فضائل علی بہ زبان علی علیہ السلام
فضائل علی بہ زبان علی علیہ السلام
علی کو جاننا ایک مشکل کام ہے اور اس لامحدود فضائل کے حامل وجود کی کوئی معرفت حاصل نہیں کر سکتا اور ان کی ذات کا انسانی افق ہر طرح سے چھپا ہوا ہے کہ کسی کا وہم اور فکر ان کی شناخت نہیں کر سکتا اور ہر ایک نے انہیں کسی نہ کسی انداز میں اپنے اپنے نقطہ نظر سے دیکھا ہے۔ اور اس کے دوستوں نے اسے ایک عظیم شخص سمجھا ہے جس کو انہوں نے بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے اور خدا بنا لیا ہے۔ اور یہ وہی محب غال ہیں۔اور دوسری طرف ان کے دشمن بغض و کینہ میں اس قدر آگے چلے گئے کہ ان کو کافر کہ دیا ہے اور یہ وہی مبغض قال ہیں اور حضرت علی نے ان دونوں گروہوں کو ہلاک ہونے والے شمار کیا ہے۔ اور ضروری ہے کہ حضرت علیؑ کی شناخت کے لیے آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کی طرف توجہ دی جائے کہ آپؐ نے فرمایا کہ اے علی آپ کو خدا اور میرے سوا کوئی نہیں پہچان سکتا تو ہمارے لیے ضروری ہے کہ اس عظیم شخصیت کو خدا، رسول خدا اور خود ان کی زبان سے ان کو پہچاننے کی کوشش کریں۔
خدا نے قرآن مجید میں بہت سارے مقامات پر حضرت علی علیہ السلام کی شان کو بیان کیا ہے لیکن ان کے نام کو لیے بغیر صفات کو بیان کیا ہے تاکہ ان کے دشمن قرآن جیسی کتاب پر حملہ آور ہو کر نام علیؑ کو حذف نہ کر دیں اور قرآن جیسی کتاب میں تحریف نہ کر سکیں۔ لیکن قرآن کی آیات اس قدر واضح ہیں کہ کوئی بھی علیؑ کے علاوہ ان کا مصداق نہیں بن سکتا۔ علیؑ کو خدا اور رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مومنین کا آقا و سرپرست کہا کیونکہ خدا قرآن میں فرما رہا ہے کہ آپ کا سرپرست خدا و رسول خدا اور وہ ہیں جو نماز ادا کرتے ہیں اور رکوع کی حالت میں زکات دیتے ہیں۔ (سورہ مائدہ آیہ ۵۵)
اس فضیلت کا مصداق سنی مفسرین کے نزدیک بھی علیؑ کے علاوہ کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ علی کو آنحضرت کی رسالت کا گواہ بناتا ہے اور (علی وہ ہے کہ) جس کے پاس کتاب کا علم ہے: کہدیجئے: میرے اور تمہارے درمیان گواہی کے لیے اللہ اور وہ جس کے پاس کتاب کا علم ہے کافی ہیں۔ (سورہ رعد آیہ ۴۳) اگر کتاب تشریع، تکوین اور کتاب انسان مجھے مبالغہ والا نہ بنائے اور قرآن مجید جو کہ (تحریف)سے پاک ہے اور علم غیب اس میں رکھا گیا ہے کیونکہ یہ ساری کتابیں ہیں اور علی بھی اللہ کے نزدیک ایک کتاب ہے اور یہ ایک ہدیہ ہے جو کہ نبی اور علی جیسے پاک اور طاہر نفوس کو ہی ملتا ہے۔
ان سب سے اہم کہ ختم نبوت اور رسالت کی ادایئگی علی کی امامت کے اعلان کے ساتھ مشروط ہے۔ یعنی اگر نبی علی کی امامت کے اعلان میں لیت و لعل سے کام لے تو گویا اپنے وظیفہ پر عمل نہیں کیا (اے رسول! جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے اسے پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا۔ (سورہ مائدہ آیت ۶۷) اور جب خم کے میدان میں علی کی امامت کا اعلان ہوا تو گویا اسلام بھی مکمل ہو گیا خدا فرماتا ہے:
آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا۔ (سورہ مائدہ آیت ۳)
ایک اور مقام پر اللہ فرما رہا ہے: اللہ کا ارادہ بس یہی ہے ہر طرح کی ناپاکی کو اہل بیت علیہم السلام!
آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسے پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔ (سورہ احزاب آیت ۳۳)
اس کے علاوہ بہت ساری آیات حضرت علیؑ کی سان میں آئی ہیں کہ ہماری اس مختصر کتاب میں سب کو بیان کرنے کی گنجاش نہیں ہے ضروری ہے کہ اہل ذوق متعلقہ کتابوں کی طرف رجوع کریں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی علی علیہ السلام کے بارے میں آحادیث اس قدر زیادہ کہ شیعہ اور سنی کی کتب بھری پڑی ہیں ہر جگہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی علیہ السلام کے ایمان، عمل اور فیصلوں کی بات کی ہے اور فرمایا کہ علی کی جنگ خندق میں ایک ضربت ثقلین کی عبادت سے افضل ہے۔ علی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان، خون اور گوشت ہے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خلیفہ، جانشین اور علمدار ہے اور علی کو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسی سے ہے۔ علی وحی کی آواز سنتا ہے اور فرشتے کو دیکھتا ہے اور اسی طرح دسیوں آحادیث پیغمبر جو کہ آحادیث اور تفایسر کی کتب میں موجود ہیں اور اہل ذوق تفسیر مجمع البیان، برہان، المیزان اور صحاح ستہ، احقاق الحق، الغدیر، عبقات اور ینابیع المودۃ۔۔۔۔۔ کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔
لیکن افسوس اس بات کا ہے علی علیہ السلام کو اب بھی عالم اسلام یہاں تک کہ تشیع میں بھی صحیح طرح نہیں پہچانا گیا اور ان کی شخصیت مجروح کو کیا گیا ہے اور ابھی بھی حضرت علیؑ کا واسطہ محب غال اور مبغض قال سے ہے اور یہ آپ علیہ السلام کی مظلومیت کا ثبوت یہ ہے کہ آپ کو ابھی تک درست نہیں پہچانا گیا اور نہ ہی لوگوں کی ان کی پہچان کرائی۔ اور جب تک ہم ان کی درست معرفت حاصل نہیں کریں گے تو ان کی پیروی اور اطاعت نہیں کر پائیں گے اور جب تک ان کی اطاعت نہیں کریں گے ان کے شیعہ نہیں بن پائیں گے اور اس سعادت اور کمال تک نہیں پہنچ سکیں گے جس کے ہم منتظر ہیں۔
سنیوں کے ایک گروہ نے بے انصافی کرتے ہوئے حضرت علیؑ کو عثمان، سعد ابن ابی وقاص، عبد الرحمن بن عوف اور خالد بن ولید جیسے ظالموں کی صف میں لا کھڑا کیا کہ یہ سب عشرہ مبشرہ میں سے ہیں جب کہ کائنات کا اپنی نعمتون سمیت خاک سے کیا مقابلہ؟ حضرت علیؑ جیسی بزرگ اور معنوی شخصیت کہاں اور یہ منحرفین اور ظالمین کا گروہ کہاں؟ یہ وہ ہیں جنہوں نے کئی برسوں تک حضرت علی علیہ السلام کو منبر پر سب و شتم کیا ور ان کی اولاد اور سچے ماننے والوں کو شہید کیا اور ان کو تختہ دار پر لٹکایا اور زندان مین قید کیا لیکن وہ رشن و چمکتا ستارہ، انسانیت کا مربی، پاک و مقدس، کرامات دکھانے والا اور لوگوں کو اپنے فضائل و کمالات متعجب کرنے والا باقی رہا۔ ایک گروہ نے ان ایک داستانی اور ذہنی شخصیت بنا کر پیش کیا اور محبت سے ان کے بارے میں اشعار اور کہانیاں بنائیں اور ان کو آسمانوں پر بھیج دیا اور زمین کی قیادت سے ان کو دور کر دیا اور پیروی کرنے والوں کی دسترس سے دور پہنچا دیا اور حضرت کے لیے وہم پرست، ذلیل اور جاہل شیعہ بنائے جو کہ نہ فقط حضرت علی علیہ السلام کے لیے باعث افتخار نہیں ہیں بلکہ ان کے لیے باعث ننگ و عار بنے۔
شاعروں نے ان کی آنکھوں، اور ابرو کے بارے میں باتیں کی اور ان کے قد و قامت اور بالوں کی سیاہی اور رخساروں کی سفیدی کو بیان کیا جو کہ درویشوں کے ہاتھ لگے اور ان درویشوں کی فضولیات اور بیکار باتیں حضرت علیؑ کے باعث ننگ اور عار بنیں ۔ اہل نقاش نے ان کو سنہری گنبد اور تخت پر بٹھا دیا اور دو شیروں کی ان کے ساتھ بٹھا دیا اور دو تلواریں ان کے زانوں پر رکھ دیں اور علی علیہ السلام کو قتل و غارت کرنے والا پیش کیا اور عیسائیوں نے ان ساری صفات والا پایا تو انہیں ایک بد صورت قیافہ اور بے رحم شخص کے طور پر پیش کیا اور آپ کو جنگی اوزار جیسا کہ زرہ، تلوار وغیرہ ان کی پہنا دی تاکہ لوگوں کو بتا سکیں کہ اسلام ایک قتل و غارت اور بے رحم دین ہے اور یہ اس دین کے امام ہیں۔
کچھ صوفیوں نے حضرت کے نام حق ھو کا نعرہ لگایا اور آپ علیہ السلام کو خدا سے بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور دسیوں بیہودہ باتیں ان کی طرف منسوب کیں اور ناد علیؑ پڑھا اور ان کے ان نمازیں پڑھیں اور عیسائیوں اور ہندوں کی رسومات کو زندہ کیا اور توحید جس کے لیے حضرت علیؑ نے قربانیاں دی تھیں اس کو داغ دار کر دیا اور مسجد سے خانقاہوں کی طرف چلے گئے اور وہم پرستی کی طرف چلے گئے۔
جاہل خطبا منبر پر بیٹھ گئے اور قرآنی آیات، احادیث نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور خود حضرت علیؑ کے نہج البلاغہ کے خطبوں کی بجائے اشعار اور قصوں کو بیان کیا اور علیؑ کو کامیاب زندگی کے لیے رہبر و رہنما کی بجائے فقط قبر کی پہلی رات اور پل صراط پر مدد کرنے والے کے طور پر پیش کیا اور ولایت علیؑ رکھنے والے کو گناہوں کے باوجود کھلی چھٹی دے کر آپ علیہ السلام کو شفیع بنا دیا اور جاہل لوگوں کو گناہ کرنے کے لیے گستاخ بنا دیا۔ اور حضرت علی علیہ السلام کے فضائل کو بڑھانے کی بجائے کم کر دیا اور فضول داستانوں کے ذریعے تشیع کو ایک خرافات اور وہم پرست گروہ کے طور پر پیش کیا اور دشمنان کو موقع فراہم کیا کہ وہ شیعہ کو مشرک، مھدور الدم (جس کو قتل کرنا جائز ہو) سمجھنے لگے اور اس کے ذمہ دار احمد امینی، موسی جرال، فرید وجدی اور شہرستانی وغیرہ ہیں اور اگر علامہ امینی، سید شرف الدین اور کاشف الغطا جیسے مصلح نہ ہوتے تو نہیں معلوم کیا کیا بلائیں اور بد بختیاں تشیع پر آتیں۔
اور ہم کہتے ہیں کہ بہتر یہ ہے کہ علی علیہ السلام کو ان کی زبان، عمل، سیرت، اخلاق اور عبادت سے خود ان ہی کے ذریعے پہچانیں اور پہچنوائیں، اور عظیم شیعہ مکتب فکر کو جو علی علیہ السلام اور ان کے سچے جان نثار شیعوں کے خون سے سینچا گیا ہے، زندہ کریں۔ اور انسانیت کو اس مقدس مکتب کے سائے میں ایمان، عدل، امن، آزادی، تقویٰ، پاکبازی، انسان دوستی اور تمام اخلاقی خوبیوں کے سر چشمے کی طرف رہنمائی کریں۔ اب ہمیں علیؑ کو علی علیہ السلام کی زبان اور ان کی عظیم اور دائمی کتاب ”نہج البلاغہ“ سے پہچاننا چاہیے، اور جہالت کے غبار کو ان کے روشن آسمانی چہرے سے صاف کرنا چاہیے۔ یہاں ایک سوال اور تنقید پیدا ہوتی ہے کہ علی علیہ السلام نے خود اپنی تعریف کی اور اپنی مدح سرائی کی؟ کیا اپنی تعریف کرنا انسانی اخلاقیات کے اصولوں کے مطابق غلط اور تکبر کا نشان نہیں؟
اس سوال اور اعتراض کا جواب انتہائی مدلل اور پر اثر انداز میں پیش ہے: ہم کہتے ہیں کہ درحقیقت ہمارے سامنے دو علی موجود ہیں:
۱۔ علی ابن ابی طالب (ایک عام انسان اور مومن بندے کی حیثیت سے)
۲۔ علی امیرالمومنین (امام المسلمین، خدا کی حجت اور ولی اللہ کی حیثیت سے)
یہ علی ابن ابی طالب ہی ہے جو علی امیرالمومنین کی تعظیم کرتا ہے۔ یہ دونوں شخصیتیں اس طرح یکجا ہوتی ہیں کہ غدیر کے دن ایک وجود میں جمع ہو جاتی ہیں۔ علی ابن ابی طالب (ایک عام مسلمان کی حیثیت سے) دوسرے مسلمانوں کی طرح علی امیرالمومنین کی امامت پر ایمان رکھتے ہیں۔ وہ پہلے شخص ہیں جو اپنی امامت پر یقین رکھتے ہیں، جیسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)اپنی رسالت پر ایمان رکھتے تھے اور ”اول المسلمین“ تھے۔ قرآن کریم کے فرمان "آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ” (البقرہ:285) کے مطابق، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب سے پہلے اپنی نبوت پر ایمان لائے۔ اسی طرح اذان اور تشہد میں
"وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ”
کا اقرار خود بھی کرتے تھے کیونکہ اگر اس طرح نہ کرتے تو نماز درست نہ ہوتی۔
امام علیؑ کا اپنی تعریف کرنا درحقیقت بطور امام اپنی تعریف کرنا ہے، کیونکہ وہ خود اپنی امامت کے معتقد اور اقرار کرنے والے تھے۔ مزید یہ کہ وہ اپنے حق کا دفاع کر رہے تھے اور حق کا دفاع واجب ہے چاہے وہ حق خود انہی سے متعلق ہو۔امام علیؑ فرماتے ہیں: ”میرا مقام اجتماع کی سرپرستی اور ولایت میں اس پتھر کی مانند ہے جو چکی کے مرکز میں ہوتا ہے“ (نہج البلاغہ، خطبہ 96)۔
کیا ہی خوبصورت تشبیہ اور درست مثال ہے! کیا یہ سچ نہیں کہ بھاری چکی کا پتھر اپنے محور کے گرد گھومتا ہے اور محور بذات خود پانی کے دباؤ سے حرکت کرتا ہے؟ بالکل اسی طرح صرف امام ہی ہے جو معاشرے کی چکی کو گھما سکتا ہے اور عوام کو اس طرح گردش کرنے پر مجبور کر سکتا ہے جیسے ستارے عظیم خلافت کے مدار پر بغیر کسی انحراف کے گردش کرتے ہیں۔
جس طرح محور پانی کے زور سے حرکت کرتا ہے، اسی طرح امام آسمانی وحی کے آبشار کی طاقت سے حرکت کرتا ہے اور آسمانی الہام کی بلندیوں سے قوت حاصل کرتا ہے۔ اس کا علم اور طاقت اللہ تعالیٰ کے لازوال علم و قدرت سے پھوٹتا ہے۔ کوئی اور شخص امت کی رہنمائی کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ یہ علیؑ ہی ہیں جنہوں نے خدا کے حکم سے ایسی معرفت اور طاقت حاصل کی ہے۔
وہ مزید فرماتے ہیں: میرے وجود کے پہاڑوں سے علم کی سیلابی نہریں بہتی ہیں اور فکر کے پرندے کو میری بلندیوں تک پرواز کرنے کی طاقت نہیں۔ میں جانتا ہوں کہ پہاڑوں کو آسمان سے پانی ملتا ہے جو ان کے سینے سے ہو کر کھیتوں میں بہہ جاتا ہے۔
اسی طرح حضرت علیؑ کا علم آسمانی وحی الٰہی سے پیدا ہوتا ہے جو درحقیقت قرآن کریم کا وسیع علم ہے، اور وہاں سے مستعد انسانوں کے دلوں کے کھیتوں میں جاری ہوتا ہے۔ صرف ولایت و خلافت الٰہی کا مقام رکھنے والا ہی اس قابل ہوتا ہے کہ اس فیض کے مسلسل نزول کو قبول کرے اور اس کے سیلاب کو رواں کرے، تاکہ علم کے پیاسے انسانوں کے دلوں کو سیراب کر سکے۔ یہ پہاڑ اتنا بلند و بالا ہے کہ گہری سوچ کے پرندے بھی اس کی چوٹی تک نہیں پہنچ سکتے، نہ ہی اس کی حیرت انگیز بلندی کو سمجھ سکتے ہیں جو غیب کے بادلوں میں گم ہو گئی ہے۔حضرت علیؑ نے اس لامتناہی بلندی کو پا لیا تھا اور حق کو اس طرح دیکھ لیا تھا کہ یقین کے مقام پر پہنچ گئے تھے، جیسا کہ آپؑ فرماتے ہیں: (جس دن میں نے حق کو دیکھ لیا، اس میں کبھی شک نہیں کیا) حقائق ان پر اس قدر واضح تھے کہ فرماتے ہیں:
”اگر پردے ہٹا بھی دیے جائیں تو میرے یقین میں اضافہ نہیں ہوگا“۔
حیرت کی بات ہے کہ حضرت علیؑ فطرت کے پردوں کے پیچھے چھپے حقائق سے آگاہ تھے اور غیب کی دنیا پر نگاہ رکھتے تھے۔ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز ان کا یہ بیان ہے کہ وہ غیب کے پردوں کے پیچھے سے مشاہدے کے مقام تک پہنچ گئے تھے اور دل کی آنکھ سے خدا کے جمال کو دیکھ چکے تھے، جیسا کہ فرماتے ہیں: ”میں نے اس خدا کی عبادت کی ہے جسے میں نے دیکھا ہے“۔ اس مقام پر وہ حضرت موسیٰ کلیم اللہ سے بھی بلند ہو گئے جنہوں نے خدا کو دیکھنے کی خواہش کی تو "لَنْ تَرَانِیْ” (تم مجھے نہیں دیکھ سکتے) کا جواب ملا۔حضرت علی علیہ السلام اگرچہ نبی نہیں تھے، لیکن وہ نبیوں کی طرح آسمانی پیغامات سے آگاہ تھے، الٰہی وعدوں کو جانتے تھے اور ہدایت کے رموز کو پہچانتے تھے اور فرماتے ہیں:
خدا کی قسم!
میں آسمانی پیغامات، تمام الہٰی وعدوں اور کامل الہامات سے آگاہ ہوں۔ حکمت کے خزانے اور ہدایت کی روشنی ہم پیغمبر کے گھرانے کے پاس ہے۔ (نہج البلاغہ، خطبہ 98)
حضرت علیؑ کی خلافت اور حکومت ایک الہٰی معاملہ ہے۔ وہ رہبری اور پیشوائی کو ذاتی مفاد کے لیے نہیں چاہتے تھے، نہ ہی ولایت کے مقام کو عوامی خواہشات کا کھلونا بناتے تھے۔ بلکہ وہ اس بلند منصب سے محض اس لیے وابستہ تھے کہ لوگوں کو خدا کی طرف رہنمائی کریں اور اس راہ میں اللہ کی رضا حاصل کریں۔ اسی وجہ سے جب لوگوں نے آپؑ کو اپنے دنیاوی مقاصد کے لیے منتخب کرنا چاہا تو آپؑ نے فرمایا:
”تمہارا اور میرا کام یکساں نہیں۔ تم مجھے اپنے لیے چاہتے ہو جبکہ میں تمہیں خدا کے لیے چاہتا ہوں۔ پس میری مدد کرو تاکہ میں تمہیں ہدایت اور تکامل کی طرف لے جا سکوں۔ خدا کی قسم! میں مظلوم کا حق چھین کر لوں گا اور ظالم کو روکوں گا یہاں تک کہ اسے حق اور عدل کے چشمے تک پہنچا دوں“۔ (نہج البلاغہ، خطبہ 99)
حضرت علیؑ ایک لمحے کے لیے بھی اللہ اور اس کے رسولؐ کے حکم سے غافل نہیں رہے۔ آپؑ نے حق کے دین کو پھیلانے کے لیے خود کو خطرناک مقامات میں ڈالا اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کے آخری لمحے تک آپؑ کے ساتھ رہے، جیسا کہ خود فرماتے ہیں: میں نے اللہ اور اس کے رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں ایک لمحے کے لیے بھی شک نہیں کیا۔ میں نے اپنی جان کو ان خونریز معرکوں میں ڈال دیا جہاں بڑے بڑے بہادر گھٹنے ٹیک دیتے تھے۔ یہ بہادری مجھے خدا نے عطا کی تھی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میری گود میں اپنی جان خدا کے سپرد کی اور ان کی مقدس روح انتقال کرتے وقت میرے چہرے پر جلوہ فگن ہوئی۔ (نہج البلاغہ خطبہ 100)
حضرت علیؑ اور ان کی عظیم اولاد کی شناخت جو امامت کے بلند مقام پر فائز ہوئے، انتہائی مشکل کام ہے۔ صرف وہ مومن جن کے دل خدا کی آزمائش میں کامیاب ہو چکے ہوں، ان کے مقام کی حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں۔ کیونکہ علیؑ آسمانی ہدایت کے راستوں کو زمینی راستوں سے بہتر جانتے تھے اور فرماتے ہیں: ہمارا کام اور ہماری پہچان انتہائی مشکل ہے۔ صرف اللہ کے وہ مومن بندے جن کے دل الہٰی آزمائش میں کامیاب ہو چکے ہوں، اسے سمجھ سکتے ہیں۔ ہماری باتیں پاک دلوں کے خزانوں میں محفوظ ہوتی ہیں۔ قبل اس کے مجھے کھو دو جو کچھ مجھ سے پوچھنا چاہو، پوچھ لو کیونکہ میں آسمانوں کے راستوں کو زمین کے راستوں سے بہتر جانتا ہوں۔ (نہج البلاغہ خطبہ 101)
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ حضرت علیؑ اپنی ذات کے تمام پہلوؤں میں کمال کی انتہائی منزل تک پہنچ چکے تھے۔ علم و فکر کے میدان میں اس قدر بلند تھے کہ فرماتے ہیں: جو چاہو مجھ سے پوچھ لو، اور ان کے وسیع علم کی کوئی حد نہیں تھی۔ روحانی مقام میں اس قدر بلند ہو چکے تھے کہ غیب اور ماورائی راستوں کو ظاہری اور طبیعی راستوں سے بہتر جانتے تھے۔ جسمانی طاقت کے میدان میں بھی اس قدر قوی تھے کہ فرماتے ہیں: اگر دشمن زمین کے تمام بلندیوں اور نشیبوں پر قبضہ کر لے، تب بھی میں کبھی دشمن کو پیٹھ نہیں دکھاؤں گا اور نہ ہی خوف کھاؤں گا۔ اور پھر فرماتے ہیں: اگر تمام عرب مجھ سے جنگ کرنے اٹھ کھڑے ہوں، میں ان کے سامنے سے پیٹھ نہیں پھیروں گا۔ اور اپنی ان قہرمآب جنگی کارناموں کے بارے میں جنہوں نے شرک کو نیست و نابود کیا اور اسلام کے دین کو پھیلایا، فرماتے ہیں: میں وہ ہوں جس نے عرب کے بہادروں کے سینے خاک آلود کیے اور ان کے دلیروں کے شانوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ (نہج البلاغہ خطبہ 102)
لیکن یہ تمام قوتیں، حکمتیں اور امتیازات وہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منسوب کرتے ہیں۔
ایک جگہ فرماتے ہیں: ”وہ بہادری جو اللہ نے مجھے عطا کی“، اور دوسری جگہ اپنے آپ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گود میں پلا بڑھا ہوا بتاتے ہیں: تم جانتے ہو کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کتنا قریبی رشتہ اور خصوصی تعلق رکھتا تھا۔ جب میں بچہ تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے اپنی گود میں لیتے، اپنے سینے سے لگاتے، اپنے بستر پر سلایا کرتے تھے۔ میں آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جسم مبارک کو چھوتا اور خوشبو محسوس کرتا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے منہ میں لقمہ ڈالتے تھے۔ آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی نہ میری بات میں جھوٹ دیکھا، نہ میرے عمل میں لغزش۔ میں اونٹ کے بچے کی طرح ہمیشہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے پیچھے رہتا تھا۔ ہر روز میرے لیے نیکی کا پرچم بلند کرتے اور اس کی پیروی کا حکم دیتے تھے۔
میں ہر روز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ غار حرا میں ہوتا تھا۔ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھتا تھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو میرے سوا کوئی نہیں دیکھتا تھا۔ پہلے گھر میں جس کے افراد اسلام لائے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، خدیجہؑ اور میں تیسرا فرد تھا۔ میں وحی الٰہی کی روشنی دیکھتا اور رسالت کی خوشبو محسوس کرتا تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے تھے: ”جو میں سنتا ہوں تم سنتے ہو، جو میں دیکھتا ہوں تم دیکھتے ہو۔ تم نبی نہیں ہو لیکن میرے وزیر ہو، تم برحق ہو اور امام ہو“۔ پھر عرض کی: ”اے میرے رب! میں پہلا شخص ہوں جس نے تیری طرف رجوع کیا، تیرے رسول کی دعوت کو سنا اور قبول کیا۔ سوائے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کسی نے مجھ پر نماز میں سبقت نہیں کی اور تیری عبادت کے لیے کھڑا نہیں ہوا”۔ (نہج البلاغہ خطبہ 103)
دوسری جگہ حضرت علیؑ اپنے آپ کو صدیقین، ابرار، سنت الٰہی کے احیا کرنے والوں اور جنت کے ساتھیوں میں شمار کرتے ہوئے فرماتے ہیں: میں ان لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے اللہ کی راہ میں ملامت کرنے والوں کی پروا نہیں کی، ان کے چہرے صدیقوں کے چہرے تھے اور ان کی باتیں نیک لوگوں کی باتیں تھیں، وہ راتوں کو عبادت سے زندہ کرتے اور دنوں کو حق کے راہرووں کے لیے روشن کرتے تھے۔ وہ قرآن سے چمٹے رہتے، اللہ اور اس کے رسول کی سنت کو زندہ رکھتے تھے۔ وہ تکبر نہیں کرتے تھے، خود کو برتر نہیں سمجھتے تھے، نہ دھوکہ باز تھے نہ بدکار۔ ان کے دل جنت میں تھے جبکہ ان کے جسم نیک اعمال میں مشغول تھے۔ (نہج البلاغہ خطبہ 104)
عمل صالح کا مقام حسنات سے کہیں بلند ہے۔ حسنات ایک جذباتی کام ہے جس میں محبت اور انسان دوستی کا پہلو پایا جاتا ہے، جیسے بھوکوں کو کھانا کھلانا، بیماروں کا علاج کرنا، بے گھروں کو پناہ دینا اور ننگوں کو کپڑے پہنانا۔ اگرچہ یہ سب نیک اعمال ہیں، لیکن سطحی نوعیت کے ہیں جن میں تنظیم اور منصوبہ بندی کا عنصر نہیں ہوتا۔ ہر مذہب اور مکتب فکر کے لوگ ایسے کام کرتے ہیں، خاص طور پر دولت مندوں اور سرمایہ داروں کا طبقہ جو اپنے جذباتی اضطراب کو تسکین دینے یا محروموں کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ایسے اقدامات کرتا ہے۔ وہ سیاہ دولت محتاجوں کے دامن میں ڈال کر اپنے نفس کو آرام پہنچاتے ہیں۔ اگر وہ مسلمان ہوں تو اسے انفاق کا نام دے کر اپنے لیے جنت کے غرفے تیار کر لیتے ہیں تاکہ دنیا بھی مل جائے اور آخرت بھی، خلق بھی خوش ہو جائے اور خدا کی رضا بھی حاصل ہو جائے۔
لیکن عمل صالح ا یک منظم کوشش، ترقی پسند تحریک اور انسانی اقدار کی پیشرفت کا نام ہے جو معاشرے کو حرکت میں لاتا ہے، صلاحیتوں کو بیدار کرتا ہے، ظلم کا خاتمہ کرتا ہے اور ایسی برادری وجود میں لاتا ہے جہاں محتاج اور دولت مند کا فرق مٹ جاتا ہے، جہاں احسان و بخشش کی ضرورت نہیں رہتی، جہاں سب فطرت کے بے پایاں دسترخوان پر برابر کی حیثیت سے بیٹھتے ہیں۔ یہیں پر جہاد، قربانی اور عمل صالح کا دائرہ شروع ہوتا ہے جو شعور، بصیرت اور بیداری پیدا کرتا ہے، ذہنوں کو متحرک کرتا ہے، معاشرے کو اصولوں پر استوار کرتا ہے، طبقاتی فرق مٹاتا ہے اور امت مسلمہ کو ایک جان کر دیتا ہے۔ قرآن کریم میں ہر جگہ ایمان کے ساتھ عمل صالح کا ذکر ملتا ہے۔ مومن وہی ہے جو عمل صالح کرے اور جو عمل صالح کرے وہی مومن ہے۔جنت درحقیقت عمل صالح ہی کا نتیجہ ہے۔ یعنی خدا سے ملاقات کا مقام، حق کی دیدار، ہمیشگی اور ابدیت کا حصول۔ اس بلند معنوی مقام تک وہی پہنچ سکتا ہے جس کے پاس عمل صالح کی غیر معمولی توانائی ہو۔ پس عمل صالح ہاتھ، زبان، فکر اور جسم کا وہ کام ہے جس کا اثر روح اور دل تک پہنچتا ہے، دل کو جنت کی طرف لے جاتا ہے۔ جو شخص اس دنیا میں جنت تعمیر کرتا ہے، وہ آخرت میں بھی جنت پاتا ہے۔ نہ کہ انفرادی جنت بلکہ اجتماعی جنت۔
حضرت علیؑ ایمان و عمل صالح کے سب سے بڑے مظہر ہیں جنہوں نے خشیت الٰہی، رضا اور کامل انسانیت کے اعلیٰ ترین مقام کو حاصل کیا۔ قرآن مجید فرماتا ہے: جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے، وہی بہترین مخلوق ہیں۔ ان کا بدلہ ان کے رب کے پاس ہے، خدا ان سے راضی ہے اور وہ خدا سے راضی ہیں۔ یہ مقام اس کے لیے ہے جو اپنے رب سے ڈرتا ہو۔ خشیت دانا اور باشعور لوگوں کا مقام ہے جس میں حضرت علیؑ سرفہرست ہیں۔ قرآن فرماتا ہے: اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہوں۔ یہ خشیت وہ عام خوف نہیں جو غلاموں کو اپنے آقاؤں کے کوڑوں اور تشدد سے ہوتا ہے، بلکہ یہ ذات باری تعالیٰ کے عظیم مقام کا خوف ہے۔ اس میں بندے کے دل کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور وہ خدا کو اس کی عظمت و جلال کی بلندیوں میں دیکھتا ہے۔ اس عظمت اور بزرگی کو دیکھ کر وہ سرا سیمہ ہو جاتا ہے اور اس مقام کو پا لیتا ہے جہاں مخلوق اپنے عظیم و کریم خالق کے سامنے کانپ اٹھتی ہے۔ یہی وہ خشیت کا بلند مقام ہے جس تک کوئی نہیں پہنچ سکتا سوائے سچے پیغمبروں اور معصوم اماموں کے، جن میں حضرت علیؑ سر فہرست ہیں۔
اب اگر کوئی خواہش کرے کہ وہ حضرت علیؑ کے بارے میں محض خیال، وہم، افسانے، داستانوں یا شاعری کے ذریعے کوئی مقام گھڑ لے، تو وہ کبھی بھی ان کے اس حقیقی اور بلند مقام کو نہیں سمجھ سکتا۔ سورہ بینہ کی آخری آیت جس کے بارے میں شیعہ، اہل تسنن مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ حضرت علیؑ ہی کے شان میں نازل ہوئی جب آپؑ مسجد میں داخل ہوئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:
”خیر البریہ (بہترین مخلوق) آ گیا“ ۔ حضرت علیؑ اپنی ان گراں قدر خدمات کا ذکر کرتے ہوئے جو انہوں نے بہتر انسانوں کی تعمیر کے لیے انجام دیں، فرماتے ہیں: کیا میں وہ نہیں تھا جس نے تمہارے درمیان قرآن کریم کے حکم کے مطابق جو پیغمبرؐ کا بھاری اور گرانقدر یادگار ہے، عمل کیا؟
کیا میں نے پیغمبرؐ کی عترت جو نبوت کی ہدایت کا عملی نمونہ ہے، تمہارے درمیان نہیں چھوڑی؟ کیا میں نے ایمان کا پرچم بلند نہیں کیا؟ کیا میں نے تمہیں پاکی اور ناپاکی کی حدود سے آگاہ نہیں کیا؟ کیا میں نے تمہارے جسموں پر سلامت و انصاف کا لباس نہیں پہنایا؟
کیا میں نے حق کی باتیں تمہارے ذہنوں میں نہیں بھریں؟ کیا میں نے تمہیں تمہارے اپنے برے اخلاق سے آگاہ نہیں کیا؟ (نہج البلاغہ خطبہ 105)
پس حضرت علی علیہ السلام دونوں طرح کے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے یادگاروں کے محافظ ہیں:
1. قرآن کریم جس کے علم سے وہ بخوبی آگاہ ہیں اور جس کے حکم پر وہ سب سے بہتر عمل کرتے ہیں
2. پیغمبرؐ کے اہل بیت جو انہی کی نسل سے ہیں:
یہ دونوں یادگاریں ان میں یکجا ہیں۔ وہی ہیں جنہوں نے اپنی بے پناہ قوت اور امتیازی صلاحیتوں سے ایمان کا پرچم بلند کیا، اور لوگوں کو انصاف، سلامتی، اخلاقیات، صحیح و غلط کی پہچان اور آگہی سے بہرہ ور کیا۔ حضرت علیؑ حق کے فروغ اور باطل کے خاتمے کے لیے ایک بے مثال جنگجو ہیں جن کا زبردست بازو کفر اور ظلم کی طاقتوں کو کچلنے کے لیے حرکت میں آتا ہے۔ وہ تباہ کار قوتوں کو ریزہ ریزہ کر دیتے ہیں اور میدان جنگ میں کبھی کمزوری یا تھکاوٹ کا شکار نہیں ہوتے۔
مردانہ وار فرماتے ہیں: خدا کی قسم! میں اسلام کی فوج کے پیش رو کے طور پر آگے بڑھا، کفر کی فوجوں کو تہس نہس کیا اور دشمن کی طاقت کو تسخیر کر لیا۔ میں نے کبھی خوف نہیں کھایا، نہ خیانت کی، نہ سستی دکھائی۔ خدا کی قسم! میں باطل کے پہلو کو توڑ دوں گا یہاں تک کہ اس کے اندر سے حق کو باہر نکال لوں، اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت علیؑ: حق و باطل کے مابین واضح امتیاز کرنے والے تھے، باطل کے خلاف نبرد آزما ہونے میں کوئی رکاوٹ یا خوف محسوس نہیں کرتے تھے،اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں کبھی کوتاہی نہیں برتتے تھے، باطل کی تہہ میں چھپے حق کو نکال لینے کی صلاحیت رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ آپؑ کی شخصیت مسلمانوں کے لیے ہمیشہ ایک مثالی رہنما کی حیثیت رکھتی ہے۔
حضرت علیؑ کی بہادری محض افسانوی ہیروز کی طرح نہیں، بلکہ ان کی جسمانی طاقت ان کے روحانی ایمان اور یقین سے پھوٹتی ہے۔ اسی لیے وہ اپنی ذات پر پورا بھروسہ رکھتے ہیں، جہاں روح اور جسم کی قوتیں یکجا ہو جاتی ہیں۔ معاویہ جس میں روحانی اور جسمانی دونوں طرح کی کمزوریاں تھیں، کے مقابلے میں حضرت علیؑ فرماتے ہیں:
کیا تم مجھے جنگ کی دعوت دے رہے ہو؟ اگر سچے ہو تو اپنی فوج کو پیچھے ہٹاؤ، میں بھی اپنی فوج کو الگ کرتا ہوں، اور ہم آمنے سامنے ہو کر لڑیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ ہم میں سے کس پر گناہ غالب آ چکا ہے اور جس کی آنکھوں پر جہالت کا پردہ پڑ چکا ہے؟ میں وہی ابو الحسن ہوں جس نے جنگ بدر میں تمہارے دادا، چچا اور بھائی کو خاک و خون میں غلطاں کیا تھا۔ وہی تلوار اب بھی میرے پاس ہے، وہی ایمان اور طاقت کے ساتھ میں تمہارے سامنے کھڑا ہوں۔ میں نے کبھی دین نہیں بدلا، نہ کسی نئے نبی کو مانا۔ میں اسی ایمان پر قائم ہوں جسے تم نے کھو دیا ہے اور جسے تم نے پہلے دن مجبوراً قبول کیا تھا۔” (نہج البلاغہ، خطبہ 107)
حضرت علی علیہ السلام اپنے وجود کے معجزے کے بارے میں واضح اور دوٹوک الفاظ میں بات کرتے ہیں۔ وہ غیبی بصیرت رکھتے تھے، کیونکہ انہوں نے پیغمبر اسلامؐ سے جو غیب کی کنجی ہیں، مستقبل کے راز سیکھے تھے۔ وہ فرماتے ہیں: خدا کی قسم!
اگر میں چاہوں تو بتا سکتا ہوں کہ تم کہاں سے آئے ہو، کہاں جا رہے ہو، اور تمہارے دلوں میں کیا چھپا ہے۔ لیکن مجھے ڈر ہے کہ تم میرے بارے میں کفر کا ارتکاب نہ کر دو (مجھے پیغمبرؐ سے برتر نہ سمجھنے لگو)۔ تاہم، میں اہل ایمان کو مستقبل کی بعض خبریں ضرور بتاؤں گا۔ اس ذات کی قسم جس نے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حق کے ساتھ مبعوث کیا! میں صرف سچ بولتا ہوں۔ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے مستقبل کی خبریں دی تھیں، ہلاک ہونے والوں اور نجات پانے والوں کے حالات سے آگاہ کیا تھا، خلافت کے انجام سے باخبر کیا تھا، اور میرے ساتھ پیش آنے والے ہر واقعے کو میرے کان میں بتا دیا تھا۔” (نہج البلاغہ، خطبہ 108)