امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

امام جواد علیہ السلام اور امام ہادی علیہ السلام- قسط-۲

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

امام جواد علیہ السلام
 امام ہادی علیہ السلام

یہ ائمہ علیہم السلام بہت عرصہ غریب الدیار رہے۔ مدینہ سے دور، گھربار سے دور اور اپنے وطن ِ مالوف سے دور۔اس کے باوجود ان تین اماموں (امام جواد، امام ہادی، امام عسکریؑ) کے بارے میں ایک نکتہ قابل غور ہے اور وہ یہ کہ ہم جس قدر امام عسکری کے دور کے آخری حصے کی طرف نظر کریں اس بےوطنی کا بیشتر مشاہدہ ہوتا ہے۔ حالانکہ امام صادق اور امام باقر علیہماالسلام کےدور کے مقابلے میں ان تینوں اماموں کے زمانے میں ائمہ کے اثر و نفوذ اور شیعوں کے دائرے میں وسعت کی مقدار شاید دس گنا ہوگئی تھی۔ یہ ایک عجیب چیز ہے۔ شاید یہی امر ان ائمہ پر اس قدر پابندیوں کی اصل وجہ ہو۔ایران کی طرف امام رضاعلیہ السلام کی حرکت اور آپ کی خراسان آمد کے بعد رونما ہونے والے حوادث میں سے ایک یہی تھا۔ شاید یہ امام ہشتم ؑ کی حکمت عملی کا ایک حصہ تھا۔ اس سے قبل شیعیان ِاہل بیت ہرجگہ خال خال موجود تھے اور وہ بھی غیر منظم، مایوس اور مستقبل کے بارے میں کسی قسم کی منصوبہ بندی کے بغیر۔ ادھر خلفاء کا تسلط ہرجگہ قائم تھا۔ مامون سے پہلے ہارون کا فرعونی دور حکومت قائم تھا۔ جب امام رضا علیہ السلام خراسان کی طرف جاتے ہوئے اس راستے سے گزرے تو لوگوں نے ایک ایسی شخصیت کو دیکھا جو علم و حکمت ،عظمت و شکوہ، صدق و صفا اور نورانیت کا پیکر نظر آتی تھی۔ لوگوں نے سرے سے اس قسم کی شخصیت دیکھی ہی نہیں تھی۔ اس سے قبل خراسان سے کتنے شیعہ امام صادق علیہ السلام کو دیکھنے مدینہ جانے کی استطاعت رکھتے تھے؟ لیکن امام رضا علیہ السلام کے اس طویل سفر میں ہرجگہ لوگوں نے نزدیک سے آپ کی زیارت کی۔ سچ مچ عجیب منظر تھا۔ گویا لوگ رسول اکرمؐ کی زیارت کررہے تھے۔ آپ کی معنوی ہیبت و عظمت، عزت وشکوہ، اعلیٰ اخلاق، نورانیت اور وسیع علم نے لوگوں کے درمیان ایک عجیب ولولہ برپا کردیا۔
پھر امام خراسان اورمرو پہنچ گئے۔ مرو مرکز تھا جوموجودہ ترکمانستان میں واقع ہے۔ اس کے ایک دو سال بعد امام کی شہادت واقع ہوئی اور لوگوں کے دل داغدار ہوئے۔ ایک طرف سے امام کی آمد نے (جس کے ذریعے لوگوں نے اَن دیکھی اور اَن سنی چیزوں کا مشاہد کیا) اور دوسری طرف سے آپ کی شہادت نے (جو ایک عجیب داغ دے گئی) ان تمام علاقوں کی فضا کو شیعوں کے تابع کردیا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ سب کے سب شیعہ ہوگئے بلکہ مراد یہ ہے کہ سب لوگ اہل بیت کے چاہنے والے بن گئے۔ اس ماحول میں شیعوں نے خوب کارکردگی دکھائی۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ قم میں اچانک اشعریوں کا ظہور ہوا۔ یہ لوگ کیوں آئے؟ یہ تو عرب تھے۔ یہ لوگ وہاں سے اٹھ کر قم آئے۔ پھر یہاں انہوں نے حدیث اور اسلامی معارف کا پرچار شروع کیا نیز اس شہر کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز قرار دیا۔
شہر رے میں کلینی
(ابوجعفر محمد بن یعقوب رازی المعروف کلینی حدیث کی معروف اور گرانقدر کتاب ’’اصول الکافی‘‘ کے مولف ہیں۔ کلینی نے تیسری صدی کے دوسرے نصف حصے اور چوتھی صدی کے پہلے نصف حصے میں زندگی گزاری اور شعبان ۳۲۹ھ میں وفات پائی)
جیسے افراد سرگرمِ عمل ہوۓ۔ کلینی جیسا فرد سازگار حالات کے بغیر کسی شہر میں سرگرم عمل نہیں ہوسکتا۔ جب تک ماحول شیعی اور اہل بیت کا معتقد نہ ہو تب تک ان خصوصیات کے حامل جوان کی تربیت کیسے ہوسکتی ہے جو بعد میں کلینی بن جائے۔ یہ عمل بعد میں بھی جاری رہا چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ شیخ صدوق رضوان اللہ علیہ
(ابو جعفر محمد علی بن بابویہ قمی المعروف ’’شیخ صدوق‘‘ چوتھی صدی ہجری کے شیعہ علماء و فقہاء میں سے ایک ہیں۔ وہ ۳۰۶ھ میں قم میں پیدا ہوئے۔ شیخ صدوق کی گرانقدر کتاب ’’ من لایحضرہ الفقیہ‘‘ شیعوں کی کتب اربعہ میں سے ایک ہے۔ اس بلند مرتبت فقیہ نے ۳۸۱ھ میں شہر رے میں دار فانی کو الوداع کہا۔)
ہرات، خراسان اور دیگر علاقوں تک جاتے ہیں اورشیعوں کےلئے احادیث جمع کرتے ہیں۔ یہ کام بہت اہمیت کا حامل ہے۔شیعہ محدثین خراسان میں کیا کررہے ہیں؟
سمرقند میں کیا کررہے ہیں؟
سمرقند میں کون سی شخصیت موجود ہے؟
 شیخ عیاشی سمرقندی۔
(محمد بن مسعود عیاشی سمرقندی، تیسری صدی ہجری کے اواخر اور چوتھی صدی ہجری کے اوائل کے معروف شیعہ عالم و مفسر تھے)
عیاشی سمرقندی اسی شہر سمرقند میں تھے۔ ان کے بارے میں کہا گیا ہے:’’فی داره التی کانت مرتعاً للشیعۃ و لاهل العلم‘‘
(رجال نجاشی، ص۳۷۲۔ ان کا گھر شیعوں اور دانشوروں کی جائے اجتماع تھا)
یہ شیخ کَشی
(محمد بن عمرو بن عبد العزیز المعروف ’’شیخ کشی‘‘ کی کنیت ابو عمرو ہے۔ وہ چوتھی صدی ہجری کے پہلے نصف حصے کے اواسط کے درخشان چہروں میں سے ایک تھے۔ کشی کا شمار معروف شیعہ علماء میں ہوتا ہے۔ وہ علم رجال اور حدیث کے استاد تھے۔)
کے بیانات کا حصہ ہے۔ خود شیخ کَشی کا تعلق سمرقند سے ہے۔ بنابریں امام رضاؑ کےسفر پھر آپ کی مظلومانہ شہادت نے وہ اثر دکھایا کہ ان علاقوں کی فضا ائمہ علیہم السلام کے ہاتھ آئی ۔ ائمہ نے بھی خوب استفادہ کیا۔
خط و کتابت اور رفت و آمد کا سلسلہ معمول کے مطابق انجام نہیں پاتا تھا بلکہ سب کچھ خفیہ طریقے سے انجام پاتا تھا۔ اگر اعلانیہ ہوتا تو گرفتاری اورہاتھ پاؤں کاٹنے کی نوبت آسکتی تھی۔ بطور مثال متوکل جو اپنی سخت گیری کے باعث کربلا کی زیارت پر پابندی لگاتا ہے کیا اس بات کی اجازت دے سکتا تھا کہ لوگوں کے مسائل امام تک آسانی سے پہنچ جائیں اور امام کے جوابات لوگوں تک پہنچائے جائیں؟
کیا وہ اجازت دےسکتا تھا کہ کچھ لوگ شرعی وجوہات جمع کرکے امام تک پہنچائیں پھر امام سے رسید لےکر لوگوں کے حوالے کریں؟ یہ سب ان تین بزرگ اماموں کے عظیم تبلیغی وتعلیمی نیٹ ورک کا آئینہ دار ہے۔
امام رضا علیہ السلام کے بعد سے لےکر حضرت عسکری کی شہادت تک یہ سب کچھ ہوا۔ حضرت ہادی اور حضرت عسکری علیہما السلام نے اسی شہر سامراء کے اندر رہتے ہوئے پورے دنیائے اسلام کے ساتھ اس قدر وسیع روابط کا سلسلہ منظم کیا تھا۔ (شہر سامرا درحقیقت ایک عسکری چھاؤنی کی طرح تھا۔ سامراء بہت بڑا شہر نہیں تھا۔ یہ نیا دار الحکومت تھا جس کی تعمیر بعد میں ہوئی تھی۔ اسے ’’سُرَّ مَنْ رَاٰی‘‘ کہاگیا۔
(جس نے اسے دیکھا وہ شادہوا)
 حکومت کے اربابِ حل و عقد ، روساء، حکام اور عام لوگوں کی ایک تعداد جو روز مرہ کے احتیاجات کو برلانے کےلئے کافی ہو اس شہر میں سکونت پذیر تھے۔)
جب ہم ائمہ علیہم السلام کی زندگی کی مختلف جہات پر نظرکرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی کیا سرگرمیاں تھیں۔ بنابریں ائمہ علیہم السلام کا کام صرف یہ نہیں تھا کہ نماز،روزے، طہارت اورنجاسات سے مربوط سوالات کا جواب دیں۔ وہ ’’امام‘‘ کی حیثیت سے لوگوں کے ساتھ گفتگو کرتے تھے۔ (یہاں امام کا اسلامی مفہوم مراد ہے۔) میری نظر میں یہ جہت ان دیگر جہات کے ہمراہ قابل توجہ ہے۔ دیکھئے کہ حضرت ہادی علیہ السلام مدینہ سے سامراء لائے جاتے ہیں اور جوانی میں (۴۲سال کی عمر میں) شہید کیے جاتے ہیں۔اسی طرح حضرت عسکری علیہ السلام ۲۸ سال کی عمر میں شہید ہوتے ہیں۔ یہ سب تاریخ کے ہر دور میں ان ائمہ نیز ان کے شیعوں اور اصحاب کی عظیم حرکت اورجدوجہد کا آئینہ دار ہے۔ اگرچہ خلفاء کی سخت گیری نے ملک کو پولیس سٹیٹ بنادیا تھا اس کے باوجود ائمہ کو زبردست کامیابی حاصل ہوئی۔ خلاصہ یہ کہ ائمہؑ اگرچہ غریب الدیار تھے لیکن ساتھ ساتھ زبردست عزت و عظمت کے بھی حامل تھے۔ ۲۰/۲/۱۳۸۲ھ ش۔
پورے عالم اسلام میں شیعی تنظیمی نیٹ ورک کو کسی زمانے میں اس قدر فروغ حاصل نہیں ہوا جس قدر حضرت جواد، حضرت ہادی اور حضرت عسکریعلیہ السلام کےدور میں ہوا۔ اس کی ایک دلیل ائمہ کے وکیلوں، نمائندوں اور نائبین کا وجود نیزحضرت ہادی اور حضرت عسکری علیہما السلام کے بارے میں منقول واقعات ہیں۔ یعنی باوجود اس کے کہ ان دو اماموں پر سامراء میں شدید پابندی تھی اور ان سے پہلے حضرت جواد اور حضرت رضا علیہما السلام پر بھی کسی نہ کسی طرح سے پابندیاں عائد تھیں لیکن لوگوں کےساتھ ان کے روابط کادائرہ مسلسل پھیلتا رہا۔ یہ روابط حضرت رضا علیہ السلام کےزمانے سے پہلے بھی برقرار تھے۔ البتہ آپ کی خراسان آمد سے ان روابط پر بہت زیادہ مثبت اثرات مرتب ہوئے۔۱۸/۵/۱۳۸۴ھ ش۔
اس ڈھائی سوسالہ عرصے میں (رحلت رسول اکرمﷺ کے دن سے لےکر حضرت امام عسکری علیہ السلام کے یوم شہادت تک کے ۲۵۰سالوں میں) ہمارے ائمہ بہت سی تکالیف اٹھاتے رہے، شہید ہوتے رہے اور ظلم و ستم سہتے رہے۔ اگر ہم ان پر گریہ کریں تو بالکل بجا ہے۔ ان کی مظلومیت نے لوگوں کے دلوں اور جذبات کا رخ اپنی طرف پھیرلیا۔ آخرکار ان مظلوموں کو غلبہ حاصل ہوگیا۔ انہوں نے وقتی فتح بھی حاصل کرلی اور تمام ادوار میں مجموعی طور پر بھی۔ ۳۰/۵/۱۳۸۳ھ ش۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک