انبیاء (علیہم السلام) کی عصمت کے اسباب اور وجوہات
- شائع
-
- مؤلف:
- محمد ہادی نبوی مترجم: دلاور حسین لاکھانی
- ذرائع:
- ماخوذ از کتاب: صراط مستقیم عقائد امامیہ پر ایک نظر
انبیاء (علیہم السلام) کی عصمت کے اسباب اور وجوہات
اس بحث کا آغاز اس سوال سے ہوتا ہے کہ وہ کیا عوامل اور اسباب تھے جن کی وجہ سے عصمت کا مسئلہ عالم اسلام میں علم کلام کے ایک نمایا موضوع کے عنوان سے نمودار ہوا اور مسلمانوں نے اس میدان میں قدم رکھا؟
کیا یہ مسئلہ اسلام کے ابتدائی دور میں پیش کیا گیا تھا، یا بعد میں آہستہ آہستہ مسلمانوں کے درمیان رائج ہوا تھا؟
اہل سنت کے روشن فکر گروہ اور مشرقی علوم کے ماہرین جیسے: پال والکر اور ویلفرد مادلونگ؛ ان کا یہ اعتقاد ہے کہ عالم اسلام میں سب سے پہلے شیعوں نے انبیاء (علیہم السلام) کی عصمت کے مسئلہ کو پیش کیا۔ (۱)
قبل اس کے کہ اس سلسلہ میں کوئی فیصلہ کیا جائے، بہتر یہ ہے کہ عصمت کے دلائل کی طرف توجہ کی جائے کہ آیا عصمت کا مسئلہ دلیل رکھتا ہے یا نہیں؟
اگر دلیل موجود ہے تو پھر یہ بات اہم نہیں ہے کہ یہ اسلامی مسالک میں سے کس مسلک نے پیش کیا تھا، بلکہ ضروری ہے کہ دلیل کے تابع ہو کر انبیاء (علیہم السلام) کی عصمت کو قبول کیا جائے۔ البتہ اگر اس مسئلہ میں عقلی اور منطقی بنیادوں کی حامل دلیل نہ پائی جاتی ہو تو چاہے کسی بھی مسلک یا فرقے نے اس کو پیش کیا ہو یہ قابل قبول نہیں ہوگا۔
جہاں تک شیعہ دانشوروں کی جانب سے عصمت کو پیش کرنے کا تعلق ہے، اگر تمام دینی تعلیمات، قرآن و سنّت کے احکام اور اسلام کے آغاز کے دور کی تاریخ پر گہرائی سے نگاہ ڈالی جائے اور تحقیق کی جائے، تو اسلام کے آغاز کے دور ہی میں عصمت کے مسئلہ سے متعلق بحث و گفتگو کا وجود ثابت ہو جاتا ہے، اگرچہ اس مسئلہ میں قطعی دعوی کرنا مشکل ہے؛ البتہ قوی اندازہ اور گمان اس بات کا ہے کہ تمام دینی تعلیمات اور معلومات اور تاریخی شواہد سے اس بات کو اخذ کرنا ممکن ہے کہ عالم اسلام کے مفکرین اور اسلام کے آغاز کے مسلمان قطع نظر اس کے کہ وہ شیعہ تھے یا سنی اس موضوع کی طرف متوجہ تھے۔ بعض ایسے ثبوت موجود ہیں جو اس بات کو تقویت پہنچاتے ہیں؛ چند امور کو آگے بیان کیا جائے گا:
قرآن کریم میں جہاں پر ملائکہ اور فرشتوں کی طرف عصمت کی نبست دی گئی ہے، اس مقام پر ارشاد ہوتا ہے:
’’يٰٓاَيُّها الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُها النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَيْها مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُوْنَ اللهَ مَآ اَمَرَهمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ ‘‘(سورة تحریم آیت ۶)
ایمان والو اپنے نفس اور اپنے اہل کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے جس پر وہ ملائکہ معین ہوں گے جو سخت مزاج اور تندوتیز ہیں اور خدا کے حکم کی مخالفت نہیں کرتے ہیں اور جو حکم دیا جاتا ہے اسی پر عمل کرتے ہیں۔
فرشتے اس خصوصیت کے حامل ہیں کہ پروردگار عالم کی طرف سے جس بات کا ان کو حکم دیا جاتا ہے اس کی وہ اطاعت کرتے ہیں، متعین امور کے دائرے میں فرشتوں کی طرف سے نافرمانی نہیں ہوتی۔
دوسری آیت میں قرآن کریم اپنےبارے میں بیان کرتا ہے کہ:
’’لَّا يَاْتِيْهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهٖ، تَنْزِيْلٌ مِّنْ حَكِيْمٍ حَمِيْدٍ ‘‘(سورہ فصلت، آیت ۴۲۔)
جس کے قریب سامنے یا پیچھے کسی طرف سے باطل آ بھی نہیں سکتا ہے کہ یہ خدائے حکیم و حمید کی نازل کی ہوئی کتاب ہے۔
یہ آیت قرآن کریم کے بارے میں ہے جس میں اس بات کو پیش کیا گیا ہے کہ قرآن تحریف اور اشتباہ سے محفوظ ہے اور یہ ایک طرح کی عصمت ہے۔
تیسرے مقام میں پیغمبر اسلام علیہ السلام کی عصمت کے بارے میں بیان کرتے ہوئے پروردگار عالم ارشاد فرماتا ہے:
’’وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى، اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى‘‘(سورة نجم، آیات ۳-۴)
اور وہ اپنی خواہش سے کلام بھی نہیں کرتا ہے، اس کا کلام وہی وحی ہے جو مسلسل نازل ہوتی رہتی ہے۔
چوتھا مقام صلح حدیبہ کا واقعہ ہے، جہاں پر رسول اللہ علیہ السلام کے اقدام پر بعض اصحاب کی طرف سے اعتراض کیا گیا تھا۔ اس واقعہ میں خلیفۂ دوم نے براہ راست رسول خدا علیہ السلام کے سامنے بھی اعتراض کیا تھا اور خلیفۂ اول کے ساتھ گفتگو میں بھی۔ رسول خدا علیہ السلام نے خلیفۂ دوم کو جواب دیتے ہوئے ایک جملہ ارشاد فرمایا تھا جو عصمت پر دلالت کرتا ہے:
’’قال: انی رسول الله علیہ السلام و لست اعصیه و هو ناصری‘‘
( اسماعیل بن کثیر، دمشقی، البدایة و النهایة، ج ۴، ص ۲۰۰ اور ایضاً، السیرة النبویة، ج ۳، ص ۳۳۴)
میں رسول خدا ہوں، اور خدا کی نافرمانی نہیں کرتا ہوں اور وہ میرا مددگار ہے۔
ابوبکر نے بھی خلیفۂ دوم کو جواب دیتے ہوئے جو جملہ کہا تھا وہ بھی اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ رسول خدا علیہ السلام کی عصمت سے اس زمانہ میں آگاہ تھے۔
’’قال: ایها الرجل انه لرسول الله و لیس یعصی ربه و هو ناصره، فاستمسک بغرزه فو الله انه علی الحق‘‘(اسماعیل بن کثیر، دمشقی، ایضاً۔)
ابوبکر نے عمر سے مخاطب ہو کر کہا: اے شخص، یقیناً وہ رسول خدا ہیں، وہ اپنے پروردگار کی نافرمانی نہیں کرتے، خدا تعالی ان کا مددگار ہے۔
پانچواں ثبوت خزیمہ بن ثابت انصاری کا واقعہ ہے،
اس واقعہ میں ایک شخص کے ساتھ ایک گھوڑے کی خرید و فروخت کے سلسلہ میں رسول خدا علیہ السلام کے مقدمہ میں خزیمہ نے رسول اکرم علیہ السلام کے حق میں گواہی دی تھی باوجود اس کے کہ اس خرید و فروخت کے وقت خزیمہ موجود نہیں تھے۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ تم نے کیوں گواہی دی؟
تو انہوں نے جواب میں کہا:
’’انا اصدقک بخبر السماء و لا اصدقک بما تقول۔۔۔‘‘
( محمد بن سعد، الطبقات الکبری، ج ۴، صص ۳۷۹أ۳۸۰ اور محمد بن عبد الکریم، ابن اثیر، اسد الغابۃ، ج ۲، ص ۱۱۴)
اے رسول خدا علیہ السلام میں آسمان کی خبر کے متعلق آپ کی تصدیق کرتا ہوں تو کیا جو بات آپ نے (اس مقدمہ کے متعلق) کہی ہے اس کی تصدیق نہ کروں؟
اس تاریخی واقعہ میں یہ بات دکھائی دیتی ہے کہ رسول خدا علیہ السلام کی عصمت بنیادی طور سے اس بزرگ صحابی کے ذہن میں مسلم بات تھی، عصمت کا دائرہ فقط وحی اور شریعت کے معاملات تک محدود نہیں ہے، بلکہ انفرادی امور اور خارجی موضوعات جیسے خرید و فروخت کا مقدمہ وغیرہ بھی اس میں شامل ہے، اور اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ رسول خدا علیہ السلام نے اس صحابی کی سمجھ کی تائید فرمائی، جیسا کہ منقول ہے کہ خزیمہ کی اس سمجھ اور معرفت کے سبب رسول خدا علیہ السلام نے ان کی اکیلے کی گواہی کو دو مردوں کی گواہی کے برابر قرار دیا۔
( محمد بن سعد، ایضاً، صص ۳۷۹أ۳۸۰)
فخر رازی اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد تحریر کرتے ہیں کہ: اگر انبیاء کے لئے گناہ ممکن ہوتا تو خزیمہ کے لئے گواہی دینا جائز نہ ہوتا۔( محمد بن عمر، رازی، (فخر الرازی)، عصمۃ الانبیاء، صص ۱۴-۱۵۔
(و لو کان الذنب جائزا علی الأنبیاء لکانت شهادة خزیمة غیر جائزة))
اس بنا پر ان تعلیمات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ عصمت کی صفت کو کبھی فرشتوں، کبھی پیغمبروں اور کبھی قرآن کریم سے منسوب کیا گیا ہے؛ اور ساتھ یہ بھی کہ بعض اصحاب بھی رسول اکرم علیہ السلام کی عصمت پر اعتقاد رکھتے تھے؛ اور یہ بات بھی کہ مسلمان ہمیشہ قرآن سے مانوس تھے اور قرآن کی تفسیر اسلامی مفکرین کی زندگی کا ایک حصہ اور بنیادی سرگرمیوں میں سے تھا؛ یہ لوگ جب ان قرآنی آیات کو پڑھتے تھے، تو آسانی سے ان آیتوں سے آگے نہیں بڑھ جاتے تھے؛ بلکہ ان آیات میں غور و فکر اور تأمّل کرتے تھے، ایسا تأمّل کے جس کے سبب خواہ نخواہ عصمت کی بحث کو پیش کرتے تھے۔ اس دور میں بھی اسی طرح سے ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت، حفظ اور تفسیر مسلمانوں کی زندگی اور بنیادی سرگمیوں میں سے ایک شمار ہوتی ہے۔
---
(۱)-(مزید معلومات کے لئے مدرجہ ذیل سائٹ کی طرف رجوع کریں : عصمت /fa.wikipedia.org/wiki/ اور : فاطمہ محقق، عصمت از دیدگاہ شیعہ و اہل سنن، ص ۷۴۔)