امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

خدا کا وجود سب کو معلوم ہے

1 ووٹ دیں 04.0 / 5

حصۂ دوم: خدا شناسی
چوتھا درس: خدا سب کے لئے معلوم ہے
خدا کا وجود سب کو معلوم ہے

دروس کے اس سلسلہ کے دوران پہلے حصہ میں اسلامی عقائد کے ابحاث کے متعلق ابتدائی و مقدماتی باتوں کو پیش کیا گیا تھا۔ اس دوسرے حصّہ میں ان ابحاث کو پیش کیا جائے گا جن کا تعلق معرفتِ خدا سے ہے۔ درس کے مواد کو بہتر طریقے سے سمجھنے کے لئے شروع میں چند ابتدائی باتوں کو پیش کیا جاتا ہے۔
الف: بحث کی مختصر تاریخ
تاریخی ذرائع اور احوال، آسمانی کتابوں اور اسلامی روایات سے یہ بات معلوم ہو جاتی ہے کہ بذات خود خداوند متعال کے وجود پر اعتقاد یہ دنیا کی تمام اقوام اورمعاشروں کے درمیان اور تمام مذاہب اور مکاتبِ فکر میں ایک طےشدہ، قطعی اور عمومی امر تھا۔
(اسی درس میں آگے جا کر اس دعوے کو ثابت کرنے کے لئے منابع اور ذرائع کی طرف اشارہ کیا جائے گا)
 ان لوگوں کے درمیان خدا کے بارے میں اختلاف خدا کے علم، خدا کی قدرت، خدا کی حکمت وغیرہ کے بارے میں ان کی تعاریف اور تصوّرات کے متعلق تھا۔ اس سلسلہ میں غلط اعتقادات اور نظریات تھے۔ پروردگار عالم کی جانب سے بھیجے گئے انبیاء علیہم السلام کا اہم ترین مقصد اپنے اپنے زمانے کے لوگوں کے درمیان پائے جانے والے ان غلط خیالات کی اصلاح کرنا تھا تاکہ اس کے ذریعے ان لوگوں کی صحیح اعتقادات اور نظریات کی طرف ہدایت ہو اور وہ عالمِ آخرت کے معتقد بن جائیں۔ حقیقت میں ممکن ہے کہ یہ کہا جائے کہ پروردگار عالم کے انبیاء علیہم السلام کی اصل مصروفیت پروردگار عالم کے وجود کو ثابت کرنا نہیں تھی ؛
چونکہ خدا کا وجود تو اس حد تک زیادہ طےشدہ تھا کہ اس کی تبلیغ کی ضرورت ہی نہیں تھی؛ انبیاء علیہم السلام کا زیادہ تر کام اور زیادہ تر زحمت غلط اور باطل اعتقادات خاص طور سے شرک آمیز عقائد کے سبب بگڑی ہوئے ان کے افکار اور نظریات کی اصلاح کے متعلق تھی۔

۱۔ ارسطو کے نظریات میں خدا کا تصور
زیربحث موضوع کو زیادہ واضح کرنے کے لئے ایک سرسری نگاہ قبل از مسیح کے دور پر ڈال لیتے ہیں۔ اس زمانہ میں مشہوردانشورموجود تھے جیسے ارسطو۔
 ارسطو (پیدائش ۳۸۴ یا ۳۸۳ قبل از مسیح) کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے کہ وہ خدا کے وجود کا معتقد تھا؛ البتہ اس کا خدا کے متعلق تصوّر ناقص تھا۔
وہ خدا کے وجود کو تو قبول کرتا تھا؛ مگر اس کی خالقیت کو قبول نہیں کرتا تھااور وہ خدا کو فقط اس عالم کا محرّک قرار دیتا تھا؛ اس معنی میں کہ عالم تو پہلے سے موجود تھا اور ہمیشہ باقی رہے گا۔ اس کے احوال میں نقل کیا گیا ہے کہ ارسوط غیرِ متحرک محرّک ہونے کو خدا کی نمایا ترین صفات میں سے قرار دیتا تھا اور اس کا اعتقاد تھا کہ خدا قابل عبادت نہیں ہے؛ چونکہ وہ اس بات کی قدرت نہیں رکھتا کہ انسان کی مدد کر سکے۔ اگرہم خدا کی عبادت کریں اور اس سے مدد طلب کریں، تو خدا کے ہاتھ سے کوئی کام سرزد ہونے والا نہیں ہے۔ خدا غور و فکر میں مشغول ہے اور اس کا غور و فکر فقط اپنی ذات کی حد تک محدود ہے، چونکہ وہ کلیات کے بارے میں سوچتا ہے نہ کے افراد کے بارے میں۔
(رضا برنجکار، مبانی خدا شناسی در فلسفہ یونان و ادیان الھی، ص ۸۱-۱۰۳، نک: فردریک کابلستون، تاریخ فلسفہ، ترجمہ : مجتبوی، ج ۱، مطابق نقل : درسنامہ عقاید، علی شیروانی، ص ۶۴ (ان تینوں فلسفیوں کے نظریات کی مزید معلومات کے لئے اس کتاب کی طرف رجوع کریں)
 اس کے مشابہ افکار یونان کے دیگر نمایا لوگ جیسے سقراط، افلاطون اور ان جیسوں کے یہاں بھی پائے جاتے تھے۔

۲۔ خدا کے بارے میں گلیلی (Galilei) کا نظریہ
عیسائی مذہب، خدا پرستی کا دین تھا۔ مگر حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد یہ مذہب تحریف کا شکار ہو گیا اور عیسائی عقاید میں غلط تصوّرات داخل ہو گئے۔ قرون وسطی کا دور گذرنے کے بعد بحالیٔ مذہب کی تحریک کے زمانہ میں متعدد مشہور دانشور سامنے آئے جن میں سے ممکن ہے کہ گلیلی کی طرف اشارہ کیا جائے۔
یہ ۱۵۵۴ میں پیدا ہوا اور ۱۶۴۲ عیسوی میں دنیا سے رخصت ہوا، یہ ستروی صدی کے مشہور دانشوروں میں سے تھا۔ اس کا اعتقاد تھا کہ عالم اٹم کا مجموعہ ہے اور عالم میں ہونے والی مختلف حرکات اور ترکیب یہ ان ہی متعدد اٹم کے سبب ہے اور ان اٹم کو بھی خدا نے خلق کیا ہے۔
البتہ خلقت کےبعد وہ ان اٹم پر کسی قسم کا اختیار نہیں رکھتا۔ گلیلی کی نگاہ میں خدا فقط اٹموں کا خالق ہے، ان اٹموں کو خلق کرنے کے بعد اس کا اس عالم میں کوئی اثر اور کردار نہیں ہے۔
(ایان باریور، علم و دین، ترجمہ : بھاء الدین خرمشاھی، ص ۳۷، مطابق نقل : درسنامہ عقاید، ایضاً، ص ۶۶)

۳۔ نیوٹن کے نظریہ میں خدا کا تصوّر
آخری دور میں بھی بعض دانشور جیسے نیوٹن گلیلی کی مانند نظریہ رکھتا تھا اور گھڑی اور گھڑی ساز کی داستان کے متعلق نیوٹن کا نظریہ مشہور ہے کہ پروردگار عالم کے علاوہ کائنات میں جو کچھ ہے وہ اسی کی خلق شدہ ہے مگر ان کو خلق کرنے کے بعد اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے؛ اسی طرح سے جس طرح سے ایک گھڑی بنانے والا، گھڑی کو بناتا ہے، اس کے بعد وہ گھڑی خود ہی حرکت کرتی ہے اور گھڑی بنانے والے کی محتاج نہیں ہوتی۔ خداوندِ متعال نےبھی اس عالم کو خلق کیا اور خلقت کے بعد اب اس عالم کو خدا کی ضرورت نہیں ہے اور خدا اس عالم میں ردّ بدل کی قدرت نہیں رکھتا۔ تمام تاریخی ذرائع اور احوال سے معلوم ہوتا ہے کہ ستروی اور اٹھاروی صدی عیسوی کے اکثر دانشور وجود خدا کا اعتقاد رکھتے تھے اور بنیادی طور سے خدا کے وجود کو تو تسلیم کرتے تھے؛ البتہ اس عالم پر خدا کے اثر و رسوخ اور کردار کے متعلق ان میں اختلاف تھا۔
(ایان باریور، علم و دین، ترجمہ : بھاء الدین خرمشاھی، ص ۳۷، مطابق نقل : درسنامہ عقاید، ایضاً، ص ۶۶)

۴۔ زمانہ جاہلیت میں خدا کا تصوّر
اسلام سے پہلے کے زمانہ جاہلیت میں بھی بنیادی طور پر وجود خدا کا عقیدہ تمام لوگوں کے یہاں تسلیم شدہ تھا اور وہ خدا کو اس عالم کا خالق مانتے تھے۔ اہم اختلاف پروردگار عالم کے یکتا ہونے، پرورش کرنے والا ہونے اور اس کے جانب سے شرعی احکام صادر ہوئے ہیں یا نہیں ان کے متعلق تھا۔ بالفاظِ دیگر؛ مسئلہ پروردگار عالم کی بعض صفات کو قبول کرنے کے متعلق تھا کہ جن کو وہ صحیح انداز سے سمجھ نہیں پائے تھے اور یا مناسب طریقے سے اس کے معتقد نہیں تھے۔ اس وجہ سے خداوندِ متعال قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
’’ وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ ۖ فَأَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ ‎‏‘‘(سورہ عنکبوت، ﴿٦١﴾)
اور اگر آپ ان سے پوچھیں گے کہ آسمان و زمین کو کس نے پیدا کیا ہے اور آفتاب و ماہتاب کو کس نے مسخّر کیا ہے تو فوراً کہیں گے کہ اللہ،تو یہ کدھر بہکے چلے جارہے ہیں۔
دوسرے الفاظ میں؛ وہ آسمان، زمین، سورج اور چاند کو خدا سبحانہ کی جانب سے تسخیر شدہ جانتے تھے۔ دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے:
وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّن نَّزَّلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ مِن بَعْدِ مَوْتِهَا لَيَقُولُنَّ اللَّهُ ۚ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ (سورہ عنکبوت،‎﴿٦٣﴾‏)
اور اگر آپ ان سے پوچھیں گے کس نے آسمان سے پانی برسایا ہے اور پھر زمین کو مردہ ہونے کے بعد زندہ کیا ہے تو یہ کہیں گے کہ اللہ ہی ہے تو پھر کہہ دیجئے کہ ساری حمد اللہ کے لئے ہے اور ان کی اکثریت عقل استعمال نہیں کررہی ہے۔
    اس آیت جیسی دیگر آیات بھی قرآن کریم میں موجود ہے جن کا تعلق پروردگار عالم کے متعلق ہے۔
(سورہ لقمان، آیت ۲۵، سورہ زمر، آیت ۳۸، سورہ زخرف، آیات ۹ اور ۸۷)
    اس بنا پر بنیادی طور پر خدا کے وجود کا عقیدہ اسلام سے پہلے عربوں میں یہاں تک کہ قومِ ثمود اور قومِ عاد کے نزدیک بھی ایک تسلیم شدہ بات تھی۔ جیسا کہ سورہ ابراہیم
(سورہ ابراہیم، آیت ۱۰)
 کی آیت دس میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ علامہ طباطبائی اس آیت کے ذیل میں وضاحت کرتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام کا اصل مسئلہ وجود خدا نہیں تھا، ہر پیغمبر کی قوم اور امت وجود خدا کو تسلیم کرتی تھی؛ مگرمعاد، نبوت، احکام اور عظیم انبیاء علیہم السلام کی شریعتیں اصل مسائل تھیں۔
اس بات کوعلامہ طباطبائی کے علاوہ بعض اہل سنّت مفسرین نے بھی بیان کیا ہے۔ اس بنا پرگذشتہ زمانہ کے لوگ اور اسی طرح سے پیغمبر اسلام ﷺ کی بعثت کے زمانہ کے لوگ بھی خدا کے وجود کا عقیدہ رکھتے تھے۔ اس وجہ سے قرآن کریم میں خدا وند متعال کے وجود کے ثابت کرنے پر بہت کم دلائل پائے جاتے ہیں، زیادہ دلائل پروردگار عالم کی صفات جیسے وحدانیت وغیرہ کے لئے پیش کئے گئے ہے۔ بطور نمونہ پروردگار عالم قرآن کریم میں سوال انکاری کے انداز میں دریافت کرتا ہے کہ:
’’ قَالَتْ رُسُلُهُمْ أَفِي اللَّهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ  يَدْعُوكُمْ لِيَغْفِرَ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرَكُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ قَالُوا إِنْ أَنتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا تُرِيدُونَ أَن تَصُدُّونَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا فَأْتُونَا بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ (سورہ ابراہیم،‎﴿١٠﴾‏ ‘‘)
کیا تمہیں اللہ کے بارے میں بھی شک ہے؟
جو زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے، واضح بات ہے کہ جواب نہ میں ہے۔ اس بنا پر قرآن اور تاریخی ذرائع اور ثبوت کو دیکھتے ہوئے معلوم ہو جاتا ہے کہ خداوند متعال کے وجود کا عقیدہ مختلف اقوام اور معاشروں کے درمیان ایک تسلیم شدہ امر اور بحث و تحقیق سے بےنیاز بات تھی۔
ب۔ قرآنی تعلیمات میں خدا تعالی کا بیان
    قرآن کریم کے نازل ہونے اور خالص تعلیمات کے واضح ہو جانے کے بعد اور ایک بے مثل خدا کے وجود کا بیان اور اس کے تمام اوصاف ایک بےنظیر انداز سے تاریخ میں رونما ہوئے۔ بطور نمونہ ان میں سے جیسے:
 ’’هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ‎ ‘‘(سورہ حدید، ﴿٣﴾‏)
(اور وہی ہر شے کا جاننے والا ہے)

’’لِّلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَإِن تُبْدُوا مَا فِي أَنفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُم بِهِ اللَّهُ ۖ فَيَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ‎‏‘‘(سورہ بقرہ، ﴿٢٨٤﴾)
(اور وہ ہرشے پر قدرت و اختیار رکھنے والا ہے) پروردگار ہر چیز کا جاننے والا اور ہر چیز پر قادر ہے۔ ایسی باتیں رونما ہوئی جو اس سے پہلے کم ہی بیان کی گئی تھی۔ قرآن کریم نے خدا کو انسان سے اس کی شہہ رگ سے بھی قریب بیان کیا ہے، یہاں تک کہ وہ دل و نفس میں پیدا ہونے والے وسواس اور تصوّرات کو بھی جانتا ہے۔
’’وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ ۖ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ  ‘‘( سورہ ق، ‎﴿١٦﴾‏)
اور ہم نے ہی انسان کو پیدا کیا ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ اس کا نفس کیا کیا وسوسے پیدا کرتا ہے اور ہم اس سے رگِ گردن سے زیادہ قریب ہیں۔
پروردگار عالم کی رحمت اور مغفرت کے متعلق گفتگو کثرت سے بیان ہوئی ہے، سورۂ توبہ کے علاوہ قرآن کریم کے تمام سورہ کا آغاز

’’ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ ‘‘

سے ہوتا ہے۔ جس میں رحمن اور رحیم کی صفات کو بار بار بیان کیا گیا ہے۔
قرآن کریم نے پروردگار عالم کی خالقیت، سلطنت، ربوبیت، حاکمیت اور شفاعت میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہے اس کو واضح کیا ہے:
’’وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُن لَّهُ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ ۖ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيرًا ‎‘‘ (سورہ اسراء، ﴿١١١﴾)
 (۔۔۔ اورنہ کوئی اس کے ملک میں شریک ہے۔۔۔)، ربوبیت میں شریک کی نفی کا تذکرہ کرتے ہوئے بیان کیا گیا ہے کہ: ’’قُلْ اَغَيْرَ اللہِ اَبْغِيْ رَبًّا وَّہُوَرَبُّ كُلِّ شَيْءٍ وَ۔۔۔‘‘(سورہ انعام، آیت ۱۶۴)
(کہہ دیجئے کہ کیا میں خدا کے علاوہ کوئی اور ربّ تلاش کروں جب کہ وہی ہر شے کا پالنے والا ہے اور ۔۔۔)، اور حاکمیت میں کسی کے شریک ہونے کی نفی کرتے ہوئے بیان کیا گیا ہے
 ’’۔۔۔اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا اللَّهِ۔۔۔‘‘( سورہ یوسف، ﴿۶۷﴾)
(۔۔۔حکم صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔۔۔)، اور شفاعت میں کسی کے شریک ہونے کی نفی کرتے ہوئے بیان کیا گیا ہے
 ’’قُلْ لِلَّهِ الشَّفَاعَرْهُ جَمِيْعًا۔۔۔‘‘( سورہ زمر،﴿۴۴﴾)
(کہہ دیجئے کہ شفاعت کا تمام تر اختیار اللہ کے ہاتھوں میں ہے ۔۔۔)، اس سلسلہ میں کئی آیات پائی جاتی ہیں۔ قرآن کریم کی نگاہ میں موجودات کو تمام کمالات پروردگار عالم کی طرف سے حاصل ہوئے ہے اور موجودات میں سے کسی وجود کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
’’ يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ ‎‘‘(سورہ فاطر، ﴿۱۵﴾)
انسانو تم سب اللہ کی بارگاہ کے فقیر ہو اوراللہ بےنیاز اور قابلِ حمد و ثنا ہے۔
ج۔ قرآنی تعلیمات اور دیگر تعلیمات کے درمیان موازنہ
    پہلے اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا تھا کہ پروردگار عالم کے وجود کا عقیدہ سابقہ اقوام اور معاشروں کے درمیان ایک طے شدہ امر اور قطعی بات تھی؛ مگر تمام اختلافات پروردگار کی صفات کے متعلق تھے۔ اس مقام پر لازم ہے کہ قرآنی تعلیمات اور دیگر ادیان اور مکاتبِ فکر میں معرفتِ خداوندی کی متعلق پائی جانے والی اطلاعات کا موازنہ کیا جائے۔
    جس خدا کا تعرف قرآن کریم نے لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے وہ اس خدا سے مختلف ہے جو دیگر ادیان اور مکاتبِ فکر کے یہاں معروف تھا؛ سابقہ مذاہب، مکاتبِ فکر اور علمی شخصیات خداوند متعال کی جس انداز سے تعریف اور توصیف ہونی چاہئے اس انداز سے تعریف و توصیف بیان کرنے میں ناکام رہے تھے۔
    زیادہ تر مغربی مکاتبِ فکر اور علمی شخصیات جیسے ارسطو، گلیلی اور نیوٹن نے پروردگار عالم کی ذات اور صفات کے متعلق ناقص تصوّرات اور اطلاعات فراہم کئے تھے۔ البتہ قرآن کریم کی نگاہ میں خالق بخشش کرنےو الا اور مہربان ہے، اس کی رحمت اس کے غضب پر غلبہ رکھتی ہے، وہ دعاؤں کو قبول کرتا ہے، اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے اور انسان کی تمام تقدیریں اسی کے ہاتھ میں ہے۔
’’صِرَاطِ اللَّهِ الَّذِي لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ أَلَا إِلَى اللَّهِ تَصِيرُ الْأُمُورُ‏ ‘‘(سوری شوری، ‎﴿٥٣﴾)
 اس خدا کا راستہ جس کے اختیار میں زمین و آسمان کی تمام چیزیں ہیں اوریقینا اسی کی طرف تمام اُمورکی بازگشت ہے۔
    اس عالم کے تمام چھوٹے بڑے امور پروردگار عالم کے علم، تدبیر اور سلطنت کے تحت قرار دیئے گئے ہے۔ کوئی بھی چیز پروردگار عالم کے ارادہ اور علم کے بغیر واقع نہیں ہو سکتی۔ خلاصہ یہ کہ قرآن کی نگاہ میں خدا ایک ایسا وجود ہے جو انسان کی طرف متوجہ بھی اور انسان پر مہربان بھی ہے؛ اور بندہ جب چاہے اس کی طرف رجوع کر سکتا ہے؛ انسان اس کے ساتھ رابطہ قائم کرتا ہے؛ وہ انسان کو ضلالت اور گمراہی سے نور اور ہدایت کی طرف راہنمائی کرتا ہے؛ وہ جزا دینے والا اور سزا دینے والا ہے؛ تمام انسانوں کو روز قیامت جمع کرے گا؛ نیکو کاروں کو جزا و ثواب اور بدکاروں کو سزا دےگا؛ وہ اپنی مخلوقات کے بارے میں تمام معلومات و آگاہی رکھتا ہے۔
د۔ وجودِ خدا پر اعتقاد کی وجوہات
    لوگوں کے درمیان خدا کے وجود کے اعتقاد کو ثابت کرنے سے پہلے، ابھی یہ دو سوال پیش آتے ہیں کہ ابتدائی دور کے انسانوں کو کس طرح سے پروردگار عالم کی شناخت حاصل ہوئی؟ کیوں انسان خدا کی تلاش میں نکلا اور وہ کونسے عوامل تھے جو باعث بنے کہ انسان کو خدا اور خلقت کی ابتداء جاننے کی فکر لاحق ہوئی؟
    ان دونوں سوالوں کے جواب قانونِ عِلِیّت و سببیت ہے کہ کوئی بھی وجود بغیر علّت و سبب نہ ہوتا تھا اور نہ ہوتا ہے، اس تصوّر اور نظریہ کی علت بھی ممکن ہے کہ دو باتیں ہو:
۱۔ انبیاءِ الہی کا وجود
    قرآنی نصوص کی بنا پر کسی بھی زمانہ میں زمین کسی پیغمبر یا ولیِ خدا کے وجود سے خالی نہیں رہی اور خدائے متعال کی طرف سے بھیجے گئے ابنیاء مسلسل لوگوں کو خدا کی طرف دعوت دیتے رہے اور لوگوں کو یہ سمجھتاتے رہے کہ اس عالم کا کوئی آغاز کرنے والا اورخدا ہے۔ ممکن ہے کہ سابقہ دور کے انسانوں میں انبیاءعلیہم السلام کی موجودگی اور ان کی تبلیغات کے باعث خدا سبحانہ کا اعتقاد پیدا ہوا ہو۔

۲۔ خدا سبحانہ کے وجود کا عقیدہ فطری ہے
    دوسری دلیل یہ ہے کہ خدا سبحانہ کے وجود کا عقیدہ فطری ہے۔ انسان فطری طور پر علت کی جستجو میں رہتا ہے اور تمام اشیاء کے اسباب و آغاز کہ جن میں عالم کا آغاز بھی شامل ہے جاننے کو پسند کرتا ہے۔
    انسان کے لئے ہمیشہ یہ سوال پیشِ نظر رہا ہے کہ وہ کہا سے آیا ہے؟

اس عالم کا خلق کرنے والا کون ہے؟
یہ تمام سوالات اور اس کے متعلق معاملات ایک تسلسل کے ساتھ آگے بڑھتے رہیں اور تدریجاً تحقیق اور جستجو کے بعد انسان خدا پر ایمان لے آیا اور زمانہ کے گذرنے کے ساتھ خدا کا اعتقاد لوگوں کے درمیان وسعت اختیار کر گیا۔
    نتیجہ یہ ہے

کہ خدا سبحانہ کے وجود کا عقیدہ اسلامی اور غیر اسلامی دونوں نقطہ نظر سے ایک ثابت شدہ امر تھا؛ اگرچہ ان کے درمیان کچھ ایسے افراد تھے جو خدا کے وجود کے ہی بالکل انکاری تھے۔
    کتاب کے دوسرے حصہ کو ابتدائی ابحاث کے بیان کے بعد وجودِ خدا کو ثابت کرنے والے دلائل سے شروع کریں گے؛ شروع میں ابتدائی طور پر پروردگار عالم کی صفات کو بیان کیا جائے گا اور آگے جا کر پروردگار عالم کے صفات ثبوتیہ میں صفاتِ ذاتی اور فعلی اور اسی طرح صفات سلبیہ کو بیان کیا جائے گا۔
صفات سے مربوط ابحاث سےفارغ ہونے کے بعد توحید اور اس کی اقسام پر بحث کی جائے گی، اس حصہ کے اختتام پر حسن و قبح عقلی کے قانون سے مربوط ابحاث کو بیان کیا جائےگا۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک