امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

امام جواد علیہ السلام اور امام ہادی علیہ السلام- قسط-۱

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

امام جواد علیہ السلام
 امام ہادی علیہ السلام
طویل المیعاد منصوبہ بندی پر مبنی منظم اور ہمہ گیر جدوجہد:
امام جوادعلیہ السلام دیگر معصوم ائمہ علیہم السلام کی طرح ہمارے لئے نمونۂ عمل اور اسوۂ حسنہ ہیں۔ اللہ کے اس بندۂ صالح کی مختصر زندگی کفر و طغیان کے خلاف جہاد میں بیت گئی۔ آپ نوجوانی میں امت مسلمہ کے رہبر منصوب ہوئے۔ آپ نے کچھ ہی سالوں کے دوران خدا کے دشمنوں کے ساتھ مختصر لیکن جامع جہاد کیا یہاں تک کہ ۲۵ سال کی عمر میں یعنی جوانی میں ہی آپ کا وجود خدا کے دشمنوں کےلئے ناقابلِ برداشت بن گیا اور انہوں نے آپ کو زہر دےکر شہید کیا۔ جس طرح ہمارے دیگر ائمہ علیہم السلام میں سے ہر ایک نے اپنے جہاد کے ذریعے اسلام کی افتخار آمیز تاریخ میں ایک ایک ورق کا اضافہ کیا اسی طرح اس عظیم امام نے ابھی اسلام کے ہمہ گیر جہاد کے ایک اہم گوشے کو عملی جامہ پہنا کر ہمارے لیے ایک درسِ عمل کا اہتمام کیا۔ وہ بڑا سبق یہ ہے کہ جب ہم منافق اور ریاکار قوتوں کے مقابلے میں کھڑے ہوں تو ہمت سے کام لیں اور ان قوتوں کےمقابلے میں عوام کی ہوشیاری کو بروئے کار لائیں۔ اگر دشمن کھل کر دشمنی کرے نیز اگر وہ غلط دعویٰ یا ریاکاری کا مظاہرہ نہ کرے تو اس سے نمٹنا آسان تر ہے۔ لیکن جب مامون عباسی جیسا دشمن، اسلام کی حمایت اور تقدس کا لبادہ اوڑھ لے تو اس کی شناخت لوگوں کےلئے مشکل بن جاتی ہے۔
ہمارے دور میں بلکہ تاریخ کے تمام ادوار میں مقتدر قوتوں کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ جب وہ لوگوں کے ساتھ براہ راست مقابلے سے عاجز آجائیں تو ریاکاری اور نفاق کا ہتھکنڈا استعمال کریں۔ امام علی بن موسی الرضا صلوات اللہ علیہ اور امام جواد صلوات اللہ علیہ نے کوشش کی کہ وہ مامون کے چہرے سے مکر و فریب اور دکھاوے کے نقاب کو ہٹا دیں جس میں انہیں کامیابی حاصل ہوئی۔ ۱۸/۷/۱۳۵۹ھ ش۔
یہ بزرگ ہستی استقامت کی علامت ہیں۔اس عظیم انسان نے اپنی مختصر زندگی مکمل طورپر عباسی خلیفہ مامون کی ریاکار اور دھوکہ باز حکومت کے خلاف جدوجہد میں گزاری اور ہرگز ایک قدم پسپائی اختیار نہیں کی۔ آپ نے تمام مشکل حالات کا پامردی سے مقابلہ کیا اور مزاحمتی جدوجہد کے تمام ممکنہ طریقوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مقابلے کا سلسلہ جاری رکھا۔آپ وہ پہلی شخصیت تھے جس نے بطور آشکار آزاد مکالمے اور مناظرے کی رسم کی بنیاد رکھی۔ آپ نے مامون عباسی کے دربار میں علماء، دین کے غلط دعویداروں اور معروف چہروں کے ساتھ پیچیدہ ترین مسائل کے بارے میں استدلالی بحث و گفتگو کی۔ یوں آپ نے اپنی علمی وفکری برتری اور اپنے دعوے کی حقانیت کو ثابت کیا۔ آزادانہ بحث و گفتگو ہمارا اسلامی ورثہ ہے۔ ائمہ ہدیٰ کے دور میں آزاد بحث و گفتگو کا سلسلہ رائج تھا۔امام جواد علیہ السلام کے دور میں آپ کے حکیمانہ طرز عمل کے طفیل یہ سلسلہ مزید شفاف ہو گیا۔ ۲۵/۲/۱۳۶۰ھ ش۔
اپنے زمانے کے ظالم خلفا کے ساتھ امام ہادی کی سرد جنگ میں جس فریق کو ظاہری اور باطنی فتح نصیب ہوئی وہ حضرت ہادی ہی تھے۔آپ کی امامت کے دوران یکے بعد دیگرے چھ خلفاء آئے اور سب اپنے انجام کو پہنچ گئے۔ان میں سب سے آخری خلیفہ معتز تھاجس نے آپ کو شہید کیا اور اس کے تھوڑے عرصے بعد خود بھی مرگیا۔ یہ خلفاء زیادہ تر ذلیل و خوار ہوکر مرگئے۔ ان میں سے ایک اپنے بیٹے کے ہاتھوں مارا گیا اور دوسرا اپنے بھتیجے کے ہاتھوں۔ یوں بنی عباس تباہی سے دوچار ہوئے۔ اس کے برعکس تشیع حضرت ہادیؑ اور حضرت عسکریؑ کے دور میں تمامتر مشکلات کے باوجود روز بروز قوی تر ہوتا گیا اور اس کا دائرہ پھیلتا گیا۔
حضرت ہادی علیہ السلام نے اپنی بیالیس(۴۲) سالہ زندگی کے بیس سال سامرا میں گزارے۔ وہاں آپ کی زرعی زمین تھی۔ آپ کا کاروبارِ زندگی اسی شہر میں تھا۔ در اصل سامرا کی حیثیت ایک چھاونی کی سی تھی۔ معتصم نے یہ شہر بسایا تھا تا کہ وہ اپنے قریبی ترک غلاموں کو جنہیں وہ ترکستان،سمرقند،منگولیا اور مشرقی ایشیا سے لےآیا تھا سامرا میں ٹھہرائے۔ (یہ ہمارے ایرانی ترک نہیں جن کا تعلق آذربائیجان و غیرہ سے ہے۔) چونکہ یہ لوگ نو مسلم تھے اس لئے وہ ائمہ، مومنین اور اسلام کو نہیں پہچانتے تھے۔ اسی لئے وہ لوگوں کےلئے درد سر بن گئے اور عربوں (بغداد والوں) سے اختلاف کرنے لگے۔ اسی شہر سامراء میں شیعہ بزرگوں کی ایک خاصی تعداد امام ہادی علیہ السلام کے دور میں جمع ہوئی۔ آپ ان لوگوں کے امور کو منظم کرنے اور ان کے ذریعے پورے عالم اسلام میں امامت کا پیغام (خطوط و غیرہ کی شکل میں) پہنچانے میں کامیاب رہے۔
عالم تشیع کا یہی نیٹ ورک جو قم، خراسان، رے، مدینہ، یمن، دور و دراز علاقوں اور دنیا کے تمام گوشوں میں پھیلا ہوا تھا اس بات میں کامیاب ہوا کہ امامت کے پیغام کو پھیلائے اور اس مکتب فکر کے معتقدین کی تعداد میں روز بروز اضافہ کرے۔ امام ہادی علیہ السلام نے یہ سارے کام مذکورہ چھ خلفا کی خون آشام اور برندہ تلواروں کے نیچے رہتے ہوئے ان کی مرضی کے خلاف انجام دیے۔حضرت ہادیؑ کی رحلت کے بارے میں ایک معروف حدیث ہے جس کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ سامراء میں شیعوں کی ایک اچھی خاصی تعداد جمع ہوگئی تھی جبکہ دربار ِخلافت کو ان کا علم نہیں تھا۔ اگر حکمرانوں کو ان کا پتہ چلتا تو وہ ان سب کو تہس نہس کردیتے لیکن چونکہ ان لوگوں نے ایک مضبوط خفیہ نیٹ ورک قائم کرلیا تھا اس لئے دربار خلافت ان تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا تھا۔
ان بزرگوں (ائمہ علیہم السلام ) کی ایک دن کی کوشش سالہا سال کے برابر اثر کرتی تھی۔ ان ہستیوں کی مبارک زندگی کا ایک دن سالہا سال کام کرنے والی جماعت کی طرح معاشرے میں اثر انداز ہوتا تھا۔ ان بزرگوں نے اس طرح دین کی حفاظت فرمائی و گرنہ اس دین کو (جس کی باگ ڈور متوکل، معتزّ، معتصم اور مامون جیسے حاکموں کے ہاتھ میں ہو اور جس کے علماء یحیی بن اکثم جیسے افراد ہوں جو سرکاری عالم ہونے کے باوجود اعلانیہ فسق و فجور کا ارتکاب کرتے تھے) شروع میں ہی مٹ جانا چاہئے تھا۔ائمہ علیہم السلام کی مجاہدت اور کوشش نے نہ صرف تشیع کو بلکہ قرآن، اسلام اور دینی معارف کو محفوظ رکھا۔ یہ اللہ کے خالص و مخلص بندوں اور اولیائے الٰہی کی خاصیت ہے۔اگر اسلام کے دامن میں اس قسم کے کمربستہ سرفروش نہ ہوتے تو اسلام بارہ تیرہ سو سال بعد دوبارہ زندہ نہ ہوسکتا اور اسلامی بیداری کی لہر نہ اٹھتی بلکہ آہستہ آہستہ اس کا خاتمہ ہوجاتا۔
اگر اسلام کے دامن میں ایسے لوگ نہ ہوتے جو پیغمبر اکرمﷺ کے بعد ان عظیم معارف کو تاریخ بشریت اور تاریخ اسلام کے حافظے میں محفوظ کریں تو سب کچھ ختم ہوجاتا۔ اگر کوئی چیز باقی بھی رہتی تو اسلامی تعلیمات و معارف کا وجود نہ رہتا جس طرح مسیحیت اور یہودیت کے اصلی معارف میں سے آج تقریباً کوئی چیز زندہ نہیں ہے۔ آج اگر قرآن باقی ہے، حدیث نبوی زندہ ہے، اس قدر احکام و معارف زندہ ہیں اور اسلامی تعلیمات ایک ہزار سال بعد بھی تمام انسانی علوم و معارف کے سرِ فہرست زندہ و تابندہ ہے تو یہ بلاوجہ اور قدرتی امر نہیں ہے۔ یہ ایک غیر عادی کام ہے جو اسلام کے خدمتگاروں کی عظیم جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ البتہ اس عظیم کام کی راہ میں تشدد، قید و بند اور قتل ہونے کے خطرات ہمیشہ درپیش رہتے ہیں جن کو برداشت کرنا ان ہستیوں کےلئے کوئی سنگین امر نہیں تھا۔

امام علی الہادی علیہ السلام کے بچپن سےمربوط ایک روایت کہتی ہے کہ جب معتصم ۲۱۸ھ میں حضرت جواد علیہ السلام کو آپ کی شہادت سے دو سال قبل مدینہ سے بغداد لے آیا تھا تو حضرت ہادی علیہ السلام اس وقت چھ سال کے تھے۔ آپ اپنے گھرانے کے ساتھ مدینہ میں رہے۔حضرت جوادکے بغداد لائے جانے کے بعد معتصم نے آپ کے گھرانے کے بارے میں پوچھ گچھ کی۔ جب اس نے سنا کہ حضرت جواد علیہ السلام کے بڑے بیٹے علی بن محمد کی عمر چھ سال ہے تو اس نے کہا: یہ بات خطرناک ہے۔ ہمیں اس کی چارہ جوئی کرنی چاہئے۔ معتصم نے اپنے ایک قریبی شخص کو حکم دیا کہ وہ بغداد سے مدینہ جائے اور وہاں کسی دشمن اہل بیت کو تلاش کرے پھر اس بچے کو اس کے حوالے کرے تا کہ وہ اس بچے کے اتالیق اور استاد کی حیثیت سے اسے یوں تربیت دے کہ وہ اپنے خاندان کا دشمن اور دربارِ خلافت کا حامی بن جائے۔ یہ شخص بغداد سے مدینہ آیا۔ اس نے مدینہ کے ایک عالم الجنیدی کو (جو اہل بیتعلیہ السلام کے شدید ترین مخالفین اور دشمنوں میں سے ایک تھا) اس کام کےلئے ڈھونڈ لیا اور اس سے کہا: مجھے حکم ملا ہے کہ میں تجھے اس بچے کا اتالیق اور مودِّب (ادب سکھانے والا) مقرر کروں۔کسی کو اس بچے کے ساتھ رفت و آمد کی اجازت نہ دو اور اسے ہماری پسند کے مطابق تربیت دو۔ جنیدی کا نام تاریخ میں ثبت ہے۔ اس وقت امام ہادی علیہ السلام چھ سالہ تھے اور حُکم حکومت کا تھا جس کی مخالفت کون کرسکتا تھا؟
کچھ عرصے بعد دربار خلافت سے وابستہ ایک شخص نے الجنیدی کو دیکھا اور اس سے اس بچے کے بارے میں پوچھا جو اس کے حوالے کیا گیا تھا۔ الجنیدی نے کہا: کون سا بچہ؟ یہ بچہ ہے؟ میں اسے ادب کا ایک نکتہ بتاتا ہوں تو وہ میرے لئے ادب کے کئی ابواب بیان کرتا ہے جن سے میں استفادہ کرتا ہوں۔ انہوں نے کہاں سبق پڑھا ہے؟ گاہے جب وہ کمرے میں داخل ہونا چاہتا ہے تو میں اس سے کہتا ہوں: قرآن کی ایک سورت پڑھو پھر اندر آؤ (یعنی وہ آپ کو اذیت دینا چاہتا تھا)۔ وہ پوچھتا ہے: کون سی سورت پڑھوں؟ میں اس سے کہتا ہوں: کوئی لمبی سورت مثلاً سورہ آلعمران پڑھو۔ وہ اسے پڑھتا ہے اور میرے لئے اس سورت کے مشکل مقامات کے معانی بیان کرتا ہے۔ یہ لوگ عالم ہیں، حافظ قرآن ہیں اور قرآن کی تاویل و تفسیر کے عالم ہیں۔ کیا یہ بچہ ہے؟ استاد الجنیدی کے ساتھ اس بچے کے روابط ایک عرصے تک قائم رہے جس کے نتیجے میں استاد اہل بیت کامخلص شیعہ بن گیا۔ (یہ وہ بچہ ہے جو بظاہر بچہ تھا لیکن اللہ کا ولی تھا:
( وَاٰتَيْنَهُ الحكْمَ صَبِيًّا)۔( سورہ مریم/۱۲۔ ہم نے اسے بچپن میں ہی حکمت عطا کی)
شد غلامی کہ آبِ جو آرد    آبِ جُو آمد و غلام ببرد
(گلستان سعدی، باب سوم)
غلام نہر(یا جو ) کا پانی لانے گیا لیکن نہر کاپانی آیا اور غلام کو بہالےگیا۔
تمام میدانوں میں یہی لوگ غالب تھے جبکہ شکست ہرجگہ دوسروں کا مقدر بنتی رہی۔معروف شاعر دِعبل تمام عباسی خلفا کا مخالف تھا۔ اس نے اپنے اشعار کے ذریعے انہیں ذلیل و خوار کیا تھا۔ اس نے ان خلفا میں سے ہر ایک کےلئے تاریخ میں کوئی نہ کوئی یادگار کلام چھوڑا ہے۔ دِعبل نے کچھ اشعار معتصم کے بارے میں کہے ہیں۔وہ کہتا ہے:
’’ہم نے کتابوں میں پڑھا تھا کہ بنی عباس کے خلفاء سات ہیں لیکن اب کہتے ہیں کہ وہ آٹھ ہیں۔ آٹھواں کہاں ہے؟ وہ اصحابِ کہف کی طرح ہیں۔ اصحاب کہف کا آٹھواں ان کا کتا تھا۔‘‘ پھر وہ کہتا ہے: ’’ کہاں تو اور کہاں وہ کتا! اس کتے کا خدا کی بارگاہ میں کوئی گناہ نہیں جبکہ تو سراپا گناہ ہے۔‘‘ ۳۰/۵/۱۳۸۳ھ ش۔
امام مدینہ سے سامرہ لائے گئے تا کہ حکمرانوں کے زیر نظر رہیں لیکن انہوں نے دیکھا کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اگر آپ ان تین اماموں کے حالات ’’المناقب‘‘
(مناقب آل ابی طالب علیہ السلام ،ابن شہر آشوب، ج۴،ص۳۳۷۔۴۴۷)
 اور دیگر مآخذ میں دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ان ائمہ علیہم السلام کے دور میں شیعوں کے درمیان روابط کا نیٹ ورک امام باقر اور امام صادق علیہما السلام کے دور سے زیادہ مضبوط تھا۔
دنیا کے دورترین علاقوں سے لوگ انہیں خطوط لکھتے تھے، رقوم بھیجتے تھے اوران سے فرامین لیتے تھے جبکہ ان پر پابندیاں عائد تھیں۔ سامرا میں امام ہادی علیہ السلام لوگوں کی محبوب شخصیت بن چکے تھے۔ سب آپ کا احترام کرتے تھے اور کوئی اہانت نہیں ہوتی تھی۔ بعد میں آپ کی رحلت نیز امام عسکری علیہ السلام کی رحلت کے وقت شہر ماتم کدہ بن گیا۔ اس صورتحال سے حکمرانوں نے اندازہ کر لیا کہ دال میں کچھ کالا ہے جس کا سراغ لگانا اور علاج کرنا ضروری ہے۔
انہیں ’’قدسیت‘‘کے مسئلے کا پتہ چل گیا۔ متوکل امام کو شراب نوشی کی محفل میں لے آیا تا کہ یہ خبر ہرجگہ پہنچ جائے کہ علی بن محمد علیہ السلام تومتوکل کی دعوت میں شریک ہوئے جہاں شراب اور اسباب عیش و نوش فراہم تھے۔ آپ ذرا سوچئے کہ اس خبر کے عواقب کتنے خطرناک ہوتے۔
یہاں امام علیہ السلام نے ایک مجاہد انقلابی کا موقف اختیار کیا۔ آپ اس سازش کے مقابلے میں ڈٹ گئے۔ آپ متوکل کے دربار میں تشریف لےگئے۔ آپ نے اس کی محفلِ شراب کو معنویت کی محفل میں تبدیل کردیا۔ یعنی آپ نے حقائق کو بیان کرکے اور ملامت آمیز اشعار پڑھ کر متوکل کو مغلوب کیا یہاں تک کہ آپ کے آخری الفاظ کے ساتھ متوکل کھڑا ہوگیا۔ وہ آپ کےلئے غالیہ لے آیا۔  
(غالیہ : یعنی:وہ خوشبو جو مشک و عنبر سے مرکب ہو)
پھر اس نے آپ کو احترام کے ساتھ رخصت کیا۔ امام علیہ السلام نے متوکل سے فرمایا: ’’تیرا خیال ہے کہ تو یہاں بیٹھا ہے اور موت کا پنچہ تجھے اپنی گرفت میں نہیں لےگا ‘‘۔
یوں امام علیہ السلام موت کے مراحل کا ذکر کرتے گئے۔ آپ نے ان کیڑوں کا بھی ذکر فرمایا جو متوکل کےوجود میں پڑنے والے تھے۔ امام محفل کو مکمل طور پر منقلب کرنے کے بعد دربار سے باہر نکل گئے۔
اس سرد جنگ کی ابتدا تند مزاج اور مقتدر خلیفہ نے کی تھی۔ اس کا مدّ مقابل ایک نہتا جوان تھا جو بظاہر کمزور حریف تھا۔ اس کمزور حریف نے ایک نفسیاتی جنگ لڑی جس میں نیزہ اور شمشیر کارگر نہیں ہوتے۔ اگر ہم ہوتے تو ہم ہرگز یہ کام نہ کرسکتے۔ یہ امام کا کمال ہے کہ صورتحال کا صحیح ادراک کریں اور اس طریقے سے بات کریں جس سے خلیفہ خشمگین نہ ہو۔ امام کھڑے ہو کر شراب کے ساے شیشوں کو توڑ سکتے تھے لیکن یہ کوئی معقول ردّ عمل نہ ہوتا اور اس سے کوئی نتیجہ بھی حاصل نہ ہوتا لیکن آپؑ نے ایک انوکھا طریقہ استعمال کیا۔ واقعے کا یہ پہلو بہت اہم ہے۔
ائمہ علیہم السلام کی زندگی کے اس پہلو پر توجہ رکھیے کہ یہ بزرگ ہستیاں ہمیشہ جدوجہد میں مصروف رہتی تھیں۔ ان کی جدوجہد کی روح سیاسی تھی کیونکہ مسندِ حکومت پر براجمان حاکم بھی دین کا دعویدار تھا۔ وہ بھی دین کے ظاہری آداب کا خیال رکھتا تھا اور بعض اوقات امامؑ کے دینی نقطہ نظر کو قبول بھی کرتا تھا جیسا کہ مامون نے بعض موارد میں امام کے نظرئے کو قبول کیا۔ بالفاظ دیگر یہ لوگ گاہے امام کے فقہی نظریے کو قبول کرنے سے پس وپیش نہیں کرتے تھے۔ یہ لوگ اہل بیت کے خلاف اس لئے جدوجہد کرتے تھے کیونکہ اہل بیت اپنے آپ کو ’’امام‘‘سمجھتے تھے۔ درحقیقت حکمرانوں کے خلاف سب سے بڑی جدوجہد یہی تھی کیونکہ جو شخص حاکم بناہوا تھا نیز اپنے آپ کو امام اور پیشوا سمجھتا تھا وہ دیکھتا تھا کہ جن علامات اور قرائن کا کسی امام کے اندر موجود ہونا ضروری ہے وہ اس امام کے اندر موجود ہیں اور خود اس کے اندر موجود نہیں ہیں۔ چنانچہ وہ امام کو اپنی حکومت کےلئے خطرناک سمجھتا تھا کیونکہ اس کی نظر میں امام خلافت کے مدعی تھے۔ خلفاء اس مقصد کے تحت جنگ لڑتے تھے جبکہ ائمہ اطہارؑ پہاڑ کی طرح استقامت دکھا رہے تھے۔ بدیہی بات ہے کہ اس جدوجہد میں ائمہ علیہم السلام جن معارف ، فقہی احکام، باطنی صفات اور اخلاقیات کی ترویج کررہے تھے وہ اپنی جگہ مسلم ہیں۔زیادہ سے زیادہ شاگردوں کی تربیت اور شیعی ارتباطات کا دائرہ روز بروز وسیع تر ہوتا گیا۔ ان چیزوں نے تشیع کی حفاظت کی۔ آپ ایک ایسے مشن کا تصور کریں جس کی مخالفت حکومتوں کی طرف سے دوسو پچاس سال تک ہوتی رہی ہو۔ اسے تو مکمل طور پر مٹ جانا چاہئے تھا لیکن آپ دیکھئے کہ آج دنیا میں کیا کچھ ہورہا ہے اور شیعہ کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں۔
اس نکتے کا مشاہدہ ان اشعار میں بخوبی کیا جاسکتا ہے جو امام صادق، امام ہادی اور امام عسکریعلیہ السلام کی شان میں کہے گئے ہیں۔ یہ لوگ حق کی راہ میں مجاہدانہ جدوجہد کرتے تھے اور اسی جد وجہد کی خاطر شہید ہوئے۔ ان کا یہ سفر ایک واضح ہدف کی طرف رواں دواں رہا۔ گاہے کوئی راستے سے پلٹتا ہے اور کوئی دوسری جانب سے آگے بڑھتا ہے لیکن ہدف ایک ہی ہے۔ ان ائمہ کو امام حسین علیہ السلام کے دور سے زیادہ کامیابی حاصل ہوئی جبکہ امام حسین نے بنیادیں استوار کی تھیں کیونکہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد کوئی باقی نہ رہا:
اِرْتَدَّ النَّاسُ بَعْدَ الحُسَینِ إِلَّا ثَلَاثَةٌ
لیکن امام ہادی علیہ السلام کے زمانے میں ائمہ علیہم السلام نے پورے عالم اسلام میں اثر و نفوذ پیدا کیا تھا یہاں تک کہ بنی عباس بھی عاجز آگئے اور چکراگئے کہ آخر کیا کریں؟ چنانچہ انہوں نے شیعوں کا رخ کیا۔ ایک عباسی خلیفہ نے خط کے ذریعے حکم دیا کہ خطبوں میں اہل بیت کا نام لیا جائے اور یہ کہا جائے کہ حق اہل بیت کے ساتھ ہے۔ یہ خط تاریخ میں ثبت ہے۔
تاریخ کہتی ہےکہ وزیرِ دربار جلدی سے خلیفہ کے پاس آیا اور بولا: یہ آپ کیا کررہے ہیں؟ وزیر کو یہ کہنے کی جرأت نہ ہوئی کہ حق اہل بیت کے ساتھ نہیں ہے بلکہ اس نے کہا: آج طبرستان کے پہاڑوں اور دیگر مقامات پرکچھ لوگوں نے اہل بیت کے نام پر قیام کیا ہے۔ اگر آپ کی یہ بات ہرطرف پھیل جائے تو وہ ایک لشکر جمع کرلیں گے اور آپ کی جان کے درپے ہوجائیں گے۔ خلیفہ نے دیکھا کہ بات درست ہے۔چنانچہ اس نے حکم دیا کہ سرکلر کو تقسیم نہ کیاجائے۔ وجہ یہ تھی کہ انہیں اپنی حکومت کےلئے خطرہ محسوس ہوتا تھا۔ اگر انہیں اہل بیت سے عقیدت ہوجاتی تب بھی حبّ دنیا اور حبّ اقتدار ان کی قلبی اعتقاد کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا تھا۔ ۳۰/۶/۱۳۸۰ھ ش۔
=====٭٭٭٭٭=====

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک