عدالت صحابہ کا نظریہ، مکتب اہل بیت کی نظر میں
- شائع
-
- مؤلف:
- حجۃ الاسلام سید عبد الرحیم موسوی: ترجمہ: حجۃ الاسلام شیخ محمد علی توحیدی
- ذرائع:
- عالمی مجلس اہل بیت(ع)
عدالت صحابہ کا نظریہ، مکتب اہل بیت کی نظر میں
عدالت صحابہ کے نظرئے سے یہ مراد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر صحابی (خواہ وہ نہایت مختصر مدت کے لیے صحابی رہا ہو ) عادل ہے ۔وہ جھوٹ نہیں بولتا اور عمداً خطا نہیں کرتا ۔اس کے قول و عمل اور اس کی روایت کی پیروی جائز ہے نیز وہ دوسروں کے لیے حجت کی حیثیت رکھتا ہے ۔
یہ نظریہ مخصوص سیاسی اہداف کی خاطر ایک خاص سیاسی ماحول میں پروان چڑھا۔ اس کا بنیادی مقصد اموی اقتدار کو مضبوط کرنے، ان کے تصرفات واقدامات کو جواز فراہم کرنے اور انہیں شرعی لبادہ پہنانے سے عبارت تھا ۔
بعض انتہا پسندوں نے اس نظرئے کو اپنالیا اور امت مسلمہ کے درمیان اس کی ترویج کے لیے جد وجہد کی ۔ ان عناسر نے اس نظرئےکو اہل بیتعلیہم السلام کے موقف کے متبادل طور پر پیش کیا اور مکتب اہل بیت کو رد کرنے کی دلیل کے طور پر اس سے استفادہ کیا۔
وہی اہل بیت(ع)جن کی عصمت کو قرآن کریم نے آیت تطہیر میں یہ کہہ کر واضح کیا ہے کہ اللہ نے ان سے ہر قسم کی پلیدی کو دور کیا ہے اور انہیں اس طرح پاک کیا ہے جس طرح پاک کرنے کا حق ہے ۔
اگرچہ اس نظرئے کا پرچار کرنے والوں نے اسے مضبوط بنانے اورعلمی رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے لیکن مسلمان علماء کی ایک بڑی تعداد نے اس نظرئے کو رد کیا ہے،
اس کے دلائل کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور ان دلائل کے نتائج کو قبول نہیں کیا ہے ۔
عجیب بات یہ ہے کہ اس نظرئے کے دعویداروں نے بذات خود اس نظرئے کی پیروی نہیں کی ہے کیونکہ وہ خلفاء اور حکام کے ان اقدامات کی توجیہ پیش کرتے ہیں جو انہوں نے اپنی حکومت پر تنقید کرنے والے اصحاب کے خلاف انجام دیے تھے۔
عدالت صحابہ کے نظرئے کے بارے مکتب اہل بیت کے درست نقطۂ نظر سے آشنائی کے لئے پہلے ہم’’ صحبت ‘‘ کے لغوی معنی پر روشنی ڈالیں گے پھراس بارے میں قرآنی موقف اور اہل بیت علیہم السلام کے بعض فرمودات پر گفتگو کریں گے۔اس کے بعد ہم اس نظرئے کے دلائل پیش کریں گے اور کتاب و سنت کے فرمودات کی روشنی میں ان دلائل کا تنقیدی و تحقیقی جائزہ لیں گے۔بعدازاں ہم ان اسباب کی طرف اشارہ کریں گے جن کے باعث یہ نظریہ پروان چڑھا۔