بہترین عشق
- شائع
-
- مؤلف:
- حجت الاسلام جواد محدثی-ترجمہ: سید سعید حیدر زیدی
- ذرائع:
- کتاب: بہترین عشق
http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۲۰۵&view=download&format=pdf
https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=271&view=download&format=doc
پیش گفتار
فہرست
اہلِ بیت ؑ کے حقوق اور ہماری ذمے داریاں. 10
3:- ان کی ولایت و رہبری قبول کرنا 11
4:- انہیں دوسروں پر مقدم رکھنا 12
5:- دینی و دنیاوی امور میں ان کی اقتدا 12
7:- اپنے اموال اورآمد نیات میں سے خمس ادا کرو 13
8:- ان سے اوران کی ذرّیت سے حسن سلوک اوران سے وابستہ رہنا 13
9:- ان پر درود و سلام بھیجنا 13
۱۰:- ان کا اور ان کے فضائل کا تذکرہ کرنا 14
۱1:- ان کے مصائب اور مظلومیت کا ذکر کرنا 14
12:- ان کی قبور مطہر کی زیارت کو جانا 15
۲:- آبِ فرات اور خاک شفا سے تعلق. 20
۳:-محبوبیت چاہنے سے استفادہ 22
۴:- شیعہ پر اہلِ بیت ؑ کی عنایات کی جانب متوجہ کرنا 25
5:- حبِ آلِ محمد ؑ کی فضیلت بیان کرنا 32
6:- اس محبت کی ضرورت اور فوائد بیان کرنا 35
۷:- محبتِ اہلِ بیت ؑ کی اہمیت کاا ظہارکرنا 42
8:-تعظیم و تکریم اور تعریف.. 47
9:- مراسم کا انعقاد اور شعائر کی تعظیم 53
۱۰:- طالبِ کمال ہونے کی حس سے استفادہ 55
۱۲:- اہلِ بیت ؑ کے فضائل اور اُن کی تعلیمات کا ذکر 62
۱۳:- اپنی روزمرہ کی خوشیوں کو حیاتِ ائمہؑ سے منسلک کرنا 66
۱۴:- محبت کم کرنے والی چیزوں سے پرہیز 67
۱۵:- روحانی اور معنوی ماحول پیدا کرنا 69
۱۶:- کتابوں کا تعارف اور مقالات و اشعارتحریر کرنا 72
۱۷:- محبانِ اہلِ بیت ؑ کے قصے 73
۱:-محبت کو عمل کے ساتھ جوڑنا 75
مصائب و مشکلات کے لئے تیار رہنا 84
بسم الله الرحمن الرحیم
تجربہ گواہ ہے اور تاریخ بھی اس حقیقت کی شاہد ہے کہ وہ لوگ جو دینی ومذہبی رسوم وآداب سے جذباتی اور قلبی تعلق رکھتے ہیں، جو اہلِ بیتِ اطہار ؑ سے محبت و عقیدت کے جذبات کے مالک ہیں اور جو مذہبی احکام اور دینی شعائر کے پابند ہیں، وہ (دوسروں کی نسبت) بہت کم گمراہی، گناہ اور اخلاقی خرابیوں میں مبتلا ہوتے ہیں یا بہت دیر میں خرابیوں اور برائیوں کی طرف مائل ہوتے ہیں۔
اہلِ بیتِ رسول ؑ اور معصومین ؑ کے لئے پاک اور مقدس جذبات، دینداری کی راہ میں زیادہ سے زیادہ ثابت قدمی کا سبب اور اہلِ بیت ؑ سے عشق و محبت لوگوں کو بڑی حد تک گناہ اور گمراہی سے دور رکھنے کا ضامن ہےبشرطیکہ یہ محبت اور دوستی گہری ہو، اسکی جڑیں مضبوط ہوں، بصیرت و معرفت کی بنیاد پر ہو اور درست رہنمائی کے ذریعے انسان کو عمل پر آمادہ کرتی ہو۔
دوسری طرف اگرجوانوں اور نوجوانوں میں عقیدے کی بنیادیں مضبوط نہ ہوں اور اُن کی صحیح دینی تربیت نہ ہوئی ہو، تومعاشرے کا یہ طبقہ گناہ اور اجتماعی و اخلاقی گمراہیوں کی لہروں سے سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔
اسلام اور اسلامی انقلاب کے دشمنوں نے بھی ”ثقافتی یلغار“ کے منصوبے بنائے اوراُن کے لئے خطیر رقوم مختص کی ہیں اور وہ نوجوانوں کو اسلام کی مقدس تحریک اور انقلاب سے دور کرنے کی خاطر خود ہمارے ملک سمیت عالمی سطح پر بھرپور وسائل اور ذرائع استعمال کر رہے ہیں۔
آج جو لوگ دینی ثقافت اور ہماری اخلاقی وانقلابی اقدارکے خلاف دشمن کی منظم کوششوں کے بارے میں شک و شبہ کا اظہار کرتے ہیں، یہ ان لوگوں کی بے خبری، غفلت اور سادگی کی علامت ہےجوانوں کے سامنے نا مناسب آئیڈیلز پیش کرنا، انہیں بازاری اورگھٹیا عشق ومحبت کی وادی میں دھکیلنا اور اس روحانی ضرورت اور خلا کی گناہ آلود انحرافی تسکین اسلام دشمن طاقتوں کے ہتھکنڈوں اور پروگراموں کا حصہ ہے۔
لہٰذا ہمیں اپنے پیارے بچوں اور جوانوں کو ان لغزشوں اور سازشوں سے بچانے کی خاطر ان کے بچپنے اور نوجوانی کی عمر ہی سے ان کے لئے منصوبہ بندی کرنی چاہئے اور انہیں فکری، روحانی اور جذباتی غذا فراہم کرنے اور قرآن و عترت کی بنیاد پر صراطِ مستقیم کی جانب ان کی رہنمائی کے لئے منظم اور جچی تلی کوششوں کی ضرورت ہے۔
بچوں اور نوجوانوں کے دل میں اہلِ بیت ؑ کی محبت پیدا کرنا اور اس پاک اور مثالی گھرانے سے ان کی فکر، جذبات اور محبت کو وابستہ کرنامذکورہ منصوبوں اور طریقوں کا ایک حصہ ہونا چاہئےوہ لوگ جو کسی سے اظہارِ محبت، کسی کو دل دینے، کسی کو محبوب بنانے کے خواہشمند ہیں اُن کے لئے اہلِ بیتِ رسول ؑ بہترین اور افضل ترین محبوب ہو ں گے اور اس خاندان سے عشق قیمتی ترین اور دیرپا ترین عشقوں میں سے ہےصاحبِ دل شاعر سعدی شیرازی کے بقول:
سعدی، اگر عاشقی کنی و جوانی
عشقِ محمدؐ بس است و آلِ محمدؑ
اب سوال یہ ابھرتاہے کہ وہ کونسے طریقے ہیں جن کے ذریعے آج کی نسل کو اہلِ بیت ؑ کا محب اور ان کا چاہنے والا بنایا جا سکتا ہے اور ان کی روح میں اس مقدس اور برتر عشق کا بیج بویا جا سکتا ہے؟
والدین، اساتذہ، مصنفین، فنکار، فلم و ٹیلی ویژن کے اربابِ اختیار، ثقافتی ادارے، تبلیغی اور تربیتی مراکز کے پالیسی ساز حضرات، الغرض وہ تمام لوگ جو کسی نہ کسی طرح بچوں اور نوجوانوں کی شخصیت کی تعمیر میں موثر اور حصہ دار ہیں، وہ محبتِ اہلِ بیت ؑ پیدا کرنے کے طریقوں اور راستوں کو تلاش کرنے کے سلسلے میں بھی اور معاصر نسل کی فکروقلب میں دین کی نشو ونماکے سلسلے میں بھی ذمے دار ہیں۔
راقم الحروف نے بغیرکسی بلند بانگ دعوے کے ایک انتہائی چھوٹے اور ابتدائی قدم کے طور پر یہ مختصر کتابچہ ترتیب دیا ہے اور اس بارے میں کچھ نکات پیش کئے ہیں امیدہے اس موضوع پرصاحبِ نظر حضرات کی توجہ و کوشش اور زیادہ علمی و حقیقی طریقوں کے ذریعے بہت کچھ کام کیا جائے گا اور اہلِ مطالعہ اور محققین کے لئے استفادے کا باعث ہو گا۔
جواد محدثی
حوزہ علمیہ قم
دین میں محبت کا مقام
اگرچہ طاقت اور قوت سے کام لے کر ہم اپنا مقصد حاصل کر سکتے ہیں لیکن اس مقصد کے لئے محبت اور عشق سے استفادہ اور دل میں جاذبہ اور کشش پیدا کرنا ایک زیادہ موثر عامل ہے، جو زیادہ دیر پا محرکات پیدا کرتا ہےروایات میں بھی آیا ہے کہ: الحُبُّ افضَلُ مِنَ الخوف (محبت خوف سے بہتر ہےبحار الانوارج ۷۵ص ۲۲۶)
اہلِ بیت ؑ سے ہمارے تعلق کی بنیاد کیا ہے اور اس تعلق کو کس بنیاد پر قائم ہونا چاہئے؟
کیا یہ حاکم ومحکوم اور حکمراں ور عیت کا سا تعلق ہے؟
یا استاد اور شاگرد کے درمیان قائم تعلیم و تعلم کے تعلق کی مانند ہے؟
یا یہ تعلق محبت و مودت اور قلبی اور باطنی رشتہ ہے؟ جو کارآمد بھی ہوتا ہے، دیرپا بھی اور گہرا بھی۔
قرآنِ کریم اس تعلق کی تاکید کرتا ہے اور مودتِ اہلِ بیت ؑ کو اجرِ رسالت قرار دیتا ہے:
قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ
کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغِ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا، سوائے اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کروسورہ شوریٰ ۴۲آیت ۲۳
متعدد روایات میں ”مودۃ فی القربیٰ“ کی تفسیر کرتے ہوئے اسے اہلِ بیت ؑ اور خاندانِ رسول ؑ سے محبت و الفت قرار دیا گیا ہےافضل ترین محبت بھی وہی محبت ہے جس کی تاکید خداوند عالم کرتا ہے اور جو لوگ یہ محبت رکھتے ہیں اُنہیں بھی محبوب رکھتا ہے۔
روایات میں مودت اور ولایت کو خدا کی طرف سے عائد کیا جانے والا ایک فریضہ اور اعمال و عبادات کی قبولیت کا پیمانہ قرار دیا گیا ہے (۱)اپنی احادیث کی رو سے اہلِ سنت بھی اس نکتے کو قبول کرتے ہیں امام شافعی کاشعر ہے کہ:
یا اهلَ بیتِ رسولِ اﷲ حُبُّکُمُ
فرضٌ من اﷲ فی القرآنِ اَنزَلهُ
کَفاکُمُ مِن عظیم القدراَنّکُمُ
مَن لم یُصَلِّ علیکمْ لاصَلاة له
اے خاندانِ رسول اﷲ! آپ کی محبت وہ الٰہی فریضہ ہے جس کا ذکر اس نے قرآن میں کیا ہےآپ کے عظیم افتخار کے لئے یہی کافی ہے کہ جو بھی (نماز میں) آپ پر درود نہ بھیجے اسکی نماز درست نہیں(الغدیرج ۲ص ۳۰۳)
--------------
۱:-پیغمبر اسلام کا ارشاد ہے: لوانّ عبداًجاء یوم القیامةِبعمل سبعینَ نبیّاً ما قَبِلَ اﷲ ذلک منه حتی یلقاهُ بولا یتی وولایةِ اهل بیتی(کشف الغمہ ج ۲ص ۱۰)
کیونکہ اس باطنی تعلق کے نتیجے میں محبانِ اہلِ بیت ؑ گمراہیوں اور لغزشوں سے بھی محفوظ رہتے ہیں اوریہ دین کے اصل اور خالص سر چشمے کی جانب امت کی رہنمائی کا ذریعہ بھی ہے، اسلئے رسولِ کریم ؐنے فرمایا ہے کہ لوگوں میں اہلِ بیت ؑ کی محبت کو فروغ دو اور اس محبت کی بنیاد پر ان کی تربیت کرو:
اَدِّبُوااَولادَکُمْ عَلیٰ حُبّی وَحبِّ اهل بیتی وَالقرآنِ
اپنے بچوں کی تربیت میری، میرے خاندان کی اور قرآن کی محبت پر کرو(احقاق الحق ج ۱۸ص ۴۹۸)
امام جعفر صادق علیہ السلام نے بھی فرمایا ہے:
رَحِمَ اﷲُ عبداً حبَّبَنا اِلَی النّاس وَلَم یُبَغَّضْنااِلَیهم
خدا اس شخص پر رحمت کرے جولوگوں میں ہمیں محبوب بنائے، ان کی نظر میں ہمیں مبغوض اورمنفور نہ بنائے(بحار الانوارج ۷۵ص ۳۴۸)
نیز آپ ؑ ہی نے شیعوں پر زور دیا ہے کہ:
اَحِبّونااِلیَ النّاس وَلا تُبَغِّضونااِلَیهِم، جُرُّوااِلَیْنا کُلَّ مَوَدَّةٍ وَادفَعُواعنّا کُلَّ قبیحٍ
لوگوں کی نظر میں ہمیں محبوب بناؤ، ان کی نظر میں ہمیں منفور (قابلِ نفرت) نہ بناؤہر مودت اور الفت کو ہماری طرف کھینچو اور ہر برائی کو ہم سے دور کرو(بشارۃ المصطفیٰ ص ۲۲۲)
جس قدر محبت اور قلبی تعلق زیادہ ہو گا اتنی ہی پیروی، ہم آہنگی، ہمراہی اور ہمدلی زیادہ ہو جائے گی ہمفکری، ہمراہی اور یکجہتی کے سلسلے میں عشق اور محبت عظیم اثرات مرتب کرتے ہیںلوگ جن ہستیوں سے محبت کرتے ہیں اُنہی کو اپنا آئیڈیل بناتے ہیں۔
اپنے قائد و رہنماسے جذباتی عقیدت سیاسی اور اجتماعی میدانوں میں اسکی اطاعت پر اثر انداز ہوتی ہے اور صرف رسماً اور تنظیمی ضوابط کی پابندی کے لئے ہی نہیں بلکہ عشق وعقیدت کی بنیاد پر پیروی کا باعث بنتی ہے۔
لہٰذا اہلِ بیت ؑ کے ساتھ شیعہ کا تعلق دینی مصادر (قرآن و حدیث) کی بنیاد پر صرف اعتقادی پہلوکا حامل ہی نہیں ہونا چاہئے بلکہ جذباتی، معنوی اور احساسی بھی ہونا چاہئےہمیں چاہئے کہ فکر وشعور کوجذبات واحساسات کے ساتھ مخلوط کریں اور عقل اورعشق کو ایک دوسرے سے جوڑ دیںبالکل اسی طرح جیسے دورانِ تعلیم ہوتا ہے کہ اگر استاد کا اپنے شاگرد سے تعلق علمی سے زیادہ جذباتی اور محبت و مودت کی بنیاد پر قائم ہو، توشاگرد شوق کے ساتھ علم حاصل کرتا ہے۔
ائمہ ؑ کے ساتھ محبت کے تعلق میں بھی دراصل ہونا یہ چاہئے کہ دل پر اُن کی حکمرانی ہواس صورت میں معرفت، عشق اور اطاعت کے درمیان ایک مضبوط تعلق قائم ہو جاتا ہےمعرفت، محبت پیدا کرتی ہے اور محبت ولایت واتباع کا ذریعہ بن جاتی ہے۔
پیغمبر اسلام کی ایک حدیث میں ان تین عناصر اور انسان کی سعادت و کامیابی میں ان کے کردار کی جانب اشارہ کیا گیا ہے:
مَعْرِفَةُ آلِ محمّدٍ بَراءَةٌ مِنَ النّاروَحُبُّ آلِ محمّدٍ جَوازٌ عَلَی الصِّراطِ وَالولایةُ لآل محمّدٍ امانٌ من العذاب
آلِ محمد کی معرفت دوزخ سے برائت اور نجات کا پروانہ ہےآلِ محمد کی محبت پلِ صراط سے گزرنے کا اجازت نامہ (passport) ہے اور آلِ محمد کی ولایت عذاب سے امان ہے(ینابیع المودۃج ۱ص ۸۷)
اس رابطے کی تصویر کشی اس طرح کی جا سکتی ہے کہ:
معرفت > محبت > اطاعت
امام جعفر صادق علیہ السلام کی ایک حدیث میں بھی آیا ہے کہ:
الحُبُّ فرعُ المَعرفة
محبت معرفت کی شاخ ہے(بحار الانوارج ۶۸ص ۲۲)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے مطالعے سے بھی پتاچلتا ہے کہ جو کوئی معرفت اور شناخت کی بنیاد پر آپ کی رفاقت اور صحبت اختیار کرتا تھا اُس کے دل میں آپ کی محبت پیدا ہو جاتی تھی(بحار الانوارج ۱۶ص ۱۹۰) یہ بات محبت ایجاد کرنے کے سلسلے میں معرفت کے اثر کی نشاندہی کرتی ہے۔
عشق و محبت پیدا کرنے کے لئے سادہ مراحل سے آغاز کرنا چاہئے اور بعد کے مراحل میں مزید بصیرت اور زیادہ معرفت کے ذریعے اسے گہرا کرنا چاہئےیہاں تک کہ
”حب“ انسانی سرشت کا حصہ بن جائے اور ”محبتِ اہلِ بیت“ ایک مسلمان اور شیعہ کے دین کا جزہو جائے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے:
هل الدّینُ الاّ الحُبّ
کیا دین محبت کے سوا کچھ اور ہے(میزان الحکمۃج ۲ص ۲۱۵)
امام محمد باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے:
اَلدّینُ هوالحُبُّ وَالحُبُّ هُوالدّین
دین ہی محبت ہے اور محبت ہی دین ہے(بحارالانوارج ۶۶ص ۲۳۸)
واضح ہے کہ سچی محبت عمل اور پیروی کا باعث بنتی ہے اور نافرمانی اورمخالفت سے باز رکھتی ہے (۱)
--------------
۱:- اس بارے میں مزید جاننے کے لئے بحارالانوارکی جلد ۶۶ میں صفحہ نمبر ۲۳۶ تا ۲۵۳پر ”راہِ خدا میں حب اور بغض“ سے متعلق احادیث کا مطالعہ کیجئے۔
یہ محبت پیدا کرنے کے لئے لوگوں کی نفسیاتی حالت اور قلبی آمادگی کوپیش نظر رکھنا چاہئےکیونکہ محبتِ اہلِ بیت ؑ غیر مستعد (نالائق) اور غیر آمادہ دلوں میں جگہ نہیں بناتیجیسے سخت چکنے پتھر پر پانی نہیں ٹھہرتا اور پتھریلی زمین قابلِ کاشت نہیں ہوتی۔
اہلِ بیت ؑ کے حقوق اور ہماری ذمے داریاں
متعدد روایات میں مودتِ اہلِ بیت ؑ کے علاوہ، ہم پر عائد ہونے والے اہلِ بیت ؑ کے حقوق اور خاندانِ پیغمبر ؑ کے مقابل ہماری ذمے داریوں کو بھی بیان کیا گیا ہےاہلِ بیت ؑ کی ولایت، محبت، مودت اور نصرت کے بارے میں احادیث کے کئی ابواب موجود ہیں ان حقوق اور ذمے داریوں کی فہرست کچھ یوں ہے:
1:- مودت و محبت
زیارتِ جامعہ میں ہے کہ:
بِمُوالاتِکم تُقْبَلُ الطّاعةُ المُفتَرضة ولکم المودّةُ الواجبة
آپ کی ولایت کے سبب سے (بارگاہِ الٰہی میں) واجب اطاعتیں قبول ہوتی ہیں اورآپ کی مودت واجب ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ایک مفصل حدیث میں سلمانؓ، ابوذرؓ اور مقدادؓ کو خطاب کر کے یہ بھی فرمایا ہے کہ :
اِنَّ مودّة اهلِ بیتی مفروضَةٌ واجِبَةٌ عَلیٰ کُلِّ مؤمِنٍ ومؤ منةٍ
میرے اہلِ بیت کی مودت ہر با ایمان مرد اور عورت پرفرض اور واجب ہے(بحار الانوارج ۲۲ص ۳۱۵)
حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ہے:
علیکم بِحُبِّ آلِ نبیّکم فانّه حقّ اﷲ علیکم
تمہیں چاہئے کہ اپنے نبی کی آل سے محبت کرو، کیونکہ یہ تم پر عائد ہونے والا خدا کا حق ہے(غرر الحکم حدیث ۶۱۶۹)
2:- ان سے وابستہ رہنا
پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے:
مَن تَمسّکَ بِعِترتی مِن بَعدی کان من الفائزین
جو کوئی میرے بعد میرے اہلِ بیت سے وابستگی اختیار کرے گا وہ کامیاب لوگوں میں سے ہو گا(اهل البیت فی الکتاب والسنةص ۳۶۹)
3:- ان کی ولایت و رہبری قبول کرنا
حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ہے:
لنا عَلَی الناسِ حَقُ الطّاعۃ والوِلایۃ۔
لوگوں پر ہماری اطاعت و ولایت کا حق عائد ہوتا ہے(غرر الحکم)
4:- انہیں دوسروں پر مقدم رکھنا
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے:
اهلُ بَیتی نُجومٌلِأ هلِ الارضِ، فلا تَتَقَدَّمُوهم وَقَدِّموهم فَهُمُ الوُلاةُبعدی
میرے اہلِ بیت اہلِ زمین کے لئے ستارے ہیںپس ان سے آگے نہ بڑھنا بلکہ انہیں آگے رکھنا کہ یہ میرے بعد والی ہیں (احتجاج طبرسی ج ۱ص ۱۹۸)
5:- دینی و دنیاوی امور میں ان کی اقتدا
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم ہی کا ارشاد ہے:
اَهلُ بیتی یُفرِّقون بین الحقِّ والباطلِ وَهُمُ الائمةُ الّذینَ یُقتدیٰ بهم
میرے اہلِ بیت حق اور باطل کو جدا کرتے ہیں اور وہ ایسے پیشوا ہیں جن کی اقتدا کی جانی چاہئے(احتجاج طبرسی ج ۱ص ۱۹۷)
6:- ان کی تکریم و احترام
ایّها الناس!عَظِّموااهلَ بیتی فی حیاتی ومِنْ بعدی وَ اَکرِمُوهم وفَضِّلُوهم
اے لوگو! میرےاہلِ بیت کی تعظیم کرو، میری زندگی میں بھی اورمیرے بعد بھیاُن کااحترام و تکریم کرو اور انہیں دوسروں پر فوقیت دو (احقاق الحق۔ ج۵۔ ص۴۲)
7:- اپنے اموال اورآمد نیات میں سے خمس ادا کرو
سورہ انفال کی آیت ۴۱ میں خمس کو خدا، رسول اور ذوی القربیٰ کے لئے قراردیا گیا ہے۔
8:- ان سے اوران کی ذرّیت سے حسن سلوک اوران سے وابستہ رہنا
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
مَنْ لَمْ یَقدِرْ عَلیٰ صِلَتِنا فَلْیَصِل صالِحی مَوالینا یُکْتَبْ له ثوابُ صِلَتِنا
جو کوئی ہمارے ساتھ نیکی پر قادر نہ ہو، اُسے چاہئے کہ ہمارے دیندار محبوں سے نیکی کرے، تاکہ اسکے لئے ہم سے تعلق اور ہمارے ساتھ نیکی کا ثواب لکھا جائے(ثواب الاعمال ص ۱۲۴)
9:- ان پر درود و سلام بھیجنا
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ صَلّیٰ صَلوةً لَمْ یُصَلِّ فیها عَلَیَّ وَلا عَلیٰ اهلِ بیتی لَمْ یُقْبَلْ مِنه
جو کوئی نماز پڑھے اور اُس میں مجھ پراور میرے اہلِ بیت پر درود نہ بھیجے، تو ایسے شخص کی نماز قبول نہیں کی جائے گی(احقاق الحق ج ۱۸ص ۳۱۰)
۱۰:- ان کا اور ان کے فضائل کا تذکرہ کرنا
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
خیرُالناس مِن بعدِنا مَن ذاکراَمرَناودعاالی ذِکرِنا
ہمارے بعد لوگوں میں بہترین شخص وہ ہے جو ہمارے کام اور ہماری تعلیمات کا ذکر کرے اور لوگوں کو ہمارے ذکر کی دعوت دے (امالئ طوسیص ۲۲۹)
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے :
اِنّ ذِکرَنا مِنْ ذِکراﷲوذِکرُعدوّنامِن ذِکر الشیطان
ہمارا ذکر خدا کا ذکر ہے اور ہمارے دشمن کا ذکر شیطان کا ذکر ہے (کافی ج ۲ص ۴۹۶)
۱1:- ان کے مصائب اور مظلومیت کا ذکر کرنا
امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجالسِ عزائے اہلِ بیت ؑ کے بارے میں فرمایا ہے:
اِنَّ تِلکَ المَجالسَ اُحِبُّهافَاَحْیُوااَمرَنا، اِنّه مَن ذَکَرَنا اوذُکِرْنا عِندَه فَخَرجَ مِن عَینَیهِ مثلُ جَناحِ الذّبابِ غَفراﷲ له ذُنوبَه
ہم اِن مجالس کو پسند کرتے ہیںپس ہمارے امر اور ہماری فکر کو زندہ رکھوبے شک جو کوئی ہمارا ذکر کرے یا اس کے سامنے ہمارا ذکر کیا جائے اور اسکی آنکھ سے پرِ مگس کے برابر بھی آنسون کل آئے، تو ایسے شخص کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں(ثواب الاعمال ص ۲۲۳)
12:- ان کی قبور مطہر کی زیارت کو جانا
امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں:
اِنَّ لِکُلٍ اِمامٍ عهداً فی عُنُقِ اولیا وشیعتِهِ، وانّ مِن تمامِ الوفاءِ بالعهدِ زیارةُ قبورهم
ہر امام کی طرف سے اس کے چاہنے والوں اور پیروکاروں کے ذمے ایک عہد و پیمان ہے اور اس عہد و پیمان سے مکمل وفاداری کی علامت قبورِائمہ کی زیارت ہے(من لا یحضر الفقیہ ج ۲ص ۵۷۷)
قبورِ ائمہ ؑ کی زیارت اس قدر زیادہ اجتماعی اور تربیتی اثرات کی حامل ہے کہ اسے حج اور خانہ خدا کی زیارت کے کمال کی علامت شمار کیا گیا ہےبکثرت احادیث میں اہلِ بیت ؑ اور ائمہ معصومین ؑ کی حیات اور ان کی وفات کے بعد بھی اُن کی زیارت کی تاکید کی گئی ہے (۱)امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے: لوگوں کو اِن پتھروں (خانہ کعبہ) کی طرف آنے، ان کا طواف کرنے، اس کے بعد ہمارے پاس آنے، ہم سے اپنی ولایت اور وابستگی کی اطلاع دینے اور ہمارے لئے اپنی نصرت کے اعلان کا حکم دیا گیا ہے(وسائل الشیعہج ۱۰میزان الحکمۃج ۴وغیرہ)حج کایہ اجتماعی اور سیاسی پہلو، ائمہ حق کی نصرت اوراُن سے محبت کے تعلق کی نشاندہی کرتا ہےزیارت کا وہ عظیم ثواب جس کا ذکر روایات میں کیا گیا ہے، بالخصوص کربلااور خراسان کی زیارت، زیارتِ اربعین و عاشورا اور دور و نزدیک سے زیارت، وہ اس مسئلے کی اہمیت کی علامت ہےقبورِ ائمہ ؑ کی زیارت، ائمہ ؑ کے حوالے سے ہماری ذمےداری ہونے کے ساتھ ساتھ، ہمارے دلوں میں اُن کی محبت پیدا ہونے کا باعث بھی بنتی ہے(اس بارے میں ہم بعد میں گفتگو کریں گے)رسول اﷲصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاہے:
الزّیارةُ تُنْبِتُ المَوَدَّةَ
زیارت و دیدار، مودت اور دوستی پیدا کرتا ہے (بحارالانوارج ۷۱ص ۳۵۵)
--------------
1:- زیارت سے متعلق روایات کے لئے اِن کتب سے بھی رجوع کیا جا سکتا ہےبحار الانوارج ۹۷ تا ۹۹، من لا یحضر الفقیہ ج ۲، کامل الزیارات، عیون اخبار الرضا۔
محبت پیدا کرنے کے طریقے
۱:-بچپنے سے پہلے کا دور
۲:-آبِ فرات اور خاک شفا سے تعلق
۳:-محبوبیت چاہنے سے استفادہ
۴:-شیعہ پر اہلِ بیت ؑ کی عنایات کی جانب متوجہ کرنا
۵:-حبِ آلِ محمد ؑ کی فضیلت بیان کرنا
۶:-اس محبت کی ضرورت اور فوائد بیان کرنا
۷:-محبتِ اہلِ بیت ؑ کی اہمیت کاا ظہارکرنا
۸:-تعظیم و تکریم اور تعریف
۹:-مراسم کا انعقاد اور شعائر کی تعظیم
۱۰:-طالبِ کمال ہونے کی حس سے استفادہ
۱۱:-ولئ نعمت کا تعارف
۱۲:-اہلِ بیت ؑ کے فضائل اور اُن کی تعلیمات کا ذکر
۱۳:-اپنی روزمرہ کی خوشیوں کو حیاتِ ائمہؑ سے منسلک کرنا
۱۴:-محبت کم کرنے والی چیزوں سے پرہیز
۱۵:-روحانی اور معنوی ماحول پیدا کرنا
۱۶:-کتابوں کا تعارف اور مقالات و اشعارتحریر کرنا
۱۷:-محبانِ اہلِ بیت ؑ کے قصے
۱۸:- انجمن سازی
۱:- بچپنے سے پہلے کا دور
و ہ عوامل جو ایک انسان کی شخصیت کی تشکیل میں موثر ہوتے ہیں، اُن کا آغاز اسکول میں اس کے داخل ہونے اورمعاشرے میں اس کے قدم رکھنے سے بہت پہلے ہو چکا ہوتا ہےان عوامل کا تعلق بچے کی خوراک، ماں کے دودھ، والدین کی شخصیت، ایامِ حمل کے حالات اور نطفے کے قرار پانے وغیرہ جیسے مسائل سے ہوتا ہےہاں، اس سلسلے میں وراثت کا پہلو بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے۔
اہلِ دانش، سنجیدہ اورمہذب انسان ایک پاک، شریف، با ایمان، صالح اورکامیاب نسل وجود میں لانے کی خاطرمذکورہ نکات اور باریکیوں کوبھی پیش نظر رکھتے ہیں۔
ہم بہت سے بزرگانِ دین اور شہدائے اسلام کی سوانح حیات میں پڑھتے ہیں، یاہم ان کے متعلق سنتے ہیں کہ ان کی مائیں انہیں با وضو ہو کر دودھ پلاتی تھیںجن دنوں یہ افراد اپنی ماؤں کے شکم میں ہوتے تھے، یا وہ انہیں دودھ پلاتی تھیں، اُن دنوں میں وہ اپنے روحانی حالات، غذاؤں، تقریبات میں شرکت اور مطالعے کے لئے کتب کے انتخاب کی جانب خاص دھیان رکھتی تھیںاس دوران ماؤں کا یہ احتیاط اور دھیان بچوں کی شخصیت اور ان کی عادات و اطوار پر اثر انداز ہوتا ہے۔
ایامِ حمل اور دودھ پلاتے وقت ماں کونسی آوازیں (ترانوں یا تلاوتِ قرآن، یا نوحوں اور قصیدوں کے کیسٹ) سنتی ہے، کونسی تصاویر اور فلمیں دیکھتی ہے، کیسی تقریبات میں شرکت کرتی ہے، کن لوگوں سے میل جول رکھتی ہے، یہ سب باتیں بچے کی روحانی اور معنوی شخصیت کی تشکیل پراثر انداز ہوتی ہیںبعض مائیں امام حسین علیہ السلام کے دسترخوان، مجالس کے حصوں اور نذر و نیازمیں دیئے گئے کھانو ں کو تبرک کی نیت سے استعمال کرتی ہیںیہ عقیدے اور ایمان بچے میں بھی منتقل ہوتے ہیں۔
خداوند عالم سے صالح فرزند کی دعا کرنا، ولادت کے وقت اس کے کان میں اذان و اقامت کہنا، اس کے لئے اچھانام منتخب کرنا، (اس بات کے پیش نظر کہ دایہ کا اخلاق بچے میں منتقل ہوتا ہے) اسے دودھ پلانے کے لئے پاک سیرت دایہ کا انتخاب کرنا، بچے کو دریائے فرات کاپانی اور خاکِ شفا چٹانا، اسے قرآنی آیات اور احادیثِ معصومین ؑ یاد کرانا، اسے نماز روزے کی تلقین کرنا اورایسے ہی دوسرے اسلامی آداب و رسوم کا خیال رکھنا، اس بات کی علامت ہے کہ یہ اموربچوں کی عادات و اطوار پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ ؑ نے فرمایا:
میں نے خدا سے خوبصورت اور خوش قامت بچے طلب نہیں کئے، بلکہ میں نے پروردگار سے دعا کی کہ مجھے ایسے فرزند عطا فرما جو خدا کے اطاعت گزار اور اس سے خوف کھانے والے ہوں تاکہ جب بھی میں انہیں اطاعتِ الٰہی میں مشغول دیکھوں تو میری آنکھوں کو ٹھنڈک ملے
(بحار الانوارج ۱۰۱ص ۹۸)
امام زین العابدینؑ نے بھی بچوں کے لئے اپنی مخصوص دعا میں اللہ تعالیٰ سے زیادہ تردینی، روحانی اور اخلاقی خوبیاں اور تقویٰ، بصیرت، اطاعتِ الٰہی، اولیا اﷲ سے محبت اور دشمنانِ خدا سے دشمنی جیسی خصوصیات طلب کی ہیں۔
وَاجعلهم اَبراراً اَتْقیاءَ بُصَراءَ سامعینَ مُطیعینَ لک
وَلِاَ ولیا ئک مُحبّینَ مُناصِحینَ و لجمیعِ اَعْداءِ ک مُعٰاندینَ و مُبغِضینَ
اور انہیں نیکو کار، پرہیز گار، روشن دل، حق بات سننے والا، اپنا مطیع و فرمانبردار، اپنے دوستوں کا دوست اور خیر خواہ اور اپنے تمام دشمنوں کا دشمن اوربد خواہ قرار دے(صحیفہ سجادیہدعا نمبر ۲۵)
پس بچپنے کا زمانہ بچوں کی دینی تربیت اور اُن میں خدا اور اُس کے محبوب بندوں سے انس و الفت پیدا کرنے کا دور ہے اور اُن میں محبتِ اہلِ بیت ؑ پیدا کرنا بھی اس دینی تربیت کا حصہ ہےہمارا مجالسِ عزائے حسین ؑ میں شرکت کرنا اور وہاں ابا عبداﷲ الحسین ؑ کے سوگ میں اشک بہانا، ائمہؑ اور اہلِ بیت ؑ کے اقوال و احادیث سننا، ہمارے اُن بچوں پر گہرے اثرات مرتب کرتاہے جو ہماری آغوش میں ہوتے ہیں یا شکمِ مادر میں پرورش پا رہے ہوتے ہیںمحبتِ اہلِ بیت ؑ کی جڑیں بچپنے اور شیر خوارگی کے زمانے ہی سے مضبوط ہونے لگتی ہیں اور جوانی اور بزرگسالی میں اس سے کلیاں، پھول اور پھل ظاہر ہونے لگتے ہیں اس نتیجے کا حصول بچوں کی شیر خوارگی اور نوزائیدگی کے زمانے ہی سے اس جانب والدین کی توجہ اوران کے طرزِ عمل سے تعلق رکھتا ہےلہٰذا ہمیں معاشرے میں قدم رکھنے والے اپنے بچوں اور جوانوں کی دینی تربیت اور اُن میں خدا کے محبوب بندوں سے محبت و الفت کی نشو ونماکی اہمیت اور ضرورت کی جانب متوجہ رہنا چاہئے۔
ہمارے پاس اپنے بچوں اور جوانوں کو محب آلِ محمد ؑ اور دوستدارِ اہلِ بیت ؑ بنا نے کے مختلف طریقے موجود ہیں ان میں سے کچھ طریقے ذہنی اور نظری (theoretical) پہلو کے حامل ہیںیعنی ایسے موضوعات پر گفتگو کرناجن کے نتیجے میں خاندانِ پیغمبر ؑ کی جانب کشش اور میلان پیدا ہواس حوالے سے نمایاں طریقوں میں ان ہستیوں کے فضائل و مناقب، بارگاہِ الٰہی میں ان کے بلند مقام، ان اولیائے الٰہی کی سیرت و سوانح کا بیان اور حتیٰ ان کی شکل وصورت اور ظاہری اوصاف کا تذکرہ شامل ہےانبیاؑ اور ائمہؑ سے منسوب تصاویر کے ذریعے بھی بعض لوگوں میں اُن سے محبت و عقیدت پیدا ہوتی ہے۔
دوسرا پہلو عملی طریقوں پر مشتمل ہےیعنی ایسے پروگراموں کا انعقاد اور مفید نکات پر توجہ جن کے نتیجے میں بچوں اور جوانوں کے دلوں میں محبتِ اہلِ بیت ؑ پیدا ہویہ کام والدین، اساتذہ، تربیتی امور کے ذمے دار علما و دانشور اور نسلِ جواں کے پسندیدہ افراد اچھے طریقے سے انجام دے سکتے ہیں۔
اب ہم ان میں سے کچھ راستے اور طریقے پیش کرتے ہیں
۲:- آبِ فرات اور خاک شفا سے تعلق
اہلِ بیت ؑ سے تعلق رکھنے والی اشیا اور علامات سے استفادہ ان سے محبت اور دوستی کے رشتے کو مضبوط کرتا ہے ”عاشورا“ اس گھرانے سے رشتہ عقیدت کی برقراری کا نمایاں ترین مظہر ہے ”شہادت“ اور ”تشنگی“ عاشورا کے دو اہم ترین مظہر ہیں ”آبِ فرات“ امام حسینؑ اور ان کے انصار واقربا کی تشنگی اور حضرت عباس ؑ کی وفا یاد دلاتا ہےجبکہ خاکِ شفا ”ثار اﷲ“ کے خون سے گندھی ہوئی مٹی ہےاوران دونوں میں عاشورا کی ثقافت اور حبِ اہلِ بیت ؑ پائی جاتی ہے۔
شیعہ تعلیمات میں جن مذہبی رسوم کو اہمیت دی گئی ہے، اُن میں سے ایک رسم ولادت کے موقع پربچے کو آبِ فرات اور خاکِ شفا چٹانا ہے۔
یہ عمل بچوں کی ولادت کے وقت ہی سے اہلِ بیتِ رسول ؑ اور عاشورا سے ان کا رشتہ جوڑنے کا باعث بنتا ہےاسی طرح یہ عمل یہ رشتہ جوڑنے اور یہ تعلق قائم کرنے کے لئے ان بچوں کے والدین کے لگاؤ کی علامت بھی ہےیہ آب اورخاک قدرتی طور پر بچے کی سرشت و طینت اور اسکی عادات و اطوار پر اثرمرتب کرتی ہےبہت سی احادیث کے مطابق، خداوند عالم نے حسین ابن علی ؑ کی قبرمطہر کی خاک میں شفا اور علاج کی خاصیت رکھی ہے (وسائل الشیعہج ۳ص ۴۱۱، بحار الانوارج ۹۸ص ۱۱۸) اس خاک اور اس پانی میں محبت ایجاد کرنے کا اثر بھی رکھا گیا ہے۔
پس اپنے بچوں میں محبتِ اہلِ بیت ؑ ایجاد کرنے کے عملی طریقوں میں سے ایک طریقہ اس رسم پر عمل کرنا ہےروایات میں بھی اسکی جانب متوجہ کیا گیا ہےامام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں:
حَنّکوااولادَکم بماء الفراتِ
اپنے نومولود کا دَہَن آبِ فرات سے تر کرو (بحار الانوارج ۹۷ص ۲۳۰)
امام جعفر صادق علیہ السلام ہی نے سلیمان بن ہارون بجلی سے فرمایا:
ما اَظُنُّ احداً یُحَنِّکُ بماء الفراتِ الاَّ احبَّنٰا اهلَ البیت
میں نہیں سمجھتا کہ کسی نے آبِ فرات سے اپنے نومولود کا دَہَن تر کیا ہو اور وہ (بچہ) ہم اہلِ بیت کا محب نہ ہو (بحارالانوارج ۹۷ص ۲۲۸، ۲۳۰)
امام جعفر صادقؑ نہرِ فرات کو جنت کی ایک نہر قرار دیتے تھے، جو خدا پر ایمان لائی ہے اور ایک روز اس میں جنت سے ایک قطرہ آ کر گرا تھانیز آپ ؑ نے فرمایاہے:
مَن شَرِبَ مِن ماء الفراتِ وَحنَّکَ به فهومحبّنااَهلَ البیت
جو کوئی آبِ فرات نوش کرے یا اس سے بچے کے دَہَن کو تر کرے، تو یقیناًوہ ہمارے خاندان کا محب ہو گا(بحارالانوارج ۹۷ص ۲۲۸، ۲۳۰)
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے:
اِنَّ اهلَ الکوفةِ لَوْحَنَّکوااولادَ هم بماء الفراتِ لکانواشیعةً لنا
اگر اہلِ کوفہ نے اپنے بچوں کے دَہَن کو آبِ فرات سے تر کیا ہوتا، تو وہ ہمارے شیعہ ہو جاتے(ایضاًج ۶۳ص ۴۴۸)
امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:
مااحدٌ یَشربُ من ماء الفراتِ وَ یُحنِّکُ به اذااولَدَ الّااَحبَّنٰا، لِأنَّ الفراتَ نهرٌمؤمِنٌ
کوئی ایسا نہیں جس نے آبِ فرات پیا ہو، یا اپنے بچے کے دَہَن کو آبِ فرات سے تر کیا ہو اور وہ ہمارا محب نہ ہوا ہوکیونکہ فرات مومن نہر ہے (ایضاًج ۱۰۱ص ۱۱۴)
امام ؑ نے بچوں کی ولادت کے موقع پر ان کو خاکِ شفا چٹانے کی بابت حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے:
حَنِّکوااولادَ کم بِتُربةِ الحسینِ، فانّهااَمانٌ
اپنے بچوں کو خاکِ شفا چٹاؤ کیونکہ یہ ان کے حفظ و امان کا باعث ہے
(وسائل الشیعہج ۱۰ص ۴۱۰بحارالانوارج ۹۸ص ۱۲۴ اور ۱۳۶)
البتہ روایات میں زور دے کر یہ بات کہی گئی ہے کہ خاکِ شفا سے علاج کی غرض سے یہ استفادہ اس وقت سود مند ثابت ہو گا جب انسان اس بات پر یقین رکھتا ہو کہ خداوند عالم نے خاکِ شفا میں یہ منفعت اور خیر کا پہلورکھا ہے(بحارالانوارج ۹۸ص۱۲۳)
پانی یا شربت میں خاکِ شفا کو حل کر کے علاج کی غرض سے اسے پینے یا دوسروں کو پلانے کی یہ رسم، ائمہؑ کے زمانے میں بھی رائج تھی (ایضاًص ۱۲۱) اور آج بھی مکتبِ اہل بیتؑ کے ماننے والوں میں اس پر عمل کیا جاتا ہے۔
۳:-محبوبیت چاہنے سے استفادہ
ہر انسان چاہتا ہے کہ دوسرے اس سے محبت کریں اور اس پر توجہ دیںلوگوں کو جذب اور مائل کرنے کے لئے ان سے محبت و عقیدت کا اظہارانتہائی موثرواقع ہوتا ہےہر انسان کی دلی آرزو ہوتی ہے کہ کوئی اہم، معروف اور معتبر ہستی اس سے محبت اورچاہت کا اظہارکرےاور اگر یہ اظہارِ محبت و پسندیدگی خدا، رسول ؐاور ائمہ اطہار ؑ کی طرف سے کیا جارہا ہو، توکیا کہنے!!
اس بنیاد پر ہمیں لوگوں کے ذہن میں یہ بات بٹھانا چاہئے کہ اہلِ بیت ؑ سے محبت اور ان سے ولایت رکھنے کی وجہ سے انسان خدا اور اس کے رسول کی محبت کا مستحق ہو جاتا ہےکیا کوئی نعمت اس سے بھی بڑھ کر ہو سکتی ہے؟
اس بات کا اظہار کہ ائمہ ؑ اپنے محبوں سے محبت کرتے ہیں، لوگوں کے دلوں میں ائمہ ؑ کی محبت پیدا کرنے کا باعث بنتا ہےاس بارے میں بکثرت روایات ہیں، ان ہی میں سے ایک حدیث یہ ہے کہ :
ایک شخص امام علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا:
السلام علیکَ یا امیرالمؤمنین ورحمة اﷲوبرکاته، کیفَ اصبَحْتَ؟
اے امیر المومنین! آپ پر سلام (اور خدا کی رحمت و برکت) ہوآپ نے کس حال میں صبح کی؟
امام ؑ نے سر اٹھا کے اس کے سلام کا جواب دیا اور فرمایا:
اصبحتُ مُحِبّاً لِمُحِبِّنا ومُبغِضاً لِمَن یُبغِضُنا
میں نے اس حال میں صبح کی کہ اپنے محب سے محبت کرتا ہوں اور اس کا دشمن ہوں جو ہم سے دشمنی رکھتا ہے(سفینۃالبحارج ۲ص ۱۷)
باہمی محبت اور خدااور بندے یا پیغمبر اور امت کے ایک دوسرے سے خوش ہونے کا ذکرایک سود مند عمل ہےاس بارے میں قرآنِ مجید میں بھی مثالیں پائی جاتی ہیں، جیسے :
رَّضِیَ اﷲُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْه
خدا اُن سے راضی ہوگا اور وہ خدا سے راضی ہوں گے
(سورہ مائدہ ۵آیت ۱۱۹، سورہ توبہ ۹آیت ۱۰۰، سورہ مجادلہ ۵۸آیت ۲۲، سورہ بینہ ۹۸آیت ۸)
فَسَوْفاَا یَاْتِی اﷲُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّهُمْ وَیُحِبُّوْنَه
تو عنقریب خدا ایک قوم کو لے آئے گا جو اسکی محبوب اور اس سے محبت کرنے والی ہے(سورہ مائدہ ۵آیت ۵۴)
یہ آیات صاحبانِ ایمان، صاحبانِ عملِ صالح، دینداراور راہِ خدا میں ثابت قدم رہنے والے افراد کے بارے میں ہیں
اسی طرح یہ سوال کرنا کہ خدا کن لوگوں سے محبت کرتا ہے؟ اوراس کا یہ جواب دینا کہ محبانِ اہلِ بیت ؑ سےاور پھر یہ نتیجہ دینا کہ اہلِ بیت ؑ سے مودت کے نتیجے میں انسان خدا کا محبوب بن جاتا ہے خاندانِ پیغمبر ؑ سے محبت میں اضافے کا باعث ہے
خدا کے منتخب بندوں سے محبت کرنا بھی باعثِ افتخار ہے، اور ان کا محبوب ہونا بھی فضیلت کی بات ہےہم ائمہ ؑ کے حرم میں پڑھی جانے والی زیارتِ امین اﷲ میں خدا کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ :
مُحِبَّةً لِصَفْوَةِ اولیاء ک، مَحبوبةً فی أَرضِک و سماء ک
بارِالٰہا ! ہمیں اپنے برگزیدہ اولیا سے محبت کرنے والا بنا دے اور اپنی زمین اور اپنے آسمان پر محبوب قرار دے
(مفاتیح الجنان، زیارتِ امیر المومنین، زیارتِ امین اﷲ)
اہلِ بیت ؑ سے محبت، انسان کو اس گھرانے کا ہم دل و ہم ساز بنا دیتی ہے اور وہ اس خاندان کا ایک رکن بن جاتا ہےجیساکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سلمانِ فارسیؓ کو اپنے خاندان کا ایک فرد قرار دیا اور فرمایا کہ: سلمانُ مِنّااھلَ البیت (سلمان ہم اہلِ بیت میں سے ہےمناقب ابن شہر آشوبج ۱ص ۸۵)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہی جملہ حضرت ابوذر غفاریؓ کے بارے میں بھی فرمایا ہے اور امام جعفر صادق علیہ السلام نے بھی فضیل بن یسار (رجال کشیج ۲ص ۴۷۳ اور ۳۸۱) اور یونس بن یعقوب (ایضاًص ۶۸۵) کے بارے میں فرمایا ہے کہ یہ ہم اہلِ بیت ؑ میں سے ہیں
کسی انسان کا خاندانِ پیغمبر میں شمار کیا جانا اسکے لئے ایک عظیم نعمت ہےمحبتِ اہلِ بیت ؑ وہ اعزا زہے جس کے ذریعے ان کا محب یہ امتیاز حاصل کرتا ہےاس سلسلے میں درجِ ذیل دو احادیث پر توجہ فرمایئے، جن میں سے ایک محبت کو اور دوسری تقویٰ اور عملِ صالح کو گروہِ اہلِ بیت کی رکنیت کاذریعہ قرار دیتی ہے
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایاہے:
مَنْ اَحَبَّنا فهومِنّااَهل البیتِ
جو کوئی ہم سے محبت کرتا ہے وہ ہم اہلِ بیت میں سے ہے
(تفسیر عیاشیج ۲ص ۲۳۱)
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
مَنِ اتّقیٰ مِنکم وَاَصْلَحَ فهومنّا اهلَ البیت
تم میں سے جو کوئی تقویٰ اختیار کرے، اور صلاح و اصلاح کے لئے کوشاں ہو، وہ ہم اہلِ بیت میں سے ہے(ایضاً)
اِس نکتے کی جانب توجہ اہمیت کی حامل ہے کہ تقویٰ اور نیکوکاری کے بغیرصرف محبتِ ہلِ بیت ؑ کام نہیں آئے گی اور حقیقی محبت انسان کواپنے محبوب کا ہمدم وہم ساز اور ہمرنگ بنا دیتی ہے
۴:- شیعہ پر اہلِ بیت ؑ کی عنایات کی جانب متوجہ کرنا
اہلِ بیت ؑ کے پیروکار اوراُن کے محبین خاندانِ پیغمبر کی توجہ، عنایات اور قدردانی کا مرکز ہوتے ہیںخاندانِ نبوت کی اس محبت، تکریم اور عنایت کی جانب متوجہ رہنا اوراس کی طرف دوسروں کی توجہ مبذول کرانا، دلوں میں ان کی محبت ایجاد کرتا ہے اور پہلے سے موجود محبت میں اضافہ کرتا ہے۔
اہلِ بیت ؑ اپنے محبوں کو پسند کرتے ہیں، انہیں پہچانتے ہیں اور انہیں اپنے آپ سے تعلق رکھنے والے درخت کی شاخیں قرار دیتے ہیںدنیا میں ان کی مشکلات حل کرتے ہیں، آخرت میں ان کی شفاعت کرتے ہیں اور اپنے محبوں کو کبھی نہیں بھولتے۔
اس بارے میں بھی بہت ساری احادیث موجود ہیں، ہم یہاں چند احادیث بطورِ مثال پیش کرتے ہیں:
حُذیفہ بن اُسَید غفاری کہتے ہیں: جب امام حسن علیہ السلام معاویہ سے صلح کے بعد مدینہ واپس تشریف لا رہے تھے، تو میں اُن کے ہمراہ تھااُن کے پاس مال و اسباب سے لدا ہوا ایک اونٹ تھا، جو ہمیشہ اُن کے ساتھ ساتھ رہتا تھا، کبھی جدا نہیں ہوتا تھاایک روز میں نے عرض کیا: اس اونٹ پر کیا لدا ہے جو آپ سے جدا نہیں ہوتا؟
امام نے فرمایا:تمہیں نہیں معلوم کیا ہے؟ میں نے کہا: نہیںامام نے فرمایا: دیوان ہےمیں نے عرض کیاکس چیزکا دیوان (رجسٹر) ہے؟ فرمایا:
دیوانُ شیعتِنافیه اَسماؤ هُم
ہمارے شیعوں کا دیوان ہے، اس میں ان کے نام درج ہیں
(بحار الانوارج ۲۶ص ۱۲۴)
امام جعفر صادق علیہ السلام نے ابوبصیر سے فرمایا:
وَعَرفْنا شیعتناکَعِرفانِ الرّجُلِ اهلَ بیته
ہم اپنے شیعوں کواُسی طرح پہچانتے ہیں جیسے ایک انسان اپنے اہلِ خانہ کو پہچانتا ہے(بحار الانوارج ۲۶ص ۱۴۶)
امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ہم جس کسی کو دیکھتے ہیں پہچان لیتے ہیں کہ وہ مومنِ حقیقی ہے یا منافقہمارے شیعہ لکھ دیئے گئے ہیں ان کے نام اور ان کے اجداد کے نام جانے پہچانے ہیںخدا نے ہم سے اور ان سے عہد لیا ہے کہ جہاں ہم جائیں گے وہاں وہ بھی داخل ہوں گے۔
اِنَّ شیعتَنا لمکتوبُونَ مَعْرُوفون بِأسماءِهِم واسماء آباءهم، اَخَذَاﷲ المیثاقَ علیناوعَلَیهم، یَرِدونَ مَوارِدَناوَیَدخُلون مَداخِلَنا(بحار الانوارج۲۳ص۳۱۳)
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے آیتِ قرآن: وَمِمَّنْ هَدَیْنَاوَاجْتَبَیْنَا(جنہیں ہم نے ہدایت دی اور منتخب کیاسورہ مریم ۱۹آیت ۵۸) کے بارے میں فرمایا:
فَهُم وَاﷲِ شیعَتُناالّذین هَدٰاهُمُ اﷲُ لِمَوَدَّتِنٰاوَاجْتَباهُمْ لِدینِنا
خدا کی قسم، یہ ہمارے شیعہ ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کی خدا نے ہماری مودت اور محبت کی جانب رہنمائی کی ہے اور انہیں ہمارے دین کے لئے منتخب کیا ہے(بحار الانوارج ۲۶ص ۲۲۴)
خاندانِ رسول ؑ سے محبت اور اُن کی پیروی ایک ایسی گرانقدر توفیق ہے جو ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی اور ہمیں چاہئے کہ اس نعمت پر خدا کا شکر ادا کریں۔
ائمہ ؑ کی اپنے شیعہ پر دوسری عنایت روزِ قیامت شفاعت کی صورت میں ظاہر ہو گی، جس کی جانب وہ احادیث اشارہ کر رہی ہیں جو ہم بعد میں بیان کریں گے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے قرآن کی آیت: اِنَّ اِلَیْنَآاِیَابَهُمْ ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا حِسَابَهُمْ (یقیناً انہیں ہماری طرف پلٹ کر آنا ہےپھر یقیناً ان کا حساب لینا ہمارے ذمے ہےسورہ غاشیہ ۸۸آیت ۲۵، ۲۶) کے ذیل میں فرمایا ہے:
اِذٰا کٰانَ یَومَ القِیٰامَةِ جَعَلَ اﷲُ حسابَ شیعَتِناعَلَینا
جب روزِ قیامت آئے گا، تو خداوند عالم ہمارے شیعوں کا حساب ہمارے ذمے کر دے گا(بحار الانوارج ۷ص ۲۰۳)
آپ ؑ ہی کی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ:
نَشْفَعُ لِشیعَتِنٰافَلاٰ یَرُدُّنٰارَبُّنٰا
ہم اپنے شیعوں کی شفاعت کرتے ہیں اور خداوند عالم بھی ہماری شفاعت کو مسترد نہیں کرتا(بحارالانوارج ۸ص ۴۱)
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
اَیْنَمانَکُونُ فَشیعتُنٰامَعَنا
جہاں کہیں ہم ہوں گے، ہمارے پیروکار بھی ہمارے ساتھ ہوں گے
(بحارالانوارج ۸ص ۴۱)
حتیٰ یہ ساتھ جنت میں داخلے کے وقت بھی پایا جائے ہو گاحضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
وخمسةُ ابوابٍ یَدخُل مِنها شیعتُنٰاوَمُحبّونا
جنت کے آٹھ دروازوں میں سے پانچ دروازوں سے ہمارے شیعہ اور محب داخل ہوں گے(بحارالانوارج ۲ص ۲۰۶)
امام جعفر صادق علیہ السلام نے مسجد میں شیعوں کے ایک گروہ کو دیکھا، آپ ؑ اُن کے نزدیک گئے، انہیں سلام کیا اور فرمایا:
وَاﷲِ اِنی لَاُحبُّ ریحَکُم وَارواحَکم اَنتمُ السّابِقونَ الی الجنّة، قدضَمِنّا لکم الجنانَ بِضَمانِ اﷲِ وَرَسُولِه اَلاوَاِنّ لِکُلِّ شَیءٍ شَرَفَاًوَشرفُ الدینِ الشیعةُ، اَلاٰ اِنّ لِکُلِّ شی ءٍ عِماداً وَعِمادُ الدّینِ الشیعةُ، اَلاوانّ لکُل شیءٍ سَیّداً وَ سیّدُ المجالسِ مجالسُ شیعَتِنٰا
خدا کی قسم! میں تمہاری بو اور تمہاری روح کو پسندکرتا ہوںتقویٰ اور جد و جہد کے ذریعے ہماری مدد کروتم خدا کے دین کے مددگار ہوتم وہ لوگ ہو جو سب سے پہلے جنت کی طرف جاؤ گےہم نے تمہارے لئے جنت کی ضمانت لی ہےہر چیز کی بزرگی ہوتی ہے اور دین کی بزرگی شیعہ ہیںہر چیز کا ستون ہوتا ہے اور دین کا ستون شیعہ ہیںہر چیز کا سردار و رئیس ہوتا ہے اور بہترین مجالس اور ان کی سرورو سردار ہمارے شیعوں کی مجالس ہیں
(بحارالانوارج ۶۵ص ۴۳)
امام محمد باقر علیہ السلام نے قرآنِ کریم میں ذکر ہونے والے شجرہ طیبہ کے بارے میں فرمایا: یہ درخت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم ہیں اسکا تَنا علی ہیں اس کی شاخ فاطمہ ہیں اس کے پھل اولادِفاطمہ ہیں اور اس درخت کے پتّے ہمارے شیعہ ہیںجب بھی ہمارے شیعوں میں سے کوئی اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے، تو اس درخت کا ایک پتّا گر جاتا ہے اور جب بھی شیعوں کے یہاں کسی کی ولادت ہوتی ہے، تو اس پتّے کی جگہ ایک دوسرا پتّا اُگ آتاہے(بحارالانوارج ۹ص ۱۱۲)
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے:
اِنَّ اﷲ تعالی اِطّلَعَ اِلَی الأرضِ فاختارَنٰاوَاختارلناشیعةً یَنصرونَناو یَفْرَحُونَ بِفَرَحِناوَیَحزَنُون لِحُزْنِناوَیَبْذِلُونَ اَنْفُسَهم وَاموالَهُم فینا، فاولئک مِنّاوَاِلَیناوَهُم مَعَنافِی الجِنَان
خداوندِ عالم نے زمین کی طرف نگاہ ڈالی اور ہمیں چن لیا، اور ہمارے لئے پیروکار منتخب کئے، جو ہماری مدد کرتے ہیں، ہماری خوشی میں خوش ہوتے ہیں، ہمارے غم میں غمگین ہوتے ہیں اور ہماری راہ میں اپنی جانوں اور اموال کو خرچ کرتے ہیںپس وہ ہم سے اور ہماری طرف سے ہیں اور وہ جنت میں ہمارے ساتھ ہوں گے(میزان الحکمۃج ۵ص ۲۳۳)
مذکورہ روایات اس گھرانے کے پیروکاروں پر خدا اور اہلِ بیت ؑ کی عنایات اور اس محبت اور ولایت کے حامل لوگوں کے ممتاز مقام کو ظاہر کرتی ہیںیہ خاص عنایات جو دو کرم کے حامل اس گھرانے سے انسان کی محبت میں اضافہ کرتی ہیں اور ان سے الفت و عقیدت پیدا کرتی ہیں۔
ائمہ اطہار ؑ کی نگاہ میں اپنے شیعہ کی قدر ومنزلت، اُن کی اپنے محبوں پر خاص توجہ اور محبتِ اہلِ بیت ؑ کے چشمے سے سیراب ہونے والوں اور آل اللہ سے ولا رکھنے والوں کے لئے خدا کے مقرر کردہ مقام کے بارے میں اس قدر احادیث موجود ہیں جن کا شمار ممکن نہیں اور جنہیں نقل کرنے کے لئے ایک انتہائی ضخیم کتاب درکار ہو گیلیکن ان احادیث کے ایک حصے کے مضامین سے آگہی کے لئے، ہم ذیل میں ان فضیلتوں اور خصوصیات میں سے بعض کے عناوین پیش کرتے ہیں(۱)
--------------
1:- ان کثیر احادیث کے متن کے مطالعے کے لئے بحارالانوار کے معجم المفہرس میں لفظ شیعہ کے ذیل میں آنے والی احادیث کو ملاحظہ کیجئے۔
شیعیانِ علی روزِ قیامت سیراب، رستگار اور کامیاب ہیں شیطان شیعیانِ علی پر مسلط نہیں ہوسکتاشیعیانِ علی شیعیانِ خدا ہیںشیعیانِ علی مغفرت شدہ ہیںشیعہ روزِ قیامت حضرت علی ؑ کے ہاتھوں جامِ کوثرسے سیراب ہوں گےان کے پیروکار دنیا اور آخرت میں فتحیاب ہیں اگر شیعہ نہ ہوتے تو خدا کا دین مضبوط نہ ہو پاتایہ بہترین بندگانِ خدا اور صراطِ حق پر ہیں انہوں نے دین اہلِ بیت ؑ اپنایا ہےہمارے شیعہ دوسروں کی نسبت خدا کے عرش اور ہم سے نزدیک تر ہیںہمارے شیعہ دوسروں پر گواہ ہیںہم اور ہمارے شیعہ اصحاب الیمین ہیںہمارے شیعہ ہدایت یافتہ، گرانقدر، صادق اور شیطان کے تسلط سے نجات یافتہ ہیںقیامت کے دن ہمارے شیعہ اپنی قبروں سے نورانی چہروں کے ساتھ اٹھائے جائیں گے اور میدانِ حشر میں سوار پر آئیں گےشیعہ نورِ خدا کے ذریعے دیکھتے ہیںہماری طینت سے پیدا کئے گئے ہیںہم بھی منتخب شدہ ہیں اور ہمارے شیعہ بھییہ ہمارے نور کی شعاع سے پیدا کئے گئے ہیںخداوند عالم ہمارے شیعہ کو دنیاہی میں اسکے گناہوں سے پاک کردیتا ہےخدا نے ہمارے شیعوں سے میثاقِ ولایت لیا ہوا ہےہم اپنے شیعوں پر گواہ ہیں اور ہمارے شیعہ دوسروں پر گواہہمارے شیعہ اپنے گھرانے کی شفاعت بھی کرسکتے ہیںشیعہ شہید دوسرے شہدا سے برتر ہےہمارے با ایمان پیروکار پیغمبر کے اقربا ہیں۔ ۔ احادیث میں شیعوں کے اور اسی طرح کے سینکڑوں بلند مراتب اور فضیلتیں بیان ہوئی ہیں۔
البتہ یہ اوصاف و فضائل اور اعلیٰ مقامات و مرتبے جس قدر گراں قیمت اور پسندیدہ ہیں اسی قدروہ زیادہ ذمے داری، فرض شناسی اور دینداری کا تقاضا کرتے ہیںتاکہ انسان اس مقام ومرتبے کااہل بن سکے(اس کتاب کے اختتامی نکات پر غور فرمایئے گا)
5:- حبِ آلِ محمد ؑ کی فضیلت بیان کرنا
وہ افراد اور ادارے جومحبتِ اہلِ بیت ؑ کی تبلیغ کرتے ہیں اُن کی سرگرمیاں دوسروں کو اس محبت کی جانب مائل کرنے میں موثرہوتی ہیں ایک منصوبہ بندی کے ساتھ محبتِ اہلِ بیت ؑ کی فضیلت، اس کی برکات اور اس کے آثار کو مسلسل بیان کرنا چاہئےیہ چیزیں بہر صورت کچھ لوگوں پر اثر انداز ہوتی ہیں اور ان تبلیغات کے نتیجے میں لوگ اس جانب مائل ہوتے ہیں اس بارے میں بہت سی احادیث ہیںمثال کے طور پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اَلاٰ وَمَنْ ماتَ عَلیٰ حُبّ آلِ محمّدٍ ماتَ شهیداً
اَلاٰ وَمَنْ ماتَ عَلیٰ حُبّ آلِ محمّدٍ ماتَ مغفوراًله
اَلاٰ وَمَنْ ماتَ عَلیٰ حُبّ آلِ محمّدٍ ماتَ مؤمناًمُستکمِلَ الأیمان
اَلاٰ وَمَنْ ماتَ عَلیٰ حُبّ آلِ محمّدٍ بَشَّرهُ ملکُ الموتِ بالجَنَّة
اَلاٰ وَمَنْ ماتَ عَلیٰ حُبّ آلِ محمّدٍ فُتِخَ له فی قبره بابان اِلَی الجنَّة
اَلاٰ وَمَنْ ماتَ عَلیٰ حُبّ آلِ محمّدٍجَعلَ اﷲُ قَبَرهُ مَزارَ ملائکةِ الرّحمة
جو کوئی حبِ آلِ محمد کے ساتھ مرے وہ شہادت کی موت مرا ہےوہ بخش دیا گیا ہےوہ تائب مرا ہےوہ ایمانِ کامل کے ساتھ مرا ہےملک الموت اسے جنت کی بشارت دیتا ہےاس کی قبر میں دو کھڑکیاں بہشت کی جانب کھلتی ہیں اس کی قبر خدا کی رحمت کے فرشتوں کی زیارت گاہ بن جاتی ہے۔
اس قسم کی بکثرت روایات موجود ہیں جن کا ذکر دلوں کو ہلا کے رکھ دیتا ہے اور لوگوں کو اہلِ بیت ؑ کا شیفتہ بنا دیتا ہےروایات میں اس محبت کی فضیلت کے بارے میں کثرت کے ساتھ درجِ ذیل نکات کا ذکر ہوا ہے:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے :
اساس الاسلام حبّی وحبّ اهل بیتی
میری اور میرے اہلِ بیت کی محبت اسلام کی اساس ہے
(کنز العمالج ۱۲ص ۱۰۵)
امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
حبّنااهل البیت نظامُ الدّین
ہم اہلِ بیت کی محبت نظامِ دین ہے(امالئ طوسیص ۲۹۶)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
مَنْ احبّنا فقد احبّ اﷲ ومن ابغضنا فقدابغض اﷲ
جس کسی نے ہم سے محبت کی، اُس نے خدا سے محبت کی اور جس نے ہم سے بغض رکھا، اُس نے خدا سے بغض رکھا(امالئ صدوقص ۳۸۶)
زیارتِ جامعہ کبیرہ میں بھی ہم پڑھتے ہیں کہ:
مَنْ اَحَبَّکُمْ فَقَدْاَحَبَّ اﷲَ
جس نے آپ سے محبت کی، اُس نے خدا سے محبت کی۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
من احبّ هولاء فقداحبّنی ومن ابغضهم فقد ابغضنی
جس نے اہلِ بیت سے محبت کی، اُس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے اُن سے بغض رکھا اُس نے مجھ سے بغض رکھا
(تاریخِ دمشقترجمۃ الامام الحسینص ۹۱)
امام محمد باقر علیہ السلا م فرماتے ہیں:
انّی ئا عَلَم انّ هذاالحبَّ الّذی تحبّونا لیسَ بشی ء صَنعْتُموه ولکنّ اﷲ صنعه
میں جانتا ہوں کہ یہ محبت جو تم ہم سے کرتے ہوایسی شئے نہیں ہے جسے خود تم نے وجوددیا ہو، بلکہ اس سے اللہ نے تمہیں نوازا ہے
(المحاسنج ۱ص ۲۴۶)
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے :
حبّنا اهل البیت افضلُ عبادة
حبِ اہلِ بیت بہترین عبادت ہے(المحاسنج ۱ص ۲۴۷)
امام جعفر صادق علیہ السلام ہی کا ارشاد ہے:
لا تستصغروامودَتنا، فانّها من الباقیات الصّالحات
ہماری محبت کو معمولی نہ سمجھنا، یہ باقیاتِ صالحات میں سے ہے
(مناقبِ ابن شہر آشوبج۴ص ۲۱۵)
پس جب محبتِ اہلِ بیت ؑ کو اس قدر فضیلت حاصل ہے، تو ہمیں چاہئے کہ اپنے دل کو ان کی محبت سے بھر لیں اور ان سے عشق اور عقیدت کا اظہار کریںکیونکہ یہ محبت اور عشق کرنے کے لئے لائق ترین افراد ہیں اگرہم دل کو ایک ظرف سمجھیں تو اس ظرف کی قدر و قیمت اس محبت سے وابستہ ہے جو اس کے اندر موجود ہےانسان کی قیمت اس عشق سے ہے جو اس کے دل میں بسا ہوجس قدر و ہ معشوق اور محبوب گراں قیمت اوربیش بہا ہو گا اتنا ہی انسان بھی قیمتی اور گراں قدر ہو گا۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے: اے لوگو! ہمیشہ میرے گھرانے سے محبت رکھو اور اس سے جدا نہ ہوجو کوئی خدا سے اس حال میں ملاقات کرے کہ اس (کے دل) میں ہماری محبت ہو، تو ایسا شخص ہماری شفاعت کے ذریعے جنت میں داخل ہو گا(بحارالانوارج ۲۷ص ۱۹۳)
6:- اس محبت کی ضرورت اور فوائد بیان کرنا
انسان عموماً اس شخص یا ہستی کو پسند کرتا ہے اوراس سے محبت رکھتا ہے جو اس کی مشکلات حل کرے اور اسے فائدہ پہنچائےلوگوں کے باہمی تعلقات میں یہ مسئلہ انتہائی واضح طور پردیکھا جا سکتا ہے۔
ہماری مسلسل زندگی جو آخرت تک جاری رہے گی اس میں ہم کہاں پھنستے ہیں اور کہاں کہاں ہمیں مدد کی ضرورت ہوتی ہے؟
موت کے وقت، برزخ میں، قیامت کے دن اورپلِ صراط عبور کرتے ہوئے ہمیں شدت کے ساتھ کسی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، اس وقت ہم مشکل کا شکار ہوتے ہیں، ہمیں ایسے مواقع پر محبتِ اہلِ بیت ؑ کے کارآمد ہونے سے واقف ہونا چاہئےاس بارے میں بھی بہت زیادہ احادیث موجود ہیں، ان ہی میں سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چند مشہور احادیث درجِ ذیل ہیں:
حُبّی وحُبُّ اهلِ بیتی نافعٌ فی سَبعةِ مَواطِنَ اَهوالُهُنَّ عظیمةٌ:
عندَ الوفاةِوفی القبر وعندَ النُّشورِ، وعندَ الکتابِ وعندَ الحسابِ وعندَ المیزانِ و عندالصِّراط
میری اور میرے اہلِ بیت کی محبت سات مقامات پر فائدہ پہنچاتی ہے، وہ سات مقامات جن کی ہولناکی اور ہراس عظیم ہےموت کے وقت، قبر میں، قبر سے اٹھائے جانے کے موقع پر، نامہ اعمال سپرد کرتے وقت، اعمال کے حساب اور جائزے کے وقت، اعمال کا وزن کرتے وقت اور صراط عبور کرتے ہوئے(میزان الحکمۃج ۲ص ۲۳۷)
سَأل رَجُلٌ رسولَ اﷲِ عَنِ السّاعة، فقال: مااَعْدَدْتَ لها؟ قال: مااعدَدْتُ لها کبیراً، اِلّا انّی اُحِبُّ اﷲَ ورسولَهقال: فَاَنْتَ مَعَ مَنْ اَحْبَبْتَ (المرءُ مَعَ مَن اَحَبّ) قال انسٌ: فمارأیتُ المسلمینَ فَرِحُوابعدَ الأسلام بِشی ءٍ اَشَدَّ مِن فَرَحِهِم بِهذا
ایک شخص نے رسول اﷲ سے سوال کیا کہ قیامت کیا ہے اور کس طرح واقع ہو گی؟ آنحضرت نے اس سے پوچھا: تم نے قیامت کے لئے کیا تیار کیا ہے؟ اس نے جواب دیا: کوئی خاص اہم چیز تیار نہیں کی ہے، سوائے یہ کہ خدا اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں آنحضرت نے فرمایا: تم اس کے ساتھ ہو گے جس سے محبت کرتے ہو (انسان اس ہستی کے ساتھ محشور ہو گا جس سے وہ محبت کرتا ہے)
انس کہتے ہیں :میں نے نہیں دیکھا کہ مسلمان اسلام کے بعد اس کلام سے زیادہ کسی اور کلام سے خوش ہوئے ہوں
(بحارالانوارج ۱۷ص ۱۳، میزان الحکمۃج ۲ص ۲۴۲)
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
مَن اَحَبَّنا کانَ مَعَنا یومَ القیامة، ولواَنَّ رَجُلا اَحَبَّ حَجَراً لَحَشَرَهُ اﷲُ مَعَهُ
جو کوئی ہم سے محبت کرتا ہے، وہ روزِ قیامت ہمارے ساتھ ہو گااگر کوئی ایک پتھر سے (بھی) محبت کرتا ہو گا، تو خداوند عالم اسے اس پتھر کے ساتھ محشور کرے گا(بحارالانوارج ۳۷ص ۳۳۵)
اہلِ بیت ؑ سے محبت و عقیدت رکھنے والے لوگوں کے لئے یہ ایک عظیم خوشخبری ہے کہ وہ آخرت میں بھی اہلِ بیت ؑ کے ساتھ محشور ہوں گے۔
جب محبت اس حد تک مفید اور کارآمد ہے تو آخر کیوں ہم اس دولت سے محروم رہیں؟
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
موت کے وقت جب تمہاری جان گلے میں پہنچتی ہے، اس وقت تمہیں ہماری محبت کی زیادہ ضرورت ہو گیاگر تمہارے دل میں ہماری محبت ہوئی توخوشخبری دینے والا فرشتہ آئے گا اور کہے گا کہ بالکل خوف نہ کھاؤ، تم امان میں ہو۔
(بحارالانوارج ۶ص ۱۸۷)
روایات میں محبتِ اہلِ بیت ؑ کے بہت سارے آثار کا ذکر ہوا ہےخاص کر آخرت کے مرحلے میں یہ آثار و منافع درج ذیل عنوانات کے تحت جمع کئے جا سکتے ہیں: (۱)
--------------
1:- یہ آثار وعناوین محمد محمدی ری شہری کی کتاب ”اھل البیت فی الکتاب والسنۃ“ سے ماخوذ ہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
حبّنا اهل البیت یکفرالذنوب ویُضاعف الحسنات
محبتِ اہلِ بیت گناہوں کے جھڑ جانے اور نیکیوں میں اضافے کا باعث ہے۔
(ارشاد القلوبص ۲۵۳)
امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:
لا یحبّناعبدًحتی یطهَر اﷲُ قلبَه
جس کسی نے ہم سے محبت کی خدا نے اس کے دل کو پاک و پاکیزہ کیا ہے(دعائم الاسلامج۱ص ۷۳)
آپ ؑ ہی نے فرمایا ہے:
من احبّنااهل البیت وحقّق حبَنا فی قلبه جَرَتْ ینابیع الحکمة علی لسانه
جس کسی نے ہم اہلِ بیت سے محبت کی اور اس محبت کو اپنے دل میں رچا بسالیا، اسکی زبان سے حکمت و دانائی کے چشمے جاری ہو کے رہیں گے(المحاسنج ۱ص ۱۳۴)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
حبّ اهل بیتی وذرّیتی استکمالُ الدّین
میرے اہلِ بیت اور عترت سے محبت کمالِ دین (کی باعث) ہے۔
(امالئ صدوقص ۱۶۱)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
شفاعتی لأ متی مَن احبّ اهلَ بیتی وهم شیعتی
میری شفاعت میری اُمت کے اُن افراد کے لئے ہے جو میرے اہلِ بیت سے محبت کرتے ہیں، اور یہی میرے شیعہ ہیں(تاریخ بغدادج ۲ص ۱۴۶)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کا فرمان ہے:
اکثرکم نوراً یومَ القیامة اکثرکم حُبّأ لاَل محمّد
روزِ قیامت ان ہی لوگوں کا نور زیادہ ہوگا جو آلِ محمد سے زیادہ محبت کرتے ہوں گے(بشارۃ المصطفیٰ ص ۱۰۰)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی نے فرمایا ہے:
من احبّنا اهل البیت حشره اﷲ تعالیٰ اَمنأیومَ القیٰمة
جو ہم اہلِ بیت سے محبت کرتا ہے، روزِ قیامت خداوند عالم اسے (اس دن کے خوف سے) امان کے ساتھ محشور کرے گا(عیون اخبار الرضاج ۲ص ۲۲۰)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کا ارشاد ہے:
اَثْبَتُکم قَدَمَاً عَلی الصّراط اشدّ کم حُبّاًلأ هل بیتی
پلِ صراط پر تم میں زیادہ ثابت قدم وہی ہوگا جو میرے اہلِ بیت سے زیادہ محبت کرتا ہے(فضائل الشیعہص ۴۸)
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
واﷲ لا یموتُ عبدیحبّ اﷲ ورسولَه و یتولّی الأئمة (ع) فَتمسَّهُ النار
خدا کی قسم! جو بھی خدا اور اسکے رسول سے محبت کرتا ہے اور ائمہ کی پیروی کرتا ہے اُسے آتش جہنم نہیں چھو سکتی(رجالِ نجاشیج۱ص ۱۳۸)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:
مَن احبّنا اهل البیت فی اﷲ حُشرمعناواَدْخَلْنٰاهُ مَعَناالجَنّة
جو خدا کی خاطر ہم اہلِ بیت سے محبت کرتا ہے وہ ہمارے ساتھ محشور کیا جائے گا اور ہم اسے اپنے ساتھ جنت میں لے جائیں گے(کفایۃ الاثرص ۲۹۶)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:
اعلیٰ درجات الجنَة لِمَنْ اَحَبّنابِقلبه ونَصرنابلسانه ویَده
جنت کے اعلیٰ درجات اُسکے لئے ہیں جو ہم سے دلی محبت کرتا ہے اور اپنی زبان اور عمل سے ہماری مدد کرتا ہے(المحاسنج ۱ص ۲۵۱)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
مَن ارادَاَنْ ینجومِن عذابِ القبرِ فلیُحبَّ اهلَ بیتی ومن اراددخولَ الجنَة بغیرحسابٍ فلیحبَّ اهل بیتیفواﷲِ مٰا اَحبَّهم اَحدٌ الاَ رَبِحَ الدّنیا والاَخرَة
جو شخص عذابِ قبر سے نجات چاہتا ہے، اُسے چاہئے کہ میرے اہلِ بیت سے محبت کرے۔۔۔ اور جو بغیر حساب کے جنت میں داخلے کا متمنی ہے اسے (بھی) چاہئے کہ میرے اہلِ بیت سے محبت کرےخدا کی قسم جس کسی نے اہلِ بیت سے محبت کی وہ دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوا
(مقتل الحسین ؑ ازخوارزمیج۱ص ۵۹)
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
خداوند عالم جس کسی کو میرے اہلِ بیت سے تعلق رکھنے والے اماموں کی محبت ودیعت کرتا ہے، وہ شخص دنیا اور آخرت کی خیر حاصل کرلیتا ہے اور بے شک اُس کا شمار اہلِ جنت میں ہوتا ہےاور میرے اہلِ بیت ؑ کی محبت میں بیس خصوصیات اور فوائد ہیں، دس دنیا میں اور دس آخرت میں(بحارالانوارج ۲۷ص ۷۶)
اس محبت کے آثار و برکات پیش نظر ہوں تو انسان اہلِ بیت ؑ کاشیفتہ اور عقیدت مند بن جاتا ہے اوراُس کی نظر وں میں یہ محبت ایک گرانقدر سرمائے کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے۔
۷:- محبتِ اہلِ بیت ؑ کی اہمیت کاا ظہارکرنا
جب کسی عمل کی جانب ترغیب دلائی جاتی ہے، یا اسے انجام دینے پر حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور اسے ایک مثال اور نمونے کے بطور پیش کیا جاتا ہے، تو دوسروں میں بھی اس عمل کی جانب جذب اور کشش پیدا ہو تی ہےوہ افراد جو معاشرے میں اعلیٰ اقدار کو فروغ دیتے ہیں، فن و ثقافت کے میدانوں کے ذمے دار ہیں، مقابلوں کا انعقاد اور مختلف کارہائے نمایاں پر اعزازات سے لوگوں کو نوازتے ہیں، اگر یہ سب کے سب افراد چاہیں تومحبتِ اہلِ بیت ؑ کو معاشرے میں ایک قابلِ قدر شئے کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے
جب ائمہؑ کے بارے میں شعر کہنے، اُن کے حوالے سے کوئی قصہ لکھنے، یا اُن کے بارے میں کوئی کتاب پڑھنے کی وجہ سے کسی کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، اُسے انعام واعزاز سے نوازا جاتا ہے، تو یہ عمل اُس میں ائمہؑ سے محبت کا باعث بھی ہوتا ہے اور اس تعلق کی بنا پر اُس میں احساسِ عزت و سربلندی بھی پیدا ہوتا ہےکیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ انعام مجھے اس تعلق کی وجہ سے ملا ہےاس طرح یہ معاملہ اُس کے ذہن میں ایک خوبصورت یادکے طور پر باقی رہتا ہے جو جذبہ محبت پیدا کرنے میں اپنا اثر دکھاتی ہے۔
لوگوں کو جس چیز کی جانب رغبت دلائی جاتی ہے اور انہیں جس چیز کے احترام کی تلقین کی جاتی ہے وہ اُسی چیز سے محبت اور عقیدت رکھنے لگتے ہیں اور جس چیز کی جانب سے وہ بے توجہی اور بے اعتنائی کا رویہ دیکھتے ہیں اس سے بے تعلقی اور بے رُخی برتنے لگتے ہیں اس حوالے سے خاص طور پر دوسروں کی موجودگی میں رغبت اور شوق دلانا زیادہ موثر رہتا ہےالبتہ اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ رغبت اور شوق دلانا ”رشوت دینے“ کی سی صورت پیدا نہ کر لے۔
معاشرے میں جس چیز کو اہمیت دی جاتی ہے، لوگ اس کی جانب مائل ہونے لگتے ہیں، اور اُس چیزکے طرفدار فخر و ناز کے ساتھ اس کا ذکر کرتے ہیںمثلاً جب جوانوں سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کن موضوعات پر شعر پڑھتے ہیں، تو ان کی اکثریت کہتی ہے کہ عشق، بہار، دوستی، زندگی، گل و بلبل وغیرہ کے بارے میںاور جب نوجوانوں اور جوانوں سے سوال کیا جاتا ہے کہ کونسی کتابیں پڑھتے ہیں؟ تو وہ کہتے ہیں کہ: رومان، سائنس اور ناول وغیرہ۔۔۔
یعنی بہت مشکل سے ایسے جوان ملتے ہیں جو یہ کہیں کہ ہم خدا، نماز اور ائمہؑ کے بارے میں شعر پڑھتے ہیں، یا اہلِ بیت ؑ اور دین سے متعلق کتب پڑھتے ہیںکیونکہ انہیں اس بارے میں شوق ہی نہیں دلایا گیا ہوتا، وہ ان موضوعات کی جانب رغبت ہی نہیں رکھتے اور ان چیزوں کا مطالعہ اُن کے لئے فخر و نازکا باعث ہی نہیں ہوتا۔
ہمیں چاہئے کہ ایسا ماحول پیدا کریں کہ اگر کوئی شخص اہلِ بیت ؑ کے بارے میں شعر کہے، یا ان کے بارے میں اشعار حفظ کرے، ان کی کوئی حدیث یا د کرے، ان کے بارے میں کوئی کتاب پڑھے، ان کے حوالے سے کوئی قصہ تحریر کرے، کوئی فلم بنائے، کوئی نعرہ تخلیق کرے، یا حتیٰ اس کا نام کسی امام کے نام پر ہو، یا وہ اپنے بچے کانام ائمہ اہلِ بیت ؑ میں سے کسی کے نام پر رکھے، تو وہ اپنے اس عمل پرفخر ونازمحسوس کرےاسے ایک فضیلت کی بات سمجھے اور اسے ایک گراں قیمت چیز تصور کرےمحبتِ اہلِ بیت ؑ خدا کی خاص نعمت ہے، جو اسکے اہل دلوں ہی میں جگہ بناتی ہےبقول امام رضا علیہ السلام :
یَهدِی اﷲُ لِولایتنامَنْ اَحَبَّ
خدا جس کسی کو پسند کرتا ہے، ہماری محبت کی جانب اس کی رہنمائی کردیتا ہے(بحارالانوارج ۱۶ص ۳۵۶)
عام طور پرجب کسی بچّے کو محمد، علی، فاطمہ، مہدی، حسن اور حسین جیسے نام ہونے کی وجہ سے ان معصومین ؑ سے منسوب کسی مناسبت پر انعام حاصل ہوتا ہے، تو یہ عمل اس بچّے کے دل میں ان ناموں اور ان شخصیات سے محبت پیدا کرتا ہے اور دوسروں میں بھی یہ خواہش جنم لیتی ہے کہ کاش ان کا بھی یہ نام ہوتا اور انہیں بھی انعام ملتا۔
اس نکتے پر اس قدر احتیاط کے ساتھ عمل ہونا چاہئے کہ لوگوں کے دلوں میںیہ نام رکھنے کا شوق پیدا ہو، ایسانہ ہو کہ یہ نام نہ ہونے کی بنا پر ان میں کوئی بدگمانی، کمپلکس اور احساسِ حقارت پیدا ہو جائے اور کوئی منفی اثر مرتب ہواہلِ بیت ؑ سے محبت کا تعارف ایسی پیاری اور قیمتی شئے کے طور پرکرانا چاہئے کہ یہ محبت رکھنے والا اس پرفخر کرے، اسے معمولی نہ سمجھےامام جعفر صادق علیہ السلام نے تلقین فرمائی ہے کہ:
لا تستصغِرْ مودَتنا، فانّهامِن الباقیات الصالحات
ہم سے محبت اور چاہت کو معمولی نہ سمجھوکیونکہ یہ باقیاتِ صالحات میں سے ہے(بحارالانوارج ۲۳ص ۲۵۰)
جب کبھی ذرائع ابلاغ، ریڈیو، ٹیلی ویژن اخبارات کے ذریعے کسی قابلِ تقلید شخصیت کا تعارف کرایا جاتا ہے (خواہ وہ شخصیت کوئی قارئ قرآن ہو، سائنس دان ہو، شاعر ہو، مصور ہویا کوئی کھلاڑی) تویہ سامعین، ناظرین، قارئین کو متاثر کرتاہے اور لوگ اس شخص سے محبت کرنے لگتے ہیںجس خصوصیت کی وجہ سے ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، وہ خصوصیت لوگوں کی نظر میں بھی اہمیت اختیار کرلیتی ہےایک حافظِ قرآن کی حوصلہ افزائی لوگوں میں قرائتِ قرآن اور حفظِ قرآن کا شوق پیدا کرتی ہے، کسی سائنسی مقابلے میں کامیاب ہونے والے طالبِ علم کے اعزاز میں تقریب سائنس کی جانب نوجوانوں کے رجحان میں اضافے کا باعث ہوتی ہے اورایک فنکار کی حوصلہ افزائی فن کی جانب لوگوں کی رغبت اور رجحان کو بڑھاتی ہے۔
وہ ممتاز افراد، نامورعلمی و ادبی شخصیات جن کا ذکر بچوں کی نصابی کتب میں ہوتا ہے، بچے اُن سے محبت کرنے لگتے ہیںلہٰذا اس قسم کے افراد کا انتخاب کرتے ہوئے احتیاط سے کام لینا چاہئےلوگوں میں کسی محبِ اہلِ بیت ؑ اور انقلابی شاعر کو متعارف کرانا اسے ایک قابلِ تقلید شخصیت کے طورپر پیش کرنے کی مانند ہے اوریہ انسان میں مذہب اور اہلِ بیت ؑ کی جانب رجحان پیدا کر دیتا ہےامام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:
یا مَعشرَالشیعة! عَلِّموااَولادَکُم شِعْرَالعَبدی فَاِنَّهُ عَلیٰ دینِ اﷲ
اے گروہِ شیعہ ! اپنے بچوں کو عبدی کے شعر سکھاؤ کیونکہ وہ خدا کے دین پر ہے(الغدیرج ۲ص ۲۹۵)
امام جعفر صادق علیہ السلام کی یہ تلقین کہ شیعہ اپنے بچوں کو عبدی کے اشعار یاد کرائیں عبدی کوفی (۱) کے لئے ایک بہت بڑا اعزاز اور اُس کی شخصیت کی عظمت کا اظہار ہےعبدی نے اپنے اشعار میں بھرپور انداز سے فضائلِ اہلِ بیت ؑ بیان کئے ہیں
۱ان کا نام سفیان بن مصعب تھاان کا شمار ممتاز شیعہ شعرا میں ہوتا تھااوروہ اہلِ بیت ؑ کی عنایات اور توجہات کا مرکز تھےانہوں نے اہلِ بیت کی مدح اور ان کے مصائب کے بارے میں شعر کہے ہیںیہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے دور میں ہوا کرتے تھے۔
سید حمیری جومخلص شیعہ شعرا میں شمار کئے جاتے ہیں، کہا کرتے تھے کہ جو کوئی امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام اور اہلِ بیت علیہم السلام کی فضیلت کے بارے میں کوئی ایسی حدیث بتائے، جسے میں نے اپنے کسی شعر میں بیان نہ کیا ہو، میں اسے اپنا یہ گھوڑا بخش دوں گا !!!
-------------
۱:- یہ اس محبت کی قدر و قیمت اور روزِ قیامت اس کی تاثیر کی ایک علامت ہے۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے والدِ گرامی حضرت ابو طالب علیہ السلام کا شمار موحدین اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان رکھنے والے افراد میں ہوتا ہے، انہوں نے آنحضرتؐ کی توصیف میں اشعار کہے تھےبیان کیا گیا ہے کہ حضرت علی ؑ اس بات کو پسند فرماتے تھے کہ حضرت ابوطالب ؑ کے اشعار کو نقل کیا جائے، انہیں جمع کیا جائےآپ ؑ فرماتے تھے کہ: انہیں یادکرو اور اپنے بچوں کو بھی سکھاؤکیونکہ ابوطالب ؑ خدا کے دین پر تھے اور ان کے اشعار میں بہت سا علم و دانش ہے۔
کانَ امیرُالمؤمنین (ع) یُعجِبُه اَن یُرویٰ شعرُابی طالبٍ وَأنْ یُدَوَّنَ وقال: وَتَعَلّموه اولادَ کُم، فانّه کانَ علیٰ دینِ اﷲ وفیه علمٌکثیرٌ(مستدرک وسائل الشیعہج ۲ص ۶۲۵)
ابو الا سود دوئلی کی بیٹی نے جب یہ محسوس کیا کہ خلیفہ وقت نے اس کے گھر شہد اسلئے بھیجا ہے تاکہ ان کے دلوں سے محبتِ اہلِ بیت ؑ کم کر سکے، تو اس نے منھ میں لیا ہوا شہد تھوک دیا اور شہدکھا کر آلِ علی ؑ کی محبت سے محروم ہونا پسند نہ کیا۔
والدین، اساتذہ اور تربیتی امور کے نگراں حضرات، ان مسائل میں بہت عمدہ طریقے سے رہنمائی کر سکتے ہیں اور نوجوانوں کے رجحانات اور قابلِ تقلید شخصیات کے بارے میں ان کے رُخ کا تعین کر سکتے ہیںحتیٰ اگر ایک بے دین لڑکا یا لڑکی اپنا نام مہدی یا فاطمہ ہونے پر انعام حاصل کرے، تو یہ انعام پانے پر حاصل ہونے والی خوشی بھی اس میں ان ہستیوں سے محبت پیدا کرے گیاگر دینی ایام، یااہلِ بیت ؑ کی ولادت سے مخصوص دنوں میں اس قسم کے انعامات دیئے جائیں، تو یہ عمل ان ہستیوں کی جانب بچوں اور جوانوں کو متوجہ کرنے میں موثر واقع ہو گاشفاعت سے متعلق احادیث میں آیا ہے کہ روزِ قیامت حضرت فاطمہ زہرا ؑ شیعوں کی شفاعت کریں گی اور جن لوگوں کی شفاعت کی جائے گی، جب وہ خدا سے اپنی منزلت اور مقام کے بارے میں سوال کریں گے، تو ان سے کہا جائے گا کہ: واپس جاؤ اور جس کسی نے فاطمہ کی محبت میں تم سے محبت کی ہے یا تمہیں کھانا دیاہے، لباس فراہم کیاہے، یا پانی پلایاہے، یا تمہاری عزت و آبرو کی حفاظت کی ہے، اس کا ہاتھ پکڑکر اسے بہشت میں داخل کر دو (بحارالانوارج ۸ص ۵۲)
8:-تعظیم و تکریم اور تعریف
بچے اورجوان، اپنے اساتذہ کو قابلِ تقلید سمجھتے ہیں، اسی وجہ سے وہ ان کے انداز و اطوار کی بھی پیروی کرتے ہیں استاداورمربی کی حرکات وسکنات اور اُس کا طرزِ عمل بالواسطہ (indirect) تعلیم کی صورت میں شاگرد پر اثر انداز ہوتا ہےرہبرِ معظم حضرت آیت اﷲ خامنہ ای نے اساتذہ کے ساتھ ایک ملاقات میں فرمایا:
عزیزاساتذہ! کلاس میں صرف آپ کا درس دینا ہی نہیں بلکہ آپ کا مخصوص اندازسے دیکھنا، آپ کے اشارے کنائے، آپ کی مسکراہٹ، آپ کا تیوریوں پر بل ڈالنا، آپ کی حرکات وسکنات، آپ کا لباس، یہ سب چیزیں آپ کے شاگردوں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
جب ہم اپنی طرف پلٹ کر دیکھتے ہیں (اپنا جائزہ لیتے ہیں) اگرہم اپنے گہرے جذبات و احساسات اور کیفیات کی جڑ تلاش کرتے ہیں تو بالآخر وہاں ہمیں اپنے کسی استاد کی رہنمائی دکھائی دیتی ہےاستاد ہے جو ہمیں بہادر یا بزدل، فیاض یا بخیل، فداکار یا خود پرست، اہلِ علم اور طالب علم، مودب وفہمیدہ، یا منجمد اور جامد تفکرات کا اسیر بناتا ہےاستاد ہے جو ہمیں متدین، متقی، پاکدامن یا خدانخواستہ بے لگام بناسکتا ہےیہ ہے استاد کا اہم کردار، یہ ہے استاد کی قدر و قیمت، یہ ہے استاد کی تاثیر۔
بچوں اور نوجوانوں کے سامنے اُن کے سرپرست، والدین اور اساتذہ اہلِ بیت ؑ کے بارے میں جس طرزِ عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں بچے وہی اپناتے ہیں احترام و عقیدت کے ساتھ ائمہؑ کا نام لینا، ان کا نام لیتے ہوئے درود و سلام زبان پر جاری کرنا، امامِ زمانہ ؑ کا نام آنے پر کھڑے ہو جانا، اپنے سر پر ہاتھ رکھ لینا، ائمہ ؑ کے یومِ ولادت پر خوشی و مسرت کا اظہار کرنا، ان کے روزِ وفات پر حالتِ غم و اندوہ میں رہنا، ہنسی مذاق اور کسی قسم کی خوشی کا اظہار نہ کرناوہ امور ہیں جو اپنے اثرات مرتب کرتے ہیں اس قسم کے مسائل میں بچے اپنے بڑوں کے طرزِ عمل کا مشاہدہ کرتے ہیں
یہ حالت ایک شیعہ کی خصوصیت ہے۔
شیعتناخُلِقوامن فاضِلِ طینتنا، یَفرحون لِفرَحناویَحزَنون لِخرننا
ہمارے شیعہ، ہماری بچی ہوئی مٹی سے خلق کئے گئے ہیں، وہ ہماری خوشی میں خوش اور ہمارے غم و اندوہ پر غمگین ہوتے ہیں۔
حد یہ ہے کہ ماں کا ان ہستیوں کے نام لینے کا انداز اور اس موقع پر اس کا لب و لہجہ بھی اپنا اثر رکھتا ہےایک دفعہ ہم کہتے ہیں امام رضا نے کہا اور ایک مرتبہ کہتے ہیں کہ: حضرت امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: ان دونوں کے درمیان بہت فرق ہے۔
اگر ہم پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم یا کسی معصوم علیہ صلوات و سلام کا نام سن کر زیر لب ان پر صلوات بھیجیں، تو یہ بھی ایک قسم کی تعظیم ہے اور دوسروں پر اثر انداز ہوتی ہےبڑوں، یعنی اساتذہ اور والدین کا ائمہؑ کے بارے میں اشتیاق اور عقیدت کے ساتھ گفتگو کرنا اور اہلِ بیت ؑ اور ان کی محبت کے بارے میں کوئی بات یا قصہ سنانا بھی اثر رکھتا ہےگفتگوکرنے والے اور مبلغ کا عقیدہ اسکی گفتار سے ہم آہنگ ہونا چاہئے اور اسے ایمان، یقین اور شوق و عقیدت کے ساتھ گفتگو کرنی چاہئےیہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ یہ حالت اس کے سامعین اور اس کے مخاطبین میں بھی منتقل ہوتی ہے۔
احادیث میں بار بار یہ بات کہی گئی ہے کہ جب کبھی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسمِ مبارک سنو، ان پر درود بھیجوخود ائمہ ؑ اسی طرح کیا کرتے تھے اور انتہائی عقیدت اور احترام کے ساتھ آنحضرت ؐاور اُن کے اہلِ بیت ؑ کا ذکر کرتے تھے، اور ان کا یہ احساس ان کے مخاطبین میں بھی منتقل ہوتا تھاجب شاعرِ اہلِ بیت ”دعبل“ نے خراسان میں امام رضا ؑ کی خدمت میں اپنامعروف قصیدہ پیش کیا اور وہ اس مقام پر پہنچے جہاں مستقبل میں امامِ زمانہ ؑ کے ظہوراور قیام کا تذکرہ ہواہے، تو حضرت ؑ نے اپناہاتھ سر پر رکھا اور امام مہدی ؑ کاذکر سن کران کے احترام کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور امام ؑ کے فرج کے لئے دعا کی(الغدیرج۲ص ۳۶۱)
امام جعفر صادق علیہ السلام سے امام مہدی ؑ کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا ان کی ولادت ہوچکی ہے؟ امام ؑ نے فرمایا: نہیں، لیکن اگر میں نے انہیں پایا تو اپنی پوری زندگی ان کی خدمت میں گزاردوں گا(بحارالانوارج ۵۱ص ۱۴۸)
امام محمد باقر علیہ السلام نے جب امام مہدی ؑ کا ذکر کیا، تو راوی (ام ہانی ثقفیّہ) سے فرمایا: اگر تم انہیں پاؤ تو یہ تمہاری خوش نصیبی ہوگی(طوبیٰ لکِ ان ادرکتِہِ ویا طوبیٰ من ادرکہ) خوش نصیب ہے جو انہیں پائے اور ان کا دیدار کرے(بحارالانوارج ۵۱ص ۱۳۷)
ہمارے ائمہ علیہم السلام، حضرت رسولِ خدا صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت فاطمہ علیہا السلام کے اسمائے گرامی انتہائی احترام اورعقیدت کے ساتھ لیا کرتے تھےرسولِ کریمؐ حضرت فاطمہ ؑ کے ہاتھ کا بوسہ لیتے، اُن کے احترام میں کھڑے ہوجاتے، اُ نہیں اپنی جگہ پر بٹھاتے، اُن کے ہاتھوں اور دَہان پر بوسے لیتے اور بار بار فرماتے کہ تمہارا باپ تم پر فدا ہو، میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں(العوالم ج ۱۱ص ۱۳۶)
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں: جس گھر میں محمد، احمد، علی، حسن، حسین اور فاطمہ کے نام ہوں، اُس گھر میں فقر داخل نہیں ہو تا(العوالمج۱۱ص ۵۵۲)
”سکونی“ نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے ملاقات کے دوران جب اُنہیں یہ بات بتائی کہ خدا نے اسے ایک بیٹی عطا کی ہے، تو حضرت ؑ نے ان سے پوچھا: تم نے اس کا کیا نام رکھا ہے؟ اُنہوں نے کہا: فاطمہامام ؑ نے فرمایا: واہ واہپھر اپنی پیشانی پر ہاتھ رکھا۔ اور اسے تلقین کی کہ اب جب کہ تم نے اپنی بیٹی کا نام فاطمہ رکھاہے، تو اسے برا بھلا نہ کہنا اور نہ اسے مارنا پیٹنا(العوالمج ۷ص۵۵۲ نقل از تہذیبج ۸ص ۱۱۲)
اہلِ بیت ؑ کے اسمائے گرامی پر اپنے بچوں کے نام رکھنا، ان ناموں کے دنیوی اثرات و برکات اور اُخروی ثواب پر توجہ دلانا، اس قسم کے نام رکھنے پر اہلِ بیت ؑ کی تلقین اور یہ نام بچوں کی شخصیت کی تشکیل اور صورت گری پر جو اثرات مرتب کرتے ہیں وہ ان ہستیوں کے ساتھ محبت و مودت کا تعلق پیدا ہونے میں موثر ہیں۔
حالیہ چند برسوں میں، بعض مناسبتوں، مثلاً ایامِ فاطمیہ، یا یومِ خواتین کے مواقع پر حضرت فاطمہ ؑ کے حوالے سے پہلے کی نسبت زیادہ مجالس و محافل کا انعقاد ہوتا ہے اور ان ایام کو زیادہ اہتمام کے ساتھ منایا جانے لگا ہے، یہی صورت امامِ زمانہؑ کے حوالے سے بھی ہےیہی وجہ ہے جو ہم دیکھتے ہیں کہ گزشتہ کی نسبت اب حضرت فاطمہؑ اور امام مہدی ؑ سے محبت اور ان کی جانب توجہ میں اضافہ ہوا ہےبالخصوص جوانوں میں امام حسین ؑ کی عزاداری کی جانب رجحان اور ایامِ عزا کی روز افزوں بڑھتی ہوئی رونق کی بنیاد یہی تکریم و ترویج ہے۔
ایسے لوگ جو کسی بھی اعتبار سے افرادِ معاشرہ بالخصوص جوانوں کی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں اور جن کی باتیں، جن کی طرفداریاں، جن کے موقف اور جن کا اندازِ بیان دوسروں کے لئے قابلِ تقلید ہوا کرتا ہے اورجولوگوں کے لئے رُخ کا تعین کرتے ہیں، اگر ایسے لوگ اہلِ بیت ؑ کا تذکرہ کریں اور انتہائی شوق و اشتیاق اور تعظیم و احترام کے ساتھ ان کا نام لیں، تو ان کا یہ عمل دوسروں پر اثر انداز ہوتا ہے۔
مثلاً ایک ایسا شخص جو علمی، ادبی، سیاسی اوردینی میدانوں میں شہرت رکھتا ہو، یا آرٹ اور اسپورٹس کی نامور شخصیت شمار ہوتا ہو اور جسے عام لوگوں اور جوانوں کی توجہ حاصل ہو، اگر وہ دین، نماز، شہید، اسلام، قرآن اور اہلِ بیت ؑ کا تذکرہ کرے اور اُن کے لئے احترام کا اظہار کرے، تو اس شخص کا یہ عمل ان لوگوں میں بھی اہلِ بیت ؑ سے محبت پیدا کرتاہے جو اُسے قابلِ تقلید اور محبوب سمجھتے ہیں اور اُس کی پیروی کرتے ہیں۔
اسی طرح ایسے لوگوں کی منفی باتیں بھی تخریبی اثر رکھتی ہیںمثلاً ایسے لوگوں میں سے اگر کوئی فرد مغرب اور یورپ کی کسی پروڈکٹ، کسی مکتب و طرزِ فکر، کسی رسم، کسی کتاب، کسی شاعر، کسی ٹی وی پروگرام یاکسی فلم وغیرہ کی تعریف کرتا ہے یا خود کو اس کا طرفدار ظاہر کرتا ہے، تواس طرح اس چیز کی تبلیغ اور اسکی جانب لوگوں کی رغبت کا سبب بنتا ہےپس بچوں اور نوجوانوں میں پائی جانے والی تقلید اور پیروی کی اس حس سے (جس کے تحت وہ اپنی محبوب شخصیات کی باتوں اور طرزِ عمل کو دیکھ کرانہیں اپناتے ہیں) ہمیں اہلِ بیت ؑ اور معصومین ؑ کی جانب انہیں لانے کے لئے استفادہ کرنا چاہئے۔
مثلاً امام خمینیؒ کی ایسی تصویر جس میں وہ حرم اور ضریح کا بوسہ لے رہے ہیں اُن کے محبوں میں صاحبِ حرم کے لئے محبت پیدا کرتی ہےکیونکہ امام خمینیؒ کا عمل اُن کے چاہنے والوں کے لئے قابلِ تقلید ہے اور وہ اس سے اثرلیتے ہیںیا اس نکتے کا ذکرکرنا کہ تفسیر میزان کے مؤلف علامہ محمد حسین طباطبائی ؒ حضرت معصومہ قم کی ضریح کا بوسہ لے کر اپنا روزہ افطار کرتے تھے اور جب کبھی گرمیوں میں مشہد تشریف لے جاتے اور آپ سے تقاضا کیا جاتا کہ مشہد کے نواح میں واقع پر فضا مقام پرٹھہریئے، تو آپ قبول نہ کرتے اور فرماتے: ہم امام ہشتم کے سائے سے دور کسی اور جگہ نہیں جائیں گے۔
اس بات کاذکر کہ حضرت امام خمینیؒ جب قم میں رہا کرتے تھے، تو روزانہ غروبِ آفتاب کے وقت حضرت معصومہ قم کی زیارت کرتے تھے اور نجف اشرف میں اپنی اقامت کے دنوں میں ہر شب امیر المومنین ؑ کے حرم کی زیارت سے مشرف ہوتے تھے۔
زیارت کے دوران عظیم تالیف الغدیر کے مؤلف علامہ امینیؒ کی خاص حالتوں کا تذکرہ اور شوق کی اُس کیفیت کا بیان جس کا ا ظہار وہ اہلِ بیت ؑ اور حضرت علی ؑ کے بارے میں کیاکرتے تھے اور اشکبار آنکھوں اور قابلِ دید عقیدت و محبت کے ساتھ حضرت امیر ؑ کی زیارت کرتے تھے۔
یا اس بات کی جانب اشارہ کہ آیت اﷲ بروجردیؒ نے آستانہ حضرت معصومہ قم کو تاکید کی کہ حضرت معصومہ ؑ کے اعزازی خدام میں اُن کا نام بھی تحریر کریں (اب بھی قم میں بعض مراجع تقلید، اس آستانے کے اعزازی خدمت گار ہیں اور اعزازی خدام کے جلسوں میں شرکت کرتے ہیں)
یا یہ کہ شیخ انصاریؒ کہا کرتے تھے کہ آپ لوگ حضرت ابوالفضل العباس ؑ کی چوکھٹ کا بوسہ لیا کیجئے تاکہ لوگ آپ کا یہ طرزِعمل دیکھ کر حضرت ابوالفضل ؑ کا اور زیادہ احترام کریں اور ان میں شوق پیدا ہوشیخ انصاریؒ نے کہا تھا کہ: میں ابوالفضل العباس ؑ کی چوکھٹ کا بوسہ صرف اسلئے نہیں لیتا کہ یہ ان کی چوکھٹ ہے، بلکہ اسکی وجہ یہ ہے کہ یہ اُن کے زائرین کی گزرگاہ ہےاورمجھے اپنے اس عمل پر فخرہے۔۔۔ اس قسم کی مثالوں کا ذکر دوسروں کے دلوں کو بھی متاثرکرتا ہے اور ان میں محبت پیدا کرتا ہے۔
حضرت امام خمینیؒ جو لاکھوں دلوں کے محبوب اور ان کے آئیڈیل ہیں، اپنے وصیت نامے میں بارباریہ کہہ کر کہ ”ہمیں افتخار ہے۔۔۔“ مذہبِ شیعہ کی پیروی، نہج البلاغہ، ائمہ کی حیات بخش دعاؤں، مناجاتِ شعبانیہ، دعائے عرفہ، صحیفہ سجادیہ، صحیفہ فاطمیہ کے حامل ہونے، ائمہ اثنا عشرکی امامت، امام محمدباقر کے وجود اور اپنے مذہب کے جعفری ہونے۔۔۔ پر فخر و ناز کرتے ہیں۔
جب امام خمینیؒ جیسی عظیم شخصیت ائمہ، مذہب، دعاؤں اورمکتبِ تشیع جیسی باتوں پر فخر و ناز کااظہار کرتی ہے، تو یہ چیز ان کے عقیدت مندوں پر بھی اثر ڈالتی ہے اور یہ محبت ان کے دلوں میں بھی سرایت کرتی ہے (ہمیں فخر ہے کہ باقر العلوم، تاریخ کی چوٹی کی شخصیت۔۔۔ ہم میں سے ہے، ہمیں افتخار ہے کہ ائمہ معصومین ؑ۔۔۔ ہمارے امام ہیں، ہمیں فخر ہے کہ ہمارا مذہب جعفری ہے۔۔۔ ۔ )
اپنی محبوب ہستیوں کی زبان سے بزرگانِ دین اور اہلِ بیتِ اطہار ؑ کا تذکرہ اس انداز سے سننا، سننے والوں میں ان سے محبت پیدا کرتا ہے۔
قدرتی بات ہے کہ گفتگو کے پروگراموں اور تحریروں میں نوجوانوں سے تعلق رکھنے والی خاص زبان اور اندازِ بیان کا لحاظ رکھنا چاہئے اور بچوں کی علمی ا ورذہنی سطح کو پیش نظر رکھنا چاہئےخواہ وہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں ہونے والی گفتگو ہو، خواہ گھروں، اسکولوں، مساجد اور امام بارگاہوں میں منعقد ہونے والی میلاد و مجالس کی تقریبات میں ہونے والی گفتگو۔
9:- مراسم کا انعقاد اور شعائر کی تعظیم
اہلِ بیت ؑ سے منسوب ایام پر بڑوں کا طرزِ عمل بچوں کے ذہن اور ان کی روح پر بھی اثر ڈالتا ہےجشن یا سوگواری کے مراسم کا انعقاد اور ایسے پروگراموں میں شرکت کرنا اور شرکت کی ترغیب دینا بھی تاثیر رکھتاہےشعائر کی اس انداز سے تعظیم کے ذریعے دینی اقدار اور ولا و محبت کا تعلق مستحکم ہوتا اور تقویت پاتا ہے۔
ائمہ معصومین ؑ بھی اس طریقے سے استفادہ کرتے اور اسکی تلقین کرتے تھےایامِ عاشورا اور روزِ غدیر جیسی مناسبتوں کی تعظیم و تکریم پیروانِ اہلِ بیت ؑ کے لئے خاص اہمیت کی حامل ہےاہلِ بیت ؑ نے ان دو مناسبتوں کو بہت زیادہ اہمیت دی ہےمعصومین ؑ نے عیدِغدیر کو ایک عظیم اسلامی عید قرار دیا ہے
اور اس دن روزہ رکھنے، عبادت کرنے، ایک دوسرے کومبارکباد دینے، ایک دوسرے سے ملاقات کو جانے، اظہارِ مسرت کرنے، نیا لباس پہننے اور اس دن کے احترام کا حکم دیا ہےتاکہ ایک شیعہ کے ذہن میں یہ دن ایک اہم اور یادگار دن کی حیثیت سے باقی رہے(۱)
ایامِ عاشورا میں بھی گھروں، اسکولوں، دفاتر اوربازاروں میں مراسم کا انعقادمتاثر کن ہوتا ہےجن گھرانوں میں برسہابرس سے عزاداری کا انعقاد کیا جاتا ہے عام طور پر ان گھروں کے افراد اہلِ بیت ؑ کی محبت سے سرشار ہوتے ہیں اوراس محبت اور ولایت کو ایک گرانقدر سرمایہ سمجھتے ہوئے اسکی حفاظت کرتے ہیں۔
حتیٰ لوگوں کو اہلِ بیت ؑ کی راہ میں کھانا کھلانے، ان سے نیکی و احسان کرنے، وقف، نذر اور ہدیہ کرنے جیسی باتوں کو عام کیا جائے تو یہ باتیں بھی لوگوں میں اہلِ بیتِ اطہار ؑ کی محبت کو گہرا کرنے میں مددگارہوں گیگھروں میں دینی رسوم کی حفاظت اور اسکولوں اور معاشرے میں انہیں رواج دینا مفید ہو سکتا ہے
ان رسوم میں امامِ زمانہ ؑ کے جشن ولادت کا انعقاد خاص اہمیت رکھتا ہے اور اس امامِ عصر ؑ کی ولادت کی مناسبت سے شوق ایجاد کرناجو ہمارے لئے حاضر اور ہم پر ناظر ہیں اور ہم ان کی آمد کے منتظرہیں بہت زیادہ جذباتی اور عشق آفریں پہلو کا حامل ہےاس حوالے سے بچوں اور جوانوں میں قدرتی طور پررجحان پایا جاتا ہے اور نیمہ شعبان ان کے لئے ایک ناقابلِ فراموش دن ہے۔
--------------
۱:- اس بارے میں علامہ امینیؒ کی کتاب الغدیر کی جلد ۳ میں ”عید الغدیر فی الاسلام“ کی بحث ملاحظہ فرمائیں۔
۱۰:- طالبِ کمال ہونے کی حس سے استفادہ
لوگ کمال اور جمال کی جانب رغبت رکھتے ہیں انسانوں کا بالخصوص نوجوانی اور جوانی کے دور میں طالبِ کمال ہونااس بات کا سبب بنتا ہے کہ وہ عظیم انسانوں اور علم، قدرت اور شہرت کے حامل آئیڈیل افراد کی جانب مائل ہوتے ہیںلوگوں میں عظیم شخصیات کی جانب رغبت کا احساس پایا جاتا ہے اور وہ ان سے عشق و محبت کا اظہار کرکے اپنی اس حس کی تسکین کرتے ہیں اوراگر ایسے آئیڈیل اور عظیم ہستیاں ان کے اردگرد موجود نہ ہوں، تو حتیٰ وہ انہیں اپنے تصورات میں تراشتے ہیںحصولِ کمال کے لئے ہیروز اور عظیم ہستیوں کی جانب رغبت کا نظریہ خاص طور پر نوجوانوں اور جوانوں کے درمیان ایک زندہ حقیقت ہےانسان، بالخصوص نوجوانی کے دنوں میں ہمیشہ ہیروز کی تلاش میں ہوتا ہے اور اگر کوئی ہیرو اس کی دسترس میں نہ ہو، تو حتیٰ خیال اور خواب کے عالم میں بھی بہت سے پہلوؤں سے اسے اپنے طرزِ عمل کے لئے نمونہ اور ماڈل بنا لیتا ہے اور اپنے خاص تصور کی بنیاد پر ہیرو سے، اُس کے انداز سے، اُس کی گفتار سے، اُس کے لباس سے، اُس کی وضع قطع سے، الغرض اس سے تعلق رکھنے والی ہر چیزسے اثر قبول کرتا ہے۔
نوجوان اپنے طرزِ عمل میں اپنے آئیڈیلز کی نقل کرتے ہیں آئیڈیلزاور ہیروز زمین کے خدا ہوتے ہیں انسان ان میں بھی کمال، طاقت اور آسمانی جمال تلاش کرتا ہے یا ان چیزوں کو ان سے منسوب کرتا ہےخود اپنے ہاتھوں سے ایک بت بناتا ہے، اس سے خدائی صفات منسوب کرتا ہے اور پھر اپنے اس خود ساختہ معبود کی پرستش کرتا ہے۔
اب جبکہ ایسا ہے، تو یہ ہیروز اور آئیڈیلز جتنے عظیم الشان، کمال کی بلندیوں پر پہنچے ہوئے اور بے عیب ہوں گے، اتنے ہی وسیع حلقے کے لئے پُر کشش ہوں گے اور اسی قدران سے کی جانے والی محبت اوران کی جانب کشش تعمیری ہو گیلہٰذا انسانوں میں عظیم شخصیات کی جانب پائی جانے والی اس رغبت سے استفادہ کرنا چاہئے اور اہلِ بیت ؑ کے ذریعے اس خلا کو پر کرنا چاہئےاہلِ بیت ؑ جسمانی طاقت، روحانی توانائی، معجزات وکرامات، خدا پر توکل، علمِ لدنی اور فضیلت و کمال کے حامل ہونے میں تمام انسانوں سے برتر ہیںوہ خدا کے کمال و جمال کا مظہر ہیں ان کی شجاعت و بہادری، ان کے فضائل، ان کے کردار، ان کے معجزات و کرامات، ان کے لوگوں کو شفا بخشنے، لوگوں کی مشکلات دور کرنے، خدا کے نزدیک ان کے مقامِ شفاعت اور ان سے توسل کرنے والوں کی دعاؤں کی قبولیت کا تذکرہ ان سے محبت و عقیدت پیدا کرنے میں موثر ہے۔
واعظین اورذاکرین، جو ایامِ عزا میں واقعاتِ کربلابیان کرتے ہیں اور اہلِ بیت ؑ کے مصائب اور مظلومیت کا ذکر کر کے ان کی جانب دلوں کو مائل اور متوجہ کرتے ہیں، اگر ان کے مصائب کے ساتھ ساتھ شہدائے کربلا (کے عظیم کردار، ان کے مقصد کی بلندی، اس مقصد سے ان کی وابستگی اور ان) کی دلیری اور جوانمردی کا تذکرہ بھی کریں، تو ان ہستیوں کی محبوبیت میں اور اضافہ ہو جائے۔
کبھی کبھی خود سامعین مقررین سے تقاضا کرتے ہیں کہ وہ امام حسین ؑ، حضرت عباس ؑ اور حضرت علی اکبر ؑ کی شجاعت اور رزم آوری کا تذکرہ کریںیہ اس بات کی علامت ہے کہ ان آئیڈیل شخصیات کے کردار کے ولولہ انگیز پہلو مخاطب کے ذہن میں ان ہستیوں کے کمال اور جامعیت کی تصویر کشی کرتے ہیں اور ان کے ساتھ عقیدت میں اضافہ کرتے ہیں۔
البتہ بچوں اور نوجوانوں کے سامنے ایسے ہی معجزات اور کرامات بیان کرنی چاہئیں جو ان کے لئے قابلِ فہم اور قابلِ ہضم ہوں۔
اگر جوان اور بچے ایسے انسانوں سے عقیدت رکھتے ہوں، اُن سے اظہارِ محبت کرتے ہوں جو علمی، فنی اور ادبی صلاحیتوں کے حامل ہوں، جسمانی قدرت، شجاعت و بہادری، اعلیٰ کردار، خوبصورتی، سخاوت اور جوانمردی میں بلند سطح کے حامل ہوں، تو انہیں بتانا چاہئے کہ اہلِ بیت ؑ علم ودانش، زہدوعبادت، قدرت وطاقت، فصاحت و بلاغت، سخاوت وفیاضی، صورت و سیرت، عبادت و عرفان، جمال و زیبائی، مردانگی وشجاعت، عفوودرگزر، بخشش و احسان، صبر و ثبات کے لحاظ سے تمام انسانوں سے بلند اور بالاتر ہیں۔
آئیڈیلز کے طور پران کا تعارف دلوں میں ان کی محبت پیدا کرتا ہے
بتایئے وہ کونسا امتیاز، خصلت اورپرکشش اور محبت انگیز فضیلت ہے جو انتہائی اعلیٰ پیمانے اور بالاترین درجے پر اہلِ بیتِ عصمت ؑ میں نہ پائی جاتی ہو؟
امام رضا علیہ السلام کی ایک حدیث میں اہلِ بیت ؑ کے مکتب اور ان کے مذہب کی توصیف کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ:
مِنْ دینِهمُ الوَرَعُ والعِفَّةُ والصِّدقُ والصَّلاحُ والأ جتهادُ واداءُ الاَمانة اِلَی البَرِّ وَالفاجِرِ وطولُ السّجودِ والقیامُ باللّیلِ واجتنابُ المَحارِمِ وحُسْنُ الصُّحبَةِ وَحُسنُ الجَوارِوَبَذْلُ المعروفِ وکفُّ الأذیٰ وَبَسْطُ الوَجْهِ والنّصیحةُ والرحمةُ لِلمؤمِنین
”پرہیز گاری، پاک دامنی، راست گوئی، شائستگی، جہد وکاوش، اچھے بُرے (ہر شخص) سے امانتداری، طولانی سجود، شب بیداری، حرام سے پرہیز، عمدہ معاشرت، ہمسایوں سے حسنِ سلوک، اچھی بخشش، (دوسروں کو) اذیت و آزارپہنچانے سے اجتناب، خنداں پیشانی، خیر خواہی اور مومنین کے لئے رحمت ائمہ کا دین ہے(تحف العقولص ۴۱۶)
زیارتِ جامعہ میں ائمہ ؑ کے ممتاز اوصاف اور اعلیٰ فضائل کا ذکر آیا ہےان ہی میں سے ہے کہ: جب بھی نیکیوں کا تذکرہ ہو، تو آپ ہی سے ان نیکیوں کی ابتدا بھی، اصل بھی، فرع بھی (آپ ہی ان کے) مخزن بھی مرکز بھی اور انتہا بھیاِن ذُکرالخیرکنتم اولہ واصلہ وفرعہ ومعدنہ وماواہ ومنتھاہ۔
اہلِ بیتِ عصمت و طہارت ؑ، انسانوں میں سب سے زیادہ محبوب اور دوستوں میں بہترین دوست ہیں، جو تمام اخلاقی اور عملی خوبیوں کے حوالے سے بے مثل جامعیت کے حامل ہیں اور جو خوبیاں اچھے لوگوں میں علیحدہ علیحدہ پائی جاتی ہیں وہ اہلِ بیت ؑ میں یکجا ملتی ہیں اوریہ عشق کرنے اور محبوب بنانے کے لئے بہترین انسان ہیں امام جعفر صادق علیہ السلام کی ایک حدیث میں ہے کہ: ثلاثة تورِثُ المحبّة: الدّینُ والتواضُعُ والبَذلُ (تین چیزیں محبت کا باعث ہوتی ہیںدین، انکساری اور سخاوتبحارالانوارج۷۵ص ۲۲۹)
ائمہ شیعہ اور اہلِ بیتِ رسول دین کا محور ومدار بھی ہیں، اپنے بلند مقام و مرتبے کے باوجود فروتنی و انکساری میں بھی سب سے بڑھ کر ہیں اور سخاوت و دریادلی میں بھی اپنے زمانے کے تمام لوگوں میں سرِ فہرستائمہ ؑ کے بلند اخلاق کا ذکر اور ان کی انکساری اورفیاضی کا تذکرہ لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت کو اور بڑھاتا ہے۔
ایک دن معاویہ نے حضرت علی ابن ابی طالب ؑ کی محب وعقیدتمند ایک نڈر خاتون ”دارمیّہ حجونی“ کو طلب کیا اور ان سے کہا کہ: میں چاہتا ہوں کہ تم مجھے بتاؤ کہ آخر تم کس وجہ اورکس بنیادپر علی سے محبت اور مجھ سے دشمنی رکھتی ہو؟ انہوں نے جواب دیا: میں علی ؑ سے اس لئے محبت کرتی ہوں اور ان کی ولایت کا دم بھرتی ہوں کہ وہ لوگوں کے ساتھ عدل سے پیش آتے تھے، حقوق کو مساوی تقسیم کرتے تھے، پیغمبر نے ولایت کے لئے ان کا انتخاب کیا تھا، وہ محروم (و مظلوم) لوگوں کو دوست رکھتے تھے، دینداروں کی عزت کیا کرتے تھےاورعلی کے حق بجانب ہونے کے باوجود تمہارے اُن کے خلاف لڑنے، تمہارے ظلم و ستم، من مانے اندازمیں حکومت کرنے اور ظالمانہ فیصلوں کی وجہ سے تم سے دشمنی رکھتی ہوں(بحارالانوارج ۳۳ص ۲۶۰)
امام علی ؑ کے اخلاق اور ان کے کردار نے اس نڈر خاتون کو علی ؑ کا محب، عقیدت مند اور ہمنوا بنایاجی ہاں، فضائل و کمالات ہمیشہ پر کشش ہوا کرتے ہیں۔
۱۱:- ولئ نعمت کا تعارف
جو کوئی ہم پر احسان کرتا ہے یا ہمارے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آتا ہے، ہمارے اندر اس سے محبت پیدا ہو جاتی ہے (الانسان عبیدالاحسان)
اُن احسانات کا تذکرہ، اُن نیکیوں کا ذکر اور اُن نعمات و فوائد کا بیان جو ائمہ ؑ کی طرف سے ہمیں پہنچتے ہیں اُن سے محبت پیدا کرتا ہےیہ ہستیاں فیضِ الٰہی کا واسطہ ہیں، بارگاہِ الٰہی میں ہماری دعاؤں کی قبولیت کا وسیلہ ہیں، ہماری ہادی و رہنما اور دینی پیشوا ہیں ان ہی کے وسیلے سے ہم خالص توحید، راہِ راست اور صراطِ مستقیم پر ہیںیہی ہمارے ولئ نعمت اور محسن ہیں (بِیُمنِہ رُزِقَ الوریٰ) نعمت کی جانب متوجہ ہونا، اس کی طرف توجہ دلانا اور نعمت عطا کرنے والے کو جاننا اُس سے محبت پیدا کرتا ہے۔
خداوند عالم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی کی کہ: مجھ سے محبت کرو اور لوگوں میں بھی میری محبت پیدا کروحضرت موسیٰ نے سوال کیا: بارِ الٰہا! میں خود تو تجھ سے محبت کرتا ہوں، لوگوں کے دل میں (تجھ سے محبت) کیسے پیدا کروں؟ خداوند عالم نے وحی فرمائی: انہیں میری نعمتیں یاد دلاؤ (فَذَکِّرْ هُمِ نِعمتی وآلائی) (بحارالانوارج ۱۳ص ۳۵۱، ج ۶۷ص ۲۲)
بہت سی آیاتِ قرآنی اور احادیثِ معصومین ؑ میں انسانوں کو عطا کی گئی خدا کی نعمتوں اوراُن پر اس کے احسانات کا ذکر کیا گیا ہےیہ تذکرہ انسان میں خدا سے محبت اور اُس کی عبادت و پرستش کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ خدا نے حضرت داؤد علیہ السلام کو ایسی ہی وحی کیحضرت داؤد ؑ نے عرض کیا: میں خود تو تجھ سے محبت کرتا ہوںفَکَیفَ اُحَبِّبُکَ اِلیٰ خلقِک؟ (لوگوں کوتیرا محب کیسے بناؤں؟ ) خدا نے فرمایا: اُذکُرْاَیادِیَّ عِندَهُم فاِنّک اِذاذَکَرْتَ ذلک لَهُمْ اَحَبُّونی (میری نعمتیں یاد دلا کے مجھے ان کا محبوب بناؤمیزان الحکمۃج ۲ص ۲۲۹، نقل از بحارالانوارج ۱۴ص ۳۸)
گھروں میں بھی کبھی کبھی بچوں میں خاندان کے کسی فرد سے محبت پیدا کرنے کے لئے اُس سے کہتے ہیں کہ: یہ وہی ہیں جنہوں نے تمہاے لئے فلاں چیز خریدی تھی، تمہیں فلاں جگہ گھمانے لے گئے تھے۔۔۔ وغیرہ وغیرہان کے دیئے گئے انعامات اور ان کے حسن سلوک کا تذکرہ بچوں میں اُن سے محبت اور انسیت پیدا کر دیتا ہے۔
ائمہ ؑ بھی ہمارے اوپر بہت سے حق رکھتے ہیں، اور ہمارے پاس جو کچھ ہے، بالخصوص معنوی اور دینی تعلیمات و عنایات اسی خاندان کے ذریعے ہم تک پہنچی ہیں اور یہ ہستیاں بندوں پر خدا کے فیض کا واسطہ ہیں ان باتوں کا ذکر کیا جانا چاہئے تاکہ اس کے ذریعے اہلِ بیت ؑ سے محبت پیداہوزیارتِ جامعہ میں عالمِ تکوین میں ائمہ ؑ کے رحمت آفریں کردار کے بارے میں ہے کہ :
بِکُم فَتَحَ اﷲُ وبِکُمْ یَخْتِمُ وبِکُم یُنزِّلُ الغَیثَ وبِکُم یُمسِکُ السّماءَ اَن تَقَعَ عَلَی الأرضِ الّا بأذنه
خدا نے آپ ہی سے کائنات کاآغاز کیا اور آپ ہی پرا ختتام کرے گاآپ ہی کے طفیل بارش برستی ہے اور آپ ہی کی وجہ سے آسمان اورزمین اپنی جگہ پر قائم ہیں۔
ہدایت و رہنمائی اور دین کی تعلیم و تشریح کے سلسلے میں ائمہ ؑ کے کردار کے بارے میں اس زیارت میں ہے کہ :
بِمُوالا تِکم عَلَّمَنَااﷲُ مَعالِمَ دینِناوَاَصْلَحَ ماکانَ فَسدَمِنْ دُنیانا وبِمُوالاتِکم تَمَّتِ الکلمةُ وعَظُمَتِ النِّعمةُ وَأتَلَفتِ الفُرْقَهُ و بمُوالاتِکُمْ تُقْبَلُ الطّاعَةُ الْمُفْتَرَضَةٌ
آپ کی ولایت ہی کے طفیل میں خدا سے میں نے دین کی روشن تعلیمات حاصل کیں اور میرے دنیا کے بگڑے ہوئے امور کی اصلاح ہوئیآپ ہی کی ولایت سے کلمہ مکمل ہوا، نعمت کو عظمت ملی اور اختلاف و انتشار الفت ومحبت میں بدلاآپ کی ولایت ہی کے تصدق میں بارگاہِ الٰہی میں واجب اطاعتیں قبول ہوتی ہیں۔ اہلِ بیت ہمارے معلمِ دین، مرشدِ ہدایت اور رہنمائے حیات ہیںہمیں توحید اور اسلام انہی کے ذریعے ملا ہے اور اس سلسلے میں ہم ان کے مقروض ہیںہمیں اس نعمت اور احسان پر خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے اور اس گھرانے سے محبت کرنی چاہئے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے اہلِ بیت ؑ کے بارے میں فرمایاہے :
لَولاهُم ماعُرِفَ اﷲُ عزّوجلّ
اگر وہ نہ ہوتے، تو خدا وند عالم کی شناخت نہ ہوتی۔
امام خمینی علیہ الرحمہ نے زور دے کر اس بات کا ذکر کیا ہے کہ: ہمارا دین، ہمارا انقلاب، ہماری کامیابی اور ہماری قوم سب کے سب اباعبداﷲ الحسین ؑ اور عاشورا کے مقروض ہیں۔
امام خمینیؒ کے ایسے جملے کہ: یہ سید الشہداء کا لہو ہے جو تمام مسلمان اقوام کے لہو کو جوش میں لاتا ہے، محرم اور صفر نے اسلام کو محفوظ رکھا ہے، سید الشہداء کی جانثاری نے ہمارے لئے اسلام کو باقی رکھا ہے، اگر سید الشہداء کا قیام نہ ہوتا تو آج ہم بھی کامیابی حاصل نہ کر پاتے، سید الشہداء کی شہادت نے مکتب کو زندہ کیا، ایران کا اسلامی انقلاب عاشورااور عظیم الٰہی انقلاب کا ایک پرتو ہےان تمام جملوں کا مقصد قوم کو اہلِ بیت ؑ کی معنوی عنایات کی جانب متوجہ کرناہےاور یہ اس بات کا باعث ہوتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو ان احسانات کا ممنون اور مقروض سمجھتے ہیں اور ہمارے دلوں میں اولیائے دین کی محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔
ولایت و محبت کی نعمت عظیم ترین نعمتوں میں شمار ہوتی ہےنعمتوں کو یاد دلاتے اور ان کا تذکرہ کرتے وقت صرف مادّی نعمتوں کے ذکرپر اکتفا نہیں کرنا چاہئے بلکہ معنوی نعمتوں کا ذکر بھی ہونا چاہئے جن میں سے بیشتر ہمیں سر کی آنکھوں سے نظر نہیں آتیں اورہم اُن سے غافل رہتے ہیں اس طرح ان نعمتوں کی قدر و قیمت بھی پتا چلے گی۔
ہمارا اس گھرانے کی معرفت رکھنا اور ہمارے دلوں کا ان کی محبت سے معمورہونا خود ایک عظیم بے مثل نعمت ہےخود ائمہؑ نے بھی مختلف مواقع پراپنے دوستوں کو اس معنوی نعمت کی عظمت اور قدر و قیمت کی جانب متوجہ کیا ہے اور اسے ایک عظیم ترین دولت قرار دیا ہے۔
۱۲:- اہلِ بیت ؑ کے فضائل اور اُن کی تعلیمات کا ذکر
لوگ آئیڈیل پرست اور عظیم شخصیات کے دلدادہ ہوتے ہیںلہٰذا مغرب میں اپنی قومی اور علمی شخصیات کے بارے میں کتابیں اور مقالے تحریر کئے جاتے ہیں، اُن کے بارے میں فلمیں اور اُن کے مجسمے بنائے جاتے ہیں اوراُن کے حوالے سے پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے، تاکہ اِن شخصیات کو ایک آئیڈیل اور ہیرو کے طورپر اپنی قوم کے قلب وذہن میں جگہ دی جائے۔
لہٰذا اپنے بزرگانِ دین کے بارے میں ہم بھی ایساہی کیوں نہ کریں، جو انتہائی صاحبِ فضیلت اور ایسی تکریم کے بہت زیادہ حقدار ہیں؟ اگر لوگ ائمہ اہلِ بیت ؑ کی شخصیت، اُن کے فضائل، اُن کے افکار اور اُن کی تعلیمات سے واقف ہوں اور اُن کے اعلیٰ پائے کے کلمات و فرمودات سے آشنا ہوں، تو ان کے دلوں میں اُن کی محبت پیدا ہو گی اور یہ محبت وعقیدت اُن کی پیروی اور اُن کے ساتھ یکجہتی کا باعث بنے گیامام رضا علیہ السلام نے ایک حدیث میں فرمایا ہے کہ :
اِنّ الناسَ لوعَلِمُوامَحاسِنَ کلامِنالَا تّبعُونا
اگرلوگ ہمارے کلام کی خوبیوں سے آشنا ہوں گے، تو ہماری پیروی کریں گے۔
اہلِ بیت ؑ کی احادیث کی ترویج اور حفظِ حدیث کے مقابلوں کا انعقاد اس سلسلے میں انتہائی مفید اقدام ہو گابعض ناشرانِ کتب کی جانب سے مختلف موضوعات پر ”چہل حدیث“ کے عنوان سے شائع کی گئی کتب اس مقصد کے لئے تجویز کی جاتی ہیں اِن چہل حدیث یا اسی طرح اور احادیث کو حفظ کرنے کا پروگرام بھی اس حوالے سے مفید ہے۔
بچوں اور جوانوں سے گفتگو کے لئے مفاہیم اور موضوعات کا انتخاب انتہائی اہمیت کا حامل ہےائمہ ؑ کی احادیث میں بہت سے نکات اور معارف موجود ہیں لیکن یہ سب کے سب ایسے نہیں ہوتے جوہر کس و ناکس کے سامنے بیان کئے جاسکیںکیونکہ کبھی کبھی یہ سننے والوں کے لئے قابلِ ہضم نہیں ہوتے، بجائے کشش رکھنے کے دفع رکھتے ہیں، اہلِ بیت ؑ کے مکتب کی جانب رغبت کا سبب بننے کی بجائے ا س سے دوری کا باعث ہوجاتے ہیں اور اذہان کوصاف کرنے کی بجائے ان میں شبہ پیدا کرتے ہیںلہٰذاان کے انتخاب کے لئے بھی ذوق اور عقل و خرد کی ضرورت ہے اور ماحول اور سننے والوں کی صلاحیت کو مد نظر رکھنا ضرورییہ ایک انتہائی اہم نکتہ ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے ایک صحابی سے جن کا نام ”مُدرِک بن ہزہاز“ تھا، فرمایا: اے مُدرِک! ہمارے دوستوں کو ہماراسلام پہنچانا اوران سے کہنا کہ اس شخص پر خدا کی رحمت ہو جو لوگوں کے دلوں کو ہماری جانب مائل کرے، ہمارے وہ کلمات انہیں سنائے جنہیں وہ جانتے اورقبول کرتے ہیں اور جن کلمات کا وہ انکار کرتے اورجو ان کے لئے ناقابلِ قبول ہوں، انہیں ان کے سامنے بیان نہ کرے(۱)
کوشش ہونی چاہئے کہ جوان اور نو جوان اہلِ بیت ؑ کے کلام کی مٹھاس محسوس کریں اور ان کے حکیمانہ کلمات کی گہرائیوں کو سمجھیں، تاکہ ان فرامین کے ذریعے ان کے دلوں میں ان شخصیات سے محبت اور عقیدت پیدا ہواس حوالے سے قابلِ فہم کلمات، ان کا خوبصورت اور دلنشیں ترجمہ، مفید موضوعات کا انتخاب اور خوبصورت اور جاذب نظر طباعت موثرثابت ہوتی ہے۔
--------------
۱:- رَحِم اﷲُ امرء اًاِجَتَرَّ مودَّة الناس اِلینا، فَحدَّثَهم بما یَعرِفُون وتَرَکَ مایُنکرون (بحارالانوارج ۲ص ۶۸)
افرادِ معاشرہ، جوانوں اور انسانیت تک اہلِ بیت ؑ کی تعلیمات کس طرح پہنچائی جائیں؟ یہ ایک قابلِ غور سوال ہے اور اس سلسلے میں فن وہنر سے استفادہ کیا جانا چاہئے اور نئی نسل کے سامنے ائمہ ؑ کی تعلیمات پیش کرنے کے لئے جدید طریقوں، فنکارانہ کشش اور موثر اسلوب سے کام لینا چاہئےاس سلسلے میں ذرائع ابلاغ کا کردار خاص اہمیت کا حامل ہےافسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم (اس جانب متوجہ ہی نہیں، بلکہ) اکثر ان تقاضوں کے برخلاف عمل کرتے ہیں۔
اہلِ بیت ؑ کے فضائل کودو پہلوؤں سے پیش کیا جا سکتا ہے۔
۱:- ان کے بلند درجات، ان کی خلقت، ان کی طینت، ان کی عالی سرشت اور ان کے نورِ الٰہی ہونے وغیرہ کے پہلو سے
اہلِ بیت ؑ کے فضائل کی یہ قسم، اگرچہ قابلِ قدر ہے اور خدا کے یہاں اُن کے مقام و منزلت کو واضح کرتی ہے لیکن کیونکہ عملی پہلو کی حامل نہیں اور اس میں تاسی کاعنصر نہیں پایا جاتا، اسلئے بہت کم تربیتی اثر اور عملی کشش کی حامل ہے اور بعض اوقات نوجوانوں کے لئے ناقابلِ فہم اور ناقابلِ ہضم ہوجاتی ہے۔
۲:- اسوہ عمل بنائے جانے کے قابل اور اہلِ بیت ؑ کے کردار کی عملی پیروی کے پہلوؤں سے، نوجوانوں اور جوانوں کو سیرتِ معصومین ؑ اور ائمہ علیہم السلام کی زندگی سے آگاہ کرنا انتہائی ضروری اور مفید ہےاس مقصد کے لئے تاریخ سے آگہی سود مند ثابت ہوتی ہے اور اندازِ تحریر کے پرکشش ہونے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
ائمہ ؑ کے صبر، ایثار، انکساری، عبادت، شجاعت، اخلاص، جوانمردی، حلم، علم، حسنِ خلق، عفو ودر گزر، سخاوت و فیاضی، ان کی نماز اور روزے کی کیفیت، ان کی تہجد گزاری اور حج اور اسکے مناسک کے دوران ان کی کیفیت کا تذکرہ انتہائی سود مند ہےبالخصوص اہلِ بیت ؑ کے ایسے قصوں کا بیان جن میں وہ نوجوانوں کے ساتھ انتہائی احترام آمیز طرزِ عمل اختیار کرتے نظر آتے ہیں انتہائی متاثر کن ہوتا ہےمثلاً پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بچوں سے حسنِ سلوک اور انہیں سلام کرنا، یا مومنین کے بچوں کوگود میں لے کر اُن کے بوسے لینا، یا مثلاً امام حسن ؑ اور امام حسین ؑ کا ایک بوڑھے کو وضو سکھانا وغیرہ۔۔۔
اہلِ بیت ؑ کے بچوں کا تعارف اور ان کا پرکشش طرزِ عمل ہمارے بچوں پر اثر انداز ہوتا ہے، اور اپنے ہی ہم عمر بچوں کا یہ کردار ان میں ان کی جانب اور زیادہ کشش پیدا کرتا ہے۔
نوجوانوں کے دلوں میں محبتِ اہلِ بیت ؑ کابیج بو کر، عمدہ اخلاقی مثالوں اور سیرتِ اہل بیت ؑ کے ذریعے اس بیج کی آبیاری کرنی چاہئے تاکہ وہ خشک نہ ہو جائے بلکہ پھلے پھولے اوراس سے مزید پھل حاصل ہوںیہ عمل محبت کو مزید گہراکرتا ہےمعتبر اور بنیادی کتب میں اس سلسلے میں جو باتیں نقل ہوئی ہیں انہیں سامنے لانا چاہئے تاکہ ہماری آج کی نوجوان نسل بھی ان ذخائرسے مستفیض ہوسکے۔
ائمہ معصومین ؑ اور اہلِ بیت ؑ کے بارے میں خوبصورت، رواں اور عام فہم اشعار کا انتخاب اور اِن اشعار کو دلنشین اور شیریں انداز میں پڑھنا ان ہستیوں سے محبت پیدا کرنے کا ذریعہ ہےاس انتخاب میں معلومات اور ذوقِ لطیف انتہائی اہم کردارادا کرتے ہیں اس مسئلے میں بھی دوسرے ثقافتی اور تعلیمی پروگراموں کی طرح بچوں کے سن و سال اور ان کی تعلیمی سطح کی خاص نفسیات اور مزاج جیسے نکات پر توجہ ضروری ہے۔
۱۳:- اپنی روزمرہ کی خوشیوں کو حیاتِ ائمہؑ سے منسلک کرنا
کسی چیز سے خوش ہونا، اس چیز سے محبت پیدا کرتا ہےکوشش کرنی چاہئے کہ اہلِ بیت کی شخصیت، ان کا ذکر، ان کی محافل اور مجالس بچوں کے دلوں میں ایک خوش کن یادگار کی صورت میں محفوظ رہیںلہٰذا ہمیں اس انداز سے عمل کرنا چاہئے کہ اگر ہمارے بچے کسی چیز یا کسی یادگارکو دیکھیں، تو فوراً ہی اُس کا اہلِ بیت ؑ سے تعلق اُن کے ذہن میں آئے۔
معصومین ؑ کے یومِ ولادت پرجشن کا انعقاد کرنا، خوشی منانا، بچوں میں مٹھائی تقسیم کرنا، انہیں عیدی، تحفے تحائف اور اعزازات دینا بالواسطہ (indirect) اپنے اثرات مرتب کرتا ہےاسی طرح اہلِ بیت ؑ سے منسوب کسی دن گھریا اسکول میں ایک خوبصورت اور بچوں کا دل پسند پروگرام ترتیب دینامثلاً اہلِ بیت ؑ سے تعلق رکھنے والی کسی مناسبت پر گھر میں مٹھائی لے آنایا اسکول میں مٹھائی تقسیم کر دینایا اسی مناسبت سے گھر، مسجد یا محلے اور مدرسے میں جشنِ میلاد کا انعقاد کرناان مناسبتوں کو ذہن سے اترنے نہیں دیتااور یہ خوشیاں ان ایام اور اہلِ بیت ؑ کے نام اور یاد کے ساتھ وابستہ ہو جاتی ہیں۔
ایک صاحب بتا رہے تھے کہ ایک روزمیں اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ نمازِ جماعت کے لئے مسجد میں گیادو نمازوں کے درمیان لوگوں میں مٹھائی تقسیم کی گئیاگلی رات میرا بچہ مجھ سے کہنے لگا: ابو! آج مسجد نہیں چلیں گے؟ اس دن کے بعد جب کبھی میں اسے مسجد لیجاتا ہوں، اگر وہاں سے مٹھائی وغیرہ نہ ملے، تو باہر نکل کر لازماًمیں اس کے لئے چاکلیٹ خریدتا ہوں، تاکہ مسجد آنے اور ایک پسندیدہ چیز حاصل کرنے کا باہمی تعلق اس کے ذہن سے مٹ نہ پائے اور مسجد اور نماز کے ساتھ اس کی محبت باقی رہے۔
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے: الهدیّة تُورِثُ المودّة (تحفہ محبت پیداکرتا ہےبحارالانوارج ۷۴ص ۱۶۶) اگر یہ تحفہ اہلِ بیتِ عصمت و طہارت ؑ سے تعلق رکھتا ہو، تو قدرتی بات ہے کہ اس کے نتیجے میں اُن سے محبت پیدا ہو گی۔
ہر دینی اور مذہبی پروگرام کو بچوں کے لئے پسندیدہ اورپرکشش بنانے کے لئے اس طریقے سے استفادہ کیا جا سکتا ہےجیسے نمازِ جمعہ، دعا یا درس کے اجتماع، مذہبی مراسم اور مجالسِ عزا میں شرکت، یا مسجد اور نمازِ جماعت میں شرکت کے لئے اس سے استفادہ کیا جاسکتا ہےاگر ائمہ ؑ سے مخصوص مناسبتوں میں بھی اس طریقے سے استفادہ کیا جائے، تویہ طریقہ بچوں کے لئے ان پروگراموں کوپر کشش بنانے میں موثر ثابت ہوگا۔
۱۴:- محبت کم کرنے والی چیزوں سے پرہیز
محبت پیدا کرنے والے امور سے استفادے کے ساتھ ساتھ نفرت انگیز کاموں سے پرہیزکرنا بھی ضروری ہےبعض اوقات کچھ حرکات وسکنات، الفاظ، پروگرام اورانداز محبت کا بندھن قائم نہیں ہونے دیتے، تخریبی اثر مرتب کرتے ہیں اور لوگوں کو دور کرنے کا باعث بن جاتے ہیںمثلاً اگر مجالسِ عزاشرکا میں اُکتاھٹ یابے دلی پیدا کر دیں، یا ان کی آوازیں دوسروں کے لئے باعثِ آزار بن جائیں، ان کاسکھ چین چھین لیں، یا اہلِ بیت ؑ سے منسوب محافل اور مجالس میں بچوں سے بد سلوکی کی جائے، اُن کے ساتھ حقارت آمیز رویہ اختیار کیا جائے، ان سے بے توجہی برتی جائے، انہیں وہاں سے بھگا دیا جائے، یا ایسی مذہبی رسومات زبردستی اور جبری شکل اختیار کر لیں، یا بد اخلاق، بدقیافہ، بد صدا، بد سابقہ، بد کردار اور گندے، میلے کچیلے لوگ ایسے پروگراموں کاانعقاد کریں، تو یہ چیزیں محبت پیدا کرنے میں رکاوٹ، بد گمانی اور تنفر کا باعث اور لوگوں کے دور ہونے اور بھاگ جانے کا سبب ہو جاتی ہیں۔
ایک شخص جو انتہائی بھدی اور گوش خراش آواز میں تلاوتِ قرآنِ مجید کیاکرتا تھا، اس کے متعلق سعدی شیرازی نے کہا ہے:
گر تو قرآن بدین نمط خوانی
ببری رونقِ مسلمانی
لہٰذا اہلِ بیت ؑ سے محبت پیدا کرنے کی غرض سے، یا اس محبت کو قائم و دائم رکھنے کی خاطر منفی اثر مرتب کرنے والی اوررکاوٹ بننے والی چیزوں کا خاتمہ کرنا چاہئے، تاکہ ایسا جاذبہ اور کشش فراہم ہو جو محبت و عقیدت پیدا کرےجذب کرنے کا طریقہ انتہائی اہم اور حساس ہوا کرتاہے۔
ایامِ عزا کی راتوں میں، آدھی رات کے بعدمسجد یا امام بارگاہ کے لاؤڈ اسپیکر کی وجہ سے بعض لوگوں کی نیند خراب ہوتی ہےیہ صورتحال اس وقت اور ناگوار ہوجاتی ہے جب کوئی بیمار ہو، یاکسی کے امتحان ہورہے ہوںاس صورت میں یہ انداز الٹا اثرمرتب کرتا ہے اورایسے لوگ عزاداری سے بے زار ہو جاتے ہیں۔
امام خمینیؒ اور رہبرِمعظم آیت اللہ علی خامنہ ای نے دوسروں کے اذہان میں قمہ زنی کے منفی اثرات کی وجہ سے فتویٰ دیا ہے کہ اسلام اور تشیع کے مفاد میں اس عمل سے اجتناب کیا جائےکیونکہ یہ عمل بعض لوگوں کے لئے تنفرکا باعث ہوتا ہے، اِسے دیکھ کر وہ عزاداری کی جانب مائل نہیں ہوتے اور یہ چیزیں ہمارے خلاف دشمن کے پروپیگنڈے کا ایک ہتھیاربن جاتی ہیں۔
۱۵:- روحانی اور معنوی ماحول پیدا کرنا
بچوں اور جوانوں میں محبتِ اہلِ بیت ؑ پیدا کرنے کاایک طریقہ، ایسا ماحول اور فضاایجاد کرنا ہے جس میں بچے خاص روحانی حالت محسوس کرنے لگیں اور بتدریج ان کی روحانی حس بیدار ہو اور وہ اس طرف جذب ہو جائیںکیونکہ اگر بچوں (حتیٰ بڑوں کو بھی) ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے تو وہ اس طرف مائل نہیں ہوتے اور دعا اور توسل کی محفلوں میں شرکت سے گریز کرتے ہیںلیکن اگر ہم ان کے لئے اس فضا میں قدم رکھنے کا اہتمام کریں، تو وہ اس جانب مائل ہو جائیں گےمثلاً تعلیمی و تربیتی کیمپس کا انعقاد، زیارتی دوروں کا اہتمام، دینی مجالس، دعااور توسل کی محفلوں میں شرکت اوردینی شخصیات سے ملاقاتیں اس رشتے اور تعلق کو پیدا کرنے یااسے تقویت پہنچانے والی چیزیں ہیں۔
سال کے مختلف حصوں، بالخصوص تعطیلات کے دنوں میں جن سیاحتی اور زیارتی کیمپس کا انعقاد کیا جاتا ہے، اور طلبا کومثلاً قم، شیراز، مشہد، جمکران، مرقدِ امام خمینیؒ اور اسی طرح کے دوسرے مقامات پر لے جایا جاتا ہے، تو انہیں صرف ان عمارتوں اور در و دیوار کا تماشائی نہیں بنانا چاہئے بلکہ اس دیدار کے ساتھ ساتھ انہیں فکری اور روحانی غذا بھی فراہم کی جانی چاہئےوہ وہاں سے کچھ باتیں سیکھیں، کچھ سبق لیں اور اس گھرانے کے ساتھ عشق اور عقیدت کا رشتہ قائم کریںاگر ممکن ہو تواس قسم کے سفر اور کیمپس میں متاثر کن شخصیات سے ملاقاتیں بھی شامل ہونی چاہئیں۔
روح پرور محفلوں میں شرکت بھی اسی قسم کی چیز ہےجس طرح ہر اجتماع کا اثر ہوتا ہے اور وہاں موجود افراد کے جذبات و احساسات اور وہاں کی فضا ان اجتماعات میں شریک ہونے والوں پر اثر انداز ہوتی ہے، بالکل اسی طرح محبانِ اہلِ بیت ؑ کے اجتما ع میں شرکت بھی یہ حس اور حالت ایجاد کرتی ہے۔
مجالسِ عزا اور دعائیہ اجتماعات میں شرکت انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہےمجالسِ عزااور نوحہ خوانی میں محبتِ اہلِ بیت ؑ کے مرکز پر جذبات جوش میں آتے ہیں، دل گداز ہوتے ہیں، آنکھوں سے اشک جاری ہوتے ہیں اور گریہ و زاری لوگوں کو خاندانِ پیغمبر ؐسے جوڑتی ہے اور ان سے ان کا تعلق قائم کرتی ہے۔
مجالسِ عزا میں گریہ و زاری دلوں اور جذبات کو لطیف بھی بناتی ہے اورانہیں تقویت بھی پہنچاتی ہےعام حالت یا انفرادی طور ممکن ہے نہ دل غم و اندوہ سے بھرے، نہ آنسو آنکھوں سے بہیں اورنہ روح میں حرکت وانقلاب پیدا ہولیکن جذباتی اور روحانی فضا کے اثرات وہاں موجود افراد کی انفرادی اور اجتماعی حس کو ہم آواز کردیتے ہیں اور دل کے دروازوں کو کھولتے ہیں۔
اس قسم کی مجالس اگر گھروں، اسکولوں اور محلّوں میں منعقد ہوں اور نوجوان ان کے انعقاد اور ان کے انتظامات میں شریک ہوں، تواس طرح بھی ان کے اندر محبتِ اہلِ بیت ؑ میں اضافہ ہو گا۔
زیارت بھی ایسی ہی چیز ہےجس طرح ایک اعلیٰ صفات، پاک و پاکیزہ انسان سے بالمشافہ ملاقات اس سے ملنے والے لوگوں پر اثر ڈالتی ہے، اسی طرح معصومین ؑ کی تربت اور ان کے مقدس مزارات پر حاضری بھی روح کی پاکیزگی کا ذریعہ ہےاگر محبت اور معرفت ہو، تو ”زیارت کاشوق“ اس کا نتیجہ ہےاور اگر زیارت پر جائیں، تو خود زیارت محبت پیدا کرتی ہے اور زیارت اور محبت ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتی ہیںمحبت کا نتیجہ زیارت ہے اور زیارت محبت پیدا کرتی ہےمادّی اورجسمانی قربت، روحانی قرابت کا باعث بھی بنتی ہےاور اس کے برعکس اس قسم کے مراکز سے دوری اور گریز روح کو بھی بیگانہ، نا آشنا اور گریزاں بناتا ہےکبھی کبھی حرم اور مزارِ مقدس پر نگاہ پڑتے ہی دل میں محبت امڈ پڑتی ہےپس حرم اور نگاہ کی اس ملاقات سے غفلت نہیں برتنی چاہئے۔
زیارت میں انسان اولیا اﷲ کو سلام کرتا ہےاگر زائر اس بات سے باخبر ہو کہ پیغمبرؐ یا امام ؑ یا حرم میں مدفون اہلِ بیت ؑ زائر کو دیکھتے ہیں، اُسے پہچانتے ہیں اور اس کے سلام کا جواب دیتے ہیں، تو یہ بات بھی ان ہستیوں کے لئے محبت پیدا کرتی ہےاہم بات یہ ہے کہ بچوں اور نوجوانوں کو یہ بات سمجھائی جائے، اُن کے سامنے ان نکات کی وضاحت کی جائے۔
فضول، لا ابالی اور غیر ذمے دار افراد کے ساتھ میل جول انسان کی روح میں بھی ایسی ہی صفات پیدا کردیتا ہےاس کے برعکس معنویت رکھنے والے حضرات، مقدس مراکز اور دینی مراسم میں شرکت انسان کے اندر معنویت کی بنیاد کو مضبوط کرتی ہے۔
اگر ہمیں بعض لوگ ان چیزوں سے گریزاں نظر آتے ہیں، تو شاید اس کی وجہ ان کی فرومائیگی، احساسِ بیگانگی یا ان کے دل میں محبتِ اہلِ بیت ؑ کی تڑپ نہ پایا جانا ہواور اگر وہ اس محبت کا ذائقہ چکھیں، تو ممکن ہے اس کے مشتاق ہو جائیںبالکل ان لوگوں کی طرح جو ایک مزیدار کھانا اس لئے نہیں کھاتے کہ انہوں نے تاحال اس کا ذائقہ چکھا ہی نہیں ہوتا لیکن جوں ہی وہ اس کھانے کا ایک لقمہ چکھتے ہیں اور انہیں اس کی لذت پتا چلتی ہے، تو پھران کا ہاتھ ہی نہیں رُکتااہلِ بیت ؑ کے ساتھ تعلق کے سلسلے میں بچوں کے لئے معنوی فضا تیار کرنا اسی طرح کی چیز ہےماحول اپنا بھرپور اثر ڈالتا ہے، خواہ ایک گھر یا اسکول کا ماحول ہو، خواہ ایک ملک اور معاشرے کالہٰذا کیا حرج ہے اگر ہم ان کیلئے توفیقِ اجباری پیدا کریں جو جذبِ اختیاری کا باعث بن جائے۔
کبھی کبھی ایک گنبد، حرم، یا مسجد پر نظر پڑنا انسان میں اس کے لئے کشش پیدا کر دیتا ہےکیا ہم نہیں سمجھتے کہ مسجدوں اورامام بارگاہوں میں عوام کے لئے پھلوں کے درخت وقف کر نااور لوگوں کے لئے ان کے پھلوں سے مفت استفادے کا بندوبست اس تاثیر کا حامل ہوگا؟ یا یہ کہ قدیم زمانے میں بعض مساجد کے احاطے وسیع رکھے جاتے تھے، جنہیں لوگ راہ گزر کے طور پر استعمال کرتے تھے اورکبھی کبھی اسی راہ گزرپر چلتے ہوئے اور نگاہ پڑنے سے لوگ مسجد کی روحانی اور معنوی فضا میں جذب ہو جاتے تھے۔
حتیٰ کسی فلم یا ڈرامے میں ایک مقدس شخصیت، اہلِ بیت ؑ کے کسی فرد، یا ان سے وابستگی رکھنے والی کسی شخصیت کا کردار ادا کرنے کی وجہ سے انسان میں خود بخود ان سے محبت پیدا ہو جاتی ہے اور یہ کردار ادا کرنے والا فنکار ان ہستیوں سے محبت کرنے لگتاہےاہلِ بیت ؑ کے بارے میں روحانی اور معنوی فضاپیدا کرنے کایہ بھی ایک طریقہ ہے۔
۱۶:- کتابوں کا تعارف اور مقالات و اشعارتحریر کرنا
بچوں میں پائے جانے والے مطالعے کے شوق سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں اہلِ بیت ؑ کے بارے میں تحریر کی گئی اچھی، پرکشش اور تعمیری کتب سے روشناس کرایا جائےجن کتابوں سے مقابلوں کا انعقاد کریں، یا جنہیں تلخیص کے لئے تجویز کریں، یا مضمون نویسی، شعر، قصوں، حتیٰ مصوری اور خطاطی کے لئے جو موضوع دیں، اگر وہ اہلِ بیت ؑ کے بارے میں قلبی جذبات ابھارنے والے ہوں، تو اس سلسلے میں مفید ثابت ہوں گےبچوں کو اس قسم کے کاموں کی طرف لانا یا انہیں عاشورا، ۱۵ شعبان، شبِ قدر، مجالسِ عزا وغیرہ کے حوالے سے یادگار واقعات تحریر کرنے کی ترغیب دینا، اہلِ بیت ؑ سے اُن کی محبت اور عقیدت میں اضافے اور تقویت میں مددگار ہو سکتا ہے۔
بچوں میں اِن کتب کے مطالعے کا شوق پیدا کرنے کی خاطر مفید اور پرکشش کتابوں سے انہیں متعارف کرانے کے لئے خاص ذوق اور موضوع پر مہارت درکار ہے۔
۱۷:- محبانِ اہلِ بیت ؑ کے قصے
اہلِ بیت ؑ کی زندگی سے ماخوذ داستانیں، جو جذبات پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں اور محبت آفرین بھی ہیں، ان کے علاوہ اہلِ بیت ؑ کے عقیدت مندایسے محبوں کے قصے بھی خاندانِ رسول سے محبت پیدا کرنے میں مفید ہیں جن کی زندگی، جانثاری، ایثار و قربانی، خدمات، حالات اور ان کی زیارات اور توسل میں اس محبت کو محسوس کیا جا سکتا ہو۔
حضرت ابوذر غفاریؓ کی رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عقیدت و محبت کی داستان، آنحضرتؐ سے اویس قرنی کے عشق، حضرت علی ؑ سے ان کے دوستوں اور اصحاب کی گہری محبت، سید الشہداء کے انصار کی آپ ؑ سے والہانہ محبت، ایسے لوگ جنہوں نے حیاتِ ائمہ ؑ یا ان کی وفات کے بعد ان کی زیارت کے سلسلے میں عشق و اخلاص کا مظاہرہ کیا اور اس راہ میں مصائب و تکالیف برداشت کیں، اسی طرح وہ لوگ جنہوں نے محبانِ اہلِ بیت ؑ کے خلاف بنی امیہ اور بنی عباس کے مظالم کے باوجود ان کی محبت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور ہمیشہ اہلِ بیت ؑ کے وفادار رہے، وہ لوگ جنہوں نے کربلا کی زیارت کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا، امام مہدی ؑ کے دیدار کے شیفتہ افراد، ان سے وصال کے مشتاق لوگ، اور وہ لوگ جنہوں نے اہلِ بیت ؑ کے عشق میں عظیم خدمات اورکار ہائے خیر انجام دیئے، اسی طرح ائمہ ؑ کے مخصوص اصحاب اور ہمراہیوں کے واقعات اور ایسے ہی بہت سے قصے حیرت انگیز اثرات کے حامل ہیںبالخصوص ایسے بچوں اور نوجوانوں کے لئے جوقصے کہانیاں سننے کے شوقین اور داستانوں میں آئیڈیل تلاش کرتے ہیں، کہانیوں کے ہیروز کو پسند کرتے ہیں اور ان سے محبت کرتے ہیں البتہ اس قسم کے قصوں کی زبان جس قدر میٹھی، سادہ اور فنی ہو گی اسی قدر یہ زیادہ پر اثر ہوں گے۔
۱۸:- انجمن سازی
جو پروگرام نوجوان خود سے منعقد کرتے ہیںمثلاً مختلف مناسبتوں سے جشنِ میلاد کا انعقاد، ماتمی دستوں کی تشکیل، مساجد یا عزاخانوں کی صفائی ستھرائی اورسبیلوں کا اہتمام وغیرہیہ تمام چیزیں اہلِ بیت ؑ سے ان کے تعلق کو مضبوط کرنے میں موثرہیںبچوں میں روحانی آمادگی پائی جاتی ہےان کے ذریعے محلّوں میں خود ان کی انجمنیں بنانی چاہئیں، تاکہ وہ خود ان کی ذمے داری سنبھالیں اور ان کی سرگرمیوں میں اضافہ ہو
لڑکپن کی سرحدوں میں قدم رکھنے والے بچوں کو اس قسم کے کاموں میں سرگرم کرنے کے لئے ماہِ محرم ایک مناسب ترین موقع ہےکیونکہ عمومی طور پر ماہِ محرم، شعبان اور رمضان میں لوگوں کا رجحان مذہب کی جانب ہوتا ہےلہٰذا بچے بھی دینی مراسم کی جانب راغب ہوتے ہیں ان دنوں میں بچوں کے اندرازخودپیداہونے والی اس حس اوردوسرے دنوں کے لئے بھی اس حس کوباقی رکھنے کے سلسلے میں سنجیدہ عملی کوششوں کی ضرورت ہے
ائمہ ؑ سے منسوب ایام میں پرچم اٹھا کر، نوحہ خوانی کر کے اور اپنی دیگر سرگرمیوں کے ذریعے بچوں میں اپنی شخصیت کا احساس پیدا ہوتا ہے، یہ احساس ان میں ذمے داری اور فرض شناسی کے جذبات ابھارتا ہے اور اہلِ بیت ؑ سے ان کا تعلق قائم کرتا ہےکیونکہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان سرگرمیوں کے ذریعے انہیں ایک مستقل شخصیت اورعلیحدہ حیثیت ملی ہے، وہ لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے ہیں اور لوگ انہیں اہمیت دینے لگے ہیںپرچم ایک گروہ کے تشخص کی علامت ہے اور وحدت، یکجہتی اور تعلق پیدا کرتا ہے
ایک شہید کے بقول: ”آدھا میٹر لکڑی اور آدھا میٹر سیاہ کپڑے کے ذریعے سید الشہداء کے بارے میں بے دریغ احساسات کے ایک طوفان کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے، جس کی مثال کسی اور جگہ دیکھی ہی نہیں جاسکتیجبکہ لوگوں کو ایک چھوٹے سے اجتماع کی تشکیل کے لئے بھی بہت زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔“
عزاداری کے دستے اور روایتی ماتمی انجمنیں نہ صرف اہلِ بیت ؑ اور عاشورا کے پیغام اور اسکی تعلیمات کی حفاظت کا ایک ذریعہ ہیں بلکہ امام حسین ؑ کے محور پر مقدس مقاصد اور مخلصانہ اور عاشقانہ آداب کے ساتھ تنظیم سازی کی ایک مشق ہیں
چند تکمیلی نکات
ہم محبتِ اہلِ بیت ؑ کی تمام تر اہمیت کے قائل ہیں، لیکن اگر یہ محبت درست اندازمیں، فکروشعور اور صحیح تعلیمات کے ساتھ نہ ہو، تو ممکن ہے لوگوں میں ایک طرح کی غفلت، بے توجہی اور افراط پیدا ہو جائے اور اس محبت کے اُلٹے نتائج برآمد ہوںلہٰذااس حوالے سے چند نکات کی جانب توجہ ضروری ہے، تاکہ یہ مقدس محبت موثرثابت ہو اور نقصانات سے محفوظ رہے
۱:-محبت کو عمل کے ساتھ جوڑنا
بچوں اور نوجوانوں کے دل میں محبتِ اہلِ بیت ؑ پیدا کرتے ہوئے یک طرفہ پن سے بھی اجتناب کرنا چاہئے اور اُنہیں بھی اس سے پرہیز کی تلقین کرنی چاہئےہمارا اصل کام محبت کو عمل کے ساتھ مخلوط کرناہےتاکہ (عمل، تقویٰ اور پیروی کے بغیر) صرف محبت اور عشقِ اہلِ بیت ؑ ان کے محبوں کی گمراہی اور غفلت کا باعث نہ بن جائےاگر محبت اور عمل ساتھ ساتھ نہ ہو ں تو یا تو محبت سچی نہیں ہے، یا اس میں عشق اور عقیدت کی تاثیر کو ختم کر دینے والے عوامل کی ملاوٹ ہے۔
اگر محبت سچی اور صدقِ دل کے ساتھ ہو، تو محبوب اور محب کو ہم رنگ اور ہمراہ بنا دیتی ہےمحبت چاہے خدا کے ساتھ ہو، پیغمبرؐ کے ساتھ ہو، ائمہ ؑ کے ساتھ ہویا کسی بھی دوسرے شخص کے ساتھ، اگرسچی اورحقیقی ہو، تومحب کو محبوب کی مخالفت، اسکی ناراضگی اور اسکی خواہش، رضا اور رغبت کے منافی عمل سے باز رکھتی ہےاگر ہم کسی سے عشق اور محبت کا دعویٰ کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے عمل انجام دیں جوہمارے محبوب کے لئے تکلیف اور دکھ کا باعث ہوں، توہم عاشق اور محب نہیں بلکہ اس عشق اور محبت کے جھوٹے دعویدارہیں۔
امام جعفرصادق علیہ السلام نے (اپنے ایک صحابی) مفضل سے گفتگو کے دوران محبتِ اہلِ بیت ؑ کے حوالے سے شیعوں کی گروہ بندی کرتے ہوئے اور یہ بتاتے ہوئے کہ محبتِ اہلِ بیت ؑ کے سلسلے میں لوگوں کے محرکات بھی مختلف ہوتے ہیں، اہلِ بیت ؑ کے حقیقی محب گروہ کا تعارف کرایا ہے، فرماتے ہیں:
وَفِرقَةٌ اَحَبُّوناوحَفِظُواقولَنٰا وَاطاعُوااَمْرَناوَلَمْ یُخالِفوا فِعْلَنا، فَاولئک منّاونَحْنُ منهم
۔ ۔ ایک گروہ ہم سے محبت کرتا ہے، ہمارے کلام کی حفاظت کرتا ہے، ہمارے فرمان کی پیروی کرتا ہے، اپنے عمل سے ہماری مخالفت نہیں کرتایہی لوگ ہم سے ہیں اور ہم ان سے ہیں(تحف العقولص ۵۱۴)
امام جعفر صادق علیہ السلام نے محبتِ خدا کے دعوے کے بارے میں فرمایاہے:
تَعْصِی الالٰهَ وَاَنْتَ تُظهِرُحُبَّهُ هذا مَحالٌ فی الفِعالِ بَدیعٌ
لَوْکانَ حُبُّکَ صادِقاً لَأَ طَعْتَهُ اِنَّ المُحِبَّ لِمَنْ یُحِبُّ مُطیعٌ
خدا کی نافرمانی کرتے ہواور اس سے اظہارِ محبت بھی کرتے ہویہ محال ہے اورایک نئی بات ہےاگر تمہاری محبت سچی ہوتی، تو اُس کی اطاعت کرتےکیونکہ عاشق اپنے معشوق کا اطاعت گزار ہوتا ہے(بحارالانوارج ۷۰ص ۱۵)
خدا سے اظہارِ محبت اسکی اطاعت اور اسکے احکام کی پیروی کے ساتھ ہونا چاہئے نہ کہ اس کی نافرمانی اور اس کے فرامین کی مخالفت کے ساتھکیونکہ سچی محبت کا نتیجہ محبوب کی اطاعت ہوا کرتا ہےاہلِ بیت ؑ سے محبت کا دعویٰ اور گناہوں اور نا فرمانیوں کا ارتکاب ایک دوسرے سے متضاد باتیں ہیںلہٰذایہ بات واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ اگرچہ ہمارا دین حب اور محبت کا دین ہے لیکن سچی محبت ہمرنگی اور ہم آہنگی کا باعث ہوتی ہے، بالکل اسی طرح جیسے جب دو افراد میں محبت ہوتی ہے، تو اس محبت کی بنیاد پر وہ دونوں ایک دوسرے کی طرح بننے کی کوشش کرتے ہیں، ایک دوسرے کو رنجیدہ کرنے اور ایک دوسرے کی مخالفت سے پرہیز کرتے ہیں تا کہ ان کے درمیان قائم محبت اور دوستی کا رشتہ ٹوٹنے نہ پائے۔
امام رضا علیہ السلام کی ایک حدیث، اسی نکتے کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ محبتِ اہلِ بیت ؑ کے بھروسے پر عملِ صالح کو ترک نہیں کرنا چاہئےایسا نہ ہو کہ ہم ”جب علی ہیں تو کیا غم“جیسے الفاظ منھ سے نکالنے لگیں۔
لا تَدَعُواالعَمَلَ الصّالحَ والأجتهادَ فی العبادةِ اِتّکالاً عَلیٰ حُبّ آلِ محمّدٍ ولا تَدَعُواحُبَّ آلِ محمّدٍ والتسلیمَ لِأ مرِهِمْ اِتّکالاً عَلَی العبادة، فاِنّهُ لایُقْبَلُ أحَدُ هُمادونَ الآخَرِ
عملِ صالح اور بندگئ رب میں کوشش کو اہلِ بیت کی محبت کے بھروسے پر ترک نہ کرنا اور اہلِ بیت کی محبت اور ان کی اطاعت کو عبادت کے بھروسے پر نہ چھوڑناکیونکہ ان میں سے کسی ایک کو بھی دوسرے کے بغیر قبول نہیں کیا جائے گا(بحارالانوارج ۷۵ص ۳۴۷)
جی ہاں، محبتِ اہلِ بیت ؑ کے موثر ہونے کے لئے ضروری ہے کہ وہ عملِ صالح اور خدا کی بندگی کے ہمراہ ہو(۱)
اہلِ بیت ؑ سے عشق نیکیوں اور نیکوکار افراد، عملِ صالح اور صالحین کے ساتھ محبت کے ہمراہ ہونا چاہئےیہ سچی محبت کی نشانی ہےامام علی ابن الحسین زین العابدین علیہ السلام، مناجاتِ محبین میں خداوند عالم سے خدا کی محبت، خدا کے محبوں کی محبت اور ہر اس عمل سے محبت کی درخواست کرتے ہیں جو بندے کے لئے قربِ الٰہی کا باعث ہو۔
اَسْءَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یُحِبُّکَ وَحُبَّ کلّ عَمَلٍ یُوصِلُنی اِلیٰ قُرْبِکَ(مناجاتِ خمس عشرہمفاتیح الجنان)
میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیری محبت کا اورجو تجھ سے محبت کرتا ہے اُسکی محبت کا اور ہر اُس عمل سے محبت کاجو مجھے تیرے قرب سے ملادے۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
مَنْ اَحَبّنافَلْیَعْمَلْ بِعَمَلِناوَلْیَتَجَلْبَبِ الوَرَع
جو کوئی ہم سے محبت کرتا ہے، اُسے چاہئے کہ ہماری طرح عمل کرے اور پرہیز گاری کواپنا لباس قرار دے(تنبیہ الخواطرج ۲ص ۱۷۶)
محبت اور شیعیت کے ثبوت کے لئے عملی اتباع اور پیروی ضروری ہے اور شیعہ کے تو معنی ہی ہیں پیروکار اور نقشِ قدم پر چلنے والا۔
--------------
۱:-محبتِ اہلِ بیت ؑ سے متعلق احادیث کے مطالعے کے لئے کتاب میزان الحکمۃج ۳ص ۲۳۵ ملاحظہ فرمائیںاسکے علاوہ محمد محمدی ری شہری ہی کی تالیف ”اہل البیت فی الکتاب والسنۃ“بھی اس سلسلے میں ایک عمدہ ماخذ ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا گیا ہے کہ:
اِنَّ شیعَتَنامَنْ شَیَّعَناوتَبِعَنٰا فی اَعْمالِنا
یقیناًہمارے شیعہ وہ لوگ ہیں جو ہمارے اعمال میں ہماری اتبا ع اور پیروی کرتے ہیں(میزان الحکمۃج ۵ص ۲۳۲)
امامِ زمانہ علیہ السلام سے بھی روایت ہے کہ :
فَلْیَعْمَلْ کُلُّ امْرِءٍ مِنکم مایَقْرُبُ به مِنْ مَحبّتِناوَلْیَتَجَنَّبْ مٰا یُدْنیه مِنْ کَراهَتِناوسَخَطِنا
تم میں سے ہر ایک وہ عمل انجام دے جو اسے ہماری محبت سے نزدیک کرے، اور ہر اس چیز سے گریز کرے جو ہماری ناراضگی اور غضب کا موجب ہو۔ ۔ (احتجاجِ طبرسی ج۲ص ۵۹۹)
پس یہ ہمارے اچھے یا برے اعمال ہوتے ہیں جو ہمیں اہلِ بیت ؑ سے نزدیک یا اُن سے دور کرتے ہیں اورہم اُن کی نظروں میں محبوب یا قابلِ نفرت بنتے ہیںمحبت دل میں بھی ہوتی ہے اور زبان پر بھی جاری ہوتی ہے اور انسان کے عمل سے بھی اس کا اظہار ہوتا ہےوہ حدیث جس میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا ہے کہ: بعض لوگ تمہیں صرف دل سے چاہتے ہیں، بعض تمہارے قلبی اور زبانی محب ہیں اور بعض دل سے بھی تم سے محبت کرتے ہیں اور زبان سے بھی تمہاری مدد کرتے ہیں اور اپنی تلواروں سے بھی تمہاری نصرت کو بڑھتے ہیں ایسے لوگوں کی جزااس (پوری) امت کی جزا کے برابر ہے(بحار الانوارج ۳۹ص ۲۸۸) یہ حدیث اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے کہ محبت عملی پہلو بھی رکھتی ہے اور یہی محبت کی سچائی جاننے کا پیمانہ ہے۔
ائمہ معصومین علیہم السلام کااس بات پر زور دینا کہ شیعوں کو چاہئے کہ وہ اپنے اچھے عمل اور کردار کے ذریعے ان کے لئے زیب و زینت کا سبب بنیں، اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے ان کے لئے شرمندگی کا باعث اور ان کے نام پر دھبہ نہ بنیں خاندانِ عصمت و طہارت سے اسی عملی محبت کی جانب اشارہ ہےاس سلسلے میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے:
معاشرالشیعه! کونوالنازَ یناًوَلاٰ تکُونواعلینا شیناً
اے گروہِ شیعہ ! ہمارے لئے زینت بنو، بدنامی اورشرمندگی کا باعث نہ بنو(بحارالانوارج ۶۵ص ۱۵۱)
اس سے پتا چلتا ہے کہ شیعوں کا نیک عمل اوراُن کااچھا کردارلوگوں کو اہلِ بیت ؑ کی جانب مائل کرتا ہے۔
۲:-محبت کی نشانیاں
کبھی کبھی انسان خود بھی غلط فہمی کا شکار ہوجاتا ہےوہ اپنے آپ کو شیعہ اور محبِ اہلِ بیت ؑ تصور کرتا ہے، جبکہ اس کا یہ خیال ایک بے بنیاد نعرے اورکھوکھلے دعوے سے زیادہ نہیں ہوتاجو شخص محبتِ اہلِ بیت ؑ کادعویدار ہواس میں محبت کی نشانیاں اور علامات تلاش کرنی چاہئیںاہلِ بیت ؑ سے سچے عشق کی علامات درجِ ذیل ہیں:
عمل اور تقویٰ
پہلے نکتے (محبت کو عمل کے ساتھ جوڑنا) کے ذیل میں، اس بارے میں تفصیل کے ساتھ گفتگو کی جا چکی ہے۔
محبانِ اہلِ بیت سے محبت
اگر ہم اہلِ بیت ؑ سے عقیدت رکھتے ہیں، ان کے محب اور شیدائی ہیں، تو ہمیں اُن کے محبوں اور دوستوں سے بھی محبت کرنی چاہئےاگر ہم کسی کو پسند کرتے ہیں، تو قدرتی بات ہے کہ وہ جن امور اور جن افراد کو پسند کرتا اور ان سے محبت کرتا ہے، وہ ہمیں بھی پسند ہوں، ہم بھی ان سے خوش ہوتے ہوںعشق و محبت کے اس سلسلے کو اس طرح واضح کیا جاسکتا ہے:
خدا سے محبت
>
رسول اﷲ سے محبت
>
اہلِ بیتِ رسول سے محبت
>
شیعیانِ اہلِ بیت سے محبت۔
امام علی علیہ السلام نے فرمایا ہے
مَنْ اَحَبَّ اﷲَ اَحَبَّ النَّبیَّ، وَمَنْ اَحبَّ النّبیَّ اَحَبَّنٰاوَمَنْ اَحَبَّنا اَحَبَّ شیعَتَنا(اہل البیت فی الکتاب والسنۃص ۴۳۱)
جو شخص خدا سے محبت کرتا ہے، وہ پیغمبر سے بھی محبت کرتا ہےجو پیغمبر سے محبت کرتا ہے، وہ ہم (اہلِ بیت) سے بھی محبت کرتا ہے اور جو کوئی ہم سے محبت کرتا ہے، وہ ہمارے شیعوں سے بھی محبت کرے گا۔
امام علی علیہ السلام ہی نے فرمایا ہے :
مَنْ سَرَّهُ اَنْ یَعْلَمَ اَمُحِبٌّ لَنااَم مُبْغِضٌ فَلْیَمْتَحِنْ قَلبَه، فاِنْ کانَ یُحِبُّ وَلیّاً لَنا فَلَیْسَ بِمُبْغِضٍ لَناوَاِنْ کانَ یُبْغِضُ وَلیَّنٰافَلَیْسَ بِمُحِبٍّ لَنا
جو کوئی یہ جاننا چاہتا ہے کہ وہ ہمارا دوست ہے یا دشمن، اسے چاہئے کہ اپنے دل کا امتحان لے (اور اپنے قلب سے معلوم کرے) اگر وہ ہمارے محب سے محبت کرتا ہے، تو ہمارا دشمن نہیں اور اگر ہمارے محب سے دشمنی رکھتا ہے، تو پھر ہمارا دوست نہیں(حوالہ سابق)
امام جعفر صادق علیہ السلام کا قول ہے:
مَنْ تَوَلّیٰ مُحِبَّنافَقَداَحَبَّنا
جو کوئی ہمارے محب سے محبت کرتا ہے، وہ ہم سے محبت کرتا ہے
(بحارالانوارج۱۰۰ص ۱۲۴، ج ۳۵ص ۱۹۹)
دشمنوں سے بیزاری
جو شخص اہلِ بیت ؑ سے محبت کرتاہے، اُسکے دل میں اُن کے دشمنوں سے محبت نہیں ہو سکتیایک دل میں دو محبتیں اکھٹی نہیں ہوتیںمحبتِ اہلِ بیت ؑ کے ساتھ اُن کے دشمنوں کی محبت نہیں چل سکتیتولیٰ اورتبریٰ کی اہم بحث اسی مقام پر پیش آتی ہےشیعہ اور اہلِ بیت ؑ کا محب کسی نظریئے اورموقف کے بغیر نہیں رہتاوہ اہلِ بیت ؑ کے مخالفین سے محبت اور دوستی کا تعلق قائم نہیں کرتا۔
امام محمد باقر علیہ السلام نے آیتِ قرآن: مَاجَعَلَ اﷲُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَیْنِ فِیْ جَوْ فِه (خدا نے کسی کے سینے میں دو دل نہیں رکھے ہیںسورہ احزاب ۳۳آیت ۴) کے ذیل میں، امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ ؑ نے فرمایا:
لایَجْتَمِعُ حُبُّناوحُبُّ عَدُوَّنافی جَوْفِ انسانٍ
ایک انسان کے دل میں ہماری اور ہمارے دشمن کی محبت یکجا نہیں ہو سکتی
کیونکہ خداوند عالم نے انسان کے دو دل نہیں رکھے ہیں کہ ایک میں اس سے دوستی ہو اور ایک میں اس سے دشمنیہمارے دوست کو چاہئے کہ اپنی محبت کو ہمارے لئے خالص کرے، اسی طرح جیسے سونا آگ میں پڑ کرخالص اور بے آلائش ہو جاتا ہےپس جو کوئی (اپنے دل میں) ہماری محبت کو جاننا چاہتا ہے، اسے چاہئے کہ اپنے دل کا امتحان کرےاگر اس کے دل میں ہماری محبت کے ساتھ ہمارے دشمن کی محبت بھی ہو، تو ایسا شخص ہم میں سے نہیں اور ہم بھی اس سے نہیں(نہ اس کا ہم سے تعلق ہے اور نہ ہمارا اس سے تعلق) (اہل البیت فی الکتاب والسنۃص ۴۲۳)
امام جعفر صادق علیہ السلام نے ایک شخص کے جواب میں، جو یہ کہہ رہا تھا کہ فلاں شخص آپ ؑ کی ولایت و محبت رکھتا ہے لیکن آپ ؑ کے دشمنوں سے بیزاری کے معاملے میں سست ہے، فرمایا:
هَیهات! کَذِبَ مَنِ ادّعیٰ مَحَبَّتناوَلَمْ یَتَبرَّءْ مِن عَدُوِّنا
افسوس !ایسا شخص جھوٹ بولتا ہے جو ہماری محبت اور ولایت کا دعویدار ہے لیکن ہمارے دشمن سے بیزارنہیں(حوالہ سابق)
مصائب و مشکلات کے لئے تیار رہنا
محبانِ اہلِ بیت ؑ کو مصائب و مشکلات کے لئے تیار رہنا چاہئےیہ اس بات کی ایک اوردلیل ہے کہ محبت اور ولایت اُس وقت تک قابلِ قبول نہیں جب تک اس کا دعویدار مشکلات اٹھانے اور صعوبتیں جھیلنے کے لئے تیار نہ ہوحضرت علی علیہ السلام کے بقول:
مَنْ اَحَبَّنااهلَ البیتِ فَلْیَسْتَعِدَّ عُدّةً لِلبَلاءِ
جو شخص ہم سے محبت کرتا ہے، اُسے چاہئے کہ مشکلات جھیلنے کے لئے تیار رہے(حوالہ سابق ص ۴۳۵)
عشق و محبت کا راستہ دشوار، پر خطر اور بلاؤں سے بھراراستہ ہےسچا عاشق کبھی ان مشکلات، دشواریوں اور بلاؤں سے راہِ فراراختیار نہیں کرتا، بلکہ بڑھ بڑھ کر ان کا استقبال کرتا ہے اور راہِ محبت میں تکلیف اُسکے لئے لذت و سرور بخش ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ خونِ دل پینا اور مصیبتیں جھیلنا عشق کی ایک علامت ہےہمیشہ ولااور بَلا، عشق اور سختی ساتھ ساتھ رہتے ہیں البلاء للوِلاء۔
۳:- غلو سے پرہیز
محبت کے راستے کی ضرر رساں چیزوں میں سے ایک چیز عقیدے کے بارے میں اور اہلِ بیت ؑ سے اظہارِ محبت میں غلو (حد سے زیادہ بڑھ جانا) اور افراط ہےخود ائمہؑ اپنے زمانے میں غلو کی مشکل سے دوچار رہے تھے اور ان لوگوں کے ساتھ سختی سے پیش آتے تھے جو ان کے خدا ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے اور ایسے افراد سے بیزاری کا اظہار کرتے تھےاس حوالے سے بکثرت احادیث موجود ہیں، جیسے امام جعفر صادق علیہ السلام کی یہ حدیث کہ :
اِحْذَرُواعَلیٰ شَبابِکُم الغُلاةَ لا یُفسِدونَهم، فاِنَّ الغُلاةَ شرُّخلقِ اﷲ، یُصَغِّرونَ عَظَمَةَ اﷲِ ویَدَّعُونَ الرّبُوبیّة لِعبادِاﷲ
اپنے جوانوں کو غالیوں سے بچا کے رکھوکہیں وہ انہیں خراب نہ کر دیںغالی لوگ خدا کی بد ترین مخلوق ہیں، وہ خدا کی عظمت کو گھٹاتے ہیں اور خدا کے بندوں کے لئے مقامِ ربوبیت کادعویٰ کرتے ہیں
(طوسی ص ۶۵۰ (امالئ
مدح و ستائش میں افراط اور پیغمبرؐ اور ائمہؑ کو مقامِ الوہیت اور ربوبیت تک پہنچا دینا ”غلو“ ہےمحبت کو غلو سے آلودہ نہیں ہو نا چاہئےکیونکہ غلو باعثِ ہلاکت ہےامیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
هَلَکَ فِیَّ رَجُلانِ :مُحِبٌّغالٍ ومُبغِضٌ قالٍ
میرے بارے میں دوطرح کے لوگ برباد ہوئے ہیں: غلو کرنے والے دوست اور کینہ رکھنے والے دشمن(نہج البلاغہکلماتِ قصار۱۱۷)
پیغمبر اور ائمہ، نبی اور امام ہونے سے پہلے ”عبداﷲ“یعنی خدا کے بندے ہیں، جو پروردگار پر ایمان رکھتے ہیںخود انہوں نے فرمایا ہے کہ ہمیں حدِ ربوبیت سے نیچے رکھو، پھر ہمارے بارے میں جو چاہو کہوحضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے:
ایّاکُمْ وَالغُلُوَّفینا، قُولوا: اِنّاعَبیدٌمَربُوبُونَ وقولوافی فَضْلِنٰامٰا شِءْتُم
ہمارے بارے میں غلو سے پرہیز کرویہ عقیدہ رکھو کہ: ہم پروردگارِ عالم کے تحتِ اختیاربندے ہیںپھر اس کے بعد ہماری فضیلت میں جو چاہو کہو(اہل البیت فی الکتاب والسنۃص ۵۳۱)
اسلامی تاریخ میں غلو کی وجہ سے بہت سے لوگ گمراہی میں مبتلا ہوئے ہیں اس غلو کا اظہار اکثر حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں کیا گیا ہےامیرالمومنین علیہ السلام نے اس گمراہی اور فکری انحراف کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:
مَثَلی فی هٰذِهِ الأُمَّةِ مَثَلُ عیسَی بنِ مریمَ، اَحَبَّهُ قَوْمٌ فَغٰالُوافی حُبِّهِ فَهَلکواوَاَبْغَضَهُ قومٌ فَهَلکوا
اس امت میں میری مثال عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) کی سی ہےایک گروہ نے ان سے محبت کی اور اس محبت میں غلو اور افراط کی وجہ سے ہلاکت سے دوچار ہواجبکہ دوسرا گروہ ان سے بغض و عداوت کی وجہ سے ہلاکت کا شکار ہوا(بحارالانوارج ۳۵ص ۳۱۵)
محبت میں افراط، حق سے دوری کا باعث ہےحضرت علی علیہ السلام نے اپنے ایک کلام میں نہروان کے خوارج کو خطاب کر کے فرمایاہے:
میرے حوالے سے دو گروہ ہلاکت کا شکارہوں گے: ایک مجھ سے محبت میں حد سے بڑھ جانے والے، جنہیں ”محبت“ ناحق راہ کی طرف لے جائے گیاوردوسرے مجھ سے دشمنی میں حد سے گزر جانے والے(بحارالانوارج ۳۳ص ۳۷۳)
محبت میں غلو اور ائمہؑ کوخدا سے نسبت دینا، ایک قسم کی بدعت اور شرک ہے، جس کا ارتکاب تاریخِ اسلام میں نادان دوستوں یا کٹّر دشمنوں نے کیا ہے اور جو شیعوں اور ائمہؑ کے لئے دردِ سر بنے ہیں اورآج بھی ایسے عقائد و رجحانات شیعیت پر حملے اور اعتراض کے لئے دشمنوں کا ہتھیار ثابت ہوتے ہیںدشمنانِ اہلِ بیت خود اس قسم کے افکار و خیالات کی نشر و اشاعت میں مددگار رہے ہیں
اور آج بھی اس سلسلے میں تعاون کرتے نظر آتے ہیںکیونکہ وہ اس طرح شیعیت کے چہرے کو مسخ کرکے سامنے لاتے ہیں(۱)
البتہ ایک دوسری جانب سے ایک اور خطرہ بھی موجود ہےبعض علاقوں اور محافل میں، غلو کے خطرے کے خوف سے اہلِ بیت ؑ کے اُن فضائل اور مناقب کا بیان بھی ترک کیا جا رہا ہے جو یقینی اور معتبر روایات کے ذریعے ہم تک پہنچے ہیں اور ہر اس فضیلت کو غلو کے نام سے مسترد کیا جارہا ہے جو عقلِ بشر سے معمولی سی بھی ہم آہنگ نہیںیہ طرزِ عمل بھی درست نہیں اور دشمن ہم سے یہی چاہتاہے۔
شیعیت کے مخالفین ہم پر غلو کا الزام لگاتے ہیںلہٰذا ہمیں چاہئے کہ غلو سے پرہیز کرنے کے ساتھ ساتھ اور عقیدے میں انحراف کا شکار ہوئے بغیراپنے مخالفین کے الزامات کی رد میں جواب بھی ہمارے پاس موجودہو اور ہم ”غلو“ اور ”فضائل“ کے بیان کے درمیان حد کوبھی جانتے ہوں، تاکہ ان کے شبہات کو دور کر سکیں۔
بہرحال ہمیں چاہئے کہ نوجوانوں اور بچوں کی فکری سطح اور ان کی ذہنی صلاحیت کوپیش نظر رکھیں اور ان کے سامنے ایسی احادیث اور فضائل بیان کریں، جو ان کے لئے قابلِ فہم اور قابلِ ہضم ہوںصرف اس بنیاد پرکسی بات کو عام افراد کے سامنے بیان کرنے کا جواز فراہم نہیں ہوتا کہ یہ بات حدیث میں موجود ہےکبھی کبھی سننے اور پڑھنے والوں کے لئے فکری کشش نہ رکھنے کی وجہ سے کوئی بات ان کے ذہن میں شک و شبہ پیدا کر دیتی ہے اور وہ اصلِ دین اور عقائد کے منکر ہو جاتے ہیں۔
--------------
۱:- اس بارے میں تحقیق کے خواہشمند حضرات علامہ اسد حیدر کی تالیف ”امام جعفر الصادق والمذاھب الاربعہجلد۴صفحہ ۳۶۹“ پر مشکلۃ الغُلاۃ کے عنوان سے گفتگو ملاحظہ فرمائیں۔
ایک میدان دو حملے
کیونکہ محبتِ اہلِ بیت پیدا کرنا ایک فکری عمل اور اغیار کی فکری و ثقافتی یلغار کے مقابل دفاعی بند باندھنا ہےلہٰذا اس گفتگو کی تکمیل کی خاطر یہ تحریر بھی کتاب میں شامل کی جا رہی ہے، جس میں فوجی اور ثقافتی حملوں کا موازنہ کیا گیا ہے۔
نہ تو سرحد صرف بحری اور برّی ہوتی ہے، نہ حملہ صرف زمینی اور فضائی
نہ یلغار صرف فوجی ہوتی ہے، نہ شکست اور نقصان فقط مادّی
ثقافتی یلغار، فوجی حملے سے زیادہ خطرناک چیز ہے
فوجی حملے کا مقصد زمین پر قبضہ کرنا ہوتا ہے، جبکہ ثقافتی یلغار دین اور اخلاق کو نقصان پہنچانے کے لئے ہوتی ہے
فوجی یلغارانتہائی تیز ی اور شور و غل کے ساتھ ہوتی ہے، جبکہ ثقافتی یلغار نہایت خاموشی اورآہستگی کے ساتھ
فوجی حملہ خوفزدہ کردینے والا اور نفرت انگیز ہوتا ہے، جبکہ ثقافتی یلغار فریب دینے والی اور پرکشش ہوتی ہے
فوجی حملے کے مقابل لوگ اپنادفاع کرتے اوراس سے مقابلہ کرتے ہیں، جبکہ ثقافتی یلغار کا استقبال کرتے اوراسے خوش آمدید کہتے ہیں
فوجی حملے کے دوران مارا جانے والا شہید ہوتا ہے، جبکہ ثقافتی یلغار کے نتیجے میں مرنے والا پلید
شہادت لوگوں کے لئے محبوب ہوتی ہے، لیکن گمراہی نفرت انگیز
فوجی یلغار میں دشمن اپنی دشمنی اور جنگ کا اعلان کرتا ہے، جبکہ ثقافتی یلغار میں دشمن اعلانِ دوستی کیا کرتا ہے
فوجی حملے میں پہلافائر ہوتے ہی لوگ خطرے کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیںلیکن ثقافتی یلغار میں جب تک دشمن اپنا آخری ہتھیار استعمال نہیں کرلیتا، اُس وقت تک بہت سے لوگ یہ ماننے ہی کو تیار نہیں ہوتے کہ اُن پر حملہ ہوا ہے
فوجی حملہ ظاہروآشکارا ہوتا ہے، جبکہ ثقافتی یلغارپوشیدہ و پنہاں
فوجی حملے کے نتیجے میں زمین چھنتی ہے، اور ثقافتی یلغارمیں دین اورعزت وآبرو ہاتھ سے جاتی ہے
فوجی حملے میں محاذوں پر دشمن کے ساتھ نبرد آزمائی ہوتی ہے، ثقافتی یلغار میں دشمن گھروں کے اندر حملہ آورہوتا ہے
فوجی حملے میں بم برستے ہیں، ثقافتی یلغار میں شکوک و شبہات کی بارش ہوتی ہے
فوجی حملے کا اسلحہ میزائل اور بم ہوتے ہیں، ثقافتی یلغار میں مصنوعی سیارے اور مواصلاتی موجیں کام کرتی ہیں
فوجی حملے میں چھاؤنیاں، ہوائی اڈے، سڑکیں اور مورچے نشانے پر ہوتے ہیں، جبکہ ثقافتی یلغار میں تعلیمی اداروں، مطبوعات، افکار اور عقائد کونشانہ بنایا جاتا ہے
فوجی حملے کے دوران پہاڑوں، میدانوں اور سمندروں میں مقابلہ ہوتا ہے، جبکہ ثقافتی یلغار میں رسائل، جرائد، فلموں، ڈراموں اور ناولوں میں جنگ آزمائی ہوتی ہے
فوجی میدانِ جنگ محدود ہوتاہے، ثقافتی جنگ کا میدان انتہائی وسیع وعریض
عسکری میدان میں ہونے والا نقصان ظاہر اورنظر آنے والا ہوتاہے، ثقافتی میدان میں ہونے والی بربادی اکثر لوگوں کو نظرہی نہیں آتی
عسکری میدان کے اسیر جنگی قیدی بنتے ہیں، جبکہ ثقافتی میدان کے گرفتار شدگان غافل اورگمراہ
عسکری میدان میں شہادت ملتی ہے، جوپسماندگان کے سر بلند کر دیتی ہے، جبکہ ثقافتی میدان کے متاثرین کا غافل اور گمراہ ہوجانااُن کے اہلِ خانہ کے لئے شرمناک ہوجاتا ہے
شہید کے باپ کاسر بلند ہوتا ہے، جبکہ گمراہ شخص کاباپ نادم و شرمندہ
فوجی میدان میں زخمی ہونے والے کوعلاج معالجے کے لئے پچھلے مورچوں میں بھیج دیا جاتا ہے، جبکہ ثقافتی میدان میں پہلا زخم کھاتے ہی انسان اگلی صفوں میں چلا جاتا ہے
عسکری میدان میں برسنے والی گولیاں اور گولے جسموں کو زخمی اور معذور کرتے ہیں، جبکہ غلیظ ثقافت کا مہلک وائرس ایمان اور افکار کو نقصان پہنچاتا ہے
فوجی حملے میں دشمن بَرّی اور بحری سرحدوں سے داخل ہوتا ہے، ثقافتی یلغار میں فکری اور روحانی سرحد وں سے
عسکری میدان میں جسے چوٹ لگتی ہے اُس میں مقابلے اور دشمنی کے جذبات بھڑکتے ہیں، جبکہ ثقافتی یلغار میں زخمی ہونے والا اپنے ہتھیار چھوڑ کر گھٹنے ٹیک دیتا ہے
ایک شہید کی تشیعِ جنازہ پورے شہرے میں ولولہ پیدا کر دیتی ہے، اور ایک نسل کی گمراہی معاشرے کی روح کوافسردہ کر دیتی ہے
فوجی یلغار قوم میں مقابلے کا جذبہ پیدا کرتی ہے، جبکہ ثقافتی یلغار اسے مزید سست بنا
دیتی ہے
عسکری میدان گولوں کی گھن گھرج سے گونج رہا ہوتا ہے، جبکہ ثقافتی میدان پردلکش آوازوں کا سرور چھایاہوا ہوتا ہے
میدانِ جنگ میں انسان خدا تک پہنچنے کے لئے خودکو فدا کردیتا ہے، جبکہ ثقافتی میدان میں اپنے نفس کی تشفی کے لئے خداکو قربان کردیتا ہے
میدانِ جنگ میں قربان ہونے والے بھلائی کی راہ کے شہید ہیں، جبکہ ثقافتی میدان کے مارے جانے والے برائیوں اور گمراہیوں کی راہ کے مردار۔
ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ ہم ثقافتی محاذ کے زخمی نہ ہوں
اور اگر خدانخواستہ ہمیں کوئی زخم لگے بھی، توبلاتاخیر توبہ کی علاج گاہ میں آجائیں، تاکہ جلد از اس کی تلافی ہوجائے
کیا ہم اپنی روح اور فکرکی سلامتی کوجسم کی سلامتی کے برابربھی اہمیت دیتے ہیں؟