امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

اسیران کربلا

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

اسیران کربلا

واقعۂ کربلا میں عمر بن سعد کے ہاتھوں اسیر ہونے والے اسراء کو کہا جاتا ہے جن میں شیعوں کے چوتھے امام، امام سجادؑ، حضرت علیؑ کی بیٹی حضرت زینب اور اہل بیتؑ کے دوسرے مستورات اور بچے شامل ہیں۔ عمر سعد کے حکم پر 11 محرم کی رات اسیران کربلا کو کربلا میں ہی رکھا گیا اور گیارہ محرم کو ظہر کے بعد کوفہ میں ابن زیاد کے سامنے پیش کیا گیا۔ عبید اللہ بن زیاد نے قافلہ اسراء کو ایک گروہ جس میں شمر و طارق بن محفز شامل تھے، کے ساتھ یزید کے پاس شام بھیجا۔
ابن زیاد نے اسیروں کو محملوں پر اور امام سجادؑ کو طوق و زنجیر میں جکڑ کر شام روانہ کیا۔ ایک نقل کے مطابق مختلف مقامات پر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے سامنے حضرت زینب اور امام سجادؑ کے دیئے جانے والے خطبے یزید اور بعض دوسرے لوگوں کی پشیمانی کا باعث بنے۔
کچھ مورخین کے مطابق کاروان اہل بیتؑ اربعین یعنی شہادت امام حسینؑ کے چالیسویں دن کربلا لوٹ آئے جبکہ شیخ مفید اور شیخ طوسی کے مطابق اہل بیتؑ آزادی کے بعد کربلا نہیں بلکہ مدینہ چلے گئے تھے۔
آغاز اسیری
واقعہ عاشورا کے بعد 11 محرم کو عمر سعد اپنے مقتولین کو دفنا کر اسرائے آل محمد کے ساتھ کوفہ روانہ ہوا۔[1]
عمر سعد کی فوج نے اسرائے آل محمد کو شہدا کے اجساد کے پاس سے گزارا۔ اس موقع پر اہل بیت کی مستورات گریہ و زاری کرتے ہوئے اپنے چہروں کو پیٹ رہی تھیں۔ چنانچہ قرة بن قیس سے منقول ہے کہ حضرت زینب جب اپنے بھائی کے نعش پر پہنچی تو انہوں نے شدت غم سے اس قدر گریہ کیا کہ دوست و دشمن سب ان کے ساتھ رونے لگے۔[2]
مروی ہے کہ حضرت زینب نے امام حسینؑ کے جسد اطہر کے پاس سے گزرتے ہوئے یہ جملات کہے:
یا محمداہ، یا محمداہ! صلی علیک ملائکة السماء، ہذا الحسین بالعراء، مرمل بالدماء، مقطع الأعضاء، یا محمداہ! و بناتک سبایا، و ذریتک مقتلہ، تسفی علیہا الصبا قال: فابکت واللہ کل عدو و صدیق [3]
ترجمہ: «یا محمدا! وا محمدا! آسمان کے فرشتے آپ پر درود و سلام بھیجتے ہیں، (لیکن) یہ حسینؑ دشت میں ہے جس کا بدن خون میں غلطاں اور اس کے اعضائے بدن جدا ہیں! اے محمد! آپ کی بیٹیاں اسیر ہیں اور ان کی مقتول ذریت کو ہوا چھو رہی ہے۔ راوی کہتا ہے: خدا کی قسم! یہ نالہ و شیون سن کر دوست و دشمن سب نے گریہ کیا۔
اسرا کی تعداد اور ان کے اسامی
اہل بیتؑ اور باقی بچ جانے والے اصحاب امام حسینؑ کے ناموں اور تعداد کے بارے میں مورخین کے اختلاف پایا جاتا ہے، مختلف مصادر میں مذکور اسما: امام سجادؑ، امام باقرؑ،امام حسین کے دو بیٹے: محمد و عمر، امام حسنؑ کا بیٹا محمد اور نواسہ زید،[4] اسی طرح حضرت علی کی بیٹیوں میں سے حضرت زینب، فاطمہ اور ام کلثوم۔[5] امام حسینؑ کی چار بیٹیاں: سکینہ، فاطمہ، رقیہ اور زینب کا بھی مصادر میں نام آیا ہے۔[6] اسی طرح رباب زوجہ امام حسینؑ[7] اور فاطمہ بنت امام حسن کربلا کے اسیروں میں موجود تھیں۔[8]
کوفہ اور شام کی طرف حرکت
دشمنوں نے اسیروں کو بے کجاوہ انٹوں پر سوار کیا۔[9] جب اسراء کوفہ میں داخل ہوئے تو لوگ ان کا تماشا دیکھنے جمع ہو گئے تھے حالانکہ کوفہ کی عورتیں ان پر گریہ کر رہی تھیں۔ خذلم بن ستیر نامی شخص کہتا ہے: اس وقت میں نے علی بن حسینؑ کو دیکھا جس کی گردن میں طوق اور ہاتھ پس گردن بندھے ہوئے تھے۔[10]
قدیمی مصادر میں اسرائے اہل بیتؑ کے کوفہ میں داخل ہونے کے بارے میں کوئی دقیق معلومات ذکر نہیں ہے۔ البتہ اس حوالے سے شیخ مفید کی بعض عبارات موجود ہیں جن کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسرائے کربلا محرم کی بارہ تاریخ کو کوفے میں داخل ہوئے۔[11]
عمر سعد کے سپاہیوں نے کوفہ کے کوچوں سے گزار کر انہیں قصر عبیداللہ بن زیاد میں لائے۔ حضرت زینب اور عبیداللہ کے درمیان سخت گفتگو ہوئی اور عبیداللہ نے امام سجادؑ کے قتل کا حکم صادر کیا[12] لیکن حضرت زینب کے اعتراض کرنے اور عبید اللہ اور حضرت زینب کے درمیان تند و تیز لہجے میں گفتگو کے بعد عبید اللہ نے قتل سے صرف نظر کیا۔[13]
کوفہ سے شام کا راستہ
ابن زیاد نے کربلا کے اسیروں کو شمر اور طارق بن مُحَفِّز سمیت ایک گروہ کی معیت میں شام روانہ کیا۔[14] بعض تاریخی روایات کے مطابق زحر بن قیس بھی ان کے ساتھ تھا۔[15] کوفہ سے شام تک کے راستے کا دقیق علم نہیں ہے؛ بعض قائل ہیں کہ کوفہ سے شام کے راستے کے درمیان میں موجود امام حسین سے منسوب مقامات کے ذریعے قافلے کے راستے کو مشخص کیا جا سکتا ہے؛ ان میں سے مقام راس الحسین اور امام زین العابدین دمشق میں،‌[16] حِمص،[17] حماء،[18] بعلبعک،[19] حَجَر[20] اور طُرح۔[21] نیز ایسے مقامات بھی ہیں جو کافی مشہور ہیں؛ جیسے:
•    عراق کے شہر موصل میں مقام راس الحسین: ہروی کے مطابق یہ مقام ساتویں صدی ہجری تک موجود تھا۔[22]
•    ترکی کے شہر نصیبین میں مسجد امام زین العابدینؑ اور مقام راس الحسین: اس وقت یہ شہر ترکی میں موجود ہے۔[23] کہا گیا ہے کہ اس جگہ امام حسینؑ کے سر مبارک کے خون کا اثر یہاں موجود رہا۔[24] ہروی نے اس مقام کو مشہد النقطہ کے نام سے ذکر کیا ہے۔[25]
سپاہیوں کا برتاؤ
ابن اعثم اور خوارزمی کے بقول عبیدالله بن زیاد کے سپاہیوں نے اسیران کربلا کو کوفہ سے شام تک پوشش و پردے کے بغیر محملوں پر اس طرح شہر شہر لے کر گئے جس طرح ترک و دیلم کے کافر قیدیوں کو لے جاتے تھے۔[26] شیخ مفید کی منقول روایت کے مطابق امام سجادؑ کو قید میں پابند غل و زنجیر دیکھا گیا۔[27]
امام سجاد سے منسوب روایات میں ابن زیاد کا قیدیوں سے برتاؤ یوں منقول ہوا ہے: علی بن حسینؑ کو ایک لاغر و نحیف اونٹ پر اس حال میں سوار کیا گیا کہ امام حسینؑ کا سر نیزے پر، قیدی عورتیں ان کے پیچھے اور نیزے بردار ان کے اطراف میں موجود تھے۔ اگر امام کی آنکھ سے آنسو جاری جاری ہوتا تو وہ ان کے سر پر نیزے مارتے یہاں کہ اسی حالت میں وہ شام میں داخل ہوئے۔[28]
قیدیوں کا شام میں داخل ہونا
تاریخی مصادر میں اسرا کے شام میں داخل ہونے، سپاہیوں کے برتاؤ، ان کے رہنے کی جگہ اور ان کے خطبات کے بارے میں بیان ہوا ہے۔ ان روایات کے مطابق یہ قافلہ شام میں اول صفر کو داخل ہوا۔[29] انہیں اس روز دروازۂ «توما» یا «ساعات» کے راستے شہر میں لایا گیا۔ سہل بن سعد کے مطابق یزید کے دستور پر شہر کی تزئین و آرائش کی گئی تھی۔[30]
شہر میں داخل ہونے کے بعد اسیروں کو مسجد جامع کے دروازے کے پاس ایک چبوترے پر بٹھایا گیا۔[31] موجودہ زمانے میں مسجد اموی کا دروازہ اصلی مسجد کے محراب و منبر کے مقابلے میں ہے جہاں پتھر اور لکڑی کے سیڑھیاں موجود ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے قیدیوں کو یہاں بٹھایا گیا۔[32]
بعض مصادر میں شام میں داخلے کے موقع پر حضور اہل بیت امام حسینؑ کو دو دن تک [33] اور خرابۂ شام کے نام سے معروف ایسی عمارت میں رکھا گیا جس کی چھت نہیں تھی۔[34] لیکن شیخ مفید قیدیوں کے آنے کی جگہ قصر یزید کے پاس بیان کی ہے۔[35] مشہور قول کے مطابق شام میں قیدیوں کے رہنے کی مدت تین دن [36] لیکن ہفت روز[37] اور یک مہینہ بھی منقول ہوئی ہے۔[38] شام میں قیدیوں کے آنے سے متعلق بعض تاریخی روایات کا ذکر:
•    قصر یزید میں اسیروں کی آمد: شام میں آنے کے بعد زَحر بن قَیس نے واقعہ کربلا کی جنگ کی رپورٹ بیان کی۔[39] یزید نے سارا ماجرا سننے کے بعد حکم دیا کہ محل کو سجایا جائے، بزرگان شام کو بلایا جائے اور اسیروں کو حاضر کیا جائے۔[40] روایات سے پتہ چلتا ہے کہ اسیروں کو رسیوں سے جکڑے ہوئی حالت میں پیش کیا گیا۔[41] اس دوران فاطمہ بنت امام حسینؑ نے کہا: اے یزید! کیا شائستہ ہے کہ بنات رسول اللہ اسیر ہوں؟ اس وقت حاضرین اور یزید کے اہل خانہ سے گریہ کیا۔[42]
•    یزید کا سر امام حسین کے ساتھ ناروا سلوک: یزید قیدیوں کی موجودگی میں سونے کے تھال میں رکھے ہوئے سر امام حسینؑ[43] کو لکڑی کی چوب سے ما رہا تھا[44] جب سکینہ اور فاطمہ یہ منظر دیکھا تو انہوں نے اس طرح فریاد کی کہ یزید اور معاویہ بن ابوسفیان کی بیٹیوں نے گریہ کرنا شروع کیا۔[45] شیخ صدوق سے امام رضاؑ کی مروی روایت کے مطابق یزید نے سر امام حسین کو طشت میں رکھا اور اسے کھانے کی میز پر رکھ دیا۔ پھر اپنے اصحاب کے ساتھ کھانے میں مشغول ہو گیااس کے بعد اسے شطرنج کی میز پر رکھ کر شطرنج کھیلنے مشغول ہوا۔ کہتے ہیں جب وہ بازی جیت جاتا تو ایک جام فقاع (جَو کی شرآب) کا پیتا اور اس کا آخری بچا ہوا پانی طشت کے پاس زمین پر گرا دیتا۔[46]
•    حاضرین کا اعتراض: یزید کی اس رفتار پر حاضرین میں سے بعض نے اعتراض کیا، ان میں سے مروان بن حکم کا بھائی یحیی بن حکم تھا جس کے اعتراض کے جواب میں یزید نے اس کے سینے پر ہاتھ مارا۔[47] اَبوبَرْزہ اَسْلَمی نے بھی اعتراض کیا تو یزید کے حکم پر اسے دربار سے نکال دیا گیا۔[48]
خطبات
قیدیوں کے کوفہ میں آنے کے بعد امام سجاد نے خطبہ دیا[49] اور حضرت زینب نے خطبہ دیا تاریخی مآخذ کے مطابق اس خطبے میں امام حسین کی مدد نہ کرنے پر کوفیوں کی سرزنش کی۔[50] لیکن تاریخ کے معاصرین محققین میں سے سید جعفر شهیدی کوفی حکومت کی سختیوں، کوفیوں کے خوف اور ترس کی وجہ سے کوفہ میں ایسے خطبے کے دئے جانے کو مشکل سمجھتے ہیں۔[51] نیز فاطمہ صغری بنت امام حسین[52] اور ام کلثوم کی طرف خطبوں کی نسبت دی گئی ہے۔[53]
امام سجادؑ اور حضرت زینب (س)، نے شام میں بھی خطبات دیئے۔ حضرت امام حسین ؑ اور ان کے اہل بیت کے ساتھ ناروا سلوک پر یزید کی سرزنش اور انہیں مختلف شہروں میں دربدر پھرانے پر احتجاج،[54] اور فضائل اهل بیت پیامبرؑ و علیؑ ان خطبات کے مضامین تھے۔[55] یہ خطبات شام میں حضرت امام سجاد اور حضرت زینب کے خطبات کے نام سے معروف ہیں۔[56]
شام کے راستے میں
راستے کا انتخاب
ابن زیاد نے شمر اور طارق بن مُحَفِّز سمیت ایک جماعت اسیروں کے ساتھ شام روانہ کی۔[57] بعض روایات کے مطابق زحر بن قیس بھی ان کے ہمراہ تھا۔[58] اسیروں کو کوفہ سے شام تک کس راستے سے لے جایا گیا اس کا دقیق علم نہیں ہے لیکن بعض معتقد ہیں کہ اس راستے میں امام حسینؑ سے منسوب مقامات کے ذریعے کوفہ سے شام کے راستے کو بیان کیا جا سکتا ہے۔ ان مقامات کے نام درج ذیل ہیں:
•    مقام راس الحسین موصل: علی بن ابوبکر ہروی کے بقول یہ مقام ساتویں صدی ہجری تک موجود تھا۔[59]
•    مسجد امام زین العابدینؑ اور مقام راس الحسین نصیبین: آج کل نصیبین ترکی میں ایک شہر کا نام ہے۔[60] کہا جاتا ہے کہ سر امام حسینؑ کے خون کا اثر اس مقام پر رہ گیا تھا۔[61] ہروی نے اس زیارتگاہ کو مشہد النقطہ کے نام سے ثبت کیا ہے۔[62]
•    مقام طُرح: طرح اس نوزاد کو کہا جاتا ہے جو مقررہ وقت سے پہلے پیدا ہوا ہو۔ یہاں یہ احتمال دیا جاتا ہے کہ اسیران کربلا میں کوئی حاملہ خاتون تھی جس نے اپنے بچے کو مقررہ وقت سے پہلے جنم دیا ہوگا۔[63]
•    مقام حَجَر: اسیران کربلا کے قافلے کو شام لے جاتے وقت امام حسینؑ کا سر اس پتھر پر رکھا گیا تھا۔[64]
•    مقام‌ کوہ جوشن: یہ پہاڑ شام کے شہر حلب میں واقع ہے۔ گویا شمر بن ذی الجوشن کے نام سے مشتق ہے۔ بعض مصادر کے مطابق مشہد النقطہ بھی اسی مقام پر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں ایک عیسائی راہب زندگی گزارتا تھا جس نے یزید کے سپاہیوں سے امام حسینؑ کا سر ایک رات کیلئے لے جا کر اپنے پاس رکھتا ہے۔ مشہدالسقط میں قبر محسن بن الحسینؑ بھی ہے۔[65]
•    مقام حماہ: یہ مقام شہر حلب کے اندر موجود تھا۔ ابن شہر آشوب نے اس مکان کا تذکرہ کیا ہے۔[66]
•    مقام حِمص: ابن شہر آشوب نے اس مکان کا بھی تذکرہ کیا ہے۔[67]
•    مقام بعلبک: یہاں پر اس وقت ایک مسجد ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پہلے اس کا نام "راس الحسین" تھا۔[68]
•    مقام راس الحسین اور مقام امام زین العابدین دمشق: یہ دو مقام ایک مسجد کے پاس ہے جسے مسجد اموی کا نام دیا جاتا ہے۔ ابن عساکر نے اس مقام کو راس الحسین کا نام دیا ہے۔[69] لیکن دیگر مصادر میں اسے مقام امام زین العابدین کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔[70]
شام میں
•    شہر کا چراغان: یزید نے حکم دیا تھا کہ اسیران کربلا کا شام میں داخل ہوتے وقت شہر کا چراغان کیا جائے۔ سہل بن سعد ساعدی ان افراد میں سے ہے جس نے اسیران اہل بیت کا شام میں داخل ہوتے وقت شہر کے چراغان اور لوگوں کی خوشی کو دیکھا اور اس کی توصیف کی ہے۔[71]
•    داخل ہونے کا دن: تاریخی اوراق کے مطابق شہداء کے سروں کو صفر کی پہلی تاریخ کو شام لایا گیا۔[72] اسی دن اسیروں کو باب توما یا باب الساعات سے شہر کے اندر لے جایا گیا اور شہر کے جامع مسجد کے دروازے کے ساتھ اسیروں کو بٹھانے کی مخصوص جگہ پر اسراء اہل بیت کو رکھا گیا۔[73]
•    یزید کو اطلاع دینا: اسراء اہل بیت کو شہر میں پھرانے کے بعد عبیداللہ ابن زیاد کے سپاہی یزید کے محل میں چلے گئے اور زحر بن قیس نے سب کی نمایندگی میں واقعہ کربلا کی سرگذشت یزید کو سنا دی۔[74]
•    اسراء یزید کے محل میں: یزید نے کربلا کے واقعے کی رپورٹ سنے کے بعد محل کی تزئین کا حکم دیا۔ بزرگان شام کو بلایا گیا اس کے بعد اسیروں کو محل میں لانے کا حکم دیا۔[75] تاریخی شواہد کے مطابق اسیروں کو رسیوں میں باندھ کر یزید کی محفل میں لایا گیا۔[76] اس وقت فاطمہ بنت الحسین نے کہا:‌ اے یزید کیا یہ شائستہ ہے کہ رسول خدا (ص) کی بیٹیوں کو اسیر کیا جائے؟ اس وقت یزید کے دربار میں موجود افراد اور یزید کی بیوی ہندہ نے گریہ و زاری کی۔ [77]
•    یزید کا اسیروں کے سامنے سر امام حسینؑ کے ساتھ کھیلنا: یزید نے اسیروں کے سامنے سر امام کو ایک سونے کے طبق میں رکھا [78] اور اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے لکڑی کے ذریعے سر امام حسینؑ کی توہین کی۔[79] جب امام حسینؑ کی بیٹی سکینہ اور فاطمہ نے اس حالت کو دیکھا تو ایسی فریاد کی کہ خود یزید کی محل میں موجود عورتوں نے بھی اس فریاد کے ساتھ فریاد بلند کیں۔[80] امام رضاؑ سے منقول ایک حدیث میں آیا ہے کہ یزید نے امامؑ کے سر کو ایک طبق میں رکھا پھر اس کے اوپر کھانے کی میز رکھ دی پھر اپنے دوستوں کے ساتھ کھانے اور شراب خواری میں مشغول ہو گیا۔ پھر اسی میز پر وہ اپنے دوستوں کے ساتھ شطرنج کھیلنے لگا وہ جب بھی شطرنج میں اپنے حریف پر غلبہ حاصل کرتا شراب کی بوتل اٹھا کر پیتا اور باقی ماندہ شراب کو اس طبق کے نزدیک زمین پر انڈیل دیتا جس میں امامؑ کا سر رکھا ہوا تھا۔[81]
•    حاضرین کا اعتراض: یزید کی محفل میں موجود بعض حاضرین نے یزید کے اس اقدام پر اعتراض کیا ان میں مروان بن حکم کے بھائی یحیی بن حکم ہے جس پر یزید نے اس کے سینے پر گھونسا مارا۔[82] ابو برزہ اسلمی نے بھی اس پر اعتراض کیا تو اسے یزید کے حکم سے مجلس سے ہی اخراج کیا گیا۔[83]
•    خطبہ دینا: شام میں مختلف واقعات رونما ہونے کے بعد امام سجادؑ اور حضرت زینب(س) نے شام میں افکار عمومی کو غلط پروپیگنڈوں سے پاک کرنے کی خاطر خطبے دینا شروع کیا۔ یہ خطبے شام میں امام سجادؑ اور حضرت زینب کے خطبوں کے نام سے معروف ہیں۔
•    محل اقامت: تاریخی مصادر کے مطابق اہل بیت امام حسینؑ کو شام میں دو مقامات پر رکھا گیا۔ شروع میں کسی ویرانے میں رکھا گیا جس پر چھت بھی نہیں تھی،[84] جو خرابہ شام سے معروف ہے اور حضرت رقیہ اسی خرابے میں وفات پائی۔[85] اسیران کربلا کو دو دن اس مقام پر رکھا گیا۔[86] لیکن امام سجادؑ اور حضرت زینب (س) کے خطبوں کے بعد جب افکار عمومی اسیروں کے نفع میں جانے لگا تو انہیں یزید کے محل کے نزدیک کسی گھر میں منتقل کیا گیا۔[87]
•    شام میں قیام کی مدت: اکثر مورخین نی اسیران کربلا کا شام میں قیام کی مدت کو تین دن لکھا ہے۔[88] لیکن عماد الدین طبری نے اس مدت کو سات دن ذکر کیا ہے۔[89] جبکہ سید بن طاووس نے ایک ماہ کہا ہے [90] البتہ اس نے خود اس قول کے ضعیف ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔
قافلے کے واپسی
سید محمد علی قاضی طباطبائی تحقیق درباره اولین اربعین حضرت سید الشہداءؑ میں کاروان اہل بیت کی شام سے واپسی کے متعلق بحث کرتے ہیں اور اربعین کے روز ان کے کربلا کو پہنچنے کو ثابت کرتے ہیں۔ لیکن محدث نوری[91] اور شیخ عباس قمی کربلا میں اسرا کی واپسی اربعین کے روز کے مخالف ہیں۔[92] بشیر نے مسجد النبی کے پاس جا کر روتے ہوئے یہ اشعار پڑھے:
یا اہل یثرب لا مقام لکم        قتل الحسین فادمعی مدرار
اے مدینہ کے رہنے والو! اب مدینہ رہنے کے قابل نہیں ہے        حسین مارا گیا اور میرے آنسو جاری ہیں
الجسم منہ بکربلا مضرج        والراس منہ علی القناة یدار.
ان کی لاش کربلا میں خاک و خون میں غلطاں ہے        اور ان کا سر نیزوں پر پھرایا گیا[93]


مقالهٔ اصلی: اربعین حسینی
شیخ مفید اور شیخ طوسی نے تصریح کی ہے کہ کاروان اہل بیت شام سے واپسی کے بعد مدینہ گیا ہے۔[94]
سید بن طاووس کی نقل کے مطابق قافلۂ اهل‌ بیتؑ نے مدینہ پہنچنے پر شہر سر سے باہر خیمے نصب کئے اور امام سجاد کے حکم پر بشیر بن جذلم مدینہ گیا اور اس نے مسجد النبی کے پاس اشعار پڑھے اور گریہ کیا۔ اس طرح اہالیان مدینہ اہل بیت کے مدینہ واپسی سے مطلع ہوئے۔[95] سید بن طاووس اس دن کو رسول گرامی قدر کے وصال کے بعد مسلمانوں کی تاریخ کا غم انگیز ترین دن شمار کرتے ہیں۔ منقول ہے کہ اہل بیت کی واپسی کا سن کر مدینہ کی تمام خواتین گھروں سے گریہ و شیون کرتے ہوئے باہر نکل آئیں اور اس سے پہلے مدینہ میں ایسا گریہ، نالہ و فریاد دیکھا نہیں گیا۔[96]

------

حوالہ جات
1.     طبری، تاریخ‌ الأمم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۵، ص۴۵۵-۴۵۶.
2.    مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۱۴؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۵، ص۴۵۶.
3.    ابو مخنف، وقعة الطف، ۱۴۱۷ق، ص۲۵۹؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۵، ص۴۵۶.
4.    قاضی نعمان، شرح الاخبار، موسسہ نشرالاسلامی، ج۳، ص۱۹۸-۱۹۹؛ ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۳۸۵ق، ص۷۹؛ ابن سعد، ترجمة الحسین و مقتلہ، ۱۴۰۸ق، ص۱۸۷.
5.     بیضون، موسوعة کربلاء، بیروت، ج۱، ص۵۲۸.
6.    ابن شداد، الاعلاق الخطیرہ، ۲۰۰۶م، ص۴۸-۵۰.
7.    ری‌ شہری، دانشنامہ امام حسینؑ، ۱۳۸۸ش، ج۱، ص۲۸۳.
8.    ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ۱۴۱۵ق، ج۷۰، ص۲۶۱.
9.     ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج۱۵ص ۲۳۶
10.    شیخ مفید، امالی، ص۳۲۱
11.    شیخ مفید، ارشاد، ج۲ص۱۱۴
12.    مفید، ارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۱۵-۱۱۶؛ طبری، تاریخ، ۱۳۸۷ق، ج۵، ص.۴۵۷.
13.     ابن اعثم کوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۵، ص۱۲۳، خوارزمی، مقتل الحسین، ۱۳۶۷ق، ج۲، ص۴۳.
14.  بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۴۱۶.
15.    دینوری، اخبار الطوال، ۱۴۲۱ق، ص۳۸۴-۳۸۵.
16.    ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ۱۴۲۱ق، ج۲، ص۳۰۴؛ نعیمی، الدارس فی تاریخ مدارس، ۱۳۶۷ق، فہرست جای‌ہا.
17.     ابن ‌شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۸۲.
18.     ابن شہر‌ آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۸۲.
19.     مہاجر، کارون غم، ۱۳۹۰ش، ص۳۶-۳۸.
20.     ابن شداد، الاعلاق الخطیرہ، ۲۰۰۶م، ص۱۷۸.
21.     مہاجر، کاروان غم، ۱۳۹۰ش، ص۳۰.
22.     مہاجر، کاروان غم،۱۳۹۰ش، ص۲۹.
23.    ↑ مہاجر، کاروان غم، ۱۳۹۰ش، ص۳۰.
24.    ↑ ہروی، الإشارات الی معرفة الزیارات، ۱۹۵۳م، ص۶۶.
25.    ↑ ہروی، الإشارات الی معرفة الزیارات، ۱۹۵۳م، ص۶۶.
26.    ↑ ابن اعثم، کتاب الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۵، ص۱۲۷؛ خوارزمی، مقتل الحسین، ۱۳۶۷ق، ج۲، ص۵۵-۵۶.
27.    ↑ شیخ مفید، امالی، ۱۴۰۳ق، ص۳۲۱.
28.    ↑ سید بن طاووس، الاقبال، ۱۴۱۵ق، ج۳، ص۸۹.
29.    ↑ ابو ریحان بیرونی، آثار الباقیة، ۱۳۸۶ش، ص۵۲۷.
30.    ↑ شیخ صدوق، امالی، ۱۴۱۷ق، مجلس ۳۱، ص۲۳۰.
31.    ↑ ابن اعثم، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۵، ص۱۲۹-۱۳۰
32.    ↑ محل حضور اسرای کربلا در مسجد اموی
33.    ↑ صفار، بصائر الدرجات، ۱۴۰۴ق، ص۳۳۹.
34.    ↑ شیخ صدوق، امالی، ۱۴۱۷ق، مجلس ۳۱، ص۲۳۱، ح۴.
35.    ↑ شیخ مفید، ارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۲۲.
36.    ↑ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۵ ص۴۶۲؛ خوارزمی، مقتل، ۱۳۶۷ق، ج۲، ص۷۴.
37.    ↑ طبری، کامل بہایی، ۱۳۳۴ق، ج۲، ص۳۰۲.
38.    ↑ ابن طاووس، الاقبال، ۱۴۱۵ق، ج۳، ص۱۰۱.
39.    ↑ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۵، ص۴۶۰.
40.    ↑ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۵، ص۴۶۱.
41.    ↑ ابن طاووس، الملہوف، ۱۴۱۷ق، ص۲۱۳.
42.    ↑ ابن نما، مثیر الاحزان، ۱۴۰۶ق، ص۹۹
43.    ↑ خوارزمی، مقتل، ۱۳۶۷ق، ج۲، ص۶۴.
44.    ↑ یعقوبی، تاریخ، دار صادر، ج۲، ص۶۴
45.    ↑ ابن اثیر، الکامل، ۱۴۰۵ق، ج۲، ص۵۷۷.
46.    ↑ صدوق، عیون اخبار الرضا، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۲۵، ح۵۰.
47.    ↑ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۵، ص۴۶۵.
48.    ↑ بلاذری، انساب الاشراف،۱۴۱۷ق، ج۳، ص۴۱۶.
49.    ↑ ابن ‌نما، مثیر الاحزان، ۱۴۰۶ق، ص۸۹-۹۰.
50.    ↑ ابن طیفور، بلاغات النساء، ۱۳۷۸ش، ص۲۶.
51.    ↑ شهیدی، زندگانی علی ابن الحسینؑ، ۱۳۸۵ش، ص۵۷.
52.    ↑ طبرسی، احتجاج، ۱۴۱۶ق، ج۲، ص۱۴۰-۱۰۸.
53.    ↑ ابن طاووس، الملهوف، ۱۴۱۷ق، ص۱۹۸.
54.    ↑ ابن طاووس، الملهوف، ۱۴۱۷ق، ص۲۱۳-۲۱۸.
55.    ↑ ربانی گلپایگانی، «افشاگری امام سجاد در قیام کربلا (۲)»، ص۱۱۹.
56.    ↑ ابن ‌نما، مثیر الاحزان، ۱۴۰۶ق، ص۸۹-۹۰؛ ابن طیفور، بلاغات النساء، ۱۳۷۸ش، ص۲۶.
57.    ↑ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۴۱۶.
58.    ↑ دینوری، اخبار الطوال، ۱۴۲۱ق، ص۳۸۴-۳۸۵.
59.    ↑ جعفر مہاجر، کاروان غم، ص۲۹
60.    ↑ کاروان غم، مہاجر، ص۳۰
61.    ↑ الاشارات الی معرفہ الزیارات، ص۶۶
62.    ↑ الاشارات الی معرفہ الزیارات، ص۶۶
63.    ↑ مہاجر، ص۳۰
64.    ↑ الاعلاق الخطیرہ، ابن شداد، ص۱۷۸
65.    ↑ معجم البلدان،ج۲،ص:۱۸۶
66.    ↑ مناقب آل أبی طالب علیہم السلام (لابن شہر آشوب)، ج۴، ص: ۸۲
67.    ↑ مناقب آل أبی طالب علیہم السلام (لابن شہر آشوب)، ج۴، ص۸۲
68.    ↑ مہاجر، ص ۳۶تا۳۸
69.    ↑ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج۲ص ۳۰۴
70.    ↑ نعیمی، الدارس فی تاریخ مدارس، فہرست جای‌ہا
71.    ↑ شیخ صدوق، امالی، مجلس، ۳۱، ص۲۳۰.
72.    ↑ ابو ریحان بیرونی، آثار الباقیہ، ص۳۳۱
73.    ↑ ابن اعثم، الفتوح، ج۵، ص۱۲۹-۱۳۰
74.    ↑ تاریخ الطبری، ج۵، ص۴۶۰
75.    ↑ تاریخ الطبرس، ج۵، ص۴۶۱
76.    ↑ سید بن طاووس، لہوف، ص۲۱۳
77.    ↑ ابن نما، مثیر الاحزان، ص۹۹
78.    ↑ خوارزمی، ج۲، ص۶۴
79.    ↑ یعقوبی، ج۲، ص۶۴
80.    ↑ ابن اثیر، کامل، ج۲ص ۵۷۷
81.    ↑ صدوق، عیون اخبار الرضا، ج۱، ص۲۵، ح۵۰
82.    ↑ طبری، ج۵ص ۴۶۵
83.    ↑ انساب الاشراف، ج۳، ص۴۱۶
84.    ↑ شیخ صدوق، امالی، مجلس ۳۱، ص۲۳۱، ح۴
85.    ↑ کامل بہایی، ج۲، ص۱۷۹
86.    ↑ صفار، بصائر الدرجات، ص ۳۳۹
87.    ↑ شیخ مفید، ارشاد، ج۲، ص۱۲۲
88.    ↑ طبری، ج۵ ص۴۶۲، خوارزمی، ج۲، ص۷۴
89.    ↑ کامل بہایی، ج۲، ص۳۰۲
90.    ↑ الاقبال بالاعمال الحسنہ، ج۳، ص۱۰۱
91.    ↑ محدث نوری، لؤلؤ و مرجان، ۱۴۲۰ق، ص۲۰۸ـ۲۰۹.
92.    ↑ قمی، منتهی الآمال، ۱۳۷۲ش، ص۵۲۴ -۵۲۵.
93.    ↑ سید بن طاووس، لہوف، ص۲۲۷
94.    ↑ شیخ مفید، مسار الشیعہ، ۱۴۱۳ق، ص۴۶؛ طوسى، مصباح المتهجّد، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۷۸۷.
95.    ↑ ابن طاووس، لهوف، ۱۴۱۷ق، ص۲۲۶-۲۲۷.
96.    ↑ ابن طاووس، لهوف، ۱۴۱۵ق، ص۲۲۷.
مآخذ
o    ابن ابی الحدید، عز الدین عبدالحمید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، چاپ ۲، قم، منشورات کتابخانہ آیہ اللہ مرعشی نجفی، ۱۴۰۴ق.
o    ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ،‌ بیروت، دار التراث العربی، ۱۴۰۵ق.
o    ابن اعثم کوفی، احمد بن اعثم، الفتوح، تحقیق علی شیری، بیروت، دار الاضواء، ۱۴۱۱ق.
o    ابن سعد، «ترجمۃ الحسین و مقتلہ»، تحقیق سید عبد العزیز طباطبایی، فصلنامہ تراثنا، سال سوم، شمارہ ۱۰، ۱۴۰۸ق.
o    ابن شداد، محمد بن علی، الاعلاق الخطیرہ فی ذکر امراء الجزیرہ، دمشق، بی‌نا، ۲۰۰۶م.
o    ابن شہر آشوب، محمد بن علی مازندرانی، مناقب آل أبی‌ طالب علیہم السلام، علامہ، قم، ۱۳۷۹ق.
o    ابن طاووس، علی بن موسی، الملہوف فی معرفۃ علی قتلی الطفوف، تحقیق فارس تبریزیان، قم، دار الاسوہ، ۱۴۱۷ق.
o    ابن طیفور، ابو الفضل بن ابی ‌طاہر، بلاغات النساء، قم، مکتبہ الحیدریہ ، ۱۳۷۸ش.
o    ابن عساکر، علی بن حسن بن ہبہ اللہ، تاریخ مدینہ دمشق، تحقیق علی عاشور،‌ بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۲۱ق.
o    ابن عساکر، علی بن حسن بن ہبہ اللہ، تاریخ مدینۃ دمشق، بیروت، تحقیق علی شیری، دار الفکر، ۱۴۱۵ق.
o    ابن نما، جعفر بن محمد، مثیر الاحزان، قم، مدرسہ امام المہدی (عج)، ۱۴۰۶ق.
o    ابو ریحان بیرونی، محمد بن احمد، آثار الباقیہ، مترجم دانا سرشت، اکبر، تہران، امیر کبیر، ۱۳۸۶ش.
o    ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، قم، مؤسسہ دار الکتاب، ۱۳۸۵ق.
o    ابو مخنف، لوط بن يحيى، وقعۃ الطف، قم، نشر جامعہ مدرسين، چاپ: سوم، ۱۴۱۷ق.
o    بلاذری، انساب الاشراف، تحقیق سہیل زکار وریاض زرلکی، بیروت، دار الفکر، ۱۴۱۷ق.
o    بیضون، لبیب، موسوعۃ كربلاء، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، بی‌تا.
o    تمیمی مغربی، ابو حنیفہ نعمان بن محمد، شرح الأخبار فی فضائل الائمۃ الاطہار، تحقیق سید محمد حسینی جلالی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، بی تا.
o    خوارزمی، موفق بن احمد مکی، مقتل الحسین، تحقیق محمد سماوی، نجف، مطبعۃ الزہراء، ۱۳۶۷ق.
o    دینوری، ابو حنیفہ احمد بن داود، الاخبار الطوال، تحقیق عصام محمد الحاج علی، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۲۱ق.
o    ربانی گلپایگانی، علی، «افشاگری امام سجاد در قیام کربلا (۲)»، در مجلہ نور علم، شمارہ ۴۶، مرداد و شہریور ۱۳۷۱ش.
o    شہیدی، سید جعفر، زندگانی علی ابن الحسینؑ، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، چاپ سیزدہم، ۱۳۸۵ش.
o    صدوق، عیون اخبار الرضا، تصحیح حسین اعلمی، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، ۱۴۰۴ق.
o    صدوق، محمد بن علی، الامالی، قم، مؤسسۃ البعثۃ، ۱۴۱۷ق.
o    صفار قمی، محمد بن حسن، بصائر الدرجات، تصحیح محسن کوچہ باغی، قم، کتابخانہ آیہ اللہ مرعشی نجفی، ۱۴۰۴ق.
o    طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، تحقیق ابراہیم بہادری و محمد ہادی‌ بہ، چ۲، قم، اسوہ، ۱۴۱۶ق.
o    طبری، عماد الدین حسن بن علی، کامل بہایی، قم، موسسہ طبع و نشر، ۱۳۳۴ش.
o    طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، تحقیق محمد ابو الفضل ابراہیم، بیروت، روائع التراث العربی، ۱۳۸۷ق.
o    طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتہجّد و سلاح المتعبّد، بیروت، مؤسسۃ فقہ الشیعۃ، چاپ اول، ۱۴۱۱ق.
o    قمی، عباس، منتہی الآمال، تہران، مطبوعاتی حسینی، ۱۳۷۲ش.
o    محدث نوری، لؤلؤ و مرجان، تحقیق: داریتی، مصطفی، قم، کنگرہ دین پژوہان کشور، ۱۴۲۰ق.
o    محل حضور اسرای کربلا در مسجد اموی، در خبرگزاری بین المللی قرآن، تاریخ درج مطلب : ۲۴ اردیبہشت ۱۳۹۳، تاریخ بازدید ۲۴ مرداد ۱۳۹۷.
o    محمدی ری‌ شہری، محمد، دانشنامہ امام حسین ع بر پایہ قرآن، حدیث و تاریخ، مترجم: مسعودی، عبد الہادی، قم، ناشر: موسسہ دار الحديث، ۱۳۸۸ش.
o    مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفہ حجج اللہ علی العباد، تحقیق موسسہ آل البیت، قم، الموتمر العالمی الالفیہ الشیخ المفید، ۱۴۱۳ق.
o    مفید، محمد بن محمد، امالی، تحقیق حسین استادولی و علی اکبر غفاری، قم، جامعہ مدرسین، ۱۴۰۳ق.
o    مفید، محمد بن محمد، مسار الشیعہ، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ اول، ۱۴۱۳ق.
o    مہاجر، جعفر، کاروان غم، سید حسین مرعشی، تہران، انتشارات مسافر، ۱۳۹۰ش.
o    نادعلیان، احمد و مہران ہوشیار، «نقش‌ہای عاشورایی»، در مجلہ رہپویہ ہنر، شمارہ ۵، بہار ۱۳۸۷ش.
o    ہروی، علی بن ابی ‌بکر، الاشارات الی معرفہ الزیارات، دمشق، بہ کوشش جانین سوردیل، ۱۹۵۳م.
o    یعقوبی، احمد بن ابی‌ یعقوب، تاریخ یعقوبی،‌ بیروت، دار صادر، بی‌تا

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک