منکر ولایت کا مسئلہ
- شائع
-
- مؤلف:
- حسین احمد خشن-مترجم: شیخ محمد علی توحیدی
- ذرائع:
- ماخوذ از کتاب: اسلام اور شدت پسندی تکفیری طرزِفکر کا ایک جدید تحقیقی جائزہ
منکر ولایت کا مسئلہ
مختلف ادیان کے درمیان اعتقادی اختلافات کے بارے میں ہم نے جو عرائض پیش کیے وہ ہو بہو اور بطریق اَولیٰ اسلامی مذاہب کے باہمی اختلافات کے معاملے میں بھی جاری و ساری ہوتے ہیں کیونکہ اگر( بطور مثال ) کوئی شخص بعض ایمانی حقائق مثلا اہلبیت کی ولایت و امامت کے بارے میں شیعی عقیدے پرایمان نہ لائے تو نہ اس پر کفر کافتویٰ لگ سکتا ہے اور نہ ہی اسے صرف انکار ولایت کے جرم میں دوزخی قرار دیا جاسکتاہے مگر یہ کہ وہ منکر ِآگاہ ہو یا جاہلِ مقصّر ہو۔ لیکن اگر وہ جاہلِ قاصر یا تا ویل کرنے والا محقق ہو تو عقل و شرع دونوں کی روسے وہ بے قصور اور معذور ہے ۔
ہم قبل ازیں عرض کرچکے ہیں کہ علی علیہ السلام نے خوارج کو مسلمان قرار دیا حالانکہ خوارج نے آپ کی امامت کا انکا ر کیا اوواقعۂ تحکیم کے بعد آپ ؑ کی حکومت کے خلاف بغاوت کی ۔ اسماعیل جعفی سے مروی درج ذیل حدیث سے اس بات کی تائید ہوتی ہے:’’ میں نے امام ابو جعفر ؑ سے اس دین کے بارے میں پوچھا جس سے عدم آگاہی بندگان ِخدا کے لئے جائز نہ ہو ( یعنی اس کی شناخت سب پر لازم ہو) ۔ فرمایا: دین کادائرہ وسیع ہے لیکن خوارج نے اپنی نادانی کے باعث اپنے اوپر اس کادائرہ تنگ کر دیا ۔ میں نے کہا :آپ کے قربان جاؤں ۔ کیا میں آپ کے پاس اپنے دین کی تشریح کروں ؟ فرمایا : ہاں۔ میں نے عرض کی: میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا اکیلا اور یگانہ معبود ہے ۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا کا بندہ اور اس کا فرستادہ ہے ۔وہ اللہ کی طرف سے جو کچھ لایا ہے اسے میں مانتا ہوں ۔ میں آپ کو چاہتاہوں ۔ میں آپ کے دشمنوں سے اور ہر اس سے بیزار ہوں جو آپ کے اوپر اپنی برتری کا خواہاں ہو، اپنے آپ کو آپ کا حاکم سمجھے اور آپ کاحق ناحق چھین لے ۔ امام نے فرمایا : تو کسی چیز سے بے خبر نہیں ہے ۔ خدا کی قسم! یہ وہی دین ہے جس پر ہم گامزن ہیں ۔ میں نے کہا: جو شخص اس امر سے بے خبر ہو کیا وہ ( آتش جہنم سے ) محفوظ رہے گا ؟ فرمایا: نہیں سوائے مستضعف لوگوں کے ۔ میں نے عرض کی:مستضعف لوگ کون ہیں ؟ فرمایا : تمہاری عورتیں اور اولاد ۔ پھر فرمایا : کیا تونے امّ ایمن کو دیکھا ہے ؟ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ بہشتی ہے حالانکہ جتنا تم جانتے ہو اتنا وہ نہیں جانتی تھی۔ ‘‘(کلینی،محمد یعقوب ،الکافی،ج۲ ،ص۴۰۵ )
امام کے اس جملے :’’دین کا دائرہ وسیع ہے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اعتقادات اور اعمال و کردار کی کمزوری دین اسلام سے خارج ہونے کا موجب نہیں بنتی ( جیسا کہ خوارج کا عقیدہ تھا ) کیونکہ وہ ( خوارج) گناہوں کا ارتکاب کرنے والوں کو کافر سمجھتے ہیں۔ انہوں نے چھوٹے چھوٹے مسائل میں پھنس کر انہیں ایمان کے اجزا میں شامل سمجھا ہے۔ (مجلسی ،محمد باقر بن محمد تقی،مرآۃ العقول ،ج ۱۱ ،ص ۲۱۱۔)
امام باقر علیہ السلام کی گفتگو میں مستضعفین کے استثنا کا جو تذکرہ ہوا ہے وہ اس آیت قرآنی کی طرف اشارہ ہے :
فَأُوْلَـئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَسَاءتْ مَصِيراً ۔ إِلاَّ الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ لاَ يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلاَ يَهْتَدُونَ سَبِيلاً ۔ فَأُوْلَـئِكَ عَسَى اللّهُ أَن يَعْفُوَ عَنْهُمْ وَكَانَ اللّهُ عَفُوّاً غَفُوراً (نساء ۹۷۔۹۹ )
پس ان لوگوں کا ٹھکا نہ جہنم ہے جو بری منزل ہے سوائے ان مردوں ، عورتوں اور بچوں کے جو اس قدر بیچارے ہیں کہ نہ تو ( دارِحرب سے نکلنے کی ) کوئی تدبیر کرسکتے ہیں اور نہ انہیں ( اپنی رہائی کی ) کوئی سبیل نظر آتی ہے ۔ امید ہے کہ خدا ایسے لوگوں سے درگزر کرے گا ۔ بے شک خدا بڑا معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔
ممکن ہے کوئی یہ کہے کہ مستضعف کادائرہ ( جیسا کہ آیات و احادیث سے ظاہر ہے ) سابق الذکر مقدار سے کہیں زیادہ کمتر اور محدود تر ہو کیونکہ اس لفظ سے مراد صرف وہ مرد اور عورتیں ہیں جن کی عقلی صلاحیتیں بہت معمولی ہیں یا وہ بچے جو کوئی چارہ گری نہیں کرسکتے اور کوئی راستہ نہیں پاسکتے ( جیسا کہ سابق الذکر آیت میں ذکر ہوا )۔
حدیث ِصحیح میں امام باقر علیہ السلام سے مروی ہے : وہ مستضعف لوگ جو چارہ گری نہیں کرسکتے اور کوئی سبیل نہیں پا سکتے وہ ہیں جو نہ ایمان کا کوئی راستہ پا سکتے ہیں اور نہ کافر ہوتے ہیں ۔ یہ بچے بچیاں ہیں اور وہ مرد اور عورتیں ہیں جن کی عقل بچگانہ ہے ۔ ‘‘(کلینی ، محمد بن یعقوب الکافی ،ج ۲ ،ص ۴۰۴ )
اس کے بر عکس جو لوگ معاملات کو پر کھ سکتے ہیں نیز ادیان کے اختلافات اور ان کی کثرت سے آگاہی رکھتے ہیں وہ مستضعف نہیں ہیں اور تشخیص سے معذور لوگوں کا حکم ان پر جاری نہیں ہوتا ۔ حدیث ِصحیح میں امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے : جو شخص لوگوں کے اختلاف کو سمجھے وہ مستضعف نہیں ہے ۔ ‘‘ (کلینی ، محمد بن یعقوب الکافی ،ج ۷ ،ص ۴۰۵ )
ہم ان روایات کی یوں تفسیر کر سکتے ہیں : یہ روایات آیتِ شریفہ کی جانب اشارہ ہیں ۔ پس اگر ہم یہ قبول کریں کہ یہ روایات مصداقی نہیں بلکہ تفسیری ہیں تو یہ بحث باقی رہ جاتی ہے کہ احادیث کی طرح آیت ِشریفہ کامطلب یہ نہیں کہ غیر مستضعف کی بخشش کی نفی کی جائے اور چونکہ قاصر کا مستحقِ سزا نہ ہونا دلیل سے ثابت ہے اس لئے وہ اس آیت کے حکم میں شامل ہے اگر چہ اس کے موضوع اور منطوق کے دائرے میں شامل نہیں ہے ۔
جنت اور جہنم کا اختیار خدا کے پاس ہے
مذکورہ عرائض بعد ہم اس نتیجے تک پہنچ جاتے ہیں کہ ہر کافر کو جہنم کی سزا نہیں دی جائے گی جس طرح ہر مسلمان بہشت میں نہیں جائے گا اور جنت سے بہرہ مند نہیں ہوگا ۔ بہتر ہے کہ جنت اور جہنم کا مسئلہ خدا پر چھوڑ دیا جائے۔ ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ اپنا فیصلہ خدا پر مسلط کریں ۔ اگر ہمیں کوئی شخص بظاہر اچھا لگے تب بھی ہم یہ یقین نہیں کرسکتے ہیں کہ وہ جنتی ہے کیونکہ خدا اسے ہم سے بہتر پہچانتا ہے۔ وہ اس کے رازوں سے نیز ہماری نگاہوں سے پوشیدہ حقائق سے آگاہ ہے۔ مروی ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلماپنے صحابی سعد بن معاذ کی تشیع جنازہ میں شرکت کے لئے نکلے تو سعد کی ماں نے کہا : اے سعد ! تیرے لئے مبارک اور باعث افتخار ہو ۔
رسولِ خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا :اے سعد کی ماں !اپنی بات خدا پر مسلط نہ کرو۔ ‘‘
ایک اور روایت میں انس سے مروی ہے :’’ ہمارا ایک فرد جنگِ اُحد کے دن شہید ہوگیا ۔لوگوں نے دیکھا کہ اس نے بھوک کے باعث اپنے پیٹ پر ایک پتھر باندھا ہوا ہے۔ اس کی ماں نے اس کے چہرے سے مٹی صاف کی اور کہا :بیٹے ! تجھے جنت مبارک ہو ۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تجھے کیا خبر !شاید وہ ان چیزوں کے بارے میں گفتگو کیا کرتا تھا جو اس سے مربوط نہ ہوں اور ان چیزوں سے منع کرتا تھا جو اس کے لئے نقصان دہ نہ ہوں ۔‘‘
پس کسی ایسے شخص کو بطور قطع جہنمی قرار دینا درست نہیں جس کا ظاہری کردار ہماری نظر میں برا ہو کیونکہ عینِ ممکن ہے اس نے کوئی اچھا کام انجام دیا ہو جس کا خدا ہی کو علم ہو اور وہی اچھا کام اس کی بخشش اور رضا ئے الہی کا موجب بنا ہو یا ممکن ہے کہ اللہ کی بے پایا ن رحمت نے جو ہر شے کو محیط ہے اسے بھی اپنے دامن میں جگہ دی ہو ۔