امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

تشیع کا آغاز کب ہوا ؟

1 ووٹ دیں 05.0 / 5

تشیع کا آغاز کب ہوا ؟
دوسرا  زاویہ :

آئیے یہاں ہم شیع کے آغاز  کی تاریخ  کا جائزہ لیں  تاکہ تشیع کی تاسیس اور آغاز کی تاریخ کے آئینے میں  ہم اس کے حق میں  یا اس  کے خلاف  فیصلہ کرسکیں ۔تشیع کے آغاز  کے بارے میں  مذکور  نظریات کا جائزہ  لینے سے درج ذیل اقوال سامنے آتے ہیں ۔
پہلا نظریہ : 

تشیع کا آغاز  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں ہی ہوا ۔رسول اللہ ہی  اس کے موسس اور بانی تھے نیز آپ نے ہی  تشیع کا پودا  لگایا ۔
دوسرا نظریہ : 

تشیع کا آغاز  رحلت رسول کے بعد اس وقت ہوا جب سقیفہ بنی ساعدہ کے واقعے کے بعد مہاجرین و انصار  کی ایک جماعت نے علی  علیہ السلام کی خلافت کی حمایت کی اور دوسروں  کی بیعت سے اجتناب کیا ۔
تیسرا نظریہ :

   تشیع کا آغاز جنگ جمل کے بعد ہوا کیونکہ اکثر صحابہ نے علی علیہ السلام کا ساتھ دیا اور آپ کی رکاب میں جنگ  لڑی ۔
چوتھا نظریہ :

  تشیع کا آغاز  حسین علیہ السلام کی شہادت ،توابین  کے قیام اور خروج ِمختار  کے بعد ہوا ۔
پانچواں نظریہ :

تشیع کی ابتدا چوتھی صدی ہجری میں  عباسیوں  کے دور حکومت میں  اس وقت ہوئی جب اسلام کے فقہی مذاہب مثلا  حنفی ،شافعی ،مالکی اور حنبلی فرقے وجود  میں آئے ۔انہی کے ساتھ مذہب شیعہ یا مذہب جعفری کی بنیاد پڑی ۔
چھٹا نظریہ :

تشیع کی بنیاد بعد کی صدیوں میں ایرانیوں  کی جانب سے رکھی گئی ۔
تبصرہ :

اگر ہم تحقیق کریں  تو دیکھیں گے کہ ایرانیوں کی اکثریت کا تشیع سے کوئی ربط نہ تھا بلکہ چھٹی صدی ہجری تک ان کی اکثریت کا تعلق سنی مذاہب سے تھا   (بلکہ دسویں  صدی ہجری تک ایسا تھا ۔دیکھئے کتب تاریخ )یہاں  تک کہ احناف کے امام ابوحنیفہ خود ایرانی  تھے ۔
یہ تھا تشیع کے آغاز کے بارے میں  موجود اقوال  کا خلاصہ لیکن حقیقت کے متلاشی محقق سے یہ بات پوشیدہ  نہیں  کہ قدیم  ترین تاریخی سند جس  میں ’’علی کے شیعہ ‘‘کی اصطلاح بطور صریح مذکور  ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے ۔آپ نے یہ حدیث   تب بیان  فرمائی جب یہ آیت اتری :
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَٰئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ۔( البینۃ/۷)
(یقیناجو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل  بجالائے وہ بہترین  مخلوق ہیں)
 اہل سنت کی اسناد  کے ساتھ  مروی روایات میں اس بات کی تصریح موجود  ہے ۔روایات ملاحظہ ہوں  :
پہلی روایت : سیوطی کی تفسیر درّ منثور میں مذکور ہے : ابن عساکر  نے جابر بن عبد اللہ سے نقل کیا ہے : ہم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے پاس موجود  تھے ۔اتنے میں  علی  آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا : قسم ہے اس کی جس کے  ہاتھ میں  میری جان ہے کہ یہ اور اس کے  شیعہ ہی قیامت کے دن کامیاب ہیں ۔( دیکھئے سیوطی  کی تفسیر در منثور ،ج۶،ص ۳۷۹)
تب یہ آیت اتری :
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَٰئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ ۔
پس جب  علی تشریف  لاتے تو اصحاب رسول کہتے تھے : خیر البریہ  (بہترین  مخلوق) آگئے ۔
دوسری روایت :

سیوطی نے ہی اپنی تفسیر میں ذکر کیا ہے:
(دیکھئے سیوطی کی تفسیر درمنثور ،ج۶،ص ۳۷۹ ،مطبعہ المنیہ ،قاہرہ ۱۳۱۴ ھ۔ اس مضمون کو خوارزمی نے اپنی کتاب مناقب کے ص ۶۶ میں ذکر کیا ہے)
ابن عدی نے ابن عباس  سے نقل کیا کہ جب یہ آیت اتری  :
 إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَٰئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ  
(جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے وہی بہترین مخلوق ہیں )
 تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےعلی سے فرمایا : اس سے مراد آپ اور آپ کے شیعہ  ہیں جو قیامت کے دن راضی اور پسندیدہ ہوں گے ۔
 تیسری روایت: طبری  نے اپنی تفسیر میں  یہ روایت نقل  کی ہے : ابو الجارود نے محمد بن علی سے ھم خیر البریۃ  کے بارے میں  نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا : اے علی ! اس سے مراد آپ اور آپ کے شیعہ ہیں ۔( تفسیر طبری ،ج۳،ص ۱۴۶)
چوتھی روایت : 

خوارزمی نے المناقب  میں نقل کیا ہے :
حافظ ابن مردویہ  نے علی علیہ السلام  کے کاتب یزید بن شراحبیل  انصاری سے روایت کی ہے : میں نے علی کو یہ فرماتے سنا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے مجھ سے اس وقت جب میں  نے آپ کو اپنے سینے کا سہارا دیا ہوا تھا فرمایا : اے علی! کیا آپ نے اللہ کا یہ فرمان نہیں سنا :
 إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَٰئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ
(جو لوگ ایمان  لائے اور نیک اعمال بجالائے وہی بہترین مخلوق ہیں )؟
اس سے مراد آپ اور آپ کے شیعہ ہیں ۔میری اور آپ لوگوں  کی وعدہ گاہ  حوض کوثر  ہے ۔جب امتیں  حسابرسی  کے لئے آئیں گی  تو آپ لوگوں  کو غرّاً محجّلین (روشن پیشانی اور نورانی ہاتھوں  اور پیروں  والوں ) کے نام سے پکارا جائے گا ۔( دیکھئے خوارزمی کی المناقب،ص ۱۷۸)
پانچویں روایت:

صاحب الغدیر نقل کرتے ہیں :حافظ جمال الدین  زرندی نے ابن عباس  (رضی اللہ عنہما) سے روایت کی ہے : جب یہ آیت  نازل ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے علی سے فرمایا :
’’ھو انت وشیعتک ۔ تأتی انت و شیعتک یوم القیامۃ راضین مرضیین ویاتی عد وّک مقمحین۔ قال : ومن عدوّی؟ قال صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  :مَنْ تبرّأ  مِنْک ولعنک ثم قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : مَنْ قال: رحم اللہ علیّا رَحمہُ اللہ ۔‘‘( دیکھئے الغدیر ،ج۲،ص ۵۸)
ترجمہ: اس سے مراد آپ اور آپ کے شیعہ ہیں ۔قیامت کےدن  آپ اور آپ کے شیعہ راضی اور پسندیدہ ہو کر آئیں گے جبکہ آپ کے دشمن  خشمناک اور (گردن کے طوق کی وجہ سے )سراٹھائے ہوئے آئیں گے ۔علی نے عرض  کیا: میرے دشمن کون ہیں ؟
 آنحضرت نے فرمایا : جو آپ سے بیزاری اختیار کریں اورآپ پر  لعن کریں  ۔اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا :  جو کوئی  یہ کہے : خدا علی  پر رحم کرے  اس پر خدا رحم  فرمائے گا ۔
چھٹی روایت :

بغدادی اپنی تاریخ میں رقمطراز ہیں :  نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی سے فرمایا :
انت و شیعتک  فی الجنۃ ۔( تاریخ بغداد ،ج۱۲،ص ۲۸۹)
آپ اور آپ کے شیعہ جنت میں  ہوں گے ۔
ساتویں روایت:

مروج الذہب  میں یہ حدیث  نبوی مذکور ہے :
اِذا کان یَوم القیْامۃِ دُعیَ النَّاسُ باَسْمَآئھمْ  وَاَسْماءِ اُمَّھاتِھمْ اِلّاھذا یعنی علیّا وشیعتہ فَاِنّھُمْ یُدْعَوْنَ بِاَسْمَاءِ آبائِھِمْ لِصحّۃِ وِلَادَتِھِمْ ۔( مروج الذہب ،ج۲،ص ۵۱)
قیامت کے دن  لوگ ان کے  اور ان کی ماؤں کے ناموں سے پکارے جائیں گے سوائے اس (علی) اور   اس کے شیعوں کے  کیونکہ وہ ان کے اور ان کے باپ  کے ناموں  سے پکارے جائیں گے اس لئے کہ ان کی ولادت (نسل) صحیح ہوگی ۔
آٹھویں روایت:

صواعق محرقہ میں مذکور  ہے کہ : نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے علی سے فرمایا :
یَا علیُّ! اِنَّ اللہ غَفَرَ لکَ وَلِذرّیّتکَ وَلِوُلْدِکَ  وَلِاَھْلِکَ وَشِیْعَتِکَ  
وَلِمُحِبِّیْ شِیْعَتِکَ ۔( الصواعق المحرقہ ،ص۹۶، ،۱۳۹ اور ۱۴۰)

اےعلی !  اللہ  نے آپ ،آپ کی ذریت ،آپ کے بیٹوں ،آپ کی آل ،آپ کے شیعوں اور آپ کے شیعوں  کے چاہنے والوں  کو بخش دیا ہے ۔
نویں روایت : مجمع الزوائد  میں مذکور ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے علی  علیہ السلام سے فرمایا :
’’اَنْتَ اَوّلُ دَاخلٍ الْجَنَّۃَ مِنْ اُمّتِیْ وَاَنَّ شِیْعَتَکَ عَلیٰ مَنَابِرَ مِنْ نُوْرٍ مَسْرُوْرُوْنَ مُبْیَضَّۃ وُجُوْھُھُمْ حَوْلِیْ ،اَشفعُ لَھُمْ فَیَکُوْنُونَ غَداً فِی الْجَنَّۃِ جِیْرَانِیْ ‘‘(مجمع الزوائد ،ج۹،ص ۱۳۱،کفایۃ الاثر ،ص ۱۳۵)
میری امت میں آپ سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے ۔آپ کے شیعہ نور کے منبروں  پر میرے اردگرد  سفید  چہروں  کے ساتھ خوش اور مسرور  موجود ہوں گے ۔میں ان کی شفاعت کروں  گا۔ پس وہ کل جنت میں  میرے ہمسایہ  ہوں گے ۔
دسویں روایت:

حاکم مستدرک میں لکھتے ہیں :
مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا :

’’اَنا الشَّجَرَۃُ وَفَاطِمَۃُ فَرْعُھَا وَعَلِیٌّ لِقَاحُھَاوَالْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ ثَمَرَتُھَا وَشِیْعَتُنَا وَرَقُھَا۔اَصْلُ الشَّجَرَۃِ فِیْ جَنَّۃِ عَدْنٍ وَسَائِرُذٰلک فِیْ سَائِرِ الْجَنَّۃِ‘‘
(اسے حاکم نے مستدرک ،ج۳،ص ۱۶۰ میں  ،ابن عساکر  نے اپنی تاریخ ،ج۴،ص ۳۱۸ میں  اور ابن صباغ نے فصول المہمہ ،ص
۱۱ میں ذکر کیا ہے ۔)
میں درخت ہوں ،فاطمہ  اس کی شاخ ہے ،علی اس  کا شگوفہ ہے ،حسن اور حسین  اس کے پھل ہیں  اور ہمارے شیعہ اس کے پتے ہیں۔اس درخت کی جڑ جنت عدن میں  ہے اور اس کے باقی حصے دیگر جنتوں  میں ہیں۔
گیارھویں  روایت :

تاریخ  ابن عساکر  میں مذکور ہے کہ نبی نے علی سے فرمایا :
’’یَاعَلیُّ ! اِنَّ اَوَّلَ اَرْبَعَۃٍ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ اَنَا وَ اَنْتَ وَالْحَسَن وَالْحُسَیْن وَذَرَارِیْنَا خَلْفَ ظُھُوْرِنَا وَاَزْوَاُجُنَا خَلْفَ ذَرَارِیْنَا وَشِیْعَتُنَا عَنْ اَیْمَانِنَا وَعَنْ شَمَائِلِنَا‘‘ (تاریخ ابن عساکر ،۴،ص ۳۱۸، تذکرۃ السمطین،ص۳۱،الصواعق المحرقۃ ،ص۹۶)
اے علی! جنت میں سب سے پہلے داخل ہونے والے افراد :میں،آپ ،حسن اور حسین  ہیں  ۔ہماری ذریتیں ہمارے پیچھے ہوں گی ،ہماری ازواج ہماری ذریتوں  کے پیچھے ہوں گی جبکہ ہمارے شیعہ  ہمارے دائیں اور بائیں جانب ہوں گے ۔
 
بارھویں روایت :

تاریخ خطیب میں مذکور ہے  کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا :
’’ شَفَاعَتِیْ لِاُمَّتِیْ مَنْ اَحَبَّ اَھْلَ بَیْتِیْ وَھُمْ شِیْعَتِیْ‘‘(تاریخ الخطیب ،ج۲،ص ۱۴۶)
میری امت ان  لوگوں  کےلئے میری شفاعت نصیب ہوگی جو میرے اہل بیت سے محبت کریں۔  یہی لوگ  میرے  شیعہ ہیں  ۔
تیرھویں روایت :  ہیثمی مجمع الزوائد  میں رقمطراز ہیں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ایک خطبے   میں مذکور ہے :
 ’’اَیُّھَا النَّاسُ! مَنْ اَبْغَضَنَا اَھْلَ الْبَیْتِ،حَشَرَہُ اللہُ یِوْمَ الْقِیَامَۃِ یَھُوْدِیّاً۔ فَقَالَ جَابِرُبْنُ عَبْدِاللہِ: یَارَسُوْلَ اللہِ وَاِنْ صَامَ وَصَلّیٰ؟ قَالَ:وَاِنْ صَامَ وَصَلّیٰ وَزَعَمَ اَنَّہُ مُسْلِمٌ۔اِحْتَجَرَ بِذٰلِکَ مِنْ سَفْکِ دَمَہِ وَاَنْ  یُؤَدِّیَ الْجِزْیَۃَ عَنْ یَدٍ وَھُمْ صَاغِرُوْنَ۔ مُثِّلَ لِیْ اُمَّتِیْ فِی الطِّیْنِ فَمرَّ بِیْ اَصْحَابُ الرَّایَاتِ فَاسْتَغْفَرْتُ لِعَلِیٍّ وَشِیْعَتِہِ‘‘(مجمع الزوائد ،۹،ص ۱۷۲)
لوگو! جو شخص ہم اہل بیت سے بغض رکھے  اسے اللہ قیامت  کے دن  یہودی محشور کرے گا ۔جابر بن عبد اللہ  نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول !  اگرچہ  وہ روزہ رکھے  اور نماز پڑھے ؟ فرمایا : ہاں  اگرچہ وہ روزہ رکھے اور نماز پڑھے اور یہ سوچے کہ وہ مسلمان ہے ۔اس کے باعث اسے اس بات سے تحفظ حاصل  ہوتا ہے  کہ اس کا خون  بہایا  جائے اور وہ ذلیل  ہوکر اپنے ہاتھ  سے جزیہ  ادا کرے  ۔
مجھے اس وقت عالم مثال میں  میری امت کا نظارہ کرایا  گیا جب وہ گندھی ہوئی  مٹی کی صورت میں تھی ۔پس پرچم والے میرے پاس  سے گزرے ۔سو میں نے علی اور اس کے شیعوں  کے لئے دعا کی ۔
مذکورہ بالا  بیانات سے یہ واضح ہوگیا کہ تشیع کا پہلا بیج خود رسول  کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بویا کیونکہ سب سے پہلے آپ  ہی نے’’شیعۂ علی‘‘ کی اصطلاح استعمال کی  ،اس کا اعلان کیا  ، اس کی ترویج کا اہتمام کیا اور اس کی طرف دعوت دی ۔ادھر اللہ تعالیٰ  فرماتا ہے  :
’’ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ ‘‘(حشر/۷)
رسول تمہیں جو کچھ دے اسے لے لو اور وہ جس چیز سے تمہیں منع کرے اس سے اجتناب کرو ۔
پس ہر مسلمان  پر لازم ہے کہ اگر وہ حقیقت  اور سچائی تک رسائی کا گرویدہ ہے تو رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان  کو دل و جان سے قبول کرے اور اس پر کاربند ہو کیونکہ  نبی اپنی خواہش  کے تحت  بات نہیں کرتے بلکہ آپ کی بات وحی  الہی ہوتی ہے۔

بنابریں واضح ہواکہ دین  برحق اسلام نے خود ہی تشیع کی بنیاد رکھی ہے اور تشیع ہی اسلام کا پاک و صاف  سرچشمہ ہے ۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک