امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

مذہب کی واپسی

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

مذہب کی واپسی

ہم کو اپنے کو خوش نصیب قرار دینا چاہئیے کہ ہمارے اس عہد مذہب کی واپسی کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ مذہب کی واپسی کے عمل کے ظاہری اور غیبی محرکات ہیں۔ انسان ہر طرح کے اصولوں کو آزما چکا۔ ہر فلصفہ کو اپنا چکا ۔ ہر پابندی کو قبول کر چکا۔ ہر طرح کی مطلق العنان آزادی اور بے راہ روی پرگامزن ہو چکا مگر ڈھاک کے تین پات والی صورت حال برقرار رہی۔ نہ چین تھا نہ چین ہے۔ نہ چین ملنے کی امید ہے۔ سکون کا پیاسا در در مارا پھرا مگر نہ صرف پایا رہا۔ بلکہ اس کی پیاس میں شدت کا اضافہ ہوتا گیا۔ آخر کار تھکا ہارا ۔ انسان اس مذہب کے گھاٹ کی چعف واپس ہونے لگا۔ جس کو چھوڑ کر اور چھوٹا سمجھ کر سراب کے وسیع و عریض میدان کی طرف اس کی وسعت اور چمک دمک دیکھ کر چلا آیا تھا ۔ گھاٹ پھر گھاٹ ہے۔ بنے ہوئے راستے ہی سےسرابی آزادی نے انسان سے مذہب کا گھاٹ چھڑایا تھا۔ آج سراب کی حقیقت کی معفت ہی نے مذہب کی واپسی کا عمل شروع کرایا ہے۔

حقوق انسانی کے سفر کا آج آخری سنگ میل " اقوام متحدہ " کرب کدہ بنا ہوا ہے۔ عیاری ۔ جوٹ توڑ۔ مکر و فریب کا گڑھ ہے۔ اور سارے اعمال بد انسانی حقوق کے نام پر انجام دیئے جا رہے ہیں جس طرح شکاری چارہ ڈالتا ہے اسی طرح بڑی طاقتوں کے عالمی نیک عالمی امداد عالمی قرض عالمی عدالت۔ سلامتی کو نسل وغیرہ کے چار ے ڈال رکھے ہیں جس کے ذریعہ چھوٹی قوموں کا شکار ہوتا رہتا ہے مشلاً ان کے خال مال پر قبضہ کرنا۔ پھر ان ہی کے ہاتھ کے مال کے مصنوعات کو گراں قیمت پر بیچنا۔ بھوک انسانوں کو ہتھیار فراہم کرنا تاکہ وہ اپنے ہی لہو کو پیئں اپنے ہی گوشت کو کھائیں اور اپنے ہاتھوں مر جائیں۔ ان کی سر زمین پر حفاظت علمی مدد۔ فنی تربیت کے نام پر قبضہ کرنا، مالکوں کو غلام بنا کر کام لینا۔ یہ اور اسی طرح کے ظالمانہ کام اقوام متحدہ کے ذریعہ آج کے مکار انسان انجام دے رہے ہیں۔ جس پر پڑتی ہے وہ محسوس کرنا ہے۔ جو ابھی چارہ کھانے میں مشغول ہے وہ فکر مستقبل سے بے نیاز ہے اور مگن ہے۔ جب چارہ ختم ہوگا تب محسوس کرےگا۔ اس عالمی عیار خانہ کے خلاف صرف ایران ہے جو حقائق کو بے نقاب کرتا رہتا ہے۔ اکیلا عالمی عیار خانہ کے خلاف صرف ایران ہے جو حقائق کو بے نقاب کرتا رہتا ہے۔ اکیلا مظلوموں کو متحدہ ہونے کے لئے پکارتا رہتا ہے ۔

چونکہ ایران کا جسم و قلب و دماغ سب مجروح ہو چکا ہے لہذا اس کو پوری طرح ہر مظلوم کے دکھ درد کا احساس ہے۔ اور اسی احساس کو وہ اپنے خون کی قیمت میں ہر مظلوم کے خون میں دوڑا دینا چاہتا ہے ۔ کچھ کو ہوش آنے لگا ہے۔ کچھ کان کھڑے کرنے لگے ہیں۔ کچھ نے سفر شروع کر دیا ہے۔ لیکن صدیوں کے عالمی استحصال کے مقابلہ میں ایران کی چند سالہ کوششیں ابھی محسوس نہیں ہوتی ہیں۔ جب کہ سارے ذرائع ابلاغ ایران کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں اور ایران نے اپنے لہو کے قطرات کے گرنے کی آواز کو اپنا ذریعہ بلاغ بنا رکھا ہے۔ دی الحال اور کوئی ذریعہ اس کے لئے ممکن بھی نہیں۔ بہرحال یہ ایرانی لہو کی ٹپ تُ انسانوں کو جگا رہی ہے۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ پہاڑ جتنا بڑھتا ہے حاصل ضرب اتنا ہی زیادہ آتا ہے دو کا دو گنا چار ہوتا ہے اور ہزار کا دو گنا ہزار ہوتا ہے۔ گنا نہیں بڑھتا وہ دو گنا ہی رہتا ہے مگر د کا حاصل صرف اکائیوں میں گنا جاتا ہے اور ہزار کا حاصل ضرب ہزاروں اور لاکھوں میں گنا جاتا ہے اسی طرح کام کا آغاز مشکل ہوتا ہے۔ 

رفتار سست ہوتی ہے۔ ماحصل کم ہوتا ہے۔ قربانی شدید و عظیم ہوتی ہے۔ لیکن جب کام چل مکلتا ہے تو مکہ کے تیرہ سال کے مسلمان تین سو بھی نہیں ہوتے ہیں اور مدینہ کے دس سال کے مسلمان لاکھوں ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح انشاٗ اللہ وہ دن دور نہیں ہے جب مذہب کی واپسی کا یہ ہلکا پھلکا عمل جو اس وقت سست رفتاری سے جاری ہے وقت آنے پر سیلابی اور طوفانی بنے گا۔ یہ مذہب کی واپسی کے ظاہری محرکات کی طرف چند اشارے تھے جو اس تحریر میں کئے گئے اور غیبی محرک جو اصلی محرک ہے وہ عہد ظہور مہدی کی روز بروز قریب ہے۔

چناچہ کل جن باتوں کا سنانا۔ بتانا نامکن تھا آج وہ شوق سے سنی اور سمجھی جا رہی ہیں۔ جن باتوں سے کل روکنا ناممکن تھا اور مذہب خس و خاشک کی طرح بد کرداری کے سیلاب میں بہتا دکھائی دے رہا تھا۔ آج اس سیلاب سے مفرت ہو چکی ہے مذہب جسے کل خس و خاشک سمجھا جاتا تھا آج اسی سے نشیمن کی تعمیر کی جا رہی ہے۔ انسان کی فطری محبت و فطری نفرت اجاگر ہو رہی ہے۔ ایسے موقع پر فطرت کی صحیح راہ نمائی بے حد ضروری ہے بے حد مفید ہے اور یہ رہبری سوائے اسلام کے سوائے اقوال معصوم کے۔ سوائے احکام معصوم کے کوئی نہیں کر سکتا۔

لیکن اس تاریخ حقیقیت سے ایک سکنڈ کے لئے آنکھ بند نہ ہونا چاہئے کہ جتنے ظلم شاہی و شا ہنشاہی نے کئے۔ اس سے زیادہ ظلم آزادی جمہوریت سو شلزم۔ کمیونزم نے کئے ہیں اور ان سب نے مل کر جتنے ظلم کئے ہیں مذہب کے نام پر مذہب کی آڑ میں وہ سارے مظلوم عیار مذہبیس سربرا ہوں نے کئے ہیں۔ تمام مذاہب نے جتنی برائیاں غلطیوں اور مظالم کئے ہیں ان کی ساری نفرطیں اسلام کے دامن پر بھی موجود ہیں یعنی واقعات و حالات و تاریخ کے آئنہ میں مذہبیت و لامذہبیت۔ مادیت و روحانیت۔ شاہی و آزادی سرمایہ داری اور کمیونزم سب کی صورت بالکل ایک طرح کی ہے اور یکساں ہے۔

صرف صدیوں کا عالمی مظلوم یعنی دین اہلبیت علیہم السلام جو دین الہیٰ ہے جو دین محمدی ہے۔ جو اصلی اسلام ہے جو کسی تاریخ کو اپنی تاریخ ماننے پر تیار نہیں ہے۔ اس کی تاریخ چودہ مظلوم معصومین کی تاریخ ہے یا ان شہداٗ علماٗ صالحین اور متقی افراد کی تاریخ ہے جنھوں نے اپنی فکر کو اپنے علم کو اپنے ذہن کو اپنے عقیدہ کو فکر معصوم کے تابع رکھا اور جنھوں نے عمل کی دنیا میں ہر سانس لینا اسی وقت جائز سمجھا جب اس کے جواز کو معصوم کی سند حاصل ہوئی مختصر یہ کہ تاریخ مذہب اہلبیت ۱۴ معصوموں کی تاریخ ہے۔ چاہے وہ مصر میں رہے ہوں یا ایران میں یا ہندوستان میں۔

ساری تاریخ میں صرف یہی تاریخ ہے جس کے دامن پر غیر کے خون کے دھبے نہیں ہیں اس لئے اس کے جسم پر غیروں کے لگائے ہوئے بےحساب زخم ضرور ہیں۔ لہذا نشر حقوق کے ساتھ پوری قوت کے ساتھ نشر مذہب اہلبیت علیہم السلام بھی ضروری ہے۔ ورنہ اگر قانون نا نافذ نہ ہوا تو قانون کا کوئی فائدہ نہیں تاریخ دین اہلبیت السلام میں قانون حقوق بشر ہمیشہ نافذ رہا ہے اور آج کا اسلامی ایران پھر اسی نفاذ کے لئے قربانیاں دے رہا ہے۔

آخر کلام میں اس بنیادی بات کی طرف متوجہ کرنا ہے کہ وقت بافذہ نہ قانون ساز اداروں کے پاس ہے نہ انتظامیہ اور عدلیہ کے پاس ہے نہ قومی حکومت کے پاس ہے نہ بین الاقومی تنظیموں اور اداروں کے پاس ہے نہ نام مذہب میں ہے نہ اسلام کے نام میں۔ اول و آخر قوت نافذہ و عقیدہ خدا و آخرت میں ہے۔ اسی عقیدہ سے مذہب اہلبیت شروع ہوتا ہے۔ اسی کے مطابق اس نے صدیاں طے کی ہیں اور اسی عقیدہ کے ذریعہ پوری انسانیت کو سکون دینے والا ظہور کرنے والا ہے۔ عہد ظہور ۔ عہد ظہور نہیں ہے۔ بلکہ نے چین انسانیت کی عالمی آرامگاہ ہے جس پر عقیدہ خدا و آخرت سایہ فگن ہے۔

باتیں بےحد اچھی ہوں تن بھی بیکار ہیں جب تک باتیں کرنے والے خود کو اچھائی کا نمونہ بنا لیں۔ کیا ہم غلامان اہلبیت علیہم السلام نے اپنے کو نمونہ بنانے کا ارادہ کر لیا ہے اگر ارادہ کر لیا ہے تو بسم اللہ عمل شروع ہو جانا چاہئے۔

حوالہ:

https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=186&view=download&format=pdf

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک