حضرت زینبؑ، راوی حدیث امام حسینؑ
- شائع
-
- مؤلف:
- ترجمہ: یوسف حسین عاقلی
- ذرائع:
- منبع: مرکز تحقیقات کامپیوتری علوم اسلامی
حضرت زینبؑ، راوی حدیث امام حسینؑ
منبع: مرکز تحقیقات کامپیوتری علوم اسلامی
ترجمہ: یوسف حسین عاقلی
پیغام رسانِ کربلاء، زینب کبری علیہاالسلام ، امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب اورفاطمه زهرا علیهماالسلام کی بیٹی ہیں[1] ، رسول اللہﷺ کی نواسی ہیں۔ آپ علیہاالسلام کی ولادت رسول اللہﷺ کی زندگی میں ہوئی۔ آپ علیها السلام کی کنیت" امّ کلثوم"،" امّ عبداللّه "اور" امّ الحسن" ہے، لیکن اس مظلومہ کے لیے «امّ المصائب»، «امّ الرزایا» و «امّ النوائب»[2]جیسی کنیتیں بھی بیان کی گئی ہیں۔
آپ علیہاالسلام کے والد گرامی نے آپ علیہاالسلام کی شادی اپنے بھتیجے عبداللہ بن جعفرؓ سے کر دی، جن سے علی، عون اکبر، عبّاس، محمّد اور امّ کلثوم جیسی اولادیں ہوئیں۔
آپ علیهاالسلام کا نام مبارک جبرئیل علیه السلام کے ذریعے رسول اللہﷺ نے تجویز کیا تو آپﷺ نے فرمایا: "میں حاضر و غائب سب کو وصیت کرتا ہوں کہ اس بیٹی کی حرمت کا خیال رکھیں، یہ خدیجہ کبری علیهاالسلام کی مانند ہیں۔" [۳]
سید بن طاؤس لکھتے ہیں کہ جب امام حسین علیه السلام شہید ہوئے تو زینب علیهاالسلام نے فریاد بلند کی:
«یا مُحَمَّداه! صَلّی عَلَیکَ مَلیکُ السَّماءِ هذا حُسَینٌ مُرَمَّلٌ بِالدِّماءِ مُنْقَطَعُ الاعْضاءِ وَ بَناتُکَ سَبایا، الیَ اللّهِ الْمُشْتَکی وَ اِلیَ مُحَمَّدٍ المُصطَفی وَ اِلی عَلیٍّ المُرْتَضی وَ الی فاطِمَةَ الزَهراء وَ الی حَمْزَةَ سَیّدِ الشُّهَداءِ! یا مُحَمَّداه! هذا حُسَینٌ ...»؛ [4]
"اے محمدﷺ! آسمان کے فرشتے آپ پر درود بھیجیں۔ یہ حسین علیه السلام ہیں جو خون میں نہائے ہوئے ہیں، ان کے اعضا کٹے ہوئے ہیں، اور آپﷺ کی بیٹیاں اسیر ہیں۔ میں اللہ، محمد مصطفیﷺ، علی مرتضیؑ، فاطمہ زہرا علیها السلام اور حمزہ سیدالشہدا علیه السلام کے حضور فریاد کرتی ہوں۔ اے محمدﷺ! یہ حسین علیه السلام ہیں!"
حضرت زینب علیہاالسلام امامت کے اسرار کی حامل تھیں۔ امام حسین علیه السلام نے امام زین العابدین علیه السلام کی شدید بیماری کے وقت انہیں کچھ وصیتیں فرمائیں، اور اس طرح آپ علیها السلام امامت کی نیابت کے مقام پر فائز ہوئیں۔ [5]
شیخ صدوقؒ احمد بن ابراہیم سے دو سندوں کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ امام حسن عسکری علیه السلام کی رحلت کے بعد حکیمہ بنت محمد علیه السلام سے پوچھا گیا: "شیعہ کس کی طرف رجوع کریں؟"
تو انہوں نے فرمایا: " امّ ابی محمد علیه السلام (حضرت زینب علیہا السلام) کی طرف۔"
پوچھا گیا: "کیا ایک عورت وصی ہو سکتی ہے؟"
تو حکیمہ علیها السلام نے جواب دیا: "امام حسین علیه السلام نے بھی اپنی بہن زینب بنت علی علیها السلام کو وصی بنایا تھا۔" [6]
کربلا میں شهادت سالار شهیدان کے بعد حضرت زینب علیها السلام کے کوفہ کے بازار، ابن زیاد کے دربار اور یزید کے محل میں دیے گئے خطبات اتنے پُرزور اور ہلا دینے والے تھے کہ سب کو حیرت میں ڈال دیا اور مسلمانوں کو غفلت کی نیند سے جگا دیا۔ آپ علیها السلام نے اپنی ذمہ داری، یعنی اپنے ناناﷺ کے دین کو زندہ کرنا، بخوبی انجام دی۔ مورّخین اور اصحاب مقاتل نے نقل نےآپ علیها السلام کے اقوال کو محفوظ کیا ہے۔ [7]
آپ علیها السلام راتوں کو تهجّد اورعبادت میں گزارتی تھیں اور مسلسل قرآن کی تلاوت کرتی تھیں۔ 11ویں محرم کی رات، تمام تھکاوٹ اور مصیبتوں کے باوجود، آپ علیها السلام عبادت میں مشغول رہیں۔
امام سجاد علیه السلام فرماتے ہیں:
يقول السجاد (عليه السلام): رأيت عمتي في تلك الليلة جالسة في صلاتها تصلي.
"میں نے دیکھا کہ اس رات میری پھوپھی بیٹھ کر عبادت میں مصروف تھیں۔" [8]
آپ علیها السلام کے سکینہ و وقار کا مقام خدیجہ کبری علیها السلام جیسا، عصمت و حیاء میں فاطمہ زہرا علیها السلام جیسی، فصاحت و بلاغت میں علی مرتضی علیه السلام کی مانند، صبر و تحمل میں حسن مجتبی علیه السلام کے برابر، اور شجاعت و بہادری میں سیدالشہداء علیه السلام کے مثل تھی۔
ابن اثیر لکھتے ہیں: "زینب علیها السلام عقل و دانائی کی مالک، مضبوط منطق رکھنے والی خاتون تھیں۔" [9]
آیت اللہ خوئی فرماتے ہیں: "زینب (علیہا السلام) اپنے بھائی حسین (علیہ السلام) کی اسلام کی حفاظت، خدا کی راہ میں جہاد اور اپنے نبی، سیدالمرسلین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین (شریعت) کے دفاع میں ساتھی اور شریک تھیں۔ فصاحت و بلاغت میں ایسی تھیں گویا اپنے والد (امیرالمؤمنین علیہ السلام) کی زبان سے بول رہی ہوں۔ ثبات اور استقامت میں اپنے والد کی مانند تھیں۔ ظالموں اور جابروں کے سامنے سر نہیں جھکاتی تھیں اور خداوند سبحان کے سوا کسی سے نہیں ڈرتی تھیں۔ حق بات کرتی تھیں اور سچی تھیں۔ تندوتیز واقعات انہیں نہیں ہلا سکتے تھے، اور زمانے کے طوفان و کڑک انہیں ختم نہیں کر سکتے تھے۔ یقیناً وہ حسین (علیہ السلام) کی بہن اور عقیدہ و جہاد میں ان کی شریک تھیں۔" [10]
شیخ ذبیح اللّه محلاّتی لکھتے ہیں: "میرا عقیدہ یہ ہے کہ فاطمہ زہرا (علیہا السلام) کے بعد حضرت زینب (علیہا السلام) تمام اولین و آخرین عورتوں میں افضل ہیں، اور جو کوئی بھی اس مظلومہ کی زندگی کا مطالعہ کرے گا، وہ ضرور اس کی تصدیق کرے گا، کیونکہ یہ مخدّره جامع فضایل تکوینیه اور تشریعیه کےمالکہ تھیں۔" [11]
عمر رضا کحّاله کہتے ہیں: "وہ ایک عظیم المرتبت سیّده تھیں، جنہیں اعلیٰ عقل، رائے، فصاحت و بلاغت حاصل تھی (ان کا کلام نہایت فصیح و بلیغ تھا)۔" [12]
فرید وجدی لکھتے ہیں: "زینب (علیہا السلام) بہترین خواتین، عظیم ترین برگزیدہ ہستیوں اور بلند مرتبہ ترین زنان میں سے تھیں۔" [13]
سیدمحسن امین فرماتے ہیں: "زینب (علیہا السلام) بہترین خواتین میں سے تھیں... ان کی زبان کی فصاحت اور کلام کی بلاغت، جیسا کہ کوفہ و شام کے خطبوں میں نظر آتی ہے، گویا وہ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی زبان سے بول رہی ہوں۔" [14]
علاّمه مامقانی انہیں «نساء حدیث» میں شمار کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "صدوق نے انہیں اپنی مشیخہ میں ذکر کیا ہے، اور میں کہتا ہوں کہ
«زَیْنَبُ و ما زَیْنَبُ؟ وَ ما اَدریکَ ما زَیْنَبُ؟ هِیَ عَقیلَةُ بَنی هاشِمٍ وَ قَدْ حازَتْ مِنَ الصِّفاتِ الْحَمیدَةِ ما لَمْ یُحزْها بَعْدَ اُمِّها أحَدٌ حَتی حَقَّ اَنْ یُقالَ هِیَ الصِدّیقَةُ الصُغْری، هِیَ فِی الْحِجابِ والْلِفّافِ مَزیدَةٌ لَمْ یَر شَخْصَها أحَدٌ مِنَ الرِّجالِ فی زَمانِ اَبیها وَ اَخَویها الاّ یَومَ طَّفِّ وَ هِیَ فِی الصَّبْرِ وَ الثَّباتِ وَ قُوَّةِ الایمانِ وَالتَّقوی وَحیدَةٌ وَ هِیَ فِی الْفَصاحَةِ وَ الْبَلاغَةِ کَاَنَّها تَفْرَغُ عَنْ لِسانِ أمیرِالمؤمنین علیه السلام ...»؛ [15]
"زینب! زینب کون ہے؟ تم کیا جانو کہ زینب کون ہیں؟ وہ بنی ہاشم کی وہ عظیم خاتون ہیں جو پسندیدہ صفات میں سب سے بلند ہیں، اور ان پر صرف ان کی ماں ہی فخر کر سکتی ہیں۔ یہاں تک کہ اگر ہم انہیں 'صدیقہ صغریٰ' کہیں تو حق بہ جانب ہوگا۔ پردہ و حجاب میں ایسی تھیں کہ ان کے والد اور بھائیوں کے زمانے میں کسی مرد نے انہیں نہیں دیکھا، سوائے واقعہ کربلا کےدن۔ وہ صبر، ایمان کی مضبوطی اور تقویٰ میں بے مثال تھیں، اور فصاحت و بلاغت میں گویا امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی زبان بولتی تھیں۔"
علاّمه مجلسى (رح)نے بھی اس ہستی سےحدیث نقل کی ہے۔ [16]
حضرت زینب (علیہا السلام) کے اقوال اور اشعار جو امام حسین (علیہ السلام) کے کلام اور حالات کے بارے میں ہیں، وہ بھی حدیث کی حیثیت رکھتے ہیں اور معصوم (علیہ السلام) ہی سے منسوب سمجھے جاتے ہیں۔ [17]
________________________________________
حوالہ جات:
.[1] پایگاه حوزه، مجلات، بانوان شیعه شماره 3،زنان راوی امام حسین علیه السلام
.[2] ذبیح اللّه محلاّتی، پیشین، ج 3، ص 46.
.[3] همان، ج 3، ص 38.
.[4] سید بن طاووس، پیشین، ص 37.
.[5] همان، ص 57.
.[6] ابن بابویه، پیشین، ج 2، ص 501 و 507.
.[7] ر. ک: ابن طیفور، پیشین، ص 20 / ذبیح اللّه محلاتی، پیشین، ج 3 / سیدمحسن امین، پیشین، ج 7 / سید بن طاووس، پیشین، ص 63 و 79 / عبدالرّزاق مقرم، مقتل الحسین، چ پنجم، قم، بصیرتی، 1394، ج 2، ص 40 / محمّدباقر مجلسی، پیشین، ج 45.
[8] . ذبیح الله محلاّتی، پیشین، ج 3، ص 62.
[9] . ابن اثیر، پیشین، ج 5، ص 469.
[10] .ابوالقاسم خوئی، پیشین، ج 23، ص 191.
[11] . ذبیح اللّه محلاّتی، پیشین، ج 3، ص 40.
[12] . عمر رضا کحّاله، پیشین، ج 2، ص 91.
[13] . محمّد فرید وجدی، دائرة المعارف القرن العشرین، بیروت، دارالفکر، 1399 ق (1979)، ج 4، ص 795.
[14] . سیدمحسن امین، پیشین، ج 7، ص 137.
[15] . عبداللّه بن محمّد مامقانی، پیشین، ج 3، ص 79 من فصل «النساء».
[16] . محمّدباقر مجلسی، پیشین، ج 36، ص 351.
[17] ر. ک: ذبیح اللّه محلاّتی، پیشین، ج 3 / سید بن طاووس، پیشین، ص 57.
#کلمات #کلیدی
#زینب #راوی #حدیث #امام_حسین #راوی #حدیث #امام #حسین_علیه_السلام #امام #حسین #علیه #السلام #حضرت #زینب #سید_بن_طاووس #امام #حدیث #زینب #کبری