معصومین(ع)کی ولادت کے اثبات اور نزول و ظہور کی رد میں ایک تحریر
معصومین کی ولادت کے اثبات اور نزول و ظہور کی رد میں ایک تحریر
بڑی مشہور کہاوت ہے کہ نیم حکیم خطرہ جاں ----اسی طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ نیم ذاکر خطرہء ایماں----میں ذاکر با عمل کی بات نھیں کررھا بلکہ ایسے ذاکر کی بات کررہاہوں جسنے کسی مکتب کا کبھی رخ نھیں کیا لیکن خود کو منبر رسول ص پہ بیٹھنے کے قابل سمجھتا ہے اور نہ صرف لاابالی گفتگو کرتا ہے ساتھ ہی ساتھ الفاظ کا استعمال کرکے لوگوں کے ایمان و عقیدہ سے کھیلتا ہے -----اور اسطرح شیعوں میں تفرقہ بازی ,انجمن سازی,اور گروپ ،پارٹیاں بن جاتی ہیں
اور افسوس تو ان مومنین پر ہوتا ہے جو ان نیم ذاکروں کےالفاظ کا شکار ہوجاتے ہیں اورانہیں کی غلط باتوں کو اپنا عین عقیدہ وایمان سمجھ بیٹھتے ہیں ------
آج کل فتنہ پرور لوگ شیعیت میں ایک لفظی بحث چھیڑے ہوئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ معصوم کی ولادت نھیں بلکہ نزول اور ظھور ہوتا ہے ولادت تو ہم انسانوں کی ہوتی ہے
آئییے دیکھتے ہیں کہ کیا انکا عقیدہ درست ہے یا نھیں ؟
سب سے پہلے تو ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان تفرقہ آور لوگوں کا ظہور یا نزول سے کیا مطلب ہے۔ یہ ٹوپی باز حضرات کہتے ہیں کہ معصومین(ع) کی ولادت نہیں ہو سکتی اور نہ ہی وہ اپنے اجداد کے اصلاب میں ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ اپنی امّہات (ماؤں) کے شکموں میں ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کی ولادت ہوتی ہے۔ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ معصومین(ع) آسمان سے ڈائریکٹ نازل ہوتے ہیں اور شکموں اور ارحام میں نہیں ہوتے۔ ان کے باطل عقیدے کی دلیل میں کوئی صریح حدیث نہیں ہے،
البتہ قرآن کی ایک آیت میں جہاں نور کے نزول کی بات کی گئی ہے وہاں وہ نور سے مراد آئمہ(ع) لیتے ہیں جبکہ قرآن کے حکم کے مطابق یہاں نور سے مراد قرآن پاک ہے جو رسول اللہ(ص) کے ساتھ ہدایت کے لئے نازل کیا گیا۔ اور اگر آئمہ(ع) مراد بھی ہیں تو اس حساب سے کہ وہ قرآن کی جیتی جاگتی تفسیر ہیں
احادیث کی طرف جانے سے پہلے ہم اس نظریہ کے نقصانات کی طرف اشارہ کرینگے
(1) جب ولادت کا انکار ہوگا تو شہادت کا بھی انکار ہوگا ﺍﻭﺭ جو معصومین کی زیارتگاہیں (مثلا کربلاونجف )ان کوصرف ایک علامتی نشان سمجھا جائےگا،
کیوںکہ جب کوئی شہید ہی نہیں ہوا ہو، ﺗﻮ ان قبروں اور زیارتگاہوں میں آخر کون دفن ہے؟؟؟
(2)دوسرا نقصان یہ ہے کہ ظہورونزول کے قائل افراد کو زیارت وارثہ کا انکار کرنا پڑے گا
کیونکہ زیارت وارثہ میں معصوم نے فرمایا -
«أَشْهَدُ أَنَّکَ کُنْتَ نُوراً فِی الْأَصْلَابِ الشَّامِخَهِ وَ الْأَرْحَامِ الطَّاهِرَهِ لَمْ تُنَجِّسْکَ الْجَاهِلِیَّهُ بِأَنْجَاسِهَا وَ لَمْ تُلْبِسْکَ الْمُدْلَهِمَّاتُ مِنْ ثِیَابِهَا»
میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ بلندترین اصلاب اور پاکیزہ ترین ارحام میں نور الہی بن کر رہے
یا اسی طرح
وَ أَشْهَدُ أَنَّ الْأَئِمَّةَ مِنْ وُلْدِكَ كَلِمَةُ التَّقْوَى
اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپکی اولاد کے امام سب کلمہ تقوی ہیں---------
یہ بات یاد رھے کہ صلب,رحم اور اولاد کا تعلق ولادت سے ہوتا ھے جہاں ظہور و نزول ہو وھاں ان الفاظ کا استعمال نھیں کیا جاتا لہذا اس عقیدے کو ماننے کے لئے زیارت وارثہ کا انکار کرنا ضروری ہوجائے گا
(3)رجب کی معصوم سے مروی دعا کا انکار کرنا پڑے اسلئے کہ اس دعا میں بھی معصوم کے لئے لفظ ولادت استعمال کیا گیا ہے
شیخ نے روایت کی ہے کہ ناحیہ مقدسہ سے شیخ ابوالقاسم کے ذریعے سے رجب کی دنوں میں پڑھنے کے لیے یہ دعا صادر ہوئی۔
اَللّٰھُمَّ إنِّی ٲَسْٲَ لُکَ بِالْمَوْلُودَیْنِ فِی رَجَبٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ الثَّانِی وَابْنِہِ
عَلِیِّ بْنِ مُحَمَّدٍ الْمُنْتَجَبِ، وَٲَتَقَرَّبُ بِھِمَا إلَیْکَ خَیْرَ الْقُرَبِ،
اے مبعود! ماہ رجب میں متولد ہونے والے دو مولودوں کے واسطے سے سوال کرتا ہوں جو محمد (ع)بن علی ثانی ﴿امام محمد (ع)تقی﴾اور ان کے
فرزند علی (ع) بن محمد (ع)﴿امام علی نقی(ع)﴾ بلند نسب والے ہیں ان دونوں کے واسطے سے تیرا بہترین تقریب چاہتا ہوں---------
(4) جب ولادت کا انکار ہوگا تو شہادت کا بھی انکار ہوگااور جب شہادت کا انکار ہوگا تو ماننا پڑے گا کہ امام
کو شہید کرنے والا بھی کوئی نہیں ہوگا لہذا ظالمین کو بری الذمہ قرار دینےہوگا
(5) وہ تمام زیارتیں اور دعائیں جو معارف و عقائد سے بھرپور ہیں اور جن میں لعن ذکر ہوئی ہے ان سے انکار کرنا ہوگا اسلئے کہ جب کسی نے شہید ہی نھیں کیا ہے تو لعن و طعن کیوں ؟؟؟
(6) جب ائمہ علیہم السلام پیداء ہی نہیں ہوتے ہیں تو نسل سادات کہاں سے وجود میں آگئی ؟؟کیا تمام سادات کا بھی ظہور ہوا ہے ؟یا یہ کہ ایک بناوٹی اور من گھڑٹ بات ہوگی لہذا اس عقیدے کے ماننے والےکو نسل سادات سے انکار کرنا پڑے گا
(7) حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا اور امام زمانہ عجل اللہ تعالی کے بارے میں جو روایات وارد ہوئی ہیں کہ: اپنی والدہ سے ان کے بطم میں گفتگو کیا کرتے تھے۔۔۔ان سب روایات سے انکار کرنا پڑے گا
(8),جو معصوم کے ظہور کا عقیدہ رکھتے ہیں انکو عید میلاد النبی ص کا انکار کرنا پڑے گا
دنیا کے تمام مسلمان خواہ شیعہ ہوں یا اھلسنت تمام فرقے نبی کی ولادت کو عید میلاد النبی کے نام سے یاد کرتے ہیں کسی نے بھی آپکی ولادت کو نزول یا ظہور سے یاد نھیں کیا ھے
لفظ مولید کا مصدر ,ولد, ایک عربی لفظ ہے۔ جس کے معنی تولید، یا جنم دینا، یا وارث کے ہیں۔
عصری دور میں مولد یا مولود لفظ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادتِ مبارکہ کو کہتے ہیں۔
میلاد النبی کے دیگر نام مختلف ممالک میں:
عید المولِد النبوی - ولادتِ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم (عربی)
عیدِ میلاد النبی - ولادتِ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم (اردو)
عیدِ میلاد النبی - (بنگلادیش، سری لنکا، مالدیپ, جنوبی بھارت)
مولدالنبی - (مصری عربی)
المولد - تیونس عربی (تیونسی عربی)
مولود صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم (عربی)
مولد النبی : (عربی)
مولید الرسول : : (ملائی)
مولید نبی : (انڈونیشیائی زبان)
مولود نبی : – (ملیشیائی)
مولیدی : – (سواحلی زبان, ھاوسا زبان)
مولودِ شریف : – (Dari / اردو)
مولود این-نبووی ایشریف : - (الجیری)
موولِدِ شریف / مولُت شریف : (ترکی زبان)
مولود / موولِد : – (بوسنین)
میولید : (البانوی)
میلادِ پیمبرِ اکرم : (فارسی)
مولود : (جاوانیس)
نبی جیانتی / مہا نبی جیانتی : (سنسکرت زبان, جنوبی ہند کی زبانیں).
یعنی کسی بھی زبان والے نے نبی اکرم کی ولادت کو ظہورونزول سے یاد نھیں کیا ھے بلکہ ولادت ہی سے یاد کیا ہے جو سب سچے مسلمانوں کا عقیدہ ہے اب جو لوگ ظہور مانتے ہیں وہ پہلے صدیوں سے چلتی آرہی عید میلادالنبی کا انکار کریں اور اس کا نام تبدیل کرکے عید ظھورالنبی رکھیں
(9)-امام علی ع کی ایک ایسی فضیلت جسمیں ان کا کوئی ثانی نھیں یعنی
امام علی کے لقب مولود کعبہ سے انکار کرنا ہوگا ------
وُلِدَ بِمَکَّةَ فِی الْبَیْتِ الْحَرَامِ یَوْمَ الْجُمُعَةِ الثَّالِثَ عَشَرَ مِنْ شَهْرِ اللَّهِ الْاَصَمِّ رَجَبٍ بَعْدَ عَامِ الْفِیلِ بِثَلَاثِینَ سَنَةً وَ لَمْ یُولَدْ قَطُّ فِی بَیْتِ اللَّهِ تَعَالَی مَوْلُودٌ سِوَاهُ لَا قَبْلَهُ وَ لَا بَعْدَهُ وَ هَذِهِ فَضِیلَةٌ خَصَّهُ اللَّهُ تَعَالَی بِهَا اِجْلَالًا لِمَحَلِّهِ وَ مَنْزِلَتِهِ وَ اِعْلَاءً لِقَدْرِهِ
جبکہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ھے کہ جناب فاطمہ بنت اسد نے کعبہ کے پاس کھڑے ہوکر فرمایا---
وبهذا المولود الذي في أحشائي الذي يكلّمني ويؤنسني بحديثه، وأنا موقنة أنّه إحدى آياتك ودلائلك لمّا يسّرت عليَّ ولادتي-----
اور تجھے اس مولود کا واسطہ کہ جو میرے بطن میں ھے جو مجھ سے باتیں کرتا ھے میری تنہائی میں مجھ سے گفتگو کرتا ہے مجھے یقین ھے یہ تیری نشانیوں میں سے ایک نشانی اور دلائل میں سے ایک دلیل ھے اسنے مجھ پر ولادت کو آسان بنادیا ہے (ـ الأمالي للطوسي: 706)
اسکے علاوہ تمام شعراء عرب نے امام کی آمد کو ولادت سے ہی یاد فرمایا ہے جیساکہ ,,1سید حمیری رح نے کہا
ولدته في حرم الإله وأمنه ** والبيت حيث فناؤه والمسجد
بيضاء طاهرة الثياب كريمة ** طابت وطاب وليدها والمولد
2یا شیخ حسین نجفی قدس سرہ نے فرمایا
جعل الله بيته لعلي ** مولداً يا له عُلا لا يضاهى
لم يشاركه في الولادة فيه ** سيّد الرسل لا ولا أنبياها
(1مناقب آل أبي طالب: 23.
3ـ الغدير 6/29.)
اھلسنت کے بڑے علماء، جیسے ابن صباغ مالکی 1،گنجی شافعی 2 شبلنجی 3 اور محمد بن ابی طلحہ شافعی 4 کہتے ہیں:
”ولم یولد فی البیت الحرام قبله احد سواه، وهی فضیلة خصه الله تعالی بها اجلالا له واعلاء لمرتبته واظهارا لتکرمته“۔
”حضرت علی علیہ السلام سے پہلے کوئی بھی کعبہ میں پیدا نہیں ہوا تھا۔
. ,1،الفصول المہمہ، ص۱۴۔
2. کفایة الطالب، ص۳۶۱۔
3. نور الابصار، ۷۶۔
4. مطالب السوٴل، ص۱۱۔
لہذا جابجا تمام لوگوں نے امام علی کے لئے ولادت کا ہی استعمال کیا ھے
(10)-اگر ولادت کو ظہور کے لفظ سے بدل دیا جائے تو سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ لوگوں کے ذہن میں امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ کی ظہور کی جو خصوصیات ہیں وہ سب ختم ہوجائےگی
آج تک جتنے علماء گذرے ہیں انہوں نے امام زمانہ عج کی ولادت کے بارے میں بحث کی ھے کہ کیا امام پیدا ہوئے ہیں یا نھیں یا بعد میں پیدا ہونگے جبکہ اکثر اھل تسنن مانتے ییں کہ آپکی ولادت ہوچکی ھے جیسا کہ
ابن خلکان م ۶۸۱ھ لکھتا ھے:
ابوالقاسم محمد ابن حسن عسکری ابن علی ھادی ابن محمد جواد مذکورہ بالا شیعوں کے بارہ اماموں میں سے بارھویں امام ھیں کہ ان کا مشھور لقب ”حجت﷼“ ھے۔۔۔ان کی ولادت جمعہ کے دن ۱۵/شعبان ۲۵۵ھ کو ھوئی ھے
لیکن ظھور کے بارے میں بے شمار احادیث مروی ہیں کہ آپکا ظھور آخری زمانے میں ھوگا لہذا اگر کچھ لوگ یہ مانتے ہیں کہ معصوم کا نزول یا ظہور ہوتا ہے انکو ماننا پڑے گا کہ امام زمانہ ابھی پیدا نھیں ھوئے ہیں اسلئے کہ احادیث میں آخری زمانے کی پیشنگوئی ہوئی ہے اور اگر کوئی اس بات کو نھیں مانتا تو وہ ان احادیث کا انکار کرے یا پھر یہ مانے کہ معصوم کی ولادت ہی ہوتی ھے نزول و ظہور نھیں
(11) کتب معتبرہ کا انکار ----
کیونکہ اھل تشیع کی تمام کتابوں میں معصومین ع کے لئے ولادت کا استعمال ہوا ہے بعض علماء نے تو باقاعدہ اپنی کتابوں میں ائمہ کی ولادت کے باب تک قائم کئے ہیں لہذا معصوم کے ظھور کے معتقد افراد کو تمام کتب شیعہ کا انکاری ہونا پڑے گا
آئیے اب چند روایات پیش کرکے اپنی بات کو ختم کرتا ہوں ---
شیخ کلینی نے "اصول کافی" کی دوسری جلد میں باقاعدہ ایک باب بنایا ہے جس کا نام ہے:
"بَابُ مَوَالِيدِ الْأَئِمَّةِ" یعنی "کیفیت ولادت آئمہ(ع)"۔
گویا ہمیشہ سے شیعوں میں جو لفظ مستعمل رہا ہے وہ ولادت کا ہی رہا ہے، یہ بعد میں آنے والے اتنے عقلمند ہو گئے جو معرفت کی ایسی باتیں درک کر لیتے ہیں جن کو ان سے قبل کسی نے درک نہیں کیا ہوتا۔
اس باب کی پہلی حدیث ہے جو کافی لمبی چوڑی ہے جس میں ابوبصیر روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک سال امام صادق(ع) کے ساتھ حج کیا تو راستے میں ابواء کے مقام پر امام موسی کاظم(ع) کی ولادت ہوئی۔ اس میں خود ابو بصیر بھی بار بار ولادت کا لفظ استعمال کر رہے ہیں اور امام(ع) بھی۔ جب امام صادق(ع) واپس آئے تو اصحاب نے مبارکبادی دی تو امام(ع) نے بتایا کہ جب یہ مولود پیدا ہوا تو اس نے اپنا ہاتھ زمین پر رکھا اور آسمان کی طرف رخ کیا، پھر امام(ع) نے بتایا کہ یہ رسول اللہ(ص) اور ان کے تمام جانشینوں کی علامت ہوتی ہے۔ امام(ع) پھر بتاتے ہیں کہ کیسے آئمہ(ع) کا نطفہ قرار پاتا ہے لیکن ہم اس پوری حدیث کا ذکر نہیں کریں گے کیونکہ یہ کافی طولانی حدیث ہے، امام(ع) پھر فرماتے ہیں:
وَ إِذَا سَكَنَتِ النُّطْفَةُ فِى الرَّحِمِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَ أُنْشِئَ فِيهَا الرُّوحُ بَعَثَ اللَّهُ تـَبـَارَكَ وَ تـَعـَالَى مَلَكاً يُقَالُ لَهُ حَيَوَانُ فَكَتَبَ عَلَى عَضُدِهِ الْأَيْمَنِ وَ تَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صـِدْقاً وَ عَدْلًا لا مُبَدِّلَ لِكَلِماتِهِ وَ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ وَ إِذَا وَقَعَ مِنْ بَطْنِ أُمِّهِ وَقَعَ وَاضِعاً يَدَيْهِ عَلَى الْأَرْضِ رَافِعاً رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ
اور جب امام کا نطفہ رحم مادر میں قرار پائے چار مہینے گزر جاتے ہیں تو اس میں روح پیدا کی جاتی ہے اور اللہ تبارک و تعالی ایک فرشتے کو مقرر کرتا ہوں جس کا نام حیوان ہے، جو (امام) کے دائیں بازو پر لکھتا ہے
"وَ تَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صـِدْقاً وَ عَدْلًا لا مُبَدِّلَ لِكَلِماتِهِ وَ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ"
اور جب وہ اپنے ماں کے بطن سے باہر آتا ہے تو اپنا ہاتھ زمین پر رکھتا ہے اور اپنا سر آسمان کی طرف کرتا ہے۔
اصول كافى جلد 2 صفحه 225 روايت 1
مـُحـَمَّدُ بـْنُ يـَحـْيـَى عـَنْ مـُحـَمَّدِ بـْنِ الْحـُسـَيْنِ عَنْ مُوسَى بْنِ سَعْدَانَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْقـَاسـِمِ عـَنِ الْحـَسـَنِ بـْنِ رَاشـِدٍ قـَالَ سـَمـِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تـَعـَالَى إِذَا أَحـَبَّ أَنْ يـَخـْلُقَ الْإِمـَامَ أَمَرَ مَلَكاً فَأَخَذَ شَرْبَةً مِنْ مَاءٍ تَحْتَ الْعَرْشِ فَيَسْقِيهَا أَبـَاهُ فـَمـِنْ ذَلِكَ يـَخـْلُقُ الْإِمـَامَ فـَيـَمـْكـُثُ أَرْبـَعـِيـنَ يَوْماً وَ لَيْلَةً فِى بَطْنِ أُمِّهِ لَا يَسْمَعُ الصَّوْتَ ثُمَّ يَسْمَعُ بَعْدَ ذَلِكَ الْكَلَامَ فَإِذَا وُلِدَ بَعَثَ ذَلِكَ الْمَلَكَ فَيَكْتُبُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ وَ تـَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صِدْقاً وَ عَدْلًا لا مُبَدِّلَ لِكَلِماتِهِ وَ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ فَإِذَا مَضَى الْإِمَامُ الَّذِى كـَانَ قـَبـْلَهُ رُفـِعَ لِهـَذَا مـَنـَارٌ مِنْ نُورٍ يَنْظُرُ بِهِ إِلَى أَعْمَالِ الْخَلَائِقِ فَبِهَذَا يَحْتَجُّ اللَّهُ عَلَى خَلْقِه
حسن بن راشد کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق(ع) کو کہتے سنا "اللہ تبارک و تعالی جب امام کو خلق کرنا چاہتا ہے تو ایک فرشتے کو حکم دیتا ہے کہ ایک شربت عرش کے نیچے سے لے کر امام کے والد کو پلائے۔ پس امام کی (جسمانی) خلقت اس شربت سے ہے۔ پھر چالیس شب و روز (امام) اپنی ماں کے شکم میں ہے اور اس دوران وہ کچھ سن نہیں سکتا، اور پھر ان کے کان سننے کے لئے کھل جاتے ہیں۔ اور جب ولادت ہوتی ہے تو اسی فرشتے کو مقرّر کرتا ہے کہ اس کی آنکھوں کے بیچ میں لکھے
وَ تـَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صِدْقاً وَ عَدْلًا لا مُبَدِّلَ لِكَلِماتِهِ وَ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ۔
اور پھر امام کو نور کا ایک مینار عطا کیا جاتا ہے جس سے وہ بندوں کے اعمال دیکھتا ہے اور جس کے ذریعے اللہ اپنے بندوں پر حجت تمام کرتا ہے۔
اصول كافى جلد 2 صفحه 228 روايت 2
لیکن قارئین آپ خود مشاہدہ کریں کہ ان تمام روایتوں جگہ جگہ ولادت کا ہی لفظ استعمال ہوا ہے، اور کہیں پر بھی نزول یا ظہور کا لفظ موجود نہیں ہے۔ بلکہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آئمہ(ع) کی ظاہری جسمانی خلقت ماں کے بطن میں ہی ہوتی ہے اور امام(ع) بھی اسی طرح تخلیق کے تمام مراحل سے گزرتا ہے جیسا کہ قرآن میں بیان کیا گيا ہے۔ البتہ ان کی ارواح پہلے سے خلق شدہ ہوتی ہیں اور ظاہر روایات سے یہی حاصل ہوتا ہے کہ ماں کے بطن میں چار ماہ گزرنے کے بعد ان کی روح ان کے جسم میں منتقل کر دی جاتی ہے۔ ان تمام احادیث سے ظہور یا نزول کا عقیدہ رکھنے والوں کی بے پناہ تردید ہوتی ہے.