امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

انبیاء (علیہم السلام) کی عصمت کا راز

1 ووٹ دیں 05.0 / 5

انبیاء (علیہم السلام) کی عصمت کا راز

انبیاء (علیہم السلام) کی عصمت کے مقدماتی ابحاث میں سے ایک انبیاء (علیہم السلام) کی عصمت کا راز ہے۔ عام طور سے یہ سوال پیش کیا جاتا ہے کہ تمام انبیاء کا تعلق بنی نوع انسان سے تھا، اس بنا پر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک انسان معصوم ہو؟ کیا عصمت ان کو زبردستی دی گئی تھی یا یہ کہ خداوند متعال نے ان انبیاء (علیہم السلام) کو مخصوص خلقت کے ساتھ خلق فرمایا ہے؟
    اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ تمام وجود رکھنے والے انسان بااختیار اور آزاد ہیں اور یہ قانون فقط عام انسانوں کی حد تک محدود نہیں ہے؛ انبیاء، اولیاء اور ائمہ (علیہم السلام) بھی اس میں شامل ہیں۔ انسان اپنے تمام افعال اور سرگرمیاں اپنے اختیار اور آزادی کے ساتھ انجام دیتا ہے اور وہ تمام اقدامات اپنے علم اور معلومات کو معیار بنا کر اور فائدے اور نقصان کا حساب و کتاب کر کے انجام دیتا ہے اور اقدام سے پہلے ضروری معلومات کو حاصل کر لیتا ہے، جس قدر انسان کا علم اور اس کی معلومات کا میعار بلند ہوتا ہے اسی پیمانہ پر امور کے نتائج کا وہ حساب و کتاب زیادہ پختگی سے کر کے پھر اس کام کا ارادہ کرتا ہے۔ یہ خصوصیت غیر معصوم افراد سے مخصوص نہیں ہے؛ بلکہ معصوم اور غیر معصوم سب اس خصوصیت میں مشترک ہیں۔
    البتہ پروردگار عالم کے انبیاء (علیہم السلام) کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ وہ ایمان کے بلند مقام پر فائر ہیں اور پروردگار عالم کے انبیاء (علیہم السلام) کا یہی علم، ایمان، اور کامل تقوی ہر گناہ اور اشتباہ و غلطی سے ان کے بچنے اور محفوظ ہونے کا باعث ہے۔ زیادہ واضح الفاظ میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ پروردگار عالم کے انبیاء (علیہم السلام) کے پاس گناہ کے انجام اور اثرات کے بارے میں قطعی علم موجود ہے اور دوسری طرف اپنی نفسانی خواہشات کو قابو میں کرنے کے لئے مضبوط اور قوی ارادہ رکھتے ہیں، وہ خود سے ہی اور اپنےطور پر گناہ سے اجتناب کرتے ہیں اور معصوم و محفوظ رہتے ہیں۔

وضاحت

معمولی غور و فکر سے یہ بات روشن ہو جاتی ہے کہ عقل اور اختیار رکھنے والا انسان اپنے آپ کو حالتِ اختیاری میں آگ میں نہیں ڈالتا ہے؛ ایسا شخص جو سمجھداری اور معلومات کے مرحلے تک پہنچ گیا ہو وہ ارتکابِ گناہ کے نتائج اور اثرات کو اسی طرح سے دیکھتا ہے جس طرح سے آگ میں داخل ہونے کے نتائج کو جانتا ہے، وہ بھی خود گناہ سے محفوظ اور دور رہتا ہے۔ جبکہ پروردگار عالم کے انبیاء (علیہم السلام) تو انسانیت کے راہنماء ہیں اور علم اور معلومات کے اعتبار سے بلند مرتبہ پر فائز ہیں، ان کے ارادے ہمشیہ پروردگار عالم کی شریعت کے ارادے کے تابع ہوتے ہیں اور گناہ کو ترک کرنے کے علاوہ بےنظیر قوت اور استعداد بھی رکھتے ہیں جو انہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ کسی بھی حالت میں اور کسی بھی موقع پر گناہ اور پروردگار کی نافرمانی کے نزدیک ہوں۔
    جب یہ کہا جاتا ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) اور پیغمر اسلام ﷺ معصوم ہیں تو اس کا یہ مطلب انسان کے ذہن میں نہیں آنا چاہیئے کہ پروردگار عالم کے انبیاء (علیہم السلام) مجبور ہوتے ہیں بلکہ پروردگار عالم کے انبیاء (علیہم السلام) بھی دیگر انسانوں کی طرح سے بااختیار ہوتے ہیں، فرق فقط یہ ہے کہ ان کا انتخاب پروردگار عالم نے اپنی رضامندی اور ارادۂ تشریعی کے مطابق اور خصوصی اور دقیق توجہ کرتے ہوئے کیا ہے، یہ ترک گناہ کی استعداد کے حامل ہونے میں انفرادیت رکھتے ہیں۔ جس طرح سے دیگر تمام صلاحیتوں کے ہونے کے سبب انسان سے اختیار کی قوت سلب نہیں ہوتی ہے، اسی طرح سے عصمت کی استعداد ہونے کے سبب انبیاء (علیہم السلام) سے اختیار و آزادی کی قوت سلب نہیں ہو جاتی۔

انبیاء (علیہم السلام) پر پروردگار عالم کی طرف سے خصوصی عنایت

    دوسرا نکتہ؛ یہ ہے کہ

خدا تعالی کی جانب سے انبیاء (علیہم السلام) کو خصوصی عنایات عطا کی گئی ہے۔ قبل اس کے کہ ہدایت اور گمراہی کے ابحاث کا آغاز کریں یہ بات بیان کی جاتی ہے کہ ہدایت کی دو اقسام ہیں: ہدایتِ عام اور ہدایتِ خاص۔ ہدایتِ عام کا تعلق تمام انسانوں سے ہے، جبکہ ہدایتِ خاص بعض انسانوں کے ساتھ مخصوص ہے۔ وہ افراد جو ہدایت عام کے ذریعے سے کمال تک پہنچتے ہیں پروردگار عالم کے ثواب اور انعام کے مستحق اور خصوصی فضل و عنایت کے اہل قرار پاتے ہیں۔ پروردگار عالم کے انبیاء (علیہم السلام) اس گروہ سے تعلق رکھتے تھے جو ہمیشہ ذمّہ داری کو پورا کرتے اور خدا تعالی کی نعمتوں کا شکر کرتے اور اس لحاظ سے یہ ہمیشہ پروردگار عالم کی خصوصی توجہ اور عنایت کی اہلیت رکھتے تھے۔ جو بھی خدا تعالی کی طرف سے حاصل ہدایتِ عام سے بخوبی فائدہ اٹھاتا ہے، اس کے لئے خودبخود پروردگار عالم کی خصوصی توجہ کا میدان فراہم ہو جاتا ہے۔ موجودہ بحث کو اس نکتے پر مکمل کیا جا سکتا ہے کہ بعض بندوں کے لئے خدا تعالی کی طرف سے عطا کی گئی عصمت، پروردگار عالم کی عدالت اور حکمت سے بھی کسی طرح سے متصادم نہیں ہے؛ جس طرح سے بعض خاص بندوں کو دی جانے والی خصوصی ہدایت عدل اور حکمت سے متصادم نہیں ہے۔
    مندرجہ بالا مطالب میں بیان شدہ بات کو اس مثال کے آئینہ میں واضح کیا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی وزیر یا وزیر اعظم دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ وسائل – خاص طور سے انتظامی اعتبار سے زیادہ اختیارات – رکھتا ہو، تو اس کے عہدے اور اس کی شخصیت کے مقام کو دیکھتے ہوئے عقلی لحاظ سے عام لوگوں کے نزدیک یہ قبیح شمار نہیں کیا جاتا؛ بلکہ اس طرح کے طریقے اور قانون کو انتظامی استحکام اور اجتماعی فوائد کے لئے ضروری قرار دیا جاتا ہے۔

جب نبوت اور امامت کی عمومی شرائط میں سے ایک عصمت ہے اور دوسری طرف انسانوں کی عمومی ہدایت کے لئے یہ عصمت ایک بنیادی ضرورت ہے – اور یہ عصمت کا ضروری ہونا یا کم از کم اس کے وجود کا اچھا ہونا یہ تو خود اپنے مقام پر ثابت ہے – تو ایسی صورت میں خدا تعالی کی حکمت اور عدالت کا تقاضہ یہ ہے کہ اس طرح کا امتیاز نبی اور نبی کے وصی کو عطا کیا جائے۔

اس بنا پر آیت تطہیر اور دیگر دلائل سے ثابت ہونے والی عصمت اور یا امام جواد علیہ السلام کی بچپن کی حالت میں عصمت اور یا نبوت اور امامت کی باقاعدہ ذمّہ داریوں کے آغاز سے پہلے کی عصمت یہ کسی لحاظ سے بھی پروردگار عالم کی حکمت اور عدالت سے متصادم نہیں ہے؛ بلکہ عدالت اور حکمت اس بات کی متقاضی ہے کہ انسانوں کی ہدایت کے انتظام کے لئے اور پروردگار عالم کی حجت کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لئے؛ یہ کام اللہ تعالی کی حجّتوں کے حق میں واقع ہو۔ ہاں عصمتِ اکتسابی اور قابل کی قابلیت کی شرط کے اصولوں کی بنیاد پر، جن موارد و مقامات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ان میں توجیہ کرنا کسی حد تک مشکل ہو جاتا ہے۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک