امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

اسلام اور تشیع

1 ووٹ دیں 05.0 / 5

اسلام اور تشیع
مذکورہ بالا تمہید کو مدنظر رکھتے ہوئے اب ہم اسلام کے اندر تشیع  کی حیثیت کے بارے میں تحقیقی بحث کریں گے اور دیکھیں گے کہ کیا تشیع  ایک ایسا نظریہ  ہے  جو باہر سے آکر  اسلام  کے ساتھ چمٹ گیا ہو ؟

کیا تشیع ایسا اجنبی طرزِ فکر ہے جو اسلام سے بیگانہ ہو  یا یہ اسلام کے اندر سے پھوٹا ہے جو کسی صورت اسلام سے جدا نہیں  ہوسکتا ؟
یہ وہ موضوع ہے جس کے بارے میں  ہم اختصار کی روش اپناتے ہوئے واضح انداز میں اس طرح گفتگو کریں  گے جس میں کوئی  ابہام  نہ ہو  ۔ یہاں ہم پانچ  زایوں  سے اس موضوع  کا جائزہ لیں گے ۔
پہلا زاویہ : لفظ شیعہ کے لغوی اور اصطلاحی معنی
لغوی معنی :  لفظ شیعہ کے لغوی معنی ہیں:

ساتھ  جانے والا ،متابعت کرنے والا ۔صاحب قاموس نے اس معنی کی تائید  کرتے ہوئے کہا ہے:
کسی شخص کے شیعہ  سے مراد ہے : اس کی متابعت کرنے والے اور اس کے مددگار ۔( قاموس اللغۃ ،ج۲،ص ۲۴۶)
قرآن کریم  میں اللہ تعالیٰ کا یہ قول اسی معنی کا حامل ہے : 

وَإِنَّ مِن شِيعَتِهِ لَإِبْرَ‌ٰهِيمَ ۔ إِذْ جَآءَ رَبَّهُۥ بِقَلْبٍۢ سَلِيمٍ ۔( صافات/۸۳۔۸۴)
بے شک ابراہیم  اس (نوح) کے پیروکاروں میں سے ایک تھا جب وہ اپنے رب کی بارگاہ میں  قلب سلیم کے ساتھ حاضر ہوا ۔
یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اصول دین میں حضرت نوح علیہ السلام کی پیروی کی ۔ بالفظِ دیگر  اللہ کے دین پر سختی اور استقامت کے ساتھ کاربند رہنے اور جھوٹوں کے مقابلے میں صبر  کے ساتھ غالب آنے میں نوح علیہ السلام کی متابعت کی ۔( دیکھئے: زمخشری کی الکشاف ،ج۲،ص ۴۸۳)
اصطلاحی معنی
اصطلاحی زاویے سے لفظ شیعہ ان لوگوں  کے لئے اسم علَم یا اسم خاص کے طور پر  معروف اور رائج  ہے جو علی علیہ السلام  کی متابعت کرتے ہیں  ،آپ کے دوستدار ہیں  ،آپ کا ساتھ دیتے ہیں  اور آپ کی مدد کرتے ہیں ۔اس مفہوم کے دو پہلو ہیں :
الف ۔ یہ لفظ محبت ،مودت اور دوستداری کے معنوں  میں استعمال ہوتا ہے ۔یہ معنی وہ ہے جو اسلامی اور قرآنی نقطہ  نظر  سے تمام مسلمانوں  پر فرض  اور مطلوب و مستحسن ہے ۔قرآن  میں اللہ تعالیٰ کا صریح فرمان ہے :
 قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ۔( شوریٰ/۲۳)
کہئے :میں  اس (تبلیغ رسالت)  پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا سوائے (میرے )قریب ترین  رشتہ داروں کی محبت کے ۔
یہاں  ہم یہ سوال کریں گے کہ کیا علی ،فاطمہ ،حسن اور حسین علیہم السلام کے علاوہ کوئی اور ہے جو ان سے زیادہ رسول اللہ ﷺکا قریبی رشتہ دار ہو ؟
پس اہل بیت علیہم السلام  سے محبت ومودت برتنا اور ان کا دوستدار بننا جو تشیع کا حصہ ہیں  نصِّ قرآنی  کے مطابق  فرض ہیں جیساکہ  ہم ذکر کر چکے ہیں۔ بیضاوی نے پنی تفسیر میں کہا ہے: جب یہ آیت (آیت مودت) نازل ہوئی تو سوال کیا گیا : اے اللہ کے رسول ! آپ کے وہ رشتہ دار کون ہیں  جن کی محبت ہمارے  اوپر  واجب ہوگئی ہے؟ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم  نے فرمایا :
وہ علی ،فاطمہ اور ان دونوں کے دو بیٹے ہیں ۔( دیکھئے تفسیر بیضاوی ،ج۵،ص ۵۳،مطبوعہ الکتب العربیۃ الکبریٰ ،مصر، ۱۳۳۰ ھ)
ب ۔لفظ شیعہ کے ایک معنی وہ لوگ ہیں جو اہلبیت علیہم السلام کی متابعت کریں  اور ان کے ساتھ چلیں  نیز ان کے فرمودات اور ان کی تعلیمات پر عمل کریں  ۔یہ بھی اسلام کی نظر میں فرض ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے تمام مسلمانوں پر واجب  قرار دیا ہے اور انہیں  اس کا پابند قرار دیا ہے جیساکہ معروف  و مشہور  حدیث سفینہ میں مذکور ہے :
مَثَلُ أهلِ بَيتي فيكُم كمَثَلِ سَفينَةِ نُوحٍ ، فمِن قَومِ نُوحٍ مَن رَكِبَ فيها نَجا و مَن تَخَلّفَ عَنها هَلَكَ ،
 (اس حدیث کو حاکم  نے المستدرک ،ج۳،ص ۱۵۱ میں نقل کیا ہے نیز الخطیب نے اپنی تاریخ ،ج۱۲،ص ۹۱ میں ذکر کیا ہے ۔یہ حدیث حضرت ابوذر ،انس ،ابن عباس ،ابوسعیدخدری  اور ابن زبیر وغیرہ سے مروی ہے ۔دیکھیے الغدیر ۲/۳۰۱)
تمہارے درمیان میرے اہلبیت(ع) کی مثال نوح کی کشتی کی طرح ہے ۔جو اس میں  سوار ہوجائے وہ نجات پائے گا اور جو  اس سے  پیچھے رہ جائے وہ نیچے کی جانب گرے گا اور غرق ہوجائے گا ۔
یہ حدیث تمام اسلامی فرقوں کے درمیان متفق علیہ ہے ۔اس حدیث نے تمام مسلمانوں پر لازم قرار دیا ہے کہ وہ اہل بیت  کے اقوال اور ان کی تعلیمات سے متمسک رہیں تاکہ وہ گمراہی اور انحراف سے محفوظ رہیں ۔یہاں ہم یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ کیا اہل بیت میں سے کوئی ایسا ہے  جو علی   علیہ السلام سے زیادہ رسول کا قریبی اور آپ سے زیادہ  عالم ہو تاکہ ہم  اس کے فرمودات ،اس کی رہنمائی اور اس کی تعلیمات کے مطابق عمل کرکے  گمراہ اور غرق ہونے سے محفوظ رہیں ؟ پھر  کیا یہ حدیث علی ،فاطمہ اور  ان کے دوبیٹوں   علیہم السلام کے ساتھ مختص نہیں ہے ؟
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  مسلمانوں کو آپ کے اہل بیت کے فرمودات سے تمسک  رکھنے کا حکم  دیتے ہیں  تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ تمام  مسلمانوں  پر واجب ہے کیونکہ نبی کا قول ،فعل اور آپ کی خاموش تائید تمام لوگوں پر لازمی حجت ہے جس کی دلیل قرآن کی یہ آیات ہیں :
’’ وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ‘‘ (نجم/۳۔۴)
نبی اپنی خواہش کے تحت  گفتگو نہیں  کرتا بلکہ (اس کا قول ) نازل شدہ وحی ہے ۔
’’ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ ‘‘ (حشر/۷)
رسول  تمہیں جو کچھ دیں  اسے لے لو اور جس سے وہ تمہیں  روکے اس سے اجتناب کرو ۔
مذکورہ بیان سے درج ذیل نکات واضح طور پر سامنے  آتے ہیں :
۱۔اسلامی تعلیمات کے بارے میں  فقہائے اہل بیت کی آراء  کی طرف رجوع کرنا اور ان پر عمل کرنا واجب ہے۔اس کی  پہلی دلیل   مذکورہ بالا حدیث نبوی  ہے ۔اس کے برعکس دیگر مکاتب فکر کے فقہاء کی طرف رجوع کرنا فرض نہیں  ہے کیونکہ اس کی تائید کسی حدیث نبوی سے نہیں ہوتی خاص کر اس صورت میں  جب آراء و نظریات کے درمیان  تعارض اور اختلاف  پیش آئے  ۔
۲۔ اگر ہم علماء کی طرف رجوع کرنے کے قائل ہوں تو فقہا ئے اہل بیت سب  علماء کے سرفہرست ہیں  کیونکہ وہ سب سے نمایاں  مصداق  ہیں جیسا کہ ائمہ اہل بیت  کی تاریخ  کے زندہ شواہد  سے ثابت ہوتا ہے ۔
اس کے علاوہ  رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے واضح فرمان سے بھی ان کے اقوال سے تمسک  کے لازمی ہونے کی تائید ہوتی ہے ۔حدیث سفینہ اس بات کی واضح دلیل ہے  ۔
۳۔ جب ایک طرف سے  فقہائے اہل بیت  اور دوسری طرف سے دیگر فقہاء کے اقوال کے درمیان  تعارض اور اختلاف  واقع ہو تو شرع اور عقل کی رو سے فقہائے اہل بیت  کے قول پر عمل واجب ہے کیونکہ  اہل بیت کے قول  سے یہ یقین حاصل ہوتا ہے کہ یہی  خدا کا اصلی حکم ہے جو گمراہی اور انحراف  سے منزہ ہے ۔اس بات کی مضبوط دلیل رسول کا واضح فرمان  یعنی  حدیث سفینہ ہے ۔
اس کے برخلاف  دیگر فقہاء کے قول  پر عمل  انسان  کو شک میں مبتلا رکھتا ہے کہ کیا  اس نے شریعت  کے حقیقی حکم کے مطابق  عمل کیا ہے یا نہیں  کیونکہ اس بار ےمیں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم    کی طرف سے کوئی نص  موجود نہیں ہے ۔
ظاہر ہے کہ حقیقی مسلمان  یقین کو چھوڑ کر  شک کی ہرگز پیروی  نہیں کرتا بلکہ وہ یقین کے راستے پر گامزن ہوتا ہے اور شک کو  خیر باد  کہتا ہے ۔
۴۔ یہاں ہم یہ سوال کریں گے  کہ آخر رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم  نے یہ حدیث کیوں  بیان فرمائی ؟ نیز اس کا فائدہ کیا ہے ؟ کیا آپ نے خوش طبعی اور مزاح کے طور پر یہ حدیث بیان فرمائی تھی   جبکہ آپ خواہشات کے تحت  بات نہیں کرتے بلکہ  آپ کا قول وحی کے مطابق ہوتا ہے ؟ کیا آپ کی اس حدیث کا مقصود  یہ نہیں ہے کہ امت کو انحراف اور گمراہی سے تحفظ حاصل ہو ؟ اگر ایسا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں  کی ایک کثیر تعداد  اس حدیث پر عمل نہیں کرتی ،خاص کر  اختلاف ِآراء کی صورت میں  تاکہ وہ گمراہی  اور انحراف  سے نجات پائیں  جیساکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم    نے اپنی  اس حدیث میں تصریح فرمائی  ہے ؟
۵۔ اگر فقہائے اہل بیت کے قول پر عمل نہ کیا جائے خاص کر اختلاف اور تعارض کی صورت میں ،تو یہ گمراہی پر ڈٹ جانے اور انحراف  پر مُصر  رہنے  کی دلیل ہے جیساکہ رسول  کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم   نے سابق الذکر  حدیث سفینہ میں  بطور صریح  ارشاد فرمایا  ہے :

ومَنْ تِخَلَّفَ عَنْھَا ھَویٰ و غَرِقَ  ۔

جو اس سے پیچھے رہ جائے( وہ گمراہی کی کھائی  میں )گر جاتا  اور غرق ہوتا ہے ۔
۶۔ ائمہ اہل بیت علیہم السلام  کے اقوال پر عمل پیرا ہونا ان کے ساتھ مودت و محبت کا ایک مصداق  ہے ۔اہل بیت سے محبت اور مودت رکھنے کا حکم قرآن نے یوں بیان کیا ہے :
قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ ۔( شوریٰ /۲۳)
(یعنی کہئے: میں تم سے  کوئی اجر رسالت نہیں مانگتا  سوائے میرے قریبی  رشتہ داروں  کے ساتھ مودت کے )
اہل بیت  علیہم السلام کے فرمودات پر عمل  پیرا نہ ہونے کا مطلب ہے : ان سے اعراض ، بےاعتنائی  اور لاپرواہی ، جو ان کے ساتھ  ایک طرح کا ظلم ہے  ۔ یہ امر مذکورہ بالا آیت ِ مودت کے منافی   ہونے کے علاوہ  گمراہی اور بربادی  کا موجب ہے جیساکہ ہم نے حدیث سفینہ میں  رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے صریح فرمان  کاذکر کیاہے۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک