دین میں تحقیق کی ضرورت
- شائع
-
- مؤلف:
- محمد ہادی نبوی-مترجم: دلاور حسین لاکھانی
- ذرائع:
- صراط مستقیم - عقائد امامیہ پر ایک نظر
درس دوم
دین میں تحقیق کی ضرورت
دینی مطالعہ کے متعلق بنیادی سوالات میں سے ایک یہ ہے کہ کیا یہ ضرورری ہے کہ دین کے بارے میں تحقیق کی جائے؟
کیا دینِ حق کی تحقیق ضروری ہونے پر کوئی دلیل موجود ہے یا اس سلسلہ میں تحقیق کرنا ایک بے کار اور وقت ضائع کرنے والا کام ہے؟
یہ سوال زمانہ قدیم سے آج تک پوچھا جاتا تھا اور پوچھا جاتا ہے اور علم عقائد کے بہت سارے علماء اور دانشوروں کے لئے یہ ایک فکری اضطراب کا باعث بنا ہے۔ مندرجہ بالا سوال کے جواب کے طور پر تحقیق کے لازم ہونے کے متعلق مختلف دلائل پیش کئے جاتے ہیں۔
بالفاظ دیگر؛
عقلی پس منظرمیں ایسے متعدد دلائل موجود ہیں، جن کی بنیاد اس بات پر ہے کہ انسان کے لئے لازمی ہے کہ وہ اپنے وقت کا ایک حصہ مطالعہ اور صحیح عقائد کی تحقیق کے لئے مختص کرے۔ اصول دین کی معرفت لازم ہونا یہ ایک ایسا اصول ہے جس پر تمام مسلمان اور تمام اسلامی فرقوں کا اتفاق ہے۔
(جعفر بن حسن بن سعید، (محقق حلی)، المسلک فی اصول الدین، ص ۹۶
(اذا عرفت ھذا فنقول : الدلیل علی ان النظر واجب وجھان۔۔۔‘‘
(جب آپ نے یہ جان لیا تو ہم کہیں گے کہ : تحقیق واجب ہے اس پر دلیل کی دو اقسام ہیں۔۔۔)؛ عضد الدین قاضی عبد الرحمن، ایجی، المواقف فی علم الکلام، ج ۱، ص ۱۴۷ )
(المقصد السادس النظر فی معرفۃ اللہ تعالی ای لأجل تحصلیھا واجب اجماعا منا و من المعتزلۃ و اما معرفتہ تعالی فواجبۃ اجماعا من الأمۃ و اختلف فی طریق ثبوتہ ای ثبوت وجود النظر فی المعرفۃ فھو یعنی طریق الثبوت عند اصحابنا السمع و عند المعتزلۃ العقل۔۔۔)
(چھٹا مقصد :
اللہ تعالی کی معرفت کے متعلق تحقیق کرنا یعنی معرفت حاصل کرنے کی خاطر تحقیق کرنا، یہ واجب ہے اجماعی طور سے ہماری جانب سے بھی اور معتزلہ کی جانب سے بھی البتہ بذات خود اللہ تعالی کی معرفت کا حاصل کرنا یہ تو ایسا واجب ہے جس پر پوری امت کا اجماع ہے، فقط اس معرفت کے ثابت ہونے کے طریقے میں اختلاف ہے یعنی اس معرفت کے لئے تحقیق کرنا واجب ہے، اس بات کو ثابت کرنے کے طریقے میں اختلاف ہے، تو اس کے ثابت کرنے کا طریقہ ہمارے علماء کے نزدیک روایات ہیں اور معتزلہ کے نزدیک عقل۔۔۔) مزید معلومات کےلئے سائٹ : اصول دین (http://islampedia.ir.fa) کی طرف رجوع کیا جائے۔ تاریخ مراجعہ : ۱۲/۱۳۹۲۔)
اختلاف فقط اس کے لازم ہونے کے سبب کے متعلق ہے، جس کے تحت امامیہ اور معتزلہ اس کے لازم ہونے کا سبب عقل کو قرار دیتے ہیں، جبکہ اشاعرہ اس معرفت کے لازم ہونے کا سبب قرآنی آیات اور روایت کو قرار دیتے ہیں۔( ایضاً)
شیعہ اور معتزلہ نے دین کے معاملہ میں تحقیقی لازمی ہونے پر جن عقلی دلائل کو پیش کیا ہے اس کی بنا پر تحقیق کا ضروری اور لازمی ہونا سب کے لئے ہے اور یہ فقط مسلمانوں کے ساتھ خاص نہیں ہے۔یعنی ہر عاقل انسان پر لازم ہے کہ دین اور اس کے اصول میں تحقیق اور جستجو کرے اور جس بات کو قبول کرے وہ عقل اور سمجھ کی بنیاد پر ہو ۔ جبکہ آیات و روایات کی بنا پر اس کے لازم ہونے کے قائلین کےنزدیک تحقیق اور جستجو کے واجب ہونے کا حکم کسی شخص کے توحید اور نبوت کو قبول کر لینے کے بعد ہی ممکن ہو سکتا ہے۔
دین میں تحقیقی کے لازمی ہونے پرعقلی دلائل
الف: دینی تحقیق سے نفع اور نقصان کا تعلق
سب سے پہلی دلیل یہ ہے کہ اگر انسان دینی مسائل کے میدان میں تحقیق اور جستجو نہیں کرے گا تو ایک دن اس کو اپنی کی زندگی میں نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بات کو واضح کرنے کے لئے عقلی بات کو محسوس بات سے شباہت سے دیتے ہیں۔ بطور مثال فرض کریں، کوئی مسافر اور یا ڈرائیور ایک چوراہے پر پہنچتا ہے، تو جب اس کی اس پر نظر پڑتی ہے تو وہ رک جاتا ہے، مگر اس چاہ راہ پر رہنا ایسے رکے رہنا خطرناک ہے اس لئے مسافر کے لئے ضروری ہے کہ چاروں طرف موجود راستوں میں سے کسی ایک راستہ کا انتخاب کرے اور اس پر اپنے سفر کو آگے بڑھائے، جب یہ شخص صحیح راستہ تلاش کرنا چاہئے گا تو اس کے سامنے راہنمائی کے لئے متعدد ذرائع ہوں گے، ایک صحیح راستہ داہنی طرف تو دوسرا بائیں طرف اور تیسرا بالکل سامنے کی طرف تو چوتھا کسی اور طرف بلا رہا ہوگا۔ ایسی صورت میں ایک طرف تو اس کے لئے چوراہے پر ٹھہرے رہنا خطرنا ک ہے اور دوسری طرف ان چار راستوں میں سے صحیح راستہ کا انتخاب بھی دشوار ہے۔ ایسی صورت میں عقلِ سلیم اس شخص کو اجازت نہیں دے گی کہ وہ بغیر تحقیق اور جستجو کے ان راستوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے اور اپنے سفر کو آگے بڑھا دے؛ بلکہ عقل اسے حکم دے گی کہ صحیح راستہ کی انتہائی دقت کے ساتھ تحقیق اور جستجو کر ے اور پھر مکمل ذہنی اطمنان کے ساتھ قدم کو آگے بڑھائے۔
ایسا شخص کے جس کے کان میں متعدد مذاہب کی دعوتیں اور بلاوے پہنچ رہے ہو اور اسے معلوم ہو کہ تمام مذاہب کو ترک کر کے بےدینی اختیار کر لینا خطرناک اور غلط طریقہ ہے، چونکہ یہ طریقہ تو اس شخص کی مانندہے جو خطرناک چوراہے پر کھڑا رہنا چاہتا ہے۔ چونکہ تاریخ کے مختلف زمانوں میں متعدد مکاتبِ فکر اور مذاہب نے مختلف عقائد اورنظریات کے ہونے کے باوجود ہر ایک نے حق پرست ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور دنیا اور آخرت میں انسان کی سعادت و خوش بختی کے تحفظ پر زور دیتے تھے اور دیتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں عقل سلیم اس شخص کو اس بات کی اجازت نہیں دے گی کہ وہ جس مذہب کا بھی دل چاہے انتخاب کر لے اور یا ان اعتقادات کی بنیاد پر اپنے اعمال اور شرعی اور اخلاقی ذمّ داریوں کو اس کے مطابق انجام دے؛ چونکہ عقل اچھی طرح جانتی ہے کہ انسان کے لئے ان راستوں میں سے بعض انتہائی خطرناک ہیں جس پر چلنے کے نتیجہ میں وہ کنوئیں میں گر پڑے گا اور گمراہی اور عذاب کا شکار ہو جائے گا۔
عقل سلیم حکم دیتی ہے کہ انسان کو چاہیئے کہ صحیح تحقیق اور جستجو کے ساتھ راستہ کا انتخاب کرے؛ اسی انداز سے جس طرح سے انسان صحیح پتہ معلوم کرنے کے لئے جستجو کرتا ہے اور مختلف افراد سے دریافت کرتا ہے؛ اسی طرح سے حق و درست مکتبِ فکر اور مذہب کو بھی تلاش کرے اور یا مؤثر، نتیجہ بخش اور دقیق و عمیق تحقیقات کے ذریعے حق و سچ پر مبنی مکتبِ فکر اور مذہب کو حاصل کر لے اور اس کو بنیاد بنا کر اپنی زندگی کے امور کو انجام دے، تاکہ اس طرح سے دنیا اور آخرت کی سعادت کو اپنےلئے محفوظ کر لے۔ اس دعوے کی اہمیت اس نکتے کے ساتھ زیادہ واضح ہوجائے گی کہ انسان کی عمر اسے بار بار میسر آنے والی نہیں ہے اور یہ موقع ایک بار میسر آیا ہے اور اس کا تجربہ فقط ایک دفعہ ممکن ہے۔ ایسی صورت میں عقل سلیم حکم دیتی ہے کہ اس عمر کے مقابلہ میں ایسے سرمایہ کا بندوبست کیا جائے جس کے نتیجہ میں اس کے لئے دنیا اور آخرت کی سرفرازی اور سعاد ت مندی حاصل ہو اور یہ اہم کام بغیر گہرائی سے کی جانے والی تحقیق و جستجو اور حق و سچے دین اور مذہب کو تلاش کئے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا۔
ب: علم اور بنیادی سوالات کے جواب اور علم سے عشق
اسلامی مفکرین کا یہ دعوی ہے – یہ دعوی ہر ایک کے لئے تھوڑے سے تفاوت کے ساتھ قابل فہم اور دستیاب ہے - کہ انسان ذاتی اور فطری طور سے حقیقت کی معرفت کا خواہشمند ہے اور ہمیشہ حقائق کے دریافت کی کوشش میں رہتا ہے؛ چاہے ان حقائق کا تعلق آسمانوں سے ہو یا سمندوں کی گہرائی سے ہو۔ انسان اگر سینکڑوں نامعلوم باتوں کو معلوم کر لے تب بھی وہ دیگر نامعلوم باتوں کے دریافت میں لگا رہےتا ہے اور ہمیشہ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کی معلومات بڑھتی رہے۔ انسان کا یہی فطری احساس اس بات کا باعث بنتا ہے کہ وہ دین حق کے بارے میں بھی تحقیق کرے اور دینِ حق تک رسائی کے لئے وقت صرف کرے۔
انسان کی زندگی میں نامعلوم باتیں بہت زیادہ ہیں اور زندگی کے مراحل میں اسے کئی سوالات کا سامنا ہوتا ہے، ان سوالوں میں سے یہ بھی ہیں کہ وہ کہاں سے آیا ہے؟ اسے کہا جانا ہے؟ اور اس دنیوی زندگی میں اس کی کیا ذمہ داری ہے؟ انسان پسند کرتا ہے کہ وہ یہ جانے کہ اس کائنات کا کوئی خالق ہے یا نہیں؟ اگر خالق ہے تو اس کے کیا اوصاف ہے اور اس کے اوصاف کا بیان کس انداز سے ممکن ہے؟ کیا انسان فقط مادّی وجود ہے یا یہ کہ وہ روح بھی رکھتا ہے؟ کیا اس عالم کے بعد کوئی دوسرا عالم بھی موجود ہے، یا یہ کہ فقط یہی عالم ہے؟ اگر اس فرض پر کہ دوسرا عالم ہے اِس عالم کا اُس عالم کے ساتھ رابطہ کس طرح استوارہوتا ہے؟، یہی تمام جگہوں پر بنیادی اور اساسی سوالات ہیں جو انسان کے زندگی کے مراحل میں اسے پیش آتے ہیں اور ایک لمحہ کے لئےبھی اپنی ذات کے ساتھ خلوت اختیار کرے تو قطعی طور سے بڑے پیمانے پر اس طرح کے سوالات اس کے سامنے آکر کھڑے ہو جاتے ہیں۔
پروردگار عالم کے بھیجے ہوئے پیغمبروں اور آسمانی کتابوں کا یہ دعویٰ ہے کہ ان سوالات اور اس طرح کے دیگر سوالات کا گہرائی کے ساتھ اور اطمنان بخش جوابات ان کے پاس موجود ہیں جو پیغمبروں کے ذریعے لوگوں کو فراہم کیا گیا ہے۔ جس وقت بھی انسان اپنی زندگی میں ان بنیادی سوالات کی طرف متوجہ ہوتا ہے، ذاتی طور پر اور پروردگار عالم کی طرف سے عطا کردہ فطرت کی بنا پر اپنے بنیادی سوالات کے جوابات حاصل کرنے کی خاطر حقیقت کی جستجو میں مشغول ہو جاتا ہے۔ اس بنا پر انسان کے باطن میں حصول علم کاپایا جانے والا عشق اسے اس بات کی طرف متحرک کر دیتا ہے کہ وہ اس طرح کی تحقیقات کو اہمیت دے اور اس میں وقت صرف کرے؛ دوسرے اعتبار سے، انسان کے تمام بنیادی سوالات کے جامع اور یقینی جوابات حاصل کرنے کا واحد منبع آسمانی مذاہب اور پروردگار عالم کے پیغمبر ہیں۔ البتہ اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہیئے کہ آسمانی مذاہب میں بھی بنیادی سوالات کے بعض حصوں اور اسی طرح انسانی زندگی کی ذمہ داریوں اور مسائل کے مختلف پہلوں میں اختلافِ نظر رکھتے ہیں؛ اس بنا پر فطری آواز کے جواب اور بنیادی سوالات کے میدان میں انسان کے اطمنان کے مرحلہ تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان اپنی عمر کے ایک حصہ کو دینی تحقیقات میں صرف کرے تاکہ اس طرح سے حق و سچے دین اور مذہب تک رسائی حاصل کر لے۔
ج: انسانی زندگی میں دینی اثرات
تیسری دلیل جو دینی تحقیقات کی لئے انسان کو متحرک کرنے کا باعث بنتی ہے، انسان کے لئے دین کی ضرورت اور یا دوسرے الفاظ میں؛ انسانی زندگی میں دینی اثرات ہے۔ انسان کو ہمیشہ دینی قوانین و فرامین کے ضرورت ہے۔ دوسرے اعتبار سے، دین انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بہت زیادہ فوائد و اثرات مرتب کرتا ہے۔ ایسے فوائد اور اثرات جن کا تحفظ دین کے علاوہ کوئی اور منبع و مرکز نہیں کر سکتا۔ ان فوائد و اثرات میں سے بعض کی طرف ذیل میں اشارہ کیا جا سکتا ہے:
۱۔ وعدے کی پابندی اور احساس ذمہ داری
انسان ایک پرعزم، ذمہ داری قبول کرنے والا اور بیحد قیمتی ہے۔ جو چیز انسان کو پرعزم اور ذمہ دار بناتی ہے وہ دین ہے۔ دین کو سیکھنے کے نتیجہ میں انسان پروردگار عالم کے تشکیل شدہ قوانین کو قبول کرتا ہے اور اجتماعی قوانین کی پابندی اور انفرادی اور اجتماعی اخلاق کے معاملات کو پختہ کرنے کے لئے عمومی قوانین کا احترام کرتاہے۔ اسی طرح سے جس طرح سے معاشرے میں قوانین کے اجرا اور اخلاقی اقدار کی حفاظت کی خاطر پولیس کی موجودگی ضروری ہوتی ہے، اسی کام کی انجام دیہی کے لئے دین کا بھی ہونا ضروری ہے؛ چونکہ ایک دنیدار اور مذہبی انسان ہرصورت اور ہر موقع پر اجتماعی قوانین اور دینی اور اخلاقی احکامات کی پیروی کرتا ہے۔ اس وجہ سے دین کا سب سے پہلا اثر اور دین کے متعلق انسان کی سب سے پہلی ضرورت اجتماعی اور اخلاقی قوانین کا تحفظ ہے، ایسی صورت میں جب معاشرے میں دین نافذ ہو چکا ہو تب اجتماعی قوانین کے اجراء کی غیر معمولی ضمانت میسر آ جاتی ہے اور معاشرے میں اخلاقی اقدار محفوظ ہو جاتے ہیں۔
۲۔ افکار اور اعتقادات کی پختگی اور توہمات اور خرافات سے دوری
انسانی زندگی میں دین کا دوسرا اثر؛ افکار اور صحیح اعتقادات کی پختگی اور خرافات اور توہمات کے سلسلہ کا خاتمہ ہے ۔ تاریخ اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ پروردگار عالم کے بھیجے ہوئے تمام انبیائے کرام نے انسانی عظمت سے موافقت نہ رکھنے والے خیالات و خرافات اور افکار اور نظریات کا مقابلہ کیا اور ہمیشہ اس بات کے طالب رہیں کہ انسان کے افکار اور نظریات کو پختگی حاصل ہو اور یا فکری اور اعتقادی بلندی کے سفر میں خیالات اور توہم پرستی سے اجتناب کرے۔ اس اعتبار سے، دین فکری اور اعتقادی بلندی کے لئے ایک اہم اور بنیادی سبب شمار کیا جاتا ہے۔ اور سالم انسانی معاشرے کی تشکیل کاایک اہم ترین ستون اور بہترین ذریعہ قرار دیا جاتا ہے۔
۳۔ زندی کو بامقصد بناتا ہے
دین کا تیسرا فائدہ یا اثر؛ انسانی زندگی کو بامقصد بنانا ہے۔ اس معنی میں کہ اگر انسان کے پاس دین نہ ہوتا تو اسے زندگی کے بے کار اور بیہودہ ہونے کا احساس پیدا ہو جاتا اور وہ اپنے آپ کو شناخت سے محروم شمار کرتا۔ البتہ جو شخص دین اور مذہب سے سرو کار رکھتا ہے، اسے ہمیشہ یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسان کی خلقت خالق کی حکمت کے تابع ہے اور خداوند متعال نے اس کو ایک مقدس و پاکیزہ مقصد کی خاطر خلق کیا ہے۔ ایسی صورت میں ایک دیندار انسان کو کبھی بھی زندگی بے کار اور بے مقصد ہونے کا احساس نہیں ہوتا۔ اس بنا پر زندگی کے بے کار اور بے مقصد ہونے کے احساس کے مقابلہ میں دین زندگی کو بامعنی و بامقصد بنانے کا بہترین ذریعہ ہے۔
۴۔ انسانی اور اجتماعی مقاصد کو پاکیزہ بنانے کی قدرت
دین کا چوتھا اثر یا فائدہ؛ انسانی اور اجتماعی مقاصد کی جانب لوگوں کو راغب کرنے اوران مقاصد کو پاکیزہ بنانے کے لئےقوت کی فراہمی ہے۔ ایسا معاشرہ جو ترقی کرنا چاہتا ہے اور پھلنا پھولنا اور آگے بڑھنا چاہتا ہے ضروری ہے کہ اس کے تمام مقاصد اور خواہشات اپنے لئے ایک پاکیزہ محرک رکھتے ہو؛ اس طرح سے کہ انسان اپنے پاکیزہ مقاصد اور خواہشات تک رسائی کے لئے اپنی زندگی کو بھی داؤ پر لگا دے۔ واضح ہے کہ کبھی دینی اقدار اور اعتقادات اس طرح سے انسان کے دل و جان میں راسخ ہو جاتے ہیں اور اس طرح سے اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں اور اپنا فریفتہ بنا دیتے ہیں کہ وہ اس کی خاطر ہر کام کرنے کے لئے آمادہ ہو جاتا ہے تاکہ اس کے دینی اور مذہبی اعتقادات اور اقدار محفوظ رہے۔
آرمان سازی
۵۔ ارتقائی سفر میں ہدف تک پہنچنے کی خواہش، جوش و جذبہ اور تیزی
دین کے اثرات میں سے ایک اور چیز ہدف تک پہنچنے کی خواہش، جوش وجذبہ کی بیداری اور تیز رفتاری کے ساتھ کا ارتقائی سفر بھی ہے۔ دیندار اور بےدین انسان دونوں کی رفتار میں فرق ہوتا ہے۔ دیندار انسان زیادہ تیزی کے ساتھ آگے بڑھتا ہے اور اپنے امور میں دقیق و سنجیدہ حکمت عملی اپناتا ہے، بلند قوت اور استقامت کا بھی حامل ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں؛ دیندار انسان دیگر انسانوں کے مقابلہ میں، اگر مساوی صورت حال ہو تو زیادہ قوی، مضبوط، صابر اور فداکار ہوتا ہے۔
(علی، شیروانی، درسنامہ عقائد، ص ۳۳ – 35)
اختتامی اہم نکات:
تین قسم کے دلائل (دینی تحقیق کا انسان کے نفع و نقصان سے تعلق، علم اور بنیادی سوالات کے جواب سے کے حصول سے لگاؤ اور انسانی زندگی پر دین کے اثرات) سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ انسان کو اپنی عمر کا ایک حصہ دینی مسائل کی تحقیق پر صرف کرنا چاہیئے۔
اس درس کے اختتام پر تین بنیادی نکات کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے جو اصول دین کو ثابت کرنے کے ذرائع، عقل اور وحی کا تعلق اور عقل، وحی اور علم کے تعلق کے سلسلہ میں ہیں۔
۱۔ عقائد اور اصول دین ثابت کرنے کے ذرائع
صحیح عقائد ثابت کرنے کے دو بنیادی ذرائع پائے جاتے ہیں جن کا نام عقل اور وحی ہیں۔ ان دروس میں عقل اور وحی سے تعلق رکھنے والے ذرائع کو بنیاد بنا کر استدلال پیش کئے جائیں گے؛ ان دونوں ذرائع سے استفادہ صورت حال اور موقع کی مناسبت سے کیا جائے گا۔ عقل تمام انسانوں میں باوجود مختلف اقدار اور نظریات کے ایک مشترک ذریعہ ہے اور اپنی ذات میں بہت زیادہ اہم اور قابل اعتماد ہے۔ وحی سے مراد قرآن اور سنتِ معتبر ہے جو ہر مقام پر اپنے آپ میں عقائد اور اصول دین کی پہچان کا اہم ذریعہ شمار کیا جاتا ہے۔ وحی کی تعلیمات سے استفادہ کرنا اس وقت ممکن ہے جب خدا تعالی کے وجود اور حضرت محمد ﷺ کی نبوت کو درست اور یقینی عقلی دلائل کے ذریعے ثابت کیا جا چکا ہو۔ بالفاظ دیگر؛ وحی کی طرف براہ راست اعتماد کرنا اس وقت قابل قبول بن ہوتا ہے جب یہ دلیل علمی زبان میں ’’دَور‘‘ اور ان کے جیسے عقلی اشکالات پیش آنے سے محفوظ ہو۔ بطور مثال معاد سے مربوط مسائل میں سے ایک شفاعت کو منقولہ دلیل سے ثابت کیا جاتا ہے اور اس میں کسی قسم کا علمی اشکال بھی لازم نہیں آتا۔
۲۔ عقل اور وحی کا تعلق
اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ عقل اور وحی دونوں ہی معرفت کے ذرائع کا حصہ شمار ہوتے ہیں، یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عقل اور وحی کے درمیان کیا تعلق ہے؟ عقلی اور وحی کے احکام کے درمیان ٹکراؤ کا سبب کیا ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قطعی طور پر عقل اور وحی کے درمیان ایسا مناسب تعلق ہے کہ جن میں کسی قسم کو کوئی تصادم پایا نہیں جاتا؛ کیونکہ پروردگار عالم صاحبِ حکمت ہے اور کسی بھی جگہ پر اپنے بندوں کو دو متضاد ذرائع کی طرف دعوت نہیں دیتا۔ اگر کسی جگہ پر عقلی ذریعہ وحی کے ذریعے کے ساتھ سازگار دکھائی نہ دے تو یہ نظر آنے والا تضاد و تصادم یا تو دینی فرامین کے متعلق کامل اور درست معلومات نہ ہونے کے سبب پیدا ہوا ہوگا یا یہ عقلی کی بنیادی باتوں میں سے کسی ایک کو اچھے انداز سے اور صحیح نہ سمجھنے کے سبب پیدا ہوا ہوگا۔
۳۔ عقل، وحی اور علم کا تعلق
جیسا کہ اشارہ کیا گیا، مسلمانوں کے اعتقادات میں واقعی اور مستحکم انداز سے عقل اور وحی کے درمیان کسی قسم کا کوئی تضاد و تصادم پایا نہیں جاتا۔ اسلام کا مقدس آئین ایک ایسا دین ہے جو عقلم کے ساتھ بھی سازگار ہے اور علم اور وحی کے ساتھ بھی سازگار ہے۔ خدا سبحانہ نے اپنے تک پہنچنے کے راستے کے طور پر علم کو اور اسی طرح سے عقل اور وحی کو بھی قانونی حیثیت دی ہے۔ جب تینوں ذرائع پروردگار عالم کی طرف سے تائید شدہ اور پسنیدہ ہیں، تب ان میں کسی قسم کوئی تضاد و تصادم کی گنجائش نہیں رہتی۔ ممکن ہے کہ بعض مقامات پر ظاہری اعتبار سے ایسا محسوس ہو کہ ان تینوں ذرائع میں تضاد و تصادم پایا جاتا ہے مگر یقینی طور پر اس تصادم کی بنیاد کسی اور مقام پر ہوگی، یعنی کہ یا تو حصول علم کا ذریعہ قطعی نہیں ہوگا اور ایک فرضی صورت کو علم و یقین کی جگہ پر رکھ دیا گیا ہوگا۔ یا ممکن ہے کہ انسان وحی کے ذریعہ کو صحیح انداز سے سمجھ نہ پایا ہوگا اور یا عقلی مقدمات میں سے کسی ایک میں غلط اور ناقص صورت تشکیل دی گئی ہوگی