"صحابہ سے اللہ ہمیشہ راضی ’’ کیا قرآنی نظریہ ہے ؟
"صحابہ سے اللہ ہمیشہ راضی ’’ کیا قرآنی نظریہ ہے ؟
سوال کیا :
إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ
سے سارے اصحاب کی عدالت اور اللہ کا ہمیشہ ان پر راضی رہنا ثابت ہوگا؟
جواب :
اہل سنت جن آیات سے تمام اصحاب کے عادل ہونے اور بیعت رضوان میں شریک سب پر اللہ کے ہمیشہ اور دائمی طور پر راضی رہنے پر استدلال کرتے ہیں وہ سوره فتح کی ۱۸ نمبر آیت ہے:
لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنْزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا . الفتح / 18 .
یقیناً اللہ تعالیٰ مومنوں سے خوش ہوگیا جبکہ وه درخت تلے تجھ سے بیعت کر رہے تھے ۔ ان کے دلوں میں جو تھا اسے اس نے معلوم کر لیا اور ان پر اطمینان نازل فرمایا اور انہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی..
پہلا جواب:
یہ ایت سارے اصحاب کو شامل نہیں ہے ؛ یہ زیادہ سے زیادہ ان اصحاب کو شامل ہے کہ جو اس وقت حاضر تھے ،اہل سنت کے علماﺀ کے قول کے مطابق ان کی تعداد 1300 سے 1400 تھی ؛ جیساکہ محمد بن اسماعيل بخاري نے لکھا ہے :
4463 ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ كُنَّا يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ أَلْفًا وَأَرْبَعَ مِائَةٍ .
صحيح البخاري ، ج6 ، ص45 .
جابر بن عبد اللہ انصاری سے نقل ہوا ہے کہ حدیبیہ کے دن ہم ، 1400.لوگ تھے ۔
اس تعداد کو آگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے وقت کے اصحاب کے ساتھ موازنہ کرئے تو یہ ان کی نسبت سے زیادہ سے زیادہ دو فیصد ہیں کیونکہ ان کی وفات کے وقت ایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ اصحاب تھے ۔لہذا اس آیت سے سارے اصحاب کی عدالت اور سارے اصحاب سے اللہ کے راضی ہونے پر استدلال نہیں کرسکتے کیونکہ یہاں دلیل خاص اور مدعا عام ہے۔
دوسرا جواب :
یہ آیت بیعت رضوان کے وقت موجود سارے لوگوں کو بھی شامل نہیں ہے ، یہ آیت صرف ان لوگوں کو شامل ہیں کہ جن لوگوں نے قلبی ایمان کے ساتھ آپ کی بیعت کی ہو۔
کیونکہ اللہ نے اپنی رضایت کو ایمان کے ساتھ مشروط کیا ہے .
« رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ »
لہذا اگر شرط منتفی ہو تو مشروط بھی منتفی ہوگا ۔ ایمان نہیں تو رضایت بھی نہیں۔
اگر واقعی اور قلبی ایمان مقصود نہ ہوتا تو اللہ :
« لقد رضي الله عن الذين يبايعونك ... » فرماتا « رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ » نہ فرماتا ۔
دوسرے الفاظ میں :
اس آیت سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ بیعت کرنے والے سارے مومنین سے راضی ہوا ہے ،لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوگا کہ بیعت کرنے والے سارے حقیقی مومن تھے ۔
لہذا اللہ نے
« رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ »
کہہ کر عبد اللہ بن ابی جیسے منافقوں اور ایمان میں شک کرنے والوں کو اس رضایت سے خارج کیا، کیونکہ منافقت اور شک کے ساتھ کی ہوئی بیعت حقیقی بیعت نہیں ہے ۔
اسی طرح یہ آیت ان مومنوں کو بھی شامل نہیں ہے کہ جو اس بیعت کے وقت حاضر نہیں تھے ۔
یہ آیت جناب عمر جیسے لوگوں کو بھی شامل نہیں ہے۔ کیونکہ جناب عمر نے صلح حدبیہ کے وقت اور اس کے بعد آنحضرت ص کی نبوت میں شک کیا ۔۔۔ لہذا ان کی بیعت حقیقی بیعت نہیں ہے ،جیساکہ جناب عمر کا نبوت میں شک کرنے والا واقعہ مشہور ہے اور اہل سنت کی معتبر کتابوں میں یہ واقعہ ذکر ہوا ہے ،اس کا خلاصہ یہ ہے ۔
آنحضرت نے ایک سچا خواب دیکھا ، کہ آپ مکہ میں داخل ہوئے ہیں اور اصحاب کے ساتھ اللہ کے گھر کی طواف میں مصروف ہیں ۔
آپ نے اصحاب کو اس کے بارے میں بتایا ،اصحاب نے اس کی تعبیر کے بارے میں سوال کیا تو آُپ نے فرمایا : انشاﺀ اللہ بہت جلد مکہ میں داخل ہوں گے اور عمرہ کے اعمال انجام دیں گے ، لیکن آپ نے وقت کا تعین نہیں فرمایا۔
لوگ سفر کے لئے تیار ہوئے اور جب حدیبیہ کے مقام تک پہنچے تو کفار کو پتہ چلا ،کفار مسلح ہوکر آئے اور مکہ میں داخل ہونے سے منع کیا ۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنگ کرنے کی نیت سے نہیں نکلے تھے ۔ لہذا ایک صلح نامے پر دستخط کیا ،جس کے مطابق اس سال مسلمان واپس جائیں گے اور آگلے سال کسی رکاوٹ کے بغیر مکہ میں داخل ہو کر عمرہ کے اعمال انجام دیں گے ۔۔۔
لیکن یہ مطلب جناب عمر اور ان کے ہمفکر دوسرے لوگوں پر گراں گزرا ، جناب عمر کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت میں شک ہوا اور آُپ کے ساتھ سخت لہجے میں بات کرنا شروع کیا:
. ذهبي نے تاريخ الإسلام میں اس واقعے کو اس طرح نقل کیا ہے ؛
... فقال عمر : والله ما شككت منذ أسلمت إلا يومئذ ، فأتيت النبي صلي الله عليه وسلم فقلت : يا رسول الله ، ألست نبي الله قال : بلي قلت : ألسنا علي الحق وعدونا علي الباطل قال : بلي قلت : فلم نعطي الدنية في ديننا إذا قال : إني رسول الله ولست أعصيه وهو ناصري . قلت : أولست كنت تحدثنا أنا سنأتي البيت فنطوف حقا قال : بلي ، أفأخبرتك أنك تأتيه العام قلت : لا . قال : فإنك آتيه ومطوف به ... .
تاريخ الإسلام ، الذهبي ، ج 2 ، ص 371 - 372 و صحيح ابن حبان ، ابن حبان ، ج 11 ، ص 224 و المصنف ، عبد الرزاق الصنعاني ، ج 5 ، ص 339 - 340 و المعجم الكبير ، الطبراني ، ج 20 ، ص 14 و تفسير الثعلبي ، الثعلبي ، ج 9 ، ص 60 و الدر المنثور ، جلال الدين السيوطي ، ج 6 ، ص 77 و تاريخ مدينة دمشق ، ابن عساكر ، ج 57 ، ص 229 و ... .
عمر نے کہا : اللہ کی قسم جب سے اسلام قبول کیا ہے اس وقت سے سواے آج کے دن کے ،میں نے {نبوت} میں شک نہیں کیا ہے۔ اس شک کے بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آیا اور ان سے کہا :کیا ہم حق پر اور ہمارے دشمن باطل پر نہیں ہیں ؟
آپ نے فرمایا : ہاں ایسا ہی ہے۔ میں نے کہا :
پھر کیوں ہم اپنے دین پر دھبہ لگائیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:میں اللہ کا رسول ہوں، میں اپنے رب کی نافرمانی نہیں کرتا ہوں۔ اللہ میرا ناصر ہے ۔ پھر میں نے کہا :
کیا آپ نے ہی یہ نہیں فرمایا تھا : کہ ہم عنقریب اللہ کے گھر میں داخل ہوں گے اور اس کی زیارت اور طوف کریں گے؟
آپ نے فرمایا: کیا میں نے یہ کہا تھا کہ یہ اس سال ہی یہ ہوگا؟ میں نے کہا : نہیں ۔ پھر آپ نے فرمایا: تم ضرور مکہ میں داخل ہوگا اور اللہ کے گھر کا طواف کرے گا۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ جناب عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بات پر یقین نہیں کرتا ہے بلکہ اپنے درینہ دوست جناب ابوبکر کی بات پر اعتما کرتا ہے ،جو باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آؒلہ وسلم کو بتایا ،انہیں باتوں کو جناب ابوبکر کے سامنے بیان کیا ہے ،اس سے بھی عجیب بات یہ ہے کہ جناب ابوبکر ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جواب کو ہی ان کے جواب میں تکرار کرتے ہیں !
یہ روایت صحیح مسلم اور بخاری میں بھی نقل ہوئی ہے لیکن ان دونوں نے اپنی عادت کے مطابق ،جناب خلیفہ کی عزت بچانے کی کوشش کی ہے اور امانت داری سے کام لینے کے بجائے « والله ما شككت منذ أسلمت إلا يومئذ » کو کاٹ کر روایت کو اپنی مرضی کے مطابق نقل کیا ہے .
بخاری نے اس واقعے کو اس طرح نقل کیا ہے: عن أَبي وَائِل، قَالَ كُنَّا بِصِفِّينَ فَقَامَ سَهْلُ بْنُ حُنَيْف فَقَالَ:أَيُّهَا النَّاسُ اتَّهِمُوا أَنْفُسَكُمْ فَإِنَّا كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلي الله عليه وسلم يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ، وَلَوْ نَرَي قِتَالاً لَقَاتَلْنَا، فَجَاءَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَسْنَا عَلَي الْحَقِّ وَهُمْ عَلَي الْبَاطِلِ فَقَالَ: بَلَي. فَقَالَ أَلَيْسَ قَتْلاَنَا فِي الْجَنَّةِ وَقَتْلاَهُمْ فِي النَّارِ قَالَ: بَلَي. قَالَ فَعَلَي مَا نُعْطِي الدَّنِيَّةَ فِي دِينِنَا أَنَرْجِعُ وَلَمَّا يَحْكُمِ اللَّهُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ فَقَالَ: ابْنَ الْخَطَّابِ، إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ، وَلَنْ يُضَيِّعَنِي اللَّهُ أَبَدًا ۔
فَانْطَلَقَ عُمَرُ إِلَي أَبِي بَكْر فَقَالَ لَهُ مِثْلَ مَا قَالَ لِلنَّبِيِّ صلي الله عليه و آلہ و سلم فَقَالَ إِنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ، وَلَنْ يُضَيِّعَهُ اللَّهُ أَبَدًا. فَنَزَلَتْ سُورَةُ الْفَتْحِ، فَقَرَأَهَا رَسُولُ اللَّهِ صلي الله عليه و آلہ وسلم عَلَي عُمَرَ إِلَي آخِرِهَا. فَقَالَ عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَوَفَتْحٌ هُوَ قَالَ: نَعَمْ.
البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 3، ص 1162، ح3011، كتاب الجهاد والسير، بَاب إِثْمِ من عَاهَدَ ثُمَّ غَدَرَ، تحقيق: د. مصطفي ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407هـ - 1987م.
النيسابوري، مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري (متوفاي261هـ)، صحيح مسلم ج 3، ص 1411، ح 1785، كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ، بَاب صُلْحِ الْحُدَيْبِيَةِ في الْحُدَيْبِيَةِ، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.
سہل بن حنیف صفین کے روز (جب علی علیہ السلام اور معاویہ میں جنگ تھی) کھڑے ہوئے اور کہا: اے لوگو!
اپنا قصور سمجھو۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ تھے جس دن حدیبیہ کی صلح ہوئی، اگر ہم لڑائی چاہتے تو ہم لڑتے۔ تو عمر آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم !
کیا ہم سچے دین پر نہیں ہیں اور کافر جھوٹے دین پر نہیں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و ا آلہ و سلم نے فرمایا:
”کیوں نہیں۔“ پھر انہوں نے کہا، ہم میں جو مارے جائیں کیا وہ جنت میں نہیں جائیں گے۔ اور ان میں جو مارے جائیں کیا وہ جہنم میں نہیں جائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
”کیوں نہیں۔ عمر بن خطاب نے کہا: پھر کیوں ہم اپنے دین پر دھبہ لگائیں اور لوٹ جائیں اور ابھی اللہ نے ہمارا اور ان کا فیصلہ نہیں کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
”اے خطاب کے بیٹے! میں اللہ کا رسول ہوں مجھے اللہ کبھی تباہ نہیں کرے گا۔“
وہ ابوبکر کے پاس گیا اور ان سے کہا: اے ابوبکر!
کیا ہم حق پر نہیں ہیں اور وہ باطل پر نہیں ہیں؟
ابو بکر نے کہا: کیوں نہیں۔ انہوں نے کہا: ہمارے مقتول جنت میں نہ جائیں گے اور ان کے مقتول جہنم میں نہیں جائیں گے؟
ابوبکر نے کہا: کیوں نہیں۔ انہوں نے کہا: پھر کیوں ہم اپنے دین کا نقصان کریں اور لوٹ جائیں اور ابھی اللہ تعالیٰ نے ہمارا ان کا فیصلہ نہیں کیا ۔
ابو بکر نے کہا: اے خطاب کے بیٹے!
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، اللہ کے رسول ہیں۔ اللہ ان کو کبھی تباہ نہیں کرے گا ۔اور پھر سورہ فتح نازل ہوا ») آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عمر کے لئے سورہ کو آخر تک تلاوت فرمایا ۔عمر نے کہا : یارسول اللہ! یہ صلح فتح ہے ہماری؟
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔
دوسری روایت میں اس طرح آیا ہے :
فَرَجَعَ مُتَغَيِّظًا، فَلَمْ يَصْبِرْ حَتَّي جَاءَ أَبَا بَكْر فَقَالَ يَا أَبَا بَكْر أَلَسْنَا عَلَي الْحَقِّ... فَنَزَلَتْ سُورَةُ الْفَتْحِ.
البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 4، ص 1832، ح4563، كِتَاب التفسير، بَاب إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ، تحقيق: د. مصطفي ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407هـ - 1987م.
یہ سن کر عمر چلے اور غصہ کے مارے صبر نہ ہو سکا اور ابوبکر کے پاس آیا اور وہی سوال کیا ۔۔۔۔ پھر سورہ فتح نازل ہوا۔
سوال یہ ہے کہ جناب عمر نے کیوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بات پر اعتماد نہیں کیا اور جب تک ابوبکر کے پاس جاکر ان کی بات نہ سنی اس وقت تک مطمئن نہیں ہوا؟
کیا خلیفہ دوم نے یہاں پر ذیل کی آیت کی مخالفت نہیں کی؟
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِن وَلاَ مُؤْمِنَة إِذَا قَضَي اللهُ وَرَسُولُهُ أَمْراً أَنْ يَكُونَ لَهُمْ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلا مُبِيناً. الأحزاب/36.
اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو حق نہیں ہے کہ جب خدا اور اس کا رسول کوئی امر مقرر کردیں تو وہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں۔ اور جو کوئی خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہ ہوگیا۔
محمد بن عمر بن واقدي کہ جو اہل سنت کے مشہور مورخ ہیں، انہوں نے نقل کیا ہے :
. . . فكان ابن عباس رضي اللّه عنه يقول : قال لي في خلافته ]يعني عمر[ وذكر القضية : إرتبت ارتياباً لم أرتبه منذ أسلمت إلا يومئذ ، ولو وجدت ذاك اليوم شيعة تخرج عنهم رغبة عن القضية لخرجت .
ابن عباس کہتا ہے کہ : عمر بن خطاب نے اپنی خلافت کے ایام میں اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا :اس دن رسول اللہ (ص)کی نبوت میں اس حد تک شک کیا کہ میرے اسلام لانے کے بعد کبھی ایسا شک نہیں کیا تھا۔اگر اس دن ایسے افراد مل جاتے جو میری اطاعت کرتے اور آزادانہ اس معاہدے سے خارج ہوتے تو میں بھی خارج ہوتا ۔اللہ کی قسم اس دن رسول اللہ (ص)کی نبوت میں اتنا شک کیا کہ میں اپنے آپ سے کہتا تھا : اگر سو افراد بھی میرے ساتھ ہوتے تو میں اس معاہدے سے نکل جاتا۔ اور اس کو قبول نہیں کرتا۔
واقدي نے ابو سعيد خدري نے نقل کیا ہے کہ عمر نے اس سے کہا :
... والله لقد دخلني يومئذٍ من الشك حتي قلت في نفسي : لو كنا مائة رجلٍ علي مثل رأيي ما دخلنا فيه أبداً ! .
كتاب المغازي ، الواقدي ، ج 1 ، ص 144 ، باب غزوة الحديبية ، طبق برنامه المكتبة الشاملة ، الإصدار الثاني ، مزید تفصیلات اس کتاب اور اس سائٹ پر موجود ہے . alwarraq.com .
اللہ کی قسم اتنا مجھے شک ہوا تھا کہ اگر مجھے ۱۰۰ ہمفکر مل جاتے تو میں ہرگز اس معاہدے کو قبول نہیں کرتا ۔۔۔.
اب کیا اللہ ایسے شخص سے اپنے دائمی رضائت کا اعلان کرسکتا ہے ؟
کیا قلبی ایمان سے عاری ہو اور نبوت میں شک کرتا ہو تو یہ چیز اللہ کی دائمی رضایت کے ساتھ قابل جمع ہے ؟!
تیسرا جواب :
یہ رضایت دائمی رضایت نہیں ہوسکتی ۔
یہ رضایت دائمی اور ابدی رضایت نہیں ہوسکتی یا اسی طرح یہ آیت اس وقت موجود سب لوگوں کے اچھے انجام کی ضمانت نہیں ہوسکتی ۔
اس سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے اس وقت بیعت کی تو اللہ ان کے اس کام کی وجہ سے راضی ہوا ۔لہذا رضایت کی علت بھی اس دن کا عہد و پیمان ہے اور بیعت ہی ہے ۔
دوسرے الفاظ میں :
اللہ کی یہ رضایت اس وقت تک باقی ہے کہ جب تک اس کی علت{بیعت اور عہد وپیمان }باقی رہے اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہ آئے۔ کیونکہ اللہ کی رضایت بیعت کرنے والوں سے اس کی علت کی وجہ سے ہے۔جب تک علت ہو اس وقت تک معلول بھی باقی رہے گا۔ کیونکہ معلول کا وجود علت کے وجود کی وجہ سے ہے۔
یہاں اللہ کی رضایت اس کام کی وجہ سے ہے جو اس دن انجام دیا ،لہذا اس عمل کے بغیر خود لوگوں پر اللہ کی رضایت کو آیت بیان نہیں کرتی ۔ یعنی جب تک وہ عمل باقی رہے، عمل انجام دینے والے پر اللہ راضی رہے گا لیکن اگر اس عمل کو گناہ کی وجہ سے ختم کرئے تو پھر اللہ کی رضایت بھی ختم ہوگی ۔۔
مذکورہ مطلب پر بہترین دلیل یہ والی آیت ہے:
إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَليَ نَفْسِهِ وَ مَنْ أَوْفيَ بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا . الفتح / 10 .
بیشک جو لوگ آپ کی بیعت کرتے ہیں وہ درحقیقت اللہ کی بیعت کرتے ہیں اور ان کے ہاتھوں کے اوپر اللہ ہی کا ہاتھ ہے اب اس کے بعد جو بیعت کو توڑ دیتا ہے وہ اپنے ہی خلاف اقدام کرتا ہے اور جو عہد الٰہٰی کو پورا کرتا ہے خدا عنقریب اسی کو اجر عظیم عطا کرے گا ۔
اس آیت میں اللہ واضح اندار میں فرماتا ہے کہ جو اللہ سے کیے عہد وپیمان کو توڑ دے وہ گویا اپنے کو ہی نقصان پہنچا رہا ہے ۔
اللہ اس عہد و پیمان کا اجر و ثواب اسی کو دے گا جو اس پر قائم رہے ہو اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی ہو ۔
لہذا آیت میں موجود اللہ کی رضایت صرف اسی کو حاصل رہے گی کہ جس نے اس دن بیعت کی ہو اور زندگی کے آخری لمحات تک اس عہد کی وفاء کی ہو ۔کیونکہ اگر یہ رضایت دائمی ہی ہوتی تو اللہ کو یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی:
" فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ "؟
کیا نعوذ باللہ اس جملے کو کہنا لغو اور بے ہودہ ہے ؟
یہی مطلب بہت سی احادیث سے بھی ثابت ہوتا ہے ۔ جیساکہ مالک بن انس نے "موطاء" میں اور ابن عبد البر نے "الاستذکار" میں اور ابن اثیر جزری نے "جامع الاصول" میں لکھا ہے:
عَنْ أَبِي النَّضْرِ مَوْلَي عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِشُهَدَاءِ أُحُدٍ هَؤُلاءِ أَشْهَدُ عَلَيْهِمْ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ أَلَسْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ بِإِخْوَانِهِمْ أَسْلَمْنَا كَمَا أَسْلَمُوا وَجَاهَدْنَا كَمَا جَاهَدُوا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَلَي وَلَكِنْ لا أَدْرِي مَا تُحْدِثُونَ بَعْدِي فَبَكَي أَبُو بَكْرٍ ثُمَّ بَكَي....
مالك بن أنس أبو عبدالله الأصبحي (متوفاي179هـ)، موطأ الإمام مالك، ج 2، ص 461، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - مصر.
النمري القرطبي، أبو عمر يوسف بن عبد الله بن عبد البر (متوفاي 463هـ)، الاستذكار الجامع لمذاهب فقهاء الأمصار، ج 5، ص 104، تحقيق: سالم محمد عطا - محمد علي معوض، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي، 2000م.
الجزري، المبارك بن محمد ابن الأثير (متوفاي544هـ)، معجم جامع الأصول في أحاديث الرسول، ج 9، ص 510.
رسول خدا صلي الله عليه وآله وسلم نے احد کے شہداء سے خطاب میں یہ فرمایا:میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ لوگ میرے بھائی اور نیک لوگ تھے۔ ابوبکر نے کہا :کیا ہم بھی ان کے بھائی نہیں تھے؟ ہم بھی ان کی طرح مسلمان ہوئے اور ہم نے بھی ان کی طرح اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ہاں ایسا ہے ۔لیکن یہ معلوم نہیں کہ تم لوگ میرے بعد کیا کروگے{ اللہ کے دین کے ساتھ کیا کروگے} ابوبکر یہ سن کر رونے لگا۔
یہ حدیث واضح طور پر بیان کرتی ہے جناب ابوبکر جیسے لوگوں کی عاقبت بخیری کے لئے یہ شرط ہے کہ یہ لوگ بعد میں اس بیعت کو نہ توڑے اور ایسا کام انجام نہ دئے کہ جس کی وجہ سے اللہ کی رضایت غضب میں تبدیل نہ ہو .
چوتھا جواب :
بیعت کرنے والے اصحاب میں سے بعض نے بیعت شکنی کا اعتراف کیا ہے جیساکہ براء بن عازب ، ابو سعيد خدري اور عايشه وغیرہ نے اس چیز کا اعتراف کیا ہے .
الف : امام بخاری نے اپنی کتاب الصحیح میں نقل کیا ہے ۔
عَنْ الْعَلاءِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ لَقِيتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَقُلْتُ طُوبَي لَكَ صَحِبْتَ النَّبِيَّ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَايَعْتَهُ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَقَالَ يَا ابْنَ أَخِي إِنَّكَ لا تَدْرِي مَا أَحْدَثْنَا بَعْدَهُ.
البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 4، ص 1529، ح393، كِتَاب الْمَغَازِي، بَاب غَزْوَةِ الْحُدَيْبِيَةِ، تحقيق: د. مصطفي ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407هـ - 1987م.
علاء بن مسيب نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ براء بن عازب سے ملاقات ہوئی۔ میں نے اس سے کہا :
آپ تو خوش نصیب ہو۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ رہے اور درخت کے نیچے آپ کی بیعت بھی کی ۔براء بن عازب نے جواب میں کہا :
میرے بھائی کے فرزند! تمہیں معلوم نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد ہم نے کیا بدعتیں ایجاد کی۔
براء بن عازب بیعت رضوان میں موجود بزرگ اصحاب میں سے ہیں ،انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد بدعت انجام دینے کا اعتراف کیا ہے لہذا یہ اعتراف اس بات پر بہترین دلیل ہے کہ اللہ کی یہ رضایت دائمی اور ابدی نہیں ہے ۔
ب : أبي سعيد الخدري کا اعتراف :
ابن حجر عسقلاني وغیرہ نے نقل کیا ہے :
عن العلاء بن المسيب عن أبيه عن أبي سعيد قلنا له هنيئا لك برؤية رسول الله صلي الله عليه وسلم وصحبته قال إنك لا تدري ما أحدثنا بعده.
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، الإصابة في تمييز الصحابة، ج 3، ص 79، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولي، 1412هـ - 1992م
المقدسي، محمد بن طاهر (متوفاي507 هـ)، ذخيرة الحفاظ، ج 5، ص 2583، رقم 6003، تحقيق: د.عبد الرحمن الفريوائي، ناشر: دار السلف - الرياض، الطبعة: الأولي، 1416 هـ -1996م
علاء بن مسيب نے اپنے باپ سے، اس کے باپ نے ابوسعيد سے نقل کیا ہے کہ میں نے ابوسعید سے کہا :
خوش نصیب ہو ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو آپ نے دیکھا ہے اور آپ ان کے صحابی ہیں ۔ ابوسعيد نے جواب میں کہا :
تہمیں معلوم نہیں کہ رسول اللہ (ص) کے بعد ہم نے کیا کیا بدعتیں ایجاد کی ہیں ۔
ج : جناب عايشه کا اعتراف :
ذهبي نے سير اعلام النبلاء میں لکھا ہے:
عن قيس، قال: قالت عائشة... إني أحدثت بعد رسول الله صلي الله عليه وسلم حدثا، ادفنوني مع أزواجه. فدفنت بالبقيع رضي الله عنها.
الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 2، ص 193، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.
الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبري، ج 8، ص 74، ناشر: دار صادر - بيروت.
قيس نے جناب عايشه سے نقل کیا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کے بعد بہت سی بدعتیں ایجاد کی ہیں ۔محھے ان کی ازواج کے ساتھ دفن کرئے ۔ اسی لئے انہیں بقیع میں دفن کیا گیا ۔
یہ روایت طبقات ابن سعد میں بھی نقل ہے
حاکم نیشاپوری نے بھی اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:
هذا حديث صحيح علي شرط الشيخين ولم يخرجاه.
النيسابوري، محمد بن عبدالله أبو عبدالله الحاكم (متوفاي405 هـ)، المستدرك علي الصحيحين، ج 4، ص 7، تحقيق مصطفي عبد القادر عطا، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي، 1411هـ - 1990م
یہ حدیث شیخین کی شرط کے مطابق صحیح سند ہے لیکن ان دونوں نے اس کو نقل نہیں کیا ہے۔
ابن أبي شيبه كوفي نے اپنی كتاب المصنف میں لکھا ہے :
حدثنا أبو أُسَامَةَ حدثنا إسْمَاعِيلُ بن أبي خَالِدٍ عن قَيْسٍ قال قالت عَائِشَةُ لَمَّا حَضَرَتْهَا (متوفاي ادْفِنُونِي مع أَزْوَاجِ النبي صلي الله عليه وسلم فَإِنِّي كُنْت أُحْدِثُ بَعْدَهُ
إبن أبي شيبة الكوفي، أبو بكر عبد الله بن محمد (متوفاي235 هـ)، الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار، ج3، ص34، ح 11857، تحقيق: كمال يوسف الحوت، ناشر: مكتبة الرشد - الرياض، الطبعة: الأولي، 1409هـ.
موت کا وقت جب نذدیک ہوا تو انہوں نے کہا :
مجھے رسول اللہ (ص) کی ازواج کے ساتھ دفن کرئے۔ میں نے رسول اللہ (ص) کے بعد بہت سی بدعتیں انجام دی ہے۔
یہ روایت سند کے اعتبار سے ٹھیک ہے اس کے سارے راوی بخاری ،مسلم اور صحاح ستہ کے راوی ہیں.
کیا اصحاب کی بدعت گزاری کے ان اعترافات کے بعد یقینی طور پر کہہ سکتا ہے کہ یہ آیہ تمام اصحاب کو شامل ہے اور اللہ کی طرف سے ان کے لئے دائمی رضایت کا اعلان ہوا ہے؟
جناب عثمان ، جناب عمار یاسر کے قاتل اور عہد و پیمان کی خلاف ورزی کرنے والوں پر اللہ راضی ہوگا ؟
جیساکہ ان بیعت کرنے والے جناب عثمان اور جناب عمار یاسر کے قاتل میں شریک تھے ۔
اسی طرح اس بیعت رضوان کے دن جنگ سے فرار نہ کرنے کا عہد و پیمان لیا تھا ،بعض لوگوں نے اس عہد و پیمان کی پاسداری نہیں کی اور بعد میں جنگوں سے فرار ہوئے ۔ لہذا یہ رضایت خود بخود خم ہوجاتی ہے ۔۔۔۔۔۔
«آیت آيه السابقون الأولون کی تحقیق »
میں’’ سارے اصحاب جنتی ،سارے اصحاب پر اللہ ہمیشہ راضی [ اہل سنت کا مضبوط قلعہ ]’’ کے عنوان سے ان چیزوں پر تفصیلی بحث کی ہے ۔۔
رجوع کریں ۔valiasr-aj.com/urdu/shownews.php
اب یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ بیعت رضوان میں شریک سارے افراد ،ہمیشہ کے لئے گمراہی سے نجات ہافتہ ہوں اور اللہ ہمیشہ ان پر راضی ہو اور یہ سب جنت کے مستحق ہوں ؟
پانچوں جواب :
:اللہ کی صفات کی دو قسم ہیں ،
ذاتی صفات اور فعلی صفات ؛
بیعت کرنے والوں سے اللہ کی رضایت اس وقت دائمی ہوسکتی ہے کہ جب رضایت اللہ کی ذاتی صفات میں سے ہو ،جبکہ اھل سنت کے بزرگ علماء کے اعتراف کے مطابق رضایت اللہ کی فعلی صفات میں سے ہے۔
صفات ذات یا ذاتی صفات وہ صفات ہیں کہ جو ازلی اور ابدی ہیں جیسے علم و قدرت ۔لیکن صفات فعل یا فعلی اس طرح نہیں ہیں جیسے رضایت ،جیساکہ فخر رازي اس سلسلے میں لکھتا ہے :
والفرق بين هذين النوعين من الصفات وجوه. أحدها: أن صفات الذات أزلية، وصفات الفعل ليست كذلك. وثانيها: أن صفات الذات لا يمكن أن تصدق نقائضها في شيء من الأوقات، وصفات الفعل ليست كذلك. وثالثها: أن صفات الفعل أمور نسبية يعتبر في تحققها صدور الآثار عن الفاعل، وصفات الذات ليست كذلك.
اللہ کی ان دو صفات ( ذات و فعل) میں کچھ فرق ہے:
1. صفات ذات اللہ کی دائمی اور ازلی صفات ہیں جبکہ صفات فعل ایسا نہیں ہیں؛
2. اللہ کی نسبت سے صفات ذات،کی ضد اور نقیض سے اللہ متصف نہیں ہوسکتا {مثلا علم کے مقابلے میں جہالت}لیکن صفات فعل اس طرح نہیں ،لہذا ممکن ہے اللہ اس کے ضد سے بھی متصف ہو
3. صفات فعل نسبي ہیں کہ کبھی اس صفت کے وجود میں آنے کے لئے فاعل سے کسی کام کا انجام پانا ضروری ہے لیکن صفات ذاتی اس طرح نہیں ہے
{یہ دائمی اور ابدی ہیں۔
{لہذا ممکن ہے اللہ ایک دفعہ کسی کام کی وجہ سے راضی ہو لیکن اگر غلط کام انجام دے تو اللہ اسے سے ناراض ہو}
الرازي الشافعي، فخر الدين محمد بن عمر التميمي (متوفاي604هـ)، التفسير الكبير أو مفاتيح الغيب، ج 4، ص 62، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي، 1421هـ - 2000م.
ابن حجر عسقلاني اس سلسلے میں لکھتا ہے:
ومعني قوله ولا يرضي أي لا يشكره لهم ولا يثيبهم عليه فعلي هذا فهي صفة فعل.
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج 11، ص 404، تحقيق: محب الدين الخطيب، ناشر: دار المعرفة - بيروت.
اللہ کے اس قول « ولا يرضي » کا معنی کسی کام کے انجام دینے کے بعد ان کی قدردانی نہ کرنا اور ثواب نہ دینا ہے۔لہذ یہ راضی ہونا یا نہ ہونا اللہ کی فعلی صفات میں سے ہے ۔
اللہ کی طرف رضا يا غضب کی نسبت کا معنی کسی حالت کا نفس پر حادث یا عارض ہونا نہیں ہے بلکہ ثواب اور اجر دینا ہے۔ کیونکہ نفس پر ایک حالت کا طاری ہونا اور عارض ہونا اللہ کی نسبت سے ناممکن ہے ۔کیونکہ اس سے اللہ کا بھی حوادث کاشکار ہونا لازم آتا ہے ۔لہذا رضایت اور غضب فعلی صفات میں سے ہیں ، ذاتی صفات میں سے نہیں ہیں ۔ اور جب یہ فعلی صفات میں سے ہو تو دائمی نہیں ہوگی۔
دوسرے الفاظ میں یوں کہنا صحیح ہے کہ اللہ بیعت رضوان والوں کے اس کام کی وجہ سے راضی ہوا لیکن اگر بیعت رضوان والوں میں سے کسی نے کسی کو بے جرم قتل کیا یا ان میں سے کوئی مرتد ہوا ہو یا کوئی جھوٹ ،تہمت ،چوری جیسے برے کاموں کے مرکب ہوئے ہوں تو بیعت رضوان والی بیعت پر رضایت کی وجہ سے ان کاموں کے انجام دینے کے بعد بھی اللہ کی ان پر رضایت ثابت نہیں ہوگی ۔ مثلا ایک نے حج انجام دیا تو اللہ راضی ہوگا،واپسی پر کسی کا ناحق مال کھایا تو اللہ ناراض ہوگا ،ایسا نہیں ہے کہ حج انجام دینے پر رضایت کی وجہ سے ناحق مال کھانے پر بھی اللہ راضی ہو ۔۔۔۔
جیساکہ کسی آیت میں کسی صحابی کو عصمت کی ڈگری نہیں دی ہے اور ان میں سے کسی کو آئندہ زندگی میں برئے کام کے انجام دینے سے دوری کی ضمانت نہیں دی ہے ۔
اسی طرح کسی آیت میں انہیں کھلی چھوٹ بھی نہیں دی ہے مثلا مذکورہ آیت اور کسی دوسری آیت میں ایسا نہیں کہا ہے کہ کیونکہ ان لوگوں نے بیعت رضوان میں شرکت کی ہے اور اللہ نے اللہ کی رضایت حاصل کی ہے لہذا ان لوگوں کے لئے کھلی چھوٹ ہے وہ کسی کو قتل بھی کرئے یا ان میں سے کوئی مرتد بھی ہوجائے پھر بھی اللہ ان لوگوں پر راضی ہی رہے گا اور ان کا ٹھکانہ جنت ہی ہوگا ۔۔۔۔۔
جیساکہ قرآن کی دوسری آیت کے مطابق کسی برئے کام کی وجہ سے ممکن ہے سابقہ کی نیکیاں سب ختم ہوجایں ۔
جیساکہ سورہ حجرات میں خود اصحاب سے سے یوں خطاب ہوا ہے
اَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَرۡفَعُوۡۤا اَصۡوَاتَکُمۡ فَوۡقَ صَوۡتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجۡہَرُوۡا لَہٗ بِالۡقَوۡلِ کَجَہۡرِ بَعۡضِکُمۡ لِبَعۡضٍ اَنۡ تَحۡبَطَ اَعۡمَالُکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَشۡعُرُوۡنَ﴿۲﴾
۲۔ اے ایمان والو!
اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نبی کے ساتھ اونچی آواز سے بات نہ کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے اونچی آواز میں بات کرتے ہو کہیں تمہارے اعمال حبط ہو جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔
نتيجه:
لہذا یہ آیت سارے اصحاب کو شامل نہیں ہے ،بلکہ اس دن موجود اصحاب کو ہی شامل ہیں
وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ یہ اصحاب اپنے عہد و پیمان کے ساتھ وفادار رہے ہوں اور ایسا کام انجام نہیں دیا ہو کہ جس کہ وجہ سے اللہ کی رضایت اللہ کے غضب میں تبدیل ہو۔۔۔