امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

ابتدائی جنگیں

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

 

ابتدائی جنگیں :
مؤرخین کہتے ہیں کہ :
۱_ آنحضرت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدینہ تشریف آوری کے سات ماہ بعد ( البتہ دیگر اقوال بھی ہیں ) ابوجہل کا پیچھا کرنے کے لئے جناب حمزہ بن عبدالمطلب کو تیس مہاجرین کا سردار بنا کر بھیجا ( یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس دستے میں انصار کے کچھ افراد بھی شامل تھے لیکن یہ بات ناقابل وثوق ہے کیونکہ جنگ بدر سے پہلے آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کسی بھی انصاری کو کسی جنگی مشن پر نہیں بھیجا تھا)
() تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۵۶، سیرہ حلبیہ ج ۳ ص ۱۵۲، السیرة النبویہ ابن ہشام ج ۲ ص ۲۴۵) _
انہوں نے ابوجہل کو تین سو مشرکوں میں گھرے ہوئے جالیا _ لیکن وہاں فریقین کے ثالث مجدی بن عمرو جہنی ان کے اس مشن کے آڑے آگیا اور وہ جنگ کئے بغیر واپس لوٹ آئے _
۲_ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدینہ تشریف آوری کے بعد ٹھیک آٹھویں مہینے کی ابتداء میں دوسو افراد میں گھرے ابوسفیان کو '' رابع'' کے میدان میں جا پکڑنے کے لئے عبیدہ بن حارث بن مطلب کی سرکردگی میں ساٹھ افراد کا ایک لشکر بھیجا _ اس سریہ میں مقداد اور عتبہ بن غزو ان ابوسفیان کے دستے سے بھاگ کر مسلمانوں کے ساتھ مل گئے
(السیرة النبویہ دحلان ( مطبوعہ بر حاشیہ سیرہ حلبیہ ) ج ۱ ص ۳۶۰و ۳۵۹ _ نیز ملاحظہ ہو تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۵۹) _
۳_ اس کے بعد مہاجرین کے ایک گروہ کی سرکردگی میں سعد بن ابی وقاص کا سریہ بھی ہے جو قریش کے ایک قافلے کا مقابلہ کرنے نکلا تھا لیکن وہ قافلہ ان کی پہنچ سے باہر جا چکا تھا _ البتہ ایک قول کے مطابق یہ واقعہ جنگ بدر کے بعد پیش آیا
() تاریخ الخمیس ج ۱ ۳۵۹) _
۴_ اس واقعہ کے بعد یعنی آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت کے کم و بیش ایک سال بعد غزوہ ابواء کا واقعہ پیش آیا _ اس غزوہ میں آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بنفس نفیس قریش اور قبیلہ بنی مرّہ بن بکر سے جنگ کرنے نکلے لیکن '' ابوائ'' کے مقام پر قبیلہ بنی مرّہ کے سردار سے مڈبھیڑ ہوگئی جہاں انہوں نے آپس میں صلح کرلی اور آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم واپس مدینہ پلٹ آئے
(تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۶۳، السیرة النبویة ابن ہشام ج ۲ ص ۲۴۱ ، السیرة النبویہ دحلان ( مطبوعہ بر حاشیہ سیرہ حلبیہ ) ج ۱ ص ۳۶۱) _
۵_ اس کے بعد غزوہ '' بواط'' کا واقعہ پیش آیا ( بواط مدینہ کے قریب جہینہ قبیلہ سے متعلق ایک پہاڑی تھی ) اس غزوہ میں آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دوسو مہاجرین کو لے کر قبیلہ بنی ضمرہ کے قافلے کا سامنا کرنے نکلے لیکن بواط تک پیچھا کرنے کے بعد پھر واپس پلٹ آئے اور کوئی لڑائی نہیں کی
() ملاحظہ ہو : تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۶۳، السیر النبویہ دحلان ج ۱ ص ۳۶۱، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۲۶و السیرة النبویہ ابن ہشام ج ۲ ص ۲۴۹) _
البتہ اس غزوہ میں مہاجرین کی تعداد کے متعلق اپنا اعتراض ہم محفوظ رکھتے ہیں _
۶_ مذکورہ غزوہ کے چند دن بعد '' غزوة العشیرہ '' کا واقعہ پیش آیا _ اس میں آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قبیلہ بنی مدلج اور اس کے حلیف بنی ضمرہ سے صلح کر کے واپس مدینہ پلٹ آئے _ اس غزوہ میں بھی کوئی لڑائی نہیں ہوئی _ البتہ اس غزوہ میں حضرت علی علیہ السلام کو '' ابوتراب '' کا لقب ملا جس کے متعلق ہم بعد میں گفتگو کریں گے)
(ملاحظہ ہو : تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۶۳، السیرة النبویہ دحلان ج ۱ ص ۳۶۱ ، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۲۶، السیرة النبویہ ابن ہشام ج۲ ص ۲۴۹) _
۷_ نخلہ کی وادی میں عبداللہ بن حجش کا سریہ :
اس کے بعد ہجرت کے دوسرے سال رجب یا جمادی الثانی کے مہینے میں عبداللہ بن حجش کی جنگ کا واقعہ رونما ہوا _ جس میں آٹھ یا بارہ مہاجرین نے حصہ لیا تھا _ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عبداللہ بن حجش کو ایک خط دے کر روانہ کیا اور فرمایا کہ اس خط کو دو دن کے بعد کھول کردیکھنا ( یہ حکم غالباً اس لئے تھا کہ کوئی اسلام دشمن یہودی اور مشرک اس خط کے مضمون سے مطلع نہ ہونے پائے جس سے یہ بات تمام دشمنوں میں پھیل سکتی تھی ) _ دو دن چلنے کے بعد جب اس نے خط کھول کردیکھا تو اس میں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کے بعد لکھا تھا :
'' امّا بعد خدا کی برکت سے اپنے ساتھیوں سمیت نخلہ کی وادی میں جا کر قریش کے ایک قافلے پر گھات لگاؤ ( ایک روایت میں آیا ہے کہ قریشیوں کے خلاف گھات لگاؤ) یہاں تک کہ ہمارے پاس کوئی اچھی خبر لے کر آو'' _
عبداللہ بن حجش نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ آنحضرت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے حکم دیا ہے کہ اپنے کسی ساتھی پر بھی زبردستی نہیں کرو بلکہ انہیں اس بات کا اختیار دو کہ وہ تمہارے ساتھ جائیں یا پھر واپس پلٹ آئیں _ لیکن اس کے تمام ساتھی اس کے ساتھ ہولئے _ پھر یہ دستہ وادی نخلہ میں ٹھہرا تو وہاں سے قریش کے ایک قافلے کا گذر ہوا جس پر انہوں نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس فاقلے پرہلہ بول دیا ، ان کے ایک آدمی کو قتل اور دو کو قید کر کے ان کا تمام مال و اسباب لوٹ لیا _ یہ واقعہ اختلاف اقوال کی بناپر رجب کی پہلی تاریخ کو یا اس سے ایک دن پہلے پیش آیا _ پھر جب وہ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے پاس آئے تو انہوں نے وہ قافلہ مع مال و اسباب اور دو قیدی آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضور پیش کردیئےیکن آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے ایک دھیلا بھی لینے سے انکار کردیا ( لیکن ابو ہلال عسکری کہتا ہے کہ عبداللہ بن حجش نے اس مال کو پانچ حصوں میں تقسیم کر کے پانچواں حصہ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے حضور پیش کردیا اور باقی کو اپنے ساتھیوں کے درمیان تقسیم کردیا _ اور اس کا یہ خمس اسلام کا پہلا خمس تھا)
) الاوائل ، ج ۱ ، ص۱۷۶ ، سیرہ حلبیہ، ج ۳ ، ص ۱۵۷ ، الاستیعاب زندگی عبداللہ بن جحش، نیز ملاحظہ ہو : السیرة النبویة ابن ہشام ، ج ۳، ص ۲۵۲ و ۲۵۳_ المغازی واقدی ، ج ۱ ، ص ۱۳ ، طبقات الکبری ، ج ۲ ، ص ۱۰ ، مطبوعہ۱۴۰۵ ھ _ تاریخ الامم و الملوک ، ج ۲ ، ص ۴۱۰تا ۴۱۳ ، السنن الکبری ، ج ۹ ، ص ۱۲ ، دلائل النبوة بیہقی ، ج ۲ ، ص ۳۰۷و ۳۰۸ ، تاریخ الاسلام ذہبی (مغازی ) ص ۲۹ ، اسباب النزول ص ۳۶ ، بحارالانوار ، ج ۲۰ ، ص ۱۸۹و ۱۹۰، رجال مامقانی ، ج ۲ ، ص ۱۷۳، قصص الانبیاء راوندی ، ص ۳۳۹_ السیرة النبویہ ابن کثیر ، ج ۲ ص۳۶۶، الکامل فی التاریخ ، ج ۲ ، ص ۱۱۳، تاریخ الخمیس ، ج ۱ ، ص ۳۶۵ _ تاریخ یعقوبی ، ج ۲ ، ص ۶۹_ الدرالمنثور سیوطی ، ج ۱ ص ۲۵۱_ مجمع الزوائد ، ج ۲ ، ص ۱۹۸_ السیرة النبویہ دحلان (مطبوعہ بر حاشیہ سیرہ حلبیہ) ، ج ۱ ، ص ۳۶۲ و دیگر کتب_
____________________
 _ البتہ دوسرے مسلمان بھائیوں نے ان کو سخت سرزنش کی _ اس واقعہ کی وجہ سے قریشیوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ (حضرت) محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حرام مہینے کی حرمت کو پایمال کیا ہے _ اس مہینے میں ان لوگوں نے خون بہایا، مال لوٹا اور کئی آدمیوں کو قیدی بنایا ہے _ اس وجہ سے انہوں نے مسلمانوں کو بہت برا بھلا بھی کہا اور اس بارے میں کئی خطوط بھی لکھے _ اس کے ساتھ ساتھ اس معاملہ کو مزید ہوا دینے کے لئے یہودیوں کو بھی بھڑ کانا شروع کردیا_ جب ان کی سرگرمیاں حد سے زیادہ بڑھ گئیں تو مہاجرین کے اس کام کی دلیل اور توجیہ بیان کرنے کے لئے یہ آیتیں نازل ہوئیں:
( یسالونک عن الشهر الحرام قتال فیه قل قتال فیه کبیر و صد عن سبیل الله و کفر به و المسجد الحرام و اخراج اهله منه اکبر عندالله و الفتنة اکبر من القتل ) بقرہ / ۲۱۷) _
اے پیغمبر وہ لوگ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے (طنز یہ طور پر ) محترم مہینے میں جنگ کے متعلق پوچھتے ہیں تو آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انہیں کہہ دیجیے کہ اس مہینے میں جنگ کرنا بہت بڑا گناہ اور خدا کے راستے سے روکنے اور خدا اور مسجد الحرام کے انکار کے مترادف ہے لیکن مسجد الحرام میں رہنے والوں کو اپنے گھروں سے نکال با ہر کرنا خدا کے نزدیک اس سے بھی بڑا جرم ہے نیز فتنہ اور سازش بھی قتل سے بہت بڑا جرم ہے_
ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ آیت اس وقت اتری جب مشرکین مکہ نے آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آکر بطور طنز اور تنقید حرام مہینے میں جنگ کی کیفیت کے متعلق سوال کیا تو اس آیت کے ذریعہ سے خدانے مسلمانوں کی مشکل آسان کردی اور قریشیوں کو اپنے قیدیوں کا فدیہ دے کر انہیں چھڑواناپڑا اور آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دیا)

ملاحظہ ہو : تاریخ الخمیس ، ج ۱ ص ۳۶۶ ، السیرة النبویہ دحلان (مطبوعہ بر حاشیہ سیرہ حلبیہ ) ، ج ۱ ، ص ۳۶۳ و السیرة النبویہ ابن ہشام ، ج ۲ ، ص ۲۵۴و ۲۵۵) _
۸_ غزوة العشیرہ کے چند دن بعد غزوہ بدر اولی کا واقعہ پیش آیا _ جب کرز بن جابر فہری ،مدینہ کے چوپائے غارت کر کے اپنے ساتھ لے گیا تو آنحضرت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود اس کا پیچھا کرنے کے لئے نکلے لیکن جب بدر کی جانب سفوان کی وادی تک پہنچے تو وہ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دسترس سے باہر نکل چکاتھا، جس کی وجہ سے آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دوبارہ مدینہ پلٹ آئے
(سیرہ حلبیہ ، ج ۲ ، ص ۱۲۸، السیرة النبویہ ابن ہشام ، ج ۲ ، ص ۲۵۱) _
____________________

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک