میت پر رونے کے متعلق
-
- شائع
-
- مؤلف:
- آیت اللہ العظمی سيد محمد سعيد الحكيم (قدس سرہ)-مترجم: یوسف حسین عاقلی
- ذرائع:
- کتاب: في رحاب العقيدة
میت پر رونے کے متعلق
اِشارَہ
بعض مسلمان وقتاً فوقتاً میت پر رونا (بکاء) کے مسئلے کو اُٹھاتے ہیں اور اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ یہ شرعاً مذموم بے صبری (جزع و فزع) کی ایک قسم ہے، یا اس میں اللہ عزوجل پر بدگمانی پائی جاتی ہے، یا یہ کہ "جناب عمر ابن الخطاب"نے اس سے منع کیا ہے۔ لیکن حق بات یہ ہے کہ قطعی عقلی دلائل، صحیح احادیثِ سنتِ نبوی، اور معتبر تاریخی روایات کے سامنے ان باتوں میں سے کوئی چیز ثابت نہیں ہوتی۔ ہم اس تحریر میں کچھ ایسی روایات ذکر کریں گے جو ہم تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، آپ کے اصحاب یا دیگر مسلمانوں کے میت پر رونے کے عمل کے بارے میں پہنچی ہیں۔ نیز ہم وہ احادیث بھی بیان کریں گے جن میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رونے کی اجازت دی ہے، بلکہ منع کرنے والی عورتوں کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے روکا ہے جو عورتوں کو رونے سے روکتے تھے،اس کے علاوہ اور دیگر روایات بھی پیش کریں گے۔(ان شاءاللہ)
1. نبی کریم ﷺ کا رونا اور آپ ﷺ کی سیرت اس بات کی واضح دلیل ہے کہ رونا شرعی طور پر جائز ہے، خاص طور پر جب آپ کے اہل خانہ یا صحابہ میں سے کوئی فوت ہوتا۔جیسےکہ متعدد روایات میں آپ ﷺ کے اپنے صاحبزادے ابراہیم پر رونے کا ذکر ملتا ہے (1)، اسی طرح آپ ﷺ نے اپنی صاحبزادی زینب پر بھی رونے کا اظہار فرمایا (2)۔ نیز آپ ﷺ نے زید، جعفر طیار، ابن رواحہ (3)، عثمان بن مظعون (4) اور سعد بن ربیع (5) پر بھی گریہ فرمایا۔ اس سے پہلے آپ ﷺ نے اپنی والدہ ماجدہ پر بھی روتے ہوئے فرمایا، جیسا کہ صِحَاح اور دیگر کتب میں مذکور ہے (6)۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«وَاسْأَلْتُ رَبِّي الزِّيَارَةَ فَأَذِنَ لِي... وَذَكَرْتُهَا فَذَرَفَتْ نَفْسِي فَبَكَيْتُ...» (7)
(میں نے اپنے رب سے والدہ کی زیارت کی اجازت مانگی تو اس نے مجھے اجازت دی... پھر میں نے انہیں یاد کیا تو میری آنکھیں اشکبار ہو گئیں اور میں رونے لگا...)
بلکہ جب آپ ﷺ سے رونے کے بارے میں پوچھا جاتا تو فرماتے:
«رَحْمَةٌ يَجْعَلُهَا فِي قُلُوبِ عِبَادِهِ، إِنَّمَا يَرْحَمُ مِنْ عِبَادِهِ الرُّحَمَاءُ» (8)
(یہ رحمت ہے جو اللہ اپنے بندوں کے دلوں میں رکھتا ہے، درحقیقت وہ اپنے رحم کرنے والے بندوں پر رحم فرماتا ہے) ۔
2. اسی طرح نبی ﷺ نے لوگوں کو رونے کی ترغیب دی، جیسا کہ آپ ﷺ نے اپنے چچا حضرت حمزہ پر رونے کے لیے عورتوں کو ابھارا۔ جب آپ ﷺ غزوہ احد سے واپس تشریف لائے اور دیکھا کہ عورتیں اپنے مردوں پر رو رہی ہیں تو آپ ﷺ بھی رونے لگے اور فرمایا:
«أَمَّا حَمْزَةُ فَلَا بَوَاكِيَ لَهُ» (9)
(لیکن حمزہ کے لیے کوئی رونے والا نہیں ہے۔)
اسی طرح آپ ﷺ نے جعفر بن ابی طالب کے بارے میں فرمایا:
«عَلَى مِثْلِ جَعْفَرٍ فَلْتَبْكِ الْبَوَاكِي» (10)
(جعفر جیسے شخص پر رونے والوں کو رونا چاہیے۔)
3. آپ ﷺ نے خود رونے کی اجازت دی ہے۔ حضرت ابن مسعود، ثابت بن زید اور قرظہ بن کعب روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ہمیں رونے کی اجازت دی (11)۔
ایک موقع پر جب کچھ عورتیں رو رہی تھیں اور بعض صحابہ نے انہیں منع کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:
«دَعْهُنَّ يَبْكِينَ، وَإِيَّاكُمْ وَنَعِيقَ الشَّيْطَانِ...» (12)
(انہیں رونے دو، لیکن شیطان کی چیخ و پکار سے بچو۔)
اسی طرح حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ ایک جنازے کے ساتھ تشریف لے جا رہے تھے اور حضرت عمر بھی آپ کے ساتھ تھے۔ جب آپ ﷺ نے عورتوں کو روتے ہوئے سنا تو حضرت عمر نے انہیں ڈانٹا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«يَا عُمَرُ، دَعْهُنَّ؛ فَإِنَّ الْعَيْنَ دَامِعَةٌ وَالنَّفْسَ مَصَابَةٌ وَالْعَهْدَ قَرِيبٌ» (13)
(اے عمر! انہیں رونے دو، کیونکہ آنکھ اشکبار ہوتی ہے، دل غمزدہ ہوتا ہے اور مصیبت تازہ ہوتی ہے۔)
یہ حدیث شیخین (بخاری و مسلم) کی شرط پر صحیح ہے۔
4. اسی طرح مروی ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت جابر اور عمر کی بیٹی کو حضرت جابر کے والد پر روتے ہوئے سنا، لیکن آپ ﷺ نے انہیں منع نہیں فرمایا (14)۔ اگر رونا شرعاً مذموم ہوتا تو نبی ﷺ ضرور اس سے روکتے(اور منع فرماتےپس آپ ﷺ کا منع نہ کرنا دلیل ہے کہ یہ کام جائز ہے)۔
---
حوالہ جات:
1-العقد الفريد: 3/ 190
2-ذخائر العقبى: 166، المحلي: 5/ 145
3-تذكرة الخواص: 172 عن ابن سعد، ذخائر العقبى: 218، تاريخ اليعقوبي: 2/ 66
4-المستدرك على الصحيحين: 1/ 361، سنن البيهقي: 3/ 407
5-المغازي: 1/ 329
6-المستدرك للحاكم: 1/ 375 وقال: هذا على شرط الشيخين ولم يخرجاه
7-المصنف لابن أبي شيبة: 3/ 224
8-صحيح البخاري: 1/ 224 حديث 1284، سنن النسائي: 4/ 22، المصنف لابن أبي شيبة: 3/ 266
9-مسند أحمد: 2/ 40، الإستيعاب: 1/ 275 بهامش الإصابة
10-أنساب الأشراف: 43، وغيره ممن ترجم لجعفر
11-المصنف لابن أبي شيبة: 3/ 268
12-كنز العمال: 15/ 621
13-المستدرك للحاكم: 1/ 381، المصنف لابن أبي شيبة: 3/ 64، سنن النسائي: 4/ 190
14-سنن النسائي: 4/ 12
------
تألیف: آیت اللہ العظمی سيد محمد سعيد الحكيم (قدس سرہ)-
مترجم: یوسف حسین عاقلی
کتاب: في رحاب العقيدة
الموضوع : العقائد