امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

غدیر کے دن اور رات کے اعمال

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

18 ذی الحجہ ہجری قمری کیلنڈر کے مطابق سال کا 343 واں دن ہے۔
اٹھارویں ذی الحجہ کی رات
یہ عید غدیر کی رات ہے جو بڑی عزت و عظمت کی حامل ہے ،سید نے کتاب اقبال میں اس رات کی بارہ رکعت نماز ذکر کی ہے ۔ جو ایک سلام سے پڑھی جائے گی اس نماز کی ترکیب اور اس میں پڑھی جانے والی دعائیں کتاب اقبال میں ملاحظہ کریں ۔
روز عید غدیر
یہ عید غدیر کا دن ہے جو خدائے تعالیٰ اور آل محمدؑ کی عظیم ترین عیدوں میں سے ہے۔ ہر پیغمبر نے اس دن عید منائی اور ہر نبی اس دن کی شان و عظمت کا قائل رہا ہے۔ آسمان میں اس عید کا نام ”روز عہد معہود“ ہے اور زمین میں اس کا نام ”میثاق مأخوذ و جمع مشہود“ ہے۔
ایک روایت کے مطابق امام جعفر صادقؑ سے پوچھا گیا کہ جمعہ، عید الفطر اور عید قربان کے علاوہ بھی مسلمانوں کیلئے کوئی عید ہے؟ حضرت نے فرمایا: ہاں ان کے علاوہ بھی ایک عید ہے اور وہ بڑی عزت و شرافت کی حامل ہے۔ عرض کی گئی وہ کون سی عید ہے؟ آپؑ نے فرمایا وہ دن کہ جس میں حضرت رسول اعظمؐ نے امیر المؤمنینؑ کا تعارف اپنے خلیفہ کے طور پر کرایا، آپ نے فرمایا کہ جس کا میں مولا ہوں علیؑ اس کے مولا ہیں اور یہ اٹھارویں ذی الحجہ کا دن اور روز عید غدیر ہے۔ راوی نے عرض کی کہ اس دن ہم کیا عمل کریں ؟حضرتؑ نے فرمایا کہ اس دن روزہ رکھو ،خدا کی عبادت کرو، محمدؐ و آل محمدؐ کا ذکر کرو اور ان پر صلوٰت بھیجو۔ حضورؐ نے امیر المؤمنینؑ کو اس دن عید منانے کی وصیت فرمائی جیسے ہر پیغمبرؐ اپنے اپنے وصی کو اس طرح وصیت کرتا رہا ہے۔
ابن ابی نصر بزنطی نے امام علی رضاؑ سے روایت کی ہے کہ حضرت نے فرمایا: اے ابن ابی نصر! تم جہاں کہیں بھی ہو روز غدیر نجف اشرف پہنچو اور حضرت امیر المؤمنینؑ کی زیارت کرو، کہ ہر مومن مرد اور ہر مومنہ عورت اور ہر مسلم مرد اور ہر مسلمہ عورت کے ساٹھ سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ مزید یہ کہ پورے ماہ رمضان، شب ہائے قدر اور عیدالفطر میں جتنے انسان جہنم کی آگ سے آزاد کیے جاتے ہیں اس ایک دن میں ان سے دوچند افراد کو جہنم سے آزاد قراردیا جاتا ہے۔ آج کے دن اپنے حاجت مند مومن بھائی کو ایک درہم بطور صدقہ دینا دوسرے دنوں میں ایک ہزار درھم دینے کے برابر ہے۔ پس عید غدیر کے دن اپنے برادر مومن کے ساتھ احسان و نیکی کرو، اور اپنے مومن بھائی اور مومنہ بہن کو شاد کرو۔ خدا کی قسم اگر لوگوں کو اس دن کی فضیلت کا علم ہوتا اور وہ اس کا لحاظ رکھتے تو اس روز ملائکہ ان سے دس مرتبہ مصافحہ کیا کرتے۔

اس  دن کےاہم واقعات
طوفان نوح کا ختم ہونا۔
آتش نمرود کا حضرت ابراہیم کیلئے گلستان بننا۔
سنہ 10 ہجری عید غدیر روز اعلان ولایت حضرت علیؑ، رسول اللہؐ نے حجۃ الوداع کے موقعے پر امیرالمومنین کو اپنا جانشین اور خلیفہ مقرر کیا۔
سنہ 1415 ہجری مجمع جہانی اہل بیت کی جانب سے قم المقدس میں بین الاقوامی شیعہ خواتین کا اجتماع۔
ولادت
سنہ 1214 ہجری ولادت شیخ مرتضی انصاری۔
وفات
سنہ 672 ہجری وفات خواجہ نصیرالدین طوسی؛ شیعہ فلسفی اور متکلم 2 جولائی1274ء
سنہ 940 ہجری وفات محقق کرکی۔
عیدغدیر کے اعمال
اس دن کی تعظیم کرنا لازم ہے اور اس میں چند اعمال ہیں: 
غسل کرنا
روزہ رکھنا
آج کے دن دعائے ندبہ پڑھے  
صیغہ عقد اخوت کا پڑھنا
زیارت حضرت علی علیہ السلام
﴿۱﴾ اس دن کا روزہ رکھنا ساٹھ سال کے گناہوں کا کفارہ ہے، ایک روایت میں ہے کہ یوم غدیر کا روزہ مدت دنیا کے روزوں،سو حج اور سو عمرے کے برابر ہے۔
﴿۲﴾ اس دن غسل کرنا ضروری اور باعث خیر و برکت ہے۔
اس دن غسل کرے زوال سے آدھا گھنٹہ قبل دو رکعت نماز بجا لائے جس کی ہر رکعت میں سورئہ الحمد کے بعد دس مرتبہ سورئہ توحید دس مرتبہ آیۃالکرسی اور دس مرتبہ سورئہ قدر پڑھے تو اس کو ایک لاکھ حج ایک لاکھ عمرے کا ثواب ملے گا ۔
نیز اس کی دنیا و آخرت کی حاجات بآسانی پوری ہوں گی ۔مخفی نہ رہے کہ سید نے کتاب اقبال میں اس نماز میں دس مرتبہ سورئہ قدر پڑھنے کو آیۃالکرسی سے پہلے ذکر کیا ہے ،علامہ مجلسی نے بھی زاد المعاد میں کتاب اقبال کی پیروی میں یہی تحریر فرمایا اور مؤلف نے بھی اپنی دیگر کتب میں یہی ترتیب لکھی ہے ۔لیکن بعد میں جب تلاش و جستجو کی گئی تو معلوم ہوا ہے کہ آیۃالکرسی کے سورئہ قدر سے پہلے پڑھنے کا ذکر بہت زیادہ روایات میں آیا ہے ظاہراً کتاب اقبال میں سہو قلم ہوا ہے یا کاتب سے غلطی سرزد ہو گئی ہے ،یہ سہو دوگونہ ہے ،یعنی سورئہ الحمد کی تعداد اور سورئہ قدر کے آیۃالکرسی سے پہلے پڑھے جانے سے متعلق ہے یہ بھی ممکن ہے کہ یہ ایک الگ نماز ہو لیکن اس کا ایک الگ اور مستقل نماز ہونا بعید ہے ،واللہ اعلم بہتر ہو گا کہ اس نماز کے بعد رَبَّّنَا اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیا ً
پڑھے: یہ ایک طویل دعا ہے ۔
﴿۳﴾ اس روز جہاں کہیں بھی ہو خود کو روضۂ امیر المؤمنینؑ پر پہنچائے اور آپ کی زیارت کرے۔
 آج کے دن کیلئے حضرت کی تین مخصوص زیارتیں ہیں، اور ان میں سب سے زیادہ مشہور زیارت امین اللہ ہے جو دور و نزدیک سے پڑھی جا سکتی ہے۔ یہ زیارت جامعۂ مطلقہ ہے اور اسے باب زیارات میں ذکر کیا جائے گا۔
﴿۴﴾زیارت امین اللہ
﴿۵﴾زیارت امیر المؤمنین روزِ غدیر
﴿۶﴾ حضرت رسولؐ سے منقول تعویذ پڑھے کہ سید نے کتاب اقبال میں اس کا ذکر کیا ہے۔
﴿۷﴾ دو رکعت نماز بجا لائے اور سجدہ شکر میں سو مرتبہ شُكرًا شُكرًا کہے۔
 پھر سر سجدے سے اٹھائے اور یہ دعا پڑھے:
اللّٰهُمَّ إِنِّى أَسْأَلُكَ بِأَنَّ لَكَ الْحَمْدَ وَحْدَكَ لَاشَرِيكَ لَكَ، وَأَنَّكَ واحِدٌ أَحَدٌ صَمَدٌ لَمْ تَلِدْ وَلَمْ تُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَكَ كُفُواً أَحَدٌ، وَأَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُكَ وَرَسُولُكَ صَلَواتُكَ عَلَيْهِ وَآلِهِ، يَا مَنْ هُوَ كُلَّ يَوْمٍ فِى شَأْنٍ كَما كانَ مِنْ شَأْنِكَ أَنْ تَفَضَّلْتَ عَلَىَّ بِأَنْ جَعَلْتَنِى مِنْ أَهْلِ إِجابَتِكَ وَأَهْلِ دِينِكَ وَأَهْلِ دَعْوَتِكَ، وَوَفَّقْتَنِى لِذٰلِكَ فِى مُبْتَدَءِ خَلْقِى تَفَضُّلاً مِنْكَ وَكَرَماً وَجُوداً، ثُمَّ أَرْدَفْتَ الْفَضْلَ فَضْلاً، وَالْجُودَ جُوداً، وَالْكَرَمَ كَرَمَاً، رَأْفَةً مِنْكَ وَرَحْمَةً إِلىٰ أَنْ جَدَّدْتَ ذٰلِكَ الْعَهْدَ لِى تَجْدِيداً بَعْدَ تَجْدِيدِكَ خَلْقِى، وَكُنْتُ نَسْياً مَنْسِيّاً ناسِياً ساهِياً غافِلاً، فَأَتْمَمْتَ نِعْمَتَكَ بِأَنْ ذَكَّرْتَنِى ذٰلِكَ وَمَنَنْتَ بِهِ عَلَىَّ وَهَدَيْتَنِى لَهُ، فَلْيَكُنْ مِنْ شَأْنِكَ يَا إِلٰهِى وَسَيِّدِى وَمَوْلاىَ أَنْ تُتِمَّ لِى ذٰلِكَ وَلَا تَسْلُبْنِيهِ حَتَّىٰ تَتَوَفَّانِى عَلَىٰ ذٰلِكَ وَأَنْتَ عَنِّى راضٍ، فَإِنَّكَ أَحَقُّ الْمُنْعِمِينَ أَنْ تُتِمَّ نِعْمَتَكَ عَلَىَّ؛  اللّٰهُمَّ سَمِعْنا وَأَطَعْنا وَأَجَبْنا داعِيَكَ بِمَنِّكَ، فَلَكَ الْحَمْدُ غُفْرانَكَ رَبَّنا وَ إِلَيْكَ الْمَصِيرُ، آمَنّا بِاللّٰهِ وَحْدَهُ لَاشَرِيكَ لَهُ، وَبِرَسُو لِهِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ، وَصَدَّقْنا وَأَجَبْنا داعِىَ اللّٰهِ وَاتَّبَعْنا الرَّسُولَ فِى مُوالاةِ مَوْلانا وَمَوْلَى الْمُؤْمِنِينَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طالِبٍ عَبْدِاللّهِ، وَأَخِى رَسُولِهِ، وَالصِّدِّيقِ الْأَكْبَرِ، وَالْحُجَّةِ عَلَىٰ بَرِيَّتِهِ، الْمُؤَيِّدِ بِهِ نَبِيَّهُ وَدِينَهُ الْحَقَّ الْمُبِينَ، عَلَماً لِدِينِ اللّٰهِ، وَخازِناً لِعِلْمِهِ، وَعَيْبَةَ غَيْبِ اللّٰهِ، وَمَوْضِعَ سِرِّ اللّٰهِ، وَأَمِينَ اللّٰهِ عَلَىٰ خَلْقِهِ، وَشاهِدَهُ فِى بَرِيَّتِهِ .
 اللّٰهُمَّ 
﴿رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِى لِلْإِيْمانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَآمَنَّا رَبَّنا فَاغْفِرْ لَنا ذُنُوبَنا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّئاتِنا وَتَوَفَّنا مَعَ الْأَبْرارِ، رَبَّنا وَآتِنا مَا وَعَدْتَنا عَلَىٰ رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنا يَوْمَ الْقِيامَةِ إِنَّكَ لَاتُخْلِفُ الْمِيعادَ﴾ 
فَإِنَّا يَا رَبَّنا بِمَنِّكَ وَلُطْفِكَ أَجَبْنا داعِيَكَ، وَاتَّبَعْنَا الرَّسُولَ وَصَدَّقْناهُ، وَصَدَّقْنا مَوْلَى الْمُؤْمِنِينَ، وَكَفَرْنا بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ، فَوَلِّنا مَا تَوَلَّيْنا، وَاحْشُرْنا مَعَ أَئِمَّتِنا فَإِنَّا بِهِمْ مُؤْمِنُونَ مُوقِنُونَ، وَلَهُمْ مُسَلِّمُونَ، آمَنَّا بِسِرِّهِمْ وَعَلانِيَتِهِمْ وَشاهِدِهِمْ وَغائِبِهِمْ، وَحَيِّهِمْ وَمَيِّتِهِمْ، وَرَضِينا بِهِمْ أَئِمَّةً وَقادَةً وَسادَةً، وَحَسْبُنا بِهِمْ بَيْنَنا وَبَيْنَ اللّٰهِ دُونَ خَلْقِهِ لَا نَبْتَغِى بِهِمْ بَدَلاً، وَلَا نَتَّخِذُ مِنْ دُونِهِمْ وَلِيجَةً، وَبَرِئْنا إِلَى اللّٰهِ مِنْ كُلِّ مَنْ نَصَبَ لَهُمْ حَرْباً مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ، وَكَفَرْنا بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَالْأَوْثانِ الْأَرْبَعَةِ وَأَشْياعِهِمْ وَأَتْباعِهِمْ وَكُلِّ مَنْ والاهُمْ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ مِنْ أَوَّلِ الدَّهْرِ إِلىٰ آخِرِهِ؛
اللّٰهُمَّ إِنَّا نُشْهِدُكَ أَنَّا نَدِينُ بِما دانَ بِهِ مُحَمَّدٌ وَآلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَعَلَيْهِمْ، وَقَوْلُنا مَا قالُوا، وَدِينُنا مَا دانُوا بِهِ، مَا قالُوا بِهِ قُلْنا، وَمَا دانُوا بِهِ دِنَّا، وَمَا أَنْكَرُوا أَنْكَرْنا، وَمَنْ والَوْا والَيْنا، وَمَنْ عادَوْا عادَيْنا، وَمَنْ لَعَنُوا لَعَنَّا، وَمَنْ تَبَرَّأُوا مِنْهُ تَبَرَّأْنا مِنْهُ، وَمَنْ تَرَحَّمُوا عَلَيْهِ تَرَحَّمْنا عَلَيْهِ، آمَنَّا وَسَلَّمْنا وَرَضِينا وَاتَّبَعْنا مَوالِيَنا صَلَواتُ اللّٰهِ عَلَيْهِمْ .
اللّٰهُمَّ فَتَمِّمْ لَنا ذٰلِكَ وَلَا تَسْلُبْناهُ وَاجْعَلْهُ مُسْتَقِرّاً ثابِتاً عِنْدَنا، وَلَا تَجْعَلْهُ مُسْتَعاراً، وَأَحْيِنا مَا أَحْيَيْتَنا عَلَيْهِ، وَأَمِتْنا إِذا أَمَتَّنا عَلَيْهِ، آلُ مُحَمَّدٍ أَئِمَّتُنا فَبِهِمْ نَأْتَمُّ وَ إِيَّاهُمْ نُوالِى، وَعَدُوَّهُمْ عَدُوَّ اللّٰهِ نُعادِى، فَاجْعَلْنا مَعَهُمْ فِى الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ، فَإِنَّا بِذٰلِكَ راضُونَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ.

اب پھر سجدے میں جائے اور سو مرتبہ کہے:  »الْحَمْدُ لِلّٰهِ«   
اور سو مرتبہ کہے: » شُکْراً لِلّٰهِ«
روایت ہے کہ جو شخص اس عمل کو بجا لائے وہ اجر و ثواب میں اس شخص کے برابر ہے جو عید غدیر کے دن حضرت رسولؐ کی خدمت میں حاضر ہو اور جناب امیرؑ کے دست مبارک پر بیعت ولایت کی ہو۔ بہتر ہے کہ اس نماز کو قریب زوال بجا لائے کیونکہ یہی وہ وقت ہے کہ جب حضرت رسولؐ نے امیر المؤمنینؑ کو مقام غدیر پر امامت و خلافت کے لئے منصوب فرمایا۔ پس اس نماز کی پہلی رکعت میں سورۂ حمد کے بعد سورۂ قدر اور دوسری رکعت میں الحمد کے بعد سورۂ توحید کی قرائت کرے۔
﴿۸﴾ غسل کرے، زوال سے آدھا گھنٹہ قبل دو رکعت نماز بجا لائے جس کی ہر رکعت میں سورۂ حمد کے بعد دس مرتبہ سورۂ توحید، دس مرتبہ آیۃالکرسی اور دس مرتبہ سورۂ قدر پڑھے تو اس کو ایک لاکھ حج، ایک لاکھ عمرے کا ثواب ملے گا۔ نیز اس کی دنیا و آخرت کی حاجات با آسانی پوری ہوں گی۔ مخفی نہ رہے کہ سید نے کتاب اقبال میں اس نماز میں دس مرتبہ سورۂ قدر پڑھنے کو آیۃ الکرسی سے پہلے ذکر کیا ہے۔ علامہ مجلسی نے بھی زاد المعاد میں کتاب اقبال کی پیروی میں یہی تحریر فرمایا اور مؤلف نے بھی اپنی دیگر کتب میں یہی ترتیب لکھی ہے، لیکن بعد میں جب تلاش و جستجو کی گئی تو معلوم ہوا ہے کہ آیۃالکرسی کے سورۂ قدر سے پہلے پڑھنے کا ذکر بہت زیادہ روایات میں آیا ہے۔ ظاہراً کتاب اقبال میں سہو قلم ہوا ہے یا کاتب سے غلطی سرزد ہو گئی ہے۔ یہ سہو دوگونہ ہے، یعنی سورۂ حمد کی تعداد اور سورۂ قدر کے آیۃ الکرسی سے پہلے پڑھے جانے سے متعلق ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ ایک الگ نماز ہو لیکن اس کا ایک الگ اور مستقل نماز ہونا بعید ہے، واللہ اعلم۔ بہتر ہو گا کہ اس نماز کے بعد رَبَّّنَا اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا پڑھے، یہ ایک طویل دعا ہے۔
﴿۹﴾ آج کے دن دعائے ندبہ پڑھے،جس کا ذکر دسویں فصل میں ہو گا۔
﴿۱۰﴾دعائے ندبہ
﴿۱۱﴾ اس دعا کو پڑھے جسے سید ابن طاؤس نے شیخ مفید سے نقل کیا ہے:
ظہر سے پہلے دو رکعت نماز جس کی ہر رکعت میں حمد کے بعد سورہ توحید، آیۃ الکرسی اور سورہ قدر کو دس دس مرتبہ پڑھا جائے ۔
اس دعا کو پڑھے جسے سید ابن طاؤس نے شیخ مفید سے نقل کیا ہے :
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ نَبِيِّكَ وَ عَلِيٍّ وَلِيِّكَ وَ الشَّأْنِ وَ الْقَدْرِ الَّذِي اخْتَصَصْتَهُمَا بِهِ دُونَ خَلْقِكَ ، أَنْ تُصَلِّيَ عَلَيْهِمَا وَ عَلَى ذُرِّيَتِهِمَا وَ أَنْ تَبْدَأَ بِهِمَا فِي كُلِّ خَيْرٍ عَاجِلٍ ، اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ الْأَئِمَّةِ الْقَادَةِ وَ الدُّعَاةِ السَّادَةِ وَ النُّجُومِ الزَّاهِرَةِ وَ الْأَعْلَامِ الْبَاهِرَةِ وَ سَاسَةِ الْعِبَادِ وَ أَرْكَانِ الْبِلَادِ وَ النَّاقَةِ الْمُرْسَلَةِ وَ السَّفِينَةِ الْجَارِيَةِ فِي اللُّجَجِ الْغَامِرَةِ ، اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ خُزَّانِ عِلْمِكَ وَ أَرْكَانِ تَوْحِيدِكَ وَ دَعَائِمِ دِينِكَ وَ مَعَادِنِ كَرَامَتِكَ وَ صَفْوَتِكَ مِنْ بَرِيَّتِكَ وَ خِيَرَتِكَ مِنْ خَلْقِكَ الْأَتْقِيَاءِ النُّجَبَاءِ الْأَبْرَارِ وَ الْبَابِ الْمُبْتَلَى بِهِ النَّاسُ مَنْ أَتَاهُ نَجَا وَ مَنْ أَبَاهُ هَوَى ، اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ أَهْلِ الذِّكْرِ الَّذِينَ أَمَرْتَ بِمَسْأَلَتِهِمْ وَ ذَوِي الْقُرْبَى الَّذِينَ أَمَرْتَ بِمَوَدَّتِهِمْ وَ فَرَضْتَ حَقَّهُمْ وَ جَعَلْتَ الْجَنَّةَ مَعَادَ مَنِ اقْتَصَّ آثَارَهُمْ ، اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا أَمَرُوا بِطَاعَتِكَ وَ نَهَوْا عَنْ مَعْصِيَتِكَ وَ دَلُّوا عِبَادَكَ عَلَى وَحْدَانِيَّتِكَ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ نَبِيِّكَ وَ نَجِيِّكَ وَ صَفْوَتِكَ وَ أَمِينِكَ وَ رَسُولِكَ إِلَى خَلْقِكَ وَ بِحَقِّ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ وَ يَعْسُوبِ الدِّينِ وَ قَائِدِ الْغُرِّ الْمُحَجَّلِينَ الْوَصِيِّ الْوَفِيِّ الصِّدِّيقِ الْأَكْبَرِ وَ الْفَارُوقِ الْأَعْظَمِ بَيْنَ الْحَقِّ وَ الْبَاطِلِ وَ الشَّاهِدِ لَكَ وَ الدَّالِّ عَلَيْكَ وَ الصَّادِعِ بِأَمْرِكَ وَ الْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِكَ لَمْ تَأْخُذْهُ فِيكَ لَوْمَةُ لَائِمٍ
أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ أَنْ تَجْعَلَنِي فِي هَذَا الْيَوْمِ الَّذِي عَقَدْتَ فِيهِ لِوَلِيِّكَ الْعَهْدَ فِي أَعْنَاقِ خَلْقِكَ وَ أَكْمَلْتَ لَهُمُ الدِّينَ مِنَ الْعَارِفِينَ بِحَقِّهِ وَ الْمُقِرِّينَ بِفَضْلِهِ مِنْ عُتَقَائِكَ وَ طُلَقَائِكَ مِنَ النَّارِ وَ لَا تُشْمِتْ بِي حَاسِدِي النِّعَمِ اللَّهُمَّ فَكَمَا جَعَلْتَهُ عِيدَكَ الْأَكْبَرَ وَ سَمَّيْتَهُ فِي السَّمَاءِ يَوْمَ الْعَهْدِ الْمَعْهُودِ وَ فِي الْأَرْضِ يَوْمَ الْمِيثَاقِ الْمَأْخُوذِ وَ الْجَمْعِ الْمَسْئُولِ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ أَقِرَّ بِهِ عُيُونَنَا وَ اجْمَعْ بِهِ شَمْلَنَا وَ لَا تُضِلَّنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَ اجْعَلْنَا لِأَنْعُمِكَ مِنَ الشَّاكِرِينَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي عَرَّفَنَا فَضْلَ هَذَا الْيَوْمِ وَ بَصَّرَنَا حُرْمَتَهُ وَ كَرَّمَنَا بِهِ وَ شَرَّفَنَا بِمَعْرِفَتِهِ وَ هَدَانَا بِنُورِهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَيْكُمَا وَ عَلَى عِتْرَتِكُمَا وَ مُحِبِّيكُمَا مِنِّي أَفْضَلَ السَّلَامِ مَا بَقِيَ اللَّيْلُ وَ النَّهَارُ وَ بِكُمَا أَتَوَجَّهُ إِلَى اللَّهِ رَبِّي وَ رَبِّكُمَا فِي نَجَاحِ طَلِبَتِي وَ قَضَاءِ حَوَائِجِي وَ تَيْسِيرِ أُمُورِي ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ أَنْ تَلْعَنَ مَنْ جَحَدَ حَقَّ هَذَا الْيَوْمِ وَ أَنْكَرَ حُرْمَتَهُ ، فَصَدَّ عَنْ سَبِيلِكَ لِإِطْفَاءِ نُورِكَ فَأَبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ ، اللَّهُمَّ فَرِّجْ عَنْ أَهْلِ بَيْتِ نَبِيِّكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَ اكْشِفْ عَنْهُمْ وَ بِهِمْ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ الْكُرُبَاتِ ، اللَّهُمَّ امْلَأِ الْأَرْضَ بِهِمْ عَدْلًا وَ قِسْطاً كَمَا مُلِئَتْ ظُلْماً وَ جَوْراً وَ أَنْجِزْ لَهُمْ مَا وَعَدْتَهُمْ إِنَّكَ لا تُخْلِفُ الْمِيعادَ

اگر ممکن ہو تو سید کی کتاب اقبال میں منقولہ دیگر بڑی بڑی دعائیں بھی پڑھے۔
﴿۹﴾ جب برادر مومن سے ملاقات کرے تو اسے عید غدیر کی تبریک اس طرح کہے:
الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَنَا مِنَ الْمُتَمَسِّكینَ بِوِلَایَۃِ ٲَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْاَئِمَّۃ عَلَیْھِمُ اَلسَّلَامُ
اس اللہ کے لئے حمد ہے جس نے ہمیں قرار دیا ہے ولایت و امانت کو ماننے والوں میں سےامیر المؤمنینؑ کی اور ان کے بعد ائمہؑ کی۔
نیز یہ بھی پڑھے:
الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ٲَكْرَمَنَا بِھٰذَا الْیَوْمِ وَجَعَلَنَا مِنَ الْمُوْفِیْنَ بِعَھْدِہٖ اِلَیْنَا وَمِیْثَاقِہِ الَّذِیْ وَاثَقَنَا بِہٖ  مِنْ وِلَایَۃِ وُلَاۃِ ٲَمْرِہٖ وَالْقُوَّامِ بِقِسْطِہٖ  وَلَمْ یَجْعَلْنَا مِنَ الْجَاحِدِیْنَ وَالْمُكَذِّبِیْنَ بِیَوْمِ الدِّیْنِ۔ 
اس اللہ کے لئے حمد ہے جس نے آج کے دن کے ذریعے ہمیں عزت دی اور ہمیں اس عہد کو وفا کرنے والا بنایا جو ہمارے سپرد کیا
اور اس پیمان کو (پورا کرنے والا بنایا) جو ہم سے لیاولایت امیر المؤمنینؑ، اپنے والیان امر اور عدل پر قائم رہنے والوں کے بارے میں اور ہمیں اس (پیمان) کو جھٹلانے والوں اور روز قیامت کا انکار کرنے والوں میں نہیں رکھا۔
﴿۱۰﴾ سو مرتبہ کہے:
الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَ كَمَالَ دِیْنِہٖ وَتَمَامَ نِعْمَتِہٖ بِوِلَایَۃِ ٲَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلِیِّ بْنِ ٲَبِیْ طَالِبٍ عَلَیْہِ اَلسَّلَامُ
اس اللہ کے لئے حمد ہے جس نے اپنے دین کے کمال اور نعمت کے اتمام کو مشروط قرار دیا امیر المؤمنین حضرت علی ابن ابی طالبؑ کی ولایت کے ساتھ۔
واضح ہو کہ عید غدیر کے دن اچھا لباس پہنے،
 خوشبو لگائے، خوش خرم ہو، مومنین کو راضی و خوش کرے، ان کے قصور معاف کرے، ان کی حاجات پوری کرے،
 رشتہ داروں سے نیک سلوک کرے، اہل و عیال کے لئے عمدہ کھانے کا انتظام کرے،
 مومنین کی ضیافت کرے اور ان کا روزہ افطار کرائے۔
مؤمنین سے مصافحہ کرے، برادران ایمانی سے خوش خوش ملے اور ان کو تحائف دے۔
 آج کی عظیم نعمت یعنی ولایت امیر المؤمنینؑ پر خدا کا شکر بجا لائے ۔
کثرت سے صلوات پڑھے اور اس دن خدا کی عبادت کرے کہ ان تمام امور میں سے ہر ایک کی بڑی فضیلت ہے۔
 آج کے دن اپنے مومن بھائی کو ایک روپیہ دینا دوسرے دنوں میں ایک لاکھ روپیہ دینے کے برابر ثواب رکھتا ہے، اور آج کے دن مومن بھائیوں کو دعوت طعام دینا گویا تمام پیغمبروں اور مومنوں کو دعوت طعام دینے کے مانند ہے۔
 امیر المؤمنینؑ کے خطبۂ غدیر میں ہے کہ جو شخص آج کے دن کسی روزہ دار کو افطاری دے گویا اس نے دس "فئام" کو افطاری دی ہے۔ ایک شخص نے اٹھ کر عرض کی مولا!" فئام" کیا ہے؟
 فرمایا کہ فئام سے مراد ایک لاکھ پیغمبر، صدیق اور شہید ہیں۔ 
ہاں تو کتنی فضیلت ہو گی اس شخص کی جو چند مومنین و مومنات کی کفالت کر رہا ہو؟ پس میں بارگاہ الہی میں اس شخص کا ضامن ہوں کہ وہ کفر اور فقر سے امان میں رہے گا۔
خلاصہ یہ ہے کہ اس عز و شرف والے دن کی فضیلت کا بیان ہماری استطاعت سے باہر ہے۔

یہ شیعہ مسلمانوں کے اعمال قبول ہونے اور ان کے غم دور ہونے کا دن ہے۔ اسی دن حضرت موسٰیؑ کو جادوگروں پر غلبہ حاصل ہوا، اور حضرت ابراہیمؑ کیلئے آگ گلزار بنی، اور حضرت موسٰیؑ نے یوشع بن نونؑ کو وصی بنایا، اور حضرت عیسٰیؑ کی طرف سے حضرت شمعونؑ کو ولایت و وصایت ملی، حضرت سلیمانؑ نے آصف بن برخیا کی وزارت و نیابت پر لوگوں کو گواہ بنای،ا اور اسی دن حضرت رسولؐ نے اپنے اصحاب میں اخوت قائم فرمائی۔
پس یوم غدیر مومنین باہم صیغۂ اخوت پڑھیں اور آپس میں بھائی چارہ قائم کریں۔
 ہمارے شیخ صاحبِ مستدرک الوسائل نے زاد الفردوس سے عقد اخوت کی کیفیت یوں نقل کی ہے کہ اپنا دایاں ہاتھ اپنے برادر مومن کے داہنے ہاتھ پر رکھے اور کہے:
وَاخَیْتُكَ فِی ﷲِ، وَصَافَیْتُكَ فِی ﷲِ وَصَافَحْتُكَ فِی ﷲِ، وَعَاھَدْتُ ﷲَ وَمَلَائِكَتَہٗ وَكُتُبَہٗ وَرُسُلَہٗ وَٲَنْبِیَائَہٗ وَالْاَئِمَّۃَ الْمَعْصُوْمِیْنَ عَلَیْھِمُ اَلسَّلَامُ عَلٰی ٲَنِّیْ اِنْ كُنْتُ مِنْ ٲَھْلِ الْجَنَّۃِ وَالشَّفَاعَۃِ وَٲُذِنَ لِیْ بِٲَنْ ٲَدْخُلَ الْجَنَّۃَ لَا ٲَدْخُلُھَا اِلَّا وَٲَنْتَ مَعِیْ
میں بھائی بنا تمہارا راہ خدا میں، میں مخلص ہوا تمہارا راہ خدا میں ہاتھ ملایا تم سے راہ خدا میں، اور عہد کرتا ہوں خدا سے، اس کے فرشتوں سے اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں، اس کے نبیوں سے، اور ائمہ معصومینؑ سے اس بات کا کہ اگر میں ہو جاؤں میں بہشت والوں اور شفاعت حاصل کرنے والوں میں اور مجھے جنت میں داخلے کا حکم ہوا تو نہیں داخل ہوں گا جنت میں تجھے ساتھ لئے بغیر 
دوسرا مومن بھائی اس کے جواب میں کہے:
قَبِلْتُ
میں نے قبول کیا
اور پھر یہ کہے:
ٲَسْقَطْتُ عَنْكَ جَمِیْعَ حُقُوْقِ الْأُخُوَّۃِ مَا خَلَا الشَّفَاعَۃَ وَالدُّعَاءَ وَالزِّیَارَۃَ۔
ساقط کر دئیے میں نے تجھ سے بھائی چارے کے تمام حقوق سوائے شفاعت کرنے، دعائے خیر کرنے اور ملاقات کرنے کے

محدث فیض نے بھی خلاصۃ الاذکار میں صیغۂ اخوت کا تقریباً یہی طریقہ لکھا ہے کہ
 دوسرا مومن بھائی خود یا اس کا وکیل ایسے الفاظ سے اخوت قبول کرے جو واضح طور پر قبولیت کا مفہوم ادا کر رہے ہوں۔
 پس ساقط کریں ایک دوسرے سے تمام حقوقِ اخوت کو، سوائے دعا اور ملاقات کے۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک