حضرت فاطمہ زھرا (سلام اللہ علیھا)کے خطبہ کے آثار
- شائع
-
- مؤلف:
- اقبال حیدرحیدری
- ذرائع:
- ماخوذ از کتاب: خطبات حضرت فاطمہ زھرا (سلام اللہ علیھا)
حضرت فاطمہ زھرا (سلام اللہ علیھا)کے خطبہ کے آثار
آپ کے اس خطبہ کا اثرلوگوں پر خاص طور سے انصارپر بھت ہوا، کیونکہ یہ خطبہ واقعیت اور صداقت پر مبنی تھا اور اس خطبہ میں قرآن کریم اور سنت نبوی سے دلائل پیش کئے گئے تھے کہ حضرت پر کیا کیا ظلم وستم ہوئے، اس خطبہ میں حضرت علی علیہ السلام کی فضیلت بیان کی گئی اور باقاعدہ دلیلوں کے ذریعہ یہ ثابت کیا گیا کہ آپ ہی خلافت رسول کے حقدار تھے، اور جس وقت انصار پر اس خطبہ کا اثر ہوا تو حضرت علی کا نام لے لےکر چلانا شروع کیا، چنانچہ یہ دیکھ کر اہل سقیفہ نے خطرہ کا احساس کیا اور ابوبکر نے نماز جامعہ کی طرف بلایا جس پر سب دوڑے ہوئے چلے گئے۔
جوھری نے جعفر بن محمد بن عمارہ سے متعدد طریقوںسے روایت کرتے ہوئے کہا : جب جناب ابوبکر نے حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کا خطبہ سنا تو اس پر بھت گراں گزرا، چنانچہ منبر پر جاکر اس طرح لوگوں سے خطاب کیا :
اٴلا من سمع فلیقل، ومن شهد فلیتکلم، انما هو ثُعالة شهیده ذنبه، مربّ لکلِّ فتنةٍ، هوالذی یقول: کرّوهاً جذعةً بعد ما هرمت، یستعینون بالضعفة، و یستنصرون بالنساء، کاٴُمِّ طحال اٴحب اٴهلها الیها البغي !!!
اٴلا انی لواٴشاء ان اٴقول لقلت، ولوقلت لبحت، وانی ساکت ماتُرکت
ثم التفت الی الاٴنصار فقال: قد بلغنی یا معشر الاٴنصار مقالة سفهائکم، فو الله ان اٴحق الناس بلزوم عهدرسول الله اٴنتم، فقد جاء کم فآویتم ونصرتم، واٴنتم الیوم احق من لزم عهده، ومع ذلک فاغدوا علیٰ اٴُعطیاتکم، فانی لست کاشفاً قناعاً، ولا باسطاً ذراعاً ولا لساناً الّا علی من استحق ذلک، والسلام
ثم نزل، فانصرفت فاطمة علیها السلام الیٰ منزلها( دلائل الامامة ۱۲۳، شرح ابن ابی الحدید ج۱۶ ص ۲۱۵)
”یہ سب کچھ جو تم لوگوں نے سنا ، اور چونکہ ہربات کا ایک مقصد ہوتا ہے، اور یہ بات زمانہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں کھاں تھی؟ پس جس نے بھی سنا ہو وہ بتائے اور جس نے بھی دیکھا ہو وہ گواھی دے، یہ سب کچھ مکروفریب ہے اور اس کا گواہ اس کا شوھر ہے، جو ہر فتنہ کی جڑ ہے، وہ یہ کھتے ہیں کہ یہ لوگ حق وحقیقت کو پانے کے بعد زمان جاہلیت کی طرف پلٹ گئے ، اور وہ بچوں (حسن وحسین(ع)) کے ذریعہ مدد لیتے ہیں اور عورتوں کے سھارے نصرت ومدد چاہتے ہیں جس طرح امّ طحال (زمان جاہلیت میں باغی اور سرکش عورت) سے اس کے اہل خانہ اس کی نازیبا حرکتوں سے خوش ہوتے ہیں۔!!
آگاہ رہو کہ اگر میں چاہتا تو کہتا، او راگر کہتا تو تم مبہوت ہوکر رہ جاتے، لیکن میں تو اس وقت ساکت بیٹھا ہوں۔
اس کے بعد انصار کی طرف متوجہ ہوکر کھا:
” اے گروہ انصار !
تم لوگوں میں سے بعض احمقوں کی گفتگومجھ تک پہونچی جو کھتے ہیں: ”ہم عھد رسول اللہ میں زیادہ حقدار تھے، کیونکہ ہم نے تم کو پناہ دی اور تمھاری نصرت کی، اور تم آج اپنے کو زیادہ حقدار سمجھتے ہو ، لیکن میں تمھاری باتوں کو چھوڑتا ہوں اور ان کا کوئی اثر نہیں لیتا، اور نہ ہی مجھے کسی چیز کا لالچ ہے، مگر یہ کہ جس چیز کا میں مستحق ہوں، والسلام“۔
اس کے بعد منبر سے اتر گیا۔
اس کی باتیں سن کر جناب فاطمہ وہاں سے اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگئیں۔
قال ابن اٴبی الحدید: قراٴت هذا الکلام علی النقیب اٴبی یحيٰ جعفر ابن یحيٰ بن اٴبی زید البصري، وقلت له:
”بمن یعرض“ ؟
فقال: ”بل یصرّح“
قلت: ”لو صرّح لم اٴساٴلک“
فضحک وقال: ”بعلی بن اٴبی طالب علیه السلام“
قلت: ”هذا الکلام کلّه لعلی یقوله“!!
قال: ”نعم انّه الملک یا بني
قلت: ”فما مقالة الاٴنصار؟
قال: ”هتفوا بذکر علی علیه ا لسلام، فخاف من اضطراب الاٴمر علیهم، فنهاهم( شرح ابن ابی الحدید جلد ۱۶، ص۲۱۵)
ابن ابی الحدید کہتے ہیں:
” حضرت ابوبکرکی اس گفتگو کو میں نے استاد ابو یحیٰ جعفر بن یحیٰ بن ابی زید بصری کے سامنے پڑھا اور سوال کیا کہ اس کلام میں کس کی طرف اشارہ ہے تو انھوں نے کہا کہ اشارہ نہیں ہے بلکہ واضح طور پر بیان ہے، ابن ابی الحدید نے کہا کہ اگر واضح ہوتا تو میں آپ سے کیوں سوال کرتا، یہ سن کر ابو جعفر مسکرائے اور کہا :
یہ سب کچھ حضرت علی(علیہ السلام) کی طرف اشارہ ہے، ابن ابی الحدید بھت تعجب سے کھتے ہیں کہ حضرت ابوبکر نے یہ سب کچھ حضرت علی علیہ السلام کی شان میں کہا ہے ۔
ابو جعفر نے کہا کہ جی ھاں یہ سب کچھ حضرت علی (ع) کی شان میں کہا کیونکہ وہ اس وقت کے خلیفہ اور بادشاہ تھے۔
اس کے بعد میں نے سوال کیا کہ انصار کی گفتگو کیا تھی؟ (جس کی بنا پر جناب ابوبکر نے کہا :
”تم میں سے بعض احمقوں کی باتیں مجھ تک پہونچی) ،تو ابوجعفر نے کہا انصار نے حضرت علی علیہ السلام کی حمایت میں آواز بلند کی (اور حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں رسول اللہ کی وصیت کو بیان کیا، یہ دیکھ کر جناب ابوبکر ڈرے اور اس کام سے روک دیا“)