امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

خلیفہ بلافصل اور حدیث غدیر ۔۔۔۔۔ شیعہ امامت اور خلافت کا تصور

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

خلیفہ بلافصل اور حدیث غدیر ۔۔۔۔۔ شیعہ امامت اور خلافت کا تصور

حدیث غدیر اور شیعہ موقف کی حقانیت

بِسْمِ ٱللَّٰهِ ٱلرَّحْمٰنِ ٱلرَّحِيمِ

مقدمہ :

   سبھی اپنے عقیدے یا مکتب کی پیروی کسی نہ کسی دلیل کی وجہ سے کرتے  ہیں  ۔

  لیکن یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ نہ اکثر مکاتب فکر کے عقائد  حق  کے مطابق  ہیں اور نہ سب کے دلائل  صحیح ہیں ۔

معاشرے کی اکثریت  پہلے سے بنائی ہوئی ذہنیت اور سوچ کی پٹری سے اترنے سے خوفزدہ رہتی ہے ۔

   اور اپنے  عقیدے کو ہی حق  کا معیار  سمجھ کر اپنےمخالف کے حق سے دوری پر ایمان رکھتی ہے۔

قرآن مجید کا  آٹل فیصلہ ہے کہ دلیل کے بغیر کسی کی بات کو  تسلیم  نہیں کرنا چاہئے[1] ۔

قرآن  کی نگاہ میں صاحبان عقل کی پہچان  مخالف کی بات کو سننا اور بھیڑ چال چلنے کے بجائے اپنا راستہ خود  تلاش کرنا ہے ۔

اس تحریر میں ہمارا مقصد دوسروٕں کو اپنے مذہب کی منطق اور استدلال  کو  سننے کی دعوت دینا ہے [2]۔

ہم  یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہم کسی سے دشمنی میں یا کسی کے دھوکے میں آکر اندھی تقلید  کا طوق گردن میں ڈال کر اپنے عقیدے سے دفاع نہیں کرتے ہیں،  بلکہ ہم دلیل اور منطق کے ساتھ اپنے عقیدے کی حقانیت پر یقین رکھتے ہیں اور  ائمہ  اہل بیتؑ علیھم السلام  کو دینی پیشوا مانتے ہیں اور ان کی پیروی کو اسلامی تعلیمات تک رسائی کا سب سے مطمئن اور مستحکم راستہ  سمجھتے ہیں ۔

لہذا اپنے قارئین محترم سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ مذہبی تعصبات سے آزاد ہو کر ہمارے موقف اور دلیل کو سننے کے لئے اس تحریرکا مطالعہ کریں .

اے اللہ :میں اس بات پر راضی و  خوشنود ہوں کہ :اللہ تعالی میرا رب ہے۔

اسلام میرا دین ہے۔

قرآن میری  کتاب ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم میرے نبی ہیں ۔کعبہ میرا قبلہ ہے۔ علیؑ میرے ولی  اور امام ہیں۔ اے اللہ! میں حسن ؑو حسینؑ  اور دوسرے  ائمہ ؑ کی امامت پر راضی ہوں۔ آپ  بھی اس وجہ سے مجھ سے راضی رہنا۔بے شک تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے [3]۔

 غدیر خم کا عظیم واقعہ اور شیعہ موقف کی وضاحت

تاریخ اسلام میں رونما ہونے والے واقعات میں سے ایک اہم واقعہ 18 ذی الحجہ کو حجۃ الوداع سے واپسی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا وہ تاریخ ساز خطاب ہےجوغدیر خم کےمقام پرحاجیوں  کے عظیم اجتماع سے آپ نے فرمایا  ۔

نظریہ خلافت میں شیعوں کا دوسرے مسلمانوں سے اختلاف کی ایک اہم  بنیاد اسی واقعے کی تفسیر ہے ۔شیعہ اپنے موقف کے بیان میں یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ نے اللہ کے حکم سے اپنے بعد امت کی رہبری کے مسئلے  میں امت پر حجت تمام کیا اور واضح انداز میں اپنے جانشین اور لوگوں کے دینی پیشوا کا اعلان فرمایا،اور اپنی ہدایت کے مطابق چلنے کی صورت میں امت کو  گمراہی سے بچنے اور راہ حق پر ثابت قدم  رہنے کی ضمانت دی ۔

آپ نے اس اہم خطاب میں قرآن اور عترت اہل بیت ؑ کا ایک دوسرے سے جدا نہ ہونے اور اہل بیتؑ  کا سب سے زیادہ قرآن شناس اور دین شناس ہونے کو مسلمانوں پر واضح فرمایا۔

  اور  لوگوں کو   قرآن مجید اور ائمہ اہل بیتؑ کی پیروی اور ان دونوں سے متمسک رہنے کا حکم دیا اور انہیں اپنے بعد اپنا جانشین اور لوگوں کے دینی پیشوا قرار دے کر یہ فرمایا: 

دیکھنا کس طرح  میرے بعد میری وصیت اور دستور کی پیروی کرتے ہو ۔

جیساکہ اس  خطاب میں حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے’’حدیث ثقلین ‘‘ اور ’’حدیث غدیر‘‘ کو ایک ساتھ بیان فرماکر اس چیز کی وضاحت فرمائی کہ آپ کی جانشینی کے سلسلے کا پہلا خلیفہ  حضرت علی ابی طالبؑ ہیں ۔

اسی لئے شیعوں کا اس چیز پر ایمان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کے بعد جن ہستیوں کی پیروی اور اتباع ہم پر فرض ہے وہ ائمہ اہل بیتؑ ہی ہیں۔

ائمہ اہل بیتؑ ہی  دین کے حقیقی محافظ ، وارث اور دینی پیشوا  ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد کوئی بھی دین شناسی اور دین کی حفاظت میں  ان کے ہم پلہ نہیں ہے۔

 شیعہ منطق اور موقف کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جانشین اور خلیفہ کےلیے تین بنیادی شرائط کا ہونا  ضروری ہے ۔

الف : رسول اللہﷺ نے ہی انہیں اپنا جانشین قرار دیا ہو۔

ب : جانشین مقام عصمت پر فائز ہو۔

  ج: جانشین دین شناسی میں سب سے زیادہ کامل  اور برتر  ہو۔

لہذا جن میں یہ  شرائط موجود ہوں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کے حقیقی جانشین اور  لوگوں کا دینی پیشوا  ہے۔

چاہئے ان کے ہاتھ میں حکومت رہی ہو یا نہ رہی ہو۔ چاہئے  وہ دنیا میں موجود  ہوں یا  دنیا سے چلے گئے ہوں۔ جس طرح نبی ﷺ کے بعد بھی ان کی نبوت پر ایمان اوران کی سیرت اور تعلیمات پر عمل کرنا سب پر فرض ہے ،ان کے حقیقی جانشین کی امامت اور ولایت پر ایمان   اور ان کی تعلیمات اور سیرت  کا بھی یہی حکم ہے ۔

لہذا شیعہ اپنے اماموں کو ظاہری حکومت نہ ملنے کے باوجود بھی انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کے حقیقی جانشین ماننتے ہیں۔ اور ان کی تعلیمات اور سیرت کو اپنے لئے حجت سمجھتے ہیں ۔

شیعہ اس چیز کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ مندرجہ بالا شرائط کے بغیر کسی کو رسول اللہ اکرم کے جانشین سمجھنے کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔ جانشینی کے لئے ضروری خصوصیات کے بغیرکسی فرد  کو خلیفہ کہنا اس لفظ کو ایک مجازی معنی میں استعمال کرنا ہے ۔ شیعہ موقف کے مطابق مندرجہ بالا شرائط کے بغیر جس طریقے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کے بعد حکومت کی بھاگ دوڑ ہاتھ میں لینے  سے یہ لازم نہیں آتا کہ  اس کے  بعد میں آنے والوں  پر اس کو خلیفہ ماننا  ضروری ہو اور  اگر کوئی اسے خلیفہ نہ مانے اور اس کی سیرت اور تعلیمات کی پیروی کو واجب نہ سمجھے تو اس کو گمراہ  کہا جائے ۔

اسی لئے شیعہ ائمہ اہل بیتؑ کےعلاوہ کسی اور کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کے حقیقی جانشین اور لوگوں کا واجب الاطاعت دینی پیشوا نہیں ماننتے ہیں ۔

کیونکہ صرف ائمہ اطہار میں  ہی جانشینی کے لئے ضروری خصوصیات پائی جاتی ہیں دوسروں میں نہیں ۔

 اسی عقیدے کی بنیاد پرشیعوں کی معتبر کتابیں ائمہ اہل بیتؑ کے توسط سےاخذ شدہ تعلیمات سے لبریز ہیں جبکہ دوسروں کے پاس آٹے میں نمک کے برابر بھی ان بزرگوں کی تعلیمات موجود نہیں ہیں۔

تشیع کی تاریخ اسلام کی تاریخ سے جدا نہیں  ہے۔

شیعہ اپنے  مخالفین کی ہی معتبر کتابوں سے  اس موقف پر اپنے دلائل پیش کرتے ہیں ۔لیکن  شیعوں کے موقف اور ان کے دلائل سے ناآشنا لوگ اپنی نا دانی کی وجہ سے اور کچھ بد نیت لوگ  شیعوں کے اس عقیدے  کو بدنیتی ، اصحاب کی شان میں توہین اور اسلام سے خیانت کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔یہاں تک کہ ائمہ اہل بیتؑ کی امامت اور جانشینی کے عقیدے کو یہود کی سازش کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ اور ابن سباء نامی ایک افسانوی کردار (یا یہودی) کو تشیع کا بانی قراردے کر شیعیت کی تاریخ لکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

اور نتیجے میں مکتب اہل بیتؑ کی پیروی سے لوگوں کو دور رکھتے ہیں۔جبکہ تشیع کی تاریخ کاسرچشمہ قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کے فرامین  ہیں ۔

 تشیع کی تاریخ اسلام کی تاریخ سے جدا نہیں  ہے۔امت کی رہبری کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے فرامین  کو ہی سرلوحہ اور نمونہ عمل قرار دینے اور اس سلسلے میں پیدا ہونے والے  انحراف  کے مقابلے میں احتجاج  کے نتیجے میں ہی  شیعہ دوسروں سے جدا ہوئے ہیں  ۔لہذا   شیعوں کا یہ طرز عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کے بعد دینی تعلیمات کو محکم اور مضبوط سرچشمے سے لینے اور دینی پیشوائی کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دستورات  کی پاسداری اور  اس پر پابندی کی کوشش کا نتیجہ ہے۔شیعوں نے دینی پیشوائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانشینی کے مسئلے میں  آپ کے فرامین کے مقابلے میں اجتہاد کرنے  والوں کا ساتھ نہیں دیا اور  آپ کے ہی فرامین کو فصل الخطا ب سمجھا ۔

لہذا اکثریت سے جدا ہوئے ۔

گرچہ شیعہ مخالفین کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کے بعد امت کی اکثریت کا  دینی پیشوائی کے مسئلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کے دستورات اور فرامین کے خلاف چلنا  اور صرف ایک اقلیت کا قرآن و سنت کے دستور کے پابند رہنے کے نظریے کو قبول کرنا   انتہائی سخت ہے  ۔

لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ  شیعہ اپنے اس موقف پر کسی اندھی تقلید یا کسی شخص یا گروہ سے دشمنی کی وجہ سے قائم نہیں ہیں۔  بلکہ اس سلسلے میں ٹھوس دلائل رکھتے ہیں ۔

انشاء اللہ ہم اس تحریر میں   امیرالمومنین علی ابن ابی طالب ؑ اور دوسرے ائمہ اہل بیتؑ کی جانشینی اور امامت کے سلسلے میں موجود دلائل میں سے خاص کر غدیر کے خطبے میں موجود دلائل کی وضاحت اور    اس سلسلے میں موجود بعض شبہات کا  جواب دیں گے ۔

  خطبہ غدیر کے سلسلے میں مختصر وضاحت :

بہت سے مفسرین نے نقل کیا ہے کہ  (سورہ المائدة  کی آیت67)

’’ يا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ وَ اللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكافِرينَ[4] ۔

غدیر کے مقام پر امیر المومنین ؑ کی ولایت کے اعلان کے بارے  میں نازل ہوئی ہے ۔

جیساکہ اہل سنت کی معتبر تفاسیر میں سے قدیمی  تفسیر ’’تفسیر ابن ابی حاتم ‘‘ میں نقل ہوا ہے :

«نزلت هذه الآية: {يَا أَيهَا الرسُولُ بَلغْ مَا أُنزِل إِليْكَ مِن ربكَ} في علي بن أبي طالب (ع) [5]۔

اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آپ نے حجۃ الوداع کے بعد  مکہ سے کچھ فاصلے پر غدیر کے مقام پر سب حاجیوں کو جمع ہونے کاحکم دیا یہاں تک کہ آگے نکلے ہووں کو واپس بلایا اور پیچھے رہ جانے والوں کا انتظار کیا [6]  اور سخت گرمی کے باوجود حاجیوں کے  تقریبا سوا لاکھ کے مجمعے کو یکجا جمع کیا[7]

اور اونٹوں کے پالانوں سے ایک ممبر بنا کرایک طولانی خطبہ دیااور خطبےمیں خاص کر حاجیوں سے اپنے اس آخری خطاب میں عنقریب اپنی موت اور اللہ کے پکار پر لبیک کہنے کی خبر دی اور اپنے بعد امت کی رہبری اور اپنے جانشین کے  اہم مسئلے پر روشنی ڈالتے ہوئے  ثقلین  (قرآن و  عترت اہل بیت ؑ ) کی پیروی کا حکم دیا اور اپنے بعد امیرالمومنین علی بن ابی طالب ؑکو لوگوں  کا  ولی اور سرپرست اور اپنا جانشین مقرر فرمایا۔

اس خطبے کے بارے میں ایک اہم اور قابل غور  بات یہ ہے کہ  رسول اللہ ﷺ نے خاص اہتمام کے ساتھ اس  تپتے صحراء میں دھوپ کی شدید طمازت کی حالت میں  ایک تاریخی اور امت سے الوداعی خطاب کیا اور اہم امور کو بیان فرمایا لیکن اس کے باوجود اس خطبے کو  نقل کرنے کے سلسلے میں عجیب  بات یہ ہے کہ شیعہ مخالفین کی کتابوں میں اس خطبے کو چند سطروں سے زیادہ نقل نہیں کیاگیا  ہے [8] ۔

  ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اہل سنت کے مصنفین میں سے جنہوں نے اس خطبے کو نقل کیا ہے۔ انہوں نے حدیث غدیر اور حدیث  ثقلین والا حصہ  ضرور نقل کیا  ہے۔ یہاں  تک کہ اس خطبے کا حدیث ثقلین اور حدیث غدیر والا حصہ اس حد تک کثرت سے نقل ہوا ہے کہ بعض نے تو خطبے کو انہی دو احادیث  میں ہی منحصر کیا ہے۔ اور  خطبے کے باقی حصوں  کو ذکر ہی نہیں  کیا ہے ۔

خاص کر حدیث کی کتابوں میں ان دو حدیثوں کے نقل کی نوعیت کچھ مختلف ہے،بعض نے دونوں حدیثوں کو ایک ساتھ نقل کیا ہے ۔ 

بعض نے حدیث ثقلین  کو پہلے نقل کیا ہے اوربعض نے حدیث غدیرکو پہلے نقل کیا ہے۔

اسی طرح بعض نے  صرف حدیث غدیر کو نقل کیا ہے اور بعض نے صرف حدیث ثقلین کو نقل کیا ہے۔

جیساکہ صحیح مسلم میں غدیرخم میں حضور ﷺ کے خطبہ  کا حوالہ تو موجود ہے لیکن  صرف حدیث ثقلین  نقل ہوئی  ہے۔

حدیث ثقلین کے سلسلے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نےغدیر خم کے علاوہ  بھی عرفہ اور مسجد نبوی اور دوسری جگہوں پر بھی ارشاد فرمایا ہے [9]۔ ۔

اسی طرح  حدیث غدیر  میں بھی بعض نقلوں میں مولا کا لفظ  آیا ہے اور بعض میں ولی کا لفظ آیا ہے اور بعض میں دونوں الفاظ موجود ہیں۔

خطبہ غدیر کے بارے میں ایک شبہے کا ازالہ :

 واقعہ غدیر کے کئی صدیوں بعد  بعض تاریخ نگاروں [10] اور ان کی پیروی میں دوسروں  نے خاص کر شیعوں کے موقف کو  رد کرنے کے لئے یہ کہنے کی کوشش کی  ہے[11]

کہ یمن سے واپسی پر حضرت امیر المومنین ؑ کے بارے میں بعض اصحاب کی شکایت اور اس سلسلے میں لوگوں کے ذہنوں میں موجود  شبہات  کو  دور کرنے اور ان سے  محبت اور دوستی  کی دعوت  کی خاطر  آپ نے  خطبہ دیا اور یہ ارشاد فرمایا ہے لہذا شیعوں کے موقف سے اس کا کوئی ربط نہیں ہے ۔

بعض نے تو اس شبہے کو بیان کرنے میں زیادہ روی سے کام لیا ہے اور اس کو "بریدہ "کے واقعے سے ملایا  ہے کہ جو حضرت امیرالمومنین ؑ کے  پہلے سفر سے متعلق واقعہ ہے کیونکہ آپؑ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حکم سے تین دفعہ یمن گئے تھے ۔

پہلی دفعہ  واقعہ غدیر سے دو سال پہلے یمن فتح کرنے گئے اور اس میں مال غنیمت کے مسئلے  میں بعض اصحاب خاص کر خالد بن ولید وغیرہ کو آپ کا رویہ پسند نہ آیا،اسی لئے بریدہ  سمیت بعض کو شکایت  نامے کے ساتھ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کے پاس روانہ کیا ،جب یہ لوگ مدینہ پہنچے اور  آنے کی وجہ بتائی تو بعض دوسرے صحابہ نے بھی انہیں تشویق دلائی تاکہ حضرت  امیرؑ، نعوذباللہ حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نظروں سے گر جائے[12] ۔

اور  جب ان لوگوں نے خاص کر کنیز کے سلسلے میں  ان کی شکایت لگائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ شکایت کرنے والوں پر سخت ناراض ہوئے[13] اور فرمایا  : 

ما بال أقوام ينتقصون عليا من ينتقص عليا فقد انتقصني ومن فارق عليا فقد فارقني إن عليا مني وأنا منه [14].  لاَ تَقَعْ في علي فإنه مِنِّي وأنا منه وهو وَلِيُّكُمْ بعدي[15] ۔ 

بعض نے یوں نقل کیا ہے :

ما تريدون من علي علي مني وأنا منه، وهو ولي كل مؤمن بعدي[16].

ان فرامین کے ذریعے آپ نے بیان فرمایا : تم  لوگوں کو  یہ کیا ہوگیا ہے ،تم لوگ کیوں علی بن ابی طالب کے خلاف بدگوئی اور ان پر  تنقید کرتے ہو ؟ 

جو بھی علی پر تنقید کرئے گا اس نے گویا مجھ پر تنقید کی ہے ،جو علی سے جدا ہوئے گویا وہ مجھ سے جدا ہوئے ،علی مجھ سے اور میں علی سے  ہوں ۔علی میرے بعد تم لوگوں  کے  ولی ، سرپرست  اور میرا جانشین ہیں ۔

لہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے شکایت لگانے والوں کو دوٹوک جواب دیا اور حضرت امیرؑ کے مقام انہیں یاد دلا کر آئندہ ان کے بارے میں بدگوئی اور  شکایت سے سختی سے منع فرمایا[17]۔۔

لہذا یہ شکایت اور واقعہ اسی وقت ختم ہوا ۔لیکن   اس واقعے کو غدیر کے ساتھ ملانے اور حدیث غدیر میں لفظ مولا اور ولی کا معنی دوست قرار دینے والوں کو اتنا  بھی خیال نہ آیا کہ اس سے تو الٹا شیعوں کے موقف کی تائید ہوتی ہے کیونکہ یہاں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے واضح  طور ر فرمایا کہ

{وهو وَلِيُّكُمْ بعدي}

علی ؑمیرے بعد تم لوگوں کے  ولی  ہیں ۔یا

{ وهو ولي كل مؤمن بعدي }

علیؑ میرے بعد تمام مومنین کے ولی ہیں۔ اب یہاں میرے بعد تم لوگوں کا دوست کہنے کا تو کوئی معنی نہیں بنتا ۔

ایک اہم نکتہ : تاریخی اعتبار سے  یہ تو ثابت ہے کہ آخری مرتبہ حجۃ الوداع سے پہلے امیر المومنین ؑ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کے حکم سے زکات جمع کرنے یمن تشریف لے گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کی طرف سے حج میں شامل ہونے کا  پیغام  ملنے کے بعد آپؑ یمن سے ایک کاروان کے ساتھ  مکہ کی طرف روانہ ہوئے اور  بعض تاریخی نقلوں کے مطابق  کاروان میں شامل بعض کی طرف سے  بیت المال میں بے جا تصرف اور استعمال پر جب  آپ  نے اعتراض کیا تو  یہاں بھی  بعض ناراض ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کے پاس حضرت کی شکایت لگائی لیکن اس میں اختلاف ہے کہ یہ شکایت مکہ میں لگائی [18]یا مدینہ میں[19]۔ اسی طرح حج کے اعمال انجام دینے سے پہلے یا اعمال انجام دینے کے بعد یہ شکایت لگائی گئی۔

لیکن اس واقعے میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے شکایت لگانے والوں کو واضح جواب دیا اور جناب امیرؑ کے مقام اورمنزلت انہیں بیان فرمایا۔ جیساکہ نقل ہوا ہے.

أيها الناس، لا تشكوا علياً، فو الله إنه لأخشن في ذات الله وفي سبيل الله [20]»

اے لوگو علی کی شکایت نہ لگانا ، اللہ کی قسم ان کی خشنونت اللہ کے لئے ہے۔

بعض نقلوں  میں مدینہ میں حج کے بعد شکایت کرنے والوں میں عمرو  کا نام ذکر ہوا ہےآپ نے عمرو سے خطاب میں فرمایا:

يَا عَمْرُو وَاللَّهِ لَقَدْ آذَيْتَنِي قُلْتُ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أُوذِيَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ بَلَى مَنْ آذَى عَلِيًّا فَقَدْ آذَانِي[21]۔

۔ اے عمرو و اللہ تم نے مجھے اذیت دی ہے ۔ میں نے کہا:  یا رسول اللہ میں تمہیں اذیت دینے سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ فرمایا ہاں جس نے علی کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی ۔

اس نقل کے بارے میں ایک خاص بات یہ ہے کہ اگر اس خطبے کو حضرت امیر المومنین علیہ السلام  کے بارے میں لوگوں کے چہ مگوئیاں ختم کرنے کے لئے  بیان فرمایا تھا تومجمع عام میں اس طرح  خطبے دینے  کے  بعد  کسی کو  مدینہ میں آکر اس طرح شکایت  کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔ اسی طرح  مکہ میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان لوگوں کو اسی وقت سخت الفاظ میں جواب دیا ۔آپ کے دو ٹوک جواب کے بعد  کسی کو حق نہیں پہنچتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اس دستور کی رعایت نہ کرئے۔

 اور اس کے بعد بھی  لوگوں کے ذہنوں میں شبہات باقی رہیں یہاں تک کہ بعد میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بعض کے شبہات  کی خاطر سب کو جمع کر کے خطبہ دینے کی ضرورت پڑے [22]۔

  اسی  لئے حقیقت  یہ ہے کہ یہ  شبہہ اس  کو نقل کرنے والوں کے ہی  ذہنی  تخلیق   اور اپنے خیالات کا  اظہار ہی ہے۔

 کیونکہ نہ خطبے کا مضمون  اور سیاق اس شبہے کی تائید  میں ہے اور نہ خود خطبے میں  اور نہ  اس سلسلے میں  نقل شدہ  روایات اور تاریخی نقلوں میں کہیں اس چیز کا اشارہ موجود ہے ۔

اب کیسے ممکن ہے خطبہ تو اس شبہہ کو دور کرنے کے لئے دیا ہو لیکن خطبہ میں آپ نے  کہیں پر لوگوں کی شکایات اور شبہات کی طرف اشارہ بھی نہ کیا ہو۔

لہذا  اسی  وجہ سے خطبہ دینے پر نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کلام میں  کوئی سند ہے، نہ کسی صحابی نہ ایسا کہا ہے ، نہ کسی تابعی اورتابعی کے تابعی نے اس  کی طرف اشارہ کیا ہے ۔اسی لئے یہ کہنا مناسب ہے کہ  یہ باتیں صرف بعض شیعہ مخالفین کے خیالات اور گمان ہی ہیں ۔ یہ شیعہ موقف کو رد کرنے  اور فرمان رسول اللہ ص کے معنی میں تحریف کے لئے تیار شدہ جعلی  باتیں ہیں  ۔

جیساکہ ہم  بعد میں اشارہ کریں گے  کہ یہاں دوسروں کے برعکس  شیعہ موقف کی تائید میں بہت سے شواہد موجود ہیں اور اگر خطبہ اس وجہ سے  بھی دیا ہو پھر بھی یہ خلافت اور امامت کے مسئلے میں شیعہ موقف  کی تائید میں ہی ہے۔

شبھہ کے بے بنیاد ہونے پر ایک عقلی تحلیل :

 اس  شبہہ کو کیونکہ مذہبی تعصب کی وجہ سے بیان کیا ہے  لہذا مغالطہ اورزیادہ روی سے کام لیا گیا ہے ۔کیونکہ یمن کے  قافلے میں موجود لوگ باقی شہروں  سے آنے والے لوگوں کی نسبت سے اتنی تعداد میں نہیں تھے کہ دوسروں  کے ذہنوں میں موجود شبہات اور بدگمانی کو  دور کرنے کے لئے آپ نے سب حاجیوں کو جمع کیا ہو اور سب کے ذہنوں سے اس بات کو نکالنے کے لئے خطبہ دیا ہو ۔

کیونکہ اعتراض اگر تھا تو یمن سے آنے والے بعض  لوگوں کو تھا ، سارے حجاج کو نہیں تھا ۔ اور جیساکہ  مولا علی علیہ  السلام کا عمل بھی شرعی اعتبار سے بلکل ٹھیک تھا لہذا کیسے کہہ سکتے  ہیں   کہ یمن سے آئے  کاروان  والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے سختی سے منع کرنے کے باوجود  ہر جگہ ان کے اس صحیح موقف  کو ایک  غلط رنگ دے کر پیش کیا ہو اور اس سے سارے حجاج  اور اصحاب، حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے بارے بدبین ہوئے ہوں ؟

کیا یہ اصحاب اتنے بے دقتی سے کام لینے  والے اور افواہوں  سے متاثر ہونے والے  تھے ؟

کیا یہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس سب سے ممتاز  شاگرد کے بارے بدگمان ہوگئے تھے؟

کیا ان کو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تربیت میں شک تھا ؟

عجیب بات ہے کہ اس شبہہ کو بیان کرنے والے اس کو  اس طرح بڑا چڑھا کر پیش کرتے ہیں کہ گویا سارے حاجی حضرت امیر المومنینّ کی نسبت سے شک و شبہہ اور بدگمانی کا  شکار ہوئے ہوں ۔جبکہ یہ ان میں سے  بعض کی شکایت  اور  غلط گمان اور  غلط بیانی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  نے بھی انہیں اسی وقت  جواب دیا، اب  آپ کی طرف سے  سختی سے منع کے باوجود  کیسے  یہ لوگ کہہ  سکتے ہیں کہ کثرت سے حاجی  اس شک اور بدگمانی  کے  مرض میں مبتلا  ہوئے ہوں ؟

  لہذا اس شبہہ کو بیان کرنے والوں نے بغیر سند اور دلیل کے یہ بات کہی  ہے۔ انہوں نے کسی صحابی یا تابعی سے سند کے ساتھ اس چیز کو نقل نہیں کیا ہے۔ نہ کسی روایت میں اس شبھہ کی طرف اشارہ ہوا ہے نہ حدیث غدیر کا مضمون اور سیاق و سباق  اس بات کی تائید کرتا ہے ،نہ ہی یہ عقل کی رو  سے کوئی قابل قبول اور قابل دفاع بات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس شبہہ کو بیان کرنے والا  ابن کثیر،اپنی بات پر سند پیش کرنے کے بجائے آخر میں “  والله أعلم” لکھتا  ہے، گویا یہاں وہ  اپنی  اس بات پر دلیل نہ ہونے کا اعلان کر رہا ہے۔

لہذا   ابن کثیر کی اس بات کو تاریخی سند کے طور پر پیش کرنا منطقی اورعلمی طریقہ نہیں ہے۔بلکہ یہ وہی“  ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ”والی بات ہے۔
حدیث غدیر اور حدیث ثقلین کے نقل کے چند نمونے۔

  جیساکہ بیان ہوا کہ خطبہ غدیر میں حدیث ثقلین اور حدیث غدیر کو نقل کرنے کی  کیفیت کتابوں میں مختلف ہے۔ ہم  ذیل میں بعض  نمونے اس سلسلے میں نقل  کرتے ہیں ۔

صرف حدیث غدیر  

  غدیر  خم میں رسول اللہﷺ نے جو  خطبہ  دیا اس  میں  حدیث غدیر کے عنوان سے جو حدیث مشہور ہے وہ بعض نقلوں میں حدیث ثقلین کے بغیر نقل ہوئی ہے۔ہم اس قسم کے نقلوں کے چند نمونے یہاں نقل کرتے ہیں ۔

  سنن الترمذی  میں :

سنن ترمذی  میں نقل ہوا ہے :

عن النبي صلى الله عليه وسلم قال من كنت مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ [23]۔

       رسول اللہﷺ نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے۔

   سنن ابن ماجہ میں :

فَأَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ فقال أَلَسْتُ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ من أَنْفُسِهِمْ قالوا بَلَى قال أَلَسْتُ أَوْلَى بِكُلِّ مُؤْمِنٍ من نَفْسِهِ قالوا بَلَى قال فَهَذَا وَلِيُّ من أنا مَوْلَاهُ اللهم وَالِ من وَالَاهُ اللهم عَادِ من عَادَاهُ [24]

   مسند احمد بن حنبل میں :

  فقال: أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ ۔۔۔۔ فَأَخَذَ بِيَدِ عَلِىٍّ فقال: من كنت مَوْلاَهُ فعلي مَوْلاَهُ اللهم وَالِ من ولاه وَعَادِ من عَادَاهُ. قال: فَلَقِيَهُ عُمَرُ بَعْدَ ذلك فقال: له هنيأ يا بن أبي طَالِبٍ أَصْبَحْتَ وَأَمْسَيْتَ مولى كل مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ[25].

 حضرت امیر المومنین ؑ نے  غدیر کے واقعہ کے تقریبا تیس سال بعد رحبہ کے مقام پر اصحاب اور تابعین کے اجتماع میں اللہ کی قسم دے کر فرمایا  جو  غدیر کے دن حاضر تھے وہ   حدیث کے بارے میں گواہی دیں تو  تیس سے زیادہ اصحاب نے گواہی دی ۔ 

فَقَامَ ثَلاَثُونَ مِنَ النَّاسِ - وَقَالَ أَبُو نُعَيْمٍ فَقَامَ نَاسٌ كَثِيرٌ - فَشَهِدُوا حِينَ أَخَذَهُ بِيَدِهِ فَقَالَ لِلنَّاسِ « أَتَعْلَمُونَ أَنِّى أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ ». قَالُوا نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ «مَنْ كُنْتُ مَوْلاَهُ فَهَذَا مَوْلاَهُ اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالاَهُ وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ [26]».   

  مسند ابی یعلی میں  یہی روایت اس طرح نقل ہوئی ہے کہ ۱۲ بدری اصحاب نے اس چیز کی گواہی دی ۔

: شَهِدْتُ عَلِيًّا فِي الرَّحْبَةِ يُنَاشِدُ النَّاسَ: أَنْشُدُ اللَّهَ مَنْ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ، يَقُولُ فِي يَوْمِ غَدِيرِ خُمٍّ : مَنْ كُنْتُ مَوْلاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلاهُ ، لَمَا قَامَ فَشَهِدَ ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَقَامَ اثْنَا عَشَرَ بَدْرِيًّا ، كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى أَحَدِهِمْ عَلَيْهِ سَرَاوِيلُ ، فَقَالُوا : نَشْهَدُ أَنَّا سَمِعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ، يَقُولُ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ : أَلَسْتُ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجِي أُمَّهَاتُهُمْ ؟ قُلْنَا : بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ ، قَالَ : فَمَنْ كُنْتُ مَوْلاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلاهُ ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالاهُ وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ[27]

حدیث غدیر کثرت کے ساتھ "مَنْ كُنْتُ وَلِيَّهُ فَعَلِيٌّ وَلِيَّهُ"  کی تعبیر کے ساتھ بھی نقل ہوئی ہے :

 زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ، أَنَّ عَلِيًّا، رَضِيَ اللهُ عَنْهُ نَاشَدَ النَّاسَ مَنْ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ كُنْتُ وَلِيَّهُ فَعَلِيٌّ وَلِيُّهُ» فَقَامَ بَضْعَةَ عَشَرَ فَشَهِدُوا أَنَّهُمْ سَمِعُوا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ كُنْتُ وَلِيَّهُ فَعَلِيٌّ وَلِيَّهُ»

المعجم الكبير للطبراني (5/ 191):

اس سلسلے میں یہ بھی نقل ہوا ہے کہ جن لوگوں نے غدیر کے دن اس حدیث کو سننے کے بعد گواہی نہیں دی انہیں اور حضرت امیر ؑ کے نفرین کے نتیجے میں اس حق کو چھپانے  کی سزا ملی اور کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا ہوئے[28]  ۔

جیساکہ المعجم الكبير میں ہے :

  عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ: نَاشَدَ عَلِيٌّ النَّاسَ فِي الرَّحَبَةِ مَنْ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ الَّذِي قَالَ لَهُ فَقَامَ سِتَّةَ عَشَرَ رَجُلًا فَشَهِدُوا أَنَّهُمْ سَمِعُوا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «اللهُمَّ مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ» قَالَ زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ: «فَكُنْتُ فِيمَنْ كَتَمَ فَذَهَبَ بَصَرِي، وَكَانَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ دَعَا عَلَى مَنْ كَتَمَ»[29]

صرف حدیث ثقلین

جیساکہ صحیح مسلم میں خطبہ غدیر کا حدیث ثقلین والا حصہ  نقل  ہوا ہے،  حدیث غدیر والا حصہ نقل نہیں ہوا ہے ۔

زید ابن ارقم سے  نقل ہوا ہے  :  رسول اللہﷺ نے مکہ اور مدینہ کے درمیان خم  کے مقام پر ایک خطبہ دیا ۔اللہ کی حمد و ثنا اور وعظ و نصیحت کے بعد فرمایا:

أَمَّا بَعْدُ أَلاَ أَيُّهَا النَّاسُ فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ رَسُولُ رَبِّي فَأُجِيبَ وَأَنَا تَارِكٌ فِيكُمْ ثَقَلَيْنِ أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللَّهِ فِيهِ الْهُدَى وَالنُّورُ فَخُذُوا بِكِتَابِ اللَّهِ وَاسْتَمْسِكُوا بِهِ» . فَحَثَّ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ وَرَغَّبَ فِيهِ ثُمَّ قَالَ «وَأَهْلُ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي[30] ۔

صحیح مسلم کی عبارت دو جہت سے قابل توجہ ہے کہ ایک تو صحیح مسلم  میں حدیث غدیر نقل ہی  نہیں کیا ہے جبکہ باقی سب نے خطبہ  غدیر کے اس حصے کو نقل کیا ہے یہاں تک کہ  بہت  سے  علماء حدیث نے خطبہ غدیر کے اسی{ حدیث غدیر والے } حصے کو ہی نقل کیا ہے ۔

 دوسری  قابل توجہ بات یہ ہے کہ صحیح مسلم میں حدیث ثقلین بھی ایک ایسی عبارت کے ساتھ نقل ہوئی ہے کہ گویا صرف قرآن کی پیروی اور اطاعت کا حکم ہوا ہے ۔  

جبکہ حدیث ثقلین کی  اکثر  صحیح سند نقلوں میں قرآن اور عترت دونوں کی پیروی اور اتباع کی صورت میں گمراہی سے نجات کی ضمانت کا ذکر ہے۔

صحیح مسلم کے مصنف کے اس عمل  کی وجہ شاید ائمہ اہل بیت ؑ کے ساتھ ان کا مخصوص رویہ ہو کیونکہ صحیح مسلم اور بخاری دونوں میں  رسول اللہ ﷺ کے سب سے ممتاز ان  شاگردوں سے احادیث نقل کرنے میں کوتاہی کی گئی ہے۔

سنن الترمذي میں ہے :

" إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي أَحَدُهُمَا أَعْظَمُ مِنَ الآخَرِ: كِتَابُ اللَّهِ حَبْلٌ مَمْدُودٌ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الأَرْضِ. وَعِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي، وَلَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الحَوْضَ فَانْظُرُوا كَيْفَ تَخْلُفُونِي فِيهِمَا «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ»[31]

المستدرك على الصحيحين میں نقل ہوئی ہے کہ آپ نےغدیرخم کے مقام پر فرمایا  :

 أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا إِنِ اتَّبَعْتُمُوهُمَا، وَهُمَا: كِتَابُ اللَّهِ، وَأَهْلُ بَيْتِي عِتْرَتِي[32]۔

اے لوگو ! میں تمہارےدرمیان  دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں اگر ان دونوں کی پیروی کرئے تو کبھی گمراہ نہیں ہوں گے،وہ دو اللہ کی کتاب اور میری عترت اہل بیت ہیں ۔

  حدیث غدیر اور حدیث ثقلین  

  خصائص امیرالمومنینؑ  لنسائی میں ہے :

  « عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ: لَمَّا رَجَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ حَجَّةِ الْوَدَاعِ، وَنَزَلَ غَدِيرَ خُمٍّ، أَمَرَ بِدَوْحَاتٍ فَقُمْتُ، ثُمَّ قَامَ فَقَالَ: «كَأَنِّي قَدْ دُعِيتُ فَأَجَبْتُ، إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ أَحَدُهُمَا أَكْبَرُ مِنَ الْآخَرِ، كِتَابَ اللهِ وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي، فَانْظُرُوا كَيْفَ تَخْلُفُونِي فِيهِمَا؟ فَإِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ» ثُمَّ قَالَ: «إِنَّ اللهَ مَوْلَاي، وَأَنَا وَلِيُّ كُلِّ مُؤْمِنٍ» ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ فَقَالَ: «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَهَذَا مَوْلَاهُ، اللهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ»[33]». معجم طبرانی میں یہ جملہ بھی موجود ہے کہ  راوی زید بن ارقم سے حدیث سننے کےبعد تعجب کرتے ہوئے سوال کرتا ہے اور زید بن ارقم نے  بھی تائید کی  : فَقُلْتُ لِزَيْدٍ: أَنْتَ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: «مَا كَانَ فِي الدَّوْحَاتِ أَحَدٌ إِلَّا قَدْ رَآهُ بِعَيْنَيْهِ وَسَمِعَهُ بِأُذُنَيْهِ[34]»

     مستدرک علی  الصحیحین  میں ہے :

 رسول اللہ ﷺ نے غدیر خم  نامی جگہ پر سب کو جمع کر کے  یہ خبر دی کہ مجھے اللہ کی جانب طلب کیا گیا ہے میں عنقریب  تمہارے درمیان نہیں ہوں گا اور فرمایا:

يا أيها الناس إني تارك فيكم أمرين لن تضلوا إن اتبعتموهما و هما كتاب الله و أهل بيتي عترتي ثم قال،  أتعلمون إني أولى بالمؤمنين من أنفسهم ثلاث مرات قالوا : نعم فقال رسول الله : من كنت مولاه فعلي مولاه[35]۔

لوگو!میں تمہارے درمیان   دو  چیزیں چھوڑ ے جا رہا ہوں کہ اگر تم  لوگ  ان دو  کی پیروی کریں   تو گمراہ نہیں ہوں گےاور وہ دو  اللہ کی کتاب  اور میری  عترت اہل بیت ہیں .... پھر  تین مرتبہ  فرمایا: کیا تم لوگوں کو معلوم ہے کہ  میں مومنوں پر اُن کی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتا ہو ؟ سب نے کہا: جی  ہاں  یا  رسول اللہﷺ. اس کے بعد آپ نے فرمایا: جس کا  میں مولا  (پیشوا اور سرپرست )ہوں علی اس کا  مولا  (پیشوا اور سرپرست )ہیں۔

المعجم الكبير میں  اس طرح نقل ہوئی ہے :

فَانْظُرُوا كَيْفَ تَخْلُفُونِي فِي الثَّقَلَيْنِ؟» فَنَادَى مُنَادٍ: وَمَا الثَّقَلَانِ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: «كِتَابُ اللهِ طَرَفٌ بِيَدِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ وَطَرَفٌ بِأَيْدِيكُمْ فَاسْتَمْسِكُوا بِهِ لَا تَضِلُّوا، وَالْآخَرَ عِتْرَتِي، وَإِنَّ اللَّطِيفَ الْخَبِيرَ نَبَّأَنِي أَنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ، وَسَأَلْتُ ذَلِكَ لَهُمَا رَبِّي، فَلَا تَقْدُمُوهُمَا فَتَهْلَكُوا، وَلَا تَقْصُرُوا عَنْهُمَا فَتَهْلَكُوا، وَلَا تُعَلِّمُوهُمْ فَإِنَّهُمْ أَعْلَمُ مِنْكُمْ» ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فَقَالَ: «مَنْ كُنْتُ أَوْلَى بِهِ مِنْ نَفْسِي فَعَلِيٌّ وَلِيُّهُ، اللهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ»[36]۔

اس حدیث میں آپ واضح طور پر فرماتے ہیں کہ قرآن اور عترت سے نہ آگے نکلے نہ ان سے پیچھے رہے ،یہ دونوں تم لوگوں سے زیادہ جاننے والے ہیں ۔ اس کے بعد حضرت امیر المومنین علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر فرماتے ہیں : جس کے نفسوں سے زیادہ میں اس پر حق رکھتا ہوں ، علی اس کا علی ولی ہیں ۔

حدیث غدیر کی سند  کی بحث ۔

یہ بھی مسلم بات  ہے کہ حدیث غدیر کا صدور اور اس کی سند قطعی امور میں سے ہے۔بہت سے اہل سنت کے علماء نے اس کی کثرت طرق اور تواتر اور صحت کا اعتراف کیا ہے ۔اور اس حدیث کو مجموعی طور پر ایک یقینی حدیث میں سے قرار دیا ہے ۔ہم ذیل میں ان میں سے بعض اقوال یہاں نقل کرتے ہیں ؛

جیساکہ نقل ہوا کہ رحبہ کے مقام پر حضرت  امیر المومنین علیہ السلام نے اسی حدیث سے احتجاج کیا اورغدیر کے دن موجود اصحاب سے اس  حدیث کی صحت پر گواہی دینے کا کہا تو بہت سے اصحاب نے اٹھ کر گواہی دی ۔ان میں بدری صحابہ کی تعدادبارہ بتائی ہے[37] ۔

اہل سنت کے علماء نے بہت سے اصحاب سے اس حدیث کو نقل کیا ہے ،

ابن حجر  نے  ابوعباس ابن عقدہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے ۷۰ سے زیادہ اصحاب سے اس کو نقل کیا ہے ۔

قال ابن حجر: «واعتنى بجمع طرقه أبو العباس ابن عقدة، فأخرجه من حديث سبعين صحابياً أو أكثر»[38].

ذہبی  ابن جریر کی دو جلد کتاب میں اس حدیث کی کثرت طرق دیکھ کر حیران اور وحشت زدہ ہوجاتا ہے ۔

قال  الذهبي: «رأيت مجلداً من طرق الحديث لابن جرير، فاندهشت له ولكثرة تلك الطرق».

ذہبی اس کی کثرت طرق کی وجہ سے اس روایت کے صدور پر یقین کرتا ہے

 «قلت: جَمَعَ طرق حديث غديرخم في أربعة أجزاء، رأيت شطره، فبهرني سعة رواياته، وجزمت بوقوع ذلك»[39].

بہت سارے علماء نے اس حدیث  کی صحت  اور بعض نے اس  کے متواتر ہونے کا ادعا کیا ہے
1   :      ذہبی اس کو متواتر حدیث مانتا ہے :
قال ابن كثير: قال شيخنا الحافظ أبو عبد اللّه الذهبي: الحديث متواتر، أتيّقن أنّ رسول اللّه قاله[40].

2      :    أبو حامد الغزالي المتوفى 505، لکھتا ہے : سب کا اس پر اجماع ہے ۔

قال: وأجمع الجماهير على متن الحديث من  خطبته في يوم غدير خمّ باتّفاق الجميع[41].

3  :  امام مناوی اس کو متواتر حدیث مانتا ہے :   قال حديث متواتر.  [42]

      4    :  ملا علي القاري   اس کے  تواتر کو بعض حفاظ کا نظریہ قرار دیتا ہے ۔

«والحاصل: أن هذا الحديث صحيح لا مرية فيه، بل بعض الحفاظ عده متواتراً، إذ في رواية أحمد أنه سمعه من النبي(ص) ثلاثون صحابياً، وشهدوا به لعلي لما نوزع أيام خلافته»[43].

5  :  العجلوني المتوفى 1162: کی نظر بھی یہی ہے۔«فالحديث متواتر أو مشهور».[44]

6   : مشہور محقق الشيخ شعيب الأرنؤوط نے اس کی تواتر کو قبول کیا ہے :

    الشيخ شعيب الأرنؤوط في تعليقه على مسند أحمد: «له شواهد كثيرة تبلغ حد التواتر»[45].

7   :   مشہور سلفی عالم الألباني المتوفى: 1420:اس کو متواتر مانتا ہے :

 «وجملة القول أن حديث الترجمة حديث صحيح بشطريه، بل الأول متواتر عنه (صلى الله عليه وسلم)، كما يظهر لمن تتبع أسانيده وطرقه»[46].

    8      : شمس ‌الدین جزری شافعی (متوفای۸۳۳هـ بھی اس کو متواتر سمجھتا ہے ۔

هذا حدیث حسن من هذا الوجه، صحیح من وجوه کثیرة تواتر عن امیرالمؤمنین علی، وهو متواتر ایضاً عن النبی صلی الله وسلّم رواه الجم الغفیر عن الجم الغفیر، ولا عبرة بمن حاول تضعیفه من لا اطلاع له فی هذا العلم.[47]۔

علامہ امینی نے اپنی گران قیمت کتاب الغدیر میں ۴۳ اہل سنت کے علماء کے ناموں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے اس حدیث کی صحت کا اعتراف کیا ہے[48]   

اب جن لوگوں نے اس حدیث یا حدیث کے بعض حصوں کی صحت کا انکار کیا ہے ان میں ابن تیمیہ جسے بعض متعصب لوگ ہیں کہ جنہوں نے تعصب اور تساہل سے کام لیا ہے اور اس سلسلے کی بعض اسناد کو دیکھ کر سب پر ضعیف ہونے کا حکم لگایا[49]۔

   لہذا اس حدیث کی سند اور اس کا صدور قطعی امور میں سے ہے شاید اسلام دنیا میں اس جیسی اور روایت نہ ہو کہ جس کو اتنی تعداد میں اصحاب سے نقل کیا ہو اور  ۱۲ بدری صحابی نے اس کی صحت کا اعلان کیا ہو اور اس کی کثرت طرق کی وجہ سے اہل سنت کے علماء حیران رہ گئے ہوں ۔

اسی لئے اصولی طور پر شیعہ اور اہل سنت میں اس حدیث کی صحت کے بارے میں اختلاف نہیں ہے یہ بلکل متفق علیہ حدیث ہے  ۔

 
حدیث غدیر کے  معنی اور مفہوم  کی بحث ۔

اس حدیث کے معنی کو سمجھنے کے لئے چند نکات کی طرف توجہ ضروری ہے ؛

چند بنیادی نکات :

۱:   دلیل اور شبہہ میں فرق کے قائل ہونا ضروری ہے،  شبھہ ،شبھہ ہی ہوتا ہے ،شبھہ دلیل نہیں ہوتا۔  کسی شبھہ کا موجود ہونا اور اصلی  بات اور مدعا کے بطلان پر دلیل نہیں ہوسکتا ۔

۲: کسی لفظ  کے معنی کو سمجھنے کے لئے سیاق و سباق کو دیکھنا ضروری ہے،صرف لغت میں اس کے استعمالات کو ملاک قرار دئے کر کسی مشترک لفظ کا معنی کرنے سے حدیث کا اصلی معنی سمجھ میں نہیں آتا ۔۔

۳: خاص کر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث کا معنی کرنا ہو تو یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس دور میں اس لفظ کو کس معنی میں استعمال کیا جاتا تھا اور آپ کے مخاطبین اس سے کیا معنی مراد لیتے تھے ۔

۴ :   شیعہ اس حدیث سے امیر المومنین علیہ السلام کی ولایت،امامت اور خلافت کو ثابت کرتے ہیں ،جبکہ اہل سنت والے اس معنی کو قبول نہیں کرتے ۔

حدیث کے معنی کو سمجھنے کے لئے حدیث میں موجود بعض  قرائن اور شواہد پر نظر

 1 : جنہوں نے خطبے کو  قدر تفصیل سے نقل  کیا ہےانہوں نے حدیث ثقلین اور حدیث غدیر کے بیان سے پہلے مقدمے کے طور پر  اپنے اس خطاب کا حاجیوں اور مسلمانوں سے  آخری  خطاب ہونے اور  عنقریب اپنی وفات کی خبر   کو بھی نقل کیا ہے۔گویا رسول اللہﷺ  اپنی  وفات کی خبر  دینے کے ذریعے اپنے بعد امت کی رہبری اور اپنی جانشینی کے اہم ترین مسئلے کے بارے میں امت کو آگاہی دے رہے ہیں اور امت کو   درپیش مسائل کے پیش نظر  امت کو سرگردانی سے نکالنے کے لئے اقدام فرما رہے ہیں۔اور  ہونا بھی یہی چاہئے تھا کیونکہ آپ کے بعد امت کے لئے سب سے اہم مسئلہ آپ کے جانشین اور امت کے لئے ہادی اور  رہبری  کا مسئلہ تھا ،جیساکہ آپ کی وفات کے بعد سب سے پہلے اصحاب اسی مسئلے کی وجہ سے سخت اختلاف کا شکار ہوئے اور آج تک سب سے اہم ترین مسئلہ امت میں یہی مسئلہ ہے ۔لہذا ایسا تو نہیں ہوسکتا کہ آپ مسلمانوں کے اجتماع سے اپنی آخری ملاقات میں اس اہم مسئلے کا تذکرہ  تک نہ کرئے ،جبکہ آپ سب سے زیادہ مسلمانوں کے حالات سے آگاہ تھے اور سب سے زیادہ امت کے بارے میں مخص اور درد دل  رکھتے تھے ۔

2 :  حدیث غدیر کے نقلوں میں  بعض میں لفظ ولی آیا  ہے، بعض میں  لفظ مولا اور بعض میں  مولا اور ولی دونوں   ۔

مثلا { من كنت وليّه فهذا وليّه} {من كنت مولاه فعلي مولاه} { من كنت مولاه فهذا وليه}۔

اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ یہاں   لفظ مولا اور ولی کا  ایک ہی معنی  ہے ۔

   4 :    لفظ مولی کا معنی سرپرست  ہی ہے ۔

بہت سے نقلوں میں   الست اولیٰ ۔۔۔ کے ذریعے   اپنی سرپرستی اور آپ کا  لوگوں پر حاکم اور صاحب اختیار ہونے کا اقرار  لینے کے بعد  حدیث غدیر کو بیان فرمایا ہے۔

لہذا  یہ   الست اولیٰ ۔۔۔ اس بات پر قرینہ ہے کہ   لفظ ولی اور اولی   آپس میں ہم معنی  ہے ۔

 لہذا   لفظ   اولیٰ  ، ولی اور مولیٰ کا مادہ  اور اصلی معنی  ایک ہی ہے  اور یہ سب یہاں ایک ہی معنی میں استعمال ہوا ہے ۔

جیساکہ اہل سنت کے اکثر مفسرین  اور بزرگوں  نے خاص کر قرآن کریم  آیات کی تفسیر مولی سے مراد یہی اولی والا معنی لیا ہے ہم ذیل میں اس کے بعض نمونے پیش کرتے ہیں ۔

 1 :  محمد بن اسماعيل بخاري (متوفاي 256ه ـ( انہوں نے سوره حديد کی تفسیر میں نقل کیا ہے  :قال مُجَاهِدٌ ... «مَوْلَاكُمْ» أَوْلَي بِكُمْ [50]. مجاهد نے کہا ہے  : (مولاكم) کا معنی (اولي) اور برتری ہے  .

  2    :  ابن حجر عسقلاني نے بخاري کی شرح میں لکھا ہے  :

قوله مولاكم أولي بكم قال الفراء في قوله تعالي «مأواكم النار هي مولاكم» يعني أولي بكم [51]۔

فراء نے آيه شريفه : (ماواكم النار هي مولاكم) میں مولي کا معنی تم پر اولي اور برتر کیا ہے ۔

3  :     أبو عبد الرحمن سلمي (متوفاي 412هـ)   : «مأواكم النار هي مولاكم» أي أولي الأشياء بكم واقربها إليكم [52].  

4 . أبو القاسم القشيري (متوفاي 465هـ) : و «هي مولاكم» أي هي أوْلَي بكم [53].

5 . علي بن احمد واحدي (متوفاي 468هـ) : هي مولاكم ( أولي بكم )[54]

6 . محمد بن فتوح حميدي (متوفاي 488هـ) صاحب" كتاب الجمع بين الصحيحين": «ذلك بأن الله مولي الذين آمنوا » أي وليهم والقائم بأمورهم [55]

 7 . بيضاوي (متوفاي 685هـ) :  «هي مولاكم» هي أولي بكم  [56]

8 . أبو عبد الله قرطبي (متوفاي 671هـ) :  ( هي مولاكم ) أي أولي بكم والمولي من يتولي مصالح الإنسان[57].[11]

9. نسفي (متوفاي 710هـ) : «هي مولاكم» هي أولي بكم [58].

 10 . سعد الدين تفتازاني (متوفاي791هـ) :تفتازاني نے اعتراف کیا ہے کہ یہی معنی علم لغت کے بزرگوں کے نذدیک رائج معنی ہے  ؛ 

قال الله تعالي : «مأواكم النار هي مولاكم» أي أولي بكم . وبالجملة استعمال المولي بمعني المتولي والمالك للأمر والأولي بالتصرف شائع في كلام العرب منقول عن كثير من أئمة اللغة[59]

11 . معروف لغت شناس فيروز آبادي ،:«هي مولاكم» أولي بكم النار[60] ۔

 12  . محمد علي شوكاني (متوفاي 1250هـ) : شوکانی نے بھی  مولی کا اصلی معنی یہی اولی بالتصرف اور سرپرستی کو قرار دیا ہے ۔

«هي مولاكم» أي هي أولي بكم والمولي في الأصل من يتولي مصالح الإنسان ثم استعمل فيمن يلازمه[61] .

لہذا قرآن میں بھی  لفظ مولی کا استعمال اولی اور سرپرستی کے معنی میں  ہے  اور اہل سنت کے بزرگوں نے بھی اسی کا اعتراف کیا ہے ۔جیساکہ بیان  یہی معنی  شیعہ بھی حدیث غدیر میں اسی معنی کو مراد لیتے ہیں ۔اسی لئے حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حدیث بیان کرنے سے پہلے { الست اولی بکم ۔۔۔۔} نے پہلے  اپنے اولی ،سرپرست اور صاحب اختیار  ہونے کا اقرار   لیا ۔

5:    حدیث ثقلین ،حدیث غدیر کے معنی کو بھی واضح کرتی ہے   ۔

جیساکہ بیان ہوا کہ بعض نے حدیث ثقلین کو ہی اس خطبہ کے ایک اہم حصے کے طور پر نقل کیا ہے ،بعض نے  اس کے ساتھ حدیث غدیر کو بھی نقل کیا ہے ۔

جیساکہ حدیث ثقلین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مختلف موقعوں پر ارشاد  فرمایا ،ان میں سے ایک اہم  غدیر خم کا مقام ہے ۔

لہذا اس حدیث کو محدثین نے مختلف الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے ،اس حدیث کے معنی و مفہوم اور اس حدیث کے بیان کے اصل مقصد و ہدف کو جاننے کے لئے اس میں استعمال ہونے والے الفاظ کی طرف توجہ ضروری ہے ۔

    حدیث  ثقلین کے بعض الفاظ :

5 1-  إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ۔الثقلین ۔۔

جیساکہ نقل ہوا کہ اس حدیث کی بہت سی نقلوں میں یہی  تعبیر موجود ہے ۔ یعنی میں تم میں دو قیمتی چیزیں چھوڑے جارہا ہوں۔ لہذا یہی تارک کہنا خود اس بات کی دلیل ہے کہ آپ نے ان دونوں کا تعارف  امت کی رہبری اور ہادی کے عنوان سے  فرمایا ۔  آپ  یہ چاہتے تھے کہ امت  آپ کے بعد ان دونوں سے جدا نہ ہوں  اور ان کی ہدایت کے مطابق آگے بڑے ۔

2- 5-:   ما إن أخذتم بهما لن تضلّوا[62]:

اگر ان دونوں کو لے تو گمراہ نہیں ہوں گے ۔

3  5-:   « مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِى »[63]

اگر ان دو سے متمسک رہے ، ان کی پیروی کرئے تو گمراہ نہیں ہوں گے ۔

4 5-:  «لن تضلّوا إن اتبعتم و استمسكتم بهما» أو «لن تضلّوا إن اتبعتموها[64]»

ان دونوں کی پیروی اور اتباع کرئے تو گمراہ نہیں ہوں گے ۔

5 5-: فَلَا تَقْدُمُوهُمَا فَتَهْلَكُوا، وَلَا تَقْصُرُوا عَنْهُمَا فَتَهْلَكُوا، وَلَا تُعَلِّمُوهُمْ فَإِنَّهُمْ أَعْلَمُ مِنْكُمْ [65]۔

ان دونوں کے ساتھ ہی رہے ،ان دونوں سے آگے بڑھنے یا پیچھے رہنے کی کوشش کریں تو گمراہ ہوں گے ،کیونکہ ان دونوں کا علم باقی سب سے زیادہ ہے ۔

6  5-: کثرت سے یہ تعبیر آئی ہے

" إِنِّي تَاركٌ فيكم ما إن تَمسَّكْتُمْ به لن تَضِلُّوا بعدي" [66]

میں تم لوگوں کے درمیان وہ چیزیں چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم لوگ ان سے متمسک  رہے  تو تم لوگ گمراہ نہیں ہوں گے۔

7 5-: وَلَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الحَوْضَ[67] ۔

قرآن اور حدیث ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے ۔

8  5-: فَانْظُرُوا كَيْفَ تَخْلُفُونِي فِيهِمَا[68]

دیکھنا میرے ان دو امانتوں کی کیسے پاسداری کروگے اور ان کے بارے میری وصیت پر کیسے عمل کروگے ۔

9 - 5:  وَعِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي،[69]

،یہاں آپ نے واضح طور پر اس چیز کو بیان فرمایا کہ یہ ھادی میری نسل اور ذریت سے ہوں گے ۔

جیساکہ امام مھدی علیہ السلام کے سلسلے میں موجود احادیث میں بھی یہی تعبیر موجود ہے لہذا یہاں اہل بیت سے مراد ازواج کو بھی لینا یا اہل بیت سے مراد ان کے مطلق ذریت  کو لینا صحیح نہیں ہے ،کیونکہ اس حدیث  میں  واضح طور پر امت کی ہدایت اور رہبری کے لئے حکم بیان ہوا ہے لہذا ان احادیث کا مضمون ہی اس پر دلیل ہے کہ  یہاں نہ ازواج مراد ہے نہ آپ کی سب ذریت مراد ہے بلکہ یہاں ائمہ اہلبیت ہی مقصود ہے ۔

 5-10:  أَلَسْتُ أَوْلَى بِكُلِّ مُؤْمِنٍ من نَفْسِهِ۔۔۔

پہلے اپنی ولایت اور امت کے سرپرست ہونے کا اقرار لیا اور پھر حدیث ثقلین اور حدیث غدیر بیان فرمایا ۔ جیساکہ بیان ہوا " اولی" ولی" مولی"  سب ہم معنی   ہے۔

مندرجہ بالا نکات  کا نتیجہ

پہلا نتیجہ :۔

اس حدیث کے

"  إِنِّي تَاركٌ فيكم ما إن تَمسَّكْتُمْ به لن تَضِلُّوا بعدي" اتخاذ   اور  اتباع  ۔۔

جیسے الفاظ اس بات پر  دلالت کرتے ہیں کہ ثقلین کی اطاعت  اور پیروی کرنا امت پر واجب ہے، قرآن اور اہل بیت کی تعلیمات اور سیرت کی پیروی  کی صورت میں امت کا گمراہی سے بچنا یقینی اور  ان سے دوری کی صورت میں گمراہی  امت کا مقدر  ہے ۔

جیساکہ اہل سنت کے بعض علماء نے بھی اس حدیث کا یہی  کیا ہے :

ابن مالک نے تمسک کے لفظ کی تشریح میں لکھا ہے کہ:

التمسك بالكتاب العمل بمافیه و هو الإئتمار بأوامر اللّه و الانتهاء بنواهیه. و معنی التمسك بالعترة محبّتهم و الاهتداء بهداهم و سیرتهم[70]۔

کتاب سے تمسک کرنے کا معنی، اس پر عمل کرنا ہے، یعنی خداوند کے واجبات پر عمل کرنا ہے اور اس کے محرمات سے پرہیز کرنا ہے، عترت اہل بیت سے تمسک کرنے کا معنی، ان سے محبت کرنا اور انکے وسیلے اور سیرت سے ہدایت حاصل کرنا ہے۔

مناوی نے" انّی تارک فیکم اور تمسک " کے بارے میں لکھا ہے:

تلویح بل تصریح بأنّهما كتوأمین خلّفهما و وصّی أمّته بحسن معاملتهما و إیثار حقّهما علی أنفسهم و الاستمساك بهما ...،[71]

یہ الفاظ اشارہ ،کنایہ نہیں ہے بلکہ واضح طور پر بیان کر رہے ہیں کہ قرآن اور اہل بیت ہر دو جڑواں چیزوں کی طرح ہیں کہ ہیں کہ جو رسول خدا نے اپنی امت کے لیے چھوڑے ہیں اور امت کو وصیت کی ہے کہ ان دونوں سے اچھا سلوک کریں اور ان دونوں کے حق کو اپنے حقوق پر مقدم کریں اور اپنے دینی امور میں بھی اہل بیت سے تمسک کریں۔

تفتازانی نے بھی لکھا ہے:

    ألا تری أنّه علیه الصلاة و السلام قرنهم بكتاب اللّه تعالی فی كون التمسك بهما منقذاً عن الضلالة، و لا معنی للتمسك بالكتاب إلاّ الأخذ بما فیه من العلم و الهدایة فكذا فی العترة[72]۔

کیا آپ نہیں دیکھتے کہ رسول خدا نے قرآن اور اہل بیت کو ایک ساتھ ذکر کیا ہے کہ ان دونوں کی اطاعت و پیروی کرنا انسان کو گمراہی سے نجات دلاتا ہے، قرآن سے تمسک کرنے کا کوئی معنی نہیں ہے مگر یہ کہ جو کچھ اس میں علم و ہدایت ہے، اس پر عمل کرنا ہے، اور اہل بیت سے بھی تمسک کرنے میں یہی معنی ارادہ کیا گیا ہے۔

دوسرا نتیجہ :

جیساکہ بیان ہوا بہت سی احادیث میں حدیث ثقلین کے فورا بعد حدیث غدیر نقل  ہوئی ہے،اس حسن مجاورت کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم امت کی رہبری کے لئے قرآن اور اہل بیت علیہم السلام کی معرفی کے بعد اہل بیت میں سے اس سلسلے کا پہلا فرد اور آپ کے بعد اپنا پہلا جانشین ،حضرت امیر المومنین علیہ السلام ہونے کو بیان فرمایا ہے:

لہذا حدیث ثقلین ،حدیث غدیر کے معنی اور اس حدیث کے مقصود کو بیان کرنے کے لئے بہترین شاہد اور قرینہ ہے اور " من کنت ولیہ فعلی ولیہ"  کا معنی وہی جانشینی اور امت کے لئے اپنے  بعد رہبر اور راہنما کا انتخاب ہے ۔   

 

   6  :     حدیث غدیر میں «مَنْ كُنْتُ وَلِيَّهُ فَعَلِيٌّ وَلِيُّهُ[73]» کی تعبیر  کا استعمال ہے :

جیساکہ کثرت سے یہ تعبیر احادیث کی کتابوں میں صحیح سند نقل  ہوئی ہے ۔

 دلچسپ بات یہ ہے کہ حضرت امیر نے رحبہ کے مقام پر اصحاب سے گواہی دینے کا کہا تو اس حدیث  کے بعض نقلوں میں بھی یہ تعبیر موجود ہے  اور اصحاب  کی  بڑی تعداد نے اس کی صحت کی گواہی دی ۔جیساکہ  نقل ہوا ہے :

زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ، أَنَّ عَلِيًّا، رَضِيَ اللهُ عَنْهُ نَاشَدَ النَّاسَ مَنْ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ كُنْتُ وَلِيَّهُ فَعَلِيٌّ وَلِيُّهُ» فَقَامَ بَضْعَةَ عَشَرَ فَشَهِدُوا أَنَّهُمْ سَمِعُوا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ كُنْتُ وَلِيَّهُ فَعَلِيٌّ وَلِيَّهُ»[74]

 قابل توجہ نکات  :

۱ :     ان مختلف نقلوں کو نقل بمعنی کہے یا کوئی اور تعبیر استعمال کرئے ،یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اصحاب اور محدثین لفظ "مولاہ  " اور لفظ " ولیہ " کا ایک ہی معنی لیتے تھے ۔

 ۲ :   اس قسم کے الفاظ کا معنی اگر جاننا ہو تو اسی زمانے میں اس کے مخاطبین کے نذدیک اس لفظ کے رائج معنی کو دیکھنا ہوگا  کیونکہ حکیم ،فصیح اور بلیغ شخص جب خطاب کرتے ہیں  تو اپنے سامعین کے ذہنوں میں رائج معنی کے مطابق الفاظ کو استعمال کرتے ہیں   تاکہ اپنےمراد اور مقصود کو  اپنے سامعین تک پہنچانے میں آسانی ہو۔

جیساکہ خلفاء ثلاثہ اور دوسرے اصحاب حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس خطبے کے اصلی سامع ہیں  ۔

اب اگر ہم یہ دیکھنا چاہئے کہ خلفاء ثلاثہ اور دوسرے اصحاب اس لفظ سے کیا معنی مراد لیتے تھے اور اس لفظ کو کس معنی میں استعمال کرتے تھے ؟ تو ہم دیکھتے ہیں  یہ لوگ اس قسم کے موارد میں  اس  لفظ ولی کا استعمال جانشینی اور سرپرست کے معنی میں ہی کرتے تھے ۔اس کے نمونے بہت زیادہ ہیں ۔

چند ایک نمونے :

1:  جناب ابوبکر نے خلیفہ بننے کے بعد  اصحاب سے یوں  خطاب  کیا ۔

لما ولي أبو بكر ۔۔ خطب الناس فحمد الله وأثني عليه ثم قال: أما بعد أيها الناس فقد وليتُكم ولستُ بخيركم[75]

جب ابوبكر نے خلافت سنبھالی تو لوگوں کو ایک خطبہ دیا  اور اللہ کی حمد و ثنا کے بعد کہا  : اے لوگو ! میں تم لوگوں کو ولی اور سرپرست ہوا ہوں لیکن تم لوگوں سے بہتر نہیں ہوں۔۔

2 :. ابوبكر نے عمر کو انہیں الفاظ کے ساتھ « اپنا جانشین » بنایا

... ثم رفع أبو بكر يديه فقال اللهم وليته بغير أمر ۔۔۔۔ فوليت عليهم خيرهم لهم وأقواهم عليهم وأحرصهم علي رشدهم ولم أرد محاماة عمر... [76]....

پھر ابوبكر نے ہاتھوں کو بلند کر کے کہا  : اے اللہ میں نے عمر کو آپ کے نبی کے حکم کے بغیر ولی اور جانشن بنایا ہے  ۔۔۔لوگوں میں سب سے بہتر ،سب سے قوی اور لوگوں کی ہدایت کے لئے سب سے زیادہ حریص شخص کو ان کے لئے ولی قرار دیا ہوں ۔۔۔

3  : ابوبكر نے فوجی کمانڈروں کو خط لکھا  :  وكتَبَ إِلي أُمرَاءِ الأجنَادِ : وَلَّيْتُ عليكم عمرَ ...[77]: میں نے عمر کو تم لوگوں کا ولی بنایا ہے ...

4:  صحابه نے ابوبكر  سے خطاب میں کہا : عُمر کو کیوں « وليّ  اور سرپرست  اور اپنا جانشین بنایا  اور ہمارے اوپر مسلط کیا  »    ؟

  أن أبا بكر حين حضره الموت أرسل إلي عمر يستخلفه فقال الناس : تستخلف علينا فظاً غليظاً ، ولو قد ولينا كان أفظ وأغلظ ، فما تقول لربك إذا لقيته وقد استخلفت علينا عمر[78] .

زيد بن حارث سے نقل ہوا ہے : جب ابوبکر نے حالت احتضار  میں کسی کو عمر کو بلانے بھیجا تاکہ انہیں اپنا جانشین بنائے ۔لوگوں نے کہا : آپ ایسے کو جانشین اور حاکم  بنارہے ہو جو بداخلاق اور سخت مزاج ہے ۔۔۔۔۔

5 :  خلیفہ دوم نے بھی اسی معنی میں اس لفظ کو استعمال کیا  :

مسلم بن حجاج نيشابوري نے خليفه دوم سے نقل کیا ہے ، جب اميرالمؤمنين (ع) اور عباس ارث کا مطالبہ کرنے خلیفہ دوم کے پاس آیے تو خلیفہ دوم نے کہا  :

... فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ -صلي الله عليه وسلم- قَالَ أَبُو بَكْرٍ أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ -صلي الله عليه وسلم- فَجِئْتُمَا تَطْلُبُ مِيرَاثَكَ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ وَيَطْلُبُ هَذَا مِيرَاثَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلي الله عليه وسلم- « مَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ ». فَرَأَيْتُمَاهُ كَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُ لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ ثُمَّ تُوُفِّيَ أَبُو بَكْرٍ وَأَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ -صلي الله عليه وسلم- وَ وَلِيُّ أَبِي بَكْرٍ فَرَأَيْتُمَانِي كَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا [79].

اس صحیح سند روایت میں ، خلیفہ دوم واضح انداز میں کہہ رہا ہے ابوبکر اپنے کو « ولي » اور رسول اللہ (ص) کا جانشین اور خلیفہ سمجھتا تھا  ؛ لیکن امير المؤمنين عليه السلام  اور  عباس نے اس ادعا کی تكذيب کی اور انہیں جھوٹا ، گناہ کار ، دھوکہ باز اور خائن سمجھا...،جناب  عمر نے بھی اپنے آپ کو رسول خدا (ص) کے ولی اور جانشین کہا لیکن جس طرح ابوبکر کے ادعا کو امیر المومنین اور عباس نے رد کیا ، عمر کو بھی جھوٹا ، گناہ کار ، دھوکہ باز اور خائن سمجھا قرار دیا .

 

اس بحث کا نتیجہ :

جیساکہ بیان ہوا کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصلی مخاطب خاص کر لفظ ولی سے سرپرستی  اورجانشینی ہی مراد لیتے تھے اور یہی  اس لفظ کا اس دور میں رائج معنی تھا ۔

 لہذا حدیث غدیر میں بھی اس لفظ کا یہی معنی ہے۔ہم نے گزشتہ کی گفتگو میں بیان کیا کہ لفظ ولی ،مولی اور اولی ہم معنی ہیں ۔ لہذا جس طرح خلفاء نے خاص کر لفظ ولی سے جانشینی اور رہبری کا معنی لیا ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرمان کا بھی یہی معنی ہے ۔

 

  دوسرے شواہد بھی جانشینی اور سرپرستی کے معنی ہی دلالت کرتے ہیں :

 الف     :

  جیساکہ بیان ہوا جیش یمن کے واقعے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس جب بعض نے حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی شکایت لگائی تو  آپ نے وہاں پر بھی اسی لفظ ولی کا استعمال کیا اور  حضرت امیر کو لوگوں کا ولی قرار دیا  ،جیساکہ نقل ہوا ہے ۔

   لاَ تَقَعْ في علي فإنه مِنِّي وأنا منه وهو وَلِيُّكُمْ بعدي[80]

بعض نے یوں نقل کیا ہے :

ما تريدون من علي؟ علي مني وأنا منه، وهو ولي كل مؤمن بعدي[81].

جیساکہ آپ کے بارے میں  اسی قسم کی شکایت کے جواب میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل  ہوا ہے  « فهو أولي الناس بكم بعدي »[82]۔ علی میرے بعد سب سے اولی ہیں ۔

اب  یہاں "  وهو وَلِيُّكُمْ بعدي" کو  محبت اور دوستی کے معنی پر حمل  کرنا صحیح  نہیں ہے    ۔

لہذا صاف ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم   کے فرامین میں اس قسم کے الفاظ اسی جانشینی  ،سرپرستی  اور  پیشوائی کے معنی میں ہی استعمال ہوئے ہیں  کیونکہ یہی معنی اس لفظ کا رائج معنی تھا  ۔اسی لئے  خلفاء اور دوسرے اصحاب بھی اس لفظ کو اسی معنی میں استعمال کرتے تھے ۔

ب :

  جیساکہ  نقل ہوا خاص کر حدیث ثقلین بعض نقلوں میں" خلیفتین" یعنی دو جانشین،کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔

    عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ خَلِيفَتَيْنِ كِتَابُ اللَّهِ حَبْلٌ مَمْدُودٌ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَوْ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ وَعِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي وَإِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ [83]۔

  لہذا " إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ خَلِيفَتَيْنِ " کا جملہ حدیث ثقلین اور حدیث غدیر  کے معنی کو مزید واضح کرنے کے علاوہ رسول خدا  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد اہل بیت کی امامت و خلافت پر دلالت کرتی ہے ۔

ایک اہم نکتہ : 

حدیث ثقلین اور خلافت کا معنی ۔

  حدیث  ثقلین  خلافت کے معنی اور مفھوم کو بھی بیان کرتی ہے  کہ یہاں خلافت اور جانشینی کا معنی کسی بادشاہ کا جانشین ہونے کی طرح نہیں ہے بلکہ یہاں خلافت اور جانشینی کا مطلب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد لوگوں کے ہادی اور لوگوں کے ایسا  دینی پیشوا ہونا مراد ہے کہ جو ہدایت کا کامل ترین نمونہ ہو ، ایسا جانشین کہ جس کی پیروی اور اطاعت ہدایت اور اس سے دوری گمراہی شمار ہوتی ہو۔ایسے ہادی کی اطاعت کہ جو دین شناسی  اور ہر قسم کی ضلالت اور گمراہی سے دور ہو ۔

اسی لئے ہم  کہتے ہیں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جن کی اطاعت کی صورت میں گمراہی سے نجات کی ضمانت دی ہے ،ان کی تعلیمات اور سیرت کو چھوڑنا ، فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم سے روگرانی ہے ۔

قرآنی تعلیمات کے مطابق فرمان رسول سے سرپیچی اللہ کی اطاعت سے دوری اور گمراہی ہے ۔

ج :

اسی  حقیقت کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دوسری احادیث کے ضمن میں بھی بیان  فرمایا ۔جیساکہ حدیث منزلت کے سلسلے میں آپ سے  منقول  ہے

« أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّكَ لَسْتَ بِنَبِيٍّ إِنَّهُ لَا يَنْبَغِي أَنْ أَذْهَبَ إِلَّا وَأَنْتَ خَلِيفَتِي قَالَ وَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ أَنْتَ وَلِيِّي فِي كُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِي »[84]،

 اے  علی ! آپ کی مجھ سےوہی نسبت ہے جو جناب  ہارون کو حضرت موسی علیہما  سے تھی،مگریہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ،مناسب نہیں ہے کہ میں چلا جاوں  مگر  یہ کہ  آپ میرے جانشین اور میرے بعد تمام مومنین کے ولی اور سرپرست ہوں  ۔

  جس طرح جناب ہارون کی موجودگی میں کوئی اور جناب موسی علیہ السلام کا جانشین نہیں تھا اور  ان کے ہوتے ہوئے کوئی اور   جناب موسی کے جانشین نہیں ہوسکتا تھا ۔بلکل اسی طرح  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد آپ کے زیر تربیت پلے بڑے ،آپ کے سب سے ممتاز شاگرد ،حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہی آپ کا حقیقی جانشین تھے ۔

بنابریں  ہم کہتے ہیں کہ غدیر  کے دن  بیان شدہ حدیث ثقلین میں مذکور الفاظ  اور حدیث غدیر  میں موجود لفظ "ولی " مولی " اولی "  کا معنی   حضرت   علی اور ائمہ  اہل بیت، کی امامت اور جانشین   ہونے پر     بہترین دلیل ہے ۔

 

اہل سنت کے علماء کی ایک عجیب منطق :

 جیساکہ ملاحظہ کیا ؛  لفظ « وليّ » کا استعمال خلفاء اور مكتب خلفا کے کلچر میں رائج رہا  اور اس سے  واضح انداز میں جانشین ، حاکم ، نائب اور لوگوں کے رھبری کا معنی لیتے رہے  اور یہ لفظ ان معانی پر دلالت کرتا رہا ،لیکن ان سب کے باوجود جب مکتب اھل بیت والوں کی باری آتی ہے  تو کیوں اس لفظ کے معنی کو خراب کرنے اور غیر علمی اندار میں اس کے حقیقی اور واقعی معنی کو تبدیل کرنے کی کوشش کیجاتی ہے؟

کیوں جب مولا علی علیہ السلام کے نام کے ساتھ یہ لفظ آتا ہے تو پھر کچھ لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے ، ان کے دماغ اور قلم لرزنے لگتے ہیں اور اس مسئلے میں تاریخی حقائق کو چھپانے اور اس واضح لفظ کو اس کے واضح معنی سے ہٹا کر کوئی اور معنی لینے کی کوشش کرتے ہیں؟

 

خلاصہ اور نتیجہ :

گزشتہ بیانات کی روشنی میں   حدیث غدیر میں استعمال شدہ لفظ ولی اور مولی  اور اس  سلسلے کی دوسری  احادیث کو سامنے رکھے تو اظہر من الشمس  اور بلکل واضح  ہے کہ غدیر میں

" مَنْ كُنْتُ مَوْلَی فَهَذَا عَلِيٌّ مَوْلَاهُ " یا " مَنْ كُنْتُ وَلِيَّهُ فَعَلِيٌّ وَلِيُّهُ "

کا مطلب   حضرت امیر المومنین علی ابن ابی  طالب علیہ السلام خلیفہ بلافصل  ہونے کا  اعلان ہے ۔

جیساکہ خاص کر  حدیث ثقلین کے ضمن میں ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے فرامین بھی اسی کی تائید میں ہے ۔

 نوٹ : جیساکہ ہم نے شروع میں کہا تھا ۔ دلیل اور شبھہ میں فرق ہے ۔

اگر کوئی مذھبی ذہنیت سے دور ہوکر اس سلسلے میں موجود دلائل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرامین کو سامنے رکھے تو صاف ظاہر ہے کہ خاص کر حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے خلیفہ بلافصل ہونا بلکل واضح اور قطعی امور میں سے ہے۔

لہذا دلیل اور شبھات میں فرق کے قائل ہونا چاہئے ۔شبھات کا موجود ہونا دلیل کے بطلان پر دلیل نہیں ہے۔

الحمد للہ ہم اس سلسلے میں موجود سارے شبھات کے جواب رکھتے ہیں لیکن سننے والے بھی کم از کم قرآن مجید کی ان دو  آیات پر عمل  کو یقینی بنائے ۔

’’ایمان والو ۔۔۔ خبردار کسی قوم کی عداوت تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ انصاف کو ترک کردو -انصاف کرو کہ یہی تقوٰی سے قریب تر ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو کہ اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔[قرآن ۔سورہ ۔مائدہ ۔۸]

’’پیغمبر آپ میرے ان بندوں کو بشارت دے دیجئے ۔ جو مختلف قسم کے باتوں کو سنتے ہیں اور جو بات اچھی ہوتی ہے اس کا اتباع کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جنہیں خدا نے ہدایت دی ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جو صاحبانِ عقل ہیں[ قرآن ۔سورہ ۔الزمر۔ ۔18-19]

--------

[1] . آپ کہہ دیجیے: اگر تم سچے ہو تو اپنی دلیل پیش کرو ۔  [البقرة: 111]

[2] ۔ قرآن ۔سورہ ۔الزمر۔ ۔18-19

[3]۔ من لا يحضره الفقيه ؛ ج‏1 ؛ ص327 /، تهذيب الأحكام ، ج‏2، ص: 109اصول الكافي   ج‏2، ص: 525 [معمولی اختلاف کے ساتھ]

[4] ترجمہ: اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے ’’اگر ایسا نہ کیا تو تم خدا کے پیغام پہنچانے میں قاصر رہے (یعنی پیغمبری کا فرض ادا نہ کیا) اور خدا تم کو لوگوں سے بچائے رکھے گا بیشک خدا منکروں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘(ترجمہ جالندھری)

۔[5] ﴿تفسیر ابن ابی حاتم ج ۴ ص ١١۷۲۔ جیساکہ  علامہ امینی نے اپنی مشہور کتاب" الغدیر" میں اہل سنت کے 30 بڑے مفسرین  کی عبارتوں  کو نقل کیا  کہ ان سب نے اس آیت " یا ایھا الرسول بلّغ ۔۔۔" کے ذیل میں حدیث غدیر کو ذکر کرتے ہوئے اس آیت کو اس حدیث سے مربوط قرار دیا ہے۔۔

[6] ۔ عن سعد أنه قال كنا مع رسول الله(ص) بطريق مكة وهو متوجه إليها فلما بلغ غدير خم وقف الناس ثم رد من مضى ولحقه من تخلف

 لأحاديث المختارةج3ص213

[7] ۔ اس سال حاجیوں کی تعداد کے بارے میں مختلف باتیں نقل ہوئی ہے بعض نے تعداد ایک لاکھ سے زیادہ بتائی ہے ۔دیکھیں ۔۔۔۔  السيرة الحلبية ج 3 ص 308۔۔ تذكرة الخواص: ، ص 57 ، نشر ذوي القربی – ۔1427 حجة الله البالغة ج1ص876، الإمام أحمد المعروف بشاه ولي الله ابن عبد الرحيم الدهلوي..

[8]۔ لیکن اہل سنت کی کتابوں کے برعکس  شیعہ منابع میں اس خطبے کو  طولانی اور مفصل نقل کیا ہے اور خاص کر ائمہ اہل بیتؑ کی امامت اور جانشینی کے بیان میں بہت سے مطالب اس خطبے میں  موجود ہیں ۔

[9]۔جیساکہ ابن حجر اس سلسلے میں لکھتے ہیں ۔ ولا تنافي إذ لا مانع من أنه كرر عليهم ذلك في تلك المواطن وغيرها اهتماما بشأن الكتاب العزيز والعترة الطاهرة۔۔۔۔الصواعق المحرقة، ج2، ص440 ۔

[10] ۔ مثلا ابن کثیر نے اس کو بیان کیا ہے ۔ والمقصود أن عليا لما كثر فيه القيل والقال من ذلك الجيش بسبب منعه إياهم استعمال إبل الصدقة واسترجاعه منهم الحلل التي أطلقها لهم نائبه وعلي معذور فيما فعل لكن اشتهر الكلام فيه في الحجيج فلذلك۔۔۔ لما رجع رسول الله من حجته وتفرغ من مناسكه ورجع إلي المدينة فمر بغدير خم قام في الناس خطيبا فبرأ ساحة علي.۔۔ والله أعلم.   البداية والنهاية، ج 5، ص .106

[11] ۔  ابن حجر، الصواعق المحرقة: ج1 ص109 ۔ محدث دھلوی {دیکھیں} نفحات الأزهار: ج9 ص292. ناصر أصول مذهب الشيعة: ج2 ص842- 843.

[12] . فقدمت المدينة ودخلت المسجد ورسول الله صلي الله عليه وسلم في منزله وناس من أصحابه علي بابه فقالوا ما الخبر يا بريدة فقلت خير فتح الله علي المسلمين فقالوا ما أقدمك قال جارية أخذها علي من الخمس فجئت لأخبر النبي صلي الله عليه وسلم قالوا فأخبره فإنه يسقطه من عين رسول الله صلي الله عليه وسلم.   المعجم الأوسط، ج 6، ص 162….معمولی فرق کے ساتھ۔ مصنف ابن أبي شيبة، ج 6، ص 372 و اسد الغابة، ج 4، ص 116

[13] ۔ فَرَأَيْتُ الْغَضَبَ في وَجْهِ رسول اللَّهِ صلي الله عليه وسلم.۔مسند أحمد بن حنبل، ج 5، ص 356 و سنن النسائي الكبري، ج 5، ص 133

[14] ۔ المعجم الأوسط، ج 6، ص 162

[15] ۔ مسند أحمد بن حنبل، ج 5، ص 356 و سنن النسائي الكبري، ج 5، ص 133

[16] ۔ أخرجه أحمد في المسند والترمذي، وحسنه والنسائي. تاريخ الإسلام، ج 3، ص 631

[17] ۔ فقلت{بريدة} : يا رسول الله، بالصحبة إلا بسطت يدك حتى أبايعك على الإسلام جديداً، قال: فما فارقته حتى بايعته على الإسلام.

المعجم الأوسط: ج6 ص 163.

[18] ۔سيرة ابن هشام، ج4 ص1022. تاريخ الطبري، ج2 ص402.

[19] ۔مثلا{ دلائل النبوة للبيهقي ج5 ص398، البداية والنهاية، ج5 ص106} مدینہ میں شکایت کا تذکرہ ہے ۔

[20] ۔الكامل في التاريخ، ج2 ص301. مسند أحمد بن حنبل، ج3 ص86 روح المعاني ج 6 ص ۔ 194المستدرك ج 3 ص 134

[21] مسند أحمد بن حنبل، ج3 ص483. هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ "المستدرك على الصحيحين للحاكم (3/ 131)

[22] وَمَا كَانَ لِمُؤْمِن وَلاَ مُؤْمِنَة إِذَا قَضَي اللهُ وَرَسُولُهُ أَمْراً أَنْ يَكُونَ لَهُمْ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلا مُبِيناً الأحزاب: 33/36

[23] سنن الترمذي  ج 5   ص 633 ، ح 3713

[24] ۔  سنن ابن ماجه ، ج 1 ، ص 43 ، ح116 ، فَضْلِ عَلِيِّ بن أبي طَالِبٍ رضي الله عنه

[25] مسند أحمد بن حنبل، ج 4، ص 281، ح18502

[26] مسند احمد ، ج 4 ، ص 370 ، ح۔  19823 ۔ مجمع الزوائد ج 9 ، ص ۔ 104.  لصواعق المحرقة، ج1 ص107

[27] مسند أبي يعلى- مشكول (1/ 266،  ) : مسند أحمد (2/ 421):

[28] ۔۔ فقام نفر شهدوا أنّهم سمعوا ذلك من رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) ، وكتم قوم ؛ فما خرجوا من الدنيا حتى عمُوا ، وأصابتهم آفة ، منهم : يزيد بن وديعة ، وعبد الرحمن بن مُدْلِج۔۔. اسد الغابة  ج 3   ص 508،‌

[29] المعجم الكبير للطبراني (5/  171

[30] - صحيح مسلم ج 7 ص 123، ح 6119، باب فضائل علي بن أبي طالب- مسند أحمد بن حنبل – ج 4 ص 366

[31] سنن الترمذي     (5/ 663): 2980 - ( صحيح ) صحيح الترمذي (3/ 227):

[32] ۔ المستدرك على الصحيحين للحاكم (3/ 118):

[33] ۔ خصائص أمير المؤمنين علي بن أبي طالب{لنسائی} ، ج 1 ، ص 96 ، ح79۔    المستدرك علي الصحيحن ، ج3 ص118 ۔  الاعتقاد لبيهقي : ص354. قال شيخنا أبو عبد الله الذهبي: وهذا حديث صحيح السيرة النبوية لابن كثير ، ج 4، ص 416

[34] ۔ المعجم الكبير للطبراني (5/ 166):

[35] -  المستدرك على الصحيحين - ج3 ص118 - السنة لابن أبي عاصم - ج2 ص644

[36] ۔ المعجم الكبير للطبراني (5/ 166):

[37] اثْنَا عشر بدريا فشهدوا۔۔مسند الإمام أحمد بن حنبل ج1 ص88  مجمع الزوائد ومنبع الفوائد ج9ص105، علي بن أبي بكر الهيثمي

السلسلة الصحيحة المجلدات الكاملة ج4 ص249 محمد ناصر الدين الباني۔

[38] تهذيب التهذيب: ج7 ص297

[39] سير أعلام النبلاء، ج14 ص277

[40] البداية والنهاية: ج5 ص 233

[41] سرّ العالمين: 21

[42] فيض القدير:  ج 6 ص 218

[43] مرقاة المفاتيح، ج11 ص248

[44] كشف الخفاء، ج2 ص274

[45] مسند أحمد، ج1 ص330، تحقيق شعيب الأرنؤوط

[46] السلسلة الصحيحة، ج4 ص3430

[47] جزری شافعی، محمد بن محمد، اسنی المطالب فی مناقب سیدنا علی بن ابی طالب کرم الله وجهه، ص۴۸،  

[48] امینی، عبدالحسین، الغدیر، ج۱، ص۲۹۴.

جیساکہ ان میں سے بعض کے نام درج ذیل ہے ؛

1 - أبو عيسى الترمذي صاحب الصحيح م279؛ قال بعد أن أخرجه: هذا حديث حسن صحيح.

 صحيح الترمذي: 2  ص  298

2 - أبو جعفر الطحاوي م279؛ فإنّه قال بعد أن رواه: فهذا الحديث صحيح الإسناد، ولا طعن لأحد في رواته.

مشكل الآثار: 2 ص 308

3 - ابن عبد البَرّ القُرْطُبي المتوفى سنة 463؛ فإنّه قال بعد أحاديث منها حديث الغدير: هذه كلّها آثار ثابتة.

الإستيعاب: 2 ص 273

4 - الحاكم النيسابوري المتوفى سنة 405، حيث أخرجه بعدّة طرق وصحّحها.

المستدرك على الصحيحين: 3 ص 109

5 - الذهبي المتوفّى سنة 748  قال ابن كثير :  قال شيخنا أبو عبد اللّه الذهبي: هذا حديث صحيح.

البداية والنهاية: 5 ص 209

6 - ابن حجر العسقلاني المتوفى سنة 852 قال: وكثير من أسانيدها صحاح وحسان.

فتح الباري: 7 ص 61

8 - الفقيه ضياء الدين المقبلي المتوفى 1108،  ذكر ه من الأحاديث المتواترة المفيدة للعلم وقال : إن لم يكن معلوما فما في الدين معلوم.

الأبحاث المسدّدة في الفنون المتعدّدة: 122

[49] فقد کان الدافع لتحریر الکلام علی الحدیث و بیان صحته، اننی رایت شیخ الاسلام بن تیمیة، قد ضعف الشطر الاول من الحدیث و اما الشطر الآخر، فزعم انه کذب! و هذا من مبالغته الناتجة فی تقدیری من تسرعه فی تضعیف الاحادیث قبل ان یجمع طرقها و یدقق النظر فیها و الله المستعان

.  البانی، محمدناصر، السلسلة الصحیحة، ج۴، ص۲۴۹.

[50] ، صحيح البخاري ، ج 4 ص 1358 ،

[51] فتح الباري شرح صحيح البخاري ، ج 8 ، ص 628

[52] تفسير السلمي وهو حقائق التفسير ، ج 2 ، ص 309

[53] تفسير القشيري المسمي لطائف الإشارات ، ج 3 ، ص 380

[54] الوجيز في تفسير الكتاب العزيز ، ج 2 ، ص 1068

[55] تفسير غريب ما في الصحيحين البخاري ومسلم ، ج 1 ، ص 322

[56] (تفسير البيضاوي) ، ج 5 ، ص 300

[57] ، الجامع لأحكام القرآن ، ج 17 ، ص 248

[58] تفسير النسفي ، ج 4 ، ص 217 .

[59] شرح المقاصد في علم الكلام ، ج 2 ، ص 290

[60] تنوير المقباس من تفسير ابن عباس ، ج 1 ، ص 457 ـ 458

[61] فتح القدير الجامع بين فني الرواية والدراية من علم التفسير ، ج 5 ، ص 171

[62] صحیح الترمذی: ج5 ص228 ح 3874،  مسند أحمد: ج3 ص59

[63] صحیح الترمذی: ج5 ص329ح 3876

الدر المنثور للسیوطی ج 6 ص 7

تفسیر ابن كثیر ج 4 ص 123

[64] مسند أحمد: ج ص118  

المستدرک: ج3 ص110 و قال صحیح علی شرط الشیخین

[65] ۔ المعجم الكبير للطبراني (5/ 166):

[66] جامع الأصول من أحاديث الرسول (أحاديث فقط) (1/ 66):

[67] صحیح الترمذی: ج5 ص329ح 3876

[68] صحیح الترمذی: ج5 ص329ح 3876

[69] المعجم الكبير للطبراني (3/ 180):

[70] المرقاة فی شرح المشكاة: ج5 ص600

[71] عبد الرؤوف المناوی ، فیض القدیر شرح الجامع الصغیر ج2،ص472،  

[72] سعد الدین مسعود بن عمر بن عبد الله التفتازانی ،شرح المقاصد فی علم الكلام ،ص ،221

[73] لأحكام الشرعية الكبرى (4/ 381):  السنة لابن أبي عاصم (2/ 644):

المعجم الكبير للطبراني (5/ 165): مسند البزار = البحر الزخار (4/ 41): فضائل الصحابة للنسائي (ص: 15):

السنن الكبرى للنسائي (7/ 310): شرح مشكل الآثار (5/ 18):

[74] المعجم الكبير للطبراني (5/ 191):

[75] سنن البيهقي الكبري ، اسم المؤلف: أحمد بن الحسين بن علي بن موسي أبو بكر البيهقي الوفاة: 458 ، ج 6ص 353

[76] الثقات ، ج 2 ص 192 ـ 193 ،  

[77] معجم جامع الأصول في أحاديث الرسول ، ج 4 ص 109  

[78] المصنف ، ابن أبي شيبة ، ج8 ، ص574 ،  

[79]  صحيح مسلم ، ج 3 ص 1378 ، ح 1757 ، كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ، بَاب حُكْمِ الْفَيْءِ ،  

[80] ۔ مسند أحمد بن حنبل، ج 5، ص 356 و سنن النسائي الكبري، ج 5، ص 133

[81] ۔ أخرجه أحمد في المسند والترمذي، وحسنه والنسائي. تاريخ الإسلام، ج 3، ص 631

[82] المعجم الكبير ، الطبراني الوفاة: 360هـ ، ج 22 ص 135

[83]  مسند احمد:ج 6ص232، حدیث 21068 و ص244، حدیث 21145،

كتاب السُّنّة تألیف ابن ابی عاصم: ص336، حدیث 754، چاپ المكتب الاسلامی بیروت ـ 1415 هـ.ق،

مجمع الزّوائد:ج 9ص165، چاپ دارالكتاب العربی ـ بیروت 1402 هـ.ق.

[84] عمرو بن أبي عاصم الضحاك الشيباني الوفاة: 287 ، السنة ،   ج 2 ص 565  مسند أحمد (6/ 436): المعجم الكبير للطبراني (12/ 98): المستدرك على الصحيحين للحاكم (3/ 143):{تعليق الذهبي قي التلخيص : صحيح }

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک