صحابہ، صحابہ کی زبانی-2
صحابہ کے بارے میں صحابہ کے نظریات-22
صحابہ نے نماز تک بدل دی
انس بن مالک کا بیان ہے :
مرسل اعظم (ص) کے زمانہ میں جو چیزیں رائج تھیں ان میں سب سے پہلی چیز نماز ہے جن میں نے نہیں پہچان سکا ۔
انس کہتے ہیں ۔ جن چیزوں کو تم لوگوں نے ضائع کردیا کیا اس میں سے نماز نہیں کہ کہ جس تم نے ضائع کردیا ہے ، زہری کہتے ہیں :-
دمشق میں انس بن مالک کے پاس گیا تو دیکھا وہ رو رہے ہیں !
میں نے پوچھا آپ کیوں رو رہے ہیں ؟
کہنے لگے : اپنی زندگی میں میں نے اسی نماز کی معرفت حاصل کی تھی اور وہ بھی برباد کردی گئی ۔
(صحیح بخاری ج 1 ص 74)
کسی صاحب کو یہ شبہ نہ ہوجائے کہ مسلمانوں کی آپسی جنگوں اور فتنوں کے بعد تابعین نے تبدیلی کی ہے ۔
اس لئے میں یہ بتادیناچاہتا ہوں کہ سنت رسول میں جس نے سب سے پہلے تبدیلی کی ہے وہ مسلمانوں کے خلیفہ عثمان بن عفان اور ام المومنین عائشہ ہیں ۔ چنانچہ بخاری ومسلم دونوں میں ہے :
منی میں مرسل اعظم(ص) نے دورکعت نماز پڑھی تھی ۔ آپ کے بعد ابو بکر اور ان کے بعد عمر بھی دو ہی رکعت پڑھتے رہے اور خو عثمان بھی اپنی خلافت کے ابتدائی ادوار میں دو ہی رکعت پڑھتے رہے پھر اس کے بعد چار رکعت پڑھنے لگے۔
(بخاری ج 2 ص 154 ،مسلم ج 1 ص 260)
صحیح مسلم میں یہ بھی ہے : زہری کہتے ہیں :
میں نے عروہ سے پوچھا کیا بات ہے عائشہ سفر میں بھی چاررکعت پرھتی ہیں ؟
انھوں نے عثمان کی طرح تاویل کر لی ہے ۔
(مسلم ج 2 ص 143 کتاب صلواۃ المسافرین)
حضرت عمر بھی سنن نبویہ کی نصوص صریحہ کے مقابلہ میں اجتھاد کرتے تھے اور تاویل کرتے تھے بلکہ وہ تو قرآن مجید کے نصوص صریحہ کے مقابلہ میں بھی اپنی رائے کے مطابق حکم دیتے تھے ۔
مثلا عمر کا مشہور مقولہ ہے :
دومتعہ(متعۃ النساء اور متعۃ الحج) رسول خدا کے زمانہ میں رائج تھے ۔
لیکن میں ان سے روکتاہوں اور (اگر کوئی میری مخالفت کرے گا ) تو اس کو سزا دوگا ۔ اسی طرح حضرت عمر نے اس صحابی کو نماز پڑھنے سے روگ دیا جو رات کو مجنب ہوگیا تھا ۔ اور غسل کے لئے پانی اس کو نہیں ملا تھا ۔ حالانکہ قرآن کا حکم ہے :
" فان لم تجدوا ماءا فتیمموا صعیدا طیبا "
اگر تم کو پانی نہ ملے تو پاک مٹی پر تیمم کر لیا کرو ۔۔۔۔۔ مگر نماز کو نہ چھوڑو ،
بخاری نے (اگر مجنب کو اپنی ذات کے لئے خطرہ ہو) کے باب میں روایت کی ہے کہ راوی کہتا ہے: میں نے شقیق بن سلمہ سے سنا وہ کہہ رہے تھے :
ایک مرتبہ میں عبداللہ اور ابو موسی کے پاس تھا کہ ابو موسی نے کہا :
اے ابا عبدالرحمان اگر کوئی مجنب ہوجائے اور غسل کے لئے پانی نہ ملے تو وہ کیا کرے ؟
عبداللہ (ابا عبدالرحمان ) نے کہا جب تک پانی نہ ملے نماز تر ک کردے ۔ اس پر ابو موسی نے کہا پھر عمار کے قول کو کیا کروگے کہ آنحضرت نے فرمایا تھا: عمار بس یہ کافی ہے ۔
عبداللہ نے کہا:
مگر عمر اس بات سے مطمئن نہیں ہوپائے تھے اس پر ابو موسی نے کہا:
خیر عمار کے قول کو جانے دو اس آیۃ
(ان لم تجدوا الخ)
کے بارے میں کیا کہوگے ؟
یہ با ت سن کر عبداللہ کوئی جواب تو نہیں دے سکے مگر اتنا کہا :
اگر پانی نہ ملنے کی صورت میں ہم تیمم کی اجازت دیدیں تو خطرہ یہ ہے کہ اگر کسی کو سردی محسوس ہورہی ہے تو وہ بھی پانی چھوڑ کر تیمم کرلیا کرے گا اس پر میں نے شقیق سے کہا :
تو پھر اسی وجہ سے عبداللہ نے کراہت کی تھی ؟ کہا :- ہاں ! ۔
(بخاری ج 1 ص 54)