آئمہ علیہم السلام کے انقلابی فرزندوں کے قیام اور ان سے متعلق ابہامات(2)
آئمہ علیہم السلام کے انقلابی فرزندوں کے قیام اور ان سے متعلق ابہامات(2)
زید علیہ السلام خاندان پیغمبر میں پیدا ہوئے۔ جوانی کا دور ہے۔ آپکی عمر تقریباً اتنی ہی ہے، جتنی امام صادق علیہ السلام کی ہے۔ یعنی چچا اور بھتیجے کی عمر تقریباً برابر ہے۔ جب امام باقر علیہ السلام یعنی حضرت زید کے بڑے بھائی زندہ تھے تو جب کبھی زید علیہ السلام کی بات ہوتی تو امام باقر علیہ السلام کی آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے۔ اس طرح کا جذباتی لگاؤ تھا۔ وہ فرماتے تھے کہ گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ اسے شہید کر دیا گیا ہے اور سولی پر لٹکا دیا گیا ہے اور کوفے کے کناسہ محلے میں اہل کوفہ اسکی لاش دیکھ رہے ہیں۔ اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ خاندان پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے یہ حقیقت واضح تھی کہ یہ نوجوان سرانجام شہید کر دیا جائے گا اور یہ بات وہ خود بھی جانتے تھے۔
انقلابی امام زادوں کے گروہ
ان انقلابیوں کے بارے میں میرا اپنا نظریہ کیا ہے؟ اسے میں بیان کروں گا۔ میں نے اس سلسلے میں جو مطالعہ کیا ہےو اس کی بنیاد پر انقلابی امام زادوں کے بارے میں میرا نظریہ یہ ہے کہ یہ امام زادے مجموعی طور پر دو حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔
1۔ دنیاوی رجحان رکھنے والے امام زادے
ایک گروہ ان امام زادوں کا ہےو جو مال و منال حاصل کرنے کے لئے یا کوئی عہدہ پانے کے لئے اپنے امام زادے ہونے کا فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔ ان کے پاس تھوڑی شجاعت بھی تھیو جس کا وہ مظاہرہ کرتے تھے۔ تلوار اٹھاتے تھے اور اپنے کچھ ساتھیوں کے ہمراہ بغاوت کرتے تھے، تحریک چلاتے تھے، پھر حکومت کو پتہ چلتا تھا کہ بغاوت ہوگئی ہے۔ اس طرح کے جو امام زادے تھےو ان کا انداز یہ ہوتا تھا کہ پہلے تو خود کو حکومت کا مخالف ظاہر کرتے تھے اور کبھی کبھی بغاوت تک پہنچ جاتے تھے، لیکن آخرکار وہ حکومت سے صلح کر لیتے تھے اور وہ حکومت وقت کے احباب میں شامل ہو جاتے تھے۔
ایک گروہ ایسے لوگوں کا ہےو جن کا ہدف اللہ نہیں تھا، دین نہیں تھا، قرآن نہیں تھا، حق و اسلام و انصاف کی حکومت کا احیاء نہیں تھا، بلکہ وہ اپنی ذات کی تبلیغ کرتے تھے، وہ خود کو اقتدار میں پہنچانا چاہتے تھے، تاکہ وہ بھی منصور کی طرح حکومت کریں یا ہارون کی طرح خلیفہ بن جائیں، مامون، معتصم اور متوکل جیسے خلیفہ بن جائیں۔ ان کا یہ مقصد نہیں تھا کہ علوی حکومت اور قرآنی حکومت تشکیل دیں۔ چونکہ ان کا ایمان صحیح نہیں تھا اور ان کے مدنظر ذاتی مفاد اور شخصی اہداف تھے، اس لئے کچھ عرصہ بغاوت کے بعد جیسے ہی حکومت ان پر نظر کرم کرتی، فوراً راضی ہو جاتے تھے اور دربار میں چلے جاتے تھے۔ بعض اوقات تو تعاون بھی کرتے تھے۔
آٹھویں امام کے ایک بھائی تھے، زید نام ہے۔ یاد رہے کہ میں جس زید کی بات کر رہا ہوں، وہ آٹھویں امام کے بھائی ہیں۔ معروف زید بن علی کے دسیوں سال بعد ان کی پیدائش ہوئی ہے۔ یہ وہ زید نہیں ہیں۔ ہمارے یہاں دو زید گزرے ہیں۔ میں اس لئے دہرا رہا ہوں کہ کوئی غلط فہمی نہ ہو۔ ایک زید ہیں، جو امام سجاد علیہ السلام کے فرزند ہیں، میں جب ان کا نام لیتا ہوں تو علیہ السلام کہتا ہوں، وہ اسلام کے عظیم شہیدوں میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ بنی امیہ کے دور میں، امام باقر اور امام صادق علیہما السلام کے دور میں تھے۔ آپ امام سجاد علیہ السلام کے فرزند ہیں۔ یہاں ان کی بات نہیں ہو رہی ہے۔ اس وقت ہم جس زید کی بات کر رہے ہیں، وہ آٹھویں امام کے بھائی ہیں، وہ زید بن علی کے کئی سال بعد تھے۔
شروع میں وہ بہت جوشیلے اور جذباتی انسان تھے۔ ایک شیعہ تحریک کے بہت اہم رکن بھی تھے۔ وہ ابن طباطبا اور ابو السرایا کی تحریک میں تھے۔ ان کی انتہاء پسندی اتنی بڑھ گئی کہ انھوں نے جا کر بصرہ کو فتح کر لیا۔ جب بصرہ کو فتح کر لیا تو عام لوگوں کے گھروں کو جنھیں وہ اپنا مخالف سمجھتے تھے، آگ لگا دی۔ اسی لئے بعد میں ان کا نام "زیدالنّار" آتشیں زید پڑ گیا۔ ظاہر ہے یہ ایک غلط اور قبیح عمل ہے۔ کیا حق ہے کہ لوگوں کے گھروں کو آگ لگائی جائے؟ آئمہ علیہم السلام کی روش یہ تو نہیں ہے۔ امیر المومنین امام علی علیہ السلام کی روش یہ تھی کہ جب کسی جگہ کو فتح کیا تو عورتوں اور بچوں کو ہراساں نہ کرو، خوفزدہ اور پریشان نہ کرو۔ ظاہر ہے یہ شخص دین کے اصولوں سے بھی خاص واقفیت نہیں رکھتا تھا۔ وہ ایک جاہ طلب انسان تھا۔ بغیر سوچے سمجھے اقدام کر رہا تھا، اپنا غصہ دکھا رہا تھا۔ اس نے ایک ہی دفعہ سارے گھروں کو آگ لگوا دی اور بعد میں اسے شدید مذمت اور ملامت برداشت کرنی پڑی اور گرفتار بھی کر لیا گیا۔
اتفاق سے جس وقت اسے گرفتار کیا گيا، آٹھویں امام علیہ السلام یعنی اسی زید کے بھائی، خراسان میں تھے۔ مامون نے آٹھویں امام پر احسان جتانے کے لئے ایک دن آپ سے گفتگو کے دوران کہا کہ بنی امیہ نے جب آپ کے چچا زید یعنی زید بن علی علیہ السلام کو پکڑا تو انھیں قتل کر دیا، ان کے جنازے کو سولی پر لٹکایا، ان کا جنازہ بہت دنوں تک سولی پر لٹکا رہا۔ پھر ان کے جنازے کو آگ لگائی۔ لیکن میں بنی عباس سے ہوں۔ دوسرے زید کو جو آپ کا بھائی ہے، میں نے گرفتار کیا لیکن اسے قتل نہیں کیا۔ وہ اس طرح امام پر احسان جتانا چاہتا تھا کہ دیکھئے ہم نے زید کو چھوڑ دیا۔ ہم آپ کا خیال رکھتے ہیں، آپ کا ساتھ دے رہے ہیں۔ روایت میں تو یہ بات نہیں ہے لیکن میرا خیال ہے کہ بنی عباس نے زید کو گرفتار کرنے کے بعد خرید لیا تھا اور اسے اپنے ساتھ ملا لیا تھا۔ مامون چاہتا تھا کہ زید کو آزاد کرکے امام رضا علیہ السلام کو یہ سمجھائے کہ اب زید کا دربار سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اسی لئے وہ امام سے اس انداز کی گفتگو کر رہا تھا۔
امام نے فوراً اسے ٹوک دیا۔ آپ نے فرمایا کہ
"لا تقسْ أخی زیْداً إلى زیْد بْن علی"،
تو میرے بھائی زید کا موازنہ زید بن علی سے نہ کر۔ وہ کوئی اور ہستی تھے اور یہ کچھ اور ہے۔ میرے چچا زید نے آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکومت کے لئے قیام کیا تھا۔ اگر وہ تخت حکومت تک پہنچتے تو اپنا وعدہ پورا کرتے۔ یعنی ان کی حکومت برحق تھی۔ ان کی حکومت قانون کی حکومت تھی۔ شاید وہ تخت خلافت پر امام صادق علیہ السلام کو بٹھاتے۔ لیکن میرا بھائی ایسا نہیں تھا۔ میرا بھائی اوباش تھا۔ ایک جاہ طلب انسان تھا۔ میں نے ایک اور روایت دیکھی کہ کچھ عرصہ بعد آٹھویں امام علیہ السلام اپنے بھائی زید کو نصیحت کرتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ ہمارے دشمنوں سے تعاون نہ کرو اور ہمارے شیعوں کو مشکلات میں نہ ڈالو۔ روایت میں یہ تو نہیں ہے کہ زید مامون کے جاسوس بن گئے تھے، لیکن آثار کچھ ایسے ہی دکھائی دیتے ہیں۔
میرا خیال یہ ہے کہ اس واقعے کے بعد زید جب گرفتار کر لئے گئے اور بعد میں آزاد کئے گئے تو اس وقت مامون نے ان پر یہ احسان کیا اور انھیں خرید لیا۔ پہلے انھیں اپنا آدمی بنا لیا، پھر آزاد کیا اور وہ بنی عباس کی حکومت کے لئے کام کرتے تھے۔ وہ کس طرح کام کرتے تھے، اس بارے میں کچھ بیان نہیں کیا گیا ہے۔ امام زادوں میں کچھ ایسے ہیں اور ان کے بارے میں ہمارا وہی نظریہ ہے، جو ہمارے آئمہ کا نظریہ تھا۔ ہم انھیں اللہ والا اور جنتی نہیں مانتے اور نہ ہی سچا و حقیقی انقلابی سمجھتے ہیں۔ فرزندان رسول میں ہیں تو ہوا کریں۔ یہ خیال کہ فرزندان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عذاب سے محفوظ ہیں، ایسے ہی افراد کی طرف سے پھیلایا گيا ہے، زید جیسے امام زادوں نے اس خیال کی ترویج کی ہے۔
ایک روایت ہے کہ امام صادق علیہ السلام کے فرزند اسماعیل ان سے کہتے ہیں کہ اگر ہمارے خاندان میں سے کوئی شخص گناہ کرے تو کیا اسے عذاب ہوگا؟ ہم تو فرزندِ رسول ہیں۔ امام نے جواب میں فرمایا کہ ہاں عذاب ہوگا۔ جسے بھی اللہ کی طرف سے عذاب دیا جائے، وہ گنہگار ہے اور ہر گنہگار کو عذاب ملنا ہے، خواہ اس کا تعلق کسی بھی قوم و قبیلے سے ہو، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں نے دیکھا کہ آج بھی کچھ لوگوں کے درمیان یہ فکر موجود ہے کہ جو لوگ خاندان پیغمبر سے ہیں، جو سادات ہیں، انھیں اللہ تعالیٰ کسی بھی صورت میں عذاب میں مبتلا نہیں کرسکتا۔ اگر خدا خود کوئی لطف کر دے اور عذاب سے بچا لے تو یہ ایک الگ بات ہے، چونکہ یہ حقیر بھی اسی خاندان سے منسوب ہے، اس لئے اللہ سے میری دعا ہے کہ ایسا ہی ہو، اس پر مجھے خوشی ہوگی، لیکن میں نے روایتوں میں جو پڑھا ہے، ہم نے امام سجاد علیہ السلام اور دیگر ائمہ علیہم السلام سے جو روایتیں دیکھی ہیں، اس میں تو قضیہ یہ نہیں ہے۔
طاوؤس آکر کہتے ہیں کہ امام آپ خود کو اتنی اذیت دیتے ہیں، اتنی عبادت کرتے ہیں، نمازیں پڑھتے ہیں، یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ آپ تو فرزند رسول ہیں۔ آپ کی ماں حضرت زہراء ہیں۔ آپ کو آدھی رات کے وقت اتنا گریہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اتنی دعائیں کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اتنی عبادت و جفاکشی کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ امام سے اس طرح کی بات کرتے ہیں۔ جب انھوں نے یہ بات کہی تو امام ناراض ہوگئے۔ لہجے سے ظاہر ہے کہ امام غصے میں ہیں، روایت میں یہ نہیں لکھا ہے کہ آپ کو غصہ آگیا، لیکن لہجہ یہی ظاہر کرتا ہے۔ امام ان کے جواب میں کہتے ہیں کہ
"دع عنّی حدیث أبی و أمّی و جدّی"
میرے والد، میری والدہ اور میرے جد کی بات بند کرو، "الجنّة لمن أطاعه" بہشت اللہ کی اطاعت کرنے والوں کے لئے ہے۔ تم یہ کیسی باتیں کر رہے ہو؟ یہاں ایک دلچسپ نکتہ بھی ہے۔ کوئی الگ بات نہیں ہے لیکن الفاظ بڑے دلچسپ ہیں۔
میرا خیال یہ ہے کہ یہ سوچ کہ امام زادے چونکہ پیغمبر کی نسل سے ہیں، لہذا عذاب سے محفوظ ہیں، خود انہی حضرات کی طرف سے پھیلائی جاتی تھی۔ چونکہ ان کا تعلق پیغمبر کی نسل سے تھا، اس لئے جب وہ قیام کرتے تھے تو عوام بھی ان کے ساتھ ہو جاتے تھے، لیکن بیچ میں ہی اپنی تحریک چھوڑ دیتے تھے اور بعض اوقات زید النار کی طرح دشمن محاذ میں جاکر شامل ہو جاتے تھے۔ ایک گروہ ایسے افراد کا تھا۔ اگر ہم امام زادوں کا دفاع کرتے ہیں تو آپ بخوبی جانتے ہیں کہ ہم ہر امام زادے کا دفاع نہیں کرتے۔ اس لئے کہ اطاعت خدا کے اعتبار سے ہماری نظر میں امام زادے اور غیر امام زادے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس لحاظ سے امام زادے اور عام لوگوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس لئے میں ہر امام زادے کے عمل کی تائید نہیں کرنا چاہتا۔ ہمارے مدنظر کچھ خاص افراد ہیں۔
2. دیندار اور حق پرست امام زادے
امام زادوں میں ایک قسم ان افراد کی ہے، جو سماج کو اسلام اور قرآن کے راستے سے ہٹتے ہوئے دیکھ کر صحیح اسلامی و قرآنی جذبے کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوتے تھے کہ امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کریں۔ یعنی جب سماج میں خرابیاں پھیلنے لگتی تھیں، تب وہ اپنے فریضے کا احساس کرتے ہوئے اصلاح کے لئے آگے آتے تھے۔ اس زمانے میں سماج کی اصلاح تلوار کی طاقت کے بغیر ممکن نہیں ہوتی تھی۔ ایک قسم ایسے امام زادوں کی تھی۔ ان میں سے میں دو تین معروف چہروں کے بارے میں بات کروں گا۔
زید بن علی بن الحسین
ایک زید بن علی بن الحسین ہیں۔ وہ انہی بزرگ ہستیوں اور عالم اسلام کی عالی مرتبت شخصیات میں سے ایک ہیں۔ یہ وہی ہیں جن کے بارے میں، میں نے پہلے عرض کیا۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کئی روایتوں میں زید بن علی کا تذکرہ کیا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امام حسین علیہ السلام سے فرماتے ہیں کہ تمہاری صلب سے اور تمہاری نسل سے زید نام کا ایک شخص نکلے گا اور وہ میرا حبیب ہوگا، میرے اہل بیت سے ہوگا۔ میری نسل میں میرا حبیب، میرا محبوب وہ ہے۔ دوسری روایت میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں؛ "حسین کے فرزندوں میں سے زید نام کا شخص خروج کرے گا۔ جو لوگ اس کے ساتھ قتل کئے جائیں گے اور شہید ہوں گے، وہ شہدائے بدر و اُحد کی مانند ہوں گے اور قیامت کے دن دوسرے شہیدوں سے پہلے بہشت میں وارد ہوں گے۔" یہ بھی ایک روایت ہے، جو کتابوں میں موجود ہے۔
امام سجاد علیہ السلام نے زید کے بارے میں اپنی رائے بیان کی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ زید علیہ السلام کی شہادت کا مسئلہ خاندان پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اندر امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی طرح پہلے سے ہی مشہور تھا۔ جس طرح اہل بیت علیہم السلام کو علم تھا کہ حسین علیہ السلام کو شہید کیا جائے گا اور ان کا تاریخی مشن اس انداز سے شہید ہونا ہے، جس کی خبر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دے دی تھی۔ اسی طرح سب کو یہ بھی معلوم تھا کہ امام سجاد علیہ السلام کے فرزندوں میں سے زید نام کے شخص کو بھی شہید کیا جائے گا۔ یہ بہت مشہور چیز تھی۔ پیغمبر کے خاندان میں یہ سب جانتے تھے۔
جب امام سجاد علیہ السلام کے فرزند حضرت زید کی ولادت ہوئی، اللہ نے آپ کو یہ بیٹا عطا فرمایا تو امام سجاد علیہ السلام خود فرماتے ہیں؛ میں نے قرآن کھولا (امام یونہی قرآن سے اس بچے کے لئے ایک فال لینا چاہتے تھے، نام رکھنے کے لئے نہیں، جو ہمارے یہاں رائج ہے۔)
میں نے دیکھا کہ یہ آیت آئی ہے؛
"انّ الله اشترى من المؤمنین انفسهم و اموالهم بانّ لهم الجنّة یقاتلون فی سبیل اللّه فیقْتلون و یقتلون"
وہی مشہور آیت جس سے آپ سب واقف ہیں کہ اللہ تعالیٰ مومنین سے سودا کرتا ہے۔ ان کی جان و مال خریدتا ہے اور اس کے عوض انھیں بہشت عطا کرتا ہے اور یہ سودا اس طرح انجام پاتا ہے کہ مومنین میدان جنگ میں اترتے ہیں، قتل کرتے ہیں اور قتل ہوتے ہیں۔ امام سجاد فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت آئی تو میں سمجھ گیا کہ یہ بچہ وہی زید ہے، جس کے بارے میں پیغمبر نے فرمایا تھا۔ کیونکہ میں نے دیکھا کہ یہ آیت گواہی دے رہی ہے کہ یہ بچہ راہ خدا میں شہید کیا جائے گا۔ یہ شہید راہ خدا ہے۔
یہ راہ خدا اور راہ دین میں قربان ہونے والا بچہ ہے۔ اس آیت کو دیکھتے ہی میں سمجھ گیا کہ یہ وہی زید ہے، جس کی خبر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی تھی۔ اسی لئے میں نے اس کا نام زید رکھا۔ دراصل زید نام اس مناسبت سے ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ ان کے فرزندوں میں ایک فرزند ہوگا، جس کا نام زید ہوگا۔ یہ بات امام سجاد علیہ السلام کے ذہن میں تھی۔ جب یہ بچہ دنیا میں آیا اور امام سمجھ گئے کہ یہ وہی بچہ ہے تو آپ نے اس کا وہی نام رکھا، جس کا ذکر پیغمبر نے کیا تھا۔
ایک روایت اور بھی ہے لیکن اس سے پہلے تمہید کے طور پر یہ عرض کر دوں کہ ان بزرگوار پر بڑے مظالم ہوئے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ جان لیں کہ تاریخ اسلام کی کیسی عظیم ہستیوں پر کیسے کیسے ستم ہوئے ہیں اور آپ کو یہ بھی اندازہ ہو جائے کہ یہ ظلم کیوں کیا گیا۔ دشمن چاہتے تھے کہ ہم امام صادق علیہ السلام کی وہ تحریف شدہ شخصیت اپنے مدنظر رکھیں کہ وہ نعوذ باللہ منصور کے دربار میں جاتے تھے اور کہتے تھے کہ تم ایوب اور یعقوب کی مانند ہو۔ بنابریں اگر زید علیہ السلام جیسی ایک شخصیت موجود ہے، جو بعض لوگوں کے لئے نمونہ عمل قرار پا سکتے ہیں تو پوری تاریخ میں زید علیہ السلام کی شبیہ بھی مسخ کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ حضرت زید کو پہچانیں۔
پیغمبر کی یہ روایت بھی سن لیجئے؛ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زید بن حارثہ سے، کہ جن کے بیٹے اسامہ یعنی وہی معروف نوجوان سپہ سالار تھے، جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احتضار کے وقت جنگ روم کے لئے فوج لیکر روانہ ہونے پر مامور کئے گئے تھے، روم کی مشرقی سرحد کی جانب بھیجے گئے تھے، فرمایا کہ "میں تمہیں چاہتا ہوں، اے زید! اس لئے کہ تم اس زید کے ہمنام ہو، جو حسین کی نسل میں پیدا ہوگا اور راہ خدا میں شہید کیا جائے گا۔"
یہ پیغمبر اکرم سے ایک اور روایت ہے۔ بہرحال ان حالات میں زید علیہ السلام خاندان پیغمبر میں پیدا ہوئے۔ جوانی کا دور ہے۔ آپ کی عمر تقریباً اتنی ہی ہے، جتنی امام صادق علیہ السلام کی ہے۔ یعنی چچا اور بھتیجے کی عمر تقریباً برابر ہے۔ جب امام باقر علیہ السلام یعنی حضرت زید کے بڑے بھائی زندہ تھے تو جب کبھی زید علیہ السلام کی بات ہوتی تو امام باقر علیہ السلام کی آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے۔ اس طرح کا جذباتی لگاؤ تھا۔ وہ فرماتے تھے کہ گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ اسے شہید کر دیا گیا ہے اور سولی پر لٹکا دیا گیا ہے اور کوفے کے کناسہ محلے میں اہل کوفہ اس کی لاش دیکھ رہے ہیں۔
اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ خاندان پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے یہ حقیقت واضح تھی کہ یہ نوجوان سرانجام شہید کر دیا جائے گا اور یہ بات وہ خود بھی جانتے تھے۔
رہبر انقلاب کی کتاب ہمرزمان امام حسین (ع) سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلی قسط کا لنک
https://alhassanain.org/urdu/?com=content&id=2677
دوسری قسط کا لنک