معجزات اور کرامات کے بارے میں
-
- شائع
-
- مؤلف:
- مؤلف: آیت اللہ العظمی سيد محمد سعيد الحكيم (قدس سرہ)-مترجم: یوسف حسین عاقلی
- ذرائع:
- ماخوذ از کتاب: اصول العقيدة
معجزات اور کرامات کے بارے میں
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کی صداقت کی گواہی دینے والے شواہد میں سے وہ نمایاں کرامات اور غیر معمولی معجزات ہیں جو آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھوں ظاہر ہوئے، جیسے شق القمر(چاند کاشق ہونا)، آپ کے حکم سے رد الشمس(سورج کا واپس لوٹنا)، تظلیل الغمام(بادل کا آپ پر سایہ کرنا)،طے الارض( لمبی مسافت کو کم وقت میں طے کرنا)، درخت کا آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بلانے پر آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آنا، آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انگلیوں کے درمیان سے پانی کا نکلنا، اور جب آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا تیر ایک خشک کنویں میں گاڑا تو اس کا پانی دوبارہ جاری ہو جانا، تھوڑے سے کھانے میں برکت پیدا ہونا، اس تنے کا رونا جس کے پاس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ دیتے تھے جب آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے چھوڑ کر منبر پر تشریف لے گئے، ام معبد کی بکری کے تھن سے دودھ کا بہنا حالانکہ وہ کمزور ہو چکی تھی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وضو کے پانی سے ایک سوکھے ہوئے درخت کا دوبارہ ہرا بھرا ہو جانا، بھیڑیے کا آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی گواہی دینا، اونٹ اور ہرن کا آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بات کرنا، آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی برکت سے بیماروں کا شفا پانا، آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعاؤں کا قبول ہونا، اور آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بہت سی غیبی خبریں... ان کے علاوہ اور بہت کچھ جو شمار میں نہیں آ سکتا۔
اہل بیت (صلوات الله عليهم)سے صادر ہونے والی کرامات
اور اس میں وہ معجزات اور کرامات بھی شامل ہیں جو اہل بیتِ اطہار (صلوات الله عليهم) سے ظاہر ہوئے، کیونکہ وہ ان کے نور سے دیکھتے ہیں، ان کے تعلیمات کو لے کر چلتے ہیں، اور ان کی طرف سے بولتے ہیں۔ پس جو کچھ ان سے صادر ہوتا ہے وہ درحقیقت انہی سے اور ان کی برکت کے فیض سے ہوتا ہے، جو ان کی نبوت کی گواہی دیتا ہے اور ان کے دعوے کی سچائی کو مضبوط کرتا ہے۔ نیز یہ اس بات کی بھی گواہی ہے کہ وہ ہستیاں(صلوات الله عليهم) ان کے وارث اور ان کے علم کے حامل ہیں۔
اور یہ کرامات اتنی کثرت اور شہرت کے ساتھ نقل ہوئی ہیں کہ یہ مجموعی تواتر(تواتر إجمالي) سے کئی درجے بڑھ کر ہیں۔ بلکہ بہت سی تفصیلات کے ساتھ متواتر ہیں، جیسا کہ مسلمانوں کی عام تاریخ اور ان کی سیرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیان میں دیکھا جا سکتا ہے، اور خاص طور پر شیعہ مؤرخین نے اہل بیت کے ائمہ (صلوات اللہ علیہم) کے حق میں جو کچھ لکھا ہے۔
ان کرامات کی نسبت کی صداقت کے شواہد
اور یہ بات بہت سے لوگوں پرمخفی اور پوشیدہ ہو سکتی ہے، کیونکہ وہ تحقیق ، غور اور تدبر سے دور رہتے ہیں، اور ان کے دلوں میں یہ احتمال پختہ ہو جاتا ہے کہ مسلمانوں نے اسلام کی حقانیت کے دلائل بڑھانے کے لیے یہ سب کچھ گھڑ لیا ہو گا، کیونکہ ان کا نقل صرف مسلمانوں کے ذریعے ہی ہوا ہے۔
اس لیے ہمارے لیے مناسب ہے کہ ہم ان امور کی طرف توجہ دلائیں جو غور و فکر کے قابل ہیں، جو اس معاملے کو مزید واضح اور روشن کر دیں گے، اور اس کے بعد اس قسم کے احتمال کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہے گی۔
بہت سے واقعات احتجاج کی خاطر ثبت نہیں کیا گیا
پہلی بات تویہ ہے کہ بہت سےحادثات اور واقعات، تاریخی طور پر احتجاج کے لیے درج نہیں کیے گئے، تاکہ یہ خیال نہ کیا جائے کہ یہ ایک مصنوعی اور اختراعی بات ہے جو مسلمانوں کے دین کے حق میں دلائل بڑھانے کے لیے گھڑ لی گئی ہے۔ بلکہ بہت سے واقعات، تاریخی بیانات کے ضمن میں گزرتے ہوئے بیان کیے گئے ہیں، بغیر کسی خاص توجہ کے، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ان کا ذکر بے ساختہ ہے، جیسا کہ دیگر تاریخی حقائق ہوتے ہیں جن کی تفصیل یا اجمالاً وقوع پذیری ان کے بار بار نقل ہونے اور مشہور ہونے کی وجہ سے ثابت ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ماخوذ ازکتاب: اصول العقيدة
آیت اللہ العظمی سيد محمد سعيد الحكيم (قدس سرہ)-
مترجم: یوسف حسین عاقلی