امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

امام حسين عليه‌السلام کی نصیحت اور گناہوں سے مقابلہ

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

لوح موعظه
حديث-۳۱- عَنِ الْحُسَيْنِ عليه السلام قالَ: وُجِدَ لَوْحٌ تَحْتَ حائِطِ مَدينَةٍ مِنْ الْمَدائِنِ مَكْتُوبٌ فِيهِ: عَجِبْتُ لِمَنْ اَيْقَنَ بِالْمَوْتِ كَيْفَ يَفْرَحُ؟وَعَجِبْتُ لِمَنْ اَيْقَنَ بِالْقَدَرِ كَيْفَ يَحْزَنُ؟ وَعَجِبْتُ لِمَنِ اخْتَبَرَ الدُّنْيا كَيْفَ يَطْمَئِنُّ اِلَيْها. [عيون اخبار الرضا، ج 2، ص 48]
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: شہروں میں سے کسی  شہرکی دیوار کے نیچے سے ایک لوح ( تختی) ملی جس پر لکھا تھا: میں اس سے تعجّب  ہوتا ہے اورحیران ہوں کہ  جو موت پر یقین رکھتا ہے لیکن کیسے خوشی محسوس کرسکتا ہے، اور میں حیران ہوں  اس سےجو شخص پروردگار عالم کی تقدیر پر یقین رکھتا ہے وہ کیسے غمگین ہو سکتا ہے، اور میں حیران ہوں جس نے دنیا کو آزمایا ہو اور آزمائش  کی ہو  وہ اس پر کیسے اعتماد  اور اطمينان پيدا کرسکتا ہے؟


ماضی کے لوگوں سے عبرت
حديث-۳۲- قالَ الْحُسَيْنُ عليه السلام: يَابْنَ آدَمَ تَفَكَّرْ وَقُلْ اَيْنَ مُلُوكُ الدُّنْيا وَاَرْبابُهَا الَّذينَ عَمَرُوا وَاحْتَفَرُوا أَنْهارَها وَغَرَسُوا أَشْجارَها وَمَدَنُوا مَدائِنَها، فارَقُوها وَهُمْ كارِهُونَ. [ارشاد القلوب، ج 1، ص 29.]
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: اےآدم کے اولاد! سوچواور کہو: کہاں ہیں دنیا کے بادشاہ اور دنیا کے وہ مالک اور صاحبان دنيا جنہوں نے اسے آباد کیا ، نہریں کھودیں ،درخت لگائے ، شہر بنائے اور پھر نفرت اور ناراض ہو کر ان سے جدا ہو گئے۔


فقر، بيمارى اور موت
حديث-۳۳- قالَ الْحُسَيْنُ عليه السلام: لَوْلا ثَلاثَةٌ ما وَضَعَ ابْنُ آدَمَ رَأْسَهُ لِشَىْءٍ: اَلْفَقْرُوَ الْمَرَضُ وَالْمَوْتُ. [نزهة الناظر، ص،۸۰]
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: اگر تین چیزیں نہ ہوتیں تو ابن آدم(انسان) کو کسی چیز کا سامنا نہ ہوتا: 1- غربت، فقر اور تنگی، 2- بیماری اور 3- موت۔


عالیشان گھر
حديث-۳۴- قالَ الْحُسَيْنُ عليه السلام: اَخْرَبْتَ دارَكَ، وَعَمَّرْتَ دارَ غَيْرِكَ، غَرَّكَ مَنْ فِى الاْرْضِ، وَمَقَّتَكَ مَنْ فِى السَّماءِ. [تنبيه الخواطر، ج 1، ص 70 . مستدرك الوسائل، ج 3، ص 467]
امام حسین علیہ السلام سے کسی نے مجلل  اورعالیشان گھر بنانے کے بعد امام کوتبرّك اور برکت  کی غرض سے مدعو کیا:توامام علیہ السلام گھر میں تشریف لے جانے کے بعدفرمایا: تم نے اپنا  اصلی گھر تباہ و برباد کر دیا اور دوسرے لوگوں کے گھر  کوبنایا ہے۔ جو زمین پر ہے انہوں نے تمہیں دھوکہ اور نقصان پہنچایا  اور جو آسمان پر ہے (خدا کو  ) تم نےمتنفر اور دشمن بنایا۔


چھٹا حصہ:
امام حسين عليه‌السلام کا گناہوں سے مقابلہ
عذرخواهى کیوں!
حديث-۳۵- قالَ الْحُسَيْنُ عليه السلام: اِيّاكَ وَما تَعْتَذِرُ مِنْهُ، فَاِنَّ الْمُؤْمِنَ لايُسِىءُ وَلا يَعْتَذِرُ وَالْمُنافِقَ كُلُّ يَوْمٍ يُسِىءُ وَيَعْتَذِرُ. [تحف العقول، ص 177 ـ بحارالانوار، ج 78، ص 120]
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:  عذر خواہی اورمعافی مانگنے سے بچو، کیونکہ مؤمن برے کام نہیں کرتا تو معافی بھی نہیں مانگتا، لیکن منافق ہر روز برائی کرتا ہے اور پھر معافی مانگتا ہے۔(اولا مؤمن کوگناہ نہیں کرنا چاہےجس کی وجہ سے عذر خواہی اور معافی مانگنا پڑے)


غریبوں پر ظلم
حديث-۳۶- قالَ الْحُسَيْنُ عليه السلام: يا بُنَىَّ اِيّاكَ وَظُلْمَ مَنْ لايَجِدُ عَلَيْكَ ناصِراً اِلاَّ اللّهَ. [بحارالانوار، ج 75، ص 308 ـ اعيان الشيعة، ج 1، ص 620]
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: اےمیرے بیٹے! اس پر ظلم کرنے سے بچو جس کےلئے اللہ کے سواء کوئی مددگار نہیں۔


بادشاہوں کی بدترین خصلتیں۔
حديث-۳۷- قالَ الْحُسَيْنُ عليه السلام: شَرُّ خِصالِ الْمُلُوكِ: اَلْجُبْنُ مِنَ الاْعْداءِ، وَالْقَسْوَةُ عَلَى الضُّعَفاءِ وَالْبُخْلُ عِنْدَ الاْعْطاءِ. [مناقب ابن شهرآشوب، ج4، ص65 ـ بحارالانوار، ج44، ص189]
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: بادشاہوں کی سب سے بری خصوصیات اوربری صفات یہ ہیں: 1- دشمنوں سے خوف محسوس کرنا اور ان سےڈرنا 2- کمزوروں پر بربریت اور ظلم  کرنا 3- دیتے وقت گنجوسی اوربخل سے کام لینا۔


انكار منكر
حديث-۳۸- قالَ الْحُسَيْنُ عليه السلام: لا يَنْبَغى لِنَفْسٍ مُؤْمِنَةٍ تَرى مَنْ يَعْصِى اللّهَ فَلا تُنْكِرُ. [كنزالعمال، ج 3، ص 85]
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: مؤمن کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ کسی کو خدا کی نافرمانی  اور گناہ کرتے ہوئے دیکھے لیکن اسے روکے اورمنع نہ کرے۔


غيبت، کتوں کی غذا
حديث-۳۹- قالَ الْحُسَيْنُ عليه السلام لِرَجُلٍ اغْتابَ عِنْدَهُ رَجُلاً: يا هَذا كُفَّ عَنِ الْغيبَةِ فَاِنَّها اِدامُ كِلابِ النّارِ. [تحف العقول، ص 175 ـ بحارالانوار، ج 78، ص 117]
امام حسین علیہ السلام نے ایک شخص سے فرمایا جس کے پاس کسی دوسرے آدمی کی غیبت کی تھی(امام حسین علیہ السلام نےفرمایا) اےفلاں! غیبت سے سے بچو اور پرہیز کرو کیونکہ غیبت دوزخ و جہنم کے کتوں کا غذا (سالن، یا پسندیدہ غذا)ہے۔


غیبت کے بارے میں مختصر معلومات:
"غِیبَت "کا معنی کسی کی غیر موجودگی میں اس کی برائی کرنا ہے، اور یہ ایک کبیرہ گناہ ہے کہ اسلام میں اس کی نہی کی گئی ہے. قرآن نے اس گناہ کو مردہ انسان کے گوشت کھانے سے توصیف کیا ہے اور روایات میں اس کا گناہ زنا کرنے سےبھی زیادہ شدید کہا گیا ہے، غیبت میں مرتکب ہونے کے علاوہ، اس کو سننا بھی حرام ہے. اور اس گناہ سے حق الناس پایمال ہوتا ہے، اس لئے بعض روایات کے مطابق، توبہ اس بات پر منحصر ہے کہ جس کی غیبت کی گئی ہے وہ خود معاف کر دے. روایات میں، غیبت کے بارے میں عذاب اور اس کے آثار ذکر ہوئے ہیں، جیسے کہ غیبت کرنے والے کے صالح اعمال جس کی غیبت کر رہا ہوتا ہے اس کی طرف منتقل ہو جاتے ہیں اور جس کی غیبت کر رہے ہوتے ہیں اس کے گناہ غیبت کرنے والے کی طرف منتقل ہو جاتے ہیں.


غیبت کی تعریف
علم اخلاق کی نگاہ میں، غیبت یہ ہے کہ اپنے دینی بھائی کی غیرموجودگی میں، اس کی برائی کی جائے، [1]اگرچہ وہ نقص اس کے بدن میں ہو یا اس کی صفات، افعال اور اقوال میں وہ بات ہو یا کوئی بھی چیز جو اس کے متعلق ہو جیسے گھر، لباس و...(2)
غیبت کی چند قسمیں ہیں: بلا واسطہ یا کنایہ کے طور پر کہنا. لکھنا، ہاتھ اور پاؤں کے اشارے سے، روایت ہے کہ ایک عورت عائشہ کے پاس آئی اور جب وہ باہر گئی، تو عائشہ نے اپنے ہاتھ سے اس کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ اس کا قد چھوٹا ہے. رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ اس کی غیبت کی ہے. (3)
اگر کسی کی غیرموجودگی میں کوئی جھوٹا مطلب بیان کیا جائے، یہ ایسا گناہ ہے کہ جسے تہمت کہا جاتا ہے: غیبت اور جھوٹ کا امتزاج. دوسروں کی خوبی اور کمال کو بیان کرنا غیبت نہیں ہے اور یہ کہ یہ بات میں اس کے سامنے بھی کہوں گا یہ غیبت کی حالت کو تبدیل نہیں کرتا.


غیبت کا حکم
غیبت کی حرمت پر اجماع موجود ہے، بلکہ یہ فقہ کی ضروریات سے ہے. [4]جیسے کہ غیبت حرام ہے، اس کا سننا بھی گناہ کبیرہ ہے.
رسول خدا(ص) نے حدیث میں فرمایا کہ اگر کوئی اپنے دینی بھائی سے غیبت کو دور کرے گا تو خداوند برائی کے ہزار دروازے دنیا اور آخرت میں اس کے لئے بند کر دے گا.(5)


حق الناس اور حق اللہ
غیبت حق اللہ کے علاوہ، حق الناس کے متعلق بھی ہے اور خداوند اس وقت تک غیبت کرنے والے کو معاف نہیں کرتا جب تک وہ شخص راضی نہ ہو جائے جس کی غیبت کی گئی ہے. پیغمبر(ص) نے اپنی وصیت میں ابوذر سے فرمایا: غیبت سے ڈرو، کیونکہ وہ زنا سے بھی زیادہ بری چیز ہے. عرض کیا کیوں یا رسول اللہ؟ فرمایا: اس لئے کہ زنا کار توبہ کرے گا تو خداوند اس کی توبہ قبول کر لے گا لیکن غیبت کرنے والے کا گناہ اس وقت تک معاف نہیں ہوتا جب تک کہ جس کی غیبت کی ہو وہ معاف نہ کرے(6)


جواز غیبت
اگرچہ غیبت ایک بہت بڑا اخلاقی اور سماجی گناہ ہے، لیکن آئمہ(ع) کی احادیث کے مطابق، بعض مقامات جہاں انسان کی بھلائی ہو اور کوئ مشروع مقصد ہو جو کہ اس کے مفاسد کا جبران کر سکے وہاں غیبت جائز ہے. بعض مقامات جہاں غیبت جائز ہے وہ درج ذیل ہیں:

١.ظالم سے عدالت خواہی، ٢.نہی از منکر، ٣. سوال اور استفتا، ٤.اہل بدعت، ٥. جو علنی طور پر گناہ کرتا ہے، اسی گناہ کے متعلق، نہ ایسے گناہ کے متعلق جو وہ مخفی طور پر انجام دیتا ہو.

جائز مقامات پر بھی بہتر ہے کہ غیبت کو ترک کیا جائے مگر ایسے موارد میں جہاں ضرورت ہو اور اگر خاموش رئیں تو دوسرے افراد یا جامعہ کو نقصان پہنچے(7)


غیبت قرآن اور روایات میں
غیبت ایک کبیرہ گناہ ہے کہ قرآن میں اسے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیح دی گئی ہے. روایات میں بھی غیبت کرنے والے کے بارے میں شدید قسم کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں. پیغمبر(ص) نے فرمایا: جو کوئی بھی کسی مسلمان مرد یا عورت کی غیبت کرے گا، خداوند چالیس دن رات تک اس کے نماز اور روزے قبول نہیں کرے گا مگر یہ کہ وہ شخص خود معاف کر دے جس کی غیبت کی ہے(8)
امام صادق(ع) نے اس گناہ کے ایک ریشے کو حسد کہا ہے (9) اور یہ کہ غیبت کرنے والا خدا کی ولایت سے خارج ہو کر شیطان کی ولایت میں داخل ہوجاتا ہے.(10)


غیبت کے سماجی آثار
غیبت انسان کے روح و روان کو خراب کرنے کے علاوہ، انسانوں کے سماجی محیط کو بھی آلودہ کرتی ہے اور دین کے مقصد کے خلاف، انسانوں کی آپس میں نفرت اور دشمنی کا باعث بنتی ہے، ذہنی سکون ختم کر دیتی ہے اور گناہ پھیل جاتا ہے.
امام خمینی(رح) نے اپنی کتاب "چالیس حدیث" میں غیبت کے کچھ آثار کو مفصل طور پر بیان کئے ہیں(11)


معاشرے کا ایمان اور اخلاق ختم ہو جاتا ہے
دنیا اور آخرت میں انسان کی رسوائی
گناہ اور معاصی کی برائی ختم ہو جاتی ہے، جس کے نتیجے میں فساد پھیل جاتا ہے
سماج میں یکجہتی ختم ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے قلوب ایک دوسرے سے دور ہو جاتے ہیں
...


غیبت ترک کرنے کے طریقے کار
اخلاق کے عالموں نے اس گناہ کے ترک کے لئے کچھ طریقے کار بتائے ہیں جیسے آیات اور روایات میں تفکر، غیبت کی مذمت، موت کی فکر، غیبت والی جگہ کو ترک کرنا، اپنا محاسبہ کرنا وغیرہ. امام خمینی احادیث کو مدنظر رکھتے ہوئے، اس اخلاقی مشکل کو حل کرنے کے دو طریقے ایک علمی اور دوسرا عملی طریقہ بیان کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ان مسائل پر عمل کر کے انسان کو اس گناہ کبیرہ سے نفرت ہو جائے گی:


علمی طریقہ
غیبت کے کچھ آثار جو احادیث میں بیان ہوئے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
لوگوں کے درمیان رسوائی
لوگوں کی آنکھوں سے گرنا
انسان کے نفس میں عداوات اور بغض ایجاد ہونا
غیبت کرنے والے کے ساتھ خداوند اور ملائکہ کی دشمنی
ہمیشہ کا عذاب
غیبت کرنے والے کی نیکیاں جس کی غیبت کر رہے ہوتے ہیں اس کے اعمال نامے میں منتقل ہو جاتی ہیں
جس کی غیبت کرتے ہیں اس کی برائیاں غیبت کرنے والے کے اعمال نامے میں منتقل ہو جاتی ہیں
عملی طریقہ
غیبت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے اپنے نفس کی تربیت کریں
زبان کو کنٹرول کرنا
محاسبہ اور مراقبہ (12)

لباس شهرت
حديث-۴۰- قالَ الْحُسَيْنُ عليه السلام: مَنْ لَبِسَ ثَوْباً يُشْهِرُهُ كَساهُ اللّهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ ثَوْباً مِنَ النّارِ. [فروع كافى، ج 6، ص 445 ـ وسائل الشيعة، ج 3، ص 354]
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: جس نے ایسا لباس زیب تن کیا ہو جس سے وہ مشہور ہو(یعنی شہرت والے لباس یا لباس شہرت:)تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن آگ کا لباس پہنائے گا۔


۔۔۔لباس شہرت۔۔۔
یعنی مشہور شخصیت کا لباس  یا  ایسا لباس جو انسان کو نمایاں کرے اور ہر ایک کی انگلی اس کی طرف اٹھے۔
بعض مجتہدین اور فقہاء کے نزدیک لباس شہرت کا پہننا حرام ہے اور بعض کے نزدیک مکروہ ہے۔
 اکثر فقہاء نے اس کے ساتھ نماز پڑھنے کو صحیح اور بعض نے ناجائز قرار دیا ہے۔
لباس شہرت پہننے کی مذمت میں اہل بیت علیہم السلام سے متعدد روایات وارد ہوئی ہیں۔ دوسروں کے علاوہ امام حسین علیہ السلام کی ایک حدیث کے مطابق جو شخص اس دنیا میں شہرت کا لباس پہنتا ہے اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن ذلت کا لباس پہنائے گا۔
کہا جاتا ہے کہ پانچویں قمری صدی کے وسط میں اس کی شہرت اور نفرت کا لباس خراسان اور عراق کے مختلف امامی، حنبلی اور شافعی مکاتب فکر کے علماء کی توجہ کا مرکز بنا۔


حوالہ جات:
 1-فیض کاشانی، ملا محسن؛ المحجة البیضاء، ج۵، ص۲۵۵.
 2-نراقی، ملا احمد؛ معراج السعاده، ص۴۴۴.
 3-بحار الانوار، ج‌۲، ص۲۲۴
 4-چہل حدیث، حدیث نوزدہم، ص۳۰۳
 5-عن عقاب الاعمال بسنده عن النبی صلی الله علیه و آله: من ردّ عن اَخیه غیبة سمعها فی مجلسٍ، ردّ الله عنه الفَ بابٍ من الشر فی الدنیا
6- عن محمد بن الحسن فی المجالس و الاخبار باسناده عن أبی ذر، عن النبی صلی الله علیه و آله فی وصیة له قال: یا أبا ذر، ایاک و الغیبة! فان الغیبة أشد من الزنا. قلت: و لِمَ ذاک یا رسول الله؟ قال: لأن الرجلَ یزنی فیتوب إلی الله فیتوب اللهُ علیه، و الغیبة لا تغفر حتی یغفرها صاحبُها
 7-چہل حدیث، حدیث نوزدہم، ص۳۱۴
 8-مَنِ اغتابَ مُسلِما أَو مُسلِمَةً لَم یقبَلِ اللّه صَلاتَهُ وَ لا صیامَهُ أَربَعینَ یوما وَ لَیلَةً إِلاّ أَن یغفِرَ لَهُ صاحِبُهُ؛ بحارالأنوار، ج۷۵، ص۲۵۸، ح۵۳
 خصال، ص۱۲۱
 9-و من اغتابه بما فیه، فهو خارج من ولایة الله تعالی داخل فی ولایة الشیطان. أمالی الصدوق : ۹۱| ۳ و وسائل الشیعۃ، ج۱۲، ص۲۸۵.
10- چہل حدیث، حدیث نوزدہم، ص۳۰۹

11- چہل حدیث، حدیث نوزدہم، ص۳۱۱

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک