ارباب اقتدار کی طاغوتیت کو بے نقاب کردیا اور لوگوں کو ان کے جرائم کے خلاف قیام کرنے پر آمادہ کیا ۔
اے زینب کبریٰ تیرے خطبوں کے ذریعہ
شبیر کا پیغام زمانہ نے سنا ہے
دیتے ہیں جو ہر روز مسلمان آذانیں
در اصل تیرے درد بھرے دل کی صدا ہے
شاعر نے زینب کے خطبو کی حقیقت پر یو ں روشنی ڈالی ہے کہ:
ایمان کی منزل کف پاچوم رہی ہے
ملت کی جبیں نقش وفاچوم رہی ہے
اے بنت علی عارفہ لہجہ قرآں
خطبوں کو تیرے وحی خدا چوم رہی ہے
ایک روایت بتا تی ہے کہ جس وقت قیدیوں کو دمشق میں لایا گیا تھا تو اس وقت ایک عورت یزید کی بیوی ہند کے پاس آئی اور اس سے کہا کہ اے ہند ابھی ابھی کچھ قیدی آئے ہیں انھیں دیکھ کر دل دہل اٹھتا ہے آؤ چلیں وہیں دل بہلائیں ہند اٹھی اور اس نے عمدہ لباس زیب تن کیا اور اپنی سرتا پا چادر اوڑھی اور دوپٹہ سر کرکے اس مقام پر آئی اور اس نے خادمہ کو حکم دیا کہ ایک کرسی لائی جائے جب وہ کرسی پر بیٹھ گئی تو زینب کی نظر اس پر پڑی آپ نے غور سے اس کی طرف دیکھا تو اسے پہچان لیا اور اپنی بہن ام کلثوم سے کہا بہن کیا آپ نے اس عورت کو پہچان لیاہے ؟ کلثوم نے جواب دیا کہ نہیں میں نے اسے نہیں پہچانا ، زینب نے فرمایا یہ ہماری کنیر ہند بنت عبداللہ ہے جو ہمارے گھر میں کام کا ج کرتی تھی ، زینب کی بات سن کر ام کلثوم نے اپنا سرے نیچے کر لیا اور اسی طرح زینب نے بھی اپنا سر نیچے کر لیا تاکہ ہند ان کی طرف متوجہ نہ ہو لیکن ہند ان دونوں بیبیو ں کو غور سے دیکھ رہی تھی اس نے آگے بڑھ کر پوچھا آپ آپ نے آپس میں کیا گفتگو کر کے پر اسرار طور پر اور خاص انداز میں اپنے سر جھکا لئے ہیں کیا کوئی خاص بات ہے ؟ زینب نے کوئی جواب نہ دیا اور خاموش کھڑی رہیں ہند نے پھر پوچھا بہن آپ کس علاقے سے ہیں ؟
اب زینب خاموش نہ رہ سکیں اور فرمایا ، ہم مدینہ کے رہنے والے ہیں ،ہند نے مدینہ منورہ کا نام سنا تو اپنی کرسی چھوڑدی اور احترام سے کھڑی ہو گئی اور پوچھنے لگی بہن کیا آپ مدینے والوں کو جانتی ہیں ؟ زینب نے فرمایا ، آپ کن مدینہ والوں کے بارے میں دریافت کرنا چاہتی ہیں ہند نے کہا ، میں اپنے آقا امام علی کے گھرانے کے متعلق پوچھنا چاہتی ہوں ، علی کے گھر انے کانام لےکر ہندکی آنکھوں سے محبت کے آنسوں جاری ہو گئے اور خود کہنے لگی میں اس گھرانے کی خادمہ تھی اور وہاں کام کیا کرتی تھی مجھے اس گھرانے سے بہت محبت ہے زینب نے پوچھا تو اس گھرانے کے کن افراد کو جانتی ہے اور کن کے متعلق دریافت کرنا چاہتی ہے ؟ ہند نے کہا کہ امام علی کی اولاد کا حال معلوم کرنا چاہتی ہوں میں آقاحسین(ع) اور اولاد حسین (ع)اور علی (ع)کی پاکباز بیٹیوں کا حال معلوم کرنا چاہتی ہوں خاص طور پر میں اپنی آقازادیوں زینب و کلثوم کی خیریت دریافت کرنا چاہتی ہوں اور اسی طرح فاطمہ زہرا کی دوسری اولاد کے متعلق معلوم کرنا چاہتی ہوں زینب نے ہند کی بات سن کر اشکبار آنکھوں کے ساتھ جواب دیا ، تونے جو کچھ پوچھا ہے میں تفصیل سے تجھے بتاتی ہوں تو نے علی(ع)کے گھر کے متعلق پوچھا ہے تو ہم اس گھر کو خالی چھوڑ کر آئے تھے ، تو حسین(ع)کے متعلق دریافت کرتی ہے تو یہ دیکھو تمہارے آقا حسین(ع) کا سر تمہارے شوہر یزید کے سامنے رکھا ہے تو نے اولاد علی علیہ السلام کے متعلق دریافت کیا ہے۔
تو ہم ابو الفضل العباس سمیت سب جوانوں کو کربلا کے ریگزار پر بے غسل و کفن چھوڑ آئے ہیں تو نے اولاد حسین (ع)کے متعلق پوچھا ہے تو ان کے سب جوان مارے گئے ہیں صرف ایک علی ابن الحسین(ع) باقی ہیں جو تیرے سامنے ہیں اور بیماری کی وجہ سے اٹھ بیٹھ نہیں سکتے ہیں اور جو تو نے زینب کے متعلق دریافت کیا ہے تو دل پر ہاتھ رکھ کر سن کہ میں زینب ہو ں اور یہ میری بہن ام کلثوم ہے زینب کا دردناک جواب سن کر ہند کی چیخ نکل گئی اور منہ پیٹ کر کہنے لگی ہائے میری آقا زادی یہ کیا ہو گیا ہے ہائے میرے مولا کا حال کیسا ہے ہائے میرے مظلوم آقا حسین کاش میں اس سے پہلے اندھی ہو جاتی اور فاطمہ کی بیٹیوں کو اس حال میں نہ دیکھتی ، روتے روتے ہند بے قابو ہوگئی اور ایک پتھر اٹھا کر اپنے سر پر اتنے زور سے مارا کہ اس کا سارا بند خون خون ہو گیا اور وہ گر یہ کر کے بے ہوش ہو گئی جب ہوش میں آئی تو زینب اس کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگیں اے ہند تم کھڑی ہو جاؤ اور اب اپنے گھر چلی جاؤ کیونکہ تمہارا شوہر یزید ، بڑا ظالم شخص ہے ممکن ہے تمہیں اذیت و آزار پہو نچا ئے ہم اپنی مصیبت کا وقت گزار لیں گے ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہماری وجہ سے تمہارا سکون تباہ ہو جائے ہند نے جواب دیا ،کہ خدا مجھے اپنے آقا و مولا حسین سے زیادہ کو ئی چیز عزیز نہیں ہے میری زندگی کا سکون ختم ہو چکا ہے اور اب میں اپنی زندگی کے باقی لمحات اسی طرح روتے ہو ئے گزاروں گی اور اے میری آقا زادیوں میں آپ سے درخواست کرتی ہوں آپ سب میرے گھر آئیں ورنہ میں بھی آپ کے ساتھ یہیں بیٹھی رہوں گی اور قطعاً اپنے گھر نہیں جاؤں گی یہ کہہ کر ہند اٹھ کھڑی ہوئی اور اپنی چادر اتار کر منہ پیٹتی ہو ئی سر برہنہ یزید کے پاس آگئی یزید اس وقت سات سو کرسی نشین بیرون ملک کے سفیروں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اپنی تعریف میں محو تھا ہند نے یزید سے کہا اے یزید کیا تو نے حکم دیا ہے کہ میرے آقا زادے حسین (ع) کا سر نوک نیزہ پر بلند کرکے دروازے پر لٹکایا جائے نواسہ رسول کا سر میرے گھر کے دروازے پر ،یزید نے اپنی زوجہ کو اس حالت میں دیکھا تو فوراً اٹھ کھڑا ہوا اور بھرے مجمع میں اسے سربرہنہ دیکھ کر برداشت نہ کرسکا اسے چادر پنہائی اور کہنے لگا ہاں یہ حکم میں نے دیا ہے اب تو نواسہ رسول پر گریہ و ماتم کرنا چاہتی ہے تو بے شک کرلے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ابن زیاد نے جلد بازی سے کام لیتے ہوئے حسین کو قتل کرڈالا ہے جب یزید نے یہ چاپلوسی و مکر فریب سے یہ بھرے ہوئے جملے کہہ چکا تواس وقت اس نے ہند کو چادر اڑھائی تو ہند نے کہا اے یزید خدا تجھے تباہ وبربادکرے اپنی زوجہ کو بھرے مجمع میں سربرہنہ دیکھ کرتیری غیرت جاگ اٹھی ہے مگر تو رسول زادیوں کو کھلے عام سربرہنہ کرکے بازاروں اور درباروں میں لایا ہے اوران کی چادریں چھین کر انھیں نا محرموں کے سامنے لاتے وقت تیری غیرت کہاں گئی تھی وائے ہو اے یزید تجھ پراسی زینب نے جب چند دنوں کے بعد رہائی پائیں توزندان شام میں ایک ننھی سی قبر پر سلام کیا اور کہا سکینہ بہت وطن یاد آتا تھا وطن جارہے ہیں خداحافظ بیبیاں روتی ہو ئیں رخصت ہو گئیں ہائے سکینہ ہائے سکینہ وامصیبتاہ واغربتاہ.[4]
--------------------------------------------------------------------------------
[1] (خصائص زینبیہ ص ۷۹ وزینب زینب ہے ص.سفینةالبحار جلد ۱ص۵۵۸.)
[2] خصائص زینبیہ :ص۵۲زینب زینب ہے۷۳
[3] صحیفہ وفا :ص۱۱۳
[4] مصائب زینب زینب ہے ص۳۴۰تا ۳۵۹.