سید الشہدا (لقب امام حسین)
سید الشہدا (لقب امام حسین)
سید الشہداء، یعنی شہیدوں کا سردار، یہ لقب رسول اکرم(ص) نے اپنے چچا حمزہ بن عبدالمطلب کو جنگ احد میں شھادت کے وقت دیا تھا. اور یہی سید الشہداء امام حسین(ع) کے مشہور القاب میں سے بھی ہے.
لقب حمزہ
مشرکین نے جنگ احد میں حمزہ کو شہید کر دیا اور پھر آپ کے بدن کی بے حرمتی کی. [1] اس وقت پیغمبر اکرم(ص) نے آپکو سید الشہداء کا لقب دیا. [2] تاریخ اور روایت کی اکثر کتابوں میں، حضرت حمزہ کے لئے لقب سید الشہداء لکھا گیا ہے. [3]
لیکن بعض روایات میں آپکو دوسرے عناوین کے طور پر یاد کیا گیا ہے، جیسے بہشت کے شہیدوں کے سردار، [4]
انبیاء اور اولیاء میں پہلے اور آخری شہیدوں کے سردار، [5] خیرالشہداء، [6] افضل الشہداء. [7] اسداللہ اور اسد رسولہ. [8]
امیرالمومنین(ع)(چھ افراد پر مشتمل ایک کونسل) امام حسن(ع)، امام حسین(ع) (کربلا میں)، اور محمد بن حنفیہ اپنی تقریر اور بیانات میں، ہمیشہ حضرت حمزہ کے اس مقام کی طرف اشارہ فرمایا اور فرمایا کہ بنی ہاشم اور اہل بیت(ع) کے لئے باعث فخر بات ہے کہ حضرت حمزہ کو یہ لقب ملا ہے. [9]
رسول اکرم(ص) کے زیارت نامے میں السلام علی عمک حمزہ سید الشھداء اور حضرت حمزہ کے زیارت نامے میں السلام علیک یا عم رسول اللہ و خیر الشھداء ذکر ہوا ہے. [10]
امام حسین(ع) کا لقب
امام حسین(ع) کی شھادت کے بعد آپکو بھی سید الشہداء کا لقب دیا گیا ہے. اگرچہ اس سے پہلے بھی حضرت پیغمبر اکرم(ص) کی احادیث میں امام حسین(ع) کو سید الشہداء کے لقب سے یاد کیا گیا تھا. [11]
لگتا ہے کہ امام حسین(ع) کا لقب امام صادق(ع) کے زمانے میں عمومی ہوا ہے. ام سعید احمشیہ نام کی عورت جس کا تعلق عراق سے تھا اور امام صادق(ع) کی چاہنے والی تھی، وہ مدینہ میں شہداء کی زیارت پر جانے کا ارادہ رکھتی تھی کہ امام صادق(ع) نے اس سے فرمایا کہ تم سیدالشہداء کی قبر کی زیارت کیوں نہیں کرتی؟
ام سعید نے اس سوچ کے ساتھ کے شاید سید الشہداء کا مطلب امیرالمومنین(ع) کی قبر ہے سوال کیا: کہ سیدالشہداء کون ہے؟
تو امام صادق(ع) نے جواب دیا: کہ سیدالشہداء حسین بن علی(ع) ہیں. [12]
ملا صالح مازندرانی نے اس لقب کی توضیح اس طرح دی ہے کہ یہ لقب حضرت حمزہ اور امام حسین(ع) دونوں کو عطا ہوا ہے، حمزہ اپنے زمانے کا سیدالشہداء ہے اور امام حسین(ع) ہر زمانے کا سید الشہداء ہے. [13]
حضرت فاطمہ(س) نے حضرت حمزہ کی شہادت کے بعد آپکی قبر کی مٹی سے تسبیح بنائی اور اس تسبیح پر ذکر پڑھتی تھیں. اور شیعیہ امام حسین(ع) کی تربت سے تسبیح بناتے ہیں. [14]
امام صادق(ع) نے امام حسین(ع) کی تربت کو حضرت حمزہ کی تربت پر فضیلت کے بارے میں فرمایا کہ امام حسین(ع) کی تربت انسان کے ہاتھ میں تسبیح کرتی ہے، اگرچہ انسان کوئی ذکر نہ پڑھے. [15]
لقب کے متعلق دوسرے افراد
حضرت حمزہ اور امام حسین(ع) کے علاوہ دوسرے افراد جن کو سید الشہداء کا لقب ملا ہے، درج ذیل ہیں، پیغمبر جرجیس [16]
بلال حبشی [17] جعفر بن ابی طالب [18] اور مہجع بن عبداللہ جنگ بدر کا پہلا شہید. [19]
حضرت پیغمبر(ص) نے اپنی روایات میں فرمایا کہ حمزہ کے بعد سید الشہداء اسے کہا جائے جو ایک ظالم حکمران کے پاس جائے اور اسے امر بالمعروف اور نہی از منکر کرے اور اس راہ میں قتل کیا جائے. [20]
حوالہ جات
واقدی، المغازی، ۱۹۶۶، ج ۱، ص۲۹۰؛ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، بیروت، ج ۲، ص۴۷
رجوع کنید به طبری، ذخائرالعقبی، 1356، ص۱۷۶؛ صفدی، الوافی بالوفیات، ج۱۳، ص۱۷۰
برای نمونه رک: بلاذری، انساب الاشراف، ۱۳۹۴، ج ۲، ص۳۹۴؛ شیخ صدوق، الخصال، ۱۴۰۳، ج۲، ص۴۱۲، ۵۵۵؛ شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۴، ص۳۷
شیخ صدوق، الخصال، ج ۱، ص۵۷۵
کتاب سلیمبن قیس، ص۱۳۳ـ۱۳۴؛ شیخ صدوق، کمالالدین، ۱۴۰۵، ص۲۶۳ـ۲۶۴
تاب سلیمبن قیس، ۱۴۲۰، ص۱۳۳؛ طوسی، الغیبه، ۱۴۱۱، ص۱۹۱؛ طبری، ذخائر العقبی، ۱۳۵۶، ص۱۷۶
کوفی، تفسیر فرات کوفی، ۱۴۱۰، ص۱۰۱؛ شیخ کلینی، الکافی، ۱۳۶۳، ج۱، ص۴۵۰
واقدی، المغازی، ۱۹۶۶، ج ۱، ص۲۹۰؛ شیخ کلینی، الکافی، ۱۳۶۳، ج۱، ص۲۲۴؛ شیخ صدوق، الخصال، ۱۴۰۳، ج۱، ص۲۰۳ـ۲۰۴
برای نمونه رک: نهجالبلاغه، چاپ صبحی صالح، نامه ۲۸؛ طبری، تاریخ، ج ۵، ص۴۲۴؛ شیخ صدوق، الخصال، ۱۴۰۳، ج۱، ص۳۲۰؛ شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۴، ج ۲، ص۹۷؛ طوسی، الامالی، ۱۴۱۴، ص۵۴۶، ۵۵۴، ۵۶۳ـ۵۶۴
ابنقولویه قمی، کامل الزیارات، چاپ جواد قیومی، ص۶۲
برای نمونه رک: ابنقولویه قمی، کامل الزیارات، چاپ جواد قیومی، ص۱۴۲، ۱۴۸
رک: ابنقولویه قمی، کامل الزیارات، چاپ جواد قیومی، ص۲۱۷ـ۲۲۰؛ شیخ صدوق، ثوابالاعمال، ۱۳۶۴، ص۹۷ـ۹۸
مازندرانی، شرح اصول کافی، ۱۴۲۱، ج۱۱، ص۳۶۸
طبرسی، مکارم الاخلاق، ص۲۸۱؛ نجفی، جواهرالکلام، ج ۱۰، ص۴۰۴ـ۴۰۵
طبرسی، مکارم الاخلاق، ۱۳۹۲، ص۲۸۱
صنعانی، تفسیرالقرآن، ۱۴۱۰، ج۳، ص۵، ۱۵۰؛ ابنعساکر، تاریخ مدینة دمشق، ۱۴۱۵، ج ۶۴، ص۱۹۲
هیثمی، مجمعالزوائد و منبعالفوائد، ۱۴۰۸، ج ۹، ص۳۰۰
متقی هندی، کنزالعمّال، ۱۴۰۹، ج۱۱، ص۶۶۱، ج۱۳، ص۳۳۲
ثعلبی، الکشف و البیان، ج ۷، ص۲۷۰؛ بغوی، تفسیر البغوی، ۱۹۹۵، ج ۳، ص۴۶۰
رجوع کنید به جصاص، احکام القرآن، ۱۴۱۵، ج ۲، ص۴۳؛ طبری، ذخائر العقبی، ص۱۷۶