امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

کیا اسلام تلوار سے پھیلا؟

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

 

 

اسلام میں  جہاد کی اہمیت

اسلام اور تلوار

اسلام دشمن عیسائی مشنری اس بات کو بڑی اہمیت اور اہتمام کے ساتھ بیان کرتی ہے کہ اسلام تلوار اور طاقت کا دین ہے_
یہاں تک کہ بعض کتابوں میں  انہوں نے ایسے کارٹون بنائے ہیں جن میں  آنحضرت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم  کے ایک ہاتھ میں  قرآن اور دوسرے میں  تلوارہے آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم  لوگوں کے سروں پر کھڑے ہیں اور یہ عبارت تحریر ہے
 ''قرآن پر ایمان لے آؤ ورنہ تلوار سے تمہاری گردنیں اڑادونگا'' پس دشمن گویا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جو اسلام
'' ادع الی سبیل ربک بالحکمة والموعظة الحسنة''
(اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور موعظہ حسنة سے دعوت دو_ ( النحل۱۲۵))
کا دعویدار ہے وہ اپنے اس دعوے میں  سچا نہیں ہے بلکہ وہ عملی طور پر تلوار سے اپنی تبلیغ کا دعویدار ہے_

اس نظریئےی تقویت میں  خود مسلمانوں کی اس مقولے میں  طبعی شک و تردید نے بھی مدد کی ہے کہ ''اسلام حضرت خدیجہ عليه‌السلام  کے مال اور حضرت علی عليه‌السلام  کی تلوار سے پھیلا''
(مفکر اسلام شہید مطہری کا مقالہ مجلہ '' جمہوری اسلامی'' میں (۱۰جمادی الثانی ۱۴۱۰ ھ شمارہ ۲۶۱) _
مسلمانوں نے اس جملے کے الفاظ پر تو توجہ کی لیکن اس کے مفہوم پر گہری دقت نہیں کی_ ...بلکہ ایسا ہوا کہ بعض قدیم مورخین اور قصہ نویس حضرات نے بھی اس مفہوم کو اسلام سے خارج کرنے میں  مدد کی _ کتاب ''فتوح الشام للواقدی'' سے یہ مطلب بڑی حد تک واضح ہوتاہے_ کیونکہ اس کتاب کا شاید ہی کوئی ایسا صفحہ ہو جو اس طرح کے محیر العقول اور خارق العادہ کارناموں اور تباہ کن واقعات سے خالی ہو_
یہ سب کچھ بعض پس پردہ اہداف کی خاطر تھا تا کہ عوام کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کے ساتھ ساتھ امویوں کی قدرت اور عظمت بیان کی جائے اموی حکومت کے منظور نظر افراد کے لئے خیالی بہادریاں ثابت کی جائیں اور اس ذریعہ سے حضرت علی عليه‌السلام  کے موقف اور کارناموں کو لوگوں کی نظروں سے گرا دیا جائے _ اس کے علاوہ اور بھی مقاصد تھے جن کے متعلق گفتگو کی گنجائشے یہاں نہیں ہے _ ان بڑے بڑے سفید جھوٹوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام ایک تباہ کن طوفانی موج ( سونامی کی لہروں ) اور قتل و غارت کا دین دکھائی دینے گا _
 یہاں تک کہ خود اکثر مسلمانوں کے لئے بھی یہ مسئلہ نہایت پیچیدہ ہوگیا جس کا جواب دینے کے لئے انہوں نے دائیں بائیں جانا شروع کردیا_ ان مسلمانوں نے جواباً جو مناسب سمجھا اور جس راستے کو اپنی خواہشات کے مطابق دیکھا اختیار کرلیا_

اگر چہ یہ بات تاریخ سے مربوط ہے اور یہاں اس گفتگو کو طول دینے سے خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکل سکتاتا ہم اپنا نقطہ نظر واضح کرنے کے لئے سر راہے چند نکات کی طرف اشارہ کرتے ہیں _

۱: اسلام اور دیگر ادیان میں  جنگ کے خد و خال

جنگ بدر سے پہلے کے سرایا اور غزوات کی فصل میں  اپنی افواج کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نصیحتوں کا مختصر ذکر ہوگا _ انہیں دقت سے پڑھنے اور ان پر غور کرنے کی ضرورت ہے _ مزید مطالعہ کے خواہش مند حضرات بحار الانوار اور کافی کے علاوہ حدیث اور تاریخ کی دیگر کتابوں کا بھی مطالعہ فرمائیں_

ساتھ ہی کتب حدیث اور تاریخ کا دقت سے مطالعہ کرتے وقت جنگی قیدیوں کے ساتھ مسلمانوں کے مثالی سلوک سے آگاہی بھی ضروری ہے _ ہم بھی جنگ بدر کی بحث میں  انشاء اللہ اس موضوع پر روشنی ڈالیں گے _
اسی طرح علامہ احمدی نے بھی اپنی کتاب '' الا سیر فی الاسلام'' میں  اس موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے _ لیکن اس کے مقابلے میں  مندرجہ ذیل مطالب ملاحظہ فرمائیں_

الف: انجیل میں  لکھاہے''یہ گمان بھی نہیں کرو کہ میں  زمین پر امن پھیلانے آیا ہوں، میں  زمین پر سلامتی پھیلانے نہیں بلکہ تلوار کے ساتھ جنگ کے لئے آیاہوں''
(انجیل متی اصحاح ( سورت ) ۲۰ سطر ۳۴) _

باء : تورات میں  یوں تحریر کیا گیاہے'' جب تم جنگ کے لئے شہر کے قریب جاؤ گے تو وہاں کے لوگوں سے صلح کی استدعا کرو_ اگرانہوں نے مثبت جواب دیا تو وہ تیرے لئے فتح ہوجائے گا _ پس وہاں موجود تمام افراد تیرے غلام ہوں گے_ لیکن اگرانہوں نے صلح نہ کی اور جنگ ہی کی تو شہر کا محاصرہ کر لو اور جب تیرا رب، تیرا معبود تجھے فتح دے دے تو تمام مردوں کی گردنیں تلوار سے اڑادے_لیکن خواتین، بچے اور حیوانات اور جو کچھ شہر میں  ہے یہ سب کچھ مال غنیمت ہے جو صرف تیرے لئے ہے_ دشمنوں کا مال غنیمت جو تیرے رب اور معبود نے تجھے عطا کیاہے کھالے، استعمال کر_ وہ تمام علاقے جو تجھ سے بہت دور ہیں اور یہ علاقے ان اقوام کے نہیں ہیں ،ان میں  بھی یہی اعمال انجام دے_ لیکن وہ علاقے جو یہاں کی اقوام کے ہیں اور تیرے رب اور تیرے معبود نے تجھے عنایت کیے ہیں وہاں کا کوئی ذی روح بھی زندہ نہیں رہنا چاہئے''
(سفر تثنیہ'' اصحاح'' ۲۰ سطر/۱۰ _ ۱۷) _

جیم: تورات ہی میں  لکھا ہے''شہر والوں کو تلوار سے اڑاکے رکھ دو_ شہر کو اس میں  موجود تمام چیزوں سمیت جلا دو_اسکے ساتھ حیوانات و غیرہ جو کچھ بھی ہے سب کو تلوار سے نابود کردو _ تما م اشیاء کو اکٹھا کرو اور شہر کے چوک میں  جمع کرکے انہیں شہرسمیت آگ لگادو _اس سے وہ شہر ابد تک راکھ کا ٹیلہ بن جائے گا
(سفر تثنیہ ''اصحاح'' ۱۳ سطر۱۵) _

یہاں مزیددستاویزات بھی ہیں جن کی تحقیق کا موقع و محل نہیں
(سفر تثنیہ الاصحاح ۷ ;سطر۱ ، ۲ سفر سموئیل اوّل الاصحاح ۱۵، عبرانیوں کو پولس کا خط الاصحاح ۱۱ سطر ۳۲ اور اسکے بعد ، انیس الاعلام ج/۵ ص ۳۰۲ و ۳۱۶ اور دیگر کتب) _

ایک اشارہ

امویوںاور عباسیوں و غیرہ کے کرتو توں نیز جنگوں اور ذاتی دشمنیوں میں  ان کے مظالم اور قتل و غارتگری کی وجہ سے ہونے والی اسلام کی بربادی اسلام کی پہچان نہیں بلکہ اسلام پر ہونے والا ظلم ، زیادتی اور خیانت ہے _ کیونکہ اسلام اپنے سے منحرفین کی بدکرداری کا ضامن نہیں ہے اس لئے کہ اسلام اور چیز ہے اور منحرفین کا کردار اور چیز ہے_


۲ : جب جنگ ناگزیرہو

اگر ہم رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم  کریم کی مشرکوں کے خلافلڑی جانے والی جنگوں کا مطالعہ کرنا چاہیں تو انہیں مندرجہ ذیل نکات میں  خلاصہ کر سکتے ہیں:

الف : وراثت و غیرہ جیسے عوامل سے قطع نظر انسان کی شخصیت;
اسکی خصوصیات، عادات، صفات اور مختلف نفسیاتی، روحانی ، فکری ، جذباتی اور دیگر پہلو عام طور پر اس ماحول کے زیر اثر ہوتے ہیں جہاں انسان رہتاہے_ وہ والدین ، استاد اور دو ست و غیرہ سے افکار اور دینی مفاہیم و اقدار حاصل کرتا ہے_

پس وہ شخص ذلیل و بزدل ہوگا جس کی تربیت کرنے والوں نے خوف اور دہشت کا رویہ اختیار کیا ہو اور وہ شخص شجاع اور جنگجو ہوگا جسکی تربیت کرنے والوں نے خوف کے برخلاف حوصلہ افزائی کی روش اختیار کی ہ
(یعنی خوف ، دھمکیوں اور دہشت کے سائے میں  پلنے والا بچہ خود اعتمادی کے فقدان سے بزدل اور ذلت پسند ہوگا _ لیکن محبت اور شفقت کے سائے میں  پلنے والا بچہ خود اعتمادی کے وجود سے بہادر اور سوشل ہوگا_ البتہ لاڈ اور ناز کے سائے میں  پلنے والا بچہ خود پسند اور مغرور ہوگا) _
____________________
 اسی طرح وہ بچہ جسے بچپن میں  بہت زیادہ توجہ اور شفقت ملی ہو اس کی پرورش بالکل مختلف ہوگی اور جو ظلم و قساوت کو دیکھے گا تو اس کا رد عمل بہت مختلف ہوگا _ چاہے ان دو بچوں نے ایک ہی گھر میں  پرورش پائی ہو اور وہ دونوں حقیقی جڑواں بھائی ہوں_
بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ وہ ذہنی تصورات جنہیں انسان حو اس کے ذریعے حاصل کرتاہے اور انہیں اپنے علم و ادراک کا اہم منبع قرار دیتاہے وہ بھی دوسروں سے بہت مختلف ہوتے ہیں_ اگر ہم دو ایسے جڑواں بچوں کو فرض کر لیں جو اکٹھے رہتے ہوں ان کے حالات بھی ایک جیسے ہوں اور یہ بھی فرض کرلیں کہ تعلیم و تربیت ،وسائل اور حالات زندگی و غیرہ تک بھی یکساں ہوں تو اسکے باوجود بھی ہم دیکھیں گے کہ ان دونوں کے افکار ، نفسیات اور احساسات و غیرہ ایک دوسرے سے بہت حد تک مختلف ہیں_ اسکی وجہ وہ ذہنی تصورات ہیں جو دونوں نے اخذ کیے ہیں اورجن سے ان کے تفکر کی تشکیل ہوئی اور ان دونوں کا ان خیالات پر رد عمل مختلف تھا_ جی ہاں چاہے وہ دونوں ایک ہی کمرے میں  بیٹھے ہوں، ایک ہی راستے پر چل رہے ہوں اورایک ہی سکول اور مدرسے میں  پڑھ رہے ہوں پھر بھی دونوں کا ذہن ایک ہی خیال کے متعلق مختلف رد عمل ظاہر کرے گا
چاہے وہ اختلاف جزوی ہی ہو _ اور اس کا سبب یہ ہے کہ ہر ایک کانقطہ نظر مختلف ہے_ یہی صورت حال آوازوں،اور خوشبوؤں و غیرہ کے بارے میں ہے _یہ صورت اسکے ہاں اپناایک خاص مقام اور ایک خاص اثر رکھتی ہے، اس کے فکری خطوط کو بھی بدل دیتی ہے_ کبھی تو ان خطوط کو آگے بڑھاتی ہے اور کبھی اس کے آگے بند با ندھ دیتی ہے _

تصورات کا اختلاف ان کے ذہنوں میں  مختلف نتائج کو جنم دیتاہے_ اسی طرح یہ تصورات روح ، آداب اور احساسات پر مختلف اثرات مرتب کرتے ہیں_

ان باتوں سے ہمیں  پتہ چل سکتا ہے کہ لوگ آداب، افکاراور اخلاقیات و غیرہ کے لحاظ سے ایک دوسرے پر کتنے اثر انداز ہوتے ہیں_آپ خود اگر کسی بدمزاج، غصیلے اور ترش رو دوکاندا ر کے پاس کھڑے ہوں اور پھر کسی ایسے مہذب دوکاندار کے پاس کھڑے ہوںجو مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ ملے اور بہت اچھے اور میٹھے لہجے کے ساتھ آپ سے گفتگو کرے تو آپ یقیناًاپنے رگ و پے میں  ان دونوں کا فرق محسوس کریں گے_ اس سارے عمل کا اثر بچوںاور دوستوں و غیرہ کے ساتھ آپ کے تعلقات پر یقیناً مرتب ہوگا_

پس جب ایک فکر اتنی اہمیت کی حامل اور حساس ہے کہ اس سے انسانی عقیدہ تشکیل پاتا ہے اور انسان اس سے متاثر ہوتا ہے تو یقینا کسی معاشرے میں  پیدا ہونے والا انحراف چاہے وہ محدود پیمانے پر ہی ہو وہ صرف انحراف کے مرتکب ہونے والے تک محدود نہیں رہے گا بلکہ چاہے تھوڑی مقدار اور محدود پیمانے پر ہی سہی وہ اس کے ساتھ رہنے والوں اور اس کے دور یا نزدیک کے تعلق داروں پر بھی اثر انداز ہوگا پھر ان سے دوسروں میں  سرایت کرجائے گا اور اسی طرح وہ انحراف آگے پھیلتا جائے گا_
____________________
 ( اور انحراف کے مرتکب فرد کا حلقہ شناسائی اور دائرہ اثرجتنا وسیع اور پھیلا ہوا ہوگا انحراف بھی اتنے وسیع پیمانے پر اور تیزی سے پھیلے گا- مترجم)_
____________________
یہی سبب ہے کہ اسلام برائی سے پوری طاقت کے ساتھ اورعلانیہ نبرد آزما ہوتاہے_ اسلام نے تو چھپ چھپ کر گناہ والے کی غیبت سے بھی منع کیا ہے تا کہ لوگ کسی بھی برائی یا انحراف کی خبرسننے کی عادت نہ اپنا لیں کیونکہ اس سے ان کے ذہن برائی سے مانوس ہو جائیں گے پھر ان کے لئے برائی کا ارتکاب آسان ہو جائے گا اور وہ اس کی عادت بنالیں گے _ اسلام تو اتنا بھی نہیں چاہتا کہ ان کے ذہنوں میں  برائی کے تصور کابھی گزر ہو چہ جائیکہ وہ شخص خوداس برائی کی عادت اپنالے کیونکہ اسلام چاہتا ہے کہ لوگ برائیوں سے دور رہیں لیکن اس کے اثر سے لوگ برائیوں کے مرتکب ہوں گے _ آپ ذرابرائیوں اور نقصان دہ امو ر پر لفظ '' المنکر''کے اطلاق پر غور کریں تو آپ دیکھیں گے کہ اسلام چاہتاہے کہ لوگ ان باتوں سے دور اور لاعلم رہیں_ اسی طرح جہاں اسلام چھپ چھپ کر گناہ کرنے والے کی غیبت سے منع کرتاہے تو وہ یہچاہتاہے کہ گناہگار انسان کو ایک فرصت مہیا کی جائے تا کہ وہ اپنے گناہوں سے چھٹکارا حاصل کرسکے نیز اس کی شخصیت کی تعمیر و ترقی کے لئے اسے ایک مناسب معاشرتی فضا مہیا کرے نیزاس کی عزت و شرافت و غیرہ کی حفاظت کرے اس کے علاوہ اور بھی مقاصد ہیں جن کے بیان کا مقام یہاں نہیں ہے _

پس اگر انحراف اور کجی کا نقصان اسکے ارتکاب کرنے والے تک محدود نہ رہے اور وہ دوسروں تک سرایت کر جائے تو پھر دوسروں کوبھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ خود کو اس نقصان سے محفوظ کریں_ اگر شریعت کی بات نہ بھی ہو تو بھی عقل و فطرت کا یہی حکم ہے _ البتہ شریعت ،ذات کے اس حق دفاع کے اعتراف پر ہی اکتفا نہیں کرتی بلکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے وجوب کے ذریعہ اس دفاع کو ہر فردپر واجب اور فرض قرار دیتی ہے تا کہ ایک تو یہ لوگ اپنی حفاظت کریں اور دوسرا اس انحراف اور برائی سے دوسروں کو بچائیں
____________________
 (برائی کے ا نجام دینے والے کو دو عذاب (ایک برائی کے انجام دینے پر اور دوسرا عذاب دوسروںکو مبتلاکرنے پر)نہیں ہوں گے بلکہ اس شخص کے لئے صرف ایک ہی عذاب ہے ، وہ اس لئے کہ اس نے (برائی نہ کرنے پر )دوسروں کے اختیار کو سلب نہیں کیا اور نہ ہی اسکا یہ ارادہ تھا_ البتہ اسکے فعل نے دوسروں کے لئے برائی انجام دینے کی راہ ہموار کی اور یہ امر دوسروں کی برائی کا مسبب نہیں_ارتکاب گناہ میں  ارادہ اور نیت نیز عذاب کے استحقاق یا عدم استحقاق کے عنصر کو مد نظر رکھتے ہوئے ہماری بات اور مندرجہ ذیل معروف حدیث کے درمیان فرق واضح ہوجائے گا _ معروف حدیث یہ ہے :'' جس کسی نے ایک نیک عمل کی بنیاد رکھی اس کو اسکا اجر اور قیامت تک ہر اس شخص کے عمل کا اجر ملے گا جو اس پر عمل کرتا رہے گااورجس کسی نے ایک برے عمل کی بنیاد رکھی تو اس کو اپنے عمل کاگناہ اور قیامت تک ہر اس شخص کے عمل کاگناہ بھی ملے گا جو یہ برائی انجام دے گا''_) _
____________________
گذشتہ تمام گفتگو کی روشنی میں  رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم  کریم کے اس فرمان کا راز بھی معلوم ہو جاتاہے کہ اسلام کی نظر میں
سب مؤمن ایک جسم کی مانند ہیں کہ جب بھی جسم کے کسی حصے میں  تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم بے خوابی و پریشانی میں  مبتلارہتاہے_
پس اس بنا پر برائی سے روکنے اور نیکی کا حکم دینے والے کو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ تجھے کیا ؟ تجھے اس سے کوئی مطلب ؟
یا میں  آزاد ہوں یا اسطرح کے جملے_ کیونکہ یہ امر بالمعروف ہی ہے جو در حقیقت آپ کی حفاظت کرتا ہے_ اور ہر کسی کی آزادی اتنی ہے کہ وہ دوسروں پر کسی قسم کی بھی زیادتی نہ کرے اور نہ ہی اس کی آزادی کو کوئی نقصان ہو _ او رانحراف تو زیادتی کی خطرناک ترین اور ناپسندیدہ ترین صورت ہے _

یہ بڑی واضح سی بات ہے کہ انحراف کے خطرے کو دور کرنے اوربرائی کے خاتمے کی خاطر مختلف مدارج اور مراحل کا خیال رکھا جانا چاہئے_ جیسے آپکا بیٹا اگرکسی برائی یا غلطی کا مرتکب ہوتا ہے تو پہلے مرحلے میں  آپ اسے منع کریں گے ، پھراسے سمجھائیں گے ، پھر ڈرائیںدھمکائیں گے،پھر ماریں پیٹیں گے اور پھر خود سے دور کریں گے _ اسی طرح شدت اختیار کرتے جائیں گے_ یہ سب مراحل و مدارج شرعی ، عقلی اور فطری ہیں_ انسان کا کوئی ایک عضواگر بیماری میں  مبتلا ہوجائے تو پہلا مرحلہ دوائیوں سے علاج ہے_
 اگرپھر بھی ٹھیک نہ ہو تو جراحی '' operation '' کا مرحلہ آتا ہے _اور اگر اس کے باوجود مرض اتنی خطرناک صورت اختیار کرجائے اور زخم ناسور بن جائے کہ وہ عضو نہ صرف پورے جسم پر بے فائدہ بوجھ بن جائے بلکہ اس کا درد اوراس کی بیماری دوسرے اعضاء میں  سرایت کرنے لگے اور انہیں صحیح طریقے سے کام نہ کرنے دے تو اس صورت میں  اگر طبیب اس حصے کو علیحدہ نہیں کرے گا تو خود انسان کے تلف ہونے کا خطرہ پیدا ہوجائے گا_ اس مرحلے میں  بدن کے اس حصے کو کاٹنے کی نوبت بھی آسکتی ہے _ نہ کاٹنے کی صورت میں  وہ طبیب اس بیمار سے خیانت کا مرتکب ہوگا_ یہی سبب ہے کہ اسلام ، عقل اور فطرت نے مسلمانوں کو ایک جسم کی طرح قرار دیاہے _ جب ایک عضو میں  درد ہو تو سارا بدن درد و اضطراب میں  مبتلا ہوجاتاہے_یہ بات صرف مسلمانوں ہی سے مخصوص نہیں بلکہ تمام بنی آدم کے ساتھ ایسا ہی ہے_
پس جو شخص عقیدہ و اخلاق اور آداب و کردار کے لحاظ سے منحرف ہوجائے تو ضروری ہے کہ سب سے پہلے حکمت ، پیاراور موعظہ حسنہ سےاسکی اصلاح کی جائے پھر ڈرایا دھمکایا جائے اسکے بعد سختی اور شدت کا استعمال کیا جائے _ اگر یہ سارے ذرائع اور و سائل کامیاب نہ ہوں تو پھر اس کاآخری علاج اسے قرنطینہ کرنا ہے اور اگربیماری انتہائی خطرناک اور ناسورہو جائے تو پھر( نہ صرف اس شخص کو قرنطینہ کرنا چاہئے بلکہ) ضروری ہو جاتا ہے کہ اس بیماری کو ہی جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے_اس صورت میں  عضو فاسدکو نہ کاٹنا پوری امت بلکہ نسلوں اور انسانیت کے ساتھ خیانت ہوگی_ بلکہ دینی اور عقیدتی انحراف کا خطرہ تو جسمی اور بدنی امراض سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ جسمانی امراض کا دائرہ نسبتاً محدود ہے لیکن دینی، عقیدتی، فکر ی اور اخلاقی انحراف سے جسم، مال و اموال، مقام، انسان ، اخلاقی اقدار ، انسانیتبلکہ سارا معاشرہ تباہ ہوجاتاہے جس کے اثرات آنے والی نسلوں پر بھی پڑتے ہیں _ یہ اس وقت ہوتاہے جب اس منحرف شخص کو جرم اور گناہ انجام دینے میں  کوئی رکاوٹ پیش نہیں آتی اور وہ بڑے سے بڑا جرم و گناہ انجام دیتاچلا جاتاہے_جب اس انسان کی کسوٹی اورمعیار ،فقط اور فقط اسکے ذاتی مفادات ہوں ، تب وہ شخص کسی اور چیز کو اہمیت نہیں دیتا، اللہ کی خوشنودی کو اہم نہیں سمجھتا، امت کی اجتماعی مصلحتوں کو مدنظر نہیں رکھتا، شریعت اور دین کے احکام کو غیر اہم سمجھتا ہے اورعقل و منطق کو کوئی حیثیت نہیں دیتا_

اسی لئے جہاد در حقیقت اس انحراف کو روکنے کا ایک ذریعہ ہونے کی وجہ سے دین اور شریعت سے بڑھ کر عقل اورفطرت کے احکام میں  سے ایک حکم ہے_

گزشتہ بحث کی روشنی میں  ہم نہایت جرا ت کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اگر اسلام، جہاد کے لئے تلوار استعمال نہ کرتا تووہ حق اور عدل نیز فطرت اور عقل کا دین ہی نہ ہوتا_ اس طرح نہ صرف معاشرے بلکہ ابد تک کے لئے تمام انسانیت کا خائن ہوتا_ ہم جانتے ہیں کہ فکر ، عقل اور قوت مدافعت پر مبنی سیاسست ہی عدل قائم کرنے والے اور ظلم کو مٹانے والے دین ،اسلام کا اصل اصول ہے_

ارشاد باری تعالی ہے:
( و لقد ارسلنا رسلنا بالبینات و انزلنا معهم الکتاب والمیزان لیقوم الناس بالقسط و انزلنا الحدید فیه باس شدید و منافع للناس و لیعلم الله من ینصره و رسله بالغیب ان الله قوی عزیز ) ( حدید /۲۵ )

بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجاہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا تا کہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں اور ہم نے لوہے کو بھی نازل کیا ہے جس میں  شدید سختی اور لوگوں کے لئے بہت سے دوسرے فوائدبھی ہیںیہ سب اس لئے ہے کہ خدا یہ دیکھے کہ کون بغیر دیکھے اسکی اور اسکے رسول کی مدد کرتاہے اور یقیناً اللہ بڑا صاحب قوت اور صاحب عزت ہے_

اگر دین خیانت کو اپنی عادت اور اصول قرار دیتا، انسانی نسلوں کی مصلحتوں سے تجاہل برتتااور اس کے احکام میں  یہ بہت بڑے نقائص ہوتے تو اس کے قوانین کی انسانوں اور انسانی سماج کو قطعاً ضرورت نہ ہوتی _ پھر تو اسکی راہ میں  قربانی دینے بلکہ اس کی حفاظت کرنے اور دین کی عظمت اور سر بلندی کی خاطر کسی بھی کام کا کوئی معنی اور فائدہ نہ رہتا _ یہیں سے معلوم ہوتا ہے کہ کیوں جہاد کو جنت کے دروازوں میں  سے ایک ایسا دروازہ قرار دیا گیا ہے جسے اللہ نے اپنے خاص اولیاء کے لئے کھول رکھاہے_ یہ تقوی کا لباس، اللہ تعالی کی مضبوط زرہ اور قابل اعتماد ڈھال ہے
(ملاحظہ ہو: نہج البلاغہ شرح محمد عبدہ خطبہ جہاد ج ۱ ص ۶۳_) _

یہ سب تونظریاتی لحاظ سے ہے_ البتہ رسول اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم  کے زمانے کے تاریخی حقائق کیا تھے جہاد کے متعلق گفتگو کے دوران اس کی طرف اشارہ کریں گے_

باء :اہل مکہ کے مقابلے میں  اپنا دفاع کرنا ہرمسلمان کا حق تھا کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کو ان کے دین سے ہٹانے کے لئے سازشیں کیں اور اللہ کے راستے میں  رکاوٹیں ڈالیں_ اس لئے ان سب کا حق بنتا تھا کہ وہ عقیدہ ، بیان ، فکر اور دعوت الی اللہ کی آزادی کے حصول کے لئے اہل مکہ کے خلاف جنگ کرتے یہ جنگ خصوصاً اس وقت ضروری ہوجاتی ہے جب دشمن تشدد کے استعمال پر اصرار کرے اور اس کے نیز اس کے عقائد کے سامنے منطق اور دلیل کی کوئی حقیقت نہ ہو _ پس اسلام یہ نہیں چاہتا کہ کوئی جبراً اس کو قبول کرے_اسلام تو یہ چاہتا ہے کہ سب کو عقیدے، فکر ، اور موقف میں  آزادی حاصل ہو _
اس لئے اسلام نے جو علاقے فتح کئے وہاں کے لوگوں کو بعض معاملات میں اختیار دیا_ ان میں سے ایک '' قبول اسلام''بھی تھا_ جو کوئی اسلام قبول کرتا وہ پوری رغبت وشوق ، آزادی اور ارادے کے ساتھ نیزمسلمانوں کی طرف سے کسی رسمی سے دباؤ کے بھی بغیر قبول کرتا_ بہت سارے علاقوں میں تو اسلامی فتح کا انتظار بھی نہ کیا گیا_ فقط اسلام کی اطلاع پر ہی لوگ اسلام کے سامنے جھک گئے_
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسلا م اور مسلمان اپنے خلاف ہر طرح کی سختی،زیادتی اور مسلسل ظلم کے سامنے ہاتھ باندھے رکھیں کہ ظالم ان کا خون چوستے رہیں _ یاان لوگوں کے ہر دباؤ اور فیصلوں کے سامنے جھک جائیں جو ہر حال میں  انکے خلاف ہیں_نیز اس آزادی کا یہ مطلب بھی نہیںکہ مسلمانوں کو اپنے دشمنوں کے مقابلے میں ایسی تیاری بھی بالکل نہیں کرنی چاہئے کہ جس سے وہ اللہ اور اپنے دشمن کو خوف زدہ کرسکیں_ جس اسلام کی طرف مسلمان دعوت دیتے ہیں اور آزادی فکر و نظرسے اسے قبول کرنے کے خواہاں ہیں وہ فقط ایک انفرادی مذہبی اعمال یا تزکیہ نفس جیسے اعمال ہی کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ اسلام ایک ایساعمومی نظام حیات ہے جو عالمی سطح پر یکسر تبدیلیوں کی قیادت کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتاہے _
 اور ایک ایسا نظام ہے جس میں  سب انسانوں کے حقوق محفوظ ہوں_ یہی وہ بات ہے جس نے اسلام کی وسیع سطح پر حمایت کو یقینی بنایاہے_ کیونکہ اسلام کو ان جابر و ظالم اور لالچی افراد سے ٹکر لینی ہے جو اپنی نفسانی خواہشات اور رجحانات کے مطابق لوگوں پر حکومت کرنا چاہتے ہیں _ہاں جب رائے، فکر اور عقیدہ کی آزادی کا حصول صرف طاقت کے استعمال سے ہی ممکن ہو تو پھر سختی اور شدت استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ معاشرے میں  اسلامی قوانین کے نفاذ کے لئے ایک مناسب فضا مہیا کی جائے نیز حقیقی اسلام، ان حکمرانوں کے اسلام میں  تبدیل نہ ہوجائے جو اسلام کو اپنی خواہشات اور مفادات کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں_ جیسا کہ بعض فرقوں اور مذاہب کے ساتھ ایسا ہی ہوا اور وہ اس شدید بیماری میں  مبتلا ہوگئے ،نیز اسلامی قانون سازی کا محور کوئی بڑی اور سرکردہ شخصیت بھی نہ بننے پائے ورنہ اسلام ایک مردے کی فکر ہوگی جوصرف اور صرف عجائب گھر میں  رکھنے کے قابل ہوگی جس کا تعلق معاشرتی زندگی سے قطعاً نہیں ہوگا
____________________
(مصنف کا اشارہ شاید کیمونزم کی جانب ہے جس کے متعلق خمینی بت شکن (رح)نے گورباچف کے نام اپنے خط میں  پیشین گوئی کردی تھی کہ (دوسرے باطل عقائدو مذاہب کی طرح) یہ بھی تاریخ کے میوزیم میں  منتقل ہوجائے گا _ اور ہوا بھی یہی اب صرف چند مردہ پرست ہی اس دنیا میں  رہ گئے ہیں جو اسے زندہ رکھنے کی نام کوششوں میں  مصروف ہیں _ مترجم) _
____________________
اگر رائے ، فکر اور عقیدہ کی آزادی ہو تو یہ بات دوسروںکے حوصلے کا سبب بنے گی کہ وہ لوگ بھی دائرہ اسلام میں  داخل ہوکرتکلیفوں ، اذیتوں ، مختلف قسم کے دباؤ اور اس فتنہ کی آگ سے بھی محفوظ رہیں جو اسلام کی نظر میں  قتل سے زیادہ خطرناک ہے _ پس مسلما ن جب جنگ کرتے ہیں تو وہ اپنے ان حقوق کے دفاع کے لئے جنگ لڑتے ہیں جو اللہ نے ان کے لئے قرار دیئےیں_ اس سلسلے میں  رسول اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم  کی احادیث بھی ہیں جن کا ذکر بعد میں  آئے گا_نیز قرآن حکیم میں  ارشاد باری تعالی ہے_

( اذن للذین یقاتلون بانهم ظلموا و ان الله علی نصرهم لقدیر الذین اخرجو من دیارهم بغیر حق الا ان یقولوا ربنا الله ) (الحج ۳۹ ، ۴۰)

جن لوگوں سے مسلسل جنگ کی جارہی ہے انہیں ان کی مظلومیت کی بنا پر(جنگ کی) اجازت دی گئی ہے اور یقینا اللہ ان کی مدد پر قدرت رکھنے والا ہے_ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے نا حق نکال دیئے گئے ہیں ان کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں اللہ ہمارا پروردگار ہے_

پس مسلمانوں کو جنگ کی اجازت اس صورت میں  ملی کہ دوسروں نے ان پر جنگ مسلط کردی تھی اور انہیں اپنے گھروں سے بھی نکال باہر کیاتھا لیکن اگر ایسی کتابوں کا مطالعہ کیا جائے جن میں  غزوات کا ذکر ہے تو قاری کے ذہن میں  یہ تصور ابھرتاہے کہ اسلام تو قتل و نابودی کا مذہب ہے_ آپ واقدی کی '' فتوح الشام'' کی طرف رجوع کرکے دیکھیں _یہ سب کچھ غالباً اس لئے ہے کہ اس میں  بنی امیہ کی شان و شوکت اور اقتدار و غلبے کا ذکر ہے_ بعض محققین نے اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے
(آیت اللہ سید مہدی الحسینی الروحانی_)
جیم: گزشتہ گفتگو کی روشنی میں  یہ بات قابل ذکر ہے کہ نبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مسلمانوں کی سیرت اور عادت یہ تھی کہ وہ دشمنوں کے سامنے نہایت منصفانہ انتخاب رکھتے تھے_ حتی کہ ان پیشکشوں کے بعد بعض مشرکین یہ اقرار کرتے تھے کہ اس پیشکش کے بعد اب جنگ پر اصرار ظلم و زیادتی کے علاوہ اور کچھ نہیں لیکن سریہ ابن حجش میں  ابن حضرمی کے قتل کے بعد باقی مشرکوں نے ان پیشکشوں کو ٹھکرانا شروع کردیا تھا کیونکہ وہ مسلمانوں سے جنگ کا پختہ ارادہ کرچکے تھے
(تاریخ طبری ج/۲ ص ۱۳۱ کامل ابن اثیر ج/ ۲ ص ۱۱۶) _

حالانکہ وہ ابن حضرمی کے قتل کا بدلہ دو طرح سے لے سکتے تھے_ایک یہ کہ محدود پیمانے پر اس کا بدلہ لیا جاتا دوسرا یہ کہ دیت قبول کرلی جاتی حالانکہ یہ دونوں عمل عربوں کے رسم و رواج کا حصہ تھے اور ان کی اخلاقیات کے لحاظ سے بعید بھی نہیں تھے _

دال: معاہدے توڑنے والوں کے خلاف قیام کرنااور انہیں اپنی حدود میں  رکھنا کیونکہ یہودی معاہدے توڑتے تھے اور پھر کفار و مشرکین  مکہ بھی وہ لوگ تھے جو صلح حدیبیہ کا معاہدہ توڑ چکے تھے_

ہائ: جنگ کے شعلے بھڑ کانے والوں اورزیادتی کرنے والوں کے مقابلے میں  اپنا دفاع _ جن لوگوں نے مدینہ پر لشکر کشی کی اور لوٹ مار مچائی ان کا پیچھا _

بہر حال ہم دیکھتے ہیں کہ مشرکین مکہ نے مسلمانوں کے خلاف مسلسل معرکہ آرائی جاری رکھی جبکہ مسلمان صلح حدیبیہ تک ہمیشہ اپنا دفاع کرتے رہے_ حتی کہ بخاری لکھتے ہیں کہ نبی کریم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے غزوہ بنی قریظہ سے پلٹنے کے بعد فرمایا: '' اب ہم ان کے خلاف جنگ کر سکتے ہیں لیکن وہ ہمارے خلاف جنگ نہیں کرسکتے '' _اس کا ذکر انشاء اللہ آئے گا _

کیا اسلام تلوار سے پھیلا؟

گذشتہ مطالب کی روشنی میں  ہمارے لئے واضح ہوجاتاہے : کہ'' اسلام علی عليه‌السلام  کی تلوار سے پھیلا '' کےمقولے کا مطلب ہر گزیہ نہیں ہے کہ حضرت عليه‌السلام  نے لوگوں کے سر پر تلوار رکھ کر فرمایا ہو کہ اسلام لے آؤ یا قتل کے لئے تیار ہوجاؤ_ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت علی  عليه‌السلام  کی تلوار فقط اور فقط اسلام کے دفاع کے لئے اٹھی_ اس تلوار نے دشمنوںکی زیادتیوںکو روکا اور آزادی رائے ، فکر اور عقیدہ کی حفاظت کی اور اسلام کے دفاع میں  اپنا گہرا اثر چھوڑا_

اور چونکہ اسلامی جنگوں کا مقصد انسان کی حفاظت، اس کی شخصیت کاتحفظ اور آزادی فکر و عقیدہ و رائے کے لئے فضا ہموارکرنا تھا ،اس لئے ان وجوہات کی روشنی میں  ہم دیکھتے ہیں کہ یہ جنگیں ممکنہ طور پر اتنی مختصر تھیں جن سے فقط مقصد حاصل ہوجائے_یہی وجہ ہے کہ انتہائی ضبط نفس اور تقوی کا خیال رکھا جاتا تھا_ یہاں تک کہ خطرناک ترین حالات اور لحظوں میں  بھی ان چیزوں کا لحاظ کیا جاتا تھا_ اسی لئے پیامبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم  کی دس سالہ مدنی زندگی کے مختصر عرصے میں  غزوات اور سریوں پر مشتمل دسیوں جنگوں میں  مؤرخین کے بقول آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم  کی تلوار سے مقتولین کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز نہیں کرتی
(ملاحظہ ہو سید ھادی خسرو شاہی کا مضمون '' سیمای اسلام'' )
حالانکہ ان جنگوں سے مشرکین کا مقصد پورے جزیرة العرب میں  اسلامی حکومت کے نفوذ و قدرت کے زیادہ ہونے نیزاسکی حدود کو اس سے کہیں زیادہ پھیلنے سے روکنا تھا بلکہ سرے سے اسلام کا ہی قلع قمع کرنا تھا_

ہم نے عجلت میں  اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے ورنہ جہاد کا موضوع تو بہت زیادہ طول و تفصیل کا طالب ہے_ اس سلسلے میں  ضروری ہے کہ قرآن حکیم کی آیات، پیامبراسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم  اور آئمہ ہدی عليه‌السلام  کی احادیث، انکے جہادی موقف اور کوششوں پر گہری نظر ڈالی جائے_

 

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک