امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

واقعہ حرہ اورامام زین العابدین علیہ السلام

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

واقعہ حرہ اورامام زین العابدین علیہ السلام
مستندتواریخ میں ہے کہ کربلاکے بے گناہ قتل نے اسلام میں ایک تہلکہ ڈال دیاخصوصا ایران میں ایک قوی جوش پیداکردیا،جس نے بعدمیں بنی عباس کوبنی امیہ کے غارت کرنے میں بڑی مدددی چونکہ یزیدتارک الصلواة اورشارب الخمرتھاا وربیٹی بہن سے نکاح کرتااورکتوں سے کھیلتاتھا ،اس کی ملحدانہ حرکتوں اورامام حسین کے شہیدکرنے سے مدینہ میں اس قدرجوش پھیلاکر ۶۲ ھء میں اہل مدینہ نے یزیدکی معطلی کااعلان کردیااورعبداللہ بن حنظلہ کواپناسرداربناکریزیدکے گورنرعثمان بن محمدبن ابی سفیان کومدینہ سے نکال دیا، سیوطی تاریخ الخلفاء میں لکھتاہے کہ غسیل الملائکہ (حنظلہ) کہتے ہیں کہ ہم نے اس وقت یزیدکی خلافت سے انکارنہیں کیاجب تک ہمیں یہ یقین نہیں ہوگیاکہ آسمان سے پتھربرس پڑیں گے غضب ہے کہ لوگ ماں بہنوں،اوربیٹیوں سے نکاح کریں ۔ علانیہ شرابیں پئیں اورنمازچھوڑبیٹھیں ۔
یزیدنے مسلم بن عقبہ کوجوخونریزی کی کثرت کے سبب ”مسرف“ کے نام سے مشہورہے ،فوج کثیردے کر اہل مدینہ کی سرکوبی کوروانہ کیااہل مدینہ نے باب الطیبہ کے قریب مقام”حرہ“ پرشامیوں کامقابلہ کیا،گھمسان کارن پڑا،مسلمانوںکی تعدادشامیوں سے بہت کم تھی باوجودیکہ انہوں نے دادمردانگی دی ،مگرآخرشکست کھائی ،مدینہ کے چیدہ چیدہ بہادررسول اللہ کے بڑے بڑے صحابی انصارومہاجراس ہنگامہ آفت میں شہیدہوئے، شامی شہرمیں گھس گئے مزارات کوان کی زینت وآرایش کی خاطرمسمارکردیا،ہزاروں عورتوں سے بدکاری کی ہزاروں باکرہ لڑکیوں کاازالہ بکارت کرڈالا،شہرکولوٹ لیا،تین دن قتل عام کرایا،دس ہزارسے زائدباشندگان مدینہ جن میں سات سومہاجروانصاراوراتنے ہی حاملان وحافظان قران علماء وصلحاء ومحدث تھے اس واقعہ میں مقتول ہوئے ہزاروں لڑکے لڑکیاں غلام بنائی گئیں اورباقی لوگوں سے بشرط قبول غلامی یزیدکی بیعت لی گئی۔
مسجد نبوی اورحضرت کے حرم محترم میں گھوڑے بندھوائے گئے یہاں تک کہ لیدکے انبارلگ گئے یہ واقعہ جوتاریخ اسلام میں واقعہ حرہ کے نام سے مشہورہے ۔ ۲۷/ ذی الحجہ ۶۳ ھء کو ہواتھا اس واقعہ پرمولوی امیرعلی لکھتے ہیںکہ کفروبت پرستی نے پھرغلبہ پایا، ایک فرنگی مورخ لکھتاہے کہ کفرکادوبارہ جنم لینااسلام کے لیے سخت خوفناک اورتباہی بخش ثابت ہوابقیہ تمام مدینہ کویزیدکاغلام بنایاگیا،جس نے انکارکیا اس کاسراتارلیاگیا، اس رسوائی سے صرف دوآدمی بچے ”علی بن الحسین“ اورعلی بن عبداللہ بن عباس ان سے یزیدکی بیعت بھی نہیں لی گئی ۔
مدارس شفاخانے اوردیگررفاہ عام کی عمارتیں جوخلفاء کے زمانے میں بنائی گئیں تھی یاتوبندکردی گئیں یامسماراورعرب پھرایک ویرانہ بن گیا،اس کے چندمدت بعدعلی بن الحسین کے پوتے جعفرصادق نے اپنے جدامجدعلی مرتضی کامکتب خانہ پھرمدینہ میں جاری کیا،مگریہ صحرامیں صرف ایک ہی سچانخلستان تھا اس کے چاروں طرف ظلمت وضلالت چھائی ہوئی تھی ،مدینہ پھرکبھی نہ سنبھل سکا، بنی امیہ کے عہدمیں مدینہ ایسی اجڑی بستی ہوگیاکہ جب منصورعباس زیارت کومدینہ میں آیاتواسے ایک رہنماکی ضرورت پڑی جواس کووہ مکانات بتائے جہاں ابتدائی زمانہ کے بزرگان اسلام رہاکرتے تھے

(تاریخ اسلام جلد ۱ ص ۳۶ ، تاریخ ابوالفداء جلد ۱ ص ۱۹۱ ،تاریخ فخری ص ۸۶ ،تاریخ کامل جلد ۴ ص ۴۹ ،صواعق محرقہ ص ۱۳۲) ۔
واقعہ حرہ اورآپ کی قیام گاہ
تواریخ سے معلوم ہوتاہے کہ آپ کی ایک چھوٹی سی جگہ ”منبع“ نامی تھی جہاں کھیتی باڑی کاکام ہوتاتھا واقعہ حرہ کے موقع پرآپ شہرمدینہ سے نکل کراپنے گاؤں چلے گئے تھے (تاریخ کامل جلد ۴ ص ۴۵) یہ وہی جگہ ہے جہاں حضرت علی خلیفہ عثمان کے عہدمیں قیام پذیرتھے (عقدفریدجلد ۲ ص ۲۱۶) ۔
خاندانی دشمن مروان کے ساتھ آپ کی کرم گستری
واقعہ حرہ کے موقع پرجب مروان نے اپنی اوراہل وعیال کی تباہی وبربادی کایقین کرلیاتوعبداللہ بن عمرکے پاس جاکرکہنے لگاکہ ہماری محافظت کرو، حکومت کی نظرمیری طرف سے بھی پھری ہوئی ہے ،میں جان اورعورتوں کی بے حرمتی سے ڈرتاہوں ،انہوں نے صاف انکارکردیا،اس وقت وہ امام زین العابدین کے پاس آیااوراس نے اپنی اوراپنے بچوں کی تباہی وبربادی کاحوالہ دے کرحفاظت کی درخواست کی حضرت نے یہ خیال کیے بغیرکہ یہ خاندانی ہمارادشمن ہے اوراس نے واقعہ کربلاکے سلسلہ میں پوری دشمنی کامظاہرہ کیاہے آپ نے فرمادیابہترہے کہ اپنے بچوں کومیرے پاس بمقام منبع بھیجدو، جہاں میرے بچے رہیں گے تمہارے بھی رہیں گے چنانچہ وہ اپنے بال بچوں کوجن میں حضرت عثمان کی بیٹی عائشہ بھی تھیں آپ کے پاس پہنچاگیااورآپ نے سب کی مکمل حفاظت فرمائی (تاریخ کامل جلد ۴ ص ۴۵) ۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک