امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

خلیفہ وقت کو جناب فاطمہ(ع) کا منہ توڑجواب

1 ووٹ دیں 05.0 / 5

حدیث لا نورث کے رد میں جناب فاطمہ(ع) کے دلائل

پوری کتاب کو (PDF ) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئے اس لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=379&view=download&format=pdf

ایک مقام پر ارشاد ہےووارث سلیمان دائود آیت نمبر۱۶سورہ نمبر۲۷( نمل) یعنی سلیمان نے دائود کی میراث پائی) حضرت زکریا کے قصے میں فرمایا
"فَهَبْلِيمِنْلَدُنْكَوَلِيًّايَرِثُنِيوَيَرِثُمِنْآلِيَعْقُوبَ‏ " آیت نمبر۵ سورہ نمبر۱۹
 ( مریم) ( یعنی اپنے لطف خاص سے مجھ کو ایک فرزند صالح اور جانشین عطا فرما جو میرا اور آل یعقوب کا وارث ہو) اور حضرت زکریا کی دعا کے میں آیا ہے
"وَزَكَرِيَّاإِذْنادى‏ رَبَّهُ‏ رَبِّ لاتَذَرْنِي فَرْداًوَأَنْتَ خَيْرُالْوارِثِينَ فَاسْتَجَبْنالَهُ وَوَهَبْنالَهُ يَحْيى‏" آیت نمبر۸۹ سورہ نمبر۲۱
( انبیاء) یعنی اور یاد کرو زکریا کو جب کہ انہوں نے اپنے خدا کو پکارا کہ خداوند مجھ کو تنہا نہ چھوڑ( یعنی مجھ کو بیٹا اور وارث عطا فرما) اور تو دنیا کے تمام وارثوں سے بہتر ہے۔ پس ہم نے ان کی دعا قبول کی اور انہیں یحیی سا فرزند عطا کیا۔

اس کے بعد فرماتی ہیں:
"يابن‏ أبي‏ قحافةأفي كتابالله أن ترث أباك ولاأرثأبي،لقدجئت شيئافريا،أفعلى عمد تركتم كتابالله ونبذتموه وراءظهوركم"

اے پسر ابو قحافہ!
آیا کتاب خدا میں یہی ہے کہ تو اپنے باپ کا وارث ہو اور میں اپنے باپ کی وارثت سے محروم رہوں؟ یہ تو نے بڑا بہتان باندھا ہے آیا تم لوگوں نے جان بوجھ کر عمدا اللہ کی کتاب کو چھوڑ دیا اور قرآن کو پس پشت ڈال دیا؟ کیا میں پیغمبر(ص) کی اولاد نہیں ہوں کہ مجھے میرے حق سے محروم کر رہے ہو؟
 پس یہ سب وراثت کی آیتیں جو عام طور سے انسانوں کے لیے اور خاص طور پر انبیاء کے لیے ہیں آخر کس وجہ سے قرآن مجید میں درج ہوئیں؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ قرآن کی آیتیں روز قیامت تک اپنی حقیقت پر باقی ہیں کیا قرآن یہ ارشاد نہیں ہے۔
"وَأُولُواالْأَرْحامِ بَعْضُهُمْ أَوْلى‏ بِبَعْضٍ"
( یعنی خویش و اقربا میں سے بعض وارثت میں، بعض دوسروں پر مقدم ہیں۔ آیت نمبر۷۶ سورہ نمبر۴ ( انفال)
"يُوصِيكُمُاللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ لِلذَّكَرِمِثْلُ‏ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ‏"
(یعنی تمہاری اولاد کے بارے میں حکم خدا یہ ہے کہ لڑکے لڑکیوں سے دوگنی وراثت پائیں۔ آیت نمبر۱۲ سورہ نمبر۴ (نساء) :

" كُتِبَ‏ عَلَيْكُمْ‏ إِذاحَضَرَأَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْراً- الْوَصِيَّةُلِلْوالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّاعَلَى الْمُتَّقِينَ‏"

یعنی سب کو باقاعدہ ہدایت کی جاتی ہے کہ اگر تم میں سے کسی کو موت کو وقت آجادے اور وہ کچھ مال متاع چھوڑے تو اپنے ماں باپ اور خویش و اقرباء کے لیے نیکی کے ساتھ وصیت کرے۔ یہ کام پرہیز گاروں پر فرض ہے آیت نمبر۱۸۶ سورہ نمر۴( نساء) آخر کس خصوصیت نے مجھ کو باپ کے ترکہ سے محروم کیا؟

"أَفَخَصَّكُمُ اللَّهُ بِآيَةٍأَخْرَجَ مِنْهَاأَبِي (ص) أَمْ‏ أَنْتُمْ‏ أَعْلَمُ‏ بِخُصُوصِ‏ الْقُرْآنِ‏ وَعُمُومِهِ مِنْ أَبِي وَابْنِ عَمِّي؟!"

آیا خاص طور پر خدا نے تمہارے اوپر کوئی آیت نازل کی ہے جس سے میرے باپ کو محروم رکھا ہے؟ یا تم میرے باپ( محمد (ص)) اور میرے ابن عم (علی(ع)) سے زیادہ قرآن کے عام اورخاص کو جانتے ہو؟ جب وہ لوگ ان دلائل اور حق باتوں کے مقابلے میں بالکل ساکت ہوگئے اور سوا مغالطہ بازی، فحش بکنے اور اہانت کرنے کے ان کے پاس کوئی جواب نہ رہا تو بالآخر انہیں طریقوں سے جناب معصومہ(ع) کو مجبور بنایا۔
فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے فریاد بلند کی اور فرمایا کہ آج تم نے میرا دل توڑدیا اور زبردستی میرا حق چھیں لیا ہے۔ لیکن میں قیامت کے روز اللہ کے محکمہ عدالت میں تمہارے خلاف دعوی دائر کروںگی اور خدائے قادر و توانا تم سے میرا حق وصول کرے گا۔

"فنعم‏ الحكم‏ اللّه‏،والزعيم محمد،والموعدالقيامة،وعندالساعةيَخْسَرُالْمُبْطِلُونَ‏،ولِكُلِّ نَبَإٍمُسْتَقَرٌّوَسَوْفَ تَعْلَمُونَ‏ مَنْ يَأْتِيهِ عَذابٌ يُخْزِيهِ وَيَحِلُّ عَلَيْهِ عَذابٌ مُقِيمٌ"

یعنی سب سے بہتر حکم کرنے والا اللہ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رئیس و آقا ہیں۔ ہماری تمہاری وعدہ گاہ قیامت ہے اس روز اہل باطل گھاٹے میں رہیں گے اور ندامت و پریشانی تم کو کوئی نفع نہ بخشے گی، ہر چیز کے لیے ایک وقت اور موقع ہے اور عنقریب تم کو معلوم ہوگا کہ ذلیل وخوار کرنے والا عذاب کس پر نازل ہوتا ہے اور کون ہمیشہ کے لیے عذاب میں مبتلا ہوتا ہے۔

حافظ : کون شخص اتنی جرائت کرسکتا تھا رسول اللہ(ص) کی امانت اور پارہ جگر فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شان میں گستاخی کرے جو آپ فرماتے ہیں کہ مغالطہ بازی میں ان معظمہ کو فحش باتیں کہیں؟ میں اس بیان پر یقین نہیں کرسکتا۔ مغالطہ بازی ممکن ہے لیکن فحش باتیں کہنا ممکن نہیں۔ آپ دوبارہ ایسی بات نہ فرمائیے گا۔

خیر طلب: کھلی ہوئی بات ہے کہ کسی کو اتنی جرائت نہیں تھی سوا آپ کےخلیفہ ابوبکر کے جو ان مظلومہ بی بی کی مضبوط دلیلوں کا جواب نہ دے سکے تو اسی وقت منبر پر چڑھ گئے اور گستاخی کرنا شروع کی۔ اور صرف جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی نہیں بلکہ ان کے شوہر اور ابن عم، محبوب خدا و رسول امیرالمومنین علی علیہ السلام کی بھی اہانت کی۔

حافظ : میرا خیال ہے کہ اس قسم کی تہمتیں شیعہ عوام اور متعصب لوگوں کی طرف سے پھیلائی گئی ہوں گی۔

خیر طلب : آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے یہ چیزیں شیعہ عوام کی طرف سے نہیں بلکہ اہل سنت والجماعت کے خواص اور بڑے بڑے علماء کی طرف سے نشر ہوئیں شیعہ جماعت میں ایسا تعصب بہت ہی شاذ بلکہ ناممکن ہے کہ جھوٹی باتیں پھیلائی جائیں، ہمارے عوام چاہے جتنے متعصب ہوں لیکن روایتیں نہیں گڑھتے۔ پس یہ بالکل سچی روایت ہے جس کو آپ کے اکابر علما نےبھی نقل کیا ہے۔ آپ اپنے یہاں کی معتبر اور مشہور کتابیں دیکھئے تو خود ہی تصدیق کیجئے کہ آپ کے انصاف پسند اکابر علماء بھی ان حقائق کے معترف ہیں چنانچہ ابن ابی معتزلی نے شرح نہج البلاغہ جلد چہارم ص۸۰ مطبوعہ مصر میں، ابوبکر احمد بن عبدالعزیز جوہری سے نقل کرتے ہوئے علی (ع)وفاطمہ علیہما السلام کے احتجاج کے بعد ابوبکر کا منبر پر جانا اور اس امانت رسول(ص) کی اہانتیں کرنا تفصیل سے درج کیا ہے

ابوبکر سے علی(ع) کا احتجاج
اس کے علاوہ دوسروں نے بھی لکھا ہے کہ جب جناب فاطمہ سلام اللہعلیہا نےاپنا خطبہ تمام کیا تو علی علیہ السلام نے احتجاج شروع کیا، مسجد کے اندر مہاجرین و انصار اور مسلمانوں کے عام مجمع میں ابوبکر کی طرف رخ کر کے فرمایا کہ تم نے فاطمہ (ع) کو ان کے باپ کی میراث سے کیوں محروم کیا، در آنحالیکہ وارثت کے علاوہ وہ اپنے باپ کی زندگی ہی میں اس کی مالک اور متصرف تھیں؟ ابوبکر نے کہا فدک مسلمانوں کا مال غنیمت ہے۔ اگر فاطمہ(ع) مکمل شہادت پیش کریں کہ یہ ان کی ملکیت ہے تو میں ضرور ان کو دے دوں گا ورنہ محروم کردوں گا۔

حضرت نے فرمایا :
"أَتَحْكُمُ‏ فِينَابِخِلَافِ حُكْمِ اللَّهِ فِي الْمُسْلِمِينَ؟"
( یعنی آیا تم مسلمانوں کے درمیان جو کچھ حکم دیتے ہو ہمارے بارے میں اس کے خلاف حکم لگاتے ہو؟

کیا رسول خدا(ص) نے نہیں فرمایا ہے کہ
"الْبَيِّنَةُعَلَى‏ مَنِ‏ ادَّعَى‏ وَالْيَمِينُ عَلَى مَنِ ادُّعِيَ عَلَيْهِ."
( یعنی ثبوت اور گواہ مدعی کے ذمے ہے اور قسم مدعا علیہ کے ذمے ؟ تم نے قول رسول(ص) کو رد کر دیا اور دستور شرع کے برخلاف فاطمہ(ع) سے گواہ طلب کرتے ہو پیغمبر(ص) کے زمانے سے اب تک اس پر متصرف رہیں۔ کیا فاطمہ(ع) کو قول و فعل ( جو اصحاب کساء کی ایک فرد اور آیہ تطہیر میںشامل ہیں) حق نہیں ہے؟

"أخبرنا لو انّ شاهدين شهداعلى‏ فاطمةبفاحشةماكنت صانعة بها؟قال أقيم عليهاالحدّكسائرالنساء قال عليه السلام كنت اذاًعنداللّه من الكافرين لانّك رددت شهادةاللّه لهابالطّهارةإِنَّمايُرِيدُاللَّه لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَالْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً"

یعنی مجھے بتائو کہ اگر دو گواہ گواہی دے دیں کہ ( معاذ اللہ( فاطمہ(ع) سے کوئی بدکاری سرزد ہوئی ہے تو تم ان سے کیا برتائو کرو گے؟

ابوبکر نے کہا کہ دوسری عورتوں کی طرح ان پر بھی حد جاری کروں گا۔حضرت نے فرمایا کہ اگر تم ایسا کرو تو خدا کے نزدیک کافر قرار پائو گے کیونکہ تم نے طہارت فاطمہ(ع) کے بارے میں اللہ کی گواہی کو جھٹلا دیا جیسا کہ اس کا ارشاد ہے کہ سوا اس کے نہیں ہے کہ خدا یہ ارادہ رکھتا ہے کہ اے اہل بیت(ع) تم سے ہر گندگی کو دور رکھے اور تم کو اس طرح سے پاک و پاکیزہ جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔

کیا یہ آیت ہمارے حق میں نازل نہیں ہوئی ہے؟

کہا کیوں نہیں، حضرت نے فرمایا کہ آیا فاطمہ(ع) جنکی طہارت پر خدا نے شہادت دی ہے دنیا کی ایک حقیر جائداد کے لیے جھوٹا دعوی کرسکتی ہیں؟ تم طاہرہ کی شہادت تو رد کرتے ہ

و"وقبلت شهادةاعرابيّ بائل على عقبه"

اور اس اعرابی کی شہادت قبول کر لیتے ہو۔ جو اپنے پائوں کی ایڑی پر پیشاب کرتا ہے؟

حضرت یہ جملے ارشاد فرما کر جھنجھلائے ہوئے اپنے گھر تشریف لے گئے اس احتجاج سے لوگوں میں ایک عجیب ہنگامہ برپا

ہوگیا ہر شخص یہی کہتا تھا کہ حق علی(ع) و فاطمہ(ع) کےساتھ ہے خدا کی قسم علی(ع) سچ کہتے ہیں۔ آخر رسول(ص) کی بیٹی سے یہ کیسا سلوک کیا جارہا ہے۔

بالائے منبر ابوبکر کی بدکلامی اور علی(ع) و فاطمہ(ع) کو گالی دینا
اسی موقع پر ابن ابی الحدید نقل کرتے ہیں کہ جب علی(ع) و فاطمہ(ع) کے احتجاج سے لوگ متاثر ہوئے اور شور کرنے لگے تو ان دونوں حضرات کے چلے جانے کے بعد ابوبکر منبر پر گئے اور کہا ایہا الناس تم نے یہکیا شور وغل مچا رکھا ہے اور ہر ایک کی بات پر کان دھرتے ہو؟ چونکہ میں ان کی شہادت رد کر دی ہے اس لیے وہ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں۔

"إنماهوثعالةشهيده‏ذنبه(۱) مرب لكل فتنة هوالذي يقول كروهاجذعةبعدماهرمت يستعينون بالضعفةويستنصرون بالنساءكأمطحال أحب أهلهاإليهاالبغي"

یعنی سوا اس کے نہیں ہے کہ وہ علی(ع) ایک لومڑی ہے جس کی گواہ اس کی دم ہے ہر طرح کے فتنے برپا کرتا ہے۔ بڑے بڑے فتنوں کا ہلکا کر کے بیان کرتا ہے اور لوگوں کو فتنہ و فساد پر آمادہ کرتا ہے کمزوروں سے کمک چاہتا ہے اور عورتوں سے مدد چاہتا ہے وہ ام طحال کے مانند ہے جس سے اس کے گھر والے زنا کرنے کے شائق تھے۔

آپ حضرات فحش اور اہانت کے لفظ سے تعجب کرتے ہیں تو کیا یہ دشنام اور اہانت کے الفاظ نہیں تھے؟

کیا لومڑی کی دم او زنا کار عورت ام طحال سے علی(ع) و فاطمہ(ع) کو نسبت دینا ہی وہ تعریف و احترام ، محبت و نصرت اور ہمدردی تھی جس کی پیغمبر(ص) ہدایت فرمائی تھی؟

حضرات اس حسن ظن اور تعصب میں کب تک غرق رہیئے گا ؟ بیچارے شیعوں سے کب تک بدگمانی کیجئے گا اور ان کو محض اس جرم میں کب تک رافضی و کافر کہتے رہیئے گا کہ وہ ان اشخاص کے ایسے اقوال و افعال پر نکتہ چینی کیوں کرتے ہیں جو خود آپ کی کتابوں میں درج ہیں۔

منصفانہ فیصلہ ضروری ہے

آخر آپ حق و اںصاف کی آنکھیں کیوں نہیں کھولتے تاکہ حقیقت نطر آئے؟ آیا رسول اللہ(ص) کے بوڑھے مصاحب کی یہ حرکت اور غیر مہذب گفتگو مناسب اور جائز تھی؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ دوسری کتابوں میں ہے کہ کہا :
إنماهوثعالةشهيده‏ ذنبها
 یعنی معاذ اللہ فاطمہ سلام اللہ علیہا  ایسی لومڑی ہیں جس کی گواہ اس کی دمہے (یعنی معاذ اللہ علی علیہ السلام)
اگر کوئی بازاری اور حقیر آدمی کسی کو گالی دے تو اس میں اور اس بوڑھے انسان میں فرق ہے جو رات دن مسجد میں موجود رہتا ہے اور ذکر وعبادت میں دلچسپی دکھاتا ہو پھر بھی ایسے الفاظ منہ سے نکالے۔

معاویہ ، مروان اور خالد جیسے لوگوں کی زبان سے زشت و بیہودہ کلمات فحش گوئی ، دشنام طرازی اور رکیک اتہامات دل کو اتنی زیادہ تکلیف نہیں پہنچاتے جس طرح رسول اللہ(ص) کے مصاحب غار کے منہ سے۔

حضرات ہم اس زمانے میں موجود نہیں تھے صرف علی(ع) ابوبکر، عمر ، عثمان ، طلحہ، زبیر، معاویہ، مروان، خالد اور ابو ہریرہ وغیرہ کے نام سنتے ہیں لہذا ان میں سے کسی کے ساتھ ہماری دوستی یا دشمنی نہیں ہے۔ ہم تو صرف دو چیزیں دیکھتے ہیں ایک یہ کہ خدا و رسول(ص) ان میں سے کس کو دوست رکھتے تھے اورکس لیے سفارشاور وصیت فرمائی ہے؟ دوسرے ان کے اعمال و اقوال اور رفتار و گفتار کا جائزہ لیتے ہیں ، اس کے بعد انصاف کے ساتھ حق فیصلہ کرتے ہیں۔ ہم آپ حضرات کی طرح فورا یقین نہیں کرلیتے اور خواہ مخواہ سر نہیں جھکاتے۔ ہم سے یہ نہیں ہوسکتا کہ محض حسن ظن کی بنا پر آنکھیں بند کر کے ہرکس و ناکس کے برے عمل کو بھی نیکی پر محمول کریں، اس کی تعظیم و تکریم فرض سمجھیں اور اس کے ناجائز حرکات کی بے موقع صفائی پیش کریں۔

انسان جس وقت آںکھوں پر سفید عینک لگاتا ہے تو اس کو ہررنگ اپنی اصلی حالت پر نظر آتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ اگر اس کو سفید رنگ مطلوب ہے تو سیاہ زرد اور سرخ رنگ بھی سفید نظر آئیں۔ لہذا اگر آپ حضرات بھی اپنی دوستی اور دشمنی سے الگ ہوکر انصاف کی سفید اور نورانی عینک لگائیں تو اچھا اور برے کو برا دیکھیں۔ اور تصدیق کریں گے کہ ابوبکر جیسے آدمی کے لیے ایسا قول و فعل انتہائی مذموم ہے ۔ جو شخص اپنے کو مسلمانوں کا خلیفہ سمجھے اور ایک مدت تک رسول اللہ(ص) کی صحبت میں بیٹھ چکا ہو وہ جاہ و اقتدار کی محبت میں اور شان حکومت کو محفوظ رکھنے کے لیے ایسے رکیک جملے اور انتہائی قبیح گالیاں زبان پر جاری کرنے کے لیے تیار ہوجائے، اور وہ بھی خدا و رسول(ص) کی دو محبوب ہستیوں کی شان میں؟

ابوبکر کی باتوں پر ابن ابی الحدید کا تعجب

اس برتائو پر صرف ہمیں کو تعجب نہیں ہے بلکہ آپ کے انصاف پسند علماء کو بھی حیرت ہوتی ہے، چنانچہ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد چہارم ص۸۰ میں لکھا ہے کہ خلیفہ کی اس گفتگو سے مجھ کو تعجب ہوا اور میں نے اپنے استاد ابو یحیی نقیب جعفر بن یحیی بن ابی زید البصری سے دریافت کیا کہ ان کلمات میں خلیفہ کا کنایہ اور تعریض کا رخ کس کی طرف تھا؟ انہوں نے کہا کہ کنایہ اور تعریض نہیں تھی بلکہ صراحت کے ساتھ کہا گیا ہے میں نے کہا کہ اگر صراحت ہوتی تو میں سوال ہی نہ کرتا :

"فضحك وقال بعلي بن أبيطالب عقلت هذاالكلام‏ كله‏ لعلي‏ يقوله قال نعم إنه الملكي ابني"

یعنی وہ ہنس پڑے اورکہا کہ یہ باتیں علی علیہ السلام کو کہی گئیں میں نے کہا کیا یہ سارے الفاظ علی علیہ السلام کے لیےاستعمال کئے گئے؟ انہوں نے کہا ہاں اے فرزند سلطنت اسی کو کہتے ہیں۔( یعنی جاہ طلب لوگ اپنا مطلب حاصل کرنے کے لیے ایسے عمل سے بھی دریغ نہیں کرتے)

صاحبان انصاف!
عبرت حاصل کیجئے اور منصفانہ فیصلہ کیجئے کہ اگر کوئی شخص آپ کے ماں باپ کے لیے ایسی جسارت و اہانت کرے اور ان کو لومڑی، لومڑی کی دم اور زنا کار عورت سے مثال دے تو کیا آپ کا دل اس سے صاف ہوسکتا ہے؟ کیا یہی انصاف ہے کہ اگر ہم اس پر گرفت کریں تو آپ اعتراض کے لیے تیار ہوجائیں ؟ پھر بھی ہمارا ایمان مانع ہے کہ جتنا واقعہ ہوا ہے اور جس کی خود آپ کے اکابر علماء نے تصدیق کی ہے اس سے زیادہ نہ کہیں اور نہ لکھیں۔

اگر اس مجمع کے سامنے کوئی شخص کہے کہ حافظ صاحب لومڑی ہیں شیخ صاحب اس کی دم ہیں اور فاحشہ عورت کی طرح جلسے میں گفتگو کرتے ہیں تو آپ کو کس قدر ناگوار ہوگا؟

حضرات آنکھیں بند نہ کیجئے بلکہ دیدہ اںصاف سے مسجد رسول(ص) پر نظر ڈالئے کہ ایک بوڑھا شخص پیغمبر(ص) کا یار غار بعنوان خلافت منبر رسول(ص) کے اوپر مہاجرین و اںصار کے سامنے کہتا ہے کہ علی بن ابی طالب علیہ السلام(معاذ اللہ) لومڑی ہیں، فاطمہ(ع) اس کی دم ہیں( یا دوسری روایتوں کی بنا پر اس کے برعکس اور یہ ( نعوذ باللہ) زن زانیہ و فاحشہ کے مانند لوگوں کے درمیان حرکتیں کرتے ہیں تو اس وقت ہمارے مولا و آقاامیرالمومنین اور ہماری جدہ مظلومہ زہرا صلوات اللہ علیہا پر اس مجمع کے سامنے کیا گذری؟ خدا جانتا ہے کہ اس وقت میرا بند بند کانپ رہا ہے، اور آپ دیکھ رہےہیں کہ لزرتے ہوئے آنسوئوں کے ساتھ میں آپ سے گفتگو کر رہا ہوں۔ اب اس بارے میں اس سے زیادہ کچھ کہنے کی طاقت نہیں رکھتا ورنہ ہمارا درد دل بہت ہے۔ع

ایں زماں بگذارتا وقت دگر

آیا رسول اللہ(ص) کی مسند پر بیٹھنے والے اور مصاحب کے لیے سزاوار تھا کہ مطالبہ حق اور صحیح و معقول باتوں کے جواب میں گالیاں دے اور رکیک الفاظ سے حقیقی مومنین کی اور امت کے درمیان آں حضرت کی امانتوں کی توہین کرے۔ ظاہر ہے کہ فحش کہنا عاجزی کا حربہ ہے جس کے پاس صحیح جواب نہیں ہوتا ہے وہ اپنے حریف کو بدزبانی سے مغلوب کرتا ہے۔ پھر یہ سب حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ کیا گیا جن کے لیے آپ کے تمام علماء نے اپنی معتبر کتابوں میں لکھا ہے کہ رسول اکرم(ص) نے آپ کے بارے میں فرمایا "علی مع الحق والحق مع علی حيث دار " ( یعنی علی(ع) حق کے ساتھ ہیں اور حق علی(ع) کے ساتھ گردش کرتا ہے) دشنام دینے کے بعد آپ کی طرف فتنہ انگیزی نسبت بھی دی گئی اور آپ کو سارے فساد کا بانی بتایا گیا۔

علی(ع) کو ایذا دینا پیغمبر(ص) کو ایذا دینا ہے

کیا علی(ع) وفاطمہ علیہما السلام کے بارے میں پیغمبر(ص) کی ان سفارشوں کا یہی نتیجہ تھا جن کو آپ کے سارے علماء نے اپنی معتبر کتابوں میں درج کیا ہے؟ یعنی آں حضرت(ص) نے ان دونوں حضرات کے لیے علیحدہ علیحدہ فرمایا کہ ان کو اذیت دینا مجھ کو اذیت دینا ہے۔ ان ارشادات کا خلاصہ یہ ہوتا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا
"من اذاهما فقد آذانی و من آذانی فقد اذی الله "
( یعنی جس شخص نے ان دونوں (علی و فاطمہ(ع)) کو تکلیف پہنچائی اس نے مجھ کو تکلیف پہنچائی اور جس نے مجھ کو آزار دیا اس نے خدا کو آزار دیا۔

نیز فرمایا

من آذی عليا فقد اذانی

( یعنی جس نے علی(ع) کو اذیت دی اس نے مجھ کو اذیت دی۔)

علی(ع) کو دشنام دینا پیغمبر(ص) کو دشنام دینا ہے

اور ان سب سے بالاتر آپ کی معتبر کتابوں میں درج ہے کہ آں حضرت(ص) نے فرمایا "من سب عليا فقد سبنی و من سبنی فقد سب الله " یعنی جس نے علی(ع) کو دشنام دیا اس نے در اصل مجھ کو دشنام دیا اور جس نے مجھ کو دشنام دیا اس نے درحقیقت خدا کو دشنام دیا)

اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب۱۰ کے شروع میں ابن عباس سے ایک مفصل حدیث نقل کی ے کہ انہوں نے شام والوں کو ایک جماعت کے سامنے جو علی(ع) کو سب و طعن کرتے تھے کہا کہ میں نے حدیث رسول خدا(ص) کو علی علیہ السلام کے متعلق ارشاد فرماتے ہوئے سنا "من سبک فقد سبنی و من سبنی فقد سب الله و من سب الله ابنه الله علی مفخزيه فی النار " ( یعنی جو شخص تم کو گالیدے خدا اس کو منہ کےبل جہنم میں جھونک دے گا۔

اس حدیث کے بعد اور بھی مسند احادیث نقل کرتے ہیں جو سب کی سب ان لوگوں کے کفر پر دلالت کرتی ہیں جو علی (ع) کو دشنام دیں۔ چنانچہ دسویں باب کا عنوان ہیاس عبارت سے قائم کیا ہے کہ "الباب العاشر فی کفر من سبعليا "( یعنی دسواں باب اس شخص کے کفر میں جو علی(ع) کو دشنام دے)

نیز حاکم نے مستدرک جلد سوم ص۱۲۱ میں آخری جملے کے علاوہ یہی حدیث نقل کی ہے پس ان حدیثوں کے مطابق علی علیہ السلام کو سب وشتم کرنے والے خدا و رسول(ص) کو سب و شتم کرنے والے ہیں اور خدا و رسول(ص) کو سب و شتم کرنے والے ہیں۔

جیسے فرزندان ابی سفیان دیگر بنی امیہ خوارج اور نواصب وغیرہ، ملعون اور جنہمی ہیں۔ بس اس قدر کافی ہے۔ قیامت چاہے دیر میں آئے لیکن آئے گی ضرور چونکہ ہماری جدہ مظلومہ(ع) نے سکوت اختیار کیا اور اس کی داد رسی روز قیامت محکمہ عدالت دالہیہ پر اٹھا رکھی لہذا ہم بھی سکوت اختیار کر کے آپ کی معتمد علیہ حدیث کو رد کرنے والے دلائل کی طرف رجوع کرتے ہیں۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک