کیا حور العین اور بہشت کی نعمتیں کی لذتیں صرف مردوں کے لئے ہیں
- شائع
-
- مؤلف:
- شیخ حسین انصاریان سےپوچھے گئے سوال کے جواب-ترجمہ: یوسف حسین عاقلی
- ذرائع:
- ماخوذ از: پایگاه فکر و فرهنگ مبلغ
نوجوانوں کی جانب سے شیخ حسین انصاریان سےپوچھے گئے سوال کے جواب پیش خدمت ہے:
ترجمہ: یوسف حسین عاقلی
سوال
کیا حور العین اور بہشت کی نعمتیں کی لذتیں صرف مردوں کے لئے ہیں؟
بہشت میں جو دل چاہتا ہے اور آنکھوں کو لذت دیتا ہے سب موجود ہونگےاور ہمیشہ اس میں رہو گے (سورہ زخرف، آیت 71 کی تفسیر)، اور اس معاملے میں بہشتی کے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے، ان میں سے ہر ایک کو انواع و اقسام کی لذت چاہیے وہ اسے ملے گی۔
1۔ بہشت کی تمام نعمتیں جو اللہ تعالی نے اس کے اہل کے لئے تیار کی ہیں وہ بہشت کے مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے ہیں۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:
وَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ نَقِيرًا ﴿سورة النساء:۱۲۴﴾
"اور جو نیک اعمال بجا لائے خواہ مرد ہو یا عورت اور وہ مؤمن ہو تو(سب) جنت میں داخل ہوں گے اور ان پر ذرہ برابر ظلم نہیں کیا جائے گا"۔
(عمل صالح کی جزا پانے میں مرد و زن میں کوئی امتیاز نہیں ہے، البتہ ایمان شرط ہے۔ کیونکہ عمل صالح بجا لانے والا اگر مؤمن نہیں ہے تو اس کے عمل میں حسن نہیں آ سکتا، کیونکہ غیر مؤمن میں حسن فاعلی نہیں ہے۔)
اور جو لوگ مرد یا عورت ہوں اور اچھے کام انجام دیں، جبکہ وہ ایمان والے ہوں، تو یہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے، اور انہیں کھجور کے گڑھے جتنا بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔
مرد اور عورت دونوں اللہ تعالی کی نعمتوں کے سلسلے میں متعدد غرائز اور رجحانات ومیل رکھتے ہیں اور یہ غرائز اور رجحانات بہشت میں مکمل طور پر جائز طریقے سے پورا کیے جاتے ہیں۔ اور جنسی غریضہ بھی انہی غرائز میں سے ایک ہے جسے اللہ تعالی نے مؤمنین کےلئے دنیا میں تقویٰ ،ایمان اور عمل صالح کرنے کے بدلے میں قیامت میں بہترین اور احسن طریقے سے پورا کیا ہے۔ اور اگر آپ دیکھتے ہیں کہ قرآن میں عورتوں کے لئے صراحتاً ایسےمسائل غرائز اور شہوانی فطرت اور جذباتی معاملات کا ذکر نہیں کیا ہےتو یہ عورت کی حیا ،کرامت،عفت، عزت اور بلند مرتبہ شخصیت کی وجہ سے ہے۔
اور جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالی کو قرآن کریم میں عورتوں کو صراحتاً ایسے جنسی اور جذباتی معاملات کی امید دینی چاہیے وہ دراصل عورت کی عزت و توقیر، عورتوں کے مقام ومرتبہ اور قیمت و ارزش کو کم کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔
یہی اللہ تعالی کی کرامات میں سے ہے جس نے قرآن کی سب سے بڑی سورتوں میں سے ایک کو"سورہ نساء "(عورتیں) کے نام سے نازل کیا ہے جبکہ قرآن کریم میں "سورہ رجال "کے نام سے کوئی سورہ موجودنہیں ہے۔
اور قرآن کی آیات جو عورتوں کو مخاطب کرتی ہیں اور عورتوں کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں وہ ان آیات سے کہیں زیادہ مراتب میں اہم ہیں جو مردوں کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں۔
۲-"روایات میں اس طرح آیا ہے کہ قیامت کے دن اگر کوئی مؤمن عورت کا شوہر، اہل بہشت میں ہو تو وہ اسے اپنی مرضی سے قبول کر لے گا اور اگر عورت کا شوہر، دوزخ میں ہو تو وہ بہشت کے مردوں میں سے کسی کو اپنا شوہر منتخب کر سکتی ہے۔
شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ بہشت کی عورتیں چاہے وہ حوریں ہوں یا دنیا سے بہشت میں داخل والی عورتیں ایک ہی شوہر رکھتی ہوں، کیونکہ ایک عورت کے کئی شوہر ہونا مرد کی فطرت کے ساتھ ساتھ عورت کی طبیعت اورفطرت کے بھی خلاف ہے۔
لیکن کچھ دوسرے مفسرین اس کے مقابلے میں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ "حورالعین" مذکر بھی ہو سکتی ہے۔ اس رائے کے مطابق، قرآن میں "حورالعین" کی صفات جو مذکر کے بجائے مؤنث کے طور پر بیان کی گئی ہیں، اس لئے ہیں کہ ان آیات میں گفتگو ایمان والے مردوں کے بارے میں ہو رہی ہے نہ کہ دنیاوی ایمان والی عورتوں کے بارے میں۔ اس لئے محاورے کا اندازِ گفتگو یہ تقاضا کرتا تھا کہ جنت کی عورتوں کے اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔
لیکن یہ بات ذہن میں رکھنی اور سمجھنی چاہیے کہ جب ہم آیات، روایات اور متعلقہ تفاسیر کا مطالعہ کرتے ہیں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قیامت کے دن بہشتی خواتین (حورالعین) کے ساتھ مومن مردوں کے ہمراہ ہوں گی۔ اور ایمان والی عورتیں اپنے ایمان والے شوہروں کے ساتھ بہشت میں جائیں گی:
" ادْخُلُوا الْجَنَّةَ أَنْتُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ تُحْبَرُونَ ﴿الذخرف:۷۰﴾ "
(انہیں مخاطب کیا جاتا ہے:) "(انہیں حکم ملے گا) تم اور تمہاری ازواج خوشی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ۔!"
اور" ازواج" سے مراد وہ ایمان والی عورتیں ہیں جو دنیا میں تھیں اور اپنےایماندارمؤمن اور مہربان شوہروں کے ساتھ رہنا مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے باعث لذت اور خوشی کی بات ہے۔
"هُمۡ وَأَزۡوَٰجُهُمۡ فِي ظِلَٰلٍ عَلَى ٱلۡأَرَآئِكِ مُتَّكِـُٔونَ﴿یسن:۷۰﴾ "
وہ اور ان کی ازواج سایوں میں مسندوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے۔
وہ اور ان کی بیویاں (محلوں اور جنت کے درختوں) کے سائے میں تختوں پر تکئے لگائے بیٹھے ہیں۔ اور وہ آیات جن میں صالح بیویوں کو بہشت میں جانے کی خوشخبری دی گئی ہے اور نیک بیویوں کے جنت میں داخل ہونے کا وعدہ کرتی ہیں۔۔ مثلاً:
"رَبَّنَا وَأَدْخِلْهُمْ جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِي وَعَدْتَهُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿غافر:۸﴾"
ہمارے رب! انہیں ہمیشہ رہنے والی جنتوں میں داخل فرما جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے اور ان کے باپ دادا اور ان کی ازواج اور ان کی اولاد میں سے جو نیک ہوں انہیں بھی، تو یقینا بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔
( ان آیات میں حاملین عرش کی دعا کے مضامین کا ذکر ہے کہ وہ مغفرت، عذاب جہنم سے نجات، اور جنت عدن میں داخل ہونے کے لیے دعا کرتے ہیں نیز مومنین کے نیک آبا و اجداد، ازواج اور اولاد کے لیے بھی دعا کرتے ہیں۔ یعنی اگر کسی مومن کا درجہ ایمان بلند ہو اور اس کے باپ، دادا، ازواج اور اولاد صالح ہوں، لیکن ایمان کے اس درجہ پر فائز نہ ہوں تو فرشتے ان کی بھی مغفرت کے لیے دعا کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا نیک اور صالح لوگوں کو نسب بھی فائدہ دیتا ہے(بلاغ القرآں)) ۔
"جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَالْمَلَائِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِنْ كُلِّ بَابٍ ﴿الرعد:۲۳﴾ "
(یعنی) ایسی دائمی جنتیں ہیں جن میں وہ خود بھی داخل ہوں گے اور ان کے آبا اور ان کی بیویوں اور اولاد میں سے جو نیک ہوں گے وہ بھی اور فرشتے ہر دروازے سے ان کے پاس آئیں گے۔
(یعنی) وہ بہشت وں میں داخل ہوں گے اور ان کے والدین اور بیویاں اور اولاد میں سے جو عمل صالح کرنے والے ہیں اور فرشتے ہر دروازے سے داخل ہوں گے۔
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ جو عورتیں اور مرد دنیا میں شوہر و بیوی تھے اگر دونوں ایماندار اور بہشت والے ہوں تو وہاں وہ آپس میں مل جائیں گے اور بہترین حالات میں خوشی کی زندگی گزاریں گے۔
روایات سے پتہ چلتا ہے کہ ان عورتوں کا مقام بہشت کےحوریوں سے بہتر ہے؛ کیونکہ انہوں نے دنیا میں عبادات اور نیک اعمال کیے ہیں ، لہذا جنت کی خوشیاں صرف مردوں کے لئے مخصوص نہیں ہیں، بلکہ جو کوئی بہشت میں جائے گا وہ نعمتوں اور خوبصورتیوں سے لطف اندوز ہوگا۔
جیسا کہ قرآن میں آیا ہے:
"يُطَافُ عَلَيْهِمْ بِصِحَافٍ مِنْ ذَهَبٍ وَأَكْوَابٍ وَفِيهَا مَا تَشْتَهِيهِ الْأَنْفُسُ وَتَلَذُّ الْأَعْيُنُ وَأَنْتُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿ الزخرف:۷۱﴾ "
ان کے سامنے سونے کے تھال اور جام پھرائے جائیں گے اور اس میں ہر وہ چیز موجود ہو گی جس کی نفس خواہش کرے اور جس سے نگاہیں لذت حاصل کریں اور تم اس میں ہمیشہ رہوگے۔
( جس طرح ایک جنین کے لیے عالم دنیا اور اس کی چیزیں قابل فہم نہیں ہیں اسی طرح دنیا والوں کے لیے عالم آخرت اور اس کی چیزیں قابل فہم نہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ دنیا کی چیزوں کا ذکر کر کے فرماتا ہے کہ جنت میں باغات، نہریں، حوریں اور میوے ہوں گے۔ کیونکہ عالم دنیا کا انسان صرف انہی چیزوں کو سمجھ سکتا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہے جیسے اللہ اپنی قدرت کو ہاتھ سے تعبیر کرتا ہے کیونکہ انسان کے لیے مانوس تعبیر یہی ہے۔ اس آیت میں جنت کی نعمتوں کی جامع تعریف موجود ہے۔
تَشْتَهِيهِ الْأَنْفُسُ:
جس کی نفس خواہش کرے۔ جو بھی انسانی نفس کے دائرے میں آئے، وہ موجود ہو گا۔ خواہ اس کا تعلق لذتوں سے ہو یا آوازوں یا خوشبوؤں یا دیگر محسوسات سے ہو یا ان کی کیفیت سے ہو۔ اگر یہ خواہش ہو کہ جنت کی لذتوں میں تکرار نہ ہو، ہر مرتبہ نئی لذت ہو تو بھی میسر ہو گی۔
وَتَلَذُّ الْأَعْيُنُ:
نگاہیں لذت حاصل کریں۔ اس میں بصری نعمتوں کا ذکر آیا۔ اس میں سرفہرست جمالیات ہیں۔ خوبصورت چہرے، حسین مناظر، زیب و زینت کی چیزیں۔ ان دو لفظوں میں قابل تصور تمام نعمتوں کی ایک جامع تعریف آ گئی، تاہم عالم جنت میں انسانی خواہشات اور جمالیات ہمارے لیے قابل فہم نہیں ہیں۔ اشتہا اور لذت کی تعبیر انسان کو کسی حد تک مطلب کے نزدیک کر دیتی ہے۔)(بلاغ القرآں)