قرآن اور احادیث میں امام حسین علیہ السلام کی عظمت!
قرآن اور احادیث میں امام حسین علیہ السلام کی وجود کی عظمت!
ناظم:
انہوں نے مجھے بال و پر تک پیار دیا۔
انہوں نے مجھے عاشقوں کی وادی میں جگہ دی
میں نے کہا اہل ولا کا کعبہ کہاں ہے؟
انہوں نے مجھے درگاہ حسین کا راستہ دکھایا
جو حسین کی شفقت و محبت کے سائے میں رہے اسے قیامت کی بھڑکتی ہوئی آگ کا کوئی خوف نہیں کیونکہ سورج ہر صبح حسین کے دربار میں محبت کی حاضری کے لیے اپنی پلکیں کھولتا ہے۔
خدا ئے مہربان اور اس کی یاد کے ساتھ پیارے ناظرین کی خدمت میں سلام و ادب و احترام پیش کرتا ہوں۔
اس خصوصی پروگرام میں ہم محترم استاد ارجمند اور دانشمند آیت اللہ حسینی قزوینی کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور ہم ان کی تعلیمات سے مستفید ہوں گے۔
استاد آپ کی خدمت میں سلام و ادب و احترام پیش کرتا ہوں، خوش آمدید کہتا ہوں، ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔
حضرت آیت اللہ حسینی قزوینی:
السلام علیک یا بقیة الله فی أرضه السلام علیک یا میثاق الله الذی أخذه و وکده السلام علیک یا وعد الله الذی ضمنه السلام علیک یا صاحب المرئی و المسمع فما کان لنا شیء الا و انتم له السبب و الیه السبیل
سلام علیکم و رحمة الله و برکاته؛ میں تمام محترم ناظرین کو جو اس وسیع دنیا میں ہر جگہ موجود ہیں اپنا مخلصانہ سلام پیش کرتا ہوں، اور میں خدا سے تمام عزیزوں کی کامیابی کی دعا کرتا ہوں۔
مجھے امید ہے کہ خدائے متعال ہم سب کے لیے امام حسین علیہ السلام کا احترام عنایت کرے گا اور ہم سب کے لیے حضرت بقیة الله الأعظم (ارواحنا لتراب مقدمه الفداء) کی ظہور بابرکت کو عیدی بنائے گا۔
ہمارے پروگرام کا معمول یہ ہے کہ شروع میں ہم حضرت صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کو یاد کرتے ہیں، اور ہم اور ہمارے پیارے ناظرین اور "حضرت ولی عصر گلوبل نیٹ ورک" سے وابستہ افراد کو اس کی بیمہ کا اعزاز حاصل ہو۔
سرفصل کتاب آفرینش زهراست
روح ادب و کمال بینش زهراست
روزی که گشایند در باغ بهشت
مسئول گزینش و پذیرش زهراست
در رتبه ز انبیاء مقدم زهراست
همتای علی مرد دو عالم زهراست
برگوی به آنکه اسم اعظم جوید
شاید کہ تمام اسم اعظم زہراست
یا مولاتی یا فاطمة أغیثینی
بی بی دوعالم، سیدہ نساء العالمین، سیدہ نساء اہل الجنۃ، ہم آپ کے پیارے فرزند امام حسین علیہ السلام کی قسم کھاتے ہیں کہ آج رات خدا سے دعا ہے کہ وہ آپ کے پیارے فرزند حضرت حجۃ بن الحسن (ارواحنا فداه) کے ظہور کو فوراً فراہم کریں۔
خدا سے دعا ہے کہ وہ اپنی باقی ماندہ غیبت کو ترک کریں اور اپنے ظہور سے اپنے پیارے دل، انبیاء کے دل، اولیاء کے دل، فرشتوں، بندوں اور ہمارے دلوں کو خوش رکھے اور ہمیں اپنے خاص ساتھیوں، مخلص سپاہیوں اور شہداء میں شامل کریں۔
ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔
ناظم:
خدا آپ کو عزت دے۔ ہم نے اس کا لطف اٹھایا، آپ کا بہت بہت شکریہ۔آج رات استاد ہمارے آقا حضرت امام حسین علیہ السلام کا یوم ولادت ہے۔ حضرت کی ولادت کے بارے میں بتائیں۔
ذرا اس زمانے کی بات کریں جب امام حسین علیہ السلام اپنے نانا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اور والد امیر المومنین علیہ السلام اور آپ کی والدہ فاطمہ زہرا اور ان کے بھائی امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام هم عصر تھے۔
تاریخ ولادت حضرت امام حسین (علیه السلام) در کلام علمای شیعه و اہل سنت
حضرت آیت الله حسینی قزوینی:
اعوذ بالله من الشیطان الرجیم بسم الله الرحمن الرحیم و به نستعین و هو خیر ناصر و معین الحمدلله و الصلاة علی رسول الله و علی آله آل الله لاسیما علی مولانا بقیة الله و اللعن الدائم علی اعدائهم اعداء الله إلی یوم لقاء الله
أفوض أمری إلی الله إن الله بصیر بالعباد حسبنا الله و نعم الوکیل نعم المولی و نعم النصیر یا أبا صالح المهدی ادرکنی
حضرت سید الشہداء علیہ السلام کی ولادت کے بارے میں ماضی میں شیعوں اور احادیث میں یہ بات مشہور ہے کہ آپ چوتھے سال شعبان کی تیسری تاریخ کو دنیا میں تشریف لائے۔ "مرحوم طبرسی" کتاب "علم الوری" جلد 1 میں معاملے کے شروع میں لکھتے ہیں:
«وُلِدَ بِالْمَدِینَةِ یوْمَ الثَّلَاثَاءِ وَ قِیلَ یوْمَ الْخَمِیسِ لِثَلَاثٍ خَلَوْنَ مِنْ شَعْبَان وَ قِیلَ لِخَمْسٍ خَلَوْنَ مِنْهُ سَنَةَ أَرْبَعٍ مِنَ الْهِجْرَة»
امام حسین علیہ السلام ہجرت کے چوتھے سال شعبان کے تین دن بعد منگل یا جمعرات کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔
إعلام الوری بأعلام الهدی، نویسنده: طبرسی، فضل بن حسن، ص 214، الفصل الأول فی ذکر تاریخ مولده و مبلغ سنه
"مرحوم شیخ طوسی" کتاب "مصباح المتہجد" میں اس کی تشریح امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہوئے کرتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کی ولادت چوتھے سال ہجری میں شعبان کے مہینے میں ہوئی۔ انہوں نے کتاب "کشف الغمہ" میں بھی یہی جملہ نقل کیا ہے۔
"مرحوم شیخ مفید" کتاب "ارشاد" میں نقل کرتے ہیں کہ جب حضرت سید الشہداء کی ولادت ہوئی تو حضرت صدیقہ طاہرہ دوڑ کر حضور کی خدمت میں آئیں۔
«فَاسْتَبْشَرَ بِهِ» اور باپ کو خوشخبری سنائی۔
پیغمبر اسلام کے آٹھ بچے تھے، جو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے علاوہ تمام کے تمام آپ کی وفات سے پہلے انتقال کرگئے۔ پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد صرف حضرت فاطمہ زہرا کا انتقال ہوا اور پیغمبر اسلام کی اولاد اسی طرح دنیا میں تشریف لائے ۔
«وَ سَمَّاهُ حُسَیناً» حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے کا نام حسین رکھا۔
«وَ عَقَّ عَنْهُ کبْشاً» اور حضرت کیلیے عقیقہ کیا۔
الإرشاد فی معرفة حجج الله علی العباد، نویسنده: مفید، محمد بن محمد، محقق / مصحح: مؤسسة آل البیت علیهم السلام، ج 2، ص 27، [فصل فی ولادة الإمام الحسین ع و شهادته و ما یخصه من الفضائل
امام حسین علیہ السلام کی ولادت کے بارے میں سنیوں میں بھی روایات ہیں۔ ابن اثیر اپنی کتاب اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 25 میں لکھتے ہیں:
«ولدت فاطمة بنت رسول الله صلی الله علیه وسلّم الحسین بن علی فی لیال خلون من شعبان سنة أربع»
چوتھے سال ہجری میں حضرت فاطمہ زہرا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی امام حسین کو جنم دیا جب کہ شعبان کے چند دن گزرے تھے۔
«وقال الزبیر ابن بکار: ولد الحسین لخمس خلون من شعبان سنة أربع من الهجرة»
زبیر بن بکار کہتے ہیں: امام حسین علیہ السلام چوتھے ہجری میں شعبان کے مہینے کی پانچویں تاریخ کو پیدا ہوئے۔
أسد الغابة فی معرفة الصحابة، اسم المؤلف: عز الدین بن الأثیر أبی الحسن علی بن محمد الجزری، دار النشر: دار إحیاء التراث العربی - بیروت / لبنان - 1417 هـ - 1996 م، الطبعة: الأولی، تحقیق: عادل أحمد الرفاعی، ج 2، ص 26، ح 1167
نیز جناب ابن عبد البر کتاب "الاستیعاب" جلد 1 صفحہ 392 میں لکھتے ہیں:
«الحسین بن علی بن أبی طالب أمه فاطمة بنت رسول الله یکنی أبا عبد الله ولد لخمس خلون من شعبان سنة أربع»
پھر لکھتے ہیں:
«هذا قول الواقدی وطائفة معه»
الاستیعاب فی معرفة الأصحاب، اسم المؤلف: یوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد آلبر، دار النشر: دار الجیل - بیروت - 1412، الطبعة: الأولی، تحقیق: علی محمد البجاوی، ج 1، ص 392، باب حنظلة
"مزی" نے بھی یہی جملہ نقل کیا ہے۔ امام حسین علیہ السلام کی عمر مبارک ستاون سال اور پانچ ماہ تھی۔
امام حسین علیہ السلام سات سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے، آپ سینتیس سال امیر المومنین علیہ السلام کے ساتھ رہے اور تیس سال اپنے بھائی امام حسن علیہ السلام کے ساتھ رہے۔
حضرت سید الشہداء کی امامت کا دور دس سال سے زیادہ نہ تھا۔ امام حسن 50 ہجری میں اور امام حسین 61 ہجری کے اوائل میں شہید ہوئے۔ درحقیقت دس سال دس دن امامت کے طور پر درج کیے گئے ہیں۔
درحقیقت یہ حضرت سید الشہداء علیہ السلام کی تاریخ پیدائش اور دور امامت کا خلاصہ تھا۔
ناظم:
محترم استاد کا بہت بہت شکریہ۔ اب جب کہ ہم شعبان کے مہینے میں داخل ہو چکے ہیں، اس مہینے میں خاص تعطیلات اور مواقع ہیں۔
دوسرے راتوں کے با نسبت آج کی رات رات میں جو امام حسین علیہ السلام کی ولادت کی رات ہے، اس رات کا سب سے اہم پیغام اور اس رات سے ہمیں سب سے اہم فائدہ کیا ہے اور ہم کیا کر سکتے ہیں؟!
خدا کی حقیقی معرفت، صرف امام زمان علیہ السلام کے معرفت کے گروہ میں۔
حضرت آیت الله حسینی قزوینی:
یہ ایک خوبصورت سوال ہے۔ ان راتوں میں لوگوں میں خوشیاں منانے اور حمد و ثناء کا رواج ہے جو کہ بہت اچھی بات ہے اور درحقیقت یہ ہے کہ خدائی رسومات کو زندہ رکھا جائے، لیکن جو بات میرے ذہن میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں علم میں اضافہ کرنا چاہیے۔
ان راتوں میں ہمیں امام کے بارے میں اپنے علم میں اضافہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ائمہ اطہر ہم سے یہ مطالبہ کرتے ہیں۔
یہاں تک کہ میں مداح حضرت سے کہتا ہوں کہ اس رات جو کہ امام حسین، حضرت ابوالفضل، امام سجاد علیہ السلام اور حضرت ولی عصر (ارواحنا فداه) کی ولادت کی رات ہے، امام کے معرفت کے سلسلے میں وہ اپنے اور لوگوں کے علم میں اضافہ کرنے کی کوشش کریں۔
اگر ہم ان راتوں میں امام کے مقام و مرتبہ اور امام کی معرفت کے بارے میں اپنے علم میں اضافہ کر سکیں تو شاید اس کی قدر حضرت ولی عصر کی موجودگی میں ہونے والی لاکھوں تقریبات سے زیادہ ہو۔ ائمه اطهار مندرجہ ذیل آیت کے تحت:
(وَ ما خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْإِنْسَ إِلاَّ لِیعْبُدُون)
میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا نہیں مگر یہ کہ وہ میری عبادت کریں (اور اسی طرح تکامل حاصل کریں اور میرا قرب حاصل کریں)۔
سوره ذاریات (51): آیه 56
وہ کہنے لگے:
«الا لیعرفون»
شرح الکافی- الأصول و الروضة، نویسنده: مازندرانی، محمد صالح بن احمد، محقق / مصحح: شعرانی، ابوالحسن، ج 4، ص 278، پ 1
کتاب "کفایة الأثر" میں حضرت صدیقہ طاہرہ (سلام اللہ علیہا) کی ایک روایت نقل ہوئی ہے جو بہت دلچسپ ہے۔
روایت میں ہے کہ "ابوطفیل" "ابوذر" سے روایت کرتے ہیں اور وہ حضرت صدیقہ طاہرہ سے روایت کرتے ہیں کہ آیت شریفہ کے سلسلے میں:
(وَ بَینَهُما حِجابٌ وَ عَلَی الْأَعْرافِ رِجالٌ یعْرِفُونَ کلاًّ بِسِیماهُم)
اور ان دونوں (بہشت و دوزخ) کے درمیان پردہ ہے (حدِ فاصل ہے) اور اعراف پر کچھ لوگ ہوں گے جو ہر ایک کو اس کی علامت سے پہچان لیں گے۔
سوره اعراف (7): آیه 46
میں نے حضرت فاطمہ زہرا سے پوچھا اور کہا کہ یہاں (رِجالٌ) سے کون مراد ہے؟ فاطمہ زہرا فرماتی ہيں: میں نے اپنے والد سے پوچھا تو انہوں نے کہا:
«هُمُ الْأَئِمَّةُ بَعْدِی عَلِی وَ سِبْطَای وَ تِسْعَةٌ مِنْ صُلْبِ الْحُسَینِ»
وہ میرے بعد امام ہیں۔ علی بن ابی طالب اور میرے بچے اور امام حسین کے نو بچے۔
«هُمْ رِجَالُ الْأَعْرَافِ»
حضرت مزید فرماتے ہیں:
«لَا یدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ یعْرِفُهُمْ وَ یعْرِفُونَهُ»
کوئی شخص اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہو گا جب تک کہ اس نے ان ائمہ کا علم حاصل نہ کیا ہو اور ائمہ بھی ان کو جانتے ہوں۔
پہچان ہمیشہ دو طرفہ ہوتی ہے۔
«وَ لَا یدْخُلُ النَّارَ إِلَّا مَنْ أَنْکرَهُمْ وَ ینْکرُونَهُ»
راوی نے امام صادق علیہ السلام سے کہا: اے فرزند رسول خدا! آپ کے درمیان ہمارا مقام کہاں ہے اور آپ ہم سے کتنی محبت کرتے ہیں؟ آپ ہمیں کتنا پسند کرتے ہیں؟!
حضرت نے فرمایا: اپنے دل میں جھانک کر دیکھو کہ تم ہم سے کتنی محبت کرتے ہو۔ ہم آپ سے اتنا ہی پیار کرتے ہیں۔ دلوں کے پاس ایک دوسرے کا راستہ ہے!
دیکھتے ہیں ہمیں امام حسین سے کتنی محبت ہے۔ دیکھتے ہیں ہم امام زمانہ علیہ السلام سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ ہم میں امام حسین کی محبت اتناہی ہے۔ ہم میں امام زمانہؑ کی محبت اتناہی ہے۔
جتنا ہم امام زمانہؑ کو یاد کرتے ہیں امام زمانؑ ہمیں اتنا ہی یاد کرتے ہیں۔ حضرت فاطمہ زہرا نے مزید فرمایا کہ میرے والد نے فرمایا:
«لَا یعْرَفُ اللَّهُ إِلَّا بِسَبِیلِ مَعْرِفَتِهِم»
اگر کوئی خدا کو جاننا چاہتا ہے تو اسے اماموں کے ذریعے جاننا چاہیے۔
کفایة الأثر فی النصّ علی الأئمة الإثنی عشر، نویسنده: خزاز رازی، علی بن محمد، محقق / مصحح: حسینی کوهکمری، عبد اللطیف، ص 194 و 195، باب ما جاء عن فاطمة
اہل بیت کے معرفت کے بغیرخدا کی معرفت نہیں ہے بلکہ شیطان کی معرفت ہے۔ گدھے پر سوار ہونے والا خدا نہیں بلکہ بعض لوگوں کے ذہنوں میں ایک شیطان ہے جو بنی اسرائیل کی احادیث کو اسلام میں وارد کیا۔
وہابیوں کا عقیدہ ہے کہ ہر رات خدا گدھے پر سوار ہو کر دنیا کے آسمان پر آتا ہے اور لوگوں سے ان کا حال پوچھتا ہے۔ یہ خدا بھی طلوع فجر کے وقت اٹھ کر آسمان پر چلا جاتا ہے۔
کچھ رات پہلے ان لوگوں میں سے ایک نے اپنے میز پر گلوب کی نقل رکھی اور کتاب "صحیح بخاری" سے یہ روایت بھی پڑھی۔ خدا ہر رات زمین پر آتا ہے اور طلوع فجر کے قریب آسمان پر چلا جاتا ہے۔
وہ کہتا ہے: خدا صرف مشرق وسطیٰ اور مغربی ایشیا کا خدا نہیں ہے۔ جب اللہ تعالٰی اپنے گدھے کے ساتھ مکہ کے قریب آیا اوراس سے پہلے کہ وہ طلوع فجر سے پہلے آسمان پر چلا جائے تو اسے زمین کے دوسرے جگہوں پر بھی جانا چاہیئے۔
سیارے پر طلوع فجر ہمیشہ گردش کرتا ہے۔ ہر دن اور رات زمین پر ایک جگہ ہے جہاں صبح طلوع ہوتی ہے۔ اگر خدا ایک بار زمین پر آجائے تو اسے زمین پر قید ہونا چاہیے تا کہ دوبارہ آسمان پر جا نہ سکے۔ حضرت صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں:
«لَا یعْرَفُ اللَّهُ إِلَّا بِسَبِیلِ مَعْرِفَتِهِم»
خدا کو پہچانا نہیں جاتا مگر ائمہ علیہم السلام کے علم کے ذریعے۔ یہ فن ہے! کتاب "علل الشرایع" جلد 1 صفحہ 9 میں یہ بھی مذکور ہے کہ امام حسین علیہ السلام صحابہ کرام کے پاس آئے اور فرمایا:
«أَیهَا النَّاسُ إِنَّ اللَّهَ جَلَّ ذِکرُهُ مَا خَلَقَ الْعِبَادَ إِلَّا لِیعْرِفُوهُ »
اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا نہیں کیا مگر اپنی معرفت اور عبادت کیلیے۔
انسان کی تخلیق کا مقصد اللہ کو پہچاننا ہے۔ اگر وہ خدا کو پہچانتے ہیں تو عبادت کرتے ہیں۔ وہ ایسے خدا کی عبادت نہیں کر سکتے جس کو وہ نہیں جانتے۔
وہ خدا جو عرش پر بیٹھتا ہے اور عرش خدا کے وزن سے چیختا ہے اور عرش کے پاس وہ جگہ ہے جہاں پیغمبر اکرم کو جانا چاہیے اور بیٹھنا چاہیے۔
"ابن تیمیہ" کہتا ہے: اگر خدا عرش پر اکیلا بیٹھا ہے تو خدا کا جسم ہر طرف کے عرش سے بڑا ہے۔ اگر خدا عرش سے بڑا نہیں تو خدا کی عظمت کو کیسے سمجھیں؟!!
وائے ہوتمہارے معرفت پر! خدا کی عظمت کی نشانی یہ ہے کہ عرش کے ہر طرف سے ایک وجب لٹکا ہوا ہو!!؟
وہ خدا جو اہل بیت کے بغیر پہچانے جائے وہ ایسے ہی ہوگا۔ ادامہ روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ امام حسین سے پوچھا گیا:
«یا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ بِأَبِی أَنْتَ وَ أُمِّی فَمَا مَعْرِفَةُ اللَّهِ»
اے فرزند رسول خدا! میرے والدین آپ پر فدا ہو خدا کا معرفت کیا ہے؟
«قَالَ مَعْرِفَةُ أَهْلِ کلِّ زَمَانٍ إِمَامَهُمُ الَّذِی یجِبُ عَلَیهِمْ طَاعَتُه»
علل الشرائع، نویسنده: ابن بابویه، محمد بن علی، ج 1، ص 9، ح 1
حضرت نے فرمایا: اللہ کا معرفت یہ ہے کہ لوگ اپنے زمانے کے امام کو جانتا ہو۔
اگر کوئی شخص امام زمانہ کو جانتا ہے تو وہ خدا کو جانتا ہے۔ اگر کوئی شخص امام زمانہ کو نہیں جانتا تو اس نے خدا کو نہیں جانا۔ امام زمانہ( عج) خدا کے کمالات کا مکمل مظہر ہیں۔
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب "آداب الصلاة" صفحہ 185 کی تفسیر میں لکھا ہے کہ خداوند متعال نے ان کے تمام فطری کمالات، صفات، اسماء و افعال کو محمد وآل محمد کے مقدس وجود میں رکھا ہے۔
خداوند متعال کے تمام کمالات ائمه اطهار میں ہیں۔ ان میں اور خدا میں فرق صرف ایک چیز ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا خالق ہے اور ائمہ مخلوق ہیں۔ خداوند متعال اللہ ہے اور ائمه اطهار اس کے بندے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے کمالات ذاتی ہیں اور اسی کے متعلق ہیں، لیکن ائمه اطهار کے کمالات خدا کے عطا کردہ ہیں۔ اس دلیل کی وجہ سے کہ "اول ما خلق الله" وہابیوں کا خیال ہے کہ اگر ہم اہل بیت کو کوئی مقام دیتے ہیں تو ہم (غلو) خدا کے مقام کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں یا پست کر دیتے ہیں۔ ایسا بالکل نہیں ہے۔ خدا خدا ہے اورائمه اطهار خدا کے بندے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کتاب "بحار الانوار" جلد 50 صفحہ 100 میں راوی کہتا ہے کہ میں نے امام جواد علیہ السلام سے کہا:
«إِنَّ شِیعَتَک تَدَّعِی أَنَّک تَعْلَمُ کلَّ مَاءٍ فِی دِجْلَةَ وَ وَزْنَهُ وَ کنَّا عَلَی شَاطِئِ دِجْلَةَ»
درحقیقت شیعوں کا دعویٰ ہے کہ آپ دجلہ کے تمام پانی اور اس کے وزن کو جانتے ہیں جب کہ ہم دجلہ کے کنارے پر تھے۔
«فَقَالَ ع لِی یقْدِرُ اللَّهُ تَعَالَی أَنْ یفَوِّضَ عِلْمَ ذَلِک إِلَی بَعُوضَةٍ مِنْ خَلْقِهِ أَمْ لَا»
حضرت نے فرمایا: کیا خدا اس پانی کا علم اپنی مخلوقات میں سے کسی مچھر کو دے سکتا ہے؟
راوی نے خاموش رہا کہ اگر وہ کہے کہ خدا کی طاقت نہیں ہے تو وہ کافر ہوجائے گا! اس نے کچھ دیر سوچا۔
«قُلْتُ نَعَمْ یقْدِرُ»
میں نے کہا: ہاں، اس میں طاقت ہے۔
«فَقَال أَنَا أَکرَمُ عَلَی اللَّهِ تَعَالَی مِنْ بَعُوضَةٍ وَ مِنْ أَکثَرِ خَلْقِه»
حضرت نے فرمایا: میں خدا نزدیک ایک مچھر اور اس کی اکثر مخلوقات سے زیادہ محبوب ہوں۔
بحار الأنوار، نویسنده: مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، محقق / مصحح: جمعی از محققان، ج 50، ص 100، ح 12
وہ خدا جو ایک مچھرکو یہ علم دینے کی طاقت رکھتا ہے وہ مجھے بھی یہ علم دیتا ہے۔ دیکھو یہ کتنا خوبصورت اور عظیم ہے! جب لوگ اس مطلب کو دیکھتے ہیں تو وہ اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ کتاب "کافی" میں ایک روایت ہے جس کی سند سو فیصد صحیح ہے۔ کتاب "کافی" جلد اول میں ہے کہ حجر اسماعیل میں شیعوں کی ایک جماعت تھی۔ ان لوگوں نے امام صادق کو دیکھا تو حضرت نے ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ہماری طرف منہ کر لیے؛
«وَ رَبِّ الْکعْبَةِ وَ رَبِّ الْبَنِیةِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ لَوْ کنْتُ بَینَ مُوسَی وَ الْخَضِرِ لَأَخْبَرْتُهُمَا أَنِّی أَعْلَمُ مِنْهُمَا»
آپ نے تین بار فرمایا: کعبہ کے خدا اور اس عمارت کے خدا کی قسم اگر میں حضرت خضر اور حضرت موسیٰ کے سامنے ہوتا تو ان سے کہتا کہ میرا علم تم سے زیادہ ہے۔
کافی، نویسنده: کلینی، محمد بن یعقوب، محقق / مصحح: غفاری علی اکبر و آخوندی، محمد، ج 1، ص 261، ح 1
اگلی روایت میں پھر مذکور ہے کہ ہم نے امام صادق سے سنا کہ آپ نے فرمایا:
«إِنِّی لَأَعْلَمُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَ مَا فِی الْأَرْضِ»
جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے میں جانتا ہوں۔
«وَ أَعْلَمُ مَا فِی الْجَنَّةِ وَ أَعْلَمُ مَا فِی النَّارِ وَ أَعْلَمُ مَا کانَ وَ مَا یکونُ»
میں جنت اور جہنم کے تمام لوگوں کو جانتا ہوں اور ماضی اور مستقبل کو بھی جانتا ہوں۔
کافی، نویسنده: کلینی، محمد بن یعقوب، محقق / مصحح: غفاری علی اکبر و آخوندی، محمد، ج 1، ص 261، ح 2
ایک شخص "مرحوم قاضی" کے پاس تھا اور "مرحوم قاضی" نے ایک روایت بیان کی اور کہا کہ یہ روایت "احمد بن محمد بن خالد" کی ہے۔ ان کےایک شاگرد نے کہا: بظاہر وہ "احمد بن محمد بن خالد" نہیں بلکہ "احمد بن محمد بن سعید" ہیں۔
"مرحوم قاضی" نے اپنے ساتھ والے سے کہا: میں اسے جانتا ہوں، میں اس کے باپ کو جانتا ہوں، اور میں آدم تک اس کے آباؤ اجداد کو جانتا ہوں۔ اب یہ صاحب مجھے سکھا رہے ہیں کہ وہ "احمد بن محمد بن خالد" ہے یا "احمد بن محمد بن سعید"۔
قم کے کوہ خضر میں امام زمان علیہ السلام کے فضل سے ایک لاعلاج مریض کی شفاء
جو شخص اپنے آپ کو اہل بیت کے قدموں کے دھول سمجتے ہیں وہ ایسے ہوتے ہیں! "مرحوم شیخ جعفر مجتہدی" خدا کے اولیاء میں سے تھے اور مجھے کئی سالوں تک اس معزز شخصیت کی خدمت کرنے پر فخر تھا۔ ہم الطلوعین کے درمیان ان کے پاس جاتے تھے اور ان سے کچھ ایسی باتیں سیکھتے تھے جو حوزه میں نہیں ملتی تھی۔
جناب مجاہد جو تقریباً چالیس سال تک اس معزز شخص کے ساتھ رہے، انہوں نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا عنوان ہے "در محضر لاهوتیان" میں اپنے دوستوں کو یہ کتاب پڑھنے کا مشورہ دیتا ہوں، یہ ایک بہت اچھی اور دلچسپ کتاب ہے۔
مجھے دوسرے لوگوں پر بھروسہ نہیں ہے جنہوں نے مرحوم مجتہدی کی سوانح پر کتابیں لکھیں، لیکن جناب مجاہد جو صوبہ قم کے عظیم شاعروں میں سے ہیں مرحوم مجتہدی کے ساتھی تھے۔
وہ روایت کرتے ہیں کہ عام طور پر "مرحوم مجتهدی" رمضان کے مقدس مہینے میں کوہ خضر پر جایا کرتے تھے اور جمکران کی مقدس مسجد کے پاس عبادت کرتے تھے۔ وہ لوگوں سے کم ہی رابطہ کرتے تھے اور کم بولتے تھے۔
ایک خدا کا بندہ تھا جو تہران سے آیا تھا۔ ان کے بچے کو تقریباً پانچ سال تک نیند نہیں آئی اور انہوں نے ایران کے ہر ڈاکٹر سے مشورہ کیا لیکن اسے کوئی علاج نہ مل سکا۔ یہ شخص اپنے بچے کو لندن لے گیا تھا اور وہاں بھی ڈاکٹروں کو دیکھایا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا گوا یہ بچہ کسی صورت سے ٹھیک نہیں ہوا۔
اس بچے کو دن اور رات میں ایک سیکنڈ کی نیند نہیں آئی اور کہتے ہیں کہ نیند کی کمی اس بچے کو تباہ کر دے گی۔
اس شخص نے مایوس ہو کر کہا: مجھے جمکران جانا چاہیے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ حضرت ولی عصر جمکران میں احسان فرماتے ہیں۔ یہ شخص جمکران میں نماز پڑھتا ہے اور لوگوں سے پوچھتا ہے: کیا جمکران کے آس پاس کوئی مقدس جگہ ہے؟!
لوگوں نے کہا: یہاں کے قریب ایک پہاڑ ہے جسے کوہ خضر کہتے ہیں، وہاں لوگ توسل کرتے ہیں اور ان کی حاجت پوری ہوتی ہے۔
اب کوہ خضر کا راستہ کچھ بہتر ہو گیا ہے۔ ماضی میں جب ہم کبھی کبھی جایا کرتے تھے تو پہاڑ ایسا تھا کہ اس پر خطرناک سیڑھیاں تھیں پہاڑ کی چوٹی تک لوگ بڑے مشکل سے پہونچتا تھا۔ پہاڑی اور نشیبی راستے سے واپسی بھی مشکل تھی۔
یہ شخص مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے پہاڑ کی چوٹی پر جاتا ہے اور وہاں اس نے حضرت ولی عصر سے توسل کی اور مشکلات کو بیان کیا۔
یہ شخص حضرت ولی عصر سے کہتا ہے:
اے وقت کے مالک! میں نے اپنے بچے کے لیے ایران اور بیرون ملک ہر ممکن کوشش کی اور اس کی قیمت ادا کی لیکن کوئی فائدہ نظر نہیں یا اب میرا بچہ میرے ہاتھ سے جارہا ہے۔
یہ شخص دیکھتا ہے کہ ایک اعلیٰ اوصاف والا نوجوان اس سے پوچھتا ہے کہ تمہیں کیا مسئلہ ہے؟ یہ شخص کہتا ہے: میرا بچہ بیمار ہے اور سوتا نہیں ہے۔ میں نے اسے ایران اور بیرون ملک ڈاکٹر کے پاس لے گیا لیکن کوئی فائدہ نظر نہیں ایا، میرا بچہ ٹھیک نہیں ہوا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا کہ شاید امام زمان مدد کریں گے۔
"مرحوم مجتہدی" نے دیکھا کہ یہ باپ بہت پریشان ہے اور بہت رقت سے رورہا ہے،یہا تک کہ جب وہ روتا ہے تو اس کے آنسو چہرے پر گرتا ہے۔
"مرحوم مجتہدی" اس بچے کے باپ سے کہتا ہے: یہیں ٹھہرو! وہ دوسری طرف جاتے ہیں اور امام حسینؑ کے لئے مجلس پڑھتے ہیں اور بلند آواز سے روتے ہیں اور کہتے ہیں: اے امام حسینؑ! یہ شخص ہر جگہ سے مایوس ہو کر یہاں آیا ہے۔
جب "مرحوم مجتہدی" نماز پڑھ رہے تھے تو یہ بچہ سو گیا۔ یہ بچہ کئی سالوں سے ایک سیکنڈ کے لیے بھی نہیں سویا تھا۔ بچے کے والد نے آکر مرحوم مجتہد کے ہاتھ پاؤں چومے اور کہا: آپ وقت کے امام ہیں!
مرحوم مجتہدی نے کہا: میں امام زمانہ کے قدموں کے خاک بھی نہیں ہوں۔ آپ کیا کہہ رہے ہیں جو بھی پیغمبر اکرم سے توسل کرتا ہے وہ امام زمانہ کا حوالہ دے دیتے ہیں۔ جب امیر المومنین سے توسل کرتے ہیں تو وہ امام زمانہ کا حوالہ دے دیتے ہیں۔
جب کوئی بھی شخص امام حسین سے توسل کرتا ہے تو اس کی ترسیل امام زمان کے پاس جاتی ہے۔ اور سب امام عصر کو واسطہ قرار دیتے ہیں۔
آج جو مشکلات کو حل کرتے ہیں وہ حضرت ولی عصر ہیں۔ آپ کسی بھی معصوم سے توسل کریں گے تو اسے حضرت ولی عصر کے پاس بھیج دیا جاتا ہے۔ تمام حواله کا انجام حضرت ولی عصر کے ہاتھ میں ہے۔
"مرحوم مجتہدی" نے کہا: امام حسین نے عنایت کیا ہے لیکن نہ صرف میں امام نہیں ہوں بلکہ میں وقت کے امام کے قدموں کے خاک بھی نہیں ہوں۔ سجده شکر بجا لائے اور اپنے بچے کو شفا دینے کے لیے وقت کے امام (ارواحنا فداه) کا شکریہ ادا کریں۔
دوستو ان سب کا تعلق معرفت سے ہے۔ ہم اور آپ ہم پانچ سو مرتبہ امام حسین علیہ السلام سے توسل کرتے ہیں لیکن نتیجہ کیوں نہیں نکلتا؟
بعض لوگ امیر المومنین سے پوچھتے ہیں: اے امیر المومنین! ہم دعائیں بہت کرتے ہیں لیکن ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ حضرت نے فرمایا: تم ایسے خدا کو پکارتے ہو جسے تم نہیں جانتے۔
آئیے ایسی راتوں میں امام کے بارے میں اپنے معرفت میں اضافہ کرنے کی کوشش کریں۔ اور خلقت نوری کی بحث سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ یہ خصوصی بحثیں ہیں اور بعض لوگوں کے لیے مفید ہیں۔
ہمارے کچھ ناظرین تہران سے فون کر کے کہتے ہیں: آپ جو امام خمینی کے بارے میں عرفانی گفتگو کرتے ہیں اسے ہم لطف اندوز ہوتے ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ ہمارے ناظرین خاص لوگ ہوں جو ان موضوعات سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ لیکن جو چیز عام سامعین کے لیے مفید ہے وہ وہ روایت ہے جو میں نے آپ کیلیے امام صادق علیہ السلام سے نقل کی ہے۔
امام معصوم ہر چیز پر قابو رکھتے ہیں اور امام زمانہ علیہ السلام سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔ میں ایک اور روایت لاؤں گا اور اس بحث کو ختم کرکے ایک اور سوال کا جواب دوں گا۔
کتاب "بحار الانوار" جلد 53 صفحہ 175 میں امام زمان (ارواحنا فداه) کے معاہدے شیخ مفید سے نقل کیے گئے ہیں۔ اس معاہدے میں کہا گیا ہے:
«بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ أَمَّا بَعْدُ سَلَامٌ عَلَیک»
دیکھو شیخ مفید نے کیا کیا ہے جس کو امام وقت "سَلَامٌ عَلَیک" کہتے ہیں!
«أَیهَا الْمَوْلَی الْمُخْلِصُ فِی الدِّینِ»
اے ہمارے مددگار اور دین کے مخلص دوست۔
یہاں "المولی" سے مراد دوست ہے۔
«الْمَخْصُوصُ فِینَا بِالْیقِینِ»
اور آپ کو ہمارے معرفت پر یقین ہے۔
ہمیں ان راتوں میں یہاں پہنچنا چاہیے تاکہ امام وقت اپنا سلام بھیجے۔
«فَإِنَّا نَحْمَدُ إِلَیک اللَّهَ الَّذِی لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَ نَسْأَلُهُ الصَّلَاةَ عَلَی سَیدِنَا وَ مَوْلَانَا نَبِینَا مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ الطَّاهِرِینَ وَ نُعْلِمُک»
حضرت مزید فرماتے ہیں:
«أَدَامَ اللَّهُ تَوْفِیقَک لِنُصْرَةِ الْحَقِّ»
خدا حق کی مدد کرنے میں آپ کی توفیقات میں اضافہ کرے۔
ہم نے امام زمانہ علیہ السلام کی کتنی مدد کی؟ پیارے دوستو، امام زمانہ علیہ السلام کی مدد کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ان کی خدمت کریں اور وہ ہم سے کہیں کہ ہمارے لیے پانی لاؤ یا فلاں فلاں کام کرو۔
اگر میں نے گناہ نہ کیا اور اپنے فرائض ادا کیے تو یہ بہترین مدد ہے حضرت ولی عصر کیلیے ہے۔
اگر میں نے اپنے گھر والوں کو اہل بیت کی تعلیمات سے متعارف کرایا تو میں نے امام زمانہ علیہ السلام کی بہترین مدد کی۔
اگر میں نے بعض شکوک و شبہات کا جواب دیا جو آج مجازی خلا میں پیچیدہ ہیں تو میں نے امام زمانہ علیہ السلام کی بہترین مدد کی ہے۔ مقام معظم رهبری (سپریم لیڈر) کے مطابق سائبر اسپیس نوجوانوں کے لیے قتل گاہ بن چکی ہے۔
اگر ہم اس جہاد میں ائمہ اطہار کا علم اپنی قوم اور اپنے اہل و عیال کو سمجھا سکیں تو فتح برحق ہے۔ اس پیشین گوئی کو تفصیل کے ساتھ اس مقام تک بیان کیا گیا ہے جہاں حضرت فرماتے ہیں:
«فَإِنَّا یحِیطُ عِلْمُنَا بِأَنْبَائِکمْ»
ہمارے پاس آپ کے دل اور روح کے تمام کاموں کا علم ہے۔
حضرت کے اس ارشاد کا مفہوم یہ ہے کہ آپ کے بارے میں ہمارا علم آپ کے علم سے زیادہ ہے۔
«وَ لَا یعْزُبُ عَنَّا شَیءٌ مِنْ أَخْبَارِکمْ»
اور تمہارا کوئی چیز ہم سے پوشیدہ نہیں۔
بحار الأنوار، نویسنده: مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، محقق / مصحح: جمعی از محققان، ج 53، ص 175، ح 7
میں نے ایک روایت میں دیکھا کہ ائمہ فرماتے ہیں: امام کے لیے تمام عالم هستی آپ کی ہتھیلی کی مانند ہے۔ جس طرح آپ اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کو دیکھتے ہیں، اسی طرح امام پوری عالم هستی کو جبروت و ملکوت، عالم ناسوت، عالم مثال اور عالم برزخ کو دیکھتے ہیں۔
تمام عوالم حضرت ولی عصر کی بارگاہ میں آپ کے ہتھیلی کی مانند ہیں۔ جس طرح آپ اپنی ہتھیلی سے اپنے آپ کو گھرے لیتے ہیں امام زمانہ علیہ السلام بھی آپ کو اسی طرح دیکھتے ہیں۔
امام خمینی کی معرفتی کتابیں کسی کے پاس نہیں!!
میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے ایک تعبیر لاتا ہوں۔ کچھ لوگوں کو یہ موضوع بہت پسند ہے۔ میں خود انقلاب سے پہلے امام خمینی کی کتابوں سے مأنوس تھا۔
میرا امام خمینی کی سیاسی سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر ہم امام خمینی کے سیاسی کام اور اسلامی جمہوریہ کے قیام کو اس عظیم شخصیت کے علمی اور معرفتی مقام سے موازنہ کرنا چاہیں تو میرے خیال میں یہ ایک سمندر کے مقابلے میں ایک قطرہ کی طرح ہے۔
آپ ان کی "مصباح الہدایہ" اور "شرح حدیث جنود و عقل"، "آداب الصلاة"، "سرّ الصلاة" اور "چهل حدیث" کتابیں پڑھیں۔
فی الحال دوسروں کے پاس بھی فقہ کی کتابیں ہیں۔ "صاحب جوہر" کی ایک فقہی کتاب ہے۔ "شیخ انصاری" کی ایک فقہ کی کتاب ہے۔ "شیخ طوسی" کے پاس فقہی کتاب ہے۔ دوسرے بزرگوں کے پاس بھی فقہ کی کتابیں ہیں لیکن امام خمینی کی جیسی معرفتی کتابیں کسی کے پاس نہیں ہیں۔
کتاب "شرح حدیث جنود عقل و جهل" میں امام خمینی نے ائمہ اطہار علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعبیر اس طرح کی ہے:
" ہمارے ائمہ اطہار علیہ الصلوٰۃ والسلام مخلوق کی رہنمائی اور اصلاح خلق میں جو کچھ فرمایا کرتے تھے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے کامل علم لدنی کا سرچشمہ ہے جن کے پاس وحی الٰہی اور علم الٰہی کے تین طریقے ہیں اور وہ شیطان کے بنائی ہوئی قیاسات اور ایجادات سے پاک ہیں۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں مذکور ہے:
(وَ ما ینْطِقُ عَنِ الْهَوی إِنْ هُوَ إِلاَّ وَحْی یوحی)
ائمہ کی موجودگی میں ہدایت جاری و ساری ہے، جیسا کہ احادیث مبارکہ میں اس کا ذکر ہے۔"
شرح حدیث جنود عقل و جهل؛ تألیف: خمینی، روح الله، ناشر: مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی، تهران؛ ج1، بخش دوم، ص 5
امام خمینی (رہ) سے بہت سے مطالب زکر ہوئے ہیں جس میں فرماتے ہیں: "امام کا علم عالم ہستی کے علم سے زیادہ قوی ہے۔" آئیے دیکھتے ہیں کہ ہم اپنے بارے میں کتنا جانتے ہیں۔ ہمارے بارے میں امام کا علم، ہمارے بارے میں ہمارے اپنے علم سے زیادہ ہے۔
مرحوم آیت اللہ بہجت کی تعبیر ہے اور فرماتے ہیں: جب تم بولتے ہو تو تمہارے منہ اور کانوں کے درمیان چار انگلیاں ہوتی ہیں۔ اس سے پہلے کہ تمہاری آواز کانوں تک پہنچے حضرت ولی عصر (عج) تمہارے آواز سن لیے ہیں۔ تم جو دیکھنا چاہتے ہو اسے دیکھنے سے پہلے حضرت صاحب الزمان (عج) دیکھ لیتے ہیں۔
اگر ہم ان راتوں میں ائمہ اطہار کے بارے میں ایسا علم حاصل کر سکیں تو یہ قابل قدر ہے۔ یہ ایک اچھا سنہری موقع ہے کہ شبِ ولادت یا شہادت کی راتوں میں اور وہ راتیں جو ائمہ اطہار سے نسبت رکھتی ہیں، اس سے بہترین استفادہ کریں۔
ان راتوں میں ہمارا بہترین پیغام اور ان راتوں کا بہترین استفادہ، معرفت کا حصول ہے۔ اگر ہم اہل بیت علیہم السلام کے بارے میں اپنی معرفت میں اضافہ کر تے ہیں تو گوا خدا کے بارے میں ہمارے علم میں اضافہ ہوا ہے۔
اگر خدا کے بارے میں ہمارے معرفت میں اضافہ ہوتا ہے تو ہم ہدف تخلیق کی منزل تک پہنچ چکے ہیں۔ ورنہ ہم انتظار کر رہے ہیں۔ جب ہماری موت آتی ہے تو ہم کہتے ہیں:
(یا حَسْرَتَنا عَلی ما فَرَّطْنا فیها وَ هُمْ یحْمِلُونَ أَوْزارَهُمْ عَلی ظُهُورِهِمْ أَلا ساءَ ما یزِرُون)
ہائے افسوس ہم سے اس کے بارے میں کیسی کوتاہی ہوئی؟ اور وہ اپنے (گناہوں کے) بوجھ اپنی پشتوں پر اٹھائے ہوں گے۔ کیا برا بوجھ ہے جو وہ اٹھائے ہوئے ہیں؟ ۔
سوره انعام (6): آیه 31
میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔
ناظم:
خوش آمدید۔ جب آپ نے یہ فرمایا تو میرے ذہن میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ اہم حدیث آئی، جس میں کہا گیا ہے: جو شخص مر گیا اور اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانا وہ جاہلیت کی موت مرا۔
حضرت آیت الله حسینی قزوینی:
«من مَاتَ بِغَیرِ إِمَامٍ مَاتَ مِیتَةً جَاهِلِیةً»
مسند الإمام أحمد بن حنبل، اسم المؤلف: أحمد بن حنبل أبو عبدالله الشیبانی، دار النشر: مؤسسة قرطبة – مصر، ج 4، ص 96، ح 16922
اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے۔
ناظم:
بہت شکریہ۔ استاد اگر آپ ہمیں تھوڑی دیر کے لیے فرصت دیں تو دوبارہ آپ کی خدمت میں حاضر ہونگا۔
"حضرت ولی عصر گلوبل نیٹ ورک" کی طرف سے اس خصوصی پروگرام کے پیارے ناظرین کو ایک بار پھرمبارکباد پیش کرتے ہیں۔
میں اپنے عزیز ساتھیوں کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جو خالص اسلام کی تعلیمات کو عام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اور آپ ناظر بھی بنیں اور استفادہ بھی کریں۔
استاد ہمیں قرآن میں امام حسین علیہ السلام کا مقام اور ان کے بارے میں قرآن کے بیانات کے بارے میں بتائیں۔
سنی تفاسیر کے مطابق قرآن کی آیتوں میں امام حسین علیہ السلام کے مقام و منزلت پر ایک نظر!
حضرت آیت الله حسینی قزوینی:
اگر میں ایک جملے میں کہنا چاہوں تو کہوں گا کہ قرآن کریم میں اہل بیت علیہ السلام کے فضائل کے علاوہ کیا ہے؟ قرآن میں جو کچھ بیان ہوا ہے وہ یا تو اہل بیت علیہ السلام کے فضائل کے بارے میں ہے یا اہل بیت علیہ السلام کے دشمنوں کی مذمت کے بارے میں ہے۔ خدا کے انبیاء کو بھی جو بھی خوبیاں ملتی ہیں اہل بیت سےملتی ہیں۔
"آلوسی" کی تعبیر یہ ہے کہ آدم سے لے کر موسیٰ تک خدا کے انبیاء علیہم السلام (علی نبینا و آله و علیه السلام) کے پاس جو بھی کچھ ہے وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اور ائمه اطهار میں کوئی فرق نہیں ہے۔
«أَوَّلُنَا مُحَمَّدٌ وَ أَوْسَطُنَا مُحَمَّدٌ وَ آخِرُنَا مُحَمَّد»
بحار الأنوار، نویسنده: مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، محقق / مصحح: جمعی از محققان، ج 36، ص 400، ح 9
آیاتوں کی طرف جانے کے لیے ہم اہل سنت کی کتابوں کا حوالہ دیتے ہیں۔ ہمارے بہت سارے محترم سنی ناظرین ہیں جو آن لائن آتے ہیں اور اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔
"احمد ابن حنبل" کی ایک کتاب ہے "فضائل الصحابه"۔ اس کتاب میں وہ سورہ مبارکہ شوری کی آیت نمبر 23 کے حوالے سے سعید بن جبیر کے الفاظ ابن عباس سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
«لما نزلت قل لا اسألکم علیه اجرا الا المودة فی القربی»
حضرت نوح سمیت تمام انبیاء الہی فرماتے ہیں:
(وَ ما أَسْئَلُکمْ عَلَیهِ مِنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِی إِلاَّ عَلی رَبِّ الْعالَمِین)
اور میں تم سے اس (تبلیغ رسالت) پر کوئی اجرت نہیں مانگتا میری اجرت تو بس رب العالمین کے ذمہ ہے۔
سوره شعراء (26): آیه 164
حضرت ہود علیہ السلام اور دوسرے انبیاء کرام علیہم السلام جب اجر و ثواب کا چرچا کرتے ہیں تو فرماتے ہیں:
(إِنْ أَجْرِی إِلاَّ عَلی رَبِّ الْعالَمِین)
لیکن جب رسول گرامی اسلام کی بات آتی ہے تو کہتے ہیں:
(قُلْ لا أَسْئَلُکمْ عَلَیهِ أَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبی)
آپ(ص) کہیے کہ میں تم سے اس(تبلیغ و رسالت) پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا سوائے اپنے قرابتداروں کی محبت کے.
سوره شوری (42): آیه 23
یقیناً مودت کا مطلب صرف محبت نہیں ہے۔ اگر کوئی دوسرے سے محبت کرتا ہے تو وہ اس کی بات سنتا ہے اور جو کہتا ہے اسے قبول کرتا ہے۔
رسول اسلام کیوں فرماتے ہیں کہ میرے رسالت کا اجر میرے عزیز و اقارب کا مودت ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں اور آپ کے آنے سے ختم نبوت کا معاملہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے گا اور انبیاء کا سلسله ختم ہو جائے گا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا دین ایک آفاقی اور ابدی دین ہے۔
«حلال محمد حلالٌ إلی یوم القیامة و حرامه حرامٌ إلی یوم القیامة»!
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی آپ کی نبوت کے دور سے مطابقت نہیں رکھتی۔ حضورؐ کی نبوت عالمگیر ہے اور قیامت تک ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک تریسٹھ سال ہے اور آپ کی نبوت تئیس سال تھی۔
اس لیے ایسے لوگ ہونے چاہئیں جو نبوت کے مشن کو جاری رکھیں۔ جس شخص کو رسول اللہ کے مشن کو جاری رکھنا چاہیے وہ ہے (الْقُرْبی) ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اجر رسالت کو مودت قربی قرار دیا تو اس کی وجہ یہی ہے۔ روایت میں مذکور ہے کہ انہوں نے پوچھا:
«یا رسول الله من قرابتنا هؤلاء الذین وجبت علینا مودتهم»
اے خدا کے رسول! وہ کونسا رشتہ ہے جس کا مودت خدا نے فرض کیا ہے؟!
«قال علی وفاطمة وابناها علیهم السلام»
حضرت نے فرمایا: علی اور فاطمہ اور ان کی اولاد (علیہم السلام)۔
فضائل الصحابة، اسم المؤلف: أحمد بن حنبل أبو عبد الله الشیبانی، دار النشر: مؤسسة الرسالة - بیروت - 1403 - 1983، الطبعة: الأولی، تحقیق: د. وصی الله محمد عباس، ج 2، ص 669، ح 1141
قرابت داری سے مراد جو قرآن کریم میں جن کا مودت واجب قرار دی گئی ہے وہ امیر المومنین علیہ السلام، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور حضرت فاطمہ زہرا کی اولاد ہیں۔
اسی طرح طبرانی کی کتاب "معجم الکبیر" میں بھی یہی روایت مذکور ہے اور لکھتے ہیں:
«لَمَّا نَزَلَتْ قُلْ لا أَسْأَلُکمْ علیه أَجْرًا إِلا الْمَوَدَّةَ فی الْقُرْبَی قالوا یا رَسُولَ اللَّهِ وَمَنْ قَرَابَتُک هَؤُلاءِ الَّذِینَ وَجَبَتْ عَلَینَا مَوَدَّتُهُمْ قال عَلِی وَفَاطِمَةُ وَابْنَاهُمَا»
المعجم الکبیر، اسم المؤلف: سلیمان بن أحمد بن أیوب أبو القاسم الطبرانی، دار النشر: مکتبة الزهراء - الموصل - 1404 - 1983، الطبعة: الثانیة، تحقیق: حمدی بن عبدالمجید السلفی، ج 3، ص 47، ح 2641
جناب "نیشاابوری" جو 728 ہجری میں فوت ہوئے ان کی ایک کتاب "تفسیر غرائب القرآن" ہے۔ جلد 6 صفحہ 74 میں وہ یہ روایت زکر کیا ہے:
«لما نزلت هذه الآیة قالوا: یا رسول الله من هؤلاء الذین وجبت علینا مودتهم لقرابتک؟ فقال: علی وفاطمة وابناهما»
وہ مزید لکھتے ہیں:
«ولا ریب أن هذا فخر عظیم وشرف تام»
تفسیر غرائب القرآن ورغائب الفرقان، اسم المؤلف: نظام الدین الحسن بن محمد بن حسین القمی النیسابوری، دار النشر: دار الکتب العلمیة - بیروت / لبنان - 1416 هـ - 1996 م، الطبعة: الأولی، تحقیق: الشیخ زکریا عمیران، ج 6، ص 74، باب الشوری: (1 - 23) حم
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بہت بڑا افتخار ہےاورخالص شرافت ہے۔
وہ امام حسنؑ اور امام حسینؑ کے فضیلت کے بارے میں روایات بیان کرتے ہیں۔ کتاب "مجمع الزوائد" ساتویں جلد میں صفحہ 103 پر اسی روایت کو زکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
«لما نزلت (قل لا أسألکم علیه أجرا إلا المودة فی القربی) قالوا یا رسول الله من قرابتک هؤلاء الذین وجبت علینا مودتهم قال علی وفاطمة وابناهما»
وہ روایت کی سند کے بارے میں لکھتے ہیں:
«رواه الطبرانی من روایة حرب بن الحسن الطحان عن حسین الأشقر عن قیس بن الربیع وقد وثقوا کلهم وضعفهم جماعة وبقیة رجاله ثقات»
مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، اسم المؤلف: علی بن أبی بکر الهیثمی، دار النشر: دار الریان للتراث/دار الکتاب العربی - القاهرة, بیروت – 1407، ج 7، ص 103، باب سورة حمعسق
ان کے مطابق بعض لوگوں نے "قیس بن ربیع" کو ثقہ کہا اور بعض نے ضعیف کہا۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر راوی 'مختلفٌ فیه ' ہو تو اس کی روایت حسن ہے۔«والحسن کالصحیح فی الاحتجاج»
دوسرے لوگوں نے بھی یہی روایت بیان کیا ہے۔ البته حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں (الْقُرْبی) کو امیر المومنین حضرت فاطمہ زہرا، امام حسن اور امام حسین سے تعبیر کیا گیا۔
دوسری طرف "وابناهما" کے معنی امیر المومنین اور حضرت فاطمہ زہرا کی تمام اولادیں نہیں ہیں بلکہ صرف بارہ خلفاء ہیں۔
یاد رہے کہ امام حسن اور امام حسین کی اولاد میں سے کسی نے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ آیت تطہیر یا آیت مودت ہم پر نازل ہوئی ہے۔
کتاب "تتفسیر طبری" جلد 25 صفحہ 25 میں مذکور ہے کہ جب امام سجاد علیہ السلام کو شام لایا گیا تو ایک شامی شخص نے ان پر طعن کیا۔ حضرت نے فرمایا:
«أقرأت القرآن»
کیا تم نے قرآن پڑھا ہے؟
«قال نعم»
شامی آدمی نے کہا: ہاں۔
«قال أقرأت آل حم قال قرأت القرآن ولم أقرأ آل حم قال ما قرأت قل لا أسألکم علیه أجرا إلا المودة فی القربی»
نیززکر ہوا ہے:
«قال وإنکم لأنتم هم»
شامی شخص نے کہا: ہاں، کیا تم وہی اہل بیت ہو؟
«قال نعم»
حضرت نے فرمایا: ہاں۔
جامع البیان عن تأویل آی القرآن، اسم المؤلف: محمد بن جریر بن یزید بن خالد الطبری أبو جعفر، دار النشر: دار الفکر - بیروت – 1405، ج 25، ص 25، باب الشوری: (23) ذلک الذی یبشر... ..
اس آیت شریفه میں خدا تعالیٰ نے اہل بیت کی مودت کو واجب قرار دیا ہے۔ "ابن کثیر دمشقی" جو کہ ایک سلفی اور وہابی شخص ہے اور "ابن تیمیہ" کے شاگرد نے کتاب "تفسیر القرآن العظیم" جلد 4 صفحہ 113 میں یہی جملہ زکر کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«أقرأت القرآن»
کیا تم نے قرآن پڑھا ہے؟
«قال نعم»
شامی آدمی نے کہا: ہاں۔
«قال أقرأت آل حم قال قرأت القرآن ولم أقرأ آل حم قال ما قرأت (قل لا أسألکم علیه أجرا إلا المودة فی القربی)»
نیززکر ہوا ہے:
«قال وإنکم لأنتم هم»
شامی آدمی نے کہا: کیا تم (القربی) ہو جس کا مودت واجب ہے؟
«قال نعم»
حضرت نے فرمایا: ہاں۔
تفسیر القرآن العظیم، اسم المؤلف: إسماعیل بن عمر بن کثیر الدمشقی أبو الفداء، دار النشر: دار الفکر - بیروت – 1401، ج 4، ص 113، باب الشوری: (23 - 24) ذلک الذی یبشر... ..
کتاب "مجمع الزوائد" جلد 9 صفحہ 146 میں یہ بھی مذکور ہے کہ جب امام حسن مجتبیٰ خطبہ دے رہے تھے تو آپ نے فرمایا:
«وأنا من أهل البیت الذین افترض الله عز وجل مودتهم وولایتهم»
ہم اہل بیت میں سے ہیں کہ خداتعالیٰ نے ہماری مودت اور ولایت کو واجب کیا ہے۔
یاد رہے کہ یہاں "وولایتهم" میں "مودتهم" کا اضافہ کیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ دوستی ہی نہیں، ولایت بھی ہے۔
«فقال فیما أنزل علی محمد (قل لا أسألکم علیه أجرا إلا المودة فی القربی)»
مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، اسم المؤلف: علی بن أبی بکر الهیثمی، دار النشر: دار الریان للتراث/دار الکتاب العربی - القاهرة, بیروت – 1407، ج 9، ص 146، باب خطبة الحسن بن علی رضی الله عنهما
اہم بات یہ ہے کہ کتاب "صحیح مسلم" حدیث 2404 میں معاویہ بن ابی سفیان کی روایت ہے۔ خُدا اُسے اُس کے ساتھ دُکھ دے جس کا وہ حقدار ہے۔ اگر وہ جنت کا مستحق ہے تو اسے جنت دے اور اگر وہ جہنم کا مستحق ہے تو اسے جہنم دے دے۔
معاویہ کے ایک دوست نے ایک شیعہ سے کہا: میں نے خواب میں دیکھا کہ معاویہ اونٹ پر سوار ہے اور علی بن ابی طالب اس کی لگام کھینچ رہے ہیں۔ علی بن ابی طالب کے اس دوست نے کہا:
ساربان جانتا ہے کہ یہ علی ہے۔
اونٹ کو کہاں سونا ہے۔
جو لوگ معاویہ سے محبت کرتے ہیں ہم خدا کو اس کی عزت و جلال کی قسم دیتے ہیں کہ وہ معاویہ کے ساتھ محشور ہو۔
اس سال رمضان کے مہینے میں سعودی شیاطین نے معاویہ کے بارے میں ایک فلم تیار کی ہے اور اسے نشر کرنا چاہتے ہیں۔ ان لوگوں نے سیریز "عمر فاروق" کو نشر کیا اور اس کے نتیجے میں داعش کی تخلیق ہوئی۔ داعش "عمر فاروق" سیریز کی ناجائز اولاد ہے۔
اس سال «MBC» جیسے چینلز جو کہ سعودیوں کی ملکیت ہے، رمضان کے مہینے میں معاویہ سیریز کو نشر کرنا چاہتے ہیں۔ اب پتہ نہیں اس کے پیچھے کون سی شرارت ہے۔
میں وہ ناظرین جو اهل فضل ہیں ان کو متنبہ کرتا ہوں کہ وہ کچھ معلومات دیں۔
رمضان المبارک کے آنے سے پہلے ہم اہل سنت کی کتابوں میں معاویہ سے متعلق تمام باتیں بیان کریں گے۔ ہم شیعہ کتب سے کچھ بھی نقل نہیں کرتے۔ اگر ہم شیعوں سے کچھ روایت بقل کرتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ یہ مضمون شیعوں سے روایت کیا گیا ہے اور یہ مضمون سنیوں سے بھی نقل کیا گیا ہے۔
انشاء اللہ اس سال ہم نے معاویہ کے بارے میں اچھی معلومات بیان کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم لعنت یا توہین نہیں کرنا چاہتے لیکن ہم کہتے ہیں کہ معاویہ ہر اس چیز کا جو مستحق ہے اللہ تعالیٰ اس کو عطا کرے گا۔
ناظم:
عرب بولنے والے سنی صارفین میں سے ایک نے اس سریال کے موقع پر ایک کارٹون تیار کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ معاویہ جہنم میں ہے، وہ اس تصویر سے حیران ہیں جو یہ لوگ اس کو اس سریال میں دکھانا چاہتے ہیں۔
یہ کارٹون اس حد تک دوبارہ شائع کیا گیا کہ سنی عرب صارفین اس سریال کو قبول نہیں کرتے۔
حضرت آیت الله حسینی قزوینی:
ہاں وہابی شرارتی ہیں۔ میں دوسرے میڈیا جیسے کہ قومی میڈیا سے کہتا ہوں کہ وہ اس مسئلے پر توجہ دیں تاکہ وہ رمضان کے مقدس مہینے سے پہلے اس بارے میں سوچیں۔
اس سریال کا ہر حصہ نشر کیا جاتا ہے، اس کی تنقید کو میڈیا اور ورچوئل اسپیس کے ذریعے شائع کیا جانا چاہیے۔
یہ وہی جهاد تبیین ہے جو سپریم لیڈر نے کئی بار فرمایا۔ میری رائے میں اس سال کا مقدس ماہ رمضان معاویہ کے سریال کی علمی تنقید کی جهاد تبیین کی عظیم مثالوں میں سے ایک ہے۔
علمی تنقید فحاشی سے جدا ہے الگ ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ہم جھوٹی لعنتیں دیں اور شیعہ بچوں کو ہم سے دور کر دیں۔
ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اس سریال میں موجود جھوٹ یا اس سریال میں موجود بہتانوں اور سنی ذرائع سے اس سریال میں موجود جھوٹے مواد پر علمی تنقید کریں اور شیعہ اور سنی دونوں کو معلومات فراہم کی جائیں۔
کتاب "صحیح مسلم" میں ہے کہ معاویہ نے "سعد بن ابی وقاص" سے کہا: تم علی بن ابی طالب کی توہین کیوں نہیں کرتے؟! ایسا لگتا ہے کہ "سعد بن ابی وقاص" نے اپنا ایک اہم ترین فرض چھوڑ دیا ہے!!
«أَمَرَ مُعَاوِیةُ بن أبی سُفْیانَ سَعْدًا فقال ما مَنَعَک ان تَسُبَّ أَبَا التُّرَابِ»
معاویہ بن ابی سفیان نے سعد بن ابی وقاص کو بلایا اور کہا: تم علی ابن ابی طالب کو (ناسزا) برا بھلا کیوں نہیں کہتے؟
«فقال أَمَّا ما ذَکرْتُ ثَلَاثًا قَالَهُنَّ له رسول اللَّهِ»
سعد نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے علی کے بارے میں تین خصلتیں سنی ہیں کہ میں کبھی ان کی توہین نہیں کروں گا۔
«فَلَنْ اسبه لان تَکونَ لی وَاحِدَةٌ مِنْهُنَّ أَحَبُّ الی من حُمْرِ النَّعَمِ»
اگر مجھ میں ان میں سے کوئی ایک خوبی ہوتی تو وہ میرے لیے زمین کی دولت سے زیادہ قیمتی ہوتی
«فقال له رسول اللَّهِ أَمَا تَرْضَی ان تَکونَ مِنِّی بِمَنْزِلَةِ من مُوسَی الا انه لَا نُبُوَّةَ بَعْدِی»
جنگ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب سے فرمایا: تمہارا مقام و منزلت میرے لیے ویسے ہی ہے حیسے موسیٰ کے لئے ہارون تھا، مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
«وَسَمِعْتُهُ یقول یوم خَیبَرَ لَأُعْطِینَّ الرَّایةَ رَجُلًا یحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَیحِبُّهُ الله وَرَسُولُهُ»
خیبر کی جنگ میں جب سب بھاگ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کل میں علم کسی ایسے شخص کو دوں گا جو خدا اور رسول سے محبت کرتا ہے اور خدا اور رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔
«وَلَمَّا نَزَلَتْ هذه الْآیةُ (فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَکمْ) دَعَا رسول اللَّهِ عَلِیا وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَینًا فقال اللهم هَؤُلَاءِ أَهْلِی»
جب آیت مباہلہ نازل ہوئی اور خدا نے فرمایا: (فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَکمْ) پیغمبر نے علی بن ابی طالب اور فاطمہ زہرا، حسن اور حسین کو پیغام کی تصدیق کے لئے لے کر فرمایا: یہ میرے اہلبیت ہیں۔
صحیح مسلم، اسم المؤلف: مسلم بن الحجاج أبو الحسین القشیری النیسابوری، دار النشر: دار إحیاء التراث العربی - بیروت، تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقی، ج 4، ص 1871، ح 2404
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر ہم ان تمام روایتوں اور آیتوں کو ایک طرف رکھ دیں جو علی بن ابی طالب کے بارے میں وارد ہوئی ہیں اور عقلی طور پر یہ فیصلہ کریں کہ جو شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے مباہلہ میں جائے وہ خلافت کا اہل ہے یا نہیں؟ حضورﷺ کی جانشینی کے لیے وہ حقدار ہیں یا دوسرے؟!
کیا یہ شخص خلافت کے لائق ہے یا وہ شخص جو عمر بھر کافر رہا پھر اسلام کی برکت سے مسلمان ہوا؟!
ہمارا ان قضاوت سے کوئی تعلق نہیں ہے، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملے میں علی بن ابی طالب کو اپنے ساتھ لے لیا جو کہ سب سے اہم مسئلہ اور اعلیٰ فضیلت ہے۔
کیا وہ جانشینی کے زیادہ لائق ہے یا وہ جسے مباہلہ کے لیے اپنے ساتھ نہ لے گیا؟!
ہمارے پاس اس مسئلہ میں بہت سے مواد موجود ہیں جیسے کہ سورہ هل أتی جو حضرت سید الشہداء کے نام پر نازل ہوئی، لیکن میں سی پر اکتفا کروں گا۔ اگر آپ کے کوئی اور سوالات ہیں تو پوچھیں۔
ناظم:
آپ کا شکریہ، اگر کوئی فون ہے، تو ہمارے نشریاتی ساتھی آپ کو مطلع کریں گے تو پھر ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گے۔
حضرت استاد نے توجہ دلائی کہ تمام موادسنی کتب سے بیان کیے گئے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام کے وجود کے بارے میں سنی کتب میں کیا مواد ہے؟!
امام حسین علیہ السلام کا مقامِ خاص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں
حضرت آیت الله حسینی قزوینی:
اس سلسلے میں ہم یہ نہیں کہتے کہ ان لوگوں نے حق مطلب کو ادا کیا۔لیکن شعر کے بارے میں؛
اگر سمندر کا پانی نہیں کھینچا جا سکتا
آپ کو اتنا ہی چکھنا چاہئے جتنا آپ کو پیاس ہے۔
وہ اتنی روایات لائے ہیں کہ وہابیوں کے منہ بند کرنے اور امام حسین کے بارے میں نا سزا باتیں کہنے والے وہابیوں اور "ابن تیمیہ" کے منہ پر زور دار تماچے لگانےکے لیے کافی ہیں۔
اس سلسلے میں نسائی کی کتاب "سنن الکبری" میں ایک روایت موجود ہے۔ ان کی وفات 303 ہجری میں ہوئی اور ان کی کتاب اہل سنت کی مستند کتب میں سے ہے۔ وہ عبداللہ بن مسعود کا قول نقل کرتے ہیں:
«کان النبی یصلی فإذا سجد وثب الحسن والحسین علی ظهره فإذا أراد أن یمنعوهما أشار إلیهم أن دعوهما»
رسول گرامی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے اور جب سجدے میں گئے تو امام حسن اور امام حسین علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر بیٹھ گئے۔ لوگوں نے انہیں نیچےلانا چاہا لیکن حضرت نے انہیں روک دیا۔
امام حسن اور امام حسین علیہ السلام بچے تھے اور ان کے درمیان چھ ماہ سے زیادہ کا فاصلہ نہیں تھا کیونکہ امام حسین علیہ السلام کی پیدائش چھ ماہ میں تھی۔ شاعر کہتا ہے:
ز بس شوق شهادت در سرش بود
ره نُه ماهه را شش ماهه پیمود
«فلما صلی وضعهما فی حجره»
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ختم ہوئی تو ان دونوں بزرگوں کو زانو پر بٹھایا۔
«ثم قال من أحبنی فلیحب هذین»
اور وہ کہتے تھے: جو مجھ سے محبت کرتا ہے وہ بھی اس سے محبت کرے۔
السنن الکبری، اسم المؤلف: أحمد بن شعیب أبو عبد الرحمن النسائی، دار النشر: دار الکتب العلمیة - بیروت - 1411 - 1991، الطبعة: الأولی، تحقیق: د.عبد الغفار سلیمان البنداری, سید کسروی حسن، ج 5، ص 50، ح 8170
جناب ابن تیمیہ اور جناب آل شیخ! کیا یہ روایت امام حسین کے بارے میں آپ کے موقف کے مطابق ہے کہ آپ یہاں تک کہتے ہیں: "یزید بن معاویہ جو صحیح خلیفہ تھاکے خلاف امام حسین کا قیام کرنا غلط ہے۔" اس کا کیا مطلب ہے؟!
ہمیں کہنا چاہیے: "الحمدلله الذی جعل أعداءنا من الحمقاء" ایک زمانے میں میں سعودی عرب کے "المجد الفضائیہ" چینل کو براہ راست سنتا تھا۔ مفتی صاحب خطاب کر رہے تھے اور دنیا بھر سے لوگ ان سے فون کر کے سوالات کر رہے تھے۔
افریقی ملک سے ایک خاتون نے فون کیا اور امام حسینؑ کے بارے میں سوال کیا اور کہا: امام حسینؑ اور یزیدؑ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ مفتی صاحب نے فرمایا: یزید کی بیعت شریعت کی بیعت تھی۔
جب معاویہ نے امام حسن کے ساتھ صلح کے خلاف لوگوں کے دین کو خرید لیا، اس نے ایسے شخص کو خلیفہ مقرر کیا جو کتاسے کھیلتا تھا اور اس نے اپنی ماں سے شادی کر لی تھی!!
مفتی نے کہا: امام حسین اور عبداللہ بن زبیر نے یزید کی بیعت نہ کرکے غلطی کی۔ وہ اپنی بات جاری رکھا اور کہتا رہا میں اس رات بہت ہنسا۔
یہ نیٹ ورک ایک عالمی سیٹلائٹ نیٹ ورک ہے جو امریکہ، روس، بھارت، چین اور دیگر ممالک سمیت تمام دنیا میں نشر کرتا ہے۔
وہابی مفتی نے کہا: میری بہن! جو سوال آپ نے مجھ سے پوچھا ہے اور جو جواب میں نے دیا ہے اس کا کہیں بھی حوالہ نہ دیں۔ اسے لگا کہ وہ اپنے گھر کے کچن میں بیٹھا ہے اور اس سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔ میں نے اس رات کہا:
«الحمدلله الذی جعل أعداءنا من الحمقاء»
کس قدر انسان بے فکر ہو گا کہ عالمی سیٹلائٹ نیٹ ورک پر ایسی بات کا اظہار کریں اور کہیں : "میری بہن، میں نے اپنے الفاظ سے جو کچھ کہا اس کا حوالہ مت دینا!"
ناظم:
یہ واضح ہے کہ اسے اپنی باتوں پر بھروسہ نہیں ہے۔
حضرت آیت الله حسینی قزوینی:
وہ خود ڈرتا ہے کہ اس نے امام حسین کے بارے میں غلط الفاظ استعمال کیا ہے ، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ وہ جو کہہ رہا ہے وہ سچ نہیں ہے۔ دوسری طرف انہیں خبر نہیں کہ ان کی تقریر سیٹلائٹ پر نشر ہو رہی ہے اور پوری دنیا ان کی لائیو گفتگو سن رہی ہے۔
مجھے ان لوگوں پر افسوس ہے جو امام حسین کے بارے میں ایسی باتیں کرتے ہیں۔ روایت ان لوگوں کے نقطہ نظر سے بالکل صحیح ہے۔
"حکیم نیشابوری" نے کتاب "مستدرک علی الصحیحین" جلد 3 صفحہ 181 میں ایک روایت نقل کی ہے جو کہ دلچسپ بھی ہے۔ انہوں نے "سلمان" کے الفاظ کا حوالہ دیا جو کہتا ہے:
«سمعت رسول الله یقول الحسن والحسین ابنای من أحبهما أحبنی ومن أحبنی أحبه الله ومن أحبه الله أدخله الجنة»
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سناہے: حسن اور حسین میرے بچے ہیں۔ جو ان سے محبت کرتا ہے وہ مجھ سے محبت کرتا ہے اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ خدا سے محبت کرتا ہے اور جو خدا سے محبت کرتا ہے خدا اسے جنت میں داخل کرے گا۔
«ومن أبغضهما أبغضنی ومن أبغضنی أبغضه الله ومن أبغضه الله أدخله النار»
جو بھی ان سے دشمنی رکھے گا وہ مجھ سے دشمنی رکھے گا اور جس نے مجھ سے دشمنی کیا اس نے خدا کو دشمنی کیا اور جس نے خدا کو دشمن بنایا وہ جہنم میں جائے گا۔
«هذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین ولم یخرجاه»
المستدرک علی الصحیحین، اسم المؤلف: محمد بن عبدالله أبو عبدالله الحاکم النیسابوری، دار النشر: دار الکتب العلمیة - بیروت - 1411 هـ - 1990 م، الطبعة: الأولی، تحقیق: مصطفی عبد القادر عطا، ج 3، ص 181، ح 4776
یہ روایت "ذہبی" کی کتاب "سیر أعلام النبلاء" میں مفصل زکر ہوا ہے۔ ایک بار پھر، کتاب "سنن ترمذی" میں جو صحاح سته میں سے بھی ہے، زکر ہواہے:
«قال رسول اللَّهِ حُسَینٌ مِنِّی وأنا من حُسَینٍ أَحَبَّ الله من أَحَبَّ حُسَینًا»
حضور نے فرمایا: حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔
الجامع الصحیح سنن الترمذی، اسم المؤلف: محمد بن عیسی أبو عیسی الترمذی السلمی، دار النشر: دار إحیاء التراث العربی - بیروت --، تحقیق: أحمد محمد شاکر وآخرون، ج 5، ص 658، ح 3775
"وأنا من حُسَینٍ" کا کیا مطلب ہے؟! اگر امام حسین علیہ السلام کی قیام نہ ہوتی تو بنی امیہ اپنی زبانوں سے دین اسلام اور ناموس رسالت کو ہمیشہ کے لیے مٹا دیتے۔
اس صورت میں بنی امیہ معاشرے میں اسلام کے آثار باقی نہیں رہنے دیں گے اور دو صدیوں سے بھی کم عرصے میں پورے اسلام کو اپنے ذہنوں سے مٹا دیں گے۔ امام حسین علیہ السلام کی قیام ان لوگوں کی رسوائی اور معدومیت کا باعث بنی۔
’’وأنا من حُسَینٍ‘‘ کا مطلب ہے کہ اگر امام حسینؓ نہ ہوتے تو مجھے (حضورؐ) کو بھلا دیا جاتا۔
اس سلسلے میں بہت سی روایتیں ہیں اور مورخوں نے تفصیلی معلومات بیان کی ہیں۔ ایک اور روایت سنی کتب سے ہے۔
"ابن ابی شیبہ" جو 235ھ میں فوت ہوئے اور "بخاری" کے استاد نے اس حوالے سے ایک روایت نقل کی ہے۔
انہوں نے کتاب "مصنف" جلد 6 صفحہ 378 میں متعدد روایتیں نقل کی ہیں۔ انہوں نے ابو سعید خدری، ابو اسحاق اور زید بن ارقم سے روایتیں نقل کی ہیں، جو درج ذیل ہیں:
«الحسن والحسین سیدا شباب أهل الجنة»
امام حسنؑ اور امام حسینؑ جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔
الکتاب المصنف فی الأحادیث والآثار، اسم المؤلف: أبو بکر عبد الله بن محمد بن أبی شیبة الکوفی، دار النشر: مکتبة الرشد - الریاض - 1409، الطبعة: الأولی، تحقیق: کمال یوسف الحوت، ج 6، ص 378، ح 32176
ہمارے پاس اس سلسلے میں بہت ساری روایت ہے،لیکن اگر فون ہے تو ہم محترم ناظرین کو ترجیح دیں گے۔ ہم اپنے پیارے ناظرین کی خدمت میں حاضر ہیں۔
پروگرام دیکھنے والوں کی (فون) کالیں:
آشتیان سے جناب فراہانی فون میں ہیں۔ آپ کی خدمت میں سلام اور مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ناظرین (جناب فراہانی از اشتیان - شیعہ):
سلام علیکم محترم ناظم اور استاد قزوینی۔
حضرت آیت الله حسینی قزوینی:
سلام علیکم و رحمة الله.
ناظم:
میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔
ناظرین:
میرا ایک سوال تھا۔ میں آیت تطهیر کے تحت کچھ تحقیق کر رہا ہوں۔ بظاہر ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ' 'عباس بن عبدالمطلب ' ' کو کساء میں شامل کیا اور ' 'عترتی ' ' کے نام سے متعارف کرایا۔
میں پوچھنا چاہتا تھا کہ یہ روایت کتنی صحیح ہے اور یہ روایت کے دلیل موجود ہے؟! بہت شکریہ۔
ناظم:
بہت بہت شکریہ۔ اصفہان سے محترم جناب محمدی، برائے مہربانی اپنا پیغام ارسال کریں تاکہ ہم استاد کی خدمت میں حاضر ہو کر جواب دیں۔
ناظر (جناب محمدی اصفہان سے - شیعہ):
محترم ناظم اور استاد کو سلام اور شب بخیر۔
حضرت آیت الله حسینی قزوینی:
سلام علیکم و رحمة الله، آپ کا بہت بہت شکریہ۔
ناظم:
میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔
ناظر:
حاجی آغا ایک روایت تھی جو کبھی امام حسین کے سلسلے میں بیان کی گئی تھی۔ مجھے اجازت دیں آج رات میں ایک روایت بیان کرنا چاہتا ہوں۔ میں اس روایت کا عربی نسخہ پڑھ رہا ہوں اورآپ اس روایت کے بارے میں جس قدر ہمیں موقع ملے ہیں بیان کریں۔
حضرت آیت الله حسینی قزوینی:
آپ فرمایں۔
ناظر:
سوال یہ تھا کہ جہنمیوں کو جہنم کی طرف ہانکا جا رہا ہے لیکن اہل جنت کو جنت کی طرف کیوں ہانکا جا رہا ہے؟! دھکیلنے کا کیا مطلب ہے؟! میں نے ایک بار آپ کے خدمت میں یہ روایت پڑھی تھی:
«یا زُرَارَةُ أَنَّهُ إِذَا کانَ یوْمُ الْقِیامَةِ جَلَسَ الْحُسَینُ ع فِی ظِلِّ الْعَرْشِ وَ جَمَعَ اللَّهُ زُوَّارَهُ وَ شِیعَتَهُ لِیصِیرُوا مِنَ الْکرَامَةِ وَ النَّضْرَةِ وَ الْبَهْجَةِ وَ السُّرُورِ إِلَی أَمْرٍ لَا یعْلَمُ صِفَتَهُ إِلَّا اللَّهُ فَیأْتِیهِمْ رُسُلُ أَزْوَاجِهِمْ مِنَ الْحُورِ الْعِینِ مِنَ الْجَنَّةِ فَیقُولُونَ إِنَّا رُسُلُ أَزْوَاجِکمْ إِلَیکمْ یقُلْنَ إِنَّا قَدِ اشْتَقْنَاکمْ وَ أَبْطَأْتُمْ عَلَینَا فیحْمِلُهُمْ مَا هُمْ فِیهِ مِنَ السُّرُورِ وَ الْکرَامَةِ»
مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، نویسنده: نوری، حسین بن محمد تقی، محقق / مصحح: مؤسسة آل البیت علیهم السلام، ج 10، ص 229، ح 11911
جو لوگ امام حسین کی خدمت کرتے ہیں، وہ اس قدر برداشت کرتے ہیں کہ لامحالہ انہیں بہشت کے مامور لے جاتے ہیں۔ استادآپ براہ کرتقریر کو جاری رکھیں۔
ناظم:
آپ کا بہت بہت شکریہ اور آپ کا اور تمام پیارے ناظرین کا شکریہ۔ استاد ہمارے پاس پانچ منٹ سے زیادہ وقت نہیں ہے اور ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتے ہیں۔
حضرت آیت الله حسینی قزوینی:
پہلے میں ان کے فرمایش کو بیان کروں گا۔ یہ روایت کتاب "مستدرک الوسائل" جلد 10 صفحہ 229 میں زکر ہوا ہے جو کہ بہت مفصل ہے۔
جہنمیوں کے لیے لفظ "نسوق" استعمال ہوتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ ہم انہیں زبردستی جہنم کی طرف گہسیٹتے ہیں۔
اب اس روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ ہم بهشت والوں کو زبردستی جنت میں لے جاتے ہیں۔ جنت میں جانے کے لیے مجبور ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ اہل جنت کو اپنی مرضی سے جانا چاہیے۔
عظیم مراجع تقلید میں سے ایک شیخ بشیر نجفی، جن کے افغانستان میں بہت سے پیروکار ہیں، انہوں نے اس سلسلے میں ایک مواد زکر کیا ہے۔ ہم ان کی خدمت میں پہنچے اور وہ بہت خوش فکر اور خوش استقبال انسان ہیں۔
وہ کہتے ہیں: میں نے اس آیت پر بہت غور کیا اور میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اہل جنت جب امام حسین علیہ السلام کے حسن کو دیکھتے ہیں تو امام حسین علیہ السلام کے حسن میں محو ہو جاتے ہیں اور ان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔
فرشتے انہیں کسی بھی صورت میں جنت میں لے جاتے ہیں، وہ کہتے ہیں: امام حسین کا حسن ہمارے لیے جنت میں جانے سے زیادہ لذت بخش ہے۔ اس کے نتیجے میں اہل جنت کو زبردستی جنت میں لے جایا جاتا ہے۔
جناب فراہانی کے سوال کے بارے میں کتاب "صحیح مسلم" میں ہے کہ عائشہ فرماتی ہیں: جب آیت تطهیر نازل ہوئی؛
«خَرَجَ النبی غَدَاةً وَعَلَیهِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ من شَعْرٍ أَسْوَدَ فَجَاءَ الْحَسَنُ بن عَلِی فَأَدْخَلَهُ ثُمَّ جاء الْحُسَینُ فَدَخَلَ معه ثُمَّ جَاءَتْ فَاطِمَةُ فَأَدْخَلَهَا ثُمَّ جاء عَلِی فَأَدْخَلَهُ ثُمَّ قال (إنما یرِیدُ الله لِیذْهِبَ عَنْکمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیتِ وَیطَهِّرَکمْ تَطْهِیرًا)»
صحیح مسلم، اسم المؤلف: مسلم بن الحجاج أبو الحسین القشیری النیسابوری، دار النشر: دار إحیاء التراث العربی - بیروت، تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقی، ج 4، ص 1883، ح 2424
اس روایت کے مطابق اس چادر کے نیچے صرف حضرت امیر المومنین، امام حسن، امام حسین اور حضرت فاطمہ زہرا ہی تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اور کو اندر جانے کی اجازت نہیں دی۔ ایک روایت میں ہے کہ ام سلمہ فرماتی ہیں:
«یا رسول الله ألست من أهل البیت»
اے خدا کے رسول! کیا میں اہل بیت میں سے ہوں؟
«قال إنک علی خیر إنک من أزواج النبی وما قال إنک من أهل البیت»
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اچھے انسان ہو۔تم ازواج رسول میں سے ہو اور تم اہل بیت میں سے نہیں ہو۔
تاریخ مدینة دمشق، اسم المؤلف: أبی القاسم علی بن الحسن إبن هبة الله الشافعی، دار النشر: دار الفکر - بیروت - 1995، تحقیق: محب الدین أبی سعید عمر بن غرامة العمری، ج 14، ص 145، باب آخر الجزء الحادی والسبعین بعد المائة
"ابن عساکر" کی کتاب "الأربعین" میں مزکور ہے کہ "ام سلمہ" نے بیان کیا کہ میں آئی اور چادر پکڑ کر چادر کے اندر داخل ہونا چاہی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ہاتھ سے چادر کھینچی اور فرمایا: میرے اہل بیت سے دور ہو جاؤ! یہ آیت امیر المومنین حضرت فاطمہ زہرا، امام حسن اور امام حسین پر نازل ہوئی ہے۔
ناظم:
استاد ایک اور سوال بھی کیا ہےکہ ایسی روایتیں کیوں ہیں؟!
حضرت آیت الله حسینی قزوینی:
میں نے ابھی ایک روایت پڑہی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: امام حسن اور امام حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔ اس کے مقابلے میں وہابیوں نے یہ روایت بنائی کہ ابوبکر اور عمر جنت کے بوڑہوں کے سردار ہیں۔
میں اہل سنت سے معذرت چاہتا ہوں، لیکن ابن ابی شیبہ کی کتاب "مصنف" میں ہے کہ:
«إذ أقبل أبو بکر وعمر فقال یا علی هذان سیدا کهول أهل الجنة إلا ما کان من الأنبیاء فلا تخبرهما»
ابوبکر اور عمر اندر داخل ہوئے۔ حضور نے فرمایا: علی! یہ دونوں لوگ جنتی بزرگوں کے سردار ہیں۔
المصنف فی الأحادیث والآثار، اسم المؤلف: أبو بکر عبد الله بن محمد بن أبی شیبة الکوفی، دار النشر: مکتبة الرشد - الریاض - 1409، الطبعة: الأولی، تحقیق: کمال یوسف الحوت، ج 6، ص 350، ح 31941
کیا جنت بوڑہوں کا گھر ہے جہاں بوڑہے ہوتے ہیں؟ ہمارے یہاں روایت میں ہے کہ شیعہ اور سنی کا عقیدہ ہے کہ اہل جنت جنت میں جوان ہو جاتے ہیں۔
ملا علی قاری جو حنفی مذہب کے بڑے علماء میں سے ہیں، اس روایت کو کتاب مرقاة المفاتیح، جلد 10، صفحہ 422 میں زکر کیا ہے اور لکھتے ہیں: یہ روایت جعلی ہے، کیونکہ ہمارے پاس روایت موجود ہے کہ تمام لوگ جو جنت میں داخل ہونے والے ہیں سب جوان ہوںگے۔
جنت بوڑہوں کا گھر نہیں ہے کہ بوڑہوں کو وہاں لے جایا جائے! پھر "مناوی" کتاب "فیض القدیر" میں لکھتے ہیں:
«لیس فی الجنة کهل»
فیض القدیر شرح الجامع الصغیر، اسم المؤلف: عبد الرؤوف المناوی، دار النشر: المکتبة التجاریة الکبری - مصر - 1356 هـ، الطبعة: الأولی، ج 1، ص 89، باب ذکره الطیبی
کم از کم ایسی باتیں نا کہيں تاکہ میز پر پکا ہوا چکن آپ پر ہنسے!جب بنی امیہ کہتے ہیں کہ جو کوئی خلفائے راشدین اور معاویہ کے فضائل کے بارے میں کوئی روایت بیان کرے اس کے لیے اجر ہے تو ایک عرب آدمی جس کی مالی حالت خراب تھا وہ کئی روایتیں بناتا ہے اور اپنی زندگی کی کفالت کے لیے پیسے کماتا ہے۔
ناظم:
ان روایتوں کے ادب سے واضح ہوتا ہے کہ یہ سب جعلی ہیں۔
حضرت آیت الله حسینی قزوینی:
اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کس نے روایت کو جعل کیا، لیکن وہ احمق تھے جنہوں نے ان لوگوں کو روایت جعل کرنے پر وادار کیا ۔ "ابن تیمیہ" کہتے ہیں: ہمارے پاس معاویہ کے بارے میں ایک بھی صحیح روایت نہیں ہے۔
اس لیے "بخاری" میں علی ابن ابی طالب کے فضائل، امام حسن، امام حسین کے فضائل، عائشہ کے فضائل اور دیگر کا ذکر ہے۔ جب وہ معاویہ کے پاس آتا ہے تو اس نے "فضائل" کا ذکر نہیں کیا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ "بخاری" اور "مسلم" دونوں کا عقیدہ تھا کہ معاویہ کی کوئی فضیلت نہیں ہے۔ معاویہ کے فضائل میں رسول اللہ کی لعن اور درجنوں چیزیں تھیں جو سنی حضرات لے کر آئے ہیں۔
انشاء اللہ اس سال اس سریال کے حوالے سے ہمارا کام تھوڑا بھاری ہو گا جسے یہ لوگ نشر کرنا چاہتے ہیں۔ میری تمام دوستوں سے درخواست ہے کہ وہ معاویہ کے بارے میں علمی اور شائستگی سے گفتگو کریں اور توہین اور فحاشی سے پرہیز کریں۔ سنی نوجوان ہوشیار اور بیدار رہیں۔
ناظم:
میں آیت اللہ حسینی قزوینی کا بے حد مشکور ہوں جنہوں نے ہمیں فیض پہنچایا۔ اورآپ محترم ناظرین کا بھی مشکور ہوں، اور مجھے امید ہے کہ آپ ہمیں اپنی نیک دعاؤں سے محروم نہیں کریں گے۔
اللہ حافظ
والسّلامُ علیکم ورحمةُ اللہ وبركاته