امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

وجود خدا کو ثابت کرنے والے دلائل

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

پانچواں درس

وجود خدا کو ثابت کرنے والے دلائل
    سابقہ درس میں بیان ہو چکا ہے کہ وجود خدا پر ایمان یہ دنیا کی تمام اقوام، معاشروں اور تمام ادیان و مذاہب کے حامیوں کے درمیان ایک ثابت شدہ امر اور قطعی بات تھی؛ جس بات میں اختلاف تھا اور جس کی اصلاح کرنے میں انبیاء علیہم السلام مصروف رہیں وہ معاد پر ایمان اور پروردگار عالم کی صفات کے متعلق بعض لوگوں کے خیالات کی اصلاح اور اسی طرح سے لوگوں کی زندگی میں پائی جانے والی بعض مشکلات کی اصلاح کا کام تھا۔

خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے دلائل
    موجود درس خدا سبحانہ کے وجود کو ثابت کرنے والے دلائل سے مخصوص ہے۔ اگرچہ وجود خدا کا معاملہ واضح تھا اور اس کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں تھی؛ مگر ان افراد کے لئے جو اس معاملہ میں بھی شک میں مبتلا ہیں اور یا جن چیزوں کے متعلق بار بارے سوالات کئے جاتے ہے جس کے سبب جواب دینے کی ضرورت پیش آتی ہے اور یا وہ افراد جو چاہتے ہیں کہ اپنے قلبی اطمنان میں اضافہ کریں اور اس سلسلہ میں مزید معلومات حاصل کریں، ان سب باتوں کو مدّ نظر رکھتے ہوئے دلیل پیش کرنا مفید محسوس ہوتاہے۔
    خدا سبحانہ کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے متعدد طریقے موجود ہیں اور کثرت سے دلائل بیان کئےگئے ہیں۔ بعض مسلمان فلسفیوں نے ’’دلیل امکان عالم‘‘ کو پیش کیا ہے، جس کا معنی یہ ہے کہ موجودہ عالم یا تو واجب ہے یا ممکن۔ بعد میں دلیل پیش کی گئی ہے کہ ہر ممکن، واجب کے وجود کا محتاج ہے اور اس طرح سے واجب کے وجود کو ثابت کرتے ہیں۔ علم کلام کے مسلمان علماء عام طور سے ’’حدوث عالم‘‘ کے طریقے کو پیش کرتے ہیں کہ عالم حادث و خلق شدہ ہے اور ہر حادث و مخلق شدہ چیز قدیم و پہلے سے موجود محدِث و خالق کا محتاج ہوتا ہے اور خدا وہی محدِث قدیم ہے۔
    تیسری دلیل؛ ’’نظم‘‘ اور ’’اس عالم میں موجود پیچیدگیوں‘‘ کے متعلق ہے جس کو ’’اتقان صنع‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ چوتھا طریقہ ’’برہان حرکت‘‘ہے کہ بعض فطرت پرستوں نے اس کو پیش کیا ہے ۔ فطرت اور دل کا راستہ پانچواں راستہ ہے جس کے تحت خدا پر ایمان کو ہر انسان کے خمیرِ اصلی اور فطرت کا حصہ شمار کیا جاتا ہے اور اس بات کااعتقاد پیش کیا جاتا ہے کہ ہر انسان مختصر توجہ کے ساتھ اس بات کو سمجھ جاتا ہے کہ اس عالم کا کوئی خدا ہے۔ چھٹا راستہ؛ عرفاء کا راستہ ہے کہ ان کی نگاہ میں خدا کا وجود بالکل آشکار و واضح امور میں شمار ہوتا ہے اور وہ ایسا ثابت شدہ ہے کہ اس کو ثابت کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے؛ چونکہ جو چیز بالکل واضح و آشکار ہو اس پر دلیل پیش نہیں کی جا سکتی، اور اس کو ثابت کرنے کے لئے دلیل قائم کرنا ضروری نہیں ہے۔ ان راستوں میں سے ہر ایک میں اپنی خصوصیات ہے، اسی طرح سے بعض پیچیدگیاں اور مشکلات بھی ہے جس کی وجہ سے اجمالی وضاحت کی ضرورت ہے۔
    راہِ شہودی، سیر و سلوک اور قلبی معرفت یقین کا باعث بنتا ہے اور اس کا امتیاز یہ ہے کہ انسان اس کے ذریعے سو فیصد مطمئن ہو جاتا ہے اوراس کو یقین محکم حاصل ہو جاتا ہے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ یہ اس راستہ سے حاصل ہونے والا یقین دوسروں کو منتقل کرنے اور دوسروں کو تعلیم دینے کے قابل نہیں ہے۔ ایسا شخص جو اس کیفیت میں پہنچا ہے کہ اپنے باطن میں اس نے وجود خدا کا احساس کر لیا ہے اور اپنے دل سے مشاہدہ کر لیا ہے وہ اس بات کی قوت نہیں رکھتا کہ اپنے قلبی اور شہودی تجربہ کو دوسروں تک منتقل کر سکے۔ اس وجہ سے یہ انفرادی دلیل بن جاتی ہے اور فقط اسی شخص کی حد تک قابل قبول ہے۔ البتہ دیگر تمام راستہ جیسے برہان نظم، یہ دوسروں کو منتقل کرنے اور دوسروں کو تعلیم دینے کے قابل ہیں اور کسی ایسے شخص کے لئے جو درمیانی سطح کی معلومات حاصل کرنے کے قابل ہے اس کے لئے یہ دلائل قابل فہم و سمجھ ہے۔
    عقلی راستہ پر پیچیدہ اور مشکل ہوتا ہے جس کو مختلف انداز سے بیان کیا جاتا ہے اور اس کا امتیاز یہ ہے کہ اس کے مقدمات و بنیادی باتیں ضروری، دائمی اور کلی ہوتی ہیں اور کسی طرح کے اختلاف اور خلل کا احتمال اس میں پایا نہیں جاتا اور جب دلیل عقلی سمجھ آ جاتی ہے تو انسان سو فیصد مطمئن اور متفق ہو جاتا ہے۔ البتہ برہانِ عقلی کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ ہر ایک کی سمجھ میں آنے کے قابل نہیں ہے؛ چونکہ اس میں فلسفی اور عقلی مقدمات موجود ہوتے ہیں جن کو سمجھنے کے لئے بلند ذہنی مہارت اور قوتِ فہم لازمی ہے اور انسان کو چاہیئے کہ زیادہ محبت اور صبر کے ساتھ اس مقصد کے حصول کی طرف قدم بڑھائے۔
    معاشرہ کی طرف توجہ کرتے ہوئے اس ہدف کی تحقیق میں بہترین راستہ نظمِ عالم کے طریقے پر اعتماد کرنا ہے، اس بحث کو مکمل کرنے کے لئے ایک عقلی اور فلسفی دلیل کو بھی پیش کیا جائے گا، اور اہل تحقیق دیگر دلائل کے مطالعہ اور تحقیق کی لئے اس سے مربوط ذرائع کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔
الف: برہانِ نظم
    جیسا کہ اشارہ کیا گیا، خداوند متعال کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے مختلف طریقے بیان کئے گئے ہیں، ان میں سے ہر ایک اپنے مقام پر تفصیلی بحث کا خواہاں ہے۔ قبل اس کے کہ برہانِ نظم یا آسان الفاظ میں معرفتِ خدا پربات کی جائے؛ لازم ہے کہ اس نکتہ کی طرف اشارہ کیا جائے کہ پروردگار عالم کے وجود کو ثابت کرنے کے دلائل کے مقدمات و بنیادیں یا تو تمام کے تمام عقلی ہوتے ہیں؛ اس معنی میں کہ دلیل کے تمام مقدمات عقلی معلومات سے حاصل کئے گئے ہو اور اس میں حواس کے ذریعے محسوس اور ظاہر ہونے والی باتوں سے مدد نہ لی گئی ہو؛ یا دوسری صورت یہ ہے کہ دلائل کے کچھ حصوں میں دلیل کے بعض مقدمات میں حواس کے ذریعے محسوس ہونے والے نتائج سے بھی مدد لی گئی ہو ۔ ان دو طریقوں میں سے برہانِ نظم کا تعلق دوسری قسم سے ہے، اور آسانی کو مدّ نظر رکھا جائے تو یہ خدائے متعال کے وجود کو ثابت کرنے کی بہترین دلیل ہے؛ چونکہ اس سے متوسط سطح کے افراد کی توانائی اور فہم کے حد میں رہ کر استفادہ کرنا ممکن ہے۔
۱۔ برہان نظم کی خصوصیات
    برہان نظم کی سب سے پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے لئے تکنیکی اور پیچیدہ مقدمات کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ اس کے مقدمات آسان، ان تک پہنچنا سہل اورمتوسط سطح کے تعلیم یافتہ عوام کے لئے قابل فہم ہے۔
    برہان نظم کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس دلیل کو قبول کرنے سے نہ فقط یہ کہ خدا کا وجود ثابت ہو جاتا ہے بلکہ اس کے علاوہ خداوند متعال کا علم اور حکمت بھی ثابت ہو جاتا ہے۔ جبکہ بعض دیگر عقلی دلائل میں یہ خصوصیت نہیں پائی جاتی۔
    برہانِ نظم کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ یہ برہان دیگر ادیان اور مذاہب کی توجہ کا بھی مرکز قرار پایا ہے؛ عیسائی اور یہودی علماء اور مفکرین اور اسی طرح سے شیعہ اور سنی دانشور وں نے بھی برہان نظم کو خصوصی اہمیت دی ہے اور اس کو نئے ادب و تحریرات کی تشکیل میں مناسب و مفید قرار دیا ہے۔
    برہانِ نظم کی چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ قرآن کریم اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی روایات میں بھی یہ قابل توجہ قرارپایا ہے۔
 ائمہ معصومین علیہم السلام سے پوچھے گئے سوالات کے جواب میں کائنات میں پائے جانے والے نظم سے مختلف انداز میں استدلال کیا گیا ہے، مخاطب کی توانائی بحث میں داخل ہونے اور خارج ہونے میں مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔ مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ برہان نظم مختلف دلائل کی بنا پر دیگر تمام عقلی دلائل پر ترجیح رکھتا ہے۔

۲۔ نظم کیا چیز ہے؟
    برہان نظم کے بارے میں سب سے پہلا سوال یہ کیا جاتا ہے کہ نظم سے کیا مراد ہے؟ نظم کا لفظ ہمیشہ مرکب اور اجزاء کی حامل اشیاء کے بارے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ واحد اور بسیط اشیاء میں اس میں اس لفظ کا استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ حقیقت میں نظم ایک کیفیت اورایک طرح کی ترکیبی صورت اور تسلسل ہے جو ایک مجموعہ کے متعدد اجزاء کے درمیان پایا جاتا ہے، اس انداز سے کہ ان کے آپس کے تعاون کے سبب اس مجموعے کے مقاصد کا تحفظ ممکن بنتا ہے۔
نمونہ کے طور پر منظم کتاب خانہ اس کتاب خانہ کو کہتے ہیں جہاں پر ایک موضوع سے مربوط کتابیں متعین اور مربوط الماریوں میں اسی موضوع کے ساتھ رکھی گئی ہو۔ بطور مثال عقاید، تاریخ، تفسیر اور جغرافیا کے موضوعات سے مربوط تمام کتابیں اپنے اپنے مربوط موضوع کی الماریوں میں رکھی ہوئی ہو۔ اگر ایسے کتاب خانہ کی طرف رجوع کیا جائےتو بہت آسانی سے جس کی ضرورت ہے اس کتاب تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے اور اس سے اچھے انداز سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ برہان نظم میں نظم سے مراد بالکل یہی معنی ہے کہ اگر اس عالم کے نظم میں غور و فکر کیا جائے، مثلاً آسمان و زمین کو دیکھا جائے، شب و روز پر غور و فکر کیاجائے، پھولوں اور پودوں کے خوبصورتی پر تفکر کیا جائے اور اسی طرح اگر انسان کے وجود میں پائی جانے والی پیچیدگیوں پر دقت کی جائے؛ تو معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ تمام ایک نظم کی بنیاد پر استوار ہیں اور ان میں ذرہ برابر بدنظمی دکھائی نہیں دیتی۔
۳۔ برہان نظم کی وضاحت
    اسلامی اور غیر اسلامی علماء اور دانشور اس برہان کو مختلف انداز سے پیش کرتے ہیں۔ بعض کائنات کے نظام اور نظم و ضبط میں غور و فکر کے ذریعے برہان نظم کو پیش کرتے ہیں، ایک گروہ عالم کے موجودات میں پائی جانے والی پر اسرار یت کی طرف راہنمائی کر کے برہانِ نظم کو پیش کرتا ہے۔ جبکہ علم کلام کے دوسرے بعض علماء اس برہان کو حدوث اور عالم کی پیدائش کے طریقے سے پیش کرتے ہیں، کہ عالم نگاہ کے سامنے آنے والی کتاب کی مانند ہے کہ جس میں حصّے، سطور، الفاظ اور حروف ہوتے ہیں گہری نگاہ سے دیکھا جائے تو ہر ایک دوسرے سے جدا ہے مگر مشترکہ مقصد کو دیکھا جائے تو سب ایک دوسرے سے مربوط ہے۔ اس کتاب میں غور و فکر کرنے سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ حروف کا تسلسل اور اس کتاب کے دیگر کام خود بخود وجود میں نہیں آئے ہے اور ہر انصاف پسند انسان کتاب کے مطالعہ سے اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ یہ کتاب ایک عالم اور حکیم انسان کے ذریعے لکھی گئی ہے۔ کائنات کی طرف نگاہ کرنے سے بھی ہم اسی کیفیت کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ اس عالم کے پیچھے ایک حکیم ناظم موجود ہے جس نے ہر چیز کو بڑی خوبصورتی سے اپنی جگہ پر قرار دی ہے اور ہر چیز کو ایک مقصد کو مدّ نظر رکھتے ہوئے خلق کی ہے۔
    جہاں تک علم کی تاریخ راہنمائی کرتی ہے، روزِ اول سے ہی انسان، حیوان اور نباتات میں نر اور مادہ کی جنس کا وجود تھا اور نسل کودوام بخشنے اور وسعت دینے کے لئے مربوط ہو کر کوشش کرتے تھے۔ کس طرح سے عقل اس بات پر یقین کر سکتی ہے کہ نر اور مادہ کی جنس اتفاق سے وجود میں آ گئی ہو اور اس کو بغیر کسی مقصد کے خلق کیا گیا ہو اور اتفاقی طور پر نسل کو دوام دینے اور پھیلانے کے لئے ایک ساتھ ہو گئے ہو؟

ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ اس تدبیر کے پیچھے ایک مدبّر کا ہاتھ کار فرما ہے جس نے یہ چاہا کہ انسان اوردیگر حیوانات متعین مقاصد و اہداف کے لئے ختم نہ ہونے پائے، اس وجہ سے اس نے خاص ہدف اور مقصد کی خاطر نر اور مادہ کی جنس کو ایک ساتھ مربوط کر دیا۔ بےنظیر تعاون ونظم جو ماں کے دودھ ہلانے اور بچہ کے دودھ پینے کے درمیان پایا جاتا ہے، اس انداز سے کہ جیسے ہی بچہ دنیا میں آتا ہے ماں کا پستان دودھ سے لبریز ہو جاتا ہے اور بغیر کسی فاصلہ کہ بچہ ماں کے پستان کی طرف متوجہ ہوکر اس کو چوسنے لگتا ہے۔
شہد کی مکھی صبح اڑنا شروع کرتی ہے اور شام تک اس کوشش میں رہتی ہے کہ بہترین پھلوں سے رس کو حاصل کر کے خوش ذائقہ شہد کو پیدا کرے۔ اس کے علاوہ بہت ساری مثالیں اس عالم میں پائی جاتی ہے کہ یہ تمام کی تمام اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ موجودات کی تخلیق اور ان کے اعمال اور افعال اتفاقی طور سے وجود میں نہیں آئے ہیں۔
    اگر ہم دنیا کے بڑے اور مشہور شہروں کی طرف نگاہ کریں کہ جہاں پر وسیع اور طویل سڑکیں، خوبصورت پارک، خوبصورت عمارتیں اور تعمیرات، بجلی کی فراہمی، پانی کی فراہمی وغیرہ کا جو منظم نظام پایا جاتا ہے، کوئی بھی عقلِ سلیم اس بات کا یقین نہیں کرے گی کہ یہ سارے شہر خود بخود اور اتفاقی طور سے وجود میں آ گئے ہیں۔ یا اس شہر کے تمام گلی کوچہ، پارک، سڑکیں بغیر کسی نقشے اور بغیر مخصوص مقاصد کو مدّ نظر رکھے اتفاقی طور سے وجود میں آ گئے ہیں۔
 سب یہ سمجھتے ہیں کہ اس دلکش اور خوبصورت تعمیر کے پیچھے انجینئرز اور ماہر اور زبردست نقشی کام کرنے والے تھے جنہوں نے ان کاموں کو شہر کے باشندوں کو سالم اور آسان زندگی فراہم کرنے کے مقصد کی خاطر ڈیزائن کیا تھا۔
فارسی زبان کے مشہور شاعر سعدی کہتے ہیں:
آفرینش ھمہ تنبیہ خداوند دل است
دل ندارد کہ ندارد بہ خداوند اقرار
این ھمہ نقش عجب بر در و دیوار وجود
ھر کہ فکرت نکند نقش بود بر دیوار

(تمام خلقت دل کے خدا کی راہنما ہے، وہ شخص دل ہی نہیں رکھتا جو خدا کا اقرار نہیں کرتا،، یہ سب عجیب اثرات جو در اور دیوار پر موجود ہے، یہ نہ سمجھ کہ یہ فقط دیوار پر موجود نقش و اثرات ہے)
    اس مقصد کی خاطر کہ نظم اور ناظم کے درمیان کا ارتباط زیادہ واضح ہو جائے، ایک سوال کو دوسرے عنوان سے ہم اس طرح پیش کرتے ہیں کہ ہم کس طرح سے کسی فرد کی مہارت، خاص خوبی اور خاص ذوق کی معلومات حاصل کر سکتے ہیں؟
 کس معیار کو بنیاد بنا کر ہم اس بات کے معتقد ہو سکتے ہیں کہ فلاں شخص خاص خوبی کا حامل اور ماہر ہے یا فلا فقیہ اچھا ماہرہے یا فلا ں کا ادبی ذوق بےنظیر ہے؟
    جواب یہ ہے کہ کسی فرد کی مہارت، خاص خوبی اور ذوق کی معلومات اس کے آثار کی تحقیق سے حاصل ہوتی ہے، مثلاً صاحبِ جواہر اپنی کتابِ جواہر کی وجہ سے ایک اچھےفقیہ اور سعدی اپنی کتاب گلستان اور بستان کے سبب ایک اچھے شاعر کے عنوان سے پہچانے جاتے ہیں۔
یہی قانون اس عالم کے نظم کے بارے میں بھی جاری ہوتا ہے ۔ اگر شب و روز کی گردش اور سال کے موسموں پر اچھے انداز سے نگاہ ڈالی جائے یا انسان کے جسم میں پائے جانے والے نظم کی طرف نگاہ کی جائے تو اطمنان حاصل ہو جاتا ہے کہ اس نظم اور عجائبات کے پیچھے ضرور کسی صاحب حکمت، صاحب علم اور قادر وجود کا ہاتھ کار فرما ہے اور وہ علم، قدرت اور حکمت کا کار فرما ہاتھ خدائے متعال ہے۔
    برہان نظم کا بیان یا آسان اور مختصر بیان یہ ہے کہ: اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس عالم میں نظم موجود ہے۔ اور ہر نظم کسی ناظم کے سبب سے وجود میں آتا ہے، اس بنا پرعالم میں پائے جانے والے درست نظم کے بارے میں یقینی طور سے ثابت ہو جاتا ہے کہ اس نظم کے پیچھے ایک ناظم موجود ہے اور یہ وہی خدائے متعال ہے۔
    برہان نظم کے طریقے سے پروردگار عالم کے علم، قدرت اور حکمت کو ثابت کرنے کے لئے ممکن ہے کہ اس طرح سے دلیل پیش کی جائے کہ: عالم میں نظم ہے اور ہر نظم کے لئے ایک ایسے ناظم کی ضرورت ہوتی ہے جو صاحب حکمت، قادر اور صاحبِ علم ہو؛ چونکہ کوئی بھی شخص بغیر حکمت، قدرت اور علم کے نظم کو وجود میں نہیں لا سکتا۔ اس بنا پر ثابت ہو جاتا ہے کہ اس عالم کا ناظم عالم، قادر اور حکیم ہے۔
    برہان نظم کی مقام تکمیل تک پہنچانے ہوئے اس عالم کے نظم کے بارے میں مغربی مفکرین میں سے ایک کی لکھی کتاب انسانی خلقت کا راز
(کرسی موریسون، راز آفرنیش، ترجمہ : محمد، سعیدی، ص ۱۷۹)
سے چند باتوں کو نقل کیا جاتا ہے:
’’جیسا کہ سابقہ صفحات میں ہم نے دیکھا کہ دنیا کو اس طرح سے خلق کیا گیا ہے کہ ہر چیز کو اپنے مقام پر قرار دیا گیا ہے۔ سطح زمین کی سختی اسی مقدار میں ہے کہ حقیقت میں جتنی ضرورت ہے۔ اور سمندروں کی گہرائی اتنی ہی مقدار میں ہے کہ اگر چند مٹر اور اس سے زیادہ گہرائی ہوتی تو وہاں موجود مخلوقات کو ضرورت کے مطابق آکسیجن میسر نہ آتی اور زمین پر کوئی اورنباتات دکھائی نہ دیتی۔ زمین چوبیس گھنٹے میں ایک چکر لگاتی ہے اور اگر اس میں معمولی اضافہ ہو جائے تو روئے زمین پر زندہ رہنا ممکن نہ رہے۔ سورج کے گرد زمین کی گردشی رفتا میں معمولی سا اضافہ ہو جائے یا معمولی سی کمی ہو جائے تو جو چیز ہے وہ تھی ہو جائے گی، یا اس عالم میں کوئی زندگی کا وجود نہ ہوتا اور یا اگر وجود ہوتا بھی تو اس کے وجود کی تاریخ موجود تاریخ سے مختلف ہوتی۔
    جیسا کہ ہم نے بیان کیا افلاک میں ہزاروں سورج موجود ہیں فقط وہی سورج ہمارا ہے جو ان میں سے روشنی کا حامل ہے اور جس سے ہم حیات کی نعمت سے بہرہ مند ہوئے ہیں؛ چونکہ تنہا وہی ہے جس کے دائرے کا قطر اور اس کے اطراف کی ہوا کی ضخامت اور اس سے نکلنے والی شعاعوں اور روشنیوں کی کیفیت ہماری خاکی زندگی کی ضرورت کے مطابق ہے۔ اگر غور سے ہم دیکھیں تو ہوا میں موجود مختلف گیس میں مکمل طور سے مناسبت اور توازن پایا جاتا ہے اور اگر اس تناسب میں ذرہ برابر بھی تبدیلی پیدا کر دی جائے تو روئے زمین سے حیات کا خاتمہ ہو جائے۔ یہ فقط چند ایسے نکات ہیں جن کا تعلق ان مجموعی باتوں سے ہیں جن کا تعلق زمین کی فطری تشکیل کی خصوصیت سے ہیں جن کو گذشتہ حصّوں میں ہم نےبیان کیا۔ جس وقت ہم زمین کے حجم اور فضا میں اس کی تشکیل کا مشاہدہ کرتے ہیں اور ان حیرت انگیز توازن کو جو اس کی پیدائش میں کار فرما ہیں ان کی طرف نگاہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اگریہ کہا جائے کہ یہ سب توازن و مناسبتیں اتفاقی طور سے اور اچانک سے وجودمیں آگئی تھی تو ان میں سے بعض میں اس کا احتمال دس لاکھ میں سے ایک شمار ہوگا اور ان کے مجموعے کے لئے اربوں احتمال کی ضرورت ہوگی۔ اسی اعتبار سے زمین کی پیدائش اور اس میں پائی جانے والی حیات کی نشانی کے بارے میں اس بات کا بالکل امکان نہیں ہے کہ اس کو اتفاق اور اچانک سے مربوط قوانین پر منطبق کیا جائے۔
 انسان کو فطری عوامل سے جوڑنے سے زیادہ تعجب خیز فطرت کو انسان سے جوڑنا ہے۔ اس بنا پر فطرت کے عجائبات کے ایک اجمالی مطالعہ سے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ تمام نظام، نظم اور ترتیب میں ایک مقصد اور ہدف پوشیدہ ہے۔ اور قادر متعال کہ جس کو ہم ’’خدا‘‘ نام دیتے ہیں اس نے اس ہدف کو زمان و مکان اور دیگر باتوں کی باریک بینی اور مرتب منصوبہ بندی کے ساتھ جاری کیا ہے۔‘‘
    آسان ترین زبان میں بیان کیا جا سکتا ہے کہ اگر انسان کے جسم کے اعضاء جن میں آنکھ، کان، زبان اوردیگر سینکڑوں زندہ خلیئے شامل ہیں ان کی طرف نگاہ کی جائے تو یہ سب گواہی دیں گے کہ یہ اتفاق سے وجود میں نہیں آئے ہیں اور انسان کے جسمانی نظام میں پایا جانے والا تمام نظم بغیر ناظم کے وجود میں نہیں آیا ہے؛ بلکہ تمام نظم اور مذکورہ ترتیب کے پیچھے ایک ناظم موجود ہے۔ بطور مثال ایک کتاب میں جو نظم اور ترتیب پائی جاتی ہے، شمارہ اور صفحات کی تعداد سے شروع کر کے حروف، الفاظ، صفحہ بندی وغیرہ؛ کوئی بھی سالم عقل اس بات کو قبول نہیں کرے گی کہ مذکورہ کتاب خود بخود وجود میں آ گئی ہے اور بطور مثال ہوا قلم کی نوک کو اتفاق سے کاغذ کے صفحات پر کھینچتی گئی اور اس کے نتیجے میں الفاظ بنتے گئے اور کتاب میں ان الفاظ کی تشکیل سے خودبخود یہ ایک خوبصورت تخلیق سامنے آ گئی۔
    جب عقلمِ سلیم اس طرح کی ایک کتاب کی اتفاقی تخلیق کو قبول نہیں کرتی، تو پھر وہ کس طرح سے یقین کر لے کہ موجودہ عالم کے اس بےنظیر نظم کے پیچھے کوئی حکیم، عالم اور قادر ناظم موجود نہیں ہے؟!
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ عقلی صحت کے حامل افراد اگر تھوڑا سا بھی اس موجودہ عالم کا مطالعہ کریں اور اپنے اعضاءِ بدن میں سے ہر ایک کی طرف نگاہ کریں تو اس کو اس بات کا یقین آ جائے گا کہ موجودہ نظام کے پیچھے ایک ناظم پوشیدہ ہے اور ہرگز یہ موجودہ عالم اتفاقی طور سے وجود میں نہیں آیا ہے۔
    بحث کا نتیجہ یہ ہے:
 کہ اگر اس عالم میں موجود نظم اور اس سے مربوط تمام باتوں کی طرف نگاہ کی جائے تو یہ نتیجہ دستیاب ہوتا ہے کہ اگر اس عالم کے اجزاء میں سے ایک جزء کو ہٹا دیا جائے، بطور مثال اگر ایک ہفتہ تک سورج روشنی نہ دے یا انسان کے بدن میں زبان گونگی ہو جائے، تو مکمل طور سے یہ محسوس ہو جاتا ہے کہ ہمارے سامنے موجود فطرت اور انسان ناقص اور تبدیل شدہ ہے۔ اس بنا پر اگر اس عالم میں موجود ہر مرکب وجود کا مشاہدہ کیا جائے تو ہم اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ عالم کے تمام اجزاء ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور سب ایک ہی ہدف اور ایک ہی نظم کو اپنا مطمع نظر بنائے ہوئے ہیں۔
    اس بنا پر جب ایک جلدی کتاب اتفاقی طور پر وجود میں نہیں آتی ہے، تو بغیر کسی شک عالم اپنی اس خوبصورتی کے ساتھ، ان پیچیدگیوں کا حامل انسان، کائنات اپنی اس وسعت کے ساتھ ہر گز ممکن نہیں ہے کہ اتفاقی صورت میں وجود میں آئے ہو،
اس بنا پر ضروری ہے کہ یہ یقین کیا جائے کہ فقط حکیم، قادر اور عالم خدا ہے جو رحمِ مادر میں موجود ہر جنین کے اہم اور حساس اعضاء جیسے آنکھ، کان، زبان، پاؤ وغیرہ جن کی مستقبل میں ضرورت پیش آئے گی، ان کو اسے عطا کرتا ہے، اور ذہنی اطمنان کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہر فرد علم اور دانش کاے کسی بھی میزان کے ساتھ موجودہ نظم کے متعلق معمولی غور و فکرکرے گا تو وہ مطمئن ہو جائے گا کہ عالم کا یہ نظم ایک حکیم، قادر اور عالم نظم دینے والے کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ وہی خالق مطلق خداوند متعال ہے۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک