امام کا خلافت قبول کرنا
امام کا خلافت قبول کرنا
امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے پاس خلافت قبول کرنے کے علاوہ کو ئی اور چارہ نہیں تھاچونکہ آپ کو یہ خوف تھا کہ
کہیںبنی امیہ کا کو ئی فاسق حاکم نہ بن جا ئے لہٰذا آپ نے فرمایا:
''وَاللّٰهِ مَا تَقَدَّ مَتُ عَلَیْهَا ( ای علی الخلافة ) اِلَّاخَوْفاًمِنْ أَنْ یَنْزُوَ عَلیٰ الْاُمَّةِ تَیْسُ مِنْ بَنِْ أُمَیَّةَ،فَیَلْعَبَ بِکِتَابِ اللّٰهِ عَزَّوَجَلَّ''
(عقد الفرید ،جلد ۲،صفحہ ۹۲) ۔
''خدا کی قسم میں نے خلافت اس خوف سے قبول کی ہے کہ کہیں بنی امیہ کا کو ئی بکرا امت کی خلافت کو اُچک لے اور پھر کتاب خدا کے ساتھ کھلواڑ کرے ''۔
مجمع جامع اعظم کی طرف دوڑ کر آیااور امام کا تکبیر اور تہلیل کے سایہ میں استقبال کیا، طلحہ نے اسی اپنے شل ہوئے ہاتھ سے بیعت کی جس کے ذریعہ اس نےعہد الٰہی کا نقض کیا تھا ،امام نے اس کو بدشگونی تصور کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
''مَاأَخْلَقَہُ أَنْ یَّنْکُثَ !''۔
''بیعت توڑنا تو تمہاری پرا نی عادت ہے ''۔
تمام لوگوں نے آپ کی بیعت کی کیونکہ یہ اللہ اوراس کے رسول کی بیعت تھی،عام بیعت تمام ہوگئی جس کےمانند کو ئی ایک خلیفہ بھی بیعت لینے میں کامیاب نہیں ہو سکا تھا،جس سے مسلمانوں کی خو شی کا کوئی ٹھکانہ، نہ رہا، امام امیر المو منین فرماتے ہیں:
''وَبَلَغَ مِنْ سُرُوْرِالنَّاسِ بِبَیْعَتِهِمْ اِیّاَ أَنِ ابْتَهَجَ بِهَاالصَّغِیْرُ،وَهَدَجَ اِلَیْهَا الْکَبِیْرُ،وَتَحَامَلَ نَحْوَهَاالْعَلِیْلُ،وَحَسَرَتْ اِلَیْهَا الْکِعَابُ'' ۔
''تمہاری خو شی کا یہ عالم تھا کہ بچوں نے خو شیاں منا ئیں، بوڑھے لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے آگے بڑھے بیمار اٹھتے بیٹھتے ہوئے پہنچ گئے اور میری بیعت کیلئے نوجوان لڑکیاں بھی پردہ سے باہر نکل آئیں ''
دنیائے اسلام میں ہمیشہ کے لئے عدالت اور حق کا پرچم لہرادیا گیااور اسلام کو اس کا اصلی اور حقیقی ملجأ و ماویٰ مل گیا ۔