امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

امام رضا علیہ السلام

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

امام رضا علیہ السلام

ابو الحسن علی بن موسی الرضا (148-203ھ)، امام رضا علیہ السلام کے نام سے معروف، شیعوں کے آٹھویں امام ہیں۔ امام محمد تقیؑ سے منقول ایک حدیث کے مطابق امام رضا علیہ السلام کو "رضا" کا لقب خدا کی طرف سے عطا ہوا ہے۔ اسی طرح آپ عالم آل محمدؐ اور امام رئوف کے نام سے بھی مشہور ہیں۔
امام رضاؑ سنہ 183 ہجری میں منصب امامت پر فائز ہوئے اور 20 سال تک آپؑ کی امامت جاری رہی۔ آپ کی امامت تین عباسی خلفاء؛ ہارون الرشید (10 سال)، محمد امین (تقریبا 5 سال) اور مأمون عباسی (5 سال) کی حکومت پر محیط تھی۔
امام رضاؑ عباسی خلیفہ مامون کے حکم پر خراسان کا سفر کرنے سے پہلے مدینہ میں مقیم تھے۔ سنہ 200 ہجری یا سنہ 201 ہجری کو مامون کے حکم پر آپ کو مدینہ سے خراسان لایا گیا اور مامون کی ولایت عہدی قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔ امامؑ نے مدینہ سے خراسان جاتے ہوئے نیشاپور کے مقام پر ایک حدیث ارشاد فرمائی جو حدیث سلسلۃ الذہب کے نام سے مشہور اور توحید و اس کے شرائط جیسے مضامین پر مشتمل ہے۔ مامون نے اپنے خاص مقاصد کے تحت مختلف ادیان و مذاہب کے اکابرین کے ساتھ آپ کے مناظرے کروائے جس کے نتیجے میں یہ سارے اکابرین آپ کی فضیلت اور علمی بلندی کے معترف ہوئے۔ ان مناظروں میں سے بعض احمد بن علی طبرسی کی کتاب الاحتجاج میں نقل ہوئے ہیں۔
تاریخی لحاظ سے مشہور یہ ہے کہ امام رضاؑ سنہ 203 ہجری کے ماہ صفر کے آخری ایام میں 55 سال کی عمر میں مأمون عباسی کے ہاتھوں شہر طوس میں شہادت کے عظیم مقام پر فائز ہوئے اور آپ کو شہر طوس کے ایک گاؤں سناباد کے مقام پر بقعہ ہارونیہ میں دفن کیا گیا۔ اس وقت امام رضاؑ کا حرم ایران کے شہر مشہد میں لاکھوں مسلمانوں کی زیارت گاہ ہے۔

آپ علیہ السلام  کےصلوات خاصہ حضرت امام رضاؑ جو رواق دارالذکر اور دارالزہد کے درمیانی راستے کی چھت پر منقش ہے

سوانح عمری
نسب، کنیت اور لقب
امام رضاؑ کا نسب پانچ واسطوں کے بعد امام علیؑ سے جاملتا ہے؛ امام موسی کاظمؑ آپؑ کے والد گرامی ہیں۔ آپؑ کی کنیت ابو الحسن اور سب سے زیادہ مشہور لقب "رضا" ہے۔ امام محمد تقیؑ سے منقول ایک حدیث میں آیا ہے کہ آپ کا یہ لقب خداوند عالم کی طرف سے آپ کے والد ماجد حضرت امام کاظمؑ کو الہام ہوا تھا۔[1] لیکن بعض منابع کے مطابق آپؑ کو یہ لقب مأمون نے دیا تھا۔[2] صابر، رضی اور وفی آپؑ کے دیگر القاب میں سے ہیں۔[3] اسی طرح آپؑ عالم آل محمد کے نام سے بھی مشہور ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ امام کاظمؑ اپنے دوسرے بیٹوں سے کہا کرتے تھے: "تمہارا بھائی علی، عالم آل محمد ہیں"۔[4]امام محمد تقیؑ نے آپؑ کی زیارت میں آپؑ کو امام رئوف کے نام سے خطاب کیا ہے۔[5] اسی لیے امام رئوف کا لقب شیعوں کے درمیان زیادہ مشہور ہے۔[6]
انگشتری کا نقش
امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام کی انگشتری کے لئے ایک نقش منقول ہے: "ما شاءَ اللہُ لا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہِ  (ترجمہ: وہی ہوتا ہے جو خدا چاہے، نہیں کوئی قوت سوائے خدائے بلند و برتر کے۔)"[7]
ولادت اور شہادت
آپ کی تاریخ ولادت جمعرات یا جمعہ 11 ذی القعدہ، ذی‌ الحجہ یا ربیع الاول سنہ 148 ہجری یا سنہ 153 ہجری نقل ہوئی ہے۔[8] کلینی نے آپ کی تاریخ پیدائش سنہ 148ھ ذکر کی ہے[9] اور اکثر علماء و مورخین اس بات میں شیخ کلینی کے ہم عقیدہ ہیں۔[10]
آپ کی شہادت کے بارے میں بھی مورخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے اسی بنا پر روز جمعہ یا پیر، ماہ صفر کی آخری تاریخ، یا 17 صفر، 21 رمضان، 18 جمادی‌الاولی، 23 ذی القعدہ، یا ذی القعدہ کی آخری تاریخ سنہ 202ھ، 203ھ یا 206ھ نقل ہوئی ہیں۔[11] کلینی کے مطابق آپ صفر کے مہینے میں سنہ 203 ہجری میں 55 سال کی عمر میں شہادت کے مقام پر فائز ہوئے ہیں۔[12] اکثر علماء اور مورخین کے مطابق آپؑ کی شہادت سنہ 203 ہجری میں واقع ہوئی ہے۔[13] طبرسی نے آپؑ کی شہادت کو ماہ صفر کی آخری تاریخ قرار دیتے ہیں۔[14]
ولادت و شہادت کی تاریخ میں اختلاف کی وجہ سے آپ کی عمر مبارک کے بارے میں بھی علماء و مورخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے اسی بنا پر آپ کی عمر 47 سال سے 57 سال تک ذکر کیا گیا ہے۔[15] اکثر علماء اور مورخین کے مطابق شہادت کے وقت آپ کی عمر 55 سال تھی۔
امام رضا علیہ السلام کا سجرہ نسب:
پیامبر اکرمؐ
حضرت فاطمہ‌ؑ    
امام علیؑ        
امام حسینؑ    
امام سجادؑ    
امام محمد باقرؑ
امام جعفر صادقؑ    
امام موسی کاظمؑ    

امام رضاؑ    کی جناب سبیکہ سے اولاد:
امام محمد تقیؑ    
امام علی نقی
امام حسن عسکری
امام مہدی علیہم السلام
والدہ
تھمب نیل بنانے کے دوران میں نقص:
امام رضاؑ کی والدہ نجمہ خاتون سے منسوب مقبرہ (مدینہ منورہ، مشرب ام ابراہیم)
امام رضاؑ کی مادر گرامی خطہ "نوبہ" کی رہنے والی ایک کنیز تھیں۔[16] آپ کو تاریخی منابع میں مختلف ناموں سے یاد کیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب آپ امام کاظمؑ کی ملکیت میں آگئیں تو امام نے آپ کا نام تکتم رکھا[17] اور جب امام رضاؑ کی ولادت ہوئی تو امام کاظمؑ آپ کو طاہرہ کے نام سے یاد کرنے لگے۔[18] شیخ صدوق کہتے ہیں کہ بعض مورخین نے امام رضاؑ کی والدہ گرامی کو سَکَن نوبیہ کے نام سے یاد کیا ہے۔ اسی طرح آپ کو اروی، نجمہ اور سمانہ کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے آپ کی کنیت ام البنین تھی۔[19]

ایک روایت میں آیا ہے کہ امام رضاؑ کی مادر گرامی نجمہ، ایک پاک و پاکیزہ اور پرہیزگار کنیز تھیں جنہیں امام کاظمؑ کی والدہ حمیدہ نے خرید کر اپنے بیٹے کو بخش دیا تھا جس کے بعد جب امام رضاؑ کی ولادت ہوئی تو آپ کا نام طاہرہ رکھا گیا۔"[20]

زوجات
آپ کی ایک زوجہ کا نام سبیکہ تھا[21] جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ آپ پیغمبر کی زوجہ اور ام المؤمنین ماریہ قبطیہ کے خاندان سے تھیں۔[22]

بعض دیگر منابع میں سبیکہ کے علاوہ ایک اور زوجہ کا بھی ذکر ملتا ہے: مامون عباسی نے امام رضاؑ کو اپنی بیٹی ام حبیب سے شادی کی تجویز دی جسے امامؑ نے قبول کیا۔ طبری نے اس واقعے کو سنہ 202 ہجری کے واقعات کے ضمن میں بیان کیا ہے۔[23] اس کام کے ذریعے مامون زیادہ سے زیادہ امام رضاؑ کے نزدیک ہونا چاہتا تھا تاکہ آپ کے گھر میں رسوخ پیدا کر کے آپ کے خفیہ منصوبوں سے باخبر ہوتا رہے۔[24] جلال الدین سیوطی نے بھی امام رضاؑ کی مامون کی بیٹی کے ساتھ شادی کرنے کے معاملے کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن اس کا نام ذکر نہيں کیا ہے۔[25]

اولاد
امام رضاؑ کی اولاد کی تعداد اور ان کے اسامی کے بارے میں مورخین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض نے آپ کے پانچ بیٹے بتائے ہیں: "محمد قانع، حسن، جعفر، ابراہیم، حسین اور ایک بیٹی؛ عائشہ کا ذکر کیا ہے۔[26] سبط بن جوزی نے آپ کے چار بیٹے: "محمد تقی (ابو جعفر ثانی)، جعفر، ابو محمد حسن، ابراہیم، اور ایک بیٹی کا تذکرہ کیا ہے لیکن اس کا کا نام ذکر نہیں کیا ہے۔[27] کہا گیا ہے کہ امامؑ کے ایک بیٹے جو دو سال یا اس سے کم عمر میں وفات پا چکے تھے، "قزوین" میں مدفون ہیں جو اس وقت امام زادہ حسین کے نام سے مشہور ہیں۔ ایک روایت کے مطابق سنہ193ہجری میں امام رضاؑ نے قزوین کا سفر کیا۔[28] شیخ مفید، امام رضاؑ کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ امام رضاؑ کی ابو جعفر محمد بن علی التقی الجواد (نویں امام) کے سوا کوئی اولاد نہيں۔[29] ابن شہر آشوب اور امین الاسلام طبرسی، کی رائے بھی یہی ہے۔[30] بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ آپ کی ایک بیٹی بھی تھیں جن کا نام فاطمہ تھا۔[31]

امامت
امام رضاؑ اپنے والد ماجد امام موسی کاظم علیہ السلام کی شہادت کے بعد 20 سال (183-203 ھ) تک امامت کے عہدے پر فائز رہے۔ آپؑ کی امامت کے ابتدائی 10 میں ہارون رشید خلافت پر قابض تھا؛ بعد از آں اس کے بیٹے امین نے 5 سال حکومت کی جبکہ آپؑ کی امامت کے آخری 5 سال مامون عباسی کے دور خلافت میں گزرے۔[32]

دلائل امامت
متعدد راویوں جیسے: داود بن کثیر الرقي، محمد بن اسحاق بن عمار، علی بن یقطین، نعیم قابوسی، حسین بن مختار، زیاد بن مروان، أبولبید یا ابو ایوب مخزومي، داؤد بن سلیمان، نصر بن قابوس، داود بن زربی، یزید بن سلیط اور محمد بن سنان وغیرہ نے امام موسی کاظم علیہ السلام سے امام رضاؑ کی امامت کے بارے میں احادیث نقل کی ہیں۔[33]
اس سلسلے میں بطور مثال بعض احادیث کا تذکرہ کرتے ہیں: داؤد رقی کہتے ہیں: میں نے امام موسی کاظمؑ سے پوچھا: ... آپ کے بعد امام کون ہے؟ امام کاظمؑ نے اپنے فرزند علی بن موسیؑ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: میرے بعد یہ تمہارے امام ہیں۔[34]
 اس کے علاوہ رسول اللہ ؐ سے متعدد احادیث نقل ہوئی ہیں جن میں 12 ائمۂ معصومین کے اسمائے گرامی ذکر ہوئے ہیں اور یہ احادیث امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام سمیت تمام ائمہؑ کی امامت و خلافت و ولایت کی تائید کرتی ہیں۔[35]
جابر بن عبداللہ انصاری کہتے ہیں کہ سورہ نساء کی آیت 59 اطیعوا الله واطیعوا الرسول و اولی الامر منکم نازل ہوئی تو رسول اللہؐ نے 12 ائمہ کے نام تفصیل سے بتائے جو اس آیت کے مطابق واجب الاطاعت اور اولو الامر ہیں؛[36] امام علیؑ سے روایت ہے کہ ام سلمہ کے گھر میں سورہ احزاب کی آیت 33 انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیرا نازل ہوئی تو پیغمبر نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے کہ وہ اس آیت کے مصداق ہیں؛[37] ابن عباس سے مروی ہے کہ نعثل نامی یہودی نے رسول اللہ کے جانشینوں کے نام پوچھے تو آپ ؐ نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے۔[38]

متعدد احادیث اور نصوص کے علاوہ امام رضاؑ اپنے زمانے میں شیعوں کے درمیان بے حد مقبول تھے اور علم و اخلاق میں اپنے خاندان اور تمام امت کے افراد پر فوقیت اور برتری رکھتے تھے۔ یہ خصوصیات بھی آپ کی امامت پر بیّن دلیل بن سکتی ہیں۔ گوکہ امام موسی کاظم علیہ السلام کی حیات مبارکہ کے آخری ایام میں امامت کا مسئلہ کافی حد تک پیچیدہ ہوچکا تھا لیکن امام کاظم علیہ السلام کے اکثر اصحاب اور پیروکاروں نے امام رضا علیہ السلام کو امام کاظمؑ کا جانشین اور آپ کے بعد امام تسلیم کر لیا تھا۔[39]

امام رضا کے دور میں شیعوں کے اعتقادات
امام کاظمؑ کی شہادت کے بعد شیعوں کی اکثریت نے ساتویں امام کی وصیت اور دوسرے قرائن و شواہد کی بنا پر ان کے بیٹے علی بن موسی الرضاؑ کو آٹھویں امام کے طور پر قبول کر لیا تھا۔ آپؑ کی امامت کو قبول کرنے والے شیعہ جن میں امام کاظمؑ کے بزرگ اصحاب شامل تھے، قطعیہ کے نام سے مشہور تھے۔[40] لیکن امام کاظمؑ کے اصحاب میں سے ایک گروہ نے بعض دلایل کی بنیاد پر علی بن موسی الرضاؑ کی امامت کو قبول کرنے سے انکار کیا اور امام موسی کاظمؑ کی امامت پر توقف کیا۔ ان کا عقیدہ تھا کہ موسی بن جعفرؑ آخری امام ہیں جنہوں نے کسی کو امام متعین نہیں کیا ہے یا کم از کم ہمیں اس بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔ یہ گروہ واقفیہ (یا واقفہ) کے نام سے جاناجاتا تھا۔[41]ان کا عقیدہ یہ تھا کہ امام کاظمؑ مہدی موعود ہیں اور غیبت میں چلے گئے ہیں اور ایک دن ظہور کریں گے۔[42]

مدینہ میں آپؑ کا مقام و رتبہ
امام رضاؑ نے اپنی امامت کے تقریبا 17 سال (183-200 یا 201 ہجری) مدینے میں گزارے ہیں جہاں پر آپؑ لوگوں کے درمیان ایک ممتاز مقام رکھتے تھے۔ مأمون کے ساتھ ولایت عہدی کے بارے میں ہونے والی گفتگو میں امامؑ فرماتے ہیں: ۔۔۔میرے نزدیک اس ولایت عہدی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ جس وقت میں مدینے میں ہوتا تھا تو مشرق و مغرب میں میرا حکم چلتا تھا اور جب میں اپنی سواری پر مدینے کے گلی کوچوں سے گزرتا تو لوگوں کے یہاں مجھ سے زیاده محبوب شخصیت کوئی نہیں تھی۔[43]

مدینے میں آپؑ کی علمی مرجعیت کے بارے میں بھی خود امامؑ فرماتے ہیں: ۔۔۔میں مسجد نبوی میں بیٹھتا تھا اور مدینے میں موجود صاحبان علم جب بھی کسی علمی مشکل سے دوچار تھے تو وہ لوگ اپنے مسائل کو میری طرف ارجاع دیتے تھے اور میں ان کا جواب دیتا تھا۔[44]

خراسان کی جانب سفر
روایت ہے کہ امام رضاؑ کی مدینہ سے مرو کی طرف ہجرت سنہ 200 ہجری[45] یا سنہ201ہجری[46] میں انجام پائی۔ رسول جعفریان لکھتے ہیں: امام رضاؑ سنہ 201 کو مدینہ میں تھے اور اسی سال رمضان کے مہینے میں مرو پہنچ گئے۔[47]

یعقوبی کے مطابق مامون کے حکم سے امام رضاؑ کو مدینہ سے مرو بلایا گیا۔ امامؑ کو مدینہ سے خراسان لانے کے لئے جانے والا شخص مامون کے وزیر فضل بن سہل کا قریبی رشتہ دار، رجاء بن ضحاک تھا۔ آپ کو بصرے کے راستے مرو لایا گیا۔[48] امامؑ کی مرو منتقلی کے لئے مامون نے ایک خاص راستہ منتخب کیا تھا تاکہ آپ کو شیعہ اکثریتی علاقوں سے گزرنے نہ دیا جائے، کیونکہ وہ ان علاقوں میں لوگوں کی جانب سے امام رضاؑ کے استقبال کے لیے متوقع اجتماعات سے خوفزدہ تھا۔ لہذا اس نے حکم دیا کہ امامؑ کو کوفہ کے راستے سے نہیں بلکہ بصرہ، خوزستان اور فارس کے راستے سے نیشاپور لایا جائے۔[49] کتاب "اطلسِ شیعہ" کے مطابق امام رضاؑ کو مرو لانے کے لئے مقررہ راستہ کچھ یوں تھا: مدینہ، نقرہ، ہوسجہ، نباج، حفر ابو موسی، بصرہ، اہواز، بہبہان، اصطخر، ابرقوہ، دہ شیر (فراشاہ)، یزد، خرانق، رباط پشت بام، نیشاپور، قدمگاہ، دہ سرخ، طوس، سرخس اور مرو.[50]

شیخ مفید لکھتے ہیں: مامون نے خاندان ابو طالبؑ کے بعض افراد کو مدینہ سے بلوایا جن میں امام رضاؑ بھی شامل تھے۔ وہ یعقوبی کے برعکس، لکھتے ہیں کہ مامون نے امامؑ کی خراسان منتقلی کے لئے عیسی جلودی کو ایلچی کے طور پر مدینہ بھجوایا تھا اور کہتے ہیں کہ جلودی امامؑ کو بصرہ کے راستے مامون کے پاس لے آیا۔ مامون نے آل ابی طالب کو ایک گھر میں جبکہ امام رضاؑ کو کسی دوسرے مقام پر ٹھہرایا اور آپ کی تکریم و تعظیم کی۔[51]

حدیث سلسلۃ الذہب
اللَّه جَلَّ جَلَالُهُ یقُولُ لَا إِلَهَ‏ إِلَّا اللَّهُ‏ حِصْنِی‏ فَمَنْ دَخَلَ حِصْنِی أَمِنَ مِنْ عَذَابِی قَالَ فَلَمَّا مَرَّتِ الرَّاحِلَةُ نَادَانَا بِشُرُوطِهَا وَ أَنَا مِنْ شُرُوطِهَا. (ترجمہ: خداوند جَلَّ جَلَالُهُ نے فرمایا: کلمہ "لَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ" میرا مضبوط قلعہ ہے، پس جو بھی میرے اس قلعہ میں داخل ہوگا وہ میرے عذاب سے محفوظ رہے گا، جب سواری چلنے لگی تو [امام رضا]ؑ نے ہمیں پکار کر فرمایا: [البتہ] اس کے کچھ شرائط ہیں اور میں ان شرائط میں سے ایک ہوں۔)امام رضا علیہ السلام، ابن بابویہ، کتاب التوحید، ص49.
نیشاپور میں امامؑ کا محدثین کی محفل میں اس حدیث کا بیان مدینے سے خراسان تک کے سفر کا اہم ترین اور مستند ترین واقعہ شمار کیا جاتا ہے۔[52]

مامون کی ولی عہدی

امام رضا کی ولایت عہدی کا سکہ

امام رضاؑ کا مرو میں قیام پذیر ہونے کے بعد مأمون نے امام رضاؑ کے پاس اپنا قاصد بھیجا اور یہ پیغام دیا کہ میں خلافت سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہوں اور اسے آپ کے حوالے کرتا ہوں، لیکن امامؑ نے اس کی شدید مخالفت کی۔ امام رضاؑ نے فرمایا: «اگر حکومت تیرا حق ہے تو تم کیوں کسی دوسرے کو دوگے اور اگر تمہارا حق نہیں ہے تو تم اس بات کے لائق ہی نہیں ہو کہ کسی دوسرے کو بخش دے۔؟.» [53]
اس کے بعد مأمون نے آپؑ کو اپنی ولیعہدی کی تجویز دی تو امام نے اسے بھی ٹھکرایا۔ اس موقع پر مأمون نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا: عمر بن خطاب نے چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی جس میں سے ایک آپ کے دادا علی بن ابی طالب تھے۔ عمر نے یہ شرط رکھی تھی کہ ان چھ افراد میں سے جس نے بھی مخالفت کی اس کی گردن اڑا دی جائے۔ آپ کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ جو کچھ میں آپ سے طلب کر رہا ہوں اسے قبول کریں۔ اس وقت امامؑ نے فرمایا: پس اگر ایسا ہے تو میں قبول کرتا ہوں لیکن اس شرط پر کہ میں حکومتی معاملات کے سلسلے میں نہ کوئی حکم جاری کروں گا اور نہ کسی کو کسی چیز سے منع کروں گا، نہ کسی چیز کے بارے میں کوئی فتوی دوں گا اور نہ کسی مقدمے کا فیصلہ سناوں گا، نہ کسی کو کسی عہدے پر نصب کروں گا اور نہ کسی کو اس کے عہدے سے عزل کروں گا اور نہ کسی چیز کو اس کی جگہ سے ہٹا دوں گا۔ مأمون نے ان شرائط کو قبول کیا۔[54]
 اس طرح مومون نے سنہ201ھ، 7 رمضان بروز پیر امام رضاؑ کے دست مبارک پر بعنوان ولی عہد بیعت کی اور لوگوں کو سیاہ کپڑوں میں ملبوس ہونے کے بجائے سبز کپڑے پہننے کا حکم جاری کیا۔ سوائے اسماعیل بن جعفر ہاشمی کے سب نے سبز لباس زیب تن کیا۔بعد از آں لوگوں سے امام کی بیعت لی گئی، امام کے نام پر لوگوں کے مابین خطبے پڑھے جانے لگے اور امام کے نام پر سرکاری سکے جاری کیے۔ [55]

مناظرے
امام رضاؑ کو مرو منتقل کرنے کے بعد مامون نے مختلف مکاتب فکر اور ادیان و مذاہب کے دانشوروں اور امامؑ کے درمیان مختلف مناظرات ترتیب دئے جن میں زیادہ تر اعتقادی اور فقہی مسائل پر بحث و گفتگو ہوتی تھی۔ ان ہی میں سے بعض مناظرات کو ابو على، فضل بن حسن بن فضل طبرسى نے کتاب الاحتجاج میں نقل کیا ہے،[56] بعض احتجاجات اور مناظرات کی فہرست کچھ یوں ہے:[57]

توحید و عدل کے موضوع پر امام رضاؑ کا مناظرہ
امامت کے موضوع پر امام رضاؑ کا مناظرہ
سلیمان مروزی کے ساتھ امام رضاؑ کا مناظرہ
ابی قرہ کے ساتھ امام رضاؑ کا مناظرہ
جاثلیق کے ساتھ امام رضاؑ کا مناظرہ
رأس الجالوت کا امام رضاؑ سے مناظرہ
زرتشتیوں کے ساتھ امام رضاؑ کا مناظرہ
صابئین کے ساتھ امام رضا کا مناظرہ
مناظرات کا تجزیہ
مامون امام رضاؑ کو مختلف مکاتب فکر کے دانشوروں کے ساتھ بحث اور مناظرات میں الجھا کر لوگوں کے درمیان آئمۂ اہل بیت کے بارے میں قائم عمومی سوچ جو انہيں علم لدنی کے مالک سمجھتے تھے، کو ختم کرنا چاہتا تھا۔ شیخ صدوق لکھتے ہیں: مامون مختلف مکاتب فکر اور ادیان و مذاہب کے بلند پایہ دانشوروں کو امامؑ کے سامنے لایا کرتا تھا تاکہ ان کے ذریعے امامؑ کے دلائل کو ناکارہ بنا دے۔ یہ سارے کام وہ امامؑ کی علمی اور اجتماعی مقام و منزلت سے حسد کی وجہ سے انجام دیتا تھا۔ لیکن نتیجہ اس کے برخلاف نکلا اور جو بھی امام کے سامنے آتا وہ آپ کے علم و فضل کا اقرار کرتا اور آپ کی طرف سے پیش کردہ دلائل کے سامنے لاجواب اور بے بس ہوکر انہیں تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتے۔[58]

جب مامون کو اس بات کا علم ہوا کہ ان محفلوں اور مناظروں کا جاری رکھنا اس کے لئے خطرناک ہو سکتا ہے، تو اس نے امامؑ کو محدود کرنا شروع کیا۔ ابا صلت سے روایت ہے کہ جب مامون کو اطلاع دی گئی کہ امام رضاؑ نے کلامی اور اعتقادی مجالس تشکیل دینا شروع کی ہیں جس کی وجہ سے لوگ آپ کے شیدائی بن رہے ہیں تو اس نے محمد بن عمرو طوسی کی ذمہ داری لگائی کہ وہ لوگوں کو امامؑ کے مجالس سے دور رکھیں۔ اس کے بعد امامؑ نے مامون کو بد دعا دی۔[59]

نماز عید
امام رضاؑ کو اپنا ولی عہد بنانے کے بعد (7 رمضان سنہ 201 ہجری) عید کے موقع پر (بظاہر اسی رمضان کی عید فطر) مأمون نے امام رضاؑ سے کہا کہ نماز عید پڑھائیں۔ لیکن امامؑ نے ولیعہدی کے لئے مقرر کردہ شرائط کا حوالہ دے کر مأمون سے کہا کہ "مجھےاس کام سے معاف رکھو"۔ مامون نے اصرار کیا چنانچہ امامؑ کو قبول کرنا پڑا اور فرمایا: تو میں پھر رسول اللہ کی طرح نماز عید قائم کروں گا۔ مامون نے بھی امام کی شرط مان لی۔
لوگوں کو توقع تھی کہ امام رضاؑ بھی دوسرے خلفاء کی طرح خاص قسم کے آداب و رسوم کے ساتھ نماز کے لئے نکلیں گے لیکن سب نے حیرت کے ساتھ دیکھا کہ امامؑ ننگے پاؤں تکبیر کہتے ہوئے گھر سے باہر آئے؛ سرکاری اہلکار جو اس طرح کے مراسمات کے لئے رائج لباس پہن کر آئے تھے، یہ حالت دیکھ کر اپنی سواریوں سے نیچے آئے اور سب نے اپنے جوتے اتار لئے اور روتے ہوئے اور اللہ اکبر کہتے ہوئے امامؑ کے پیچھے پيچھے عیدگاہ کی طرف روانہ ہوئے۔ امامؑ ہر قدم پر تین مرتبہ اللہ اکبر کہتے تھے۔

کہا جاتا ہے کہ فضل بن سہل نے مامون سے کہا: اگر امام رضاؑ اسی حالت میں عید گاہ پہنچ جائیں تو لوگ انکے شیدائی بن جائیں گے۔ پس بہتر ہے کہ امام سے کہیں کہ وہ واپس آجائیں۔ چنانچہ مامون نے اپنا ایک ایلچی روانہ کر کے امامؑ سے واپس آنے کی خواہش کی۔ چنانچہ امامؑ نے اپنے جوتے منگوائے اور اپنی سواری پر بیٹھ کر واپس چلے آئے۔[60]

شہادت
تاریخی منابع میں امام رضاؑ کی شہادت کے سلسلے میں چند مختلف اقوال پائے جاتے ہیں؛ تاریخ شہادت کے سلسلے میں یہ چند اقوال ہیں: روز جمعہ یا سوموار ماہ صفر کے آخری دن، 17 صفر، 21 رمضان، 18 جمادی الاولی، 23 ذی القعدہ، ماہ ذی القعدہ کی آخری تاریخ؛ جبکہ سال کے اعتبار سے سنہ202ھ، 203ھ اور سنہ206ھ کا ذکر تاریخ میں ملتا ہے۔[61] کلینی کے مطابق امام رضاؑ نے 55 سال میں ماہ صفر کی آخری تاریخ سنہ 203ھ کو وفات پائی ہے۔[62] علما اور مورخین کی اکثریت نے بھی امامؑ کی شہادت کا سال 203ھ بتایا ہے۔[63] طبرسی نے ماہ صفر کی آخری تاریخ کو آپؑ کی شہادت کا دن قرار دیا ہے۔[64] امام رضاؑ کی ولادت اور شہادت کی تاریخوں میں اختلاف کے باعث آپؑ کی حیات کے کل دورانیے کے سلسلے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ شہادت کے وقت آپؑ کی عمر 47 اور 57 سال کا ذکر ملتا ہے؛[65] البتہ مشہور قول کے مطابق آپؑ نے 55 سال کی عمر میں شہادت پائی۔ تاریخی منابع میں امام رضاؑ کی کیفیت شہادت سے متعلق بھی چند مختلف اقوال ذکر ہوئے ہیں:

تاریخ یعقوبی میں آیا ہے کہ مامون سنہ 202ھ میں عراق روانہ ہوا؛ اس سفر میں علی بن موسی الرضا اور فضل بن سہل بھی ان کے ساتھ تھے؛ [66] جب طوس پہنچے تو سنہ 203 ہجری کے اوائل میں امام رضاؑ بیمار ہوئے اور صرف تین دن بعد "نوقان" نامی محلے میں وفات پائی۔
ایک قول یہ بھی ہے کہ علی بن ہشام نے آپ کو زہریلا انار کھلا کر مسموم کیا اور مامون نے اس واقعے پر سخت بےچینی کا اظہار کیا۔ یعقوبی مزید لکھتے ہیں: "مجھ سے ابو الحسن بن ابی عباد نے کہا: میں نے دیکھا مامون سفید قبا پہنے، سر برہنہ، تابوت کے دستوں کے بیچ جا رہا تھا اور کہہ رہا تھا: آپ کے بعد میں کس سے سکون پاؤں گا۔ مامون نے تین دن تک قبر کے پاس قیام کیا اور ہر روز ایک روٹی اور تھوڑا سا نمک اس کے پاس لایا جاتا تھا اور یہی اس کا کھانا تھا اور چوتھے روز وہاں سے واپس آیا۔[67]
شیخ مفید روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن بشیر نے کہا: مجھے مامون نے حکم دیا کہ میں اپنے ناخن نہ تراشوں تاکہ یہ معمول سے زیادہ بڑھ جائیں اور اس کے بعد اس نے مجھے تمر ہندی (املی) جیسی ایک چیز دے دی اور کہا کہ اسے اپنے ہاتھوں سے گوند لوں۔ اس کے بعد مامون امام رضاؑ کے پاس گیا اور مجھے آواز دے کر بلوایا اور کہا کہ انار کا شربت نکالو۔ میں نے انار کا شربت تیار کیا اور مامون نے وہی شربت امامؑ کو پلایا اس کے دو روز بعد امامؑ رحلت کرگئے۔[68]
شیخ صدوق نے اس سلسلے میں بعض روایتیں نقل کی ہیں جن میں سے بعض میں ہے کہ زہریلے انگور جبکہ بعض میں زہریلے انار اور انگور دونوں کا ذکر ہے۔[69] جعفر مرتضی حسینی نے امام رضاؑ کی وفات سے متعلق 6 رائے بیان کی ہیں۔[70]
چوتھی صدی ہجری کے محدث اور عالم علم رجال ابن حبّان نے "علی بن موسی الرضا" کے نام کے ذیل میں لکھا ہے: علی بن موسی الرضا اس زہر کے نتیجے میں وفات پاگئے جو مامون نے انہیں کھلایا تھا۔ یہ واقعہ روز شنبہ آخرِ صفر المظفر سنہ 203ہجری کو پیش آیا۔[71]
شہادت کے علل و اسباب
مأمون نے امام کو کیوں قتل کروایا؟ اس حوالے سے مختلف علل و اسباب ذکر کئے گئے ہیں:

مختلف ادیان و مذاہب کے دانشوروں کے ساتھ ہونے والے مناظروں میں امامؑ کی برتری اور فوقیت؛[72]
امام رضاؑ کی اقتداء میں نماز عید ادا کرنے کیلئے لوگوں کی جوق در جوق شرکت؛ اس واقعے سے مامون بہت خائف ہوا اور سجھ گیا تھا کہ امام رضاؑ کو ولیعہد بنانا اس کی حکومت کیلئے کس قدر خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ اسی وجہ سے اس نے امامؑ پر کڑی نظر رکھنا شروع کیا کہ کہیں امام رضاؑ اس کے خلاف کوئی اقدام نہ کرے۔[73]
دوسری طرف سے امامؑ، مامون سے کسی خوف و خطر کا احساس نہیں فرماتے تھے اسی وجہ سے اکثر اوقات ایسے جوابات دے دیتے تھے جو مامون پر سخت ناگوار گزرتے تھے۔ یہ چیز مامون کو امام کے خلاف مزید بھڑکانے اور امام کے ساتھ مامون کی دشمنی کا باعث بنتی تھی اگرچہ مامون اس کا برملا اظہار نہیں کرتا تھا۔[74] چنانچہ منقول ہے کہ مأمون ایک عسکری فتح کے بعد خوشی کا اظہار کر رہا تھا کہ امامؑ نے فرمایا: اے امیر الممؤمنین! امت محمد اور اس چیز سے متعلق خدا سے ڈرو جسے خدا نے تیرے ذمے لگائی ہے، تم نے مسلمانوں کے امور کو ضائع کر دیا ہے۔.. [75]
شہادت کی پیشین گوئیاں اور زیارت کا ثواب
رسول اللہؐ نے فرمایا: بہت جلد میرے وجود کا ایک ٹکڑا خراسان میں دفن ہوگا، جس نے اس کی زیارت کی خداوند متعال جنت کو اس پر واجب اور جہنم کی آگ اس کے جسم پر حرام کرے گا۔[76]

امام علی علیہ السلام نے فرمایا: بہت جلد میرا ایک فرزند خراسان میں مسموم کیا جائے گا جس کا نام میرا نام ہے اور اس کے باپ کا نام موسی بن عمرانؑ کا نام ہے۔ جس نے غریب الوطنی میں اس کی زیارت کی خداوند اس کے اگلے پچھلے گناہ بخش دے گا خواہ وہ ستاروں اور بارش کے قطروں اور درختوں کے پتوں جتنے ہی کیوں نہ ہوں۔ [77]

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: خداوند میرے بیٹے موسی کو ایک فرزند عطا کرے گا جو طوس میں مسموم کر کے شہید کیا جائے گا اور غریب الوطنی میں دفن کیا جائے گا۔ جو اس کے حق کو پہچانے اور اس کی زیارت کرے خداوند متعال اس کو ان لوگوں کا ثواب عطا کرے گا جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے انفاق کیا ہے اور خیرات دی ہے اور جہاد کیا ہے۔[78]

حرم امام رضاؑ"مشہد الرضا"
امام رضاؑ کی شہادت کے بعد مامون نے آپ کو "سناباد" نامی محلے میں واقع حمید بن قحطبۂ طائی کے گھر (بقعۂ ہارونیہ) میں سپرد خاک کیا۔[79] اس وقت حرم رضوی ایران کے شہر مشہد میں واقع ہے جہاں ایران اور دوسرے مسلمان ممالک سے سالانہ لاکھوں مسلمان آپؑ کی زیارت کیلئے آتے ہیں۔[80]

امام رضا کی سیرت
عبادی پہلو میں آپ کی سیرت:
امام رضاؑ کی عملی سیرت میں آیا ہے کہ آپؑ مختلف مکاتب فکر اور ادیان و مذاہب کے دانشوروں کے ساتھ ہونے والے گرما گرم مناظرات کے دوران بھی جیسے ہی اذان سنائی دیتی مناظرے کو روک دیتے تھے اور جب مناظرے کو جاری رکھنے سے متعلق لوگ اصرار کرتے تو فرماتے: نماز پڑھ کر دوبارہ واپس آتا ہوں۔[81] رات کی تاریکی میں عبادات کی انجام دہی اور آپؑ کی شب بیداری سے متعلق متعدد روایات نقل ہوئی ہیں۔[82] دعبل خزاعی کو اپنا کرتہ ہدیہ کے طور پر دیتے وقت اس سے مخاطب ہو کر فرمایا: اس کرتے کی حفاظت کرو! میں نے اس کرتے میں ہزار راتوں میں ہزار رکعت نماز اور ہزار ختم قرآن انجام دیے ہیں۔[83] آپ کے طولانی سجدوں کے بارے میں بھی روایات نقل ہوئی ہیں۔[84]

اخلاقی پہلو میں آپ کی سیرت:
 لوگوں کے ساتھ آپؑ کی حسن معاشرت کے متعدد نمونے تاریخ میں نقل ہوئے ہیں۔ حتی مامون کی ولیعہدی قبول کرنے کے بعد بھی غلاموں اور ماتحت افراد کے ساتھ محبت آمیز رویہ اختیار کرتے تھے اور ان کو اپنے دسترخوان پر ساتھ بٹھاتے تھے؛[85] اس سلسلے میں چند ایک مثالیں ہیں۔ ابن شہرآشوب نقل کرتے ہیں کہ ایک دن امامؑ حمام تشریف لے گئے اور وہاں پر موجود افراد میں سے ایک جو امام کو نہیں پہچانتا تھا، امام سے مالش کرنے کی درخواست کی جسے آپ نے قبول فرمایا اور مالش کرنا شروع کیا جب لوگوں نے یہ دیکھا تو اس شخص کیلئے آپؑ کا تعارف کرایا گیا، جب وہ شخص اپنے کیے پر شرمندہ ہوا اور معذرت خواہی کی تو امام نے اسے خاموش کرایا اور مالش جاری رکھی۔[86]

تربیتی پہلو میں آپ کی سیرت: آپؑ کی سیرت میں بچوں کی تربیت کے حوالے سے خاندان کے کلیدی کردار پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ اسی تناظر میں صالح اور نیک بیوی سے شادی کی ضرورت،[87] حمل کے ایام میں خصوصی توجہ،[88] اچھے ناموں کا انتخاب،[89] اور بچوں کا احترام کرنے کے سلسلے میں[90] وغیرہ پر تاکید ہوئی ہے۔

اسی طرح رشتہ داروں کے ساتھ رفت و آمد اور ان کے ساتھ انس و محبت کے ساتھ رہنا بھی آپ کی سیرت میں نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے منقول ہے کہ جب بھی امام کو فراغت حاصل ہوتی تو آپ اپنے رشتہ داروں؛ چھوٹے بڑے سب کو جمع کرتے اور ان کے ساتھ گفتگو میں مشغول ہوتے تھے۔[91]

قال الرضاؑ: لَا تَدَعُوا الْعَمَلَ الصَّالِحَ وَ الِاجْتِہادَ فِي الْعِبَادَۃ اتِّكَالًا عَلَى حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ (ع‏)؛ لَا تَدَعُوا حُبَّ آلِ مُحَمَّدٍؑ وَ التَّسْلِيمَ لِأَمْرِہمْ اتِّكَالًا عَلَى الْعِبَادَۃ فَإِنَّہ لَا يُقْبَلُ أَحَدُہمَا دُونَ الْآخَر
(ترجمہ: آل‌محمدؐ کی دوستی کے بہانے نیک کاموں کی انجام دہی اور خدا کی عبادت میں سعی و تلاش سے دریغ مت کرو؛ اسی طرح اپنی عبادت پر مغرور ہو کر آل‌محمد ؐ کی دوستی اور ان کے اوامر کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے پرہیز مت کرو، کیونکہ ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی دوسرے کے بغیر قابل قبول نہیں ہے۔)مآخذ:، بحار الأنوار، ج75، ص348

تعلیم و تعلم میں آپ کی سیرت:
 مدینے میں قیام کے دوران امام رضاؑ مسجد نبوی میں تشریف فرما ہوتے اور مختلف سوالات اور مسائل کے جواب دینے سے عاجز آنے والے حضرات آپ سے رجوع کرتے تھے۔[92] "مرو" پہنچنے کی بعد بھی مناظرات کی شکل میں بہت سارے شبہات اور سوالوں کے جواب مرحمت فرماتے تھے۔ اس کے علاوہ امامؑ نے اپنی اقامت گاہ اور مرو کی مسجد میں ایک حوزہ علمیہ بھی قائم کیا ہوا تھا لیکن جب آپ کی علمی محفل میں رونق آنے لگی تو مامون نے انقلاب کے خوف سے ان محفلوں پر پابندی لگا دی جس پر آپ نے مامون کو بد دعا دی۔[93]

طب اسلامی اور حفظان صحت کے اصولوں پر خصوصی توجہ دینا امام رضاؑ کی احادیث میں نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ ان احادیث میں اسی موضوع سے مربوط مفاہیم کی تبیین کے ساتھ ساتھ پرہیز، مناسب خوراک، حفظان صحت کی رعایت اور مختلف بیماریوں کے علاج کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے۔ رسالہ ذہبیہ نامی کتاب طب الرضا کے نام سے آپ سے منسوب ہے جس میں حفظان صحت سے متعلق مختلف تجاویز دی گئی ہیں۔

امامت کی بحث میں تقیہ نہ کرنا: امام رضاؑ کے دور امامت میں کسی حد تقیہ کی خاص ضرورت محسوس نہیں کی جاتی تھی؛ کیونکہ واقفیہ کی پیدائش جیسے واقعے نے شیعوں کو ایک سنگین خطرے سے دچار کیا تھا۔ اس کے علاوہ فطحیہ فرقے کے بچے کھچے افراد بھی امام رضاؑ کے دور امامت میں فعال تھے۔

ان شرایط کو مد نظر رکھتے ہوئے امامؑ نے کسی حد تک تقیہ کی حکمت عملی اپنانے سے پرہیز کرتے ہوئے امامت کے مختلف پہلوؤں کو صراحت کے ساتھ بیان کیا۔ مثلا امام کی اطاعت کے واجب ہونے کے بارے میں اگرچہ امام صادقؑ کے دور سے دینی اور کلامی محافل میں بحث و گفتگو ہوتی تھی اور اس مسئلے میں باقی ائمہ معصومینؑ تقیہ کرتے تھے لیکن امام رضاؑ جیسا کہ احادیث میں آیا ہے "ظالم و جابر حکمرانوں سے کسی خوف کا احساس کئے بغیر" اپنے آپ کو واجب الطاعۃ امام کے عنوان سے تعارف کرتے تھے۔[94] جیسا کہ "علی بن ابی حمزہ بطائنی" (جو کہ واقفیہ کے بانیوں میں سے تھا)‌ نے جب امام سے سوال کیا: کیا آپ واجب الاطاعت امام ہیں؟ تو امام نے فرمایا: ہاں (کشی، 1348ھ، ص463) اسی طرح ایک اور شخص نے یہی سوال دہراتے ہوئے کہا: کیا آپ علی بن ابی طالب (ع) کی طرح واجب الاطاعت ہیں؟ نیز آپ نے یہی جواب دیا ہاں میں اسی طرح واجب الاطاعت ہوں(کلینی، (1363ہجری شمسی)، ج1، ص187) لیکن ساتھ ساتھ امامؑ اپنے چاہنے والوں سے فرماتے تھے کہ تقوا اختیار کرو اور ہماری احادیث کو ہر کس و ناکس کے سامنے بیان کرنے سے پرہیز کرو۔[95]

اسی طرح جب مأمون نے امامؑ سے اسلام ناب محمدی کے بارے میں بتانے کا مطالبہ کیا تو آپ نے توحید اور پیغمبر اسلام کی نبوت کے بعد امام علیؑ کی جانشینی پھر آپ کے بعد آپ کی نسل سے گیارہ اماموں کی امامت پر تصریح فرماتے ہوئے فرمایا کہ امام القائم بامر المسلمین یعنی امام مسلمانوں کے امور کا اہتمام کرنے والا ہے۔[96]

امام رضاؑ سے منسوب کتابیں
امام رضاؑ سے متعدد حدیثیں نقل ہوئی ہیں اور جن لوگوں نے علوم و معارف کے مسائل سمجھنے کے لئے جو سوالات آپ سے پوچھے تھے ان کے جوابات کتب حدیث میں نقل ہوئے ہیں؛ مثال کے طور پر شیخ صدوق نے ان حدیثوں اور جوابات کو اپنی کتاب عیون اخبار الرضا میں جمع کیا ہے۔ علاوہ ازیں بعض تالیفات اور کتب بھی آپ سے منسوب کی گئی ہیں گوکہ اس انتساب کے اثبات کے لئے کافی و شافی دلیلوں کی ضرورت ہے چنانچہ ان میں سے بعض تالیفات کا انتساب ثابت کرنا ممکن نہیں ہے جیسے:

فقہ الرضا: علماء و محققین نے امام رضاؑ سے اس کتاب کے انتساب کی صحت تسلیم نہیں کی ہے۔[97]
رسالہ الذہبیہ: امام رضاؑ سے منسوب ہے جس کا موضوع طبابت ہے۔ مروی ہے کہ امامؑ نے یہ رسالہ سنہ201 ہجری میں لکھ کر مأمون کے لئے بھجوایا اور مأمون نے رسالے کی اہمیت ظاہر کرنے کی غرض سے ہدایت کی کہ اسے سونے کے پانی سے تحریر کیا جائے اور اسے دارالحکمہ کے خزانے میں رکھا جائے اور اسی بنا پر اسے رسالہ ذہبیہ کہا جاتا ہے۔ بہت سے علماء نے اس رسالے پر شرحیں لکھی ہیں۔[98]
صحیفہ الرضا: امام رضاؑ سے منسوب دیگر تالیفات میں سے ہے جو فقہ کے موضوع پر لکھی گئی ہے گوکہ علماء کے نزدیک یہ انتساب ثابت نہيں ہو سکا ہے۔[99]
محض الاسلام و شرائع الدین: جسے امام رضاؑ سے منسوب کیا گیا ہے لیکن بظاہر امامؑ سے اس کا انتساب قابل اعتماد نہیں ہے۔[100]
اصحاب
بعض اہل قلم نے367 افراد کو آپ کے اصحاب اور راویان حدیث میں شمار کیا ہے۔[101] ان میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں:

یونس بن عبدالرحمن
موفق (خادم امام رضا)
علی بن مہزیار
صفوان بن یحیی
محمد بن سنان
زکریا بن آدم
ریان بن صلت
دعبل بن علی
اہل سنت کے یہاں امام کا مقام
اہل‌ سنت کے بعض بزرگوں نے امام رضاؑ کے حسب و نسب اور علم و فضل کی تعریف کی ہے اور وہ لوگ زیارت کیلئے حرم امام رضاؑ جایا کرتے تھے۔[102] ابن حِبّان کہتے تھے کہ وہ کئی دفعہ مشہد میں علی بن موسی کی زیارت کیلئے گئے اور آپ سے توسل کے نتیجے میں ان کی مشکلات برطرف ہوئی ہیں۔[103] اسی طرح ابن حجر عسقلانی نقل کرتے ہیں کہ ابوبکر بن خزیمہ (جو اہل حدیث کا امام ہے) اور ابو علی ثقفی اہل سنت کے دیگر بزرگان کے ساتھ امام رضاؑ کی زیارت کو گئے ہیں۔ راوی (جس نے خود اس حکایت کو ابن حجر کیلئے بیان کیا) کہتے ہیں: ابوبکر بن خزیمہ نے اس قدر اس روضے کی تعظیم کی اور وہاں پر راز و نیاز اور فروتنی کا اظہار کیا کہ ہم سب حیران ہو گئے۔[104] ابن نجار امام رضاؑ کے علمی کمالات اور دینی بصیرت کے حوالے سے کہتے ہیں: آپؑ علم اور فہم دین میں ایک ایسے مقام پر فائز تھے کہ 20 سال کی عمر میں مسجد نبوی میں بیٹھ کر فتوا دیا کرتے تھے۔[105]

حوالہ جات
1.    ↑ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1387ھ، ج1، ص13
2.    ↑ مفید، الارشاد، 1372ہجری شمسی، ج2، ص261؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، نشر علامہ، ج4، ص363.
3.    ↑ امین، سید محسن، اعیان الشیعہ، 1418ھ، ج2، ص545.
4.    ↑ طبرسی، اعلام الوری باعلام الہدی، 1417ھ، ج2، ص64
5.    ↑ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج99، ص55
6.    ↑ «چرا علی بن موسی الرضا را امام رئوف می‌نامند.»؛ «چرا امام رضا را رئوف می‌نامند؟، خبرگزاری مهر.
7.    ↑ کلینی، الکافی، ج 6، ص 474۔
8.    ↑ فضل اللہ، تحلیلی از زندگانی امام رضاؑ، 1377ہجری شمسی، ص43.
9.    ↑ کلینی، الکافی، 1363ہجری شمسی، ج1، ص486.
10.    ↑ عاملی، الحیاۃ السیاسیۃ للامام الرضا، 1430ھ، ص168.
11.    ↑ فضل اللہ، تحلیلی از زندگانی امام رضاؑ، 1377ہجری شمسی، ص43.
12.    ↑ کلینی، الکافی، 1363ہجری شمسی، ج1، ص486.
13.    ↑ عاملی، الحیاۃ السیاسیۃ للامام الرضا، 1430ھ، ص169.
14.    ↑ طبرسی، اعلام الوری باعلام الہدی، 1417ھ، ج2، ص41.
15.    ↑ ملاحظہ کریں: القرشی، حیاة الامام علی بن موسی الرضا، 1429ھ، ج2، ص503-504.
16.    ↑ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1381ہجری شمسی، ص425
17.    ↑ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ، ج1، ص14
18.    ↑ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ، ج1، ص15
19.    ↑ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ، ج1، ص16
20.    ↑ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ، ج1، ص41.
21.    ↑ طبرسی، اعلام الوریٰ 1417ھ، ج2، ص91.
22.    ↑ کلینی، الکافی، دارالکتب الاسلامیه، ج1، ص492۔
23.    ↑ طبری، محمد بن جریر، التاریخ، ج 7، ط بیروت: مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، بی تا، ص 149 (مکتبۃ اہل البیت ای۔ لائبریری۔ نسخہ نمبر2)
24.    ↑ قرشی، ج 2، 1429ھ، ص408.
25.    ↑ تاريخ الخلفاء سیوطی، ص307۔
26.    ↑ فضل‌الله، تحلیلی از زندگانی امام رضا(ع)، 1377ہجری شمسی، ص44.
27.    ↑ سبط بن الجوزی، تذکرۃ الخواص، ص123
28.    ↑ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ (علیہم السلام)،1381ہجری شمسی، ص426.
29.    ↑ مفید، الارشاد، مؤسسہ آل البيتؑ لتحقيق التراث، دار المفيد، 1372ہجری شمسی، ج2، ص271.
30.    ↑ ملاحظہ کریں: فضل‌الله، تحلیلی از زندگانی امام رضا(ع)، 1377ہجری شمسی، ص44.
31.    ↑ ملاحظہ کریں: قمی، منتہی الآمال، 1379ہجری شمسی، ص1725-1726.
32.    ↑ طبرسی، اعلام الوری، ج2، 1417ھ، ص41-42.
33.    ↑ مفید، الارشاد، ج2، ص248.
34.    ↑ مفید، الارشاد، ج2، ص248.
35.    ↑ مفید، الاختصاص، ص211؛ صافی، شیخ لطف اللہ، منتخب الاثر، باب ہشتم، ص97؛ طبرسی، اعلام الوری باعلام الہدی، ج2، ص182-181؛ عاملی، اثبات الہداة بالنصوص و المعجزات، ج2، ص285۔
36.    ↑ بحار الأنوار ج23، ص290؛ اثبات الہداة ج3،‌ ص123؛ مناقب ابن شہر آشوب، ج1، ص283۔
37.    ↑ مجلسی، بحار الأنوار، ج36 ص337؛ علی بن محمد خزاز قمى، كفاية الأثر في النص على الأئمة الإثنی عشر، ص157
38.    ↑ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة، ج2، ص387 – 392، باب 76۔
39.    ↑ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1381ہجری شمسی، ص427.
40.    ↑ نوبختی، فرق الشیعہ، 1355ھ، ص79.
41.    ↑ نوبختی، فرق الشیعہ، 1355ھ، ص79.
42.    ↑ نوبختی، فرق الشیعہ، 1355ھ، ص81-82.
43.    ↑ كلينی، الكافى، 1363ہجری شمسی، ج8، ص151
44.    ↑ طبرسی، اعلام الوری باعلام الہدی، 1417ھ، ج2، ص64.
45.    ↑ عرفان‌منش، جغرافیای تاریخی ہجرت امام رضا علیه‌السلام از مدینه تا مرو، ص18
46.    ↑ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه،1381ہجری شمسی، ص426
47.    ↑ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1381ہجری شمسی، ص426.
48.    ↑ یعقوبی، التاریخ، ج 2، 1378ھ، ص 465.
49.    ↑ مطہری، مجموعہ آثار، ج 18، 1381ہجری شمسی، ص 124.
50.    ↑ جعفریان، 1387ہجری شمسی، ص 95.
51.    ↑ مفید، الارشاد، 1372ہجری شمسی، ج2، ص259۔
52.    ↑ فضل اللہ، تحلیلی از زندگانی امام رضاؑ،1377ہجری شمسی، ص133.
53.    ↑ مجلسی، بحار الانوار، ج49، 1403ھ، ص129
54.    ↑ مفید، الارشاد، 1372ہجری شمسی، ج2، ص259.
55.    ↑ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، 1378ہجری شمسی، ج2، ص465.
56.    ↑ جعفریان، حیات فکرى و سیاسى ائمہ، ‏1381، ص 442۔
57.    ↑ رجوع کریں: طبرسی، الاحتجاج، ج 2، 1403ہجری، ص 396 اور بعد کے صفحات۔
58.    ↑ عیون اخبار الرضا، ج1، ص 152۔
59.    ↑ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہؑ 1381ہجری شمسی، ص442-443.
60.    ↑ جعفریان، 1381ہجری شمسی، ص 443-444.
61.    ↑ فضل الله، تحلیلی از زندگانی امام رضا(ع)، 1377ہجری شمسی، ص43
62.    ↑ کلینی، الکافی، 1363ہجری شمسی، ج1، ص486
63.    ↑ عاملی، الحیاة السیاسیة للامام الرضا، 1430ھ، ص169
64.    ↑ طبرسی، اعلام الوری باعلام الهدی، 1417ھ، ج2، ص41
65.    ↑ ملاحظہ کریں: القرشی، حیاة الامام علی بن موسی الرضا، 1429ھ، ج2، ص503-504
66.    ↑ یعقوبی، ایضا، ص 469
67.    ↑ یعقوبی ،تاريخ اليعقوبي ج2، ص453۔
68.    ↑ مفید، الارشاد، ج2، 1372ہجری شمسی، ص272.
69.    ↑ ملاحظہ کریں: صدوق، ج2، 1373ہجری شمسی، ص592 اور 602.
70.    ↑ ملاحظہ کریں: جعفر مرتضی، حسینی عاملی، زندگی سیاسی هشتمین امام، 1381ہجری شمسی، ص 202-212.
71.    ↑ ابن حبان، الثقات، 1402ھ، ج8، ص456-457؛ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، 1376ہجری شمسی، ص460
72.    ↑ جعفریان، ایضا 1376، ص 443.
73.    ↑ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 13761376ہجری شمسی، ص444.
74.    ↑ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1376ہجری شمسی، ص444-445.
75.    ↑ عطاردی، مسند الامام الرضا، 1413ھ، ص84-85.
76.    ↑ بحار الانوار، ج 49، ص 284، حدیث 3 بحوالہ صدوق، عیون اخبار الرضا، ج2، ص 255۔
77.    ↑ بحار الانوار، ج 49، ص 284، حدیث11. بحوالہ عیون اخبار الرضا، ج 2، ص 258- 259۔
78.    ↑ بحار الانوار، ج 49، ص 286، حدیث 10. بحوالہ عیون اخبار الرضا، ج2، ص 255
79.    ↑ مفید، الارشاد، ج2، ص271.
80.    ↑ دخیل، ائمتنا: سیرة الائمة الاثنی عشر، 1429ھ، ج2، ص76-77
81.    ↑ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ، ج1، ص172.
82.    ↑ صدوق، عيون أخبار الرضا، 1378ھ، ج2، ص174
83.    ↑ طوسی، الامالی، 1414ھ، ص359.
84.    ↑ صدوق، عيون أخبار الرضا، 1378ھ، ج2، ص17
85.    ↑ صدوق، عيون أخبار الرضاؑ، 1378ھ، ج2، ص159
86.    ↑ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، نشر علامہ، ج4، ص362
87.    ↑ کلینی، الکافی، 1363ہجری شمسی، ج5، ص327
88.    ↑ کلینی، الکافی، 1363ہجری شمسی، ج6، ص23
89.    ↑ کلینی، الکافی، 1363ہجری شمسی، ج6، ص19
90.    ↑ نوری، مستدرک الوسائل، 1407ھ، ج15، ص170
91.    ↑ شيخ صدوق، عيون أخبار الرضا، 1378ھ، ج2، ص159
92.    ↑ طبرسی، اعلام الوری، 1417ھ، ج2، ص64
93.    ↑ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ، ج2، ص172
94.    ↑ کلینی، الکافی، 1363ھ، ج1، ص187
95.    ↑ کلینی، الکافی، 1363ہجری شمسی، ج2، ص224
96.    ↑ صدوق، عيون أخبار الرضا، 1387ھ، ج‏2، ص122
97.    ↑ فضل الله، 1377ہجری شمسی، تحلیلی از زندگانی امام رضاؑ، ترجمہ: محمد صادق عارف، ص187
98.    ↑ فضل الله، ایضا، 1377ہجری شمسی، ص191-196
99.    ↑ فضل الله، ایضا 1377ہجری شمسی، ص196
100.    ↑ فضل اللہ، ایضا 1377ہجری شمسی، ص197-198
101.    ↑ ملاحظہ کریں: قرشی، 1429ھ، حیاۃ الامام علی بن موسی الرضا۔/2008ء.
102.    ↑ عسقلانی، تہذیب التہذیب، دار صادر، ج7، ص389؛ یافعی، مرآۃ الجنان، 1417ھ، ج2، ص10
103.    ↑ ابن حبان، الثقات، 1402ھ، ج8، ص457
104.    ↑ عسقلانی، تہذیب التہذیب، دار صادر، ج7، ص388
105.    ↑ ابن النجار، ذیل تاریخ بغداد، 1417ھ، ج4، ص135؛ نیز ملاحظہ کریں: عسقلانی، تہذیب التہذیب، دار صادر، ج7، ص387
مآخذ
ابن النجار البغدادی، محب الدین، ذیل تاریخ بغداد، دراسۃ و تحقیق مصطفی عبد القادر یحیی، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1417ھ.
سیوطی، عبد الرحمن بن ابی بکر، تاریخ الخلفاء، تحقیق حمدی الدمرداش، ریاض، مكتبۃ نزار مصطفى الباز، 1425ھ.
ابن جوزی، یوسف بن قزاوغلی، تذکرۃ الخواص من الامۃ فی ذکر خصائص الائمۃ، قم، منشورات الشریف الرضی، بی‌تا.
ابن حبان، الثقات، حیدر آباد، مطبعۃ مجلس دائرۃ المعارف العثمانیۃ، 1402ھ.
ابن شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب، قم، نشر علامہ‏، بی تا.
امین، سید محسن، اعیان الشیعۃ، بیروت، دارالتعارف للمطبوعات، 1418ھ.
جعفریان، رسول، اطلس شیعہ، تہران، سازمان جغرافیایی نیروہای مسلح، 1387ہجری شمسی.
جعفریان، رسول، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ (علیہم السلام)، قم، انصاریان، 1381ہجری شمسی.
جعفریان، رسول، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، قم، انصاریان، 1376ہجری شمسی.
دخیل، علی محمد علی، ائمتنا: سیرۃ الائمۃ الاثنی عشر، قم، مؤسسۃ دار الکتاب الاسلامی، 1429ہجری شمسی.
صدوق، محمد بن على‏، معانی الاخبار‏، تحقیق علی اکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامى وابستہ بہ جامعہ مدرسين حوزہ علميہ قم‏‏، 1403ہجری شمسی.
صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضاؑ، تہران، نشر جہان، 1378ہجری شمسی.
طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، تحقیق السید محمد باقر الموسوی الخرسان، مشہد، نشر سعید، 1403ھ.
طبرسی، فضل بن الحسن، اعلام الوری باعلام الہدی، قم، مؤسسہ آل البیت لأحیاء التراث، 1417ھ.
طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، بی‌تا.
طوسی، محمد بن الحسن، الامالی، قم، دار الثقافۃ، 1414ھ.
عاملی، السید جعفر مرتضی، الحیاۃ السیاسیۃ للامام الرضاؑ: دراسۃ و تحلیل، بیروت، المرکز الاسلامی للدراسات، 1430ھ.
عاملی، سید جعفر مرتضی، زندگی سیاسی ہشتمین امام، ترجمہ سید خلیل خلیلیان، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، 1381ہجری شمسی.
عرفان منش، جلیل، جغرافیای تاریخی ہجرت امام رضا علیہ‌السلام از مدینہ تا مرو، مشہد، آستان قدس رضوی، 1374ہجری شمسی.
عسقلانی، ابن حجر، تہذیب التہذیب، بیروت، دار صادر، بی تا.
عطاردی، عزیز اللہ، مسند الامام الرضا، بیروت، دار الصفوۃ، 1413ھ.
فضل اللہ، محمد جواد، تحلیلی از زندگانی امام رضاؑ، ترجمہ محمد صادق عارف، مشہد، آستان قدس رضوی، 1377ہجری شمسی.
قرشی، باقر شریف، حیاۃ الامام علی بن موسی الرضا: دراسۃ و تحلیل، قم، مہر دلدار، 1429ھ./2008ء.
قمی، شیخ عباس، منتہی الآمال، تحقیق ناصر باقری بیدہندی، قم، انتشارات دلیل ما، 1379ہجری شمسی.
کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح علی اکبر غفاری، تہران، اسلامیہ، چاپ پنجم، 1363ہجری شمسی.
کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، مصحح محمد آخوندی و علی اکبر غفاری، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، بی‌تا.
مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار استاد شہید مطہری، تہران، انتشارات صدرا، 1381ہجری شمسی.
مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، قم، المؤتمر العاملی لألفيۃ الشیخ المفید، 1372ہجری شمسی.
نوبختی، حسن بن موسی، فرق الشیعہ، نجف، حیدریہ، 1355ھ.
نوری، حسین بن محمد تقی، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، بیروت، موسسۃ آل بیت لاحیاء التراث، 1408ھ.
یافعی، عبداللہ بن اسعد، مرآۃ الجنان و عبرۃ الیقضان فی معرفۃ ما یعتبر من حوادث الزمان، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1417ھ.
یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ یعقوبی، ترجمہ محمد ابراہیم آیتی، تہران، علمی و فرہنگی، 1378ہجری شمسی

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک