شہادت
شہادت
شہادت کا معنی خدا کی راہ میں قتل ہونا ہے، احادیث میں شہادت کو سب سے اعلی نیکی اور بہترین موت قرار دیا گیا ہے قرآنی آیات اور احادیث میں شہادت کے لئے بعض آثار ذکر ہوئی ہیں جیسے زندہ رہنا، شفاعت کا حق حاصل ہونا اور گناہوں کی مغفرت کرنا۔
فقہا کی نظر کے مطابق شہید کے لئے غسل اور کفن نہیں دیا جاتا ہے اور اس کے بدن کو چھونے پر غسل مس میت بھی واجب نہیں ہوتا ہے۔ البتہ یہ جنگی شہدا کے ساتھ خاص ہے۔ جس میں دیگر شہدا یا جو شہید کی منزلت میں ہیں کو شامل نہیں ہیں۔
بعض روایات کے مطابق تمام شیعہ ائمہؑ شہید ہوئے ہیں۔ البتہ شیعہ مشہور عالم دین شیخ مفید نے بعض ائمہؑ کی شہادت میں تردید کی ہے۔
تعریف
شہادت اللہ کی راہ میں مارے جانے کو کہا جاتا ہے اور جو اللہ کی راہ میں قتل ہوتا ہے اسے شہید کہا جاتا ہے۔[1]
فقہ میں شہید اس مسلمان کو کہا جاتا ہے جو جنگ کے میدان میں کافروں کے ہاتھوں قتل ہوتا ہے۔[2] تفسیر نمونہ میں شہادت کے لئے دو معنی؛ عام اور خاص ذکر کیا ہے۔ خاص معنی وہی فقہی معنی ہے اور عام معنی یہ ہے کہ انسان اللہ کی راہ میں اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے مارا جائے یا مرجائے۔ اسی لئے وہ طالب علم جو طلب علم کی راہ میں دینا سے چلا جائے، یا کوئی بیماری کے بستر پر جان دیدے جبکہ اللہ، رسولؐ اور اہل بیتؑ کی معرفت رکھتا تھا، حملہ آورں کے مقابلے میں اپنے مال کا دفاع کرتے ہوئے مارا جائے وغیرہ کو بھی روایات میں شہید جانا گیا ہے۔[3]
وجہ تسمیہ
قال اللہ تعالی:
﴿وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ﴾
ترجمہ: اور جو لوگ راہ خدا میں قتل ہوجاتے ہیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہے
سورہ آل عمران:169۔
شہادت عربی زبان میں حضور اور مشاہدہ کے معنی میں ہے۔[4] اس اعتبار سے شہادت نام رکھنے کی کچھ وجوہات ذکر ہوئی ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں:
رحمت الہی کے فرشتے اس کی فداکاری اور جانبازی کے گواہ ہیں.
خدا اور فرشتے اس کے بہشت میں داخل ہونے کی گواہی دیں گے.
اور وہ اپنے پرودگار کے نزدیک زندہ اور حی ہے.
وہ ایسی چیزوں کو مشاہدہ کرتا ہے جو دوسرے نہیں دیکھ سکتے ہیں۔[5]
قیامت کے دن شہید دوسروں کے اعمال پر شاہد ہے۔[6]
شہادت کی فضیلت
شہادت کی فضیلت اور اہمیت کے بارے میں بہت ساری روایات نقل ہوئی ہیں۔ جیسا کہ شہادت کو سب سے اعلی نیکی[7] اور شرافت مندانہ موت[8] قرار دیا گیا ہے جبکہ بعض موت کو اجر و ثواب میں شہادت سے تشبیہ دی گئی ہیں۔[9] اسی طرح ائمہ معصومینؑ سے ماثور دعاؤں میں[10] پیغمبر اکرمؐ کے پرچم تلے شہادت[11] اور بدترین لوگوں کے ہاتھوں مارے جانے[12] کی درخواست کی گئی ہے۔
قرآن مجید میں شہادت کو
«قَتْل فی سبیلالله»
(اللہ کی راہ میں مارا جانا) سے تعبیر کیا ہے۔[13] فقہی کتابوں کے باب طہارت میں شہید اور شہادت پر بحث ہوتی ہے۔[14]
شہادت کے آثار
آیات اور روایات میں شہادت کے لئے کچھ آثار ذکر ہوئی ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
زندہ رہنا: قرآنی آیات کی روشنی میں، جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جاتے ہیں وہ مرتے نہیں ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں[15] اور اپنے پروردگار کے ہاں سے رزق پاتے ہیں۔[16]
شفاعت کا حق۔ شہید قیامت کے دن انبیاؐ اور علماء کے ساتھ شفاعت کریں گے۔[17]
گناہوں کی مغفرت۔[18]امام باقرؑ سے منقول ایک روایت میں منقول ہے کہ جب شہید کے بدن سے خون کا پہلا قطرہ جاری ہوتا ہے، اس کے حق الناس کے علاوہ باقی تمام گناہ بخش دئے جاتے ہیں۔[19] شہید پر باقی حق الناس کے بارے میں بھی کہا گیا ہے کہ اگر اس کے ادا کرنے میں کوتاہی نہیں کی ہے تو اللہ اس حق کو جبران کرتا ہے اور حق والا اس سے راضی ہوجاتا ہے۔[20]
بہشت میں داخلہ[21]۔ قیامت کے دن جو سب سے پہلے بہشت میں داخل ہو گا وہ شہید ہے۔[22]
میدان جنگ کے شہید
فقہا نے میدان جنگ کے شہدا کے لئے بعض احکام ذکر کئے ہیں:
غسل میت۔ شیعہ فقہا کے مطابق میدان جنگ کے شہید کے لئے غسل میت کی ضرورت نہیں ہے؛[23] لیکن جو جنگ میں زخمی ہوجائے اور جنگ ختم ہونے بعد وفات پائے تو اس کو غسل دینا ہوگا۔[24]
کفن؛ شیعہ فقہا کے مطابق میدان جنگ کے شہید کے لئے کفن نہیں دیا جاتا ہے[25] اور اسی جنگی کپڑوں میں دفنایا جاتا ہے؛[26] لیکن اگر بدن پر کپڑے نہ ہوں تو اس کو کفن دینا ضروری ہے۔[27]
شہید کے بدن کو مس کرنا؛ شہید کے بدن کو چھونے سے غسل مس میت واجب نہیں ہوتا ہے۔[28]
حنوط: حنوط (میت کے سجدہ کے ساتوں اعضا پر کافور ملنا) شہید کے لئے واجب نہیں ہے؛ کیونکہ حنوط کفن کرنے کے بعد کیا جاتا ہے جبکہ شہید کے لئے کفن نہیں دیا جاتا ہے۔[29]
مندرجہ بالا احکام میں وہ لوگ شامل ہیں جو معصوم یا ان کے نائب خاص کی اجازت سے جنگ میں گئے ہیں۔[30] نیز اکثر فقہا کے فتوے کے مطابق ان احکام میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو امام زمانہؑ کی غیبت کے دوران، امام کے نائب عام یعنی فقیہ جامع الشرائط کی اذن سے یا اذن کے بغیر دشمن کے حملوں کا دفاع کرتے ہوئے مارے گئے ہوں۔[31] ان کے مقابلے میں شہید ثانی کا کہنا ہے کہ یہ لوگ اگرچہ شہید ہیں لیکن میدان جنگ کے شہدا کے احکام ان پر جاری نہیں ہوتے ہیں۔[32]
شیعہ ائمہ کی شہادت
بعض شیعہ علما کا عقیدہ یہ ہے کہ شیعہ ائمہؑ سب شہید ہوئے ہیں[33] اور ان کی دلیل
«وَ اللَّهِ مَا مِنَّا إِلَّا مَقْتُولٌ شَهِید»
جیسی روایات ہیں، جن کی بنا پر تمام ائمہؑ شہید ہوتے ہیں۔[34] اس نظرئے کے برخلاف شیخ مفید اپنی کتاب «تصحیح اعتقادات الامامیہ» میں امام علیؑ، امام حسنؑ، امام حسینؑ، امام موسی کاظمؑ اور امام رضاؑ کی شہادت کو مانتے ہیں اور باقی ائمہ کی شہادت میں تردید کی ہے۔[35]
مونوگراف
شہادت کے بارے میں مختلف زبانوں میں کتابیں لکھی گئی ہیں:
کتاب شہدائے عصر پیامبرؐ تالیف ابوالفضل بنایی کاشی
شُهَداءُ الفَضیلَۃ: تالیف علامہ امینی جس میں 130 شہید عالموں کے حالات زندگی بیان ہوئی ہے۔
کتاب شہدائے صدر اسلام و شہدائے واقعہ کربلا تالیف سید علیاکبر قرشی۔[36]
حوالہ جات
محمود عبدالرحمان، معجم المصطلحات و الالفاظ الفقهیہ، ج۲، ص۳۴۶.
محمود عبدالرحمان، معجم المصطلحات و الالفاظ الفقہیہ، ج۲، ص۳۴۶.
مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۹ش، ج۲۱، ص۴۰۷-۴۰۸.
قرشی، قاموس قرآن، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۷۴.
طریحی، مجمع البحرین، ۱۴۱۶ق، ج۳، ص۸۱.
قرشی، قاموس قرآن، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۷۷.
ابن حیون مغربی، دعائم الاسلام، ۱۳۸۵ق، ج۱، ص۳۴۳.
صدوق، من لایحضر الفقیه، ۱۴۰۳ق، ج۴، ص۴۰۲، ح۵۸۶۸.
ملاحظہ کریں: شیخ انصاری، کتاب الطہاره، ۱۴۱۵ق، ج۴، ص۴۰۴.
علامہ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۴ق، ج۹۵، ص۳۶۸؛ ج۹۱، ص۲۳۹؛ ج۹۴، ص۳۳۲.
علامہ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۴ق، ج۹۴، ص۳۷۶.
علامه مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۴ق، ج۹۴، ص۲۶۱.
قرشی، قاموس قرآن، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۷۶.
ملاحظہ کریں: علامہ حلی، تحریر الاحکام، ۱۴۲۰ق، ج۱، ۳۳۱۷.
سوره بقره، آیه۱۵۴.
سوره آل عمران، آیہ۱۶۹.
حمیری، قرب الاسناد، مکتبۃ نینوا، ج۱، ص۳۱.
سوره آل عمران، آیہ۱۵۷.
شیخ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۳، ص۱۸۳.
شیخ طوسی، تہذیب الاحکام، ۱۳۶۵ش، ج۶، ص۱۸۸، ح۳۹۵ و ص۱۹۱، ح۴۱۱؛ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۵، ص۹۹.
سوره توبہ، آیه۱۱۱.
علامہ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۴ق، ج۷۱، ص۱۴۴.
شیخ انصاری، کتاب الطہاره، ۱۴۱۵ق، ج۴، ص۳۹۹.
علامہ حلی، نہایۃ الاحکام، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۲۳۵.
شیخ انصاری، کتاب الطہاره، ۱۴۱۵ق، ج۴، ص۳۹۹.
شیخ انصاری، کتاب الطہاره، ۱۴۱۵ق، ج۴، ص۴۰۶.
شیخ انصاری، کتاب الطہاره، ۱۴۱۵ق، ج۴، ص۴۰۶-۴۰۷.
نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۵، ص۳۰۷.
خؤیی، التنقیح، مؤسسہ احیاء آثار الامام الخویی، ج۹، ص۱۸۲.
شہید ثانی، مسالک الافہام، ج۱، ص۸۲.
ملاحظہ کریں: کاشفالغطا، النور الساطع، ۱۳۸۱ق، ج۱، ص۵۴۵.
شہید ثانی، مسالک الافہام، ج۱، ص۸۲.
ملاحظہ کریں: صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۵۲۸؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۱۳۲-۱۳۱؛ ابن شهر آشوب، مناقب آل ابیطالب، ۱۳۷۹ ق، ج۲، ص۲۰۹.
ابن شهر آشوب، مناقب آل ابیطالب، ۱۳۷۹ ق، ج۲، ص۲۰۹؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۱۳۲-۱۳۱.
مفید، تصحیح اعتقاد الامامیہ، ۱۴۱۴ق، ص۱۳۲و۱۳۱.
«نگاہی بہ كتاب «شہدای صدر اسلام و شہدای كربلا»»، خبرگزاری ایسنا.
مآخذ
آقابابایی، احسان و مہدی ژیانپور، «گلزار شہدا بہ مثابہ مکان-خاطرہ»، در مطالعات ملی، شمارہ ۶۷، پاییز ۱۳۹۵ہجری شمسی۔
ابن حیون مغربی، نعمان بن محمد، دعائم الاسلام، تصحیح آصف فیضی، قم، مؤسسة آلالبیت علیہمالسلام، ۱۳۸۵ھ۔
ابن شہرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابیطالب(ع)، قم، علامہ، ۱۳۷۹ھ۔
«بزرگداشت اولین سالگرد شہید امنیت «حامد ضابط» برگزار میشود»، خبرگزاری فارس، تاریخ درج مطلب: ۲ شہریور ۱۴۰۰ش، تاریخ بازدید: ۳۱ شہریور ۱۴۰۰ہجری شمسی۔
«تحلیلی برتدفین پیکرہای طیبہ شہدای گمنام درنقاط خاص کشور»، پایگاہ کمیتہ جستجوی مفقودین ستاد کل نیروہای مسلح، تاریخ بازدید: ۳۱ شہریور ۱۴۰۰ہجری شمسی۔
«پیکر دو تن از شہدای امنیت استان تہران چہارشنبہ تشییع میشود»، خبرگزاری دانشجویان ایران (ایسنا)، تاریخ درج مطلب: ۲۸ آبان ۱۳۹۸ش، تاریخ بازدید: ۳۱ شہریور ۱۴۰۰ہجری شمسی۔
«پیکر شہید امنیت در دہدشت تشییع شد»، خبرگزاری فارس، تاریخ درج مطلب: ۷ مہر ۱۳۹۹ش، تاریخ بازدید: ۳۱ شہریور ۱۴۰۰ہجری شمسی۔
حمیری، عبداللہ بن جعفر، قرب الاسناد، تہران، نینوا، بیتا.
ربیعی، علی و امیرحسین تمنایی، «تحلیل گفتمانی وصیتنامہ شہدای جنگ تحمیلی»، در مطالعات جامعشناختی، شمارہ ۴۴، بہار و تابستان ۱۳۹۳ہجری شمسی۔
«روایت مشاور فرماندہ سپاہ کربلای مازندران از خان طومان»، خبرگزاری دانشجویان ایران (ایرنا)، تاریخ درج مطلب: ۲۰ اردیبہشت ۱۳۹۵ش، تاریخ بازدید: ۳۱ شہریور ۱۴۰۰ہجری شمسی۔
«شہدای سلامت از امتیازات افراد «در حکم شہید» برخوردار میشوند»، خبرگزاری جمہوری اسلامی، تاریخ درج مطلب: ۱۲ مرداد ۱۳۹۹ش، تاریخ بازدید: ۳۱ شہریور ۱۴۰۰ہجری شمسی۔
شہید ثانی، مسالک الافہام الی تنقیح شرائع الاسلام، مؤسسة المعارف الاسلامیة، بیتا.
شیخ انصاری، مرتضی، کتاب الطہارة، قم، کنگرہ جہانی بزرگداشت شیخ اعظم انصاری، ۱۴۱۵ھ۔
صدوق، محمد بن علی بن بابویہ، الخصال، تصحیح و تحقیق علی اکبر غفاری، قم، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، چاپ اول، ۱۳۶۲ہجری شمسی۔
صدوق، محمد بن علی، من لایحضرہ الفقیہ، تصحیح علیاکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۱۳ھ۔
طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری باعلام الہدی، قم، مؤسسہ آلالبیت، ۱۴۱۷ھ۔
طریحی، فخرالدین بن محمد، مجمع البحرین، تحقیق احمد حسینی اشکوری، تہران، کتابفروشی مرتضوی، چاپ سوم، ۱۴۱۶ھ۔
علامہ حلی، حسن بن یوسف، تحریر الشرعیہ علی مذہب الامامیہ، تصحیح ابراہیم بہادری، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، ۱۴۲۰ھ۔
علامہ حلی، حسن بن یوسف، نہایة الاحکام فی معرفة الاحکام، قم، مؤسسہ آلالبیت، ۱۴۱۹ھ۔
مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار الجامعة لدرر اخبار الائمة الاطہار، تحقیق محمدباقر محمودی و عبدالزہرا علوی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۴ھ۔
«فلسفہ یادبود شہدا در دانشگاہہا»، پایگاہ کمیتہ جستجوی مفقودین ستاد کل نیروہای مسلح، تاریخ بازدید: ۳۱ شہریور ۱۴۰۰ہجری شمسی۔
قرشی، سید علیاکبر، قاموس قرآن، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ ششم، ۱۴۱۲ھ۔
کاشفالغطاء، علی بن محمدرضا، النور الساطع فی الفقہ النافع، نجف، مطبعة الآداب، ۱۳۸۱ھ۔
محمودی، مریم و حسن قربانی، «بررسی صبغہ عرفانی مناجاتہای شہدای دفاع مقدس»، در ادبیات پایداری، شمارہ ۱۵، پاییز و زمستان ۱۳۹۵ہجری شمسی۔
«مفہوم گمنامی»، پایگاہ کمیتہ جستجوی مفقودین ستاد کل نیروہای مسلح، تاریخ بازدید: ۳۱ شہریور ۱۴۰۰ہجری شمسی۔
مفید، محمد بن محمد، تصحیح اعتقاد الامامیہ، تحقیق و تصحیح حسین درگاہی، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ دوم، ۱۴۱۴ھ۔
مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۴ہجری شمسی۔
خویی، سید ابوالقاسم، التنقیح فی شرح العروةالوثقی، قم، مؤسسہ احیاء آثار الامام الخویی، بیتا.